تہذیب و ثقافت اور علم میں جدائی ناممکن

213

جس طرح وہ (انگریز اور مغربی) زندگی گزارتے ہیں، اگر اسی طرح ہم اپنے آپ کو ان کے رنگ میں نہیں ڈھال لیتے ہیں تو کبھی بھی مغربی علم اور ان کی ٹکنالوجی سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے؛ مگر یہ کہ خدا وند عالم و جود ہستی بخش، انسان اور تمام اشیا کے متعلق ہماری فکریں، تصورات اور نظریات بالکل بدل دے، خلاصہ یہ کہ ہمارا کردار اور راہ و روش تہذیب، ثقافت اور تمدن سب کچھ مغربی طرز کے مطابق ہونا چاہئے۔اس گمراہی اور انحراف کا واحد سبب جدت پسندی اور علم و ثقافت کو ایک دوسرے سے مخلوط کر دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ اگر ہمارے کہنے پر یقین نہ ہو تو ‘الثقافة ف المجتمع العرب’ میں ڈاکٹر کامل عیاد کی عبارت ملاحظہ فرمائیں۔ وہ اس طرح لکھتے ہیں: ‘ہم مشینوں کے بنانے کے اعتبار سے ترقی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ سکتے … مگر یہ کہ اس (مغربی تہذیب و تمدن) تہذیب و ثقافت کو لوگوں کے درمیان ہر ممکن اعلیٰ پیمانہ پر وسعت دیں۔ (١)اسی وجہ سے ایسے اسباب و عوامل تک رسائی، علم، دانش اور اس کو عملی طور سے جاننا، جیسا کہ وہ لوگ (انگریزی ثقافت کے حامل لوگ) کہتے ہیں ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے مگر یہ کہ ہم اپنے آپ کو بالکل مغربی تہذیب و تمدن کے قدموں میں ڈال دیں؛ چاہے ہم کو ا ن کی تہذیب اچھی لگے یا ہمارے اوپر بہت بار اور ناگوار ہو، اور جیسا کہ ‘ڈاکٹر طہ حسین’ بڑی ہی بے شرمی اور بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘اس تمدن کی اچھی بری، تلخ و شیریں، پسند و ناپسند، لائق تعریف ہو یا کہ مذموم’ سبھی کو آنکھ بند کرکے ہمیں قبول کر لینا چاہئے اس لئے کہ بغیر اس عمومیت کے (تمام سطحوں میں مغربی تمدن کو اپنی زندگی کا جز بنا لینا) ہم اس علم دانش تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ جو ہمیں مغربی تہذیب و تمدن اور ان کی ثقافت تک پہونچا دے۔ ‘ڈاکٹر کامل عیاد ‘ اپنی اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: ‘ہم یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ نئی تہذیب و ثقافت،بلکہ رائج تہذیب یعنی مغربی اور انگریزی تہذیب اور ہمارے عقائد کے درمیان…………..(١)مستقبل الثقافة ف المجتمع العرب، ص١٦٥۔کوئی تضاد و تعارض نہیں پایا جاتا۔ حقیقتاً بعض عربی ممالک کے منافع کی حفاظت کرنے والے افراد کے علاوہ جن کی تعداد حسن اتفاق سے اتنی کم ہے جن کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے، اگر ان کو مد نظر نہ رکھا جائے تو آج کل کوئی بھی اس ضرورت کا منکر نہیں ہے کہ مغربی تہذیب و تمدن کو اخذ کرکے ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلا جائے۔البتہ بعض ایسے گروہ بھی ہیں جو اپنے آپ کو ‘میانہ رو’ گردانتے ہیں۔ ان لوگوں کی نظر میں مغربی تہذیب و تمدن کی صرف اچھی باتوں کو اپنی زندگی کے لئے منتخب کر لینا چاہئے، جو ہماری تہذیب، تمدن اور ثقافت سے مطابقت رکھتی ہوں انھیں پر اکتفا کرلی جائے اور جو ہماری تہذیب و ثقافت کے مخالف ہیں انھیں چھوڑ دیا جائے۔اس نظریہ میں یہ ضعف پایا جاتا ہے کہ صفات کو مشخص اور جدا کر کے پیش کیا جائے اور وہ عقائد اور رسم و رواج جو مغربی ثقافت سے مخصوص ہیں ان سے بچا جائے اور یہ بہت مشکل امر ہے۔ اسی طرح سے وہ معیار جن کے ذریعہ مغربی تہذیب و ثقافت کے ‘محاسن و معائب’ اچھائی اور برائی کو خوب جانچ پرکھ کر اس کی تشخیص دے لی جائے، اگر چہ اس کے بارے میں نظریات میں اختلاف ہے۔’ (١)مصنف نے، اس بات سے کہ محافظہ کاروں (مغربی تہذیب و تمدن ان کیطرز زندگی کے مخالف لوگ) کی تعداد روز بروز گھٹ رہی ہے، اس بات کے لئے انھوں نے بہت ہی خوشحالی کا اظہار کیا، اور یہ کہ اعتدال پسند لوگ ابھی تک مطلب کی تہہ تک نہیں پہونچ پائے ہیں ان کے لئے (مصنف نے) غم و اندوہ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔…………..(١)مستقبل الثقافة ف المجتمع العرب، ص١٥١، حصوننا مھدّدة من الداخل سے منقول ہے ص١٤٨۔ان لوگوں (مغربی اور انگریزی ثقافت کے دعوے دار) کے نزدیک سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ان کے پاس سنجش اور کسوٹی کا کوئی پیمانہ نہیں ہے جس کے معیار پر محاسن کو عیوب سے جدا کر کے ان کی شناخت کر سکیں۔ جب یہ کام اس منزل پر پہونچ گیا ہے تو بہتر ہے کہ اس مسئلہ کو یہیں چھوڑ دیں، مزید اس مقام پر ذمہ داری اور فریضہ طے نہ کریں! ہم تو یہ کہتے ہیں:اگر مغربی تمدن کے رجحان کو رواج دینے والے علم اور تہذیب و ثقافت کے درمیان فرق کے قائل ہوئے اور ان شعبوں میں جن میں ہم ان کو عاجز اور ناتواں اور پچھڑے دکھائی دیتے ہیں، (اور بدرجۂ مجبوری ہم اپنی علمی، صنعتی “Technological” ضرورتوں کو غرب سے بر طرف کر لیتے) نیز زندگی کا وہ شعبہ جن میں ہم مستغنی اور بے نیاز ہیں اور کسی بھی جہت سے دوسری تہذیب و ثقافت کی ہمیں ضرورت نہیں ہے، مثال کے طور پر معارف، اخلاق، مذہب اور تہذیب و تمدن، عقیدہ و فلسفہ وغیرہ (اور اس سلسلہ میں اپنی دھروہر اور وراثت کی طرف مراجعہ کر لیتے) ایک دوسرے سے جدا کرلیتے ہیں، ان چیزوں میں جن کی وجہ سے ہمارے حال، گذشتہ اور تہذیب و تمدن سے گستاخی کی گئی ہے اس میں اپنے آپ کو داخل نہ کرتے اور اسی سرمایہ اور دولت سے ہم اپنے آپ کو علوم اور تجربوں سے آراستہ کرتے جن کی ہم کو ضرورت ہے نیز دولت اور سرمایہ سے اپنی کمیوں اور نقائص کو بر طرف کر کے اپنی مشکلات کا حل نکال لیتے؛ وہ لوگ چاہے ہم کو ہماری اپنی تاریخ، تہذیب و تمدن، ماضی اور تاریخی حقیقت و اصالت سے جدا کرتے یا نہ کرتے۔لیکن غرب کے علمی اور صنعتی Technological)) انقلاب کے سامنے فکری ضعف اور روحی شکست یعنی احساس کمتری نے ہم کو اس منزل پر لاکر کھڑا کردیا ہے کہ ہم اپنی شخصیت، ذاتی حقیقت اور ماہیت، غنی میراث نیز مذہب اور تمدن کی دولت کو بھی نہیں پہچان سکے، بغیر کسی حساب و کتاب کے ہم اجنبی تہذیب و تمدن اور مذہب پر تنقید کے بجائے مشرقی یا پھر مغربی تہذیب و تمدن کے قدموں میںاپنے آپ کو ڈالے ہوئے ہیں ان کی تہذیب کو سب کچھ سمجھ کر ترجیح دے رہے ہیں۔مغربی رجحان کی تہذیب و ثقافت اور اس کو رواج دینے والے ہرگز صراحت کے ساتھ اس مسئلہ کے بارے میں اپنے عقیدہ اور طرفداری کا اظہار نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ عموماً اپنے آپ کو الفاظ کے پیچھے چھپائے ہوئے ہیں یعنی خود کھل کر سامنے نہیں آتے ہیں اور اپنی گفتگو کو مبہم اور مجمل طور سے پیش کرتے ہیں۔حقیقت امر یہ ہے کہ مغربی رجحان کی ترویج کرنے والے اس بارے میں کہ اسلام ان کے تمدن کی اچھائی اور برائی صحت و سقم کو تشخیص دے کر ان سب چیزوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں اس بارے میں وہ مطمئن نظر نہیں آتے ہیں، اس بابت وہ شک و تردید کے شکار اور تشویش میں مبتلا ہیں۔وہ (انگریز نیز مغربی تہذیب کی ترویج کرنے والے) آئیں ہماری باتوں کو کان دھر کے سنیں کہ ڈاکٹر عبد الرحیم مصطفی صاحب اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:’اس موضوع کی دشواری اس مقام پر ظاہر ہوتی ہے جب شریعت سے سازگاری رکھنے والے امور (قانون اسلام کے حدود اربعہ) اور وہ امور جو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے ان سب کی حد بندی کوئی آسان کام نہیں ہے؛ اس لئے کہ عام افراد اسلام کو سطحی نگاہ سے دیکھتے ہیں؛ اس اعتبار سے کہ انقلاب برپا کردینے والے طریقے اور اصول و قوانین موجود ہیں، جو بہت ہی زیادہ مشکل ہیں۔’ (١)مصنف، اسی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے اس نظریہ کا بڑی ہی صراحت کے ساتھ اظہار کرتے ہیں جو اس دعوت کے اندر چھپا ہوا ہے۔ نام لیکر اس طرح بیان کیا ہے، ‘اصلاح کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے’ اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ‘اصلاح طلبوں کی بہت مختصر تعداد نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ اسلامی قوانین، عربوں کا ابتدا میں شہر وں کی آبادی اور اس کی آباد کاری کے متعلق ہے؛ اس معنی میں کہ یہ قوانین صرف اس زمانہ کے معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بنائے گئے تھے، اور یہ وہی چیز ہے جس کا لازمہ یہ ہے کہ حالات اور اس وقت کی اقتضا اور بدلاؤ کے اعتبار سے قوانین میں تبدیلی لائی جائے۔'(٢) اور یہی مصنف کی حقیقی رائے ہے۔ مغربی تمدن اور ثقافت کی طرفداری اور اس سے ساز باز کرنے والے لوگ، صرف دو چیزوں کو اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں جس کے اظہار کی جرأت ان کے اندر نہیں پائی جاتی ہے اور وہ درج ذیل ہیں:(١) روحی اور ذہنی اعتبار سے شکست اور مغربی تہذیب و تمدن کے مقابلہ میں احساس ضعف و نا توانی یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ احساس کمتری کا شکار ہونا۔(٢) الٰہی پیغام و احکام کے متعلق ایمان کا فقدان (قرآن اور رسول خداۖ ) اوراس کے بارے میں شک و شبہہ کرنا کہ یہ رسالت، خدا وند عالم اور قادر مطلق کی جانب سے ہے، یا سرے سے ہی خدا وند عالم کے بارے میں شک و شبہہ میں مبتلا ہیں۔…………..(١)و(٢)حرکة التجدید الاسلام ف العالم العربّ الحدیث، ص٤٩، مطبوعہ ١٩٧١ ئ
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.