سیاست علوی
سیاست کا مفہوم :
لفظ سیاست کے مروجہ معنوں اور دنیا کے دھوکے باز سیاسی رہنماوں کے عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ لفظ سیاست کے معنوں میں اتنی تحریف کی گئی ہے کہ آج دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس لفظ کے لغوی و حقیقی معنوں سے تضاد رکھتا ہے ۔یہ بات ہم کو مجبور کرتی ہے کہ ہم سب سے پہلے لفظ سیاست کے مفہوم کی توضیح پیش کریں ۔ اس کے بعد سیاسی نظام کے ابعاد اور قرآنی نقط نظر سے اس کے مقاصد پر روشنی ڈالیں ۔ لغت اور اسلامی کتابوں کے ماخذ اور متون میں مندرج لفظ سیاست کے معنوں پر غور کرنے سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ سیاست کے حقیقی معنی ، انسانی معاشرے ، ملک اور عوام کی سر پرستی و قیادت کے ان ابعاد پر مشتمل ہیں ، جن کے ذریعہ ان کی فلاح و بہبود اور ترقی کی ضمانت ملتی ہے ۔ لفظ سیاست پر مشتمل تشریحات کو لغت کی بعض کتابوں نے یوںدرج کیا ہے : صاحب مجمع البحرین نے اس کی تشریح یوں کی ہے۔ ساس ، یسوس ، الرعیہ ، امرھا ونہاھا ، سیاست کے معنی ، عوام پر احکام جاری کرنے اور پابندی عائد کرنے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے : ثم فوض الی النبی امر الدین و الام لیسوس عباد : دین اور امت مسلمہ سے وابستہ امور کی ذمہ داری پیغمبر اسلام کو سونپی گئی تاکہ لوگوں کو سیاست اور راہنمائی کریں ۔ دائر المعارف بستانی نے سیاست کی وضاحت میں یوں کہا ہے: ساس القوم ، دبرہم و تولی امرہم ۔ الامر : قام بہ ، فہو ساس السیاس : استصلاح الخلق بار شاد ہم الی الطریق المنجی فی العاجل او الآجل السیاس المدین : تدبیر المعاش مع العموم علی سنن العدل و الاستقامہ کسی معاشرے کی سیاست کرنا : ان کے امور کی تدبیر اور ان کے تقاضوں کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف و رہنمائی کے معاملات کو آزادی سے بجا لانا ہے ۔ سیاست مدن : یعنی معاشرے کی معیشت ،عدل و انصاف اور آزادی کے اصولوں پر فراہم کرنا ۔ مذکورہ مفاھیم اور آج کی دنیا میں رائج سیاست اور سیاسی رہنماوں کی منطق کے درمیان مکمل تضاد ہے ، اس لئے کہ ان لوگوں نے عوامی مصلحت ، ترقی اور سرحدوں کی حفاظت کے بجائے اپنی سیاست کی بنیاد ، مکاری ، قتل و غارت گری ، جاہ طلبی ، ریاست اور وسعت طلبی ،نیز محروموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے پر رکھی ہے ۔ یہ عوام دشمن غریبوں کو موت کے حوالے کرنے ، انہیں علمی ، فنی اور فکری افلاس کے حوالے کرنے کو نصب العین بنائے ہوئے ہیں ۔ ظاہر ہے اس سیاست کی دین، ضمیر اور عقل میں کوئی گنجائش نہیں ۔ اب تک سیاست کے مختلف معنی جو ہم ذکر کرتے چلے آئے ہیں اورجن معنوں پر مصلح اور دانشور افراد غور و فکر کرتے ر ہے ہیں ، وہ انسان کی ضروریات زندگی سے وابستہ ہیں اور بے شک اسلام اور دوسرے ادیان نے اس کی نسبت خاص اھتمام کیا ہے اور کبھی اس پر غور و فکر کرنے سے منع نہیں کی ہے ۔
حضرت علی(ع)کی سیاست
اگر حقیقی سیا ست کو مد نظر رکھا جا ئے تو حضرت علی (ع) اس میدا ن کے شہسو ار نظر آئیں گے بشر طیکہ اس نکتے کی طرف تو جہ رہے کہ چند روز ہ زند گی کی فتح وظفر اور جسمو ں پر حکو مت سے کہیں بہتر ایسی فتح وظفر اور دلوں کی حکمرا نی ہے جوہمیشگی اور ابدیت رکھتی ہو کیو نکہ زور و زبردستی سے وقتی طو ر پر حا صل ہونے والی سلطنت اس خو فنا ک خو اب کے ما نند ہو تی ہے جو کچھ دیر کے لئے سو نے وا لے کو ڈرا کر ختم ہو جا ئے اور انسا ن بھی بیدار ہو کر دو با رہ اپنے امور ز ند گی میں لگ جا ئے ۔ آج تک وحد انیت کے علمبر دارو ں کا نورانی وجود لو گو ں کے ذہنو ں پر حکو مت کر رہاہے ۔ تا ریخ بشر یت نے آئین سیا ست کے کسی اور ایسے علمبر دا ر کوپیدا نھیں کیا جس کا فر یفتہ ہو کر مشہو ر ما دہ پر ست شبلی شمیل اس طرح مد ح خوانی کر نے لگے : علی (ع) ایک ایسا رہبر ہے جو بزر گو ں کا بھی سر دا رہے ،ایک ایسا نادرنسخہ ہے جس کی مثا ل گز شتہ زما نے سے لے کر دور حا ضر تک نہ تومشرق میں مل سکتی ہے اور نہ ہی مغرب کی سر زمین لا سکتی ہے۔ اگر تا ر یخ کا مطا لعہ عقیدتی تعصب کی عینک اتا ر کر کیا جا ئے تو معلو م ہو گا کہ د نیا کا کو ئی بھی رہبر ایسا نھیںہے جس کی پیر وی کر نے وا لو ں کو ایسے شکنجوں میں رکھا جا ئے کہ وہ اپنے راہنما کا نام بھی لینے کی جر ات نہ کر یں ۔ دشمن ایسی سختیا ں کر ے جن سے زیا دہ کا تصور بھی ممکن نہ ہو ۔ ان سب کے با وجو د دو سر وں کی کسی بھی قسم کی مدد کے بغیر د ین کی اس سب سے عظیم شخصیت کا نام کتاب انسانیت کی سطراول میں لکھا گیا ۔ آج جبکہ ہم ایسے دور سے گزررہے ہیں جب علمی میدان میں کا میابی کے علاوہ ا نسا نی اقدارکو بھی شخصیت شنا سی کا معیا ر قرا ر دیا جا تا ہے ،پھر بھی تمام ملتیں جس ذا ت کی سب سے زیا دہ تعظیم کر رہی ہیں اسے علی بن ابی طا لب (ع) کہتے ہیں حتی وہ افراد جو کسی بھی د ین کے پا بندنہیں ہیں وہ بھی اس ہستی کی بارگا ہ میں جبین نیا ز خم کر تے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اگر نا دانی کے با عث کو ئی قو م حضرت علی (ع)کی شخصیت کے بارے میں کوئی نازیبا لفظ استعمال کردے تو پوری دنیا میں اس کے خلاف نفرت و غصے کا ما حول پیدا ہو جاتاہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ حقیقی طور پرحضرت علی(ع)کی سیاست کا مقدمہ با لکل اسی طرح فراہم ہو تا گیا جس طر ح جناب ابر اھیم(ع) کے ساتھ ہو ا کہ عام قسم کے سیا ستدانو ں کے بر خلا ف ان بزرگوں کی شخصیت روز بروز محبوب تر ہو تی گئی اور بغیر تفر یق مذہب وملت ہر ایک انکا شیفتہ اور گر و ید ہ بنتا گیا ۔ بعض کم فھم افراد کہتے ہیں : اچھا سیا سی را ہنما وہ ہو تاہے جسکا معاشرے میں سب سے زیا دہ رسوخ ہو ۔ جبکہ ر سا لت مآب(ص) کی رحلت کے بعد حضرت علی (ع) پو ر ے ا سلامی معا شرے میں رسوخ پیدا نہ کر سکے ۔ گویا انکے مطا بق رسوخ کے معنی یہ ہیں کہ شمشیر بد ست ہو کر جس طرح بھیڑ بکریوں کو ہنکایا جا تاہے ، عا م انسا نو ں کو بھی اپنے پسندیدہ راستے پر چلا دیا جا ئے اور وقت ضرورت قتل گاہ میں لے جا کر انکے سر وبدن کو علیحدہ کر کے اپنے تخت ومسند کو استحکام بخشا جا ئے ۔ پھر اس پر بیٹھ کر اکڑا جائے اور دوسر وں کو آنکھیں دکھائی جائیں ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح حجاج بن یو سف اور اسکے جیسے حکا م کا حا ل تھا ۔ یہ لو گ، عقلی دنیا میں ابھی انسانی ز ندگی کی اہمیت اور خدا سے رابطے کی عظمت کونہیں سمجھ پائے ہیں ۔ یہ لو گ نہ صرف یہ کہ انسانیت کے معنی نہیں سمجھے ہیں یا سمجھنا نہیں چا ہتے بلکہ د ین کو بھی ایک ظاہر ی اور تکلفاتی آدا ب ورسوم سے زیادہ نہیں سمجھتے ۔ ان کے گمان میں دنیا کی زمام حکو مت کو حا صل کر نے کے لئے پا پ انو سا ن سو ئم کی طرح کسی بھی طرح کے انسانی یاغیرانسا نی اقدام سے گر یز نہیں کرنا چا ھئے ۔ ان کا یہ د ھو کا یہیں پر ختم نہیں ہو تا بلکہ سب سے بڑی غفلت آمیز اور نقصان دہ فکر اس وقت پیدا ہو ئی جب انہوں نے رسول ا سلا م(ص)کے سلسلے میں بعض عام قسم کی سطحی کتابو ںکا سر سر ی مطا لعہ کر کے یہ لکھ دیا کہ: اسلامی لشکر ایک مختصر سی مدت میں فلا ںفلا ں جنگ میں کا میا ب ہو ااور بعض ممالک کو زیر کر لیا ۔ جبکہ اس کے برخلاف وہ لو گ یہ نہیں سو چتے کہ اس عا لم اسلام کی وسیع وعریض سرزمین پر جناب ابو ذر غفاری(رح) جیسے کتنے افراد پیدا ہو سکے ؟ کیا خود پیغمبر اکر م(ص)اس مختصر سے عر صے میں تمام اسلامی احکام کو ہر مسلمان کے دل وجان میں (بجز چند مسلمان ) اتا ر سکے ؟ وہ سب کہتے تھے کہ آپ پر ایمان لے آئے ہیں جبکہ خدا وند متعا ل انکے اس اظھار ایمان کو جھٹلا رہا تھا اور اپنے نبی سے یہ فر ما رہا تھا : ہر گز انکے ظا ہری کلما ت پر بھر وسہ نہ کیجئے گا ، ابھی انکے دلو ں میں ایما ن را سخ نہیں ہو ا ہے۔ وہ سب ظا ہری طور پر مسلمان ہو ئے ہیں اور بس ۔کیا یہ ممکن ہے کہ اس طرح کے عر بوںکے نیرنگ و حیلے کو رسا لت پنا ہ کی سا دہ لو حی قرا ر دیا جا ئے یعنی کیا یہ کہا جا سکتا ہے چو نکہ پیغمبر اکرم(ص)پو ری طر ح سے لوگو ں کے در میا ن رسوخ پیدا نہ کر سکے لھذا وہ اچھے سیاستداں نہیں تھے ؟اسی طرح حضرت ابرا ھیم (ع) جو کہ دنیا کے تما م مذاھب کے رئیس ہیں ،اچھے سیاستداں نہیں تھے کیو نکہ انکے زمانے میں خود انکے خا ندا ن وا لے انکے اطا عت گزارنہ تھے ۔ یقینا اس قسم کا تصور فقط ایک وا ہمہ ہے ،اس کے علا وہ کچھ نہیں ۔ ہم جا نتے ہیں کہ عصر پیغمبر میں اسلام پوری طر ح سے عا لم شبا ب پر تھا اور اس دور کے مسلما نوں میںمکمل طو ر پر حرارت ایمانی پائی جا تی تھی لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ آنحضرت کے بعد ایسی باد خزاں چلی کہ جس نے اسلام کے سر سبز با غ کو و یر انہ بنا دیا اور ایسا سردو یخ زدہ ما حول پیدا ہو ا جس سے پو رے ما حول پر ایک قسم کا جمود سا طاری ہو گیا ۔یہی نہیں بلکہ ظلم وستم کی ایسی بجلی گر ی جس نے پو رے اسلام کے آشیا نے کو جلا کر خا کستر کر دیا اور پھر اسکے بعد ہر طرف ریا ست طلبی وشھو ت پر ستی کا ایسا با زار گر م ہو ا جس کے بیان سے قلم لرز تا ہے ۔ ان سب کے با و جو د کیا یہ حضرت علی (ع) کی سیاست کا طرئہ ا متیا ز نہ تھا کہ ایسے پر آشو ب ما حول میں بھی کچھ اس طرح اپنی شخصیت کو ثا بت کیا کہ کچھ ہی عر صے بعد مختصر سے پیرو کا رو ں کا گر وہ ، کروڑو ں جا نثا ر وعا شق افراد میں تبد یل ہو گیا ۔ یہاں پر جو چیز سب سے ز یا دہ اہمیت کی حا مل ہے ، اس کی طرف اشپنیگلر نے یو ں تو جہ دلا ئی ہے : ایک با غباں کا کام یہ ہو تا ہے کہ وہ بیج بو کر اسکی پر ورش وا صلا ح کرے ۔اسی طرح وہ چا ہے تو پو دے ، در خت بننے سے پہلے ہی خشک ہو کر ضائع ہو جائیں ۔اسکے اندر یہ صلا حیت ہو تی ہے کہ ایسی فضا مہیا کر ے جو پھل و پھول کی پو شیدہ خاصیتوں اور اسکی شکل ور نگت پر موثر ہو ۔ یہ سب کا م اور اس طرح کے تمام خصوصیات کمی وبیشی کے اعتبار سے با غباں کی بصیر ت اور سمجھ بوجھ پر منحصر ہو تے ہیں لیکن اصل شکل وصورت ، اسکا مستقبل ، اسکا ر شد ، پھل کی قسم و غیرہ با غبا ن کے د ست قدرت سے خا رج ہیں بلکہ یہ سب اس درخت کی طبیعت میں شا مل ہیں ۔ اگر شھو ت پر ست اور مخا لف د ین افراد یہ نہ چاہیں کہ آئین انسا نیت کو سمجھ کر اسکی رو شنی میں ز ند گی گزا ریں تو ایک سیاستداں کی غلطی کیا ہو سکتی ہے ؟ اگر کو ئی حیو ان صفت انسا ن فقط ما ل ودو لت اور جا ہ و مقا م ہی کو انسا نی اقدار شمار کرے تو ایک سیاسی رہبر کیا کر سکتا ہے جبکہ وہ عظیم شخص عوا م الناس کی ثروت کا محا فظ ہو نے اور حسا ب وکتا ب میں پو ری دقت سے کام لینے کی وجہ سے ہر شخص کو اسی مقدار میں بیت المال سے عطا کر ے جس مقدار میں اسکی سما جی خدمات کا تقا ضاہو ۔ کیا کسی کو تا ہ نظر کو حضرت علی (ع) کے وہ د ستور ا لعمل ، جو آپ نے ما لک اشتر کو حا کم مصر بنا کر بھیجتے وقت بیان فر مائے تھے اور جو آپ کی سیاست کا شا ھکا ر سمجھے جا تے ہیں ، کے علا وہ بھی کسی اور دلیل کی ضرورت ہے ۔ وہ لو گ جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (ع) اچھے سیاستداں نہیں تھے، ان کا مقصود نظرہمارے لئے پو ری طرح وا ضح ہے ، وضا حت کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ ان کے مطا بق حضرت علی (ع) کے بارے میں یہ کہنا تو ٹھیک ہے کہ آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے وز یر تھے اور عمرو بن عبد ود اور مر حب جیسے شقی القلب وخو نریز دشمنو ں کے مقا بلے میں ڈٹے رہے لیکن آپ کی سیا ست کے بارے میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے سیا سی میدا ن میں ( العیا ذباللہ ) احتیا ط سے کام نہیں لیا کیو ں کہ آپ منجی بشریت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کی ز ند گی کو بچا نے کے لئے آنحضرت کے بستر پر سوگئے ۔ اگر دشمن کا میاب ہو جا تے اور شمشیر یں آپ کے ٹکڑے ٹکڑ ے کر دیتیں تو آپ اپنی جا ن سے ہا تھ دھو بیٹھتے ۔ ان کے بقو ل یہ بات سیاست کے خلا ف ہے کہ قدرت وطا قت اور جا نثارو ں کے با و جو د حضرت علی (ع) نے اپنا حق حاصل کر نے کے لئے قیا م نہیں کیا ۔ لو گو ں کا کیا ہے وہ تو آخر کا ر یا کفر اختیا ر کر تے یا پھر ایما ن پر با قی رہتے ۔ اس کی کیااہمیت ہے ؟ اسلا م کی حفا ظت نیز مسلمانوںکے جھا لت کی طرف پلٹ جانے کے خو ف سے حضرت علی (ع) کا خانہ نشیں ہو جا نا ، (نعو ذباللہ ) آپ کی غیر سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا ۔ان لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ یہ سادہ لوحی ہے کہ انسان حصول ریا ست کی خا طر طا قتو ر اشخاص سے دست وگر یبا ں ہو جا ئے اور نتیجے میں اپنی کمزوری کو سب پر ثا بت کر دے ۔حضرت علی (ع) کے لئے یہ ضروری تھا کہ معاویہ جیسے خونخوار و سفاک کواس کے منصب پر باقی رکھتے کیوں کہ چند سالوں کے لئے ظلم بر دا شت کر لینے اور اسلامی جا ہ وجلا ل کو گر وی رکھ دینے سے کسی قسم کا نقصان نہیں ہو تا ۔ ان افراد کے مطا بق یہ حضرت علی (ع)کی بد احتیاطی تھی کہ آپ نے اپنے جانی دشمنوں کو نہرسے پانی لینے کی اجازت دے دی اور کسی قسم کی پا بند ی نہیں لگائی ۔ اگر آپ سیا ستداں ہو تے توہزا رو ں انسا نو ں بلکہ خدا کے بندو ں کو پیاس سے ہلا ک کر دیتے تا کہ آپ کی حکو مت کا میدان فراہم ہو جا تا ۔ ان لو گو ں کے بقو ل : چونکہ علی (ع)مدا حو ں کی تعر یف اور چا پلو سی سے بیزا ر تھے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ (العیا ذباللہ ) سیا ست میں مہا رت نہیں رکھتے تھے ۔ کیو نکہ آپ فر ما تے تھے کہ جو نیک کام میں نے ا نجام د یا ہو ا سکی تعر یف نہ کر و کیو نکہ اس کام کو میں نے فر یضہ سمجھ کر کیا ہے اور فر یضہ وذمہ داری پر مدح و تعر یف کا کیا تصور ؟ مجھ سے اس طر ح کی باتیں نہ کیا کروجس طر ح کی با تیں ایک پہلو ان سے کی جا تی ہیں ، چا پلوسی نہ کرو ۔ ان لو گو ں کی نگاہ میںچا پلوسوں پر ما ل ودو لت لٹا د ینا ہی سیا ست ہے! ہم ان سے کچھ نہیں کہنا چا ھتے لیکن اتنا ضرورکہیں گے کہ ان لوگو ں سے ایک د ھو کا ہو گیا ہے ، ان سب نے جنا ب عیسی (ع) کی جگہ اند و بخت النصر کو اپنا رہبر بنا لیا ہے ۔ ہا ں! ایک سیاستداں معا ویہ بھی ہے ۔ اگر اس کی سیاست سے آشنا ئی چا ہتے ہو ں تو اس دستو ر کو پڑھیں جو اس نے سفیا ن بن عو ف غا مدی کے لئے جا ری کیا تھا۔ شر ح نھج البلا غہ (ابن ابی الحد ید ۔جلد اول صفحہ16 )کی اس عبا رت کو ملا حظہ فر ما ئیے : سفیا ن بن عو ف غامدی کھتا ہے : معاویہ نے مجھے بلایا اور کہا کہ تم کو ایک عظیم لشکر کے ہمراہ بھیج رہا ہو ں ، فر ات کے کنا ر ے سے ہو تے ہو ئے ھیت پہنچو ۔ اس پر قبضہ کرو ۔ اگر اہل قر یہ مخا لفت کر یں تو ان سب پر حملہ کر کے جا ن وما ل کو غارت کر دینا ، پھر ھیت سے آگے بڑھ جا نا اور انبا رپہنچ کر بھی یہی کا م کر نا ، اگر وہا ں فو ج نہ ملے تو وہا ں سے بھی آگے بڑھ جا نا اور مدا ئن پہنچ جا نا لیکن ہر گز کو فے کے قر یب نہ جا نا ۔ اچھی طر ح سمجھ لو کہ اگر تم نے انبا رومدا ئن کے سا کنین کو اچھی طرح خو فزدہ کر لیا تو گو یا تم نے کو فے پر دبائو بڑھا لیا ۔ اے سفیا ن اس قسم کی غا رت گری عرا قیو ں کے دل میں وحشت پیدا کر دے گی ۔ اس طر ح ہما رے دو ستو ں کے دل شا د ہو ں گے نیز ان سب کا مو ں سے ڈرجا نے وا لے ،ہما ری طرف ما ئل ہو جا ئیں گے۔ ایسے وقت میں وہ افراد جو تمھا ری را ئے سے متفق نہ ہو ںان کو قتل کر دینا ۔ را ستے میں جو بھی آبا دی ملے اسے تباہ وبرباد کر دینا ، وھاں کے اموال کا مصادرہ کر لیناکیونکہ مال و ثروت کی لو ٹ ما ر ، عمو می قتل کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے اثرات بھی زیا دہ ہو تے ہیں ۔ یہ تھا ایک بڑے سیاست با ز کا حکم جو ایک ایسے اسلامی معا شرے میں تھا جہا ں کے انسا نو ں کی اہمیت بلکہ ایک حقیر چیو نٹی کی وقعت بھی پو ری دنیا سے زیا دہ تھی ۔ لو گو ں کا کہنا ہے کہ چنگیر خان کا زمانہ بھی کیا زما نہ تھا ، افسو س کہ وہ کچھ دیر سے دنیا میں آیا ، کاش! معا ویہ کے زما نے میں ہو تا تا کہ اس کے سیاسی نظر یا ت کے سا منے زا نو ئے ادب تہہ کر کے بیٹھتا اور سیا ست کے آئین سیکھتا ۔ ہا ں! صحیح ہے بعض با تیں سیا ست سے دورہیں ۔ جب دشمن صف آرا ہو کر سا منے آچکا ہوا ور حملہ کرنے کے لئے آمادگی کررہا ہو،تا کہ تشنگی سے یاپانی میں ڈبوکر دشمنوں کوہلاک کردے ۔ایسے وقت میں حضرت علی(ع) ،خدا کی بارگاہ میں ہاتھ بلند کرتے ہوئے دعا فرماتے ہیں : خدایا ! لو گو ں کے قلوب تیری طرف راغب ہیں ، گرد نیں جھکی ہوئی ہیں اور آنکھیں تیری ذات سے امید یں لگا ئے ہوئے ہیں اور ہر گروہ کی دلی کدورت وعداوت ظاہر ہو چکی ہے ، کینہ توزی کا بازارگرم ہے ،خدا وند ا! پیغمبر اسلام(ص) کی غیبت ، دشمنوں کی کثرت اور نظریات کی پراگندگی کے لئے تجھ سے شکایت کرتا ہوں۔ پروردگار ا!ہمیںہمارے دشمنوں پر حقیقی فتح عنایت فرما،توہی بہتر ین فتح عطا کرنے والاہے ۔ (نھج البلاغہ ج /2ص/102) یا جنگ شروع ہونے سے قبل اپنے لشکر کو یہ حکم دیتے ہیں : خبردار! اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا جب تک وہ لوگ پہل نہ کردیں کہ تم بحمد اللہ اپنی دلیل رکھتے ہو اور انہیں اس وقت تک موقع نہ دینا جب تک پہل نہ کر دیں کہ یہ ایک دوسری حجت ہو جائیگی۔ اس کے بعد جب حکم خدا سے دشمن کو شکست ہو جائے تو کسی بھاگنے والے کو قتل نہ کرنا اور کسی عاجز کو ہلاک نہ کرنا نیز کسی زخمی پر قاتلانہ حملہ نہ کرنا اور خواتین کو اذیت مت دینا چاہے وہ تمھیں گالیا ں ہی کیوںنہ دیں اور تمہارے حکام کو برا بھلاہی کیوںنہ کہیں ۔(نھج البلاغہ مکتوب /14 ،ج /3ص/16) کہا جاتا ہے کہ سیاست کی تعریف میںذکر ہونے والا ایک عام سیاستداں جب مقام عمل میں قدم رکھتاہے تو اپنے اور معاشرہ کے درمیان موجود رابطے کے سلسلے میں دھو کا کھاجاتاہے کیونکہ شروع میں تو خود کو سماج کا خدمت گزار سمجھتا ہے لیکن میدان عمل میں اترتے ہی معاشرہ کو اپنا خادم سمجھ لیتا ہے ۔ فقط حالی موالی ہوتے ہیں جنہیں اسکی مصاحبت سے فائدہ پہنچتاہے ۔ اس سلسلے میں حضرت علی(ع) کے نظریے کو بھی معلوم کرنا ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں : انی اریدکم للہ وانتم تریدونی لا نفسکم اس مختصر سے جملہ کے ذریعے حضرت علی(ع) کی شناخت اور ان کے بیانات کی حقیقت معلوم ہوسکتی ہے۔ تاریخ میںایسے شواھدمل جا ئیں گے جن کے مطابق متعدد سیاسی رہبروں نے ہر طرح کی ذمہ داری سے خودکو ا زاد کر کے لوگوں کو اپنا زر خرید غلام تصور کر لیا تھایہی نہیں بلکہ پورے پورے علا قوں کوتاراج بھی کر دیا تو کوئی اف تک کرنے کی جرات نہیں رکھتا تھا ۔ اس طرح وہ لوگ اپنی مطلق العنان سیاست کا رنگ دکھاتے تھے لیکن حضرت علی (ع) فر ما تے ہیں : ا لاو انی اقا تل رجلین رجل اد عی ما لیس لہ، رجل منع الذی علیہ ( میں دو لو گو ں سے ہمیشہ نبر د آزما ئی کر وں گا : ایک وہ جو ایسی صفت کا دعو ی کرے جو ا سمیں نہیں پا ئی جا تی ، دو سر ا وہ شخص جو اپنے حق کو اداکر نے سے انکا ر کر دے ۔ نھج البلا غہ ج /2 ص/105 ) اب ایسے اشخاص طلحہ وزبیر ہو ں کہ سر دار قوم کہلا ئیں یا عرب کا ایک عا م با شند ہ ہو ،ا لبتہ ایسی صورت میں طلحہ وزبیر اگر ہوں تو جنگ جمل بر پا کر د یں گے کیونکہ بعض لو گو ں کی نگا ہ میں یہ سیاست کے خلا ف کا م ہے اس لئے جنگ ہو نا ہی چاہئے ۔ یہیں پر میں حضرت علی (ع) کے اس جملہ کو بھی لکھنا چا ہو ں گا : ا یھا الناس انما انا رجل منکم لی مالکم و علی ما علیکم (نھج البلا غہ ج 2 ص58) یعنی لو گو!میں تمھاری ہی طرح ایک مسلمان ہو ں لھذا ہر وہ چیز جو تمھارے لئے مفید ہو میر ے لئے بھی مفید ہے اور جو نقصا ندہ ہو وہ میر ے حق میں بھی نقصاندہ ہے ۔ یہاں پر یہ کہنے کی ضرو رت نہیں ہے کہ سیاست کے اس معنی عوا م کی عوام پر حکو مت ان دنیا وی سیاستدانو ں سے بہت دور ہے کیو نکہ تا ر یخ کے آئینے میںہم د یکھتے ہیں کہ اگر ان کا بس چلتا تو وہ ستارو ں اور کہکشا ئو ں کو بھی رام کر لیتے اگر چہ اس سے ان کو فا ئدے کے بجا ئے نقصان ہی کیو ں نہ اٹھا نا پڑتا ۔ اب میں اپنی اس گفتگو کو اس شخصیت کے ایک جملے سے مکمل کر تا ہو ں جو حقیقی اور بے مثا ل سیا ستداں ہو نے کے سا تھ ساتھ دنیا کے ہر میدا ن میں کامیاب دکھا ئی دیتا ہے۔ ہم ایسے زمانے میں ز ندگی گزاررہے ہیں جہا ں اکثر افراد مکر و فر یب کو ہو شیا ر ی سمجھتے ہیں اور نا دان لو گ اس قسم کے حیلو ں کو راہ حل سمجھتے ہیں ۔ان کا عذر کیا ہے ؟ خدا ان کوہلا ک کر ے ، ایک حقیقی رہبر ان تمام دھو کو ں کو بخوبی سمجھتا ہے لیکن خود بھی اسے اختیا ر نہیں کر تا کیو نکہ خدا کا حکم اس کے قدم روک دیتا ہے ۔ اسی احسا س کے تحت وہ دھو کہ دہی کی راہ پر نہیں چلتا لیکن جس کو دین کا درد نہ ہو وہ ایسے کا مو ں میں پو ری طر ح ڈوب جا تاہے ۔ (نھج البلا غہ ج 1ص 88) ایک اور جگہ آپ فر ما تے ہیں : اگر خدا کا تقو ی نہ ہو تا تو میں انسا نوں ( یا ایک نسخے کے مطا بق عر بو ں ) میں سب سے بڑا سیاستدا ں ہو تا (لو لا التقی لکنت ادھی الناس ) یہی چیز آپ کی پو ری ز ندگی میں نما یا ں طو ر پر دکھا ئی دیتی ہے جس کے مطا لعہ سے تمام با تیں رو شن ہو جا ئیں گی ۔ہم فقط بعض نمونے پیش کر تے ہیں : (1) ۔ ا کثر تا ر یخو ں میں ملتا ہے کہ جب خلا فت کی ر سہ کشی چل رہی تھی اس وقت جو پیشین گو ئی آپ (ع)نے فر ما ئی وہ پو ری طر ح صحیح ثا بت ہوئی۔ مثا ل کے طور پر جب دوم آپ سے اول کے ہا تھ پر بیعت کا اصرار کر رہا تھا تو آپ نے فر ما یا: اس کے لئے دو دھ دو ہو یقینا تھو ڑا بہت بعد میں تمھیں بھی مل جا ئے گا اس سلسلے میں کسی مورخ نے اختلا ف نہیں کیا ہے کہ دو می کی خلا فت صرف اول کی تائید سے ہو ئی تھی ور نہ اس کے سلسلے میں کسی قسم کی شو ری یا انتخاب کا چکر نہیں تھا ۔ (2)۔اسی طرح جب جنگ صفین میں پہلے سے طے شدہ پر و گرا م کے مطا بق نیز وں پر قرآن کو بلند کیا گیا اور آپ نے اس کو د یکھا نیز ان کے نعر ے لا حکم الا للہ کو سنا تو فر ما یا : یہ ایک کلمہ حق ہے مگر اس سے با طل معنی مرا د لئے جا رہے ہیں ۔ یہاں پر کو ئی بھی مو ر خ ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ اس جملے کو بیا ن کر نے سے قبل آپ نے پہلے لشکر کے سپہ سالا رو ں سے تبا دلہ خیا ل کیا ہو پھر یہ کلمات کہے ہو ں بلکہ سب نے لکھا کہ جیسے ہی اس منظر کو آپ نے د یکھا اسی وقت یہ جملہ ارشا د فر ما یا تھا ۔ (3) ۔ طلحہ وزبیر کے وا قعہ کو بھی غور سے دیکھیں۔ ان دونو ں نے آ کر کہا کہ ہم چا ھتے ہیں کہ مکے جا کر عمر ہ کر یں تو آپ نے فر مایا : تمھا ری نیت میں حج یا عمرہ نہیں بلکہ حیلہ وفر یب ہے ۔ اس کے علا وہ ہزا رو ں مواقع پر حضرت علی (ع) نے پیشین گو ئی فر ما ئی تھی جو بعد میں پوری طرح صحیح ثابت ہوئی ۔ مندرجہ ذیل سطروں میں ہم تین نکات پر روشنی ڈالیں گے ۔ الف۔حضرت امیر المومنین- کی سیاست یہ تھی کہ معاشرے کو اسلامی عدالت کے ساتھ چلایا جائے۔ امام کی سیاست یہ تھی کہ حاکمیت اور حکومت ہدف اور مقصد نہیں ہے بلکہ وسیلہ ہے اسلام کو بچانے کا اور اس کی سیاسی حکمت عملی کو انجام دینے کا ۔ اس سلسلے میں خود حضرت امیر امومنین- فرماتے ہیں کہ: یہاں تک کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کچھ لوگ اسلام سے پلٹ گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو نابود کردیں(یہاں پر ) میں ڈرگیا کہ اگر اسلا م اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں توشاید ان کی نابودی اور اسلا م میں شگاف کا منظر دیکھوں اور یہ مصیبت میرے لئے حکومت اور خلافت چھوڑنے سے زیادہ سخت ہے۔ (خطبہ ٢٦نہج البلاغہ) یہاں سے ہم امام اور معاویہ کی سیاست میں فرق کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔معاویہ اصلاح امور کے نام پر ہر چیز کرنے کو تیار تھا چاہے وہ اسلا م کے خلاف ہی کیوں نہ ہو جبکہ حضرت امیر المومنین ہر کام کو انجام دیتے تھے مگر اسلام کے دائرے میں رہ کر۔ جب حضرت امیر المومنین نے زمام حکومت کو ہاتھ میں لیا تو فرمایا کہ: اگر خداکا عہد و پیمان نہ ہوتا علما اور دانشوروں سے کہ وہ ظالموں کے بھرے پیٹ اور مظلوموں کی بھوک کے سامنے خاموش نہ رہیں ، میں خلافت کی رسی کو چھوڑدیتا اور اپنی آنکھیں بند کرلیتا۔(خطبہ ٣ نہج البلاغہ ) معاویہ اپنی سیاست میں اگر مکرو فریب سے کام نہ لیتا تو کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا تھا ۔حضرت امیر المومنین- مشروع اور جائز سیاست میں کامیاب رہے لیکن نامشروع اور ناجائز سیاست میں کبھی آگے نہ بڑھے ۔ خود حضرت امیر المومنین- اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست دان نہیں ہے لیکن دھوکہ بازی اور گناہ کرتاہے اگر دھوکہ بازی ایک بری صفت نہ ہوتی تومیں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سیاست دان شخص ہوتا۔(خطبہ٢٠٠ ،نہج البلاغہ) یا ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : اگر دھوکہ دہی آتش جہنم کا سبب نہ ہوتی تومیں سب سے زیادہ فریب دینے والا انسان ہوتا۔(منھاج البراع جلد١٢ صفحہ ٣٦٦) کچھ لوگوں نے معاویہ کی حکومت کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھا کہ معاویہ حضرت امیر المومنین سے زیادہ عقلمند ہے البتہ ایسے لوگ عقل کی صحیح تعریف نہیں جانتے تھے۔ کسی نے حضرت امام صادق سے پوچھا کہ عقل کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا: عقل و ہ ہے جس کے ذریعے سے خدا کی عبادت کی جائے اور بہشت کو خریدا جائے۔ پوچھنے والے نے پوچھا ، تو پھر معاویہ کی عقل کیا تھی ۔حضرت نے فرمایا: “تلک النکرا تلک الشیطن ، وھی شبیھ بالعقل ولیست بالعقل” وہ دھوکہ بازی تھی و ہ شیطنت تھی وہ ظاہری شباہت عقل سے رکھتی تھی لیکن عقل نہیں تھی ۔ (اصول کافی جلد ١صفحہ ١١ باب العقل والجہل جلد٣ ) ب۔ امام کی سیاست گمراہ افراد سے دوری حضرت امیر المومنین- کی سیاست لوگوں کے ساتھ دو طرح کی تھی وہ افراد جو لائق اور قابل تھے ان کو اپنی طرف جذب کرلیتے تھے جیسے مالک اشتر، عمار(ر حمة اللہ) یاسر(رحمة اللہ)،کمیل بن زیاد وغیرہ اور جو افراد اس قابل نہیں تھے ان کو اپنے سے دور کردیتے تھے کیونکہ حضرت امیر المومنین- کی تربیت ایسے ماحو ل میں ہوئی جیسا کہ خداوند ارشاد فرماتاہے کہ : ” میں کبھی بھی گمراہوں کو اپنا بازو قرارنہیں دیتا “(کہف٥١ ) سقیفہ کے برقرار ہونے کے بعد ابوسفیا ن جو کہ مختلف وجوہ کی بنا پر ابوبکر کی حکومت سے خوش نہیں تھا کچھ افراد کے ساتھ امام کے حضور آیا تاکہ حضرت کی بیعت کرے اسی ضمن میں اس نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تومیں عظیم لشکر کے ساتھ آپ کی حمایت کروں۔ امام جو ابو سفیان کو اچھی طرح سے جانتے تھے اسکی ان باتوں میں نہیں آئے اور اسکے جواب میں فرمایا: اے لوگو! فتنہ کی پہاڑ جیسی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے توڑدو۔ اختلافات اور بکھرنے سے باز آ بلند پروازی اور برتری کے تاج کو اپنے سر سے اتار پھینکو۔(خطبہ٥ نہج البلاغہ) امام- اپنی سیاسی بالا نظری کی وجہ سے جانتے تھے کہ یہ وقت حکومت ہاتھ میں لینے کا وقت نہیں اسی لئے جملہ کے بعد حضرت نے فرمایا: کچے پھل کو توڑنا ایسا ہے جیسے نمکین زمین میں بیج بونا۔ ج۔ امام-کی سیاست ،آزاد منش افراد کی حمایت امام نے ہمیشہ آزاد منش افراد کی حمایت کی اس سلسلے میں جو اہم واقعہ ہم کو امام کی زندگی میں نظر آتا ہے وہ ابو ذر غفاری کی جلا وطنی کاہے ویسے تو کئی واقعات ہیں لیکن کیونکہ یہ واقعہ اس زمانہ کا ہے کہ جب امام کے ہاتھ میں زمام حکومت نہیں اور حکومت وقت صحابی رسول کو جلاوطن کررہی ہے۔ مدینہ کے اندر کرفیو نافذ ہے خلیفہ وقت کی طرف سے حکم تھا کہ کوئی بھی ابوذر سے خدا حافظی نہ کرے اور اس نے مروان کو حکم دیاکہ جو کوئی بھی خداحافظی کے لئے آئے اسکو پکڑلو۔ لیکن اما م نے حکومت کے ان احکامات کی پرواہ نہ کی اور اپنے فرزندان گرامی حسن و حسین، اپنے بھائی عقیل اور عمار یاسر کے ساتھ ابوذر کو رخصت کرنے کیلئے گئے ۔اسی اثنا میں کہ جب امام حسن ابوذر سے باتیں کررہے تھے مروان نے پکارا کہ اے حسن خاموش ہوجا کیا خلیفہ کا حکم نہیں سنا کہ ابوذر سے باتیں کرنا منع ہے۔امام علی نے آگے بڑھ کے مروان کے سامنے آئے اور فرمایا دور ہوجا خدا تمہیں آتش جہنم میں ڈالے۔ امام اور ان کے چاہنے والوں کا یہ کام صد در صد سیاسی تھا اور حکومت وقت کے خلاف تھا کیونکہ ابو ذر کا عمل حکومت کے خلاف صحیح ہے اور حکومت کا رویہ غلط تھا ہما ری اس گفتگو کا خلا صہ یہ ہے کہ حضرت علی (ع) سیا ست کے اس حقیقی معنی ومرا د سے بخوبی وا قف تھے جس کی آرزو ہر فر زند آدم کر تا ہے نیز اس پر عمل پیر ا بھی تھے ۔ اسی طرح سیاست کے دوسر ے غلط معنی کو بھی جا نتے اور سمجھتے تھے جس سے مراد ، مقصد معین کر کے ہر و سیلہ سے اس تک پہنچنا ہے لیکن چو نکہ یہ انسا نو ں کے لئے نقصاندہ ہے اس وجہ سے آپ نے اسے اختیار نہیں فر مایا ۔