فصیح زبان کی نابودی
ڈاکٹر طہٰ حسین صاحب (اس بات کی دعوت دینے والوں میں پیش پیش نظر آتے ہیں کہ قرآن کی زبان کو روز مرہ او ر بول چال کی زندگی سے جدا کردیا جائے) وہ اس سلسلہ میں کہتے ہیں: ‘کرہ زمین پر (جیسا کہ کہا جاتا ہے) ایسے دیندار پائے جاتے ہیں جو ایثار و قربانی اور جانبازی کے لحاظ سے ہرگز ہم سے کم نہیں ہیں، مگر یہ کہ ان لوگوں نے بغیر کسی زحمت اور تکلیف کے یہ قبول کر لیا ہے کہ فطری طور پر اپنی پسندیدہ اور خاص زبان ضرور ہونی چاہئے لیکن دینی حمایت اور اس کی پابندی کے اعتبار سے وہ اس طرح سوچتے ہیں کہ زبان و ادب ہماری دنیاوی ضروریات کو پورا کرتی ہیں ایسی زبان بھی ان کے پاس ہونی ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح بہترین اور خالص دینی زبان ہونا بھی بہت ضروری ہے؛ جس کے ذریعہ وہ اپنی مقدس دینی کتاب کی تلاوت کرتے اور نمازوں کو ادا کرتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں: دینی زبان کو بھی اپنائے رہیں اور زمانہ کے ساتھ ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتے رہیں۔مثال کے طور پر: لاتین (Latin) زبان عیسائیوں میں سے بعض لوگوں کی زبان، یونانی زبان عیسائیوں کے دوسری جماعت اور گروہ کی زبان، قبطی زبان(١) عیسائیوں کے تیسرے گروہ کی ایک زبان اور سریانی زبان عیسائیوں ہی کے چوتھے گروہ کی زبان ہے، اسی طرح سے مسلمانوں کے درمیان کچھ افراد ہیں جو عربی زبان میں بات نہیں کرتے یعنی ان کی مادری زبان عربی نہیںہے اور وہ اس زبان کو سمجھتے بھی نہیں ہیں، یہ زبان اُن کے سمجھنے اور سمجھانے کا ذریعہ بھی نہیں ہے، اس کے باوجود ان کی دینی زبان عربی ہی ہے۔ بغیر کسی شک و شبہہ کے یہ لوگ اور ان کے احترام کا طریقہ، اپنے دین کی حمایت، پائبند اور دین سے ان کی والہانہ محبت اور اس کے ساتھ لگاؤ ہم سے کم نہیں ہے۔'(٢)…………..(١)زبان گروہی از مردم مصر (مصری لوگوں کے بعض گروہ کی زبان)(٢)الصراع بین الفکرة الاسلامیة والفکرة الغربیة، الندوی، ص٢٢٩و ٢٣٠۔
پس پردہ سازش(١)صرف اپنے ذوق و شوق اور اس کے متعلق اپنے جوش و ولولہ کو ثابت کرنے اور دکھاوے کیلئے ہمارے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کے بہی خواہ اور ان کی زندگی کو مرفہ وآسان تر بنانا چاہتے اور ان کی سطح زندگی کو بلند کرنا چاہتے ہیں، (جیسا کہ اسلامی ثقافت اور تہذیب و تمدن کو مٹانے اور بدلنے والوں کا یہ کہنا ہے) لیکن ان لوگوں کی ان چکنی چوپڑی باتوں سے کوئی فائدہ مسلمانوں کا ذرہ برابر نہیں ہے، بے شک فصیح عربی زبان (زبان قرآن) ان لوگوں کے مقصد کے حصول کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ اور سد راہ محسوب ہوتی ہے اسی وجہ سے یہ لوگ اسلامی ثقافت کو سرے سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔اِن چودہ صدیوں کے اندر، فصیح زبان نے مسلمانوں کی ادبی اور فکری (نہ یہ کہ صرف عربوں کی زندگی بلکہ تمام لوگوں کے بارے میں) زندگی، غور و فکر کے لئے اسلحہ، اور ایک دوسرے کی باتوں کو سمجھنے، مسلمانوں کے آپس میں ایک دوسرے سے قریب ہونے…………..(١)وہ عنوان جس کو اس صاحب قلم نے کتاب کے اس حصہ کے لئے قرار دیا ہے ‘ملت اسلامیہ سے اس کی وراثتوں کو ختم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے ۔ اور یہ سازش صرف فصیح عربی زبان کی نابودی کے ذریعہ ہی عملیجامہ پہن سکتی تھی’ اور چونکہ بحث کے طولانی ہونے کا خطرہ لاحق تھا اس وجہ سے مندرجہ بالا عنوان پر ہی اکتفا کر لی گئی ہے اور اس بحث نے اس کی جگہ لے لی۔ (مترجم فارسی)اور فصیح عربی زبان لکھنے اور بولنے میں، خواہ نظم و نثر قدیم ہوں یا جدید، اس طولانی عرصہمیں مجموعی طور پر علم و دین نے ان کی ہمراہی کی اور بہت ساتھ دیا ہے۔ ادب کی تمام اصناف سخن میں سنجیدہ اور مزاحیہ کلام سے لیکر حماسہ، غزل، مرثیہ اور ادب کے تمام اصناف سخن میں فصیح عربی ادب و زبان نے تعمیری خدمت کی ہے۔ عربی زبان اپنی چُھپی ہوئی لطافت و شیرینی اور نرمی کے سبب، جو اس زبان میں مضمر ہے۔ ہر زمانہ میں لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے میں پیچھے نہیں رہی ہے؛ اور ہرہر موڑ ہر ہر قدم پر انسانوں کی مشکل کشائی میں آگے آگے اور پیش پیش رہی ہے۔اس بنا پر فصیح زبان کے ناتواں ہونے اور افہام و تفہیم میں سختی اور زحمت کا شاخسانہ! بنایا گیا اور لوگوں کو آسان عربی زبان کا سبز باغ دکھانے کا مظاہرہ اور جوش و ولولہ کسی ایک اہل زبان یعنی عربوں پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔ بازاری عامیانہ لہجہ (غیر فصیح یعنی دیہاتی اور محلی لہجہ) اس دور میں اہل عرب کی عقلی، ادبی، سیاسی نیز اقتصادی زندگی کے حوالے سے عرب کے اس فصیح لہجہ کے مقابلہ میں، زیادہ لطیف اور شیرین نہیں ہے۔ (اگر ہم اس کے بر عکس تصور نہ بھی کریں، تب بھی اس سے شیرین کو ئی ا ور زبان نہیں ہو سکتی ہے۔)زبان کو بہت ہی آسان و شیریں بنا کر پیش کر نے کے سبز باغ دکھانے میں در پردہ ایک سازش کار فرما ہے، جس میں پورا زور اس بات پر لگایا جا رہا ہے کہ عوام کی نظر میں فصیح عربی زبان کی تاثیر کو ختم کر دیا جائے، جو عربوں کی عقلی، ادبی اور سیاسی زندگی میں پوشیدہ (مضمر) ہے۔ اس کو عامیانہ لہجہ میں تبدیل کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ کا قانونی منابع سے مستقیم اور سیدھا رابطہ بالکل ختم کرکے ان (عربوں) کو آپسی میل ملاپ اور ان کے باہمی ارتباط سے محروم کر دیا جائے، اور اسی طرح غور و فکر کے اعتبار سے بھی عربوں کو اسلامی تہذیب و تمدن سے دور کرنے کا ان لوگوں کا مقصد پورا ہو جا ئے گا۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ امت مسلمہ اپنی گذشتہ وراثتوں اور اسلامی ثقافت و تمدن سے دور ہو جائے، قرآن و احادیث سے مستقیم اور سیدھے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوجائے۔ اور پھر اپنی سابقہ زندگی سے عاجز ہوکر مشرق یا مغرب کے قدموں میں پناہ لے لے یا پھر زمانہ والوں کی طرح جاہلی تہذیب و تمدن (فرعونی، زرتشتی، عاشوری، کلدانی وغیرہ) کی طرف پلٹ جائیں؛ اور پھر انھیں کے رنگ میں رنگ جائیں۔
مختلف دبستان ادب میں عوامی لہجہ کی تعلیم پر زوراپنے اس مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے کے لئے عربی زبان کے مختلف مکاتب اور مراکز، دانشگاہ اور اعلیٰ تعلیم گاہوں میں تدریس کی کرسیوں اور اسی طرح عربی دنیا میں اسلام کے بڑے بڑے علمی اور ادبی جرائد کو اپنا زر خرید غلام بنا لیا تھا۔ (اس طرح ان کو اپنی خدمت میں لے لیا؛ ان تمام جرائد اور متعدد ادبی حلقوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا اور وہ بے زر خریدہ غلام بن کر ان کے تابع محض ہوگئے تھے۔ مترجم)احمد حسن الزیات ‘رسالہ اور روایہ’ نامی جرائد کے ایڈیٹر اور مدیر اعلیٰ اس طرح کہتے ہیں: ‘وہ قاہرہ کے عربی زبان کے مکاتب کی تأسیس کے ابتدائی دور میں بڑے بڑے منتظمین (عربی اور اسلامی مفاد کے محافظ) اور اہل قلم ادبی مکاتب پر مسلط ہوگئے اس کے بعد بھی مصنفین اور صاحبان جرائد نے ان امور کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے لیا؛ یہ وہی لوگ تھے جو عوامی زبان کو اہمیت دینے کے حوالے سے اور اس وجہ سے کہ کہیں زبان جمود کے سبب زمانہ کی رفتار سے پیچھے نہ رہ جائے، اس سلسلہ میں ‘مجمع’ یعنی زبان و ادب کے امورِ سے متعلق انتظامیہ کو متعدد مواقع پر ٹوکا اور اس امر پر توجہ دلائی۔’ (١)…………..(١)اللغة العربیة بین الفصحی و العامیة، ص٨١و ص٨٢۔ جیسا کہ ڈاکٹر محمد محمد حسین نے بھی اپنی کتاب’حصوننا مھددة من داخلھا’ کے ص٢٠٤ میں اس مطلب کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔’آخر کار عربی زبان کی حفاظت کی دعوت دینے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ مختلف وسائل اور ذرائع کے سبب، وہ دروس جن کو ‘عوامی (عامیانہ) ادبیات’ کے نام سے جانا جاتا ہے، عربی زبان کے ادبیات کی جانچ پڑتال اور تحقیقات کرکے وہ لوگ دانشگاہ (یونیورسٹی) کے تمام شعبوں میں مثلاً شعبۂ ادبیات شعبۂ سماجیات وغیرہ میں دخیل ہو گئے۔ یہاں تک کہ عربی ‘الازھر’ کالج کی بنا ڈال دی، اور اُن کو یہ بھی توفیق ہو گئی کہ قاہرہ (یونیورسیٹی) میں اس کے اساتید کی تدریس کے لئے بھی ادبیات کا ایک شعبہ قائم کر لیا جائے، اور انہوں نے ایسا ہی کر دکھایا۔جب اکثر ماہرین تدریس عربی دبستان ادب میں جمع ہوگئے اس وقت چند صاحبان قلم محققین نے عوامی اور دیہاتی زبان (خاص طور سے قصوں اور بالاخص دیہاتی زبان) پر نکتہ چینی کی اور اعتراض کا بازار گرم کردیا۔ انھیں ‘عامیانہ ادب’ میں سے ‘ڈاکٹر محمد حسین ہیکل’ کا معروف قصہ ‘زینب’ ہے اور اس کے علاوہ دوسرے قصوں کا بھی نام پیش کیا جاسکتا ہے جن پر شدید اعتراض کئے گئے۔ اس دعوت کا زیادہ اثر ادب نو کے حلقوں پر پڑا یعنی شعبۂ ادبیات اور اس سے مربوط کالج اور بڑے مراکز میں تبدیل ہوگئے۔’قاضی ویلمور’ نے اس بارے میں ‘لغة القاہرة’ نامی ایک کتاب تحریر کیانھوں نے اس کتاب میں عوامی زبان کے قواعد و ضوابط وضع کئے اور یہ پیشکش بھی کی کہ اس زبان کو علم و ادب کی زبان قرار دی جائے۔ اور اس نے یہ بھی پیشکش کی کہ عوامی زبان کی تحریر لاتینی رسم الخط میں ہونی چاہئے اور لوگوں کو اسی زبان کے لکھنے پر شوق دلایا جائے۔ ‘مُقتَطِف’ نامی جریدہ نے اسی رسم الخط میں اس زبان کو لکھنے کی پیشکش کے علاوہ اس کی تعریف بھی بہت کی، لیکن یومیہ اخبار نے لکھ ڈالا کہ اس دعوت کے ذریعہ اسلام کی زبان سے مبارزہ کرنا مقصود ہے اور اس کے علاوہ ان لوگوں کا کوئی مقصد نہیں ہے۔'(١)
مدارس پر قبضہ(دشمن نے) مدارس کی مختلف سطحوں کی تدریس کے حوالے سے منظم اور مستحکم تحریک چلادی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی اس مہم میں تسلط حاصل کرکے اس کو بھی سر کر لیا۔ اور انھوں (اسلام دشمن طاقتوں) نے دنیا میں بہت سے مدارس، اسکول اور کالج کا قیام عمل میں لائے (اور ان کی تاسیس کی) اور ان مدارس کو چلانے کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا، تاکہ نسل نو کو ماضی کی تاب ناک تاریخ اور گذشتہ وراثتوں سے یکسر جدا کردے؛ ساتھ میں یہ بھی کہ ان مدارس میں مشغول طالب علموں کو بہت ہی سطحی، عمومی اور معمولی تعلیم دی جائے۔ تاکہ یہ لوگ ہمیشہ ہمارے دست نگر اور محتاج رہیں۔اس اقدام کے ذریعہ عیسائیت کو اپنی تبلیغ و ترویج کا بہترین موقع مل گیا، نوجوانوں اور جوانوں میں اپنی اس تبلیغ سے اس کا کوئی اور مقصد نہیں تھا سوائے یہ کہ یہ لوگ عیسائیت کے بیج کو نوجوانوں اور جوانوں کے دلوں میں ڈال کر اس کو بار آور کرنا چاہتے تھے، تاکہ نسل نو کو ان کی بنیادوں، ماضی کے مستحکم تاریخی حقایق اوران کی پختہ مذہبی اور گہری جڑوں والی ثقافت سے ان کو دور کردیں اور یہی ان کا اصلی مقصد تھا۔…………..(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ج٢، ص١٣٥۔بعض تبلیغی اجتماعات میں، عیسائیت کے مبلغین دین اسلام کے خلاف اپنے مقصد کے حصول کے لئے (تبلیغی ساز و کار اور طور طریقہ کو بتاتے ہوئے کہ تبلیغ اس طرح کی جانی چاہئے) وہ لوگ حقیقی اور خفیہ طور پر مسلمانوں کو عیسائی بنانا چاہتے ہیں، اسی بارے میں وہ آپس میں شکوہ شکایت اور اس سے بہتر کار روائی اور طریقۂ کار کی تلاش کے لئے فکر مند تھے کہ دین اسلام اور مسلمانوں سے کیسے نمٹا جائے۔اس اجتماع کے اختتام پر، عیسائیوں کے پادری یا کشیش جس کا نام ‘سموئیل زایمر’ تھا، وہ اپنی جگہ پر اٹھ کھڑا ہوا؛ اور اس طرح اپنا اختتامیہ بیان دیا۔ وہ اس طرح کہتا ہے: اس اجتماع کے مقررین نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ عیسائیت کی ترویج اور اس کی تبلیغ کا واقعی مقصد، مسلمانوں کو عیسائی بنانا ہرگز نہیں ہے، بلکہ ان کا اصلی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اُن کے دین اور مذہب سے دور کر دیاجائے؛ ان (مسلمانوں) کو اپنی ثقافت اور تہذیب سے دور کرکے لا مذہب بنا دیا جائے۔ اس بارے میں ہم اپنے ذاتی اور پرائیویٹ اسکولوں اور اسی طرح (دنیائے اسلام کے) سرکاری اسکولوں کے ذریعہ جو کہ ہمارے تعلیمی طریقہ کار کی پیروی کر رہے ہیں ہم یہ کام بہ آسانی انجام دے سکتے ہیں؛ اس لئے کہ ہم نے اُنہیں لوگوں کے درمیان بہت واضح کامیابی حاصل کی ہے۔'(١)اس موقع پر اسلام پر چھپ کر گھات لگانے اور مخفیانہ حملے کرنے والے (عالمی سامراج، اور استعمار) لوگوں نے اسکولوں، مذہبی اور ثقافتی تعلیم گاہوں میں اپنے نفوذ کے ذریعہ، بہت وسیع پیمانہ پر اسلامی سرزمین پر قبضہ جمانے کی قدرت حاصل کر لی ہے۔…………..(١)معرکة التقا لید، ص١٨٠۔’جنرل پی یرکلیر’ نے لبنان میں فرانس کے طور طریقہ پر ادارہ ہونے والی تعلیم گاہوں اور اسکولوں کے بارے میں اپنی نظر کا اس طرح اظہار کیا ہے:تقریباً پہلی عالمی جنگ کی ابتدا میں (١٩١٤۔ ١٩١٨ء کے دوران) تعلیم و تربیت کا پورا انتظام واہتمام ہمارے ہاتھوں میں رہا ہے یعنی ہم نے اس کا ادارہ کیا ہے۔(١)مغربی حملہ آوروں اور چھپ کر گھات لگانے والوں نے باقاعدہ جان لیا ہے کہ یہ اسکول، تعلیم گاہیں اور اعلیٰ تعلیمی مراکز (دانشکدے) یہ سب چیزیں نسل حاضر کو ان کی وراثتوں سے دور کرنے کا بہترین اور مناسب ذریعہ ہیں۔ لہٰذا پہلے نسل نو کو ان کی دینی اور مذہبی وراثتوں اور اسلامی تہذیب وثقافت سے جدا کرکے مغربی (انگریزی) افکار اور یورپ کی تہذیب و ثقافت اور تمدن میں غرق کردیں۔’لارڈلویڈ’ نے (مصر میں وقت کا عالی رتبہ برطانوی نمائندہ) وکٹوریہ اسکندریہ کالج (College) ١٩٢٦ء کی ایک تقریر کے دوران اپنے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے یوں کہتا ہے:ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم مصریوں اور برطانوی شخصیات کے درمیانطرفینی افہام و تفہیم کے تمام ذرایع، جو فی الحال ہمارے اختیار میں ہیں، فراہم کرکے ان میں مزید استحکام پیدا کریں۔ عموماً آپس کا یہی تفاہم اور باہمی تعلقات ہی ہم کو ہمارے مقصد میں کامیاب بناسکتے ہیں۔ وکٹوریہ کالج کی تأسیس سے ‘لارڈکرامر’ کا مقصد بھی یہی تھا۔ دو ملکوں کے درمیان تعلقات بڑھانے اور اس کے استحکام میں دانشکدوں اعلیٰ…………..(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ج٢، ص٢٦٦۔تعلیم گاہوں یا کالجوں میں پڑھنے والے جوان لڑکے اور لڑکیوں کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل اور تمام ذرائع سے کہیں زیادہ بہتر، مؤثر اور مناسب وسیلہ ہے، کوئی اور وسیلہ اس کی برابری نہیں کر سکتا ہے۔(١)وہ (کالج کے) طالب علموں کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کرتا ہے: ‘وہ وقت زیادہ دور نہیں جب طلباء و اساتذہ کے پاس اٹھنے بیٹھنے اور حشر و نشر کے سبب برطانوی نظریات متأثر ہو جائیں گے۔’مناسب یہ ہے کہ اب اس موضوع پر زیادہ طول نہ دوں اور اس سے زیادہ اس موضوع کے سلسلہ میں بحث نہ کروں؛ اس لئے کہ محترم قاری حضرات خود بھی ڈاکٹر محمد محمد حسین کی تصانیف ‘الغارة علیٰ العالم الاسلام’ اور ‘الاتجاھات الوطنیة ف الادب المعاصر’ کے ایسی کتابوں سے استفادہ کرسکتے ہیں؛ اسی طرح ڈاکٹر مصطفی خالدی اور عمر فرّوخ کی کتابیں ‘التبشیر و الاستعمار،، جس میں نسل حاضر کی افکار اور تہذیب و ثقافت پر نشانہ سادھا گیا ہے، استعمار کی ان خطرناک سازشوں کو بڑی ہی آسانی سے پہچان سکتے ہیں۔مندرجہ بالا مذکورہ عبارت میں مغربی رجحان کی دعوت دینے والوں اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر حملہ کرنے والے لوگوں کے بارے میں سرسری اور غائرانہ تذکرہ کیا جا رہا ہے جس کو انھوں نے نسل حاضر کی تہذیب اور ان کی ماضی کی وراثتوں اور اسلامی ثروت پر ڈاکہ ڈالنے، نیز ان کو منحرف ا ور گمراہ کرنے کی غرض سے اسلامی ممالک میں داخل ہو گئے ہیں۔…………..(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ج٢، ص٢٦٧ و٢٦٨۔