شیخ عبدالکریم حائری یزدی
دارالعبادہ یزد
دار العبادہ یزد، ایک افسانوی شہر ا وریادوں سے بھری زمیں ہے کسی زمانے میں اس شہر کو سکندر ذوالقرنین کا زندان کہا جاتا تھا۔ اسلام کے ظہور اور اس کی توسیع و اشاعت کے بعد حضرت علی کی جا نب سے اس کا نام ” دارالعبادہ” رکھا گیا جو بعد میں کا فی مشہور ہوگیا۔ کہاج اتا ہے کہ جب ۲۵ھ میں یزد گرد سوم نے لشکر اسلام سے شکست کھائی تو اصفہان کے راستے سے یزد کی طرف بھاگا تاکہ دوبارہ اپنے لشکر کو جمع کر کے اسے اسلامی افواج سے جنگ پر ابھارے مگر اس کو اپنے ارادے میں کامیابی نہیں ہوئی اور اسلامی لشکر نے اس کا تعاقب کرتے ہوئے اسے اس شہر سے نکال باہر کیا اور اسی سال یزد اسلام کی آغوش میں آگیا۔ اور وہاں کے لوگ آتشکدوں اور ساسانیوں کے معابد کو ترک کر کے مسجدوں کی طرف آگئے اور حکومت توحید کی رعایا بن گئے۔
۳۵ھ میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے مسلم بن زیاد یزد کا حاکم بنایا گیا اور اس نے لوگوں سے آنجناب کے لئے بیعت لی اور اس نے پہلی فرصت میں مدارس قائم کئے اور شہریوں کی تعلیم و تربیت میں سر گرم ہوگیا رفتہ رفتہ یزد پوری طرح اسلام کے گھنے سائے تلے آگیااور ابتداء ہی سے حضر ت علی اوران کے خاندان کا دوست بن گیا اس کے بعد وہ اسلامی علوم و معارف کا گہوارہ بن گیا۔ چنانچہ ہر صدی میں اس نے اسلامی دنیا کو جلیل و عظیم علماء عطا کئے اور اس کتاب کے ممدوح کو بھی جو اسی سر زمین کے دامن میں پرورش پانے والے فرزندان میں سے ایک تھے۔
کرامات حق
یزد سے ۶۰کلومیٹرکی دوری پر مہر جرد نامی ایک گاؤں ہے وہاں ایک پاک دل و پرہیز گاربزرگ بنام محمد جعفر رہا کرتے تھے جنھیں سب ان کے تقوی و بزرگی کے سبب سے پہچانتے تھے۔
اپنے آباؤ اجداد کی طرح وہ بھی زراعت پیشہ تھے اور یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ محمد جعفر جب جوان ہوئے تو اسی گاؤں میں شادی کر کے نئی زندگی کی شروعات کی اور اولاد کا انتظار کرنے لگے مگر ان کی امید پوری نہیں ہوئی شادی کے برسوں بعد جب جوانی گزر گئی اورکیف و نشاط کا زمانہ ختم ہو گیا تب بھی محمد جعفر بے اولاد ہی رہے۔ اس غم نے انھیں ایسا گھیر لیا کہ زندگی ان کی نگاہوں میں تاریک ہوگئی ایک طرف جوانی کا گزر جانا دوسری طرف اولاد کی خواہش، ان دونوں باتوں نے ان ک ی زندگی تلخ کر رکھی تھی آخر کا ر انہوں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ دوسری شادی کرلیں گے اور انہوں نے اپنی غم زدہ بیوی سے رضا مندی بھی حاصل کر لی اس کے بعد ایک بیوہ عور ت سے جو ایک بچی کی ماں بھی تھی نکاح کا ارادہ ظا ہر کیا لیکن اسی جب وہ اس بیوہ کے گھر میں داخل ہو رہے تھے عجیب اتفاق یہ ہوا کہ محمد جعفر کی آنکھ اس ننھی سی یتم پر پڑ گئی جو ایک گوشہ میں بیٹھی رو رہی تھی اور آنسواس کی آنکھوں سے ڈھل کر رخسار پر بہہ رہے تھے۔ محمد جعفر اس منظر کو برداشت نہ کر سکے اور فورا وہاں سے اپنے گھر لوٹ آئے۔
نماز کا وقت آگیا تھا جلدی جلدی مسجد پہونچے اور درگاہ احدیث میں دل شکستہ وپریشان حال حاضر ہو گئے اور دست دعا بلند کر کے یوں گویا ہوئے :
” خدایا میں اب اولاد کی خاطر کسی کے گھر نہ جاؤں گا۔ کہیں ایسا نہ کہ کسی یتیم کی دل شکنی ہو جائے میں اپنی زندگی تیرے حوالے کرتا ہوں تو مجھے فرزند عطا کرسکتا ہے ۔ بارالٰہا اگر تو میری اسی عورت سے بچہ دینا چاہتا ہے تو مرحمت فرما اور اگر تیری منشا یہ ہے کہ میں لاولد رہوں تب بھی میں تیری رضا پر راضی رہوں گا۔”
محمد جعفر کی زندگی میں وہ دن نہایت پرمسرت و مبارک تھا جب کہ ان کی دعا بارگاہ خدا وندی میں قبول ہوئی اس طرح (۱۲۶۷ھ ) میں ان کا پاک و پاکیزہ مکان ایک ننھے منھے بچے کے نورجمال سے منور ہو گیا اور مہر جرد کے باشندوں کے لئے یہ غیر معمولی واقعہ بہت زیادہ خوشی و حیرت کا موجب ہوا ۔
بچے کے باپ نے جواس بچے کو کرامت پرودگار مانتا تھا بچہ کا نام عبدالکریم رکھا اور عبدالکریم بھی آخر کار برسوں بعد بندگان خدا پر فیض و کرامت الٰہی کی بارش کا وسیلہ بنا۔
عشق پنہاں
عبدالکریم نے مادر مہربان کے پر شفقت سایہ میں چھ سال گزارے اس کے بعد مدرسہ جانے کا وقت آیا کیونکہ وہ ابتداء ہی سے لکھنے پڑھنے سے بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ اور کبھی کبھی اس خواہش کو باپ کے سامنے ظاہر بھی کرتا ر ہتا تھامگر باپ باوجود یکہ بیٹے کو تعلیم دینا چاہتا تھا پھر بھی کچھ نہ کر سکاکیونکہ اس وقت مہر جرد میں مکت و مدرسہ تھا ہی نہیں اور بچے کھیتی کسانی کا کام کرکے ، مویشی چرا کے یا اپنے باپ کے ہنر و پیشہ میں ہاتھ بٹا کر جوان ہو جایا کرتے تھے۔ عبدالکریم بھی اسی دیہا ت کے ایک نونہال تھے ان کے پاس بھی اس کے سوا اور کوئی دوسرا کام نہیں تھا لہٰذا مجبوری تھی۔ چنانچہ اسی عالم میں ایک زمانہ گزر گیا اور عبدالکریم مہر جرد کے گاؤں میں دن کاٹ رہے تھے یہاں تک کہ ایک دن ان کے رشتہ داروں میں سے ایک شخص بنام محمد جعفر مروف بہ میر ابو جعفر آگئے جو خود عالم تھے اور روحانی لباس پہنے ہوئے تھے۔ انہوں نے اس بچہ کو پہلی نظر میں تاڑ لیا اور اس کی چھپی ہوئی ذہانت و صلاحیت و غیر معمولی استعداد کو دیکھ کر اس کی تعلیم ذمہ دار اپنے سر لے لی۔ ماں باپ کی رضا مندی حاصل کر کے عبدالکریم کو اردکان لے گئے او ر مکتب میں بٹھا دیا ۔
ان دنوں ” اردکان” کی علمی حیثیت اس زمانے جیسی نہیں تھی جب کہ وہ چھوٹا یونان کہلاتا تھا کیونکہ فقہاء و علمائے اسلام نے اس قصبہ سے ہجرت کر کے آہستہ آہستہ حوزہ علمیہ نجف و یزد کو آباد کر لیا تھا اس کے باوجود یہاں علم کا چراغ خاموش نہیں ہوا تھا اور ابتدائی علوم و ادبیات و قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا۔
عبدالکریم نے اس اجنبی شہر میں چند سال رفت و آمد کر کے گزارے ۔ دن کو وہ اساتذہ کے درس میں جاتے اور رات ابو جعفر کے گھر میں بسر کرتے تھے اور شب جمعہ کو والدین سے ملاقات کرنے کے لئے مہر جرد کا راستہ پکڑ لیتے یہ چند سال عبدالکریم نے تکلیف و سختی میں کاٹے مگر جب مدتوں بعد وہ مقام مرجیعت کو پہونچے اور استاد معلم مانے جانے لگے تو اپنی کامیابی کو میرابو جعفر کے ایثار وفدار کاری کا مرہون بتاتے اور شہر اردکان میں مکتب کے ایام کا زمانہ ذکر بہت لذت لے کر کرتے تھے۔
ماں کے آنسووں کی شبنم کے تلے
بڑے لوگوں کی زندگی ہمیشہ سختیوں اور نا ہمواریوں سے بھری رہی ہے بچپن میں وہ تکلیف و رنج کی دنیا میں پرورش پاتے رہے ہیں اسی لئے آگے چل کر سخت سے سخت طوفان کے سامنے سینہ تان کر کھڑے رہتے ہیں۔ عبدالکریم کی نوجوانی بھی حوادث سے پر مستقبل رکھنے والوں جیسی رہی ان کی زندگی بھی تاریخ کی اعلیٰ شخصیتوں جیسی گزری ہے۔ نوجوانی ہی میں وہ سایہ پدری سے محروم ہو گئے اور پھر غم نصیب ماں کی تنہائی دور کرنے کے لئے مہر جرد آگئے۔ مدتوں طلب علم کے عشق کی آگ سینہ میں دبائے رہے اور بدترین حالا ت میں ماں کے ہمد م و مونس بن کر برسوں مکتب و مدرسہ و دوستوں سے دوراپنے گاؤں میں پڑے رہے۔ چند سال بعد جب پھر آتش شوق علم بھڑکی تو ماں سے اپنا حال دل کہہ سنا یا۔ ماں خود ایک مومنہ پاک و عاشق اہل بیت تھیں انھیں تو جیسے اس دن کا انتظا تھا ۔ عبدالکریم کی ماں نے حوزہ علمیہ یزد کے لئے ان کا سامان سفر تیار کیا اور آنسوپی کر اپنے فرزند کاروان کے ساتھ روانہ کر دیا۔
حوزہ یزد
تیرہویں صدی کے اواخر میں یزد کا حال یہ تھا کہ یہاں علوم دینی کے پانچ مدرسے تھے جن میں بہترین طلاب علوم و اسلامی کا اجتماع تھا اور سبھی لائق توجہ کردار و معنویت کے حامل تھے۔ حوزہ علمیہ نجف کے بڑے بڑے تعلیم یافتہ علماء اور شیخ مرتضی انصاری و مرزا شیرازی کے تلامذہ یہاں درس دیتے تھے اس طرح یزد عجیب پررونق حوزہ علمیہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ دیگر مدرسوں میں محمد تقی خاں کا مدرسہ بہت شہرت رکھتا تھا یہاں سطحی و خارج دونوں درس ہوتے تھے اور آقا مدرس بزرگ جیسے عظیم علماء ان حوازات علمیہ کے نگراں و ناظم تھے۔
جوان عبدالکریم ، ایسی معنوی فضا والے دارالعبادہ یزد میں قدم رکھتے ہیں، ہر طرف سے ان کا استقبال ہوتا ہے وہ مدرسہ محمد تقی خاں میں قیام کرکے سالہا سال علماء اعلام و اساتذہ بزرگ سے علوم اسلامی کی تحصیل کرتے ہیں۔ سخت محنت و لگن کے ساتھ درس و مطالعہ کی مشغولیت ان کو جلد ہی ایک اسلامی دانش مند و عالم بزرگ بنادیتی ہے اور ان کی اجتماعی و معنوی شخصیت مسلم ہو جاتی ہے۔
شوق دیدار
ملک عراق کے چار مذہبی شہر ، نجف ، کربلا ، کاظمین ، سامرہ کو ، ” عتبات” کہا جاتا ہے ۔ یہ شہر فرزندان پیغمبر کے میزبان ہیں اور وہاں کی مٹی نے ہمارے بزرگ ائمہ کے پاک وجود کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے ۔ یہ چاروں شہرصدیوں سے متواتر مکتب تشیع کو شیفتگان کے لئے مورد توجہ شوق رہے اور دنیا کے گوشے گوشے سے عشاق کو اپنی طرف کھینچتے رہے ہیں حرم اہل بیت کے زائرین ہر سال آستان بوسی کے شوق میں اس عہد کی پر خطر راہوں اور تکالیف سفر کو ہتھیلی پرجان رکھ کر برداشت کرتے اور دیار معشوق کی طرف جاتے رہے ہیں اور پھر ہفتوں مہینوں تک ان شہیدان راہ فضیلت و انسانیت کی ملکوتی بارگاہ کے پہلو میں دعا و عبادت گزاری میں بسر کرتے رہے ہیں۔ یہ شہر اماموں کے وجود کی برکت کے علاوہ حوزہ ہائے علمیہ کے مالک بھی رہے ہیں اسی وجہ سے وہاں پر دور و نزدیک کے بیشتر علمائے ئے دین و دانشوران عالی قدر جمع ہوتے رہے ہیں اور ائمہ کی بارگاہ مقدس کے ارد گرد اسلامی مسائل کے درس پر بحث و مذاکرہ کرتے رہے ہیں اور یہاں سے دانش و معرفت کا تحفہ علمی و معنوی ذخیرہ دور دور لے جاتے ہیں جوان و تشنہ علم عبدالکریم کے دل میں عتبات عالیات کی زیارت کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ اٹھارہ سال کی عمر میں ایک زیارتی قافلہ کے ساتھ ادھر چل پڑتا ہے اور چونکہ اس کا خیال تھا کہ علمی محافل میں قدم رکھنے اور اساتذہ کے سامنے زانو ٹیکنے سے قبل روح و جان کی طہارت و تنزیہ ہونا چاہیے اس لئے قافلہ سے جدا ہوجاتا ہے باوجودیکہ اس زمانہ میں سامرا کا حوزہ علمیہ نہا یت پررونق تھا مگر وہ کربال کو چن لیتا ہے اور حرم مقدس حسینی کے جوار میں دو سال صرف تہذیب ، نفس و تحصیل تہارت کے لئے گزارتا ہے۔
شہر خون و شجاعت
شہر خون و شجاعت یعنی کر بلا دریائے فرات کے جنوب مغرب میں بغداد سے ۱۰۵ کلو مٹر کی دوری پر واقع ہے ۔ اسلام سے پہلے گزشتہہ زمانے میں کلدانیوں کے معابدکی وجہ سے اس کا نام کربلا (معبدخدایان ) پڑ گیا ۔ لیکن ظہور اسلام کے بعد ۶۱ھ کی دسویں محرم تک یہ خطہ بالکل غیر آباد تھا اور وہاں کوئی نہیں رہتا تھا بس ایک لق و دق صحرا تھا جس میں چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے جو پرانے زمانے میں جنگ کے لئے مناسب ٹھکانا مانا جاتا تھا لیکن عاشور محرم کے خونین حادثہ کے بعد یعنی جس دن یہاں پر سید الشہداء کا خون پاک بہایا گیا اسی روزسے یہاں حیات کی لہر دوڑنے لگیں۔ اور اس کانام تمام دنیا میں پھیل گیا ہر سال اس سر زمین پر عاشقان حسینی کے بڑے بڑے قافلے آنے لگے اور تھوڑے ہی دنوں میں وہاں تعمیر شروع ہوگئی مکانات بننے لگے اور اس طرح کربلا کا شہر آباد ہوگیا اور اس کا شمار اہم مذہبی شہروں میں ہونے لگا۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے اس شہر کے شیعہ امرو حکام کی توجہ سے بارگاہ حسینی کی عظمت بڑھتی گئی اور دھیرے دھیرے چند فقہاء و علماء وہاں آگئے۔ اور کربلا ایک باعظمت حوزہ علمیہ بن گیا اس کے بعد گزشتہ صدیوں میں جہاد و شہادت کے دیوانوں کے لئے کعبہ مراد اور علماء اور روحانین کی مجلس میں بدل گیا ۔ جن کے نوک قلم سے خاندان علوی کے افکار کاچشمہ آب حیات تاریخ بشریت میں ہمیشہ جاری رہا ہے۔
لیکن دشمنان اہل بیت و تشیع کو اس مرکز فضیلت و جواں مردی کی شان پسند نہیں آئی اسی لئے شہادت امام حسین کے بعد سے کربلا کی پوری تاریخ ناگوار حالات اور خرابیوں و تباہیوں سے بھری رہی منصور دوانیقی کی غارت گری و تجازو وحشیانہ و متوکل عباسی کی سفاکی و جرائم (۲۶۹۔ ۲۳۷ھ) کے تحت امام بارگاہ کی ویرانی کے بعد جب سب سے زیادہ درد ناک و خون کے آنسو رلانے والا واقعہ تھا وہ خبیث وہابیوں کے ہاتھوں شہر بے گناہ عوام کا قتل عام تھا۔
۱۲۱۶ھ میں سعود بن عبدالعزیز (۲۵۰۰۰) پچیس ہزار وہابیوں کی فوج لے کر اس شہر پر ٹوٹ پڑا اور تقریبا پانچ ہزار شیعوں کے قتل و خون ریزی کے ساتھ ساتھ حرم مطہر کے تمام اموال و جواہرات کو بھی لوٹ لیا ۔ لیکن جس زمانے میں شیخ عبدالکریم یزدی کربلا میں اساتذہ کے سامنے دو زانو ئے ادب تہہ کر کے معنویت کے گہرو لعل اکٹھا کر رہے تھے اس وقت کربلا میں امن و سکون تھا۔ چنانچہ وہ بھی صدہا طلاب علوم اسلی کی طرح روزانہ اپنے حجرہ سے امام حسین کے حرم میں جا کر شورو غل سے دور ساکت و خاموش فضا میں علم و تقویٰ کے زیور سے خود کو آراستہ کرتے تھے۔
آغاز تلاش
عبدالکریم ایک باذوق جوان اور استعداد و صلاحیت کے نشہ میں ڈوبے ہوئے تھے وہ دعا و مناجات و راتوں کی تنہائی سے بہت مانوس تھے ۔ انہوں نے ابتدائے کربلا میں برزگ عالم آیت اللہ فاضل اردکانی کے درس میں شرکت کی اپنی محنت و کوشش سے استاد کا دل جیت لیا فاضل اردکانی حوزہ علمیہ کربلا کے رئیس تھے۔ ان کی سفارش پر عبدالکریم کو مشہورمدرسہ ” حسن خاں” میں جگہ مل گئی اور وہ تحصیل علم میں مشغول ہو گئے۔ آیت اللہ اردکانی نے عبدالکریم کو مستعدو محنتی پایا تو ان کی تعلیم و تربیت میں زیادہ دلچسپی لی اور ان کی کوشش سے عبدالکریم کا شمارہ حوزہ علمیہ کربلاکے افاضل اردکانی کے زیرسایہ دو سال گزارے اس مدت میں عبدالکریم کی ذہانت و استعداد پر آشکار ہوگئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب حوزہ علمیہ کربلا ان کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس لئے انہوں نے حوزہ علمیہ سامرہ کے لئے انھیں تیار کیا اور مرجع تقلید وقت مرزای بزرگ شیرازی کے نام پر ایک خط لکھ کر دیا جس میں عبدالکریم کی اخلاقی و علمی صلاحیت کا ذکرتھا۔ اور اپنی دعاؤں کے ساتھ بااحترام طور پر انھیں سامرا بھیج دیا۔
میرزا کے شریعت کدہ میں
اس زمانے میں شیعوں کے مرجع تقلید میرزای شیرازی تھے جو عالمی شہرت کے حامل تھے سامرا میں ان کا غریبا مئواور زاہدانہ مکان علم و سیاست کے شہسواروں کا اڈہ تھا۔ عراق کی سخت گرمیں میں سرداب والا مکان بہترین مانا جاتا تھا او ر مرزای شیرازی کے مکان میں تین بڑے سرداب تھے۔ جن میں سے ایک ان کے مسافروں کے استراحت کے لئے تھا جو مرزا کے دیدار کے لئے آتے تھے دوسرا سرداب نماز و علمی و فقہی بحث کے لئے حسینیہ جیسا تھا اور تیسرا سرداب مہمانوں کی شب گزاری و غذا خواری کے لئے تھا الغرض شیخ عبدالکریم ایک گرم دن میں مرزا کا مکان ڈھونڈھتے ہوئے سامرا پہونچے ملاقات ہونے پراس بزرگ مرجع تقلید کو استاد کا خط دیا۔ مرزا نے فاضل اردکانی کا محبت بھرا خط پڑھ کر اس جوان طالب علم سے لطف و عنایت کا اظہار کیا اور اپنے احساسات کو شیخ عبدالکریم سے یہ کہہ کر ظاہر کیا کہ ” مجھے تم سے محبت ہو گئی ۔”
جب شیخ عبدالکریم سامرا میں پہنچے تو اتفاق سے رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور حوزہ ہائے علمیہ میں تعطیل چل رہی تھی اس لئے میرزای شیرازی نے ایک مہینہ تک انھیں اپنے یہاں مہمان رکھا ۔ اس زمانے کو یہا د کرتے ہوئے شیخ عبدالکریم ایک دن کہنے لگے :
” مرزاشیرازی کے مکان کا سرداب ہی میرے رہنے کی جگہ تھی اورمطالعہ کا کمرہ تھا۔ ماہ مبارک رمضان میں سحری تو یہیں کھاتا تھا لیکن افطار کے لئے میرزا کے گھر نہیں پہنچتا تھا بلکہ سخت گرمی کی وجہ سے فرات کی طرف چلا جاتا تھا جی بھر کے پانی پیتا اور تیرتا بھی تھا۔”
حوزہ سامراکی خوبیاں
حوزہ علمیہ سامرا کی خصوصیات و محاسن سے آگاہی کے لئے ہمیں میرزا بزرگ شیرازی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا باریکی سے جائزہ لیناہوگا ۔
میرزا شیرازی اپنے استاد شیخ مرتضی انصاری کی رحلت کے بعد عالم تشیع کی مرجیعت کی مسند پر تمکن ہوئے ان کا شمار اسلا م کی برگزیدگی علمی سیاسی ، اجتماعی شخصیات میں ہوتا ہے ۔ میرزا اپنی مخصوص فطانت کے باعث علمی و فقہی باریکیوں کی تہ تک فورا پہنچ جاتے تھے اس کا ثبوت یہ ہے کہ شیخ انصاری نے کتاب فرائد الاصول (رسائل) لکھنے کے بعد اس کی تصحیح کا کام اپنے اسی شاگرد فرزانہ کے سپرد کیا اس کے علاوہ میرزا سیاسی و اجتماعی نزاکتوں کو سمجھنے میں بھی ایک خاص نظر کے جالک تھے۔
شیخ انصاری کا زمانہ مسلمانوں کے لئے امن و سکون کا تھا اس لئے حوزہ علمیہ کی کارگردگی کا محور صرف نشتر احکام و تبلیغات دینی کے اشاعت میں محدود تھا لیکن میرزا ی بزرگ شیرازی کے زمانے میں حالات خصوصا اسلامی ممالک کی کیفیت شدید بحرانی تھی ایک طرف یورپ کے لیٹروں کی حریصانہ نظریں اسلامی ممالک کے معاون و ذخائر پر گڑی ہوئی تھیں جس کے حصول کی خاطر انہوں نے ملک کی مسلم آبادی میں انتشار پھیلان شروع کر دیا تھا مسلمانوں اوراسلامی مملکتوں پر روزانہ سینکڑوں مصائب و مشکلات کا طومار کھڑا کیا جاتا ان کے تمام اموال و جملہ سرمایہ استعماریوں کی غارت گری کی زد میں تھے دوسری طرف آئے دن اسلامی ممالک کے ناکارہ وعیش پسند و خود پرست فرمانرواوں ہتک آمیر معاہدوں پر دستخط کر کے عالم اسلام کو بے چارہ و ضعیف بنا رہے تھے اور برطانیہ ، فرانس ، روس جیسے استعماریت پسند ممالک ان اسلامی ملکون کی ناتوانی سے مفاد بے جا حاصل کرتے اور اپنے تسلط و دباؤ کو بڑھاتے جارہے تھے ایسے ماحول میں شیرازی نے بطور مرجع تقلید عصر حوزہ علمیہ کو زمانہ کے متغیر حالات سے ہم آہنگ رکھنے کی بنیاد ڈالی او ر تحقیق علمی کے ساتھ ساتھ علمی جہاد کے میدان میں قدم رکھا اور ایسے شاگردوں کی تربیت کی جوسیاسی و اجتماعی مسائل میں بھی عوام کی ہدایت و رہبری کر سکیں ان ہی میں سے ایک حاج شیخ عبدالکریم حائری تھے جن کا نام نامی ناقابل فراموش ہے۔
حوزہ علمیہ سامرا میں
شیخ عبدالکریم حوزہ علمیہ سامرا میں بارہ سال تک تحصیل علم کرتے رہے اس درمیان انہوں نے ہر طرح کی مشقت و زحمت برداشت کی اورہر طرف سے آنکھیں پھیر کرساری توجہ علمی و معنوی کمالات کے حصول میں صرف کردی ان کاذہن و دماغ دیگر خود ساختہ مردان بزرگ کی طرح دنیا وی مشغولیت و معاملات کی طرف بالکل نہیں بھٹکا۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں اپنا فرض صرف علوم اسلامی کی تحصیل و تحقیق ہی جانا اور اسی ہمت و حوصلہ بلند کے ساتھ دن گزارے جو ایک روحانی و علمی شخصیت کے لئے لازم ہیں اس طرح کہ دیکھنے والا کہے بغیر نہ رہے کہ یہ بنائے ہی گتے ہیں آنے والے زمانہ کے لئے اور ان کا تعلق حال سے نہیں مستقبل سے ہے۔ چنانچہ وہ حوزہ سامرا میں با کمال کا مرکزبن گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں اجتہاد کی روشنی نے ان کے جود و پیکر کو منور کر دیا لیکن شیخ عبدالکریم نے میرزای بزرگ شیرازی کی وفات کے بعد نجف کی راہ پکڑی اور پھر وہیں ٹھہر گئے۔
استادوں کے حضور میں
تحصیل علم کی راہ میں شیخ عبدالکریم کا عزمصمم ، جفا کشی، و انتھک محنت نے علم کے بحرذخار جیسے اساتذہ کو اپنی طرف کھینچا اور انہوں نے شیخ کی علمی و معنوی شخصیت کو بنانے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا چنانچہ ان کے نقوش عالی بھی سیرت و آثار شیخ میں انمٹ بن گئے۔ حوزہ علمیہ سامرا میں رہ کر بڑے بڑے فقہاء و علماء مثلا آیت اللہ سید محمد فشار کی ، آیت اللہ محمد تقی شیرازی و آیت اللہ شیخ فضل اللہ نوری ایسے حضرات جن میں سے ہر ایک آسمان فقاہیت کا ستارہ درخشاں تھا شیخ ان سب سے علم و ایمان کی خوشہ چینی کرتے رہے۔
۱۔آیت اللہ فشارکی
آیت اللہ فشارکی اصفہانی حوزہ سامرا کے بزرگ ترین اساتذہ میں سے تھے آپ کبھی بھی شیخ عبدالکریم پر لطف و عنایت میں دریغ نہیں کرتے تھے اسی وجہ سے شیخ کا شمار مرحوم فشار کی کے قلبی اراد تمندوں میں ہوتا اور شیخ اپنے بہت سے کارناموں حتیٰ کہ حوزہ علمیہ قم کی تاسیس کو بھی اپنے استاد مرحوم سے عقیدت کا مرہون جانتے تھے۔
آیت اللہ سید محمد فشار کی حوزہ سامرا میں علمی شہرت نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے زہد و اخلاص اور روحانی عظمت کے بھی چرچے عام تھے میرازی بزرگ کی وفات کے بعد آیت اللہ محمد تقی شیرازی نے ان کے نام پیغام بھیجا اور آیت اللہ فشار کی سے درخواست کی کہ وہ مرجیعت قبول کر لیں۔ مگرانہوں نے آیت اللہ شیرازی کے مقابل میں آنے سے گریز کیا اور علمائے نجف و سامرا کے اصرار پر مرجیعت کے مقام بلند و پر عظمت کی توضیح کرتے ہوئے فرمایا:
” میں مرجیعت کے لائق نہیں ہوں ۔ اسلامی مرجیعت کے لئے عالم فقہ کے علاوہ دیگرامور بھی لازم ہیں۔ ایک مجتہد کوسیاسی مسائل سے واقف ہونا چاہیے اورہر کام میں درست قدم اندازی کی پہچان بھی ضروری ہے اس کام میں میری مداخلت مرجیعت کو تباہی کی طرف لے جانا ہوگا ۔”
آیت اللہ فشارکی نے اپنی پوری عمر علوم دینی کے طلاب کی تربیت کے لئے وقف کر دی۔ وہ ایسے مجتہد آگاہ تھے جو ہر خطرے کے موقع پر مکتب اہل بیت و اسلا م کے پشت پناہ تھے ان کی رحلت ۱۳۱۶ھ میں نجف اشرف ہوئی۔
۲۔میرزای دوم
شیخ عبدالکریم کے دیگر اساتذہ میں ایک بزرگ ہستی آیت اللہ محمد تقی شیرازی کی تھی جو میرزای دوم کے لقب سے مشہور ہیں ان ک شمار میرزای اول کے نمایاں ترین شاگردوں میں ہوتا تھا آپ کی ولادت ۱۶۷۰ہجری میں شیراز میں ہوئی اور پر ورش و تربیت عارف و زہد باپ کے دامن میں پائی۔ جوانی میں تحصیل علم کے لئے کربلا گئے پھر سامرا میں ایک طویل مدت تک میرزای بزرگ کے حلقہ درس شریک رہ کر خود بھی علوم اسلام کی تدریس کے استادوں میں شامل ہو گئے۔
آیت اللہ محمد تقی شیرازی سخت بحرانی دور میں عراقی مسلمانوں کی پکار پر پہونچے جب کہ برطانیہ عراق میں اپنے ایک مہرے بنام ” سریرسی کاکس ” کو حاکم بنانے کی چال میں مصروف تھا۔ میرزا تقی شیرازی نے اپنے مشہور و دلیرانہ فتویٰ بے نظیر سے اس سازش کو خاک میں ملا دیا اور ایک اسلامی ملک پر غیر مسلم کی حکومت کو حرام قر ار دیا ۔ انہوں نے ۱۳۳۸ھ اپنا دوسرا فتوی جاری کیاجو تاریخ میں “فتوی جہاد” کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ عراق کی سر زمین انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ میں تھی۔ اس فتوی سے عراق کے ہر گوشے سے اسلامی مجاہدین انگریزوں کے خلاف جمع ہوگئے اور اپنی جواں مردی و بہادری سے انھیں عراق سے مار بھگایا۔
استعماربرطانیہ کے خلاف جہاد کے موقع پر آیت اللہ شیرازی ایک طرف فقیہ آگاہ اور گہرے سیاست داں تھے اور ساتھ ہی ساتھ معنویت کی ر وح بلند و کرامت الٰہی سے سرفراز بھی تھے۔ شیخ عبدالکریم نے حکم زیارت عاشورا کا جو واقعہ خود بیان کیا ہے وہ اس واقعیت کا بیان گر ہے۔ شیخ عبدالکریم حائری جنھیں ان کا قرب ترین شاگردوں مانا جاتاتھا اس تعلق سے فرماتے ہیں۔
” اس زمانے میں جب کہ سامرا میں علو م دینی کی تحصیل میں مشغول تھا۔ اہل سامرا طاعون کی وبائی بیماری میں گھر گئے اور روزانہ دسیوں لوگ مرنے لگے۔ ایک دن میرے مرحوم استاد فشار کی کے مکان پر چند اہل علم جمع تھے کہ آیت اللہ محمد تقی شیرازی بھی تشریف لے آئے اور اس بیماری اور اس کے خطرا ت پر گفتگو چھڑ گئی میرزا نے تمام حاضرین کی بات سننے کے بعد فرمایا کہ اگر میں ایک مشورہ دوں تو کیا آپ اسے تسلیم کریں گے؟ تمام لوگوں نے کہا کہ ضر ور تو آپ نے فرمایا کہ میرا کہنا یہ ہے کہ ” آج سے دس دن تک سامرا کے تمام شیعہ زیارت عاشورا پڑھیں اور اس کا ثواب حضرت حجتہ بن الحسن عج(امام مہدی ) کی مادر گرامی حضر ت نرگس خاتون کو ہدیہ کریں تاکہ یہ بلا دو ر ہو ”
اہل مجلس نے یہ حکم شیعوں تک پہنچایا اور سبھی زیارت عاشورہ پڑھنے لگے دوسرے ہی دن سے اموات کا سلسلہ بند ہوگیا اور کسی شیعہ کی جان نہیں گئی۔
۳۔شیخ شہید (فضل اللہ نوری)
“مشروطہ وہ پلائی ہے جو سفارتخانہ اغیار کی دیگ سے نکالا گیا ہے وہ مسلمانوں اور ایرانیوں کا کام نہیں ہے ۔” ” شیخ فضل اللہ نوری کے آخری ایام کے کلمات سے
شیخ فضل اللہ نوری شہید راہ مشروطہ مشروعہ ان ہسیتوں میں سے تھے جن کے علم و معنوی کمالات سی بھی شیخ عبدالکریم نے کافی استفادہ کیا ۔
شیخ شہید مازندران کے قصبہ نور میں ۱۲۵۸ہجری کو پیدا ہوئے ابتدائی کتب درسیات اپنے والد ماجد سے پڑھیں اور پھر آغاز نوجوانی میں تکمیل درس کی غرض سے نجف اشرف کی ہجرت اختیار کر لی ۔ مطالب علمی کے بیان میں تووہ عجیب باریک بینی کے حامل تھے ہی اسی کے علاوہ طلبہ کو اپنے عہدکے معاشرہ کی ضروریات و حقائق و معاملات سے آشنا کرنے میں بھی ید طولی رکھتے تھے اور جوان طلبہ کی روح کو ہمیشہ استعمار کے خلاف جہاد کے لئے بیدار کرتے رہتے تھے آپ تحریک مشروطیت کے دوران ایران واپس آگئے اور مسائل سیاسی سے واقفیت کی بنا پر تحریک مشروطہ کے پیچھے اغیار کے پوشیدہ ہاتھوں کو دیکھ کر ضبط نہ کر سکے اور بڑی دلاوی کے ساتھ استعمار کی ساز ش کا پردہ فاش کر دیا اور رہبر تحریک مشروطہ کی صورت میں مقابلہ کیا۔ لیکن مشروطہ کے چند مصنوعی دعویداروں کی غداری سے گرفتار کر لئے گئے ۔
” بیرم خان ارمنی” کی فوجی عدالت میں ان کی پیشی ہوئی اور آنا فانا انھیں سولی پر پہنچا دیا گیا۔ ولادت مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی تاریک تیرہ رجب المرجب کو انھیں پھانسی دے دی گئی۔ شہرمقدس قم میں حضرت معصومہ کے بڑے والے صحن میں ان کا مقبرہ آج بھی آزادی کے شیدائیوں کی زیارت گاہ ہے۔
ذمہ داریوں کی کھوج میں
شیخ عبدالکریم کی مہر جرد (یزد) سے پہلی ہجرت دانش و ایمان کے آب مصفا کی تلا ش میں شروع ہوئی اور حوزہ علمیہ سامرا تک پہنچنے پر تمام ہوئی ان کی دوسری ہجرت عظیم ذمہ داری کی انجام دہی کی راہ میں بھی جس کا آغاز تونجف اشرف سے ہوا لیکن انجام نا دیدہ ہی رہا ۔
حوزہ علمیہ سامرا سے فراغت پاتے ہی خدا کی زیارت کے شوق میں سفر حج کوروانہ ہوگئے اوروہاں سے روح لطیف و محکم حوصلہ لے کر نجف اشرف کے ارادے سے چلے۔ لیکن ذمہ داریوں کی فکر نے ان کودوراہے پر کھڑا کر دیا ایک طرف حوزہ علمیہ نجف میں علوم دینی کے طلاب ، ان کے گرد پر روانہ دار گردش کرتے تھے او ر ان کا وجود طلبہ کے لئے شمع فروزاں بنا ہوا تھا تو دوسری طرف خود ان کی روح دوسری جگہ مائل پرواز تھی اور ان کے سر میں دوسری ہجرت کا سودا سمایا ہوا تھا۔ نجف پہنچ کر انہوں نے امیر المومنین حضرت علی کی بارگاہ میں خود کو وقف کر دیا اور اسی اثناء میں آخوند خراسانی کے درس کی شہرت سن کر اپنی عظمت و درجہ بلند کے باوجود ان کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا او ر آخوندکے درس سے ایک سال تک استفادہ کر کے اپنے وطین ایران واپس چلے گئے مگرانہیں وہاں کے پر آشوب حالا ت اور تحریک مشروطہ کی ہلچل کو دیکھ کر اپنے لئے کام کا مناسب موقع نظر نہ آیا اور دوبارہ کربلا واپس آگئے۔
کربلا میں قیام
اس زمانے میں کربلا کا حوزہ علمیہ بہت پرشکوہ و شاندار و مشہور تھا اگرچہ ۱۳۰۲ھ میں آیت اللہ فاضل اردکانی کی وفات کے وہ رونق تو نہیں رہی تھی نہ ہی مدرسے ہائے علمیہ میں قابل توجہ جوش و حرکت تھی بلکہ شیخ کے زمانہ طالب علمی میں وہاں طلاب کی کثرت تھیں اس کا پتہ نہیں تھا۔ بارگاہ مقدس حسینی بھی درس و بحث علمی سے خالی او ر پرسکون تھی او ر صرف عشاق اہل بیت اور ضریخ حسینی کے زائرین کا ہمہمہ سنائی پڑتا تھا۔
شیخ عبدالکریم نے ایران سے واپس آکر حوزہ علمیہ کا یہ افسوس ناک خالی دیکھا تو یہیں ٹھہر گئے۔ اس زمانے میں انہوں نے اپنالقب حائری رکھا حوزہ علمیہ کربلا میں قیام کر کے انہوں نے سالہا ئے گزشتہ کی عزلت و فراموشی کے غبار کو شہر کے چہرہ سے صاف کر دیا اور کئی برس کی خاموش و سکوت کے بعد دوبارہ مدارس میں طلاب کی صدائیں گونجنے لگیں او ر امام حسین کا حرم بھی دانشمندوں کی علمی بحث و گفتگوسے خالی نہ رہ گیا بلکہ وہاں کا منظر تو اور بھی نیارا ہوگیا۔
مدرسہ حسن خاں کے تاریک حجرے جسے دیکھ کر ہر دانش و معارف دوست رنجیدہ ہوجاتاتھا اب معنوی غلغلہ و شورسے پراور مدرسہ حسن خاں کا درسی حلقہ حرم امام حسین تک پھیل گیا تھا۔
اس زمانے میں آیت اللہ حائری اصول و فقہ کے بہترین درس خارج دیتے تھے۔ اور بقیہ اوقات کو علوم دینی کے عام طلاب کے اختیار میں دے رکھا تھا اس کے علاوہ مرجع تقلید شیعہ آیت اللہ محمد تقی شیرازی نے اپنے احتیاطی مسائل میں شیخ کی طر ف حق رجوع دیا تھا۔ اس طرح ان کے ذمہ لوگوں کے دینی مسائل کا جواب بھی دینا۔
۱۳۳۲ہجری میں شہر کربلا میں برطانوی استعمار کی انتشار پسندی اتنی شدت اختیار کر گئی۔ آشوب و خلجان کا موجب بن گئی۔ عثمانی حکام وکربلا والوں سے دیرنہ عدوات و کینہ رکھتے تھے انہوں نے شہرکو خاک و خون میں نہلا دیا دوسری طر ف برطانیہ کی استعما ر گرحکومت جو فرقوں میں اختلاف پھیلانے میں اہم رول ادا کر تی تھی اپنے تسلط کو بڑھانے کے لئے زمین ہموار کر رہی تھی چنانچہ کربلا جو چند ماہ قبل سکون و راحت کی جگہ تھی امن و سکون و آرام کھو بیٹھی ۔ اسی اثناء م یں زمانے کے ہاتھوں نے تاریخ کے ورق کو اس طرح پلٹا کہ آیت اللہ حائری نے اراک کے لوگوں کی دعوت قبول کرکے سفر ایران کا مصمم ارادہ کرلیا۔
ّحلقہ خوباں میں
اراک (قدیم سلطان آباد عراق ایران کی شیعہ آبادی والے مشہور شہروں میں سے ایک ہے اس شہر کی تاریک بہت قدیم ہے۔ تیرہویں ہجری میں اسے نئے سرے سے بسایا گیا اور نئی تعمیر ہوئی ۔ ۱۳۳۲ھ میں جب آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری نے اس شہر میں قدم رکھا اس وقت یہاں حوزہ ہائے درسی یا بڑے مکتب کا علمی پتہ نہیں تھا اور علوم دینی کے مدراس طلبہ سے خالی پڑے ہوئے تھے۔ آیت اللہ حائری نے ابتدا میں درس و بحث کی بات نہیں کی صرف مسجد بزرگ (آقا ضیا) میں لوگوں کو نمازجماعت پڑھا کر مسائل و احکام شرعی بتادیتے تھے مگر چند ہی روز میں ان کی شیریں سخنی و صلابت شخصی نے نوجوانوں کی توجہ کو جذب کرناشروع کر دیا اور پھر تو یہ ہوا کہ نماز جماعت کے بعد وہ حلقہ خوبان کے درمیان ہوتے ۔ جس میں سے ہر ایک کا چہرہ تحقیقات علمی کا تشنہ دکھائی پڑتا۔ کئی مہینے تک ایسی مجلسیں برپا ہوتی رہیں۔ اس تشنگی اور جوانوں کا شیخ کے گرد اجتماع ہی رفتہ رفتہ ایک ایسے شاندار درس میں بدل گیا جس کی شہرت پوری شہر میں ہوگئی اس کے نتیجے میں مجلس میں حاضرین کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی اور حاج شیخ کا حلقہ درس وسیع تر ہوتا گیا ۔
آیت اللہ حائری خود ہی دانش و معارف سے عشق حقیقی رکھتے تھے انہوں نے علم کے ان شیدائیوں کے احساسات کو سمجھا اور اسی سال ایک عظیم مجمع علمی کی تشکیل دینے کے بعد اپنے دس کو مسجد آقا ضیاء سے مدرسہ علمیہ سہدار لئے گئے۔ اور سالہا سال دنیا کی ہاوہو ،سے دور رہ کر شمع فروزاں کی طرح۔ روشنی پھیلاتے اور خود کو جلاتے رہے اور اپنے افکار عالیہ کے اثبات و تحقیق کے لئے بے حد و حساب و زحمت و تکلیف برداشت کرتے رہے اور علوم اسلامی کے میدان میں بلند قدموں سے چلتے رہے اور برسہا برس کی انتھک محنت سے ان کے مکتب کا شہرہ ایران کے بہت سے شہروں میں ہوگیا۔ زیادہ مدت نہیں گزری کہ اراک کی شناخت ایران کے بزرگ مجمع علمی کے طور پر ہونے لگی اور دور دوسرے علم کی پیاس بجھانے کے لئے نوجوان طلبہ یہاں کھنچ کھنچ کر آنے لگے۔
کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں امام خمینی بیس سالہ جوان تھے جنھوں نے اراک کی شہرت سن کر اصفہان کو ترک کردیا اور اس شہر کی طرف دوڑ پڑے اور جب تک یہ حوزہ علمیہ شہر مقدس قم کو منتقل نہیں ہوا آپ اس مرد بزرگ کے حلقہ دانش و معرفت سے مستفیض ہوتے رہے۔ آیت اللہ حائری نے اس پر شکوہ حوزہ علمیہ کی مسند ریاست کو آٹھ سال تک زینت بخشی اور مرجعیت کی گراں بارذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ جوان طلبہ کی پرورش و تربیت سے بھی غافل نہیں رہے اور اس اثنا میں امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کے علاوہ دیگر صدہا پاک طینت جوانوں کو جس میں کاہر ایک اپنے وقت کا مرجع ہوا ہے اپنے محبت و کرم کے دامن میں جگہ دی اور شفیق باپ کی طرح ان کی تربیت وپرورش کی۔
شہر فضیلت
قم کا شمار مذہب شیعہ کے بزرگ ترین مذہبی شہروں میں ہوتا ہے جو ایران میں تشیع کے ا بتدائی دور میں بھی مرکزیت شیعہ کا حامل تھا اور اب تک وہ دانش و بینش اسلامی و سیاسی و اجتماعی امور میں اپنی فکر و رائے کی قطعیت کو محفوظ رکھے ہوئے ہے ۔یہ شہر بھی نجف و کربلا کی طرح ظہور اسلام کے برسوں کے بعد آباد ہوا اور اشعری عراب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسے بسایا ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ حضرت علی کے مکتب کے پیروتھے اور اموی خلفاء سے ان کی ان بہ رہتی تھی یہ لوگ۸۳ہجری میں حکومت وقت کے دباؤ سے تنگ آکر جنگل کی طرف نکل گئے اور مدتوں کی آوارہ گردی کے بعد ایک ندی کے کنارے پڑاؤ ڈال دیا جسے منطقہ ” کم ” کہ جاتا تھا یہ گروہ ابتدا میں خیموں میں رہتا تھا دھیرے دھیرے انہوں نے مٹی کے مکانات بنائے اور فتہ رفتہ یہاں کی آبادی پر رونق ہوگئی بعد اس یہ قصبہ جو نمک کے صحرا کے قلب میں واقع تھا قم کہلانے لگا۔ وہ شہر جس کی آئمہ معصومین علیہم السلام نے ستائش کی ہے۔ اور اس کی فضیلت کے تعلق سے بہت سی باتیں کہی ہیں۔ یہاں تک کہ زمانہ امیر المومنین علی ا بن ابن طالب علیہ اسلام میں نہ تو یہ شہر تھا نہ یہاں لوگوں کی زیادہ آمد و رفت تھی پھر بھی آپ نے یہاں کے باشندوں کو صاحبان فضیلت و رکوع و سجود فرمایا ۔ اور ان کے حق میں دعا و مناجات کی۔ حضرت امام صادق نے بھی شہر قم کو مکہ و مدینہ کی صف میں قرار دیا ہے اور اس وقت جب کہ آپ کے فرزند امام موسیٰ کاظم کی ولادت نہیں ہو تی تھی آپ اپنے اس بیٹے کی بیٹی (معصومہ قم) کی باتیں کرتے او راس شہر کو ان کا مدفن بتاتے تھے۔
فاطمہ معصومہ (س)
دوسری صدی ہجری کے اواخر میں امام موسیٰ کاظم کی زندان ہارون رشید میں شہادت ہوئی اوردین الٰہی کے معنوی قدروں کی پاسداری ان کے فرزند بزرگوار امام علی بن موسیٰ الرضا کے سپردہوئی۔ آنحضر ت کو ۲۰۰ہجری میں مجبور کر کے مدینہ سے مامون عباسی کے مرکز خلافت خراسان میں پہونچا دیا گیا۔ اس اثنا میں آپ کی بہن فاطمہ معصومہ (س) اپنے بھائی کے فراق کا تحمل نہ کرسکیں اور اس امید میں خراسان کی طرف روانہ ہوگئیں کہ مدینہ میں دشمنان اہل بیت نے خوف و دہشت کی جو فضا پھیلائی ہے اس سے چھٹکارا مل جائے گا اور بھائی کے زیرسایہ ان مصائب سے دورراحت و آرام کی زندگی نصیب ہوگی۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) کا قافلہ جس میں ان کے قریبی رشتہ دارشامل تھے مشکلات و مشقت و زحمات سیپر منزلیں راستے طے کرتا ہوا ایران پہنچا ۔
شہر ساوہ میں داخل ہوتے ہی حضرت فاطمہ اتنی بیمار پڑ گئیں کہ ان میں آگے چلنے کی طاقت نہیں رہ گئی۔ ساتھیوں نے علاج و دوا میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اسی حالت میں حضرت معصومہ (س) کو جانے پہچانے شہر قم کا خیال آیا پوچھا کہ یہاں سے قم کتنی دور ہے جواب ملا دس فرسخ ۔ اسی وقت قافلہ نے خراسان کے بدلے قم کا رخ کیا اورایک مدت کے بعد دروازہ شہر تک پہنچا ۔
اس زمانے میں شہر قم ایک قصبہ کی طرح تھا اوررہنے والے ززیادہ تر اشعری و آل سعود کے قبیلے والے شیعہ پناہ گزین تھے۔ یہ سب کافی عرصہ ہوا عرب کی سر زمین کو ترک کر کے شہر قم میں آکر بس گئے تھے جس وقت وہ لوگ امام موسیٰ کاظم کی اوالد کی آمدسے آگاہ ہوئے فورا دروازہ شہر کی طر ف دوڑ پڑے اور بڑے احترام سے اس بانوری بزرگوار کو لائے اور “موسیٰ بن خزرج اشعری” کے گھر میں اتارا۔ اہل قم کی عید ہوگی۔ دختر امام کی آمد کو انہوں نے خدا کا خصوصی فضل سمجھا اور گروہ درگروہ ان کے دیدار کو آنے لگے۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) نے اس شہر میں سترہ دن تک بستر بیماری پر گزار کر وادی بقاکی راہ لی جب کہ آپ نے زندگی کی صرف ۲۲ بہاریں دیکھی تھیں۔
اس کے بعد اس بانوی بزرگ کا مرقد بارگاہ محلل و پرشکوہ بنتا گیا حتی کہ علم و ایمان کے مشاقوں کی زیارت گاہ اور آپ کے فیض وجود سے شہر قم ، مکتب تشیع کا مشہور مرکز بن گیا۔
قم کی طرف ائمہ کی نظریں
شہر قم کی ایک تابندہ تاریخ ہے خصوصا حوزہ علمیہ کی تاسیس اور مذہبی افراد کے مرکز کی حیثیت سے ۔پہلے پہل جن اشخاص نے اس شہر میں حوزہ علمیہ کے قیام کی کوشش کی وہ قبیلہ اشعری کے محدثین و رواة تھے جن کا شمار معصوم اماموں کے دوستوں میں ہوتا تھا اس کے بعد شیخ کلینی و شیخ صدوق جیسی بزرگ شخصیتوں کے ظہور نے اور پھر علوی شیعوں کے اس خطہ میں آجانے سے اس کا اثر و مرتبہ بڑھ گیا۔
ظالم عباسیوں کی جابر حکومت کے دباؤ نے شیعوں کو مجبور کیا کہ وہ قم و کاشان جیسے ایران کے مختلف شہروں میں پھیل جائیں اور وہاں مسجدومدرسہ و کتاب خانہ قائم کر کے تبلیغی وہدایت کا منصوبہ بنائیں ۔ اس کے علاوہ معصوم اماموں کی قم و اہل قم کی طرف توجہ و نظر اور ان روایات نے جوان بزرگوں سے اس موضوع پر وارد ہوئی ہیں۔ شیعوں کو اس شہر میں آباد ہونے کی طرف مائل کیا اور بتدریج علماء و محدثین کے وجود کی برکت اور مدراس و کتاب خانوں کی تاسیس نے ایک ایسے عظیم حوزہ علمیہ کی تشکیل کردی جو لوگوں کی گہر توجہ کاسبب بن گیا۔
عصر صفوی
اگرچہ حوزہ علمیہ قم کی نشو و نمااور عہد شاہان صفوی کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے لیکن حادثات و واقعات سے پریہ طویل وقفہ ، قم کی درخشاں تاریخ ماند نہیں کرسکا بلکہ شہر اپنی تاریخی عظمت کے باعث اسی طرح سے تشیع کا مرکز مانا جاتا رہا اور تشیع کی ثقافت و قدروں کو اسی طرح فروغ حاصل ہوتا رہا چنانچہ صفوی حکومت کے قیام کے بعد اس شہر کے حوزہ علمیہ کی رونق اور بڑھ گئی۔
یہ وہی زمانہ تھا جب کہ ملا صدر الدین شیر ازی فیاض لاہیجی و فیض کاشانی جیسی بزرگ شخصیتیں حوزہ علمیہ میں رونق افروز ہوئیں اور برسوں اس شہرکے مدارس میں بحث و علوم اسلامی کی اشاعت میں مصروف رہیں ۔ فقہ ، تفسیر ، کلام ، فلسفہ و عرفان کا درس دیا اورپرشکوہ علمی جلسوں کی تشکیل سے ایک بار پھر ساری دنیا میں حوزہ علمیہ قم کا ڈنکا بجا دیا او ر صفوی حاکموں کی مدد سے فیض کاشانی جیسے علماء نے زیادہ سے زیادہ مدراس بنائے جن میں اہم ترین مدرسہ فیضیہ ، مدرسہ مہدی قلی خاں و مدرسہ مومنیہ تھا۔
عصر میرزائے قمی
عظیم محقق میرزا ابو القاسم قمی عالم تشیعی کی دیگراہم علمی و معنوی شخصیتوں میں سے تھے جنھوں نے اپنی تعلیم مقدس و متبرک مقامات کے حوزہ علمیہ میں مکمل کی آپ کا شمار آقای “وہید بہبہانی ” کے مخصوص شاگردوں میں ہوتا تھا۔
ایران واپس آنے کے بعد معاصر علماء میں ان کی بزرگی و عظمت کا شہرہ بہت بڑھ گیا ۔ آیت اللہ فیض کاشانی کے دور کے تقریباسوبرس بعد ” میرازی قمی” حوزہ علمیہ قم سے وابستہ ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ علوم اسلامی پر بہت بروقت آپڑا تھا۔ صفوی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور حکومت ایران قاچاریوں کے ہاتھ میں آگئی ان لوگوں نے علوم کی ترقی کی طرف کوئی توجہ نہ دی، فقرو قحط بدامنی کی یورش نے ان کو صرف اپنی فکر میں مشغول رکھا۔ ایسے خراب حالات میں میرازی قمی نے حوزہ علمیہ قم میں قدم رنجہ فرمایا اور اپنی بلند نظری و بتحر علمی کی بدولت جو انھیں فقہ و اصول میں حاصل تھی ، ابتداء ہی سے حوزہ میں اونچا مقام حاصل کر لیا۔
میرزا نے قم میں اپنے قیام کی ساری مدت اس شہر کے علمی مدارس کی تعمیر نو اور درستگی میں گزاری ا ور بزرگ و باعظمت شاگردوں کی تربیت کی آپ نے فقہ و اصول میں نہایت بیش قیمت کتابیں تالیف کی خصوصیت سے آپ کی کتاب ” قوانین الاصول” نے علم اصول فقہ میں تحول و انقلاب پیدا کر دیا۔ اس طرح انہوں نے ایک بار پھر علوم اسلامی کی اشاعت میں اس شہر کی تاریخی عظمت کو زندہ کر دیا۔
عظمت فراموش شدہ
میرازی قمی کا زمانہ اپنی عظمت و شان کے باوجود بہت مختصر و محدود تھا ان کے بعد حوزہ علمیہ قم دوبارہ عالمان دین سے خالی و بے رونق ہوگیا۔ جس کا دوسرا سبب یہ تھا کہ اس زمانے میں شیعی دنیا میں صرف ایک حوزہ علمیہ کی شہرت تھی اور وہ تھا حوزہ علمیہ نجف اشرف جو طویل تاریخی نشیب وفراز جھیلنے کے بعد بھی تشیع کا باشکوہ و بزرگ ترین مرکز علمی مانا جاتا تھا اور اس کے نام کی شہرت نے دوسرے مراکز کو دبالیا تھا۔ اور دنیا بھر کے طلاب علوم دین اس کی طرف کھنچ کھنچ کر جاتے تھے ۔ گراں قدر اساتذہ یہاں تھے اور علوم اسلامی کی تحقیق و بحث میں اس حوزہ کو امتیاز خاص حاصل تھا ۔ اس وجہ سے دوسرے ملکوں کے محصلین عراق ہی کارخ کرتے اور نجف اشرف پہنچ جاتے اس طرح دوسرے حوزہ ہائے علمی کی عظمت دھندلی پڑ گئی جن میں سے ایک حوزہ علمیہ قم بھی تھا۔
افسوس ناک حالات
آیت اللہ حائری نے قبل اس کے کہ انھیں اہل قم دعوت دیں ۱۳۳۲ھ میں مشہد مقدس کا سفر کرتے ہوئے ایک بار قم کی زیارت کی تھی اور چند دن روضہ معصوم قم کے اطراف میں گزار کر مدارس دینی کی حالت کا قریب سے مشاہدہ کر چکے تھے۔
انہوں نے مدرسیہ فیضیہ کو بھی دیکھا جس کے پرشور و آباد کمرے اب محصلین و طلبائسے خالی تھے اور کتابوں کی الماریاں پر گرد فراموشی بیٹھی چکی تھی ایسا لگتا تھاکہ نہ قم کی فضا میں کبھی اسلامی دانش مندون اورمحققین کی صدائیں گونجیں تھیں۔ اور نہ فیض کاشانی و صدرالدین شیرازی جیسی عظیم شخصیتوں نے یہاں عرفران و تفسیر و فلسفہ کے عالی در جلسے تشکیل دئے تھے۔
شیخ حائری نے ملاحظہ کیا کہ ” دارالشفا” جیسا عالی شان و بزرگ مدرسہ اب فقراء و زرائرین کا مسکن بناہواہے۔ درس و بحث کے کمروں میں کچھ لوگ بس گئے ہیں ۔ا ور بعض تجار اس سے گودام کا کام لے رہے ہیں اور سب سے زیادہ غم ناک حالت ان دنوں کے جوان طلبہ کی تھی جواساتذہ کامل و متجر اورنظم و قانون کے فقدان کے باعث افسردہ چہرہ لئے واہی تباہی میں اپنا وقت گزار رہے تھے اوراپنے تئیں ان تاریک و گرد آلود حجروں میں سطحی مباحثہ کر کے دن کاٹ رہے تھے ۔ کہتے ہیں کہ مدراس علمی کے ایسے دلدوز حالات کو دیکھ کر شیخ عبدالکریم نے بڑے رنج و افسردگی کے عال میں قم کو ترک کیا اور بار ہا انھیں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ” کیا ہوجاتا ، اگر حوزہ علمیہ کے معاملات درست و صحیح ہو جائے۔”
آیت اللہ حائری کا قم میں ورود
۱۳۰۰ھ شمسی (مطابق ۲۲ /رجب ۱۳۴۰ھ قمری) کی سردیاں ختم ہو رہی تھیں کہ آیت اللہ حائری اور ان کے بڑے صاحبزادے آیت اللہ مرتضیٰ حائری نے باہمراہی آیت اللہ محمد تقی خوان ساری لوگوں کی دعوت قبول کر نے کے ارادہ سے اراک سے قم کی طرف حرکت کی۔ عید مبعث پیغمبر کے اکرام میں پورے شہر قم میں چراغاں و سجاوٹ تھی ایسے موقع پر عوام نے آیت اللہ حائری کا گرمجوشی سے استقبال کرنے کی تیاریاں بھی کرلیں۔
شہر میں جیسے ہی آیت اللہ حائری کی تشریف آوری کی خبراڑی مرجیعت کے شیدائی فوج درو فوج دیوانہ واران کے خیر مقدم کے لئے شہر سے باہر دوڑ پڑے۔ استقبال کرنے وا لوں کے مجمع کثیر کے درمیان آیت اللہ حائری نے شہر میں قدم رکھا او ر قم کے مختلف علاقوں اورمحلوں کی مجالس جشن سرور عید مبعث میں شرکت فرمائی ۔ حسن اتفاق کہ عید نوروز، نیمہ شعبان ، عید مبعث کے ایک دوسرے سے مقارن و متصل ہونیسے تہران او ر ایران کے دیگر شہروں سے بہت بڑی جمعیت قم میں اکٹھا ہوگئی تھی۔ واعظین اور وہ افراد جنھوں نے آیت اللہ حائری کو سامرا نجف میں دیکھا تھااور ان کو پہچانتے تھے انہوں نے منبروں پر مجالس و عظ و خطابت میں لوگوں کو ان کے کمالات علمی و معنوی سے آگاہ کیا اور شہر قم کے عوام کو آیت اللہ حائری کا خیال و لحاظ رکھنے کی نصیحت و تاکید کی۔
تاسیس حوزہ علمیہ قم
حوزہ علمیہ قم کی بنیاد ایسی بات تھی جس کا زمزمہ صدیوں پہلے حوزہ علمیہ نجف میں شروع ہوا تھا اور اس کی جڑیں امامان معصوم کی روایت میں پیوست تھیں