خودپسندى اور خودخواہى تمام مفساد كى جڑ ہے

219

 لہذا يہ نہيں ہو سكتا ہے كہ خودپسند كو بطور كلى برا جانا جائے بلكہ يہ توضيح اور تشريح كا محتاج ہے_ پہلے بيان ہو چكا ہے كہ انسان دو وجود اور دو خود اور دو ميں ركھتا ہے ايك حيوانى وجود اور ميں اور دوسرا انسانى وجود اور ميں _ اس كا انسانى وجود اور ميں اللہ تعالى كى ايك خاص عنايت ہے جو عالم ملكوت سے نازل ہوا ہے تا كہ وہ زمين ميں اللہ كا خليفہ ہو_ اس لحاظ سے وہ علم اور حيات قدرت اور رحمت احسان اور اچھائي اور كمال كے اظہار سے سنخيت ركھتا ہے اور انہيں كا چاہنے والا ہے لہذا اگر انسان اپنے آپ كو پہچانے اور اپنے وجود كى قيمت كو جانے اور اسے محترم ركھے تو وہ تمام خوبيوں اور كمالات كے سرچشمہ كے نزديك ہوگا اور مكارم اخلاق اور فضائل اور اچھائيوں كواپنے آپ ميں زندہ كرے گا لہذا اس طرح كى خودپسندى اور خودخواہى كو برا نہيں كہا جا سكتا بلكہ اس قسم كى خودپسندى اور خودخواہى قاتل مدح ہوا كرتى ہے كيونكہ در حقيقت يہ خودخواہى والى صفت نہيں ہے بلكہ در حقيقت يہ خدا خواہى اور خدا طلبى والى صفت ہے جيسے كہ پہلے بھى تجھے معلوم ہو چكا ہے اور آئندہ بھى تجھے زيادہ بحث كر كے بتلايا جائيگا_ انسان كا دوسرا وجود اور مرتبہ حيوانى ہے اس وجود كے لحاظ سے انسان ايك تھيك تھاك حيوان ہے اور تمام حيوانى خواہشات اور تمايلات اور غرائز ركھتا ہے اس واسطے كہ اس جہان ميں زندہ رہے اور زندگى كرتے تو اسے حيوانى خواہشات كو ايك معقول حد تك پورا كرنا ہوگا_ اتنى حد تك ايسى خودخواہى اور خودپسندى بھى ممنوع اور قاتل مذمت نہيں ہے ليكن سب سے اہم اور سرنوشت ساز بات يہ ہے كہ جسم كى حكومت عقل اور ملكوتى روح كے اختيار ميں رہے يا جسم نفس امارہ اور حيوانى ميں كا تابع اور محكوم رہے_
اگر تو جسم پر عقل اور انسانى خود اور ميں حاكم ہوئي تو وہ حيوانى خود اور خواہشات كو اعتدال ميں ركھے گا اور تمام انسانى مكارم اور فضائل اور سير و سلوك الى اللہ كو زندہ ركھے گا_ اس صورت ميں انسانى خود جو اللہ تعالى كے وجود سے مربوط ہے اصالت پيدا كرلے گى اور اس كا ہدف اور غرض مكارم اخلاق اور فضائل اور قرب الہى اور تكامل كا زندہ اور باقى ركھنا ہوجائيگا اور حيوانى خواہشات كو پورا كرنا طفيلى اور ثانوى حيثيت بن جائيگا لہذا خود پسندى اور خودخواہى اور حب ذات كو محترم شمار كرنا قاتل مذہب نہيں رہے گا ہو گيا تو وہ عقل اور انسانى خود اور ميں كو مغلوب كركے _ اسے جدا كر ديگا اور سراسر جسم ہى منظور نظر ہوجائيگا اس صورت ميں انسان آہستہ آہستہ خدا اور كمالات انسانى سے دور ہوتا جائيگا اور حيوانى تاريك وادى ميں جاگرے گا اور اپنے انسانى خود اور ميں كو فراموش كر بيٹھے گا اور حيوانيت كے وجود كو انسانى وجود كى جگہ قرار دے ديگا يہى وہ خودپسندى اور خودخواہى ہے جو اقابل مدمت ہے اور جو تمام برائيوں كى جڑ ہوتى ہےخود خواہ انسان صرف حيوانى خود كو چاہتا ہے اور بس _ اس كے تمام افعال اور حركات كردار اور گفتار كا مركز حيوانى خواہشات كا چاہنا اور حاصل كرنا ہوتا ہے_ مقام عمل ميں وہ اپنے آپ كو حيوان سمجھتا ہے_ اور زندگى ميں سوائے حيوانى خواہشات اور ہوس كے اور كسى ہدف اور غرض كو نہيں پہچانتا_ حيوانى پست خواہشات كے حاصل كرنے ميں اپنے آپ كو آزاد جانتا ہے اور ہر كام كو جائز سمجھتا ہے اس كے نزديك صرف ايك چيز مقدس اور اصلى ہے اور وہ ہے اس كا حيوانى نفس اور وجود_ تمام چيزوں كو يہاں تك كہ حق عدالت صرف اپنے لئے چاہتا ہے اور مخصوص قرار ديتا ہے اور بس _ وہ حق اور عدالت جو اسے فائدہ پہنچائے اور اس كى خواہشات كو پورا كرے اسے چاہتا ہے اور اگر عدالت اسے ضرر پہنچائے تو وہ ايسى عدالت كو نہيں چاہتا بلكہ وہ اپنے لئے صحيح سمجھتا ہے كہ اس كا مقابلہ كرے يہاں تك كہ قوانين اور احكام كى اپنى پسند كے مطابق تاويل كرتا ہے يعنى اس كے نزديك اپنے افكار اور نظريات اصالت اور حقيقت ركھتے ہيں اور دين اور احكام اور قوانين كو ان پر منطبق كرتا ہے_خودپسند اور خودخواہ انسان چونكہ فضائل اور كمالات اور اخلاق حقيقى سے محروم ہوتا ہے لہذا وہ اپنے آپ كو :جھوٹے كام اور مرہوم اور بے فائدہ اور شہوت طلبى مقام اور منصب حرص اور طمع تكبر اور حكومت كھانا پينا اور سنا اور لذات جنسى و غيرہ ميں مشغول ركھتا ہے اور اسى ميں خوشحال اور سرگرم رہتا ہے اور اللہ كى ياد اور اس كو كمالات تك پہنچانے كے لئے كوشش كرنے سے غافل رہتا ہے_
خودخواہ اور خودپسند انسان چونكہ نفس امارہ كا مطيع اور گرويد ہوتاہ ے لہذا زندگى ميں سوائے نفس كى خواہشات كى حاصل كرنے اور اسے جتنا ہو سكے خوش ركھنے كے علاوہ اس كى كوئي اور غرض نہيں ہوتى اور ان حيوانى خواہشات كے حاصل كرنے ميں كسى بھى برے كام كے انجام دينے سے گريز نہيں كرتا اور ہر برے كام كى تاويل كركے اسے جائز قرار دے ديتا ہے وہ صرف حيوانى خواہشات تك پہنچانا چاہتا ہے اور اس تك پہنچنے ميں ظلم كرنے جھوٹ بولنے تہمت لگانے وعدہ خلافى كرنے دھوكا دينے خيانتكرنے اور اس طرح كے دوسرے گناہوں كے بجالانے كو جائز اور صحيح قرار ديتا ہے بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے كہ ہر گناہ در حقيقت ايك قسم كى خودخواہ يا ور خودپسند ہے كہ جو اس طرح اس كے سامنے ظاہر ہوئي ہے مثال كے طور پر ظلم اور دوسروں كے حقوق پر ڈاكہ ڈالنا خودخواہى اور خودپسندى كے علاوہ اور كچھ نہيں ہے_اسى طرح جھوٹ غيبت بد زبانى عيب جوئي حسد انتقام لينا يہ سب پستياں خود اور خودپسندى شمار ہوتى ہيں جو ان صورتوں ميں نماياں ہو كر سامنے اتى ہيں اسى لئے تمام برائيوں كى جڑ خودپسندى كو قرار ديا جاتا ہے_خودخواہى اور خودپسندى كے كئي مراتب اور درجات ہيں كہ سب سے زيادہ مرتبہ خود پرستى اور اپنے آپ كى عبادت كرنا ہوجاتا ہے_ اگر اس برى صفت سے مقابلہ نہ كيا جائے تو آہستہ آہستہ شدت پيدا كرليتى ہے اور ايك ايسے درجہ تك پہنچ جاتى ہے كہ پھر اپنے نفس امارہ كو معبود اور واجب الاطاتمہ اور خدا قرا ردے ديتى ہے اور عبادت كرنے اور خواہشات كے بجالانے ميں اطاعت گذار بنا ديتى ہے_ خداوند عالم ايسے افراد كے بارے ميں فرماتا ہے كہ ‘ وہ شخص كہ جس نے اپنى خواہشات كو اپنا خدا قرار دے ركھا ہے اسے تو نے ديكھا ہے؟ _(196)كيا عبادت سوائے اس كے كوئي اور معنى ركھتى ہے كہ عبادت كرنے والا اپنے معبود كے سامنے تواضع اور فروتنى كرتا ہے اور بغير چون و چرا كے اس كے احكام اور فرمايشات كو بجلاتا ہے؟ جو انسان خودپسند ار خود خواہ ہوتا ہے وہ بھى ايسا ہى ہوتا ہے كيونكہ وہ اپنے نفس كو واجب الاطائمہ قرار ديتا ہے اور اس كے سامنے تواضع اور فروتنى اور عبادت كرتا ہے بغير چون و چرا كے اس كى فرمايشات كو بجالاتا ہے جو انسان خودخواہ اور خودپسند ہوتا ہے وہ كبھى موحد نہيں ہو سكتا_
196_افرايت من اتخذ الہہ ہواہ_ فرقان/ 43_

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.