حضرت اِمام حسّن مُجتبیٰ علیہ السلام
حسن نام , مجتبیٰ لقب اور ابو محمد کنیت تھی . رسول کی معزز بیٹی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے بطن سے حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے بڑے فرزند تھے .ولادت15رمضان المبارک کو ہجرت کے تیسرے سال اپ کی ولادت ہوئی رسول کے گھر میں اپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی . جب مکہ معظمہ میں رسول کے بیٹے یکے بعد دیگرے دنیا سے جاتے رہے اور سوائے لڑکی کے اپ کی اولاد میں کوئی نہ رہا تو مشرکین طعنے دینے لگے اور اپ کو بڑا صدمہ پہنچا اور اپ کی تسلّی کے لیے قران مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں اپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے اپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل اپ نہیں بلکہ اپ کا دشمن ہوگا .حضرت امام حسن علیہ السلام کی مدینہ میں انے کے تیسرے ہی سال پیدائش گویا سورۃ کوثر کی پہلی تفسیر تھی . دنیا جانتی ہے کہ انہی امام حسن علیہ السلام اور ان کے چھوٹے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ذریعہ سے اولادِ رسولکی وہ کثرت ہوئی کہ باوجود ان کوششوں کے جو دشمنوں کی طرف سے اس خاندان کے ختم کرنے کی ہمیشہ ہوتی رہیں جن میں ہزاروں کوسولی دے دی گئی . ہزاروں تلواروں سے قتل کیے گئے اور کتنوں کو زہر دیا گیا . اس کے باوجوداج دُنیا الِ رسول کی نسل سے چھلک رہی ہے۔ عالم کا کوئی گوشہ مشکل سے ایسا ہوگا جہاں اس خاندان کے افراد موجود نہ ہوں . جبکہ رسول کے دشمن جن کی اس وقت کثرت سے اولاد موجودتھی ایسے فنا ہوئے کہ نام ونشان بھی ان کا کہیں نظر نہیں اتا . یہ ہے قران کی سچائی اور رسول کی صداقت کا زندہ ثبوت جو دنیا کی انکھوں کے سامنے ہمیشہ کے لیے موجود ہے اور اس لیے امام حسن علیہ السّلام کی پیدائش سے پیغمبر کو ویسی ہی خوشی نہیں ہوئی جیسی ایک نانا کو نواسے کی ولادت سے ہونا چاہیے۔ بلکہ اپ کو خاص مسرت یہ ہوئی کہ اپ کی سچائی کی پہلی نشانی دنیاکے سامنے ائی۔ ساتویں دن عقیقہ کی رسم ادا ہوئی اور پیغمبر نے بحکم خدا اپنے اس فرزند کا نام حسن علیہ السلام رکھا.یہ نام اسلام کے پہلے نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہ سب سے پہلے پیغمبر کے اسی فرزند کا نام قرار پایا . حسین علیہ السلام ان کے چھوٹے بھائی کانام بھی بس انہی سے مخصو ص تھا۔ ان کے پہلے کسی کا یہ نام نہ ہوا تھا۔تربیتحضرت امام حسن علیہ السلام کو تقریباً اٹھ برس اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سایہ عاطفت میں رہنے کا موقع ملا/ رسالت ماب اپنے اس نواسے سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کے واقعات دیکھنے والوں نے ہمیشہ یا درکھے۔ اکثر حدیثیں محبت اور فضیلت کی حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام دونوں صاحبزادوں میں مشترک ہیں۔ مثلاً حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام جوانانِ بہشت کے سردار ہیں .»دونوں گوشوارئہ عرش ہیں .,, »یہ دونوں میرے گلدستے ہیں .,, »خداوندا میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھنا,, اور اس طرح کے بےشمار ارشادات پیغمبر کے دونوں نواسوں کے بارے میں کثرت سے ہیں , اُن کے علاوہ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ عام قاعدہ یہ ہے کہ اولاد کی نسبت باپ کی جانب ہوتی ہے مگر پیغمبر نے اپنے ان دونوں نواسوں کی یہ خصوصیت صراحت کے ساتھ بتائی کہ انھیں میرا نواساہی نہیں بلکہ میرافرزندکہنادرست ہے .یہ حدیث حضرت کی تمام اسلامی حدیث کی کتابوں میں درج ہے .حضرت نے فرمایا خدا نے ہر شخص کی اولاد کو خود اس کے صلب سے قرار دیا اور میری اولاد کو اس نے علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کی صلب سے قرار دیا . پھر بھلا ان بچوں کی تربیت میں پیغمبر کس قدر اہتمام صرف کرنا ضروری سمجھتے ہوں گے جب کہ خود بچّے بھی وہ تھے جنھیں قدرت نے طہارت وعصمت کالباس پنا کر بھیجا تھا , ایک طرف ائینے اتنے صاف اس پر رسول کے ہاتھ کی جلا, نتیجہ یہ تھا کہ بچے کم سنی ہی میں نانا کے اخلاق واوصاف کی تصویر بن گئے , خود حضرت نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ حسن میںمیرا رعب وداب اور شان سرداری ہے اور حسین علیہ السّلام میں میری سخاوت اور میری جرات ہے . شان سرداری گویامختصر سالفظ ہے مگر اس میں بہت سے اوصاف وکمال کی جھلک نظر ارہی ہے . اس کے ساتھ مختلف صورتوں سے رسول نے بحکمِ خدا اپنے مشن کے کام میں ان کو اسی بچپن کے عالم میں شریک بھی کیا جس سے ثابت بھی ہوا کہ پیغمبر اپنے بعد بمنشا الٰہی حفاظت ُ اسلام کی مہم کو اپنے ہی اہلیبت علیہ السّلام کے سپرد کرنا چاہتے ہیں . اس کاایک موقع مباہلہ کے میدان میں تھا .حضرت حسن علیہ السلام بھی اپنے ناناکے ساتھ ساتھ تھےرسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہوگئی او ر امام حسن علیہ السلام اس مسرت اور اطمینان کی زندگی سے محروم ہوئے . نانا کی وفات کے تھوڑے ہی دن بعد امام حسن علیہ السلام کو اپنی مادرِ گرامی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا . اب حسن علیہ السّلام کے لیے گہوارہ تربیت اپنے مقدس باپ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات تھی .حسن علیہ السّلام اسی دور میں جوانی کی حدوں تک پہنچے اور کمال شباب کی منزلوں کوطے کیا .پچیس برس کی خانہ نشینی کے بعد جب حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو مسلمانوں نے خلیفہ ظاہری کی حیثیت سے تسلیم کیا اور اس کے بعد جمل , صفین اور نہروان کی لڑائیاں ہوئیں تو ہر ایک جہاد میں حسن علیہ السّلام اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ساتھ بلکہ بعض موقعوں پر جنگ میں اپ نے کار نمایاں بھی دکھلائے .خلافت12 ماہ رمضان 04ھئمیںحضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کی شہادت ہوئی . اس وقت تمام مسلمانوں نے مل کر حضرت امام حسن علیہ السّلام کی خلافت تسلیم کی . اپ پر اپنے والد بزرگوار کی شہادت کا بڑااثر تھا . سب سے پہلا خطبہ جو اپ نے ارشاد فرمایا اس میںحضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کے فضائل ومناقب تفصیل کے ساتھ بیان کئے . جناب امیر علیہ السّلام کی سیرت اور مال دُنیا سے پرہیز کا تذکرہ کیا . اس وقت اپ پر گریہ کااتنا غلبہ ہوا کہ گلے میں پھندا پڑگیا اور تمام لوگ بھی اپ کے ساتھ بے اختیار رونے لگے.پھر اپ نے اپنے ذاتی اور خاندانی فضائل بیان کیے . عبداللهابن عباس رض نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی . سب نے انتہائی خوشی اور رضا مندی کے ساتھ بیعت کی اپ نے مستقبل کے حالات کاصحیح اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں سے صاف صاف یہ شرط کردی کہ »اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہوگی او راگر میں جنگ کروں تو تمھیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہوگی , سب نے اس شرط کو قبول کرلیا . اپ نے انتظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا . اطراف میں عمال مقرر کئے , حکام متعین کئے اور مقدمات کے فیصلے کرنے لگے . یہ وقت وہ تھا کہ دمشق میں حاکم شام معاویہ کا تخت ُ سلطنت پر قبضہ مضبوط ہوچکا تھا .حضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کے ساتھ صفین میں جو لڑائیاں حاکمِ شام کی ہوئی تھیں ان کا نتیجہ تحکیم کی سازشانہ کاروائی کی بدولت حاکم ُ شام کے موافق نکل چکا تھا ادھر حضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب کی سلطنت کے اندر جہاں اب حضرت امام حسن علیہ السّلام حکمران ہوئے تھے باہمی تفرقے اور بددلی پیدا ہو چکی تھی خود جناب امیر علیہ السّلام احکام کی تعمیل میں جس طرح کوتاہیاں کی جاتی تھیں وہ حضرت کے اخر عمر کے خطبوں سے ظاہر ہے ,خوارج نہروان کا فتنہ مستقل طور پر بے اطمینان کاباعث بنا ہوا تھا جن کی اجتماعی طاقت کو اگرچہ نہروان میں شکست ہوگئی تھی مگر ان کے منتشر افراد اب بھی اسی ملک کے امن وامان کو صدمہ پہنچانے پر تلے ہوئے تھے یہاںتک کہ بظاہر اسی جماعت کا ایک شخص تھا جس نے حضرت امیر علیہ السّلام کے سر پر مسجد میں ضربت لگائی اور جس کا صدمہ سے اپ کی وفات ہوئی تھی .
ابھی ملک حضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کے غم میں سوگوار تھا اور حضرت امام حسن علیہ السّلام پورے طور پر انتظامات بھی نہ کرچکے تھے کہ حکام شام کی طرف سے اپ کی مملکت میں دراندازی شروع ہوگئی اور ان خفیہ کارکنوں نے اپنی کاروائیں جاری کردیں چنانچہ ایک شخص قبیلہ حمیر# کا کوفہ میںا ورایک شخص بنی قین میں سے بصرہ میں پکڑا گیا یہ دونوں اس مقصد سے ائے تھے کہ یہاں کے حالات سے دمشق میں اطلاع دیں اور فضا کو امام حسن علیہ السّلام کے خلاف ناخوشگوار بنائیں غنیمت ہے کہ اس کاانکشاف ہوگیا حمیر والا ادمی کوفہ میں ایک قصائی کے گھر سے اور قین والاا دمی بصرہ میں بنی سلیم کے یہاں سے گرفتار کیا گیا اور دونوں کو جرم کی سز ادی گئی .اس واقعہ کے بعد حضرت امام حسن علیہ السّلام نے معاویہ کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ تم اپنی دراندازیوں سے نہیں باز آتے . تم نے لوگ بھیجے ہیںکہ میرے ملک میںبغاوت پیدا کرائیں اور اپنے جاسوس یہاں پھیلا دئیے ہیں . معلوم ہوتا ہے کہ تم جنگ کے خواہشمند ہو ایسا ہو تو پھر تیار ہو , یہ منزل کچھ دور نہیں . نیز مجھ کو خبر ملی ہے کہ تم نے میرے باپ کی وفات پر طعن وتشنیع کے الفاظ کہے . یہ ہر گز کسی ذی ہوش ادمی کا کام نہیں ہے . موت سب کے لیے ہے اج ہمیں اس حادثے دوچار ہونا پڑا تو کل تمھیں ہوناہوگا اور حقیقت یہ ہے کہ »ہم اپنے مرنے والے کو مرنیوالا سمجھتے نہیں . وہ تو ایسا ہے . جیسے ایک منزل سے منتقل ہو کر اپنی دوسری منزل میں جا کر ارام کی نیند سوجائے .,,اس خط کے بعد حاکم شام اور امام علیہ السّلام حسن علیہ السّلام کے درمیان بہت سے خطوط کی ردوبدلی ہوئی . حاکم شام کواپنے جاسوسوں کے ذریعہ سے اہل کوفہ کے باہمی تفرقہ اور بددلی اور عملی کمزوریوں کا علم ہوگیا . اس لیے وہ سوچنے لگا کہ یہی موقع ہے کہ عراق پر حملہ کر دیا جائے . چناچہ وہ اپنی فوجوں کو لے کر عراق کی حدود تک پہنچ گئے . اس وقت حضرت امام حسن علیہ السّلام نے بھی مقابلہ کی تیاری کی حجر بن عدی کو بھیجا کہ وہ دورہ کرکے اطراف ُ ملک کے احکام کو مقابلے کے لیے امادہ کریں اور لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کریں مگر جو خیال تھا وہی ہوا کہ عام طورپر سردمہری سے کام لیا گیا . تھوڑی فوج تیار ہوئی تو ان میں کچھ فرقہ خوارج کے لوگ تھے کچھ شورش پسند اور مال غنیمت کے طلبگار او رکچھ لوگ صرف اپنے سردارانِ قبائل کے دباؤ سے شریک تھے , بہت کم وہ لوگ تھے جو واقعی حضرت علی علیہ السّلام اور امام علیہ السّلام حسن علیہ السّلام کے شیعہ سمجھے جاسکتے تھے .ادھر معاویہ نے عبدالله ابن عامر ابن کریز کو اگے روانہ کیااور اس نے اس مقام انبار میں جاکر چھاؤنی بنائی ادھرحضرت امام حسن علیہ السّلام اس کے مقابلہ کے لے روانہ ہوئے اور مقامِ دیر کعب کے قریب ساباط# میںقیام کیا . یہاں پہنچ کر اپ نے لوگوں کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے سب کو جمع کرکے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا مضمون یہ تھا کہ »دیکھو مجھے کسی مسلمان سے کینہ نہیں ہے , میں تمھارا اتنا ہی بہی خواہ ہوں جتنا خود اپنی ذات کی نسبت مجھے ہونا چاہیے . میں تمھارے بارے میں ایک فیصلہ کن رائے قائم کرتا رہا ہوں .امید ہے کہ تم میری رائے سے انحراف نہ کرو گے . میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے اکثر کی ہمت جہاد سے پست ہوگئی ہے اور میں کسی طرح یہ صحیح نہیں سمجھتا کہ تمھیں بادل ناخواستہ کسی مہم پر مجبور کروں .,,اس تقریر کاختم ہونا تھا کہ مجمع میں ہنگامہ پید اہوگیا . یقینی علی علیہ السّلام جیسے بہادر باپ کا بہادر فرزند تن تنہا اس ہنگامہ اور جماعت کا مقابلہ کرنے کے لے کافی تھا .اگر یہ کھلم کھلا دشمنوں کی جماعت ہوتی مگر اس کے پہلے خود حضرت علی علیہ السّلام بھی اس وقت بظاہر بے بس ہوگئے تھے . جب نیزوں پر قران اونچے کیے جانے کے بعد صفین میں خود اپ کی فوج کے ادمی اپ کو گھیر کر کھڑے ہوگئے تھے کہ آپ جنگ کو روکئے. نہیں تو ہم آپ کو قید کر کے دشمن کے سپرد کر دیں گے. اس وقت جناب امیر علیہ السّلام نے ایسا نہیں کیا کہ تلوار لے کر لڑنے لگتے بلکہ مجبوراً جنگ کو ملتوی فرمایا. اس سے زیادہ سخت صورت سے اس وقت امام حسن علیہ السّلام کو سامنا کرنا پڑا کہ مجمع نے اپ پر حملہ کردیا اور مصلّٰی قدم کے نیچے سے کھینچ لیا . چادر اپ کے دوش سے اتارلی .اپ گھوڑے پر سوار ہوئے اور اواز بلند کی کہ کہاں ہیں ربیعہ او ہمدان# , فوراً یہ دونوں جانثار قبیلے اَدھر اُدھر سے دوڑ پڑے اور لوگوں کو اپ سے دورکیا . اپ یہاں سے مدائن کی طرف روانہ ہوئے مگر جراح ابن قبیصہ اسدی ایک شخص انہی خوارج میں سے کمین گاہ میں چھپ گیااور اس نے اپ پر خنجر سے وار کیا جس سے اپ کی ران زخمی ہوگئی , حملہ اور گرفتار کیا گیا اور اسے سزا دی گئی . عرصہ تک مدائن میں علاج ہونے کے بعد اپ اچھے ہوئے او پھر معاویہ کی فوج سے مقابلہ کی تیاری کی .صلححاکم شام کو حضرت امام حسن علیہ السّلام کی فوج کی حالت اور لوگوں کی بے وفائی کا علم ہوچکا تھا اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ امام حسن علیہ السّلام کے لے جنگ کرنا ممکن نہیں ہے مگر اس کے ساتھ وہ یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ حضرت امام حسن علیہ السّلام کتنے ہی بے بس اور بے کس ہوں مگر وہ علی علیہ السّلام وفاطمہ کے بیٹے اور پیغمبر کے نواسے ہیں اس لیے وہ شرائط پر ہر گز صلح نہ کریں گے جو حق پرستی کے خلاف ہوں اور جن سے باطل کی حمایت ہوتی ہو . اس کو نظر میں رکھتے ہوئے انھوں نے ایک طرف تو اپ کے ساتھیوں کو عبداللهابن عامر کے ذریعے سے یہ پیغام دلوایا کہ اپنی جان کے پیچھے نہ پڑو اور خونریزی نہ ہونے دو . اس سلسلے میں کچھ لوگوں کو رشوتیں بھی دی گئیں اور کچھ بزدلوں کو اپنی تعداد کی زیادتی سے خوف زدہ بھی کیا گیا اور دوسری طرف امام حسن علیہ السّلام کے پاس پیغام بھیجا کہ اپ جن شرائط پر کہیں انہی شرائط پر میں صلح کے لیے تیار ہوں .امام حسن علیہ السّلام یقیناً اپنے ساتھیوں کی غداری کو دیکھتے ہوئے جنگ کرنا مناسب نہ سمجھتے تھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ ضرور پیش نظر تھا کہ ایسی صورتِ پیدا ہوکہ باطل کی تقویت کادھبہ میرے دامن پر نہ آنے پائے . اس گھرانے کوحکومت واقتدار کی ہوس تو کبھی تھی ہی نہیں . انھیں تو مطلب اس سے تھا کہ مخلوقِ خدا کی بہتری ہو اورحدودوحقوق الٰہی کا اجرا ہو اب معاویہ نے جو اپ سے منہ مانگے شرائط پر صلح کرنے کے لیے امادگی ظاہر کی تو اب مصالحت سے انکار کرناشخصی اقتدار کی خواہش کے علاوہ اور کچھ نہیں قرار پاسکتا تھا . یہ حاکم شام صلح کے شرائط پر عمل نہ کریں گے بعد کی بات تھی . جب تک صلح نہ ہوتی یہ انجام سامنے اکہاں سکتا تھا او رحجت تمام کیونکر ہوسکتی تھی , پھر بھی اخری جواب دینے سے قبل اپ نے ساتھ والوں کو جمع کیا اور تقریر فرمائی .»اگاہ رہو کہ تم میں دو خونریز لڑائیں ہوچکی ہیں جن میں بہت لوگ قتل ہوئے کچھ مقتول صفین# میں ہوئے جن کے لیے اج تک رورہے ہو , اور کچھ فضول نروان کے جن کا معاوضہ طلب کر رہے ہو اب اگر تم موت پر راضی ہوتوہم ا س پیغام صلح کو قبول نہ کریں اوران سے الله کے بھروسے پر تلواروں سے فیصلہ کرائیں اور اگر زندگی کو دوست رکھتے ہو تو ہم اس کو قبول کرلیں اور تمھاری مرضی پر عمل کریں« جواب میں لوگوںنے ہر طرف سے پکارنا شروع کیا کہ »ہم زندگی چاہتے ہیں , اپ صلح کرلیجئے .,, اس کا نتیجہ تھا کہ اپ نے صلح کے شرائط مرتب کرکے معاویہ کے پاس روانہ کئے.شرائط صلحاس صلح نامہ کے مکمل شرائط حسبِ ذیل تھے.1. یہ کہ معاویہ حکومتِ اسلام میں کتاب خدااور سنتِ رسول پر عمل کریں گے.2. دوسرے یہ کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی خلیفہ کے نامزد کرنے کا حق نہ ہوگا.3. یہ کہ شام وعراق وحجازویمن سب جگہ کے لوگوں کے لیے امان ہوگی.4. یہ کہ حضرت علی علیہ السّلام کے اصحاب اور شیعہ جہا ں بھی ہیں ان کے جان ومال اور ناموس واولاد محفوظ رہیں گے .5. معاویہ حسن علیہ السّلام ابن علی علیہ السّلام اور ان کے بھائی حسین علیہ السّلام ابن ُ علی علیہ السّلام اور خاندانِ رسول میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان پہنچانے یاہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں گے نہ خفیہ طریقہ پر اور نہ اعلانیہ اور ان میں سے کسی کو کسی جگہ دھمکایا اور ڈرایا نہیں جائے گا .6. جناب امیر علیہ السّلام کی شان میں کلمات ُ نازیبا جو اب تک مسجدجامع اور قنوت نماز میں استعمال ہوتے رہے ہیں وہ ترک کردیئے جائیں . اخری شرط کی منظوری میں معاویہ کو عذر ہو اتو یہ طے پایا کہ کم از کم جس موقع پر امام حسن علیہ السّلام موجود ہوں اور اس موقع پر ایسانہ کیا جائے . یہ معاہدہ ربیع الاول یاجمادی الاول14ھئ کو عمل میں ایا.صلح کے بعدفوجیں واپس چلی گئیں .معاویہ کی شہنشاہی ممالک اسلامیہ میںعمومی طور پر مسلّم ہوگئی اور اب شام ومصر کے ساتھ عراق وحجاز , یمن اور ایران نے بھی اطاعت کرلی . حضرت امام حسن علیہ السّلام کو اس صلح کے بعد اپنے بہت سے ساتھیوں کی طرف سے جس طرح کے دلخراش اور توہین امیز الفاظ کاسامنا کرنا پڑا .ان کابرداشت کرنا انہی کاکام تھا .وہ لوگ جو کل تک امیر المومنین کہہ کے تسلیم بجالاتے تھے اج »مُذلّ المومنین «»یعنی مومنین کی جامعت کو ذلیل کرنے والے ,, کے الفاظ سے سلام کرنے لگے پھر امام حسن علیہ السّلام نے صبرو استقلال اور نفس کی بلندی کے ساتھ ان تمام ناگوار حالات کو برداشت کیااور معاہدہ پر سختی کے ساتھ قائم رہے مگر ادھر یہ ہوا کہ حاکمِ شام نے جنگ کے ختم ہوتے ہی اور سیاسی اقتدار کے مضبوط ہوتے ہی عراق میں داخل ہو کر نخیلہ میںجسے کوفہ کی سرحد سمجھنا چاہیے قیام کیااور جمعہ کے خطبہ کے بعد یہ اعلان کردیا کہ »میرا مقصد جنگ سے کوئی یہ نہ تھا کہ تم لوگ نماز پڑھنے لگو . روزے رکھنے لگو . حج کرو یا زکوٰة ادا کرو , یہ سب تو تم کرتے ہی ہو میرا مقصد تو بس یہ تھا کہ میری حکومت تم پر مسلّم ہوجائے اور یہ مقصد میرا حسن علیہ السّلام کے اس معاہدہ کے بعد پورا ہوگیا اور باوجود تم لوگوںکی ناگواری کے خدانے مجھے کامیاب کردیا . رہ گئے وہ شرائط جو میںنے حسن علیہ السّلام کے ساتھ کئے ہیں وہ سب میرے پیروں کے نیچے ہیں ان کاپورا کرنا یا نہ کرنا میرے ہاتھ کی بات ہے »مجمع میں ایک سناٹا چھایا ہوا تھا مگر اب کس میں دم تھا کہ وہ اس کے خلاف زبان کھولتا .انتہا ہے کہ کوفہ میں امام علیہ السّلام حسن علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام کی موجودگی میں حاکم شام نے حضرت امیر علیہ السّلام اور امام حسن علیہ السّلام کی شان میںکلماتِ نازیبا استعمال کیے جن کو سن کر امام حسین علیہ السّلام بھائی کی جانب سے جواب دینے کے لیے کھڑے ہوگئے مگر امام حسن علیہ السّلام نے اپ کو بیٹھا دیا اور خود کھڑے ہو کر نہایت مختصر اور جامع الفاظ میں حاکم شام کی تقریر کا جواب دیا اسی طرح جتنی معاہدہ کی شرطیں تھیں حاکم شام نے سب کی مخالفت کی اور کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا .
باوجودیہ کہ اپ بالکل خاموشی کی زندگی گزار رہے تھے مگر اپ خود بھی اس دور میں بنی امیہ کی ایذارسانیوں سے محفوظ نہیں تھے . ایک طرف غلط پروپیگنڈے اور بے بنیاد الزامات جن میں سے ان کی بلندی مرتبہ پر عام نگاہوں میں حرف ائے مثلاًکثرتِ ازدواج اور کثرتِ طلاق یہ چیز اپنی جگہ پر شریعت ُ اسلام میںجائز ہے مگر بنی امیہ کے پروپیگنڈے نے اس کو حضرت امام حسن علیہ السّلام کی نسبت ایسے ہولناک طریقہ پر پیش کیاکو ہر گز قابل قبول نہیں ہے . دوسرے بنی امیہ کے ہواخواہوں کا بُرا برتاؤ , سخت کلامی اور دشنام دہی اس کااندازہ اما م حسین علیہ السّلامکے ان الفاط سے ہوتا ہے کہ جو اپ مروان سے فرمائے تھے . جب امام حسن علیہ السّلام کے جنازے کے ساتھ مروان رورہا تھا , امام حسین علیہ السّلام نے فرمایا .»اج تم روتے ہو ,حالانکہ ا سکے پہلے تم انھیں غم وغصہ کے گھونٹ پلاتے تھے جنھیں دل ہی خوب جانتا ہے.,,مروان نے کہا . ٹھیک ہے مگر وہ سب کچھ ایسے انسان کے ساتھ کرنا تھا جو پہاڑ سے زیادہ قوتِ برداشت رکھنے والا تھا .اخلاق وانصافامام حسن علیہ السّلام کی ایک غیر معمولی صفت جس کے دوست اور دشمن سب معترف تھے . وہ یہی حلم کی صفت تھی جس کا اقرار بھی مروان کی زبان سے اپ سن چکے ہیں . حکومت ُ شام کے ہواخواہ صرف اس لیے جان بوجھ کر سخت کلامی اور بد زبانی کرتے تھے کہ امام حسن علیہ السّلام کو غصہ اجائے اور کوئی ایسا اقدام کردیں جس سے اپ پر عہد شکنی کاالزام عائد کیا جاسکے اورا س طرح خونریزی کا ایک بہانہ ہاتھ ائے مگر اپ ایسی صورتوں میں حیرتناک قوت ُ برداشت سے کام لیتے تھے جو کسی دوسرے انسان کاکام نہیں ہے . اپ کی سخاوت اور مہمان نوازی بھی عرب میں مشہور تھی . اپ نے تین مرتبہ اپنا تما م مال راہ خدا میں لٹا دیا اور دو مرتبہ ملکیت . یہاں تک کہ اثاث البیت اور لباس تک کو ادھوں ادھ خدا میں دے دیا .جوکچھ پاس موجود ہوتا تھا چاہیے زیادہ سے زیادہ رقم کیوں نہ ہو اپ خود فوراً سائلوں کوعطا فرمادیتے تھے , کسی نے اپ سے پوچھا کہ باوجود کہ اپ خود ضرورت مند ہیں پھر بھی کیا بات ہے کہ سائل کو رد نہیں فرماتے , اپ نے فرمایا .»میں خود خدا کی بارگاہ کا سائل ہوں ,مجھے شرم اتی ہے کہ خود سائل ہوتے ہوئے دوسرے سائلوں کے سوال کے پورا کرنے کی تمنا رکھوں .,,اس کے ساتھ اپ کے علمی کمالات بھی وہ تھے جن کے سامنے دُنیا سرخم کرتی تھی اگرچہ عبدالله بن عباسرض امیر المومنین علیہ السّلام سے حاصل کیے ہوئے علوم سے دُنیا ئے علم میں اپنا ڈنکا بجارہے تھے مگر امام علیہ السّلام حسن علیہ السّلام کے خدا داد علم کاسامنا ہوجاتا تھا تو خاندانِ رسالت کی بزرگی کا دنیا کو اقرار کرنا پڑتا تھا . چنانچہ ایک سائل نے مسجد نبوی میں اکر ایک ایت کی تفسیر ابن عباسرض سے بھی پوچھی.عبدالله ابن رض عمیر سے بھی پوچھی اور پھر امام حسن سے دریافت کی اور اخر میں اس نے اقرار کیا کہ امام حسن علیہ السّلام کا جواب یقیناً ان دونوں سے بہتر تھا . اکثر اپ نے اپنے دشمن معاویہ کے دربار میں اور وہاں کے مخالف ماحول میں فضائل اہلبیت علیہ السّلام اور مناقب امیر المومنین علیہ السّلام پر ایسی مئوثر تقریریں فرمائی ہیں کہ دشمنوں کے سرجھک گئے اور اپ کی فصاحت وبلاغت اورحقانیت کا ان کے دلوں پر سّکہ قائم ہوگیا .عبادت بھی اپ کی امتیازی حیثیت رکھتی تھی بیس یاپچیس حج پاپیادہ کیے . جب موت, قبر , قیامت اور صراط کو یاد فرماتے تھے تو رونے لگتے تھے . جب بارگاہ الٰہی میں اعمال کے پیش ہونے کا خیال اتا تو ایک نعرہ مار کر بے ہوش ہوجاتے تھے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے تھے تو جسم لرزنے لگتاتھا .وفاتاس بے ضرر اور خاموش زندگی کے باوجود بھی امام حسن علیہ السّلام کے خلاف وہ خاموش حربہ استعمال کیا گیا جو سلطنت بنی امیہ میں اکثر صرف کیا جارہا تھا . حاکم شام نے اشعث ابن قیس کی بیٹی جعدہ کے ساتھ جو حضرت امام حسن علیہ السّلام کی زوجیت میں تھی ساز باز کرکے ایک لاکھ درہم انعام اور اپنے فرزند یزید کے ساتھ شادی کا وعدہ کیا اور اس کے ذریعہ سے حضرت حسن علیہ السّلام کو زہر دلوایا .امام حسن علیہ السّلام کے کلیجے کے ٹکڑے ہوگئے اور حالت خراب ہوئی .اپ نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السّلام کو پاس بلایا اوروصیت کی , اگر ممکن ہو تو مجھے جدِ بزرگوار رسولِ خدا کے جار میںدفن کرنا لیکن اگر مزاحمت ہو تو ایک قطرہ خون گرنے نہ پائے . میرے جنازے کو واپس لے انا اور جنت البقیع میں دفن کرنا . 82.صفر05ھئ کو امام حسن علیہ السّلام دنیا سے رخصت ہوگئے . حسین علیہ السّلام حسبِ وصیت بھائی کا جنازہ روضہ رسول کی طرف لے گئے مگر جیسا کہ امام حسن علیہ السّلام کو اندیشہ تھا وہی ہوا . ام المومنین عائشہ اور مروان وغیرہ نے مخالفت کی .نوبت یہ پہنچی کہ مخالف جماعت نے تیروں کی بارش کردی اور کچھ تیر جنازئہ امام حسن علیہ السّلام تک پہنچے , بنی ہاشم کے اشتعال کی کوئی انتہا نہ رہی مگر امام حسین علیہ السّلام نے بھائی کی وصیت پر عمل کیا اورا مام حسن علیہ السّلام کاتابوت واپس لا کر جنت البقیع میں دفن کردیا