صاحبان قلم اور مفکرین مغرب پرستی میں پیش پیش
جس کو امت اسلامیہ اور اس کی تہذیب و ثقافت کے خلاف، اس نسل سے پہلے والی نسلوں کے لئے، کن کن دسیسوں، حیلوں اور اپنی چالوں کو بروئے کار لائے اُن سب کو اچھی طرح سے پہچان لیں۔ (سوچ سمجھ کر کوئی مناسب قدم اُٹھائیں۔ مترجم)
ڈاکٹر طہ حسین اور مغربی تہذیب کی دعوتعرب سماج میں کچھ مصنفین اور قلم کاروں نے مغربی تہذیب کی طرف میلان کا اظہار کیا، جن میں ڈاکٹر طہ حسین کا نام پیش پیش اور سر کردہ لوگوں میں لیا جاتا ہے؛ ڈاکٹر طہ حسین کی شخصیت اتنی عظیم اور بلند ہے کہ عربوں کے درمیان اس مصری صاحب قلم کا نام ادبیات عرب میں تکیہ گاہ اور ریڑھ کی ہڈی نیز سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔’ڈاکٹر طہ حسین’ نے مغربی (انگریزی)تہذیب و تمدن اور ثقافت کے متعلق اپنے اشتیاق اور عشق کو بڑی ہی بے صبری سے ظاہر کرنا چاہا ہے، اس حد تک کہ جب یہ اپنے وطن یعنی اپنے ملک مصر پلٹ کر آئے تو اپنے یہاں کے لوگوں کو اسلامی تہذیب و ثقافت یعنی اپنی ہی تہذیب سے دوری اختیار کرنے پر زور دینے لگے۔ مغربی تہذیب کے اختیار اور اس کے قبول کرنے نیز ان (انگریزوں) کے قدموں میں پناہ لینے کی تلقین کرنے میں مشغول رہے؛ اچھے برے اور تلخ و شیریں غرض کہ انگریزوں کی تمام چیزوں کو قبول کرنے اور ان سب کو اپنانے کی مستقل دعوت دیا کرتے تھے۔ڈاکٹر طہ حسین صاحب نے اپنی کتاب ‘مستقبل الثقافة فی مصر’ (١) میں لکھا ہے: ‘ہمارے (مالدار طبقہ کی) مادی زندگی خالص مغربی اور یورپی تہذیب و تمدن کے عین مطابق ہے، گویا ہمارے مالداروں کی مادی زندگی میں انگریزی ثقافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اور دوسرے مختلف طبقات کا معیار زندگی اُن کی قدرت کے اختلاف، گروہوں کے معیار زندگی نیز مالی اعتبار سے ان کی معاشرہ میں حیثیت نیز مالی تمکن اور قدرت کے اعتبار سے یورپ کی زندگی سے کم و بیش قریب ہے۔ ‘ڈاکٹر طہ حسین صاحب’کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عام مصری لوگوں کا مثالیہ اور نمونہ (Ideal) وہی تہذیب ہے جو یورپ برادری کی مادی زندگی سے مطابقت رکھتی ہے۔ لہذا ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم انگریزی اور مغربی تہذیب کو اپنی زندگی کا جز بنا لیں اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیں۔ اسی طرح ہماری معنوی اور روحانی زندگی بھی اپنے مختلف رنگ و روپ میں بعینہ یورپ ہی (مغربی) کی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ ہمارا حکومتی نظام بھی مغربی طور و طریقہ کے مطابق ہے۔ ہم نے اس کو بلا شک و شبہہ مغربی اور انگریزی نظام ہی سے اخذ کیا ہے۔ اگر اس زاویہ نگاہ سے ہم اپنی ہی بعض چیزوں پر اعتراض کرنا شروع کردیں تو بلا شبہہ حکومتی اور سیاسی زندگی میں ہماری ڈھیل ہی کے سبب انھوں (انگریزوں) نے اس ثقافت کو حاصل کرنے میں ہم پر سبقت حاصل کرلی ہے اور ہم اس دوڑ میں ان لوگوں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ (لہٰذا ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ان سے پہلے ہی اس راستہ کا اتخاذ کر کے اس پر گامزن ہو جائیں۔)…………..(١)مستقبل الثقافة فی مصر، ص٣١سے ٣٦ تک۔ہم گذشتہ صدی سے اپنی بنیادوں اور تعلیمی و تربیتی نظام کو خالص مغربی طور طریقہ پر استوار کئے ہوئے ہیں، اس میں کسی قسم کے شک و شبہہ اور چوں چرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔بلا شک و شبہہ اسی لئے ہم اپنی اولاد کو تعلیمی نظام کے ہر مرحلہ (ابتدائی، متوسطہ اور عالی) میں مغربی انداز سے ان کی تربیت اور پرورش کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم ہر میدان میں انکی ترقی اور برتری کو اپنی آنکھوں سے مشاہد ہ کر رہے ہیں۔’اس وقت ‘ ڈاکٹر طہ حسین’ اس نتیجہ پر پہونچے کہ یہ تمام چیزیں اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اس نئے دور و زمانہ میں، ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم ہر روز اس سے پہلے والے دن کی بہ نسبت طاقتور ہوتے چلے جائیں اور اتنی ترقی کریں کہ یورپ والوں (انگریزوں) کے برابر ہو جائیں، تاکہ حقیقی معنوںمیں بالکل انھیں کا جزء اور ان کے پیرو کار قرار پا جائیں۔ (١) (سلام ہو! ایسی عقل پر اور تف ہو ایسے انسانوں پر جو حد درجہ کے احساس کمتری کے شکار ہو گئے ہیں اور اسلام کے اس آب زلال اور صاف و شفاف چشمہ سے دور بھاگ رہے ہیں۔ مترجم)’ڈاکٹر طہ حسین صاحب’ کے نزدیک یہ مسئلہ، بالکل واضح اور شفاف ہے، اس میں شک و شبہہ اور چوں چرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انھوں نے ہر وہ چیزیں جو یورپ کی جھولی میں موجود ہیں ان تمام چیزوں کی کامل پیروی کے لئے مسلمانوں کو دعوت دی ہے، علم، صنعت و ٹکنالوجی اور صرف معماری کے ہنر اور آرٹ (Art) وغیرہ میں ہی یورپ…………..(١)مستقبل الثقافة فی مصر، ص٣١سے ٣٦ تک۔والوں کی پیروی نہیں کرنا چاہئے، بلکہ وہ (ڈاکٹر طہ حسین صاحب) مغرب کی تمام امور میں کامل پیروی اور ہر لحاظ سے اسلامی تہذیب، تاریخ و تمدن اورتا ریخ میں گہری جڑیں رکھنے والی وراثت اور ہمارے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے بھی ہم کو جدا کرنے کی پوری کوششوں میں مشغول رہے ہیں، تاکہ لفظی اور معنوی اور ان کی اصلیت (ماہیت اور حقیقت) کے اعتبار سے ہم ان کا عوض اور بدل قرار پاسکیں۔ جیسا کہ ڈاکٹر طہ حسین صاحب کہتے ہیں: نظریہ، فکر اور سوچ، نتیجہ اخذ کرنے اور حکومت داری کے طور طریقہ کے اعتبار سے بھی ہمارے لئے مناسب ہے کہ ہم انھیں کے جیسے ہو جائیں۔ (یعنی یورپ برادری کے طور طریقہ کی تأسی کرکے بطور کامل ان کے پیرو ہو جائیں۔)اس بنا پر، صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ ہماری زندگی یورپ والوں کے طور طریقہ پر استوار ہو جائے، بلکہ ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ زاویۂ نظر، درک؛ اپنی سمجھ، تحلیل تجزیہ، پرکھ، اور جانچ پڑتال کے معیار کے اعتبارسے بھی، انہیں کے ایسی زندگی بسر کریں؛ اس طرح کی زندگی جس طرح یورپ والے اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔ (جناب ڈاکٹر طہ حسین کے خیال کے مطابق) یہ بھی ضروری ہے کہ دینی اور مذہبی تمام امور میں بھی انھیں کا کاملاً اتباع کیا جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سبھی امور میں یورپ والوں کے طور طریقہ پر گامزن رہیں اور کاملاًا ن کے تابع ہو جائیں۔ حتیٰ زندگی کی راہ و رسم اور معاشرہ کے میل جول کے مختلف انداز، طور طریقوں، نشست و برخاست مختلف اقدامات اور وہ امور جو اُن (انگریزوں) کے لئے نا پسندیدہ ہیں ان میں بھی ہم کو ان کے چشم و ابرو کے اشارہ پر چلنا چاہئے۔اگر ان سب باتوں کو ‘عرب کے بہت بڑے ادیب’ کی جانب سے آپ (قارئین کرام) کو اس بات کا یقین نہ آرہا ہو تو میری زبان سے ‘مستقبل الثقافة فی مصر’ (مصر میں ثقافت کا مستقبل) کی چند سطروں کو ملاحظہ کرکے غور و خوض کے بعد مطالعہ فرمائیں:’ہم پر یہ لازم ہے کہ یورپ والوں کے طور طریقوں ان کی ہدایات اور صرف ان کے بتائے ہوئے راستہ پر چلیں یعنی ان کی راہ و روش کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دے لیں، تاکہ تہذیب و تمدن میں یورپ والوں کے برابر اور ان کے دوش بدوش رہ سکیں۔ ان کی اچھائیوں اور برائیوں، ان کے خوش گوار و ناخوش گوار مواقع اور جو چیز بھی ان کے لئے پسندیدہ اور ناپسند ہے، نیز جس چیز کی وہ تعریف کرتے اور اس کی مذمت کرتے ہیں، ان تمام چیزوں کے بارے میں ہم پر یہ لازم ہے کہ اہل یورپ کو یہ بتادیں: ہم تمام چیزوں کو ویسے ہی دیکھتے ہیں جیسے وہ دیکھتے ہیں ویسے ہی ہم بھی جانچ پڑتال، چھان بین اور تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں جیسے وہ لوگ اپنی زندگی کے مختلف امور میں فیصلہ کر تے ہیں ہم بھی ویسے ہی فیصلہ لیتے ہیں۔’ (١)اب ‘ڈاکٹر طہ حسین’ کے تذکرہ کو یہیں پر روک دیتے ہیں، اور اب ہم ایک، دوسرے ایسے دانشور کا تذکرہ کر رہے ہیں جس کا تعلق ترکی کی سر زمین سے ہے۔…………..(١)مستقبل الثقافة فی مصر، ص٤١سے ٤٤ تک۔
ضیا کوک آلبوہ بھی مغربی تہذیب و تمدن (مغربی رجحان) کی طرف دعوت دینے والے لوگوں میں آگے آگے نظر آتے ہیں۔ یہ ‘جدید ترکی’ کے قانون گذار اور اس کے قواعد و ضوابط بنا نے اور اس کی نوک پلک ٹھیک کرنے والے ہیں، یہ ایسے واحد شخص ہیں، جن کے بارے میں امریکی پادری ‘ہیرولڈ اسمتھ ‘(Harolld Smith)کہتا ہے: ضیا کوک آلب اسلامی تہذیب و تمدن سے بالکل دور کردینے والا اور لوگوں کو مغربی (انگریزی) تہذیب و ثقافت کے پیروں میں ڈال دینے والا پہلا مسلم رہبراور ہیرو ہے۔’ہندوستانی اہل قلم’ سید ابو الحسن ندوی’ نے اس کے بارے میں یوں تحریر کیا ہے: ‘ضیا کوک آلب نے بڑی ہی قدرت اور صراحت کے ساتھ صاف صاف اور واضح الفاظ میں ترکی کو اپنے ماضی قریب سے جدائی، اور خالص وطن پرستی کی اساس پر پیش کرنا چاہا، مغربی تہذیب و تمدن کو اس اعتبار سے برتری دینے لگا اور یہ راگ الاپنے میں مصروف ہو گیا کہ یہ (انگریزی تہذیب) جمہوریۂ ترکی کی ہی قدیمی تہذیب اور اسی کی ثقافت کا ہی ایک حصہ ہے۔ (اس کے زعم ناقص میں) ترکوں نے بھی اس ثقافت کو دنیا والوں کے سامنے پیش کرنے اور اس کی حفاظت میں اساسی اور کلیدی کردار ادا کیا ہے اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی ہے۔اس (ضیا کوک آلب) کے مقالات میں سے ایک مقالہ میں اس طرح آیا ہے: مغربی تمدن اور تہذیب و ثقافت دریائے مڈیٹرانہ کے آس پاس رہنے والوں کے تمدن ہی کی بقا کا نام ہے، سومری اور فینقی کے خانہ بہ دوش اور بادیہ نشین ترک اس تہذیب کے بانی تھے، جیسا کہ تاریخ میں آیا ہے:دور حاضر سے پہلے والے دور (یعنی دور قدیم) کوعصر وحشت کے نام سے یاد کیا گیا ہے… ایک لمبے عرصہ کے بعد آنے والے مسلمان ترکوں نے اس تہذیب و ثقافت اور تمدن کو ترقی دی، انھیں لوگوں (ترکوں) نے یورپ والوں میں اس تہذیب اور اپنے قدیمی تمدن کو منتقل کر دیا۔ اسی بنا پر ہم ترک لوگ اپنے آپ کو یورپ ہی کی تہذیب و ثقافت اور تمدن کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ اس تہذیب و ثقافت اور تمدن کو وجود بخشنے میں ہمارا بنیادی اور کلیدی کردار رہا ہے۔’ (١)’ضیا کوک آلب’ نے مغربی تمدن اور تہذیب و ثقافت سے وابستہ ہونے کے اسباب و عوامل اور مغربی (انگریزی) تمدن کی طرف لوگوں کو اس طرح مائل کر دینا، دین و مذہب سے جدائی اور کنارہ کشی کا باعث نہیں ہے۔ اس نے اس کے ضمن میں اس طرح لکھا ہے:’جب بھی کوئی قوم و ملت کوئی بڑا اقدام کرے اور وہ رشد و ترقی کی طرف زبردست چھلانگ لگائے تو اس پر یہ لازم ہے کہ اپنی تہذیب و ثقافت میں تبدیلی پیدا کرے۔…………..(١)الصراع بین الفکرة الاسلامیة والفکرة الغربیة، ص٤١و٤٢، ماخوذ از:(Turkish and Western Civilization,pg:297)چونکہ یہ ترک لوگ ایشیا کے وسطی علاقہ میں زندگی گذار رہے تھے شروعات میں یہ لوگ مشرق بعید سے نزدیک ہوئے اور اس ہنگام میں جب کہ عثمانی شہنشاہیت کا خاتمہ ہوگیا تو بیزانس (مشرقی روم) کے علاقہ میں وارد ہوگئے، فی الحال اپنی جمہوری اور عوامی حکومت نے ان کے منتقل کرنے کی صورت میں مغربی ثقافت اور تمدن کے قبول کرنے کا پختہ اور مصمم ارادہ کر لیا ہے۔’ (١)اس (ضیا کوک آلب) کی نظر میں دین اور تمدن میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا، یا تمدن کا دین سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر چہ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ لوگ مختلف رنگ و روپ اور ادیان کے حامل ہو جائیں اور وہ ایک ہی تمدن اور تہذیب و ثقافت کو اختیار کرلیں جس سے دوسرے افراد وابستہ ہوں۔ضیا صاحب نے یہاں تک لکھ دیا ہے:’ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ عوام الناس مختلف ادیان کے پیرو ہوں، اس کے باوجود وہ لوگ ایک ہی تہذیب و تمدن کے حامل ہو سکتے ہوں۔ کسی بھی تہذیب اور ثقافت کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں عیسائی اور اسلامی تہذیب و ثقافت علیٰحدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ مغربی تمدن کو عیسائی تہذیب و تمدن کا نام دے دیا جائے، بالکل اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ شرقی تہذیب و ثقافت اور تمدن کو اسلامی تہذیب اور تمدن کا نام…………..(١)الصراع بین الفکرة الاسلامیة والفکرة الغربیة، ص٤٢، ماخوذ از:(Turkish and Western Civilization,pg:297)دے دیا جائے’ وہ اپنی اس تعبیر کو ثابت کرنے کے لئے بطور مثال روس کے تمدن کو پیش کرتا ہے کہ وہ بیزانس کی تہذیب اور اس کے تمدن سے جدا ہوگیا اور مغربی تہذیب کا گرویدہ ہوکر اسے قبول کر لیا:’پطر کبیر نے روس کے عوام الناس کو بیزانس کے تمدن کے تسلط سے نجات دلانے کی تحریک مبارزہ اور روس کے لوگوں کو مغربی تمدن کی طرف دعوت دینے میں، بہت زیادہ سختیاں اور مصیبتیں برداشت کیں۔ اس طرح اس انقلاب کے بعد، روس کے لوگوں نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب فعالیت کے سفر کا آغاز کر دیا۔ (یعنی دن دونی رات چوگنی ترقی کے ارتقائی سفر کو تیزی سے طے کرنا شروع کردیا۔ مترجم) یہ معاشرتی حقیقت اس نکتہ کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ صرف مغربی تہذیب و تمدن ہی ارتقاء اور کامیابی کی شاہ راہ پر رواں دواں ہے اور اثبات مدعا کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے، مزید کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔(١)…………..(١)الصراع بین الفکرة الاسلامیة والفکرة الغربیة، ص٤٣و٤٤، ماخوذ از:(Turkish and Western Civilization,Pg:270-275)
سر سید احمد خاں(سر) سید احمد خاںصاحب یا سید احمد خان متقی دہلوی صاحب (١٢٣٢ ہجری قمری مطابق ١٣١٥ شمسی) ہندوستان کے مسلم دانشور اور’ محمڈن انگریزی اسکول’ (College) کے بانی ہیں، جس کو اس محترم دانشور نے ١٨٧٥ء میں تاسیس کیا۔ جیسا کہ خود ہی اس طرح کہتے ہیں: میں نے اس ‘جامعہ’ (University) کی بنیاد اس لئے رکھی ہے کہ مغربی تہذیب و ثقافت سے متأثر اسلام نو کی ترویج کر سکوں، یہ وہی’دانش گاہ’ (University) ہے، جس کو اسلامی یونیورسٹی علی گڑھ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سر سید احمد خاں دہلوی کا شمار بھی انھیں صف او ل کے مغربی رجحان کی طرف دعوت دینے والوں میں ہوتا ہے، جنھوں نے (عوام الناس) کو اسلامی تہذیب اور ثقافت سے دور کیا ہے، اور مغربی تمدن کی گود میں پناہ لینے کے لئے، ہمیں اس کی طرف دعوت دی ہے۔انہوں(سر سید احمد خاں) نے اس طرح تحریر کیا ہے:’مسلمانوں پر لازم اور ضروری ہے کہ مغربی تہذیب و تمدن کو پورے طور سے قبول کرنے میں اس کی بہ نسبت اپنے اشتیاق اور رغبت کا اظہار کریں۔ ایسا کام انجام دیں جس سے مہذب اور متمدن (فرنگی) لوگوں کی نظر میں، خوار و ذلیل قرار نہ پائیں اور متمدن اور تہذیب یافتہ کہے (Civilized) جائیں۔’ (١)’سر سید احمد خان دہلوی’ اپنی کتاب’ احکام طعام أہل الکتاب’ میں لوگوں کو انگریزوں اور یورپ والوں کے طرز زندگی اختیار کرنے اور ان کے جیسا ہو جانے نیز انگریزوں کے اخلاق و عادات کے مطابق زندگی گذارنے کا شوق دلاتے ہیں۔ (٢)…………..(١)الصراع بین الفکرة الاسلامیة والفکرة الغربیة، ص٤٣ و ٤٤، ماخوذ از:(Turkish and Western Civilization, PP.270 – 275)(٢)الصراع بین الفکرة الاسلامیة والفکرة الغربیة، ص٧٣۔
قاسم امین (١)قاسم امین صاحب کا شمار عریانیت کی طرف دعوت دینے والوں اور پردہ سے مطلق آزادی بنام آوارگی کے دعویداروں میں ہوتا ہے، جو مغربی تہذیب و تمدن سے وابستگی اور اس کو ہر قیمت پر قبول کرنے کی مصرانہ دعوت دیتا اور اسی تہذیب میں گھل ملکر اس (انگریزی تہذیب و ثقافت) میں فنا ہو کر بالکل ویسے ہی ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی کتاب ‘المرأة الجدیدة’ (عصر حاضر کی خاتون) میں لکھا ہے:’اور … یہ وہی درد ہے جس کے علاج کے لئے ہمیں لازم اور مناسب اقدام کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے، اس لئے کہ اس درد کی کوئی اور دوا نظر نہیں آتی، سوائے اس کے کہ ہم اپنے بچوں کو مغربی تہذیب و تمدن کے اعتبار سے ان کی شناخت کرائیں اور اس کے متعلق ضروری آگاہی فراہم کرائیں اور اصول و فروع کے تمام امور میں مغربی تمدن کی اساس اور اس کے معیار پر اپنے بچوں کی تربیت کریں۔ اب وہ وقت آگیا ہے (مجھے امید ہے کہ دیر نہیں لگے گی) جب حقیقت اپنے آپ دمکتے اور چمکتے سورج کے مانند ہماری نظروں کے سامنے آشکار ہوجائے گی، اس وقت ہم مغربی (انگریزی) ثقافت اور تہذیب و تمدن کی اہمیت کو بخوبی سمجھ لیں گے نیز ہمیں یقین حاصل ہو جائے گا کہ فی الحال جو ہمارے حالات ہیں، ان کے رہتے ہوئے شمہ برابر اصلاح کا امکان نہیں پایا جاتا، مگر یہ کہ ہمیں روز مرہ کا جدید علم حاصل ہو جائے؛ انسانوں کے نت نئے اور مختلف، رنگ برنگے امور، چاہے وہ مادی ہوں یا ادبی، قدرت علم کے تابع، اور اس کے دست نگر ہیں۔ اسی وجہ سے ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں، کہ مہذب لوگوں کے درمیان ہر چند قومیت، لسانیت،…………..(١)قاسم امین بیسویں صدی کے نصف میں ان عرب مسلمانوں میںایک ایسا پیش قدم انسان ہے جو مغربی تہذیب و تمدن کے رجحان کارواج دینے والا اورپورے معاشرہ کو اس کی طرف دعوت دینے والا ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ اسلامی دنیاوی رجحان کے قوانین اور قواعد و ضوابط تدوین کئے ہیں اور ان کو انتزاعی اور احتیاط کے طور پر نہیںجاتاہے، بلکہ ان قوانین کو معاشرہ کے حیاتی مسائل کے عنوان سے بنا کران کو بیان کیا ہے۔ قاسم امین کی نظر میں، عقل، علم کی حکایت کرتی ہے اور عقل کا فائدہ تب ہے جب وہ سماج اور معاشرہ کی بیماریوں اور اس کے تمام جوانب اور پہلوؤںسے، اس کے علاج کے لئے اپنے خاص اورذاتی تدبیروںکو ڈھونڈھ نکالے اور اُن کوبروئے کارلائے۔اس نے اپنی کتاب ‘اَلْمَرْأَةُ الْجَدِیْدَةُ ‘(دور حاضر کی خاتون) میں یہ اعلان کردیا کہ صرف علم ہی حقیقت اور فائدہ کے حصول کی اور فائدہ کے حصول کی مفید و معتبربنیاد، اور اس کی وہ با عظمت چیزوں کی واحدنشانی ہے۔ ‘امین’ انیسویں صدی کے دوسرے اورمغربی دانشوروںکی طرح ہر موجود کو مشاہدات کے ذریعہ ثابت کرنے والوں کا حامی اوربالکل انھیںکے جیسا نظریہ رکھتا تھا کہ اسلامی معاشرہ کی نجات، ان کی نادانی اور جہالت پر قابو پاکرجہالت اور نادانی اس کو دور کرنے میں ہے، اور علم کی وسعت اس کی وضاحت اور عوامی سطح پر اس کو پھیلانے اور اس کورواج میں ہے۔ امین کے لادینیت کے نظریہ کے مطابق، خیر، ایسی چیز ہے جس کو عموماً عملی طور پردیکھاجاسکتا ہو یعنی اس کے عمل کے اعتبارسے اس کا مشاہدہ فطری ہے۔ کجا اس کے وجود کی حقیقت اور معنوی یا اخلاقی حالت۔ احتمالاً وہ پہلا روشن فکرمسلمان ہے جس نے علانیہ طور پر اعلان کردیا: ‘ کہ واقعی آزادی کے حامل ملک میں، کسی کے لئے بھی خدا اور اس کے پیغمبروں کے انکار کردینے اوران کے نہ ماننے پر ملک بدر کر دیا جائے یہ کسی کے لئے زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک شخص کواس کے وطن سے نکال دے، یا پھر وہاں کے لوگوں کے رسم و رواج اور آداب و قوانین سے ہراساں رہےامین اس بات کے قائل ہونے پر مجبور ہوگیا تھا کہ معاشرہ میں ‘دائمی اورنا محسوس تبدیلی حاکم ہے’ اور یہ چاروں قدرتیں اور طاقتیں اس تبدیلی کے طریقہ اور انداز اوررویہ کوتعیین کرتی ہیں: فطری ماحول، ایک دوسرے سے وراثت حاصل کرنا، یا قومی حالات کی فراہمی، معاشرہ سے حشر و نشروعلمی تحقیقات اورمختلف نئی نئی ایجادات۔(روشن فکران عرب وغرب، ہشام شرابی، ترجمۂ عبد الرحمٰن عالم سیاسی مطالعات کا بین الاقوامی دفتر، طبع اول، تہران ١٣٦٨ ھ شمسی مطابق ١٩٨٩ء ص ١٠٤سے ١٠٨ تک) ۔جنسیت، خاندان اور دینی اعتبار سے گو ناگوں اختلافات کے با وجود ، حکومت کی ماہیت اور اس کے انتظام و انصرام نیز اس کی دیکھ ریکھ، عدالتوں، محکموں اور اداروں میں، اور ان گھرانوں کی تربیت کے طریقۂ کار میں بہت زیادہ شباہت پائی جاتی ہے۔ اور یہ سب، وہی چیزیں ہیں جو ہم کو اس بات کے لئے تیار کرتی ہیں کہ ہم یورپ والے اور ان کے اصول و قواعد اور ضوابط اور اس کی تدوین کے صحیح او ر مناسب طور طریقے، بلکہ بہت ہی ابتدائی اخلاق، اطوار، آداب اور اعمال و رفتار یہاں تک کہ لباس پہننے کے طریقے، ایک دوسرے کی احوال پرسی، کھانے پینے کی راہ و روش وغیرہ … یہ سب آپس میں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں، یہ وہی خیر ہے جو ہم کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ ہم یورپ والوں کی کامل پیروی کریں اور اپنے ذوق و شوق اور جدید رسم و رواج میں یورپ کی عورتوں کو نمونۂ عمل قرار دیں۔’ (١)…………..(١)المرأة الجدیدة ص١٨٥و١٨٦ ، ندوی کی کتاب ‘الصراع’ سے ماخوذ ص١٠٩و١١٠۔
سید حسن تقی زادہسیدحسن تقی زادہ کا شمار ایران کی تحریک مشروطیت کے رہبروں میں ہوتا ہے۔ یہ تحریک، قاچاری حکومت کے آخری دور میں، قاچاری بادشاہوں کے ظلم و استبداد سے مقابلہ کرنے کی غرض سے، اسلام سے قریب یا پھر اسلامی دائرہ کے اندر آزاد حکومت بنانے کے لئے مشروطیت کا قانون پیش کی، اگر تقی زادہ کی جولان فکری کو سیاست سے جدا کرنا اور مغربی انداز کی آزادی خواہ حکومت بنانا مقصود نہ ہوتا تو ایسی حکومت اسلام سے کوئی منافات نہیں رکھتی، ان (تقی زادہ) کا شمار تحریک مشروطہ کے رہبروں میں ہوتا ہے اور ان کا اعتقاد یہ تھا کہ مغربی تہذیب و تمدن ، انسانی فضیلتوں کی چوٹی پر واقع ہے، لہٰذا ہمیں اس کی تقلید و تأسی اور اسی کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا چاہئے۔(١)دوسرے دورہ میں قومی مجلس (پارلیمان) کی فعالیت کے تحت، تقی زادہ نے اپنے بعض دوستوں (٢) کے تعاون سے، ‘آزادی خواہ پارٹی’ کی بنیاد ڈالی۔آزادی خواہ…………..(١)اوراق تازہ یاب مشروطیت ونقش تقی زادہ (مشروطیت کے تازہ یاب اوراق اور اس میں تقی زادہ کا اہم کردار) ایرج افشار،ص٦٨۔(٢)مثال کے طور پر، سلیمان میرزا، حسین قلی خان نواب، وحید الملک اور سید محمد رضا مساوات ۔پارٹی یا ‘ فرقۂ آزادی خواہ’ ایران کی پہلی سیاسی پارٹی (١) تھی جس نے برطانیہ سے بہت اچھے روابط بنا رکھے تھے، اس کے مختلف شہروں میں ان کے کارندے ایرانی عوام کو اس پارٹی میں شامل ہونے کے لئے تشویق و ترغیب دلا رہے تھا۔ (٢)اس پارٹی کے منظور اور طے شدہ اہم ترین ابتدائی اصول میں سے یہ ہے کہ دین کا سیاست سے بالکل جدا اور الگ تھلگ رہنا، نیز سیاست کے میدان میں علماء کا بالکل دخل اندازی نہ کرنا، (٣) اور اس پارٹی کی وابستگی کے شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ دینی راہنما اور علماء سے بالکل نسبت نہ رکھتا ہو اور اسی طرح دینی اور اسلامی امور کے فروغ دینے میں مشغول نہ ہو۔ (٤)تقی زادہ کا شمار آزادی خواہ پارٹی کے سرسخت ترین حامیوں میں ہوتا ہے ؛ نیز ان کا شمار قومی مجلس کونسل کے اہم رہبروں میں ہوتا تھا۔اس کے با وجود کہ یہ (سید حسن تقی زادہ) اپنی سیاسی زندگی کے آغاز میںعمامہ سے ملبس تھا اور اس کا شمار دینی مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں میں ہوتا تھا، یعنی ظاہراً روحانی تھا پھر بھی اس کا اعتقاد یہی تھا کہ مغربی تہذیب و تمدن کے سامنے سر تسلیم خم کر کے؛ باادب اپنا ماتھا ٹیک دینا ضروری ہے اور اس بات کا بھی قائل تھا کہ مغربی تمدن اور ثقافت کو…………..(١)اوراق تازہ یاب مشروطیت ونقش تقی زادہ ص٣٤٩۔(٢)ایران کے سیاسی احزاب کی مختصر تاریخ، ملک الشعراء بہار، ج١، ص١٢۔(٣)فراموش خانہ و فراماسونری در ایران، اسماعیل رائین، ج٢، ص٢٠٩۔(٤)اوراق تازہ یاب مشروطیت ونقش تقی زادہ ص٣٥٢ و٣٦٠۔عوام کے درمیان رواج دینے اور اس کو قبول کرنے کے حالات فراہم کئے جائیں۔ اس بارے میں اس نے ایک تقریر بھی کی ہے جو موجود ہے، جس کو اس نے ‘مغربی تمدن کو اخذ کرنے اور اپنانے’ کے عنوان سے ایرانی سال کے مطابق، ١٣٤٠ھ میں مہرگان کی ورزشگاہ میں کی ہے۔(١)١٩٢٠ء میں ‘کاوہ’ نامی جریدہ کے ساتویں شمارہ میں اس کے ایک مقالہ کی طباعت ہوئی ہے، اس نے ہماری تاریخ میں دیرینہ اور گہری جڑوں والی تہذیب و ثقافت کے بارے میں شک و شبہ کا اظہار کیا ہے ۔ (٢) و (٣)مغربی تمدن کی طرف جھکاؤ اور اس کی طرف رجحانات، یہی سب وہ عوامل اور اسباب ہیں جو اس بات کا باعث ہوئے کہ حوزۂ علمیہ نجف اشرف میں اس وقت کے مراجع تقلید میں سے دو حضرات نے اس کو ‘قومی مجلس کونسل ‘ سے اخراج کر نے اور اس کی جلا وطنی کا حکم دیا ہے؛(٥) یہی امر سبب بنا کہ اس کو ایران سے نکال دیا گیا۔اس نے خاندان قاچار کا تختہ پلٹ جانے کے فوراً بعد، رضا شاہ پہلوی کے ایران کی شاہی حکومت پر تخت نشین ہوتے ہی وہ (سید حسن تقی زادہ) دوبارہ ایران پلٹ آیا۔…………..(١)فراموش خانہ و فراماسونری در ایران ، اسماعیل رائین ، ج٢، ص٢٠٩۔(٢)تاریخ سیاسی معاصر ایران ، دکتر سید جلال الدین مدنی ج١، ص٣٦۔(٣)تقی زادہ نے ١٩٢٠ء کے شائع ہونے والے جریدہ ‘کاوہ’ کے ساتویں شمارہ میں اپنے مقالہ میں اس طرح تحریر کیا ہے : ‘ایرانی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وہ بھی یونانیوں کی طرح دمکتی ہوئی ثقافت اور چمکتے ہوئے بہت ہی عالی تمدن اور مستقبل کے مالک ہیں، کہ اگر ان کیثابت شدہ تاریخی اور علمی حقایق کو سامنے پیش کردیا جائے تو اس میں بھی ایران نے علم و ترقی کے میدان میں کوئی خاص خدمت نہیں کی ہے۔ دنیا میں دوسری تمام اقوام کی طرح جن چیزوں کے وہ حامل بھی تھے اس میں بھی یونانی تمدن اور ان کے علم کے مرہون منت رہے ہیں ‘۔(مترجم)(٥)اوراق تازہ یاب مشروطیت ونقش تقی زادہ ص٢٠٧ اور اس کے بعد کے صفحات۔