جدید ناصبیت
تکفیریت ناصبیت کی قدیمی شکل ہے، صدیوں مسلمانوں نے اس کا تجربہ کیا ہے، ناصبیت کے اور چہرے بھی ہیں، جنھیں مسلمان خوب پہچانتے ہیں لیکن ایک جدید ناصبیت بھی ہماری صفوں میں گھسی ہوئی ہے۔ اس کا پہچاننا بھی ازحد ضروری ہے۔ یہ ماڈرن ناصبیت ‘علمی‘‘ چہرہ اختیار کرتی ہے۔ آئیے آج اس کے خدوخال کا کچھ جائزہ لیا جائے۔جب بعض ‘ذہین‘‘ ناصبیوں نے محسوس کیا کہ حدیث اور تاریخ انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتی اور سیرت رسول (ص) ان کے راستے میں حائل ہے، جبکہ سیرتِ رسول (ص) حدیث و تاریخ ہی کے راستے بیشتر ہم تک پہنچی ہے، اسی طرح تفسیر میں نزول آیات قرآنی کا پس منظر بیان کرنے والی بہت سی شان ہائے نزول ان کے راستے کا سنگ گراں ہیں تو انھوں نے یہی بہتر سمجھا کہ اس حدیث اور تاریخ ہی سے جان چھڑا لی جائے، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ لیکن مسلمان رہتے ہوئے بظاہر یہ راستہ ممکن دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس کے لیے اسلام کو اسلام کے خلاف استعمال کرنے کا اصولی فارمولا تو قدیم ناصبیوں ہی سے ہاتھ آ گیا تھا لیکن قدیم ہتھیار تو پہچانے جا چکے تھے۔ اس کے لیے ان کی’ذہانت‘‘ نے راہنمائی کی ‘قرآن حکیم‘‘ کی اوٹ میں رہ کر ناصبیت کے تیر چلاؤ اور یہ اعلان کرو کہ ہم ہر اس حدیث اور تاریخ کے ہر اس واقعے کو نہیں مانتے جو ‘قرآن‘‘ کے خلاف ہو اور پھر اپنی مرضی کی تاریخ اور حدیث کو قرآن کے مطابق کہہ کر قبول کر لو اور جو اپنے عقیدے کے خلاف پڑتی ہو یا جس سے اہل بیت رسول (ص) کی فضیلت ثابت ہوتی ہو، ان کے دشمنوں پر جس سے ضرب پڑتی ہو، اسے خلاف قرآن قرار دے کر مسترد کر دو۔
پھر کیا تھا، ذکر کو اہل ذکر کے خلاف اور متشابہات کو راسخون فی العلم کے خلاف استعمال کرنے کا نسخہ آزمایا جانے لگا۔ اب تفسیر کے لیے چونکہ کسی قول پیغمبر (ص) اور شان نزول کی ضرورت نہ رہی تھی، اس لیے اپنی مرضی سے لغت کی کتابوں کا سہارا لے کر کام شروع کر دیا گیا۔ ان میں سے بعض نے ذرا کھل کر حدیث ہی کی مخالفت شروع کر دی۔ ان کا خیال تھا کہ ‘قرآن کے سہارے‘‘ یہ کام آسان ہوگا لیکن بات نہ بنی۔ مسلمان علماء اور ضمیر مسلمانی اس قدر بغاوت کی اجازت نہ دے سکتے تھے۔ ایسے لوگ چاہتے تو یہ تھے کہ انھیں ‘اہل قرآن‘‘ قرار دے دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ان کی نظر میں ‘اہل حدیث‘‘ کا عنوان مسلمانوں میں چل سکتا ہے تو ‘اہل قرآن‘‘ کا عنوان بدرجہ اولٰی پذیرائی حاصل کرسکتا ہے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ انھیں منکرین حدیث قرار دیا گیا۔ حدیث کے خلاف ان کی جارحیت اور جسارت کا راستہ روکا گیا اور نسبتاً جدید فکر مسلمان علماء نے بھی ان کے خلاف آواز اٹھائی۔ اہل حدیث کی طرف سے ‘حجیت حدیث‘‘ کے عنوان سے کتابیں لکھی گئیں، جدید فکر کے حاملین کی طرف سے بھی ‘سنت کی آئینی حیثیت‘‘ جیسی کتب منظر عام پر آئیں۔ کھلی جسارتوں کے جواب میں کھلی تنقید نے ان ناصبیوں کو مسلمان معاشرے میں پنپنے نہیں دیا۔ ہماری رائے ہے کہ اگر یہ لوگ ماضی میں’معتزلہ‘‘ کی روک تھام میں ‘اہل سنت‘‘ کے عنوان پر نظر رکھتے تو نسبتاً احتیاط سے کام لیتے۔ شاید ان کا خیال تھا کہ ‘اہل سنت‘‘ کا عنوان خود ان پر بھی صادق آتا ہے، لیکن تاریخ کے منکرین تاریخ سے سبق کیسے سیکھ سکتے تھے اور پھر برصغیر کے مسلمانوں کی ایک اپنی خُو اور خوشبو ہے۔ ان کے ضمیر اور خمیر میں عشق رسول (ص) اور احترام صحابہ کرام (ر) کے ساتھ ساتھ محبتِ اہل بیت (ع) رچی بسی ہوئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پھیلنے والا اسلام ملوک اور بادشاہوں کا مرہون منت نہیں بلکہ خرقہ پوشوں، بوریا نشینوں اور فقیروں درویشوں کا مرہونِ منت ہے۔ خاک نشینوں کے دلوں سے ابو تراب کی محبت کو نہیں نکالا جاسکتا۔ اس گروہ کا جو حشر ہوا وہ تو ہوا، لیکن ایک نسبتاً محتاط گروہ زیادہ ‘علمی‘‘ طریقے سے رفتہ رفتہ پیش رفت کر رہا ہے۔ اس کا زہر زیادہ کاری اس لیے ہے کہ وہ کھل کر حدیث کی مخالفت نہیں کرتا اور زبان اور تحریر کے لحاظ سے جسور نہیں بلکہ محتاط ہے۔ یہ گروہ بھی قرآن حکیم ہی کا پرچم بلند کیے ہوئے ہے۔ یہ حدیث کا انکار کرنے کے بجائے قدیم عربی ادب اور جاہلی ادب کو قرآن فہمی کے لیے معیار قرار دیتا ہے۔ شان نزول کی ضرورت کا فہم قرآن میں بڑے سلیقے سے انکار کرتا ہے۔ جب تفسیر میں اس سے استفادہ ہی نہیں کرتا سوائے اپنے نقطۂ نظر کی تقویت میں جہاں ضروری سمجھے تو انکار کی صراحت کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ قرآن جاہلی ادب کے معیار کے مطابق نازل ہوا ہے۔ قرآن سمجھنے کے لیے یہ ادب بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ان کی اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کے سامنے جاہلی ادب کے سکہ بند قائدین یا سر جھکا بیٹھے یا ناکام ہو گئے اور سرزمین حجاز اور خاص طور پر قریش کے ہاں رائج زبان ہی میں قرآن نازل ہوا، لیکن اس سے یہ مطلب نکالنا کہ قرآن کی اپنی کوئی اصطلاحات نہیں اور قرآن نے مادی حیات و افکار کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ کو برتتے ہوئے انہی کو عالم غیب کے مطالب کے لیے استعمال نہیں کیا، قرآن کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ اسی طرح کون انکار کرسکتا ہے کہ قرآن نے رائج بہت سے الفاظ کو نئی اصطلاحات کے طور پر متعارف کروایا اور یوں الفاظ کو نئی روح سے آشنا کیا اور قرآن کی تاثیر نزول قرآن کے بعد کے عربی ادب میں ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح آنحضرت (ص) کے ارشاد ات اور قرآن پر عمل نے قرآن فہمی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح نزول قرآن کی تاریخ کو قرآن فہمی میں جو مقام حاصل رہا ہے، اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن کیا کیا جائے کہ ان ساری حقیقتوں کو قبول کرنے سے ناصبیت پر ضرب پڑتی ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ‘جاہلی ادب‘‘ کی اہمیت اور قرآن فہمی کے لیے اس کے بنیادی کردار پر کتابوں پر کتابیں لکھی جائیں۔ قرآن فہمی کے لیے ‘نظم قرآن‘‘ کے عنوان سے بنائے گئے خود ساختہ فارمولوں کو اپنی علمی عظمت کے شاہکار کے طور پر پیش کیا جائے۔ صدیوں کی قرآن فہمی کو ایک طرف رکھ کر اپنے گورکھ دھندے کو قرآن کی خدمت کا نام دے دیا جائے اور رفتہ رفتہ مسلمان عوام کو قرآن کی حقیقت اور معارف سے دور کر دیا جائے۔ ان لوگوں کی ایک مشترک نشانی یہ ہے کہ یہ حاضر و موجود اسلام دشمن قوتوں کے خلاف نہ آواز اٹھاتے ہیں اور نہ قلم چلاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ذہنی اور قلبی طور پر یزید اور یزیدیوں کے حامی ہیں۔ یہ لوگ بھارت میں ہوں تو مسلمانوں کو بابری مسجد کے انہدام پر خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہوں تو حکمران جیسے بھی آجائیں ان کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ظلم کے خلاف اٹھتے ہیں اور نہ کرپشن کے خلاف بولتے ہیں اور اگر کچھ کہہ بھی دیں تو ساتھ ہی قانون کا احترام بھی سکھاتے ہیں۔ قانون چاہے یزید کا ہی کیوں نہ ہو۔
تھوڑی سی زحمت کریں تو ان کی تحریروں میں جھانکنے سے معلوم ہوگا کہ یہ عزم و عزیمت کے حامل مسلمان راہنماؤں پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کی تحریکوں اور قیام کو اسلام کے لیے نقصان دہ ثابت کرتے ہیں۔ خدا جانے یہ ابراہیم (ع)، موسٰی (ع) اور محمد (ص) (سب نبیوں پر درود و سلام) کے اقدام اور قیام کی کیا تاویل کرتے ہیں۔ اپنے اسی موقف کی وجہ سے یہ لوگ امام حسین (ع) سے لے کر علامہ اقبال (رہ) تک ظلم و استعمار کے خلاف آواز اٹھانے والے اور حریت و آزادی کے تمام سالاروں پر تنقید کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بےجرأت افراد علم، ادب، قانون اور قرآن کے خوبصورت عنوانوں اور پردوں کی اوٹ میں اپنے خبثِ باطن اور یزید جیسے اپنے پیشواؤں کے کالے کرتوت چھپانا چاہتے ہیں، لیکن ایمان انسان کو بصیرت عطا کرتا ہے، جس کی ضیا پاشیوں کے طفیل وہ ان سیاہ باطنوں کو پہچان کر بہادر شاہ ظفر کی زبان میں کہتے ہیں:کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہمتو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل