آتاترک اور مغرب پرستی کی دعوت

282

‘اورگا’ تحریر کرتا ہے: ‘آتاترک’ نے اس بات پر اطمنان اور یقین کرلیا تھا کہ اس کی جنگ دین سے ہونے چاہئے، اس لئے کہ دین سے جنگ بہت بڑی رقابت کا پیش خیمہ ہے۔ وہ اپنے بچپنے ہی سے اس بات کا معتقد تھا کہ خدا کے وجود کی کوئی ضرورت نہیں ہے، چونکہ خدا کا مفہوم غیر ناطق، گنگ، نامرئی ہے، لوگوں کو دھوکہ میں ڈالنے والا اور ہر حقیقت سے عاری ہے۔ (جیساکہ آتاترک اس بات کا قائل بھی تھا) وہ صرف انھیں محسوسات پر عقیدہ رکھتا تھا جو دیکھنے میں آسکتے ہوں اور عموماً اُن چیزوں کا مشاہدہ ممکن بھی ہو،(1) اس (کمال آتاترک) کا…………..(1)مؤلف اپنی کتاب میں اس طرح لکھتے ہیں: آتاترک اپنے عمر کے آخری حصہ میںآسمان کی طرف اپنا ہاتھ بلند کرتا تھا اور تمسخر اور تھدید آمیز انداز میں اس کی طرف اشارہ کرتا تھا۔عقیدہ یہ بھی تھا کہ گذشتہ زمانہ میں اسلام تباہی اور بربادی پھیلانے والا ایک عنصررہا ہے اورترکی کے حق میں بہت بڑی خطا اور جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ اس نے ترکی کو ایسے نقصانات پہونچائے، جن کی بھرپائی ممکن نہیں ہے۔اس کا عقیدہ تھا کہ عوام الناس اسلام قبول کرنے کی وجہ سے، فکر و عقیدہ کے حوالہ سے اوہام اور جمود کا شکار ہوگئے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو قضا و قدر کے حوالہ کردیتا اور یہ کہتا: ‘کہ خداوند عالم کا ارادہ یہ ہے’ یا ‘یہ چیز ہماری تقدیر میں لکھی ہے’ تو اس سے بڑے ہی بے دردی اور سختی سے پیش آتا تھا، وہ (ملعون) اس بات کا بھی عقیدہ رکھتا تھا کہ نعوذ باللہ خدا ہے ہی نہیں، صرف انسان ہی ہے جو اپنی تقدیر کو خود بناتا ہے! اس سے بار بار کہتے ہوئے سنا گیا ہے: ‘عقل اور حتمی ارادے کی طاقت الٰہی قدرت پرمسلّط اور غالب ہے۔ اگرچہ دیندار لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں: خدا اپنے امور میں جلدبازی سے کام نہیں لیتا۔ اور کسی کو بھی اس کے حال پر نہیں چھوڑتا۔’وہ یہ کہا کرتا تھا: برقی قدرت (Electric Power) کے بارے میں، جس نے کاموں کی سرعت رفتار کو تیز سے تیزتر کردیا ہے، کیا یہ دیندار لوگ اس امر سے ناواقف ہیں؟ کہ بجلی ہماری ہی پیداوار ہے!۔’آتاترک نے یہ مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ جمہوریۂ ترکی میں وہ کوئی ایسا قانون نافذ کرکے دین و مذہب پر پابندی لگادے، اگرچہ ایسا کرنے کے لئے قدرت و طاقت، فریب کاری اور مکاری کی ضرورت تھی۔(١)’عرفان اورگا’ نے اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر لکھا ہے:…………..(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ڈاکٹر محمد محمد حسین، ص٢٣٧، ٢٣٨۔علم النفس (Psychology) کے معیار اور اس کے نظریات نیز اس کی حکمت اور فلسفہ یہ سب باتیں ‘آتاترک’ کے سامنے ہیچ اور بے معنی تھیں، اسی بنا پر کوئی بھی چیز اس کو اس کے واہی اور بے بنیاد عقیدہ سے روک نہیں سکتی تھی کہ ترکی کے لئے دین کی ضرورت نہیں۔ لیکن وہ چیز جس کو اس نے دین کے نام پر ترکی کی عوام کے لئے پیش کیا ہے، وہ اس کا ایک نیا خدا ‘مغربی اور فرنگی تہذیب و تمدن’ ہے۔اس (عرفان اورگا) نے اس بات کا بھی اضافہ کیا ہے: ‘آتاترک’ بڑی ہی شدت کے ساتھ اسلام اور اس کے صحیح، راسخ ا ور مستحکم عقیدہ رکھنے والوں سے پَکّی دشمنی رکھتا تھا۔ وہ یہ کہا کرتا تھا: ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم زندگی کے مختلف اور تمام پہلوؤں میں، اپنی مردانگی کو ثابت کریں۔ بڑی بڑی مشکلات اور مصیبتیں ہمیں بہت تکلیف دیتی ہیں اور اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں دنیا سے بالکل کٹ کر رہ گئے ہیں۔ یا پھر ہم نے گوشہ تنہائی اختیار کرلی ہے، لیکن بین الاقوامی سطح پر ان مشکلات کا حل تلاش نہیں کیا ہے۔ ہم کو لوگوں کے بہکانے میں بالکل نہیں آنا چاہئے۔ ہم ایک غنی تہذیب و ثقافت اور تمدن تک پہونچنا چاہتے ہیں، ہم کو اپنے اوپر فخر کرنا چاہئے۔ دنیائے اسلام کے مختلف ممالک کے مسلمانوں کو اپنی نظروں کے سامنے رکھکر دیکھو کہ وہ کتنا زیادہ مصیبتوں، آزمائشوں بلاؤں اور بربادیوں میں مبتلا اور ان کو کتنی ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہ لوگ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ اپنی عقل کو پیش رفتہ، ترقی یافتہ اور دمکتی ہوئی تہذیب و (مغربی وفرنگی) ثقافت کو اپنی زندگی کے مختلف حصوں میں بروئے کار لائیں۔ یہی چیز سبب بنی کہ ایک طولانی عرصہ تک ہم انحطاط، پستی اور ذلت کا شکار رہے اور آخر کار اس ترقی کے سفر میں ہر قافلہ سے پیچھے رہ گئے، اور انحطاط کے بہت ہی گہرے کھڈ میں جا گرے۔ اگر گذشتہ سالوں میں ہمارا معیار کچھ بلند بھی ہوا ہے اور ہم ترقی کے راستہ پر لگ گئے ہیں تو وہ سب اس بات کے مرہون منت ہیں کہ اب ہمارے سوچنے کے انداز میں بھی کچھ تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ لیکن ہم کو اس مقام اور منزلت کے حصول کے بعد اب اسی مقام پر آکر ٹھہر نہیں جانا چاہئے، بلکہ ہمیں قیام کرنا چاہئے اور جد و جہد میں بڑی ہی سنجیدگی سے لگ جانا چاہئے۔ تاکہ ہم ترقی کے راستہ پر مستقل آگے بڑھتے رہیں اور دن دونی رات چوگنی ترقی کا ارتقائی سفر تیزی سے طے کرکے اس کی چوٹی تک پہونچ جائیں؛ جو ہوگا وہ بعد میں دیکھا جائے گا اور اس سے نمٹ لیا جائے گا! اور ہمارے لئے اس راستہ کے علاوہ کوئی اور راستہ اور چارۂ کار بھی نہیں ہے۔ عوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ تہذیب و تمدن ایک بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلہ کے مانند ہیں اور جو بھی اس کے سامنے نرمی کا ثبوت دے گا اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کی لپیٹ سے بچایا نہیں جاسکتا۔ آخر کار وہ اس آگ کے شعلوں میں جل کر خاکستر ہو جائے گا۔'(١)…………..(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ڈاکٹر محمد محمد حسین، ص٢٣٧، ٢٣٨۔
عثمانی حکومت کا تختہ پلٹنے میں ‘آتاترک’ کا بنیادی کردارصاحب کتاب ‘آتاترک’ نے لکھا ہے: ہر شخص پر یہ بات ظاہر ہے کہ ‘مصطفی کمال آتاترک’ کسی بھی دین کا پابند اور پیرو نہیں تھا، اسی وجہ سے لوگوں کے درمیان یہ مشہور ہو گیا تھا کہ خلافت کی بساط جلدی ہی لپیٹ دی جائے گی۔ جب لوگوں کی زبانوں پر یہ بات چل پڑی کہ ‘مصطفی کمال’ نے شیخ الاسلام کے سرپر قرآن مجید کو دے مارا، (جو علمائے اسلام کے بزرگوں میں تھے اور عالَم اسلام میں ان کی شخصیت بہت محترم اور بھاری بھرکم تھی) تواس واقعہ کے بعد عوام بہت ہی زیادہ خوفزدہ ہوگئی، اس لئے کہ اس نے ایک ایسا عمل انجام دیا تھا جس کی جزا اس کے علاوہ کچھ اور نہیں تھی کہ فوری اسے قتل کردیا جائے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ حادثہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت پہلے کے مقابلہ میں بہت زیادہ تبدیلی آچکی تھی۔(١)مؤلف نے تقدس اور عظمت کا معیار، آتاتورک کے احترام محبت، انس اور ایثار نیز مغربی تمدن اور انگریزی تہذیب کی بہ نسبت لوگوں کے لگاؤ اور رجحان کو بتایا ہے۔ اور یہ کہ ‘آتا ترک’ کا عشق خلیفہ کے بہ نسبت عوام کے عواطف پر کیسے غالب آگیا، جب کہ…………..(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ڈاکٹر محمد محمد حسین، ص٢٧٦۔ان کے خون اور رگ و پے میں اسلام اور خلافت کا احترام راسخ ہوچکا تھا۔ اس نے لکھا ہے:’مصظفیٰ کمال’ اپنی عوام اور اپنے خود ساختہ دستور پر بہت زیادہ اعتماد کرتا تھا اور اسی کی طرف اپنے ہر کام کی نسبت دیتا تھا۔ اپنے اس جدید خدا (مغربی تمدن) کا بڑے ہی گرم جوشی اور عشق کے ساتھ ایک وفادار کی طرح پرستش کرتا تھا۔ یہی امر سبب ہوا کہ اس نے عنوان ‘تمدن’ (Civilization) کو دنیا کے کونے کونے اور دور افتادہ علاقوں تک پہونچانے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی۔اس وقت جب وہ تمدن کے حوالے سے گفتگو کرتا تھا تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اُٹھتی تھیں۔ جیسے بہشت کی طر ف توجہ کرتے وقت صوفیائے کرام کی آنکھیں چمکنے لگتی ہیں اور نور ان کے چہروں سے عیاں ہونے لگتا ہے۔'(١)مصطفی کمال ترکی کی عوام سے کہتا رہتا تھا:یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم متمدن اور ترقی یافتہ لوگوں کا لباس اختیار کرکے اُسے پہنیں، اور ان کی تہذیب کو اپنائیں، یہ بھی ضروری ہے کہ ہم دنیا اور دنیا والوں پر یہ ثابت کردیں کہ ہم عظیم، بزرگ اور ترقی یافتہ قوم ہیں۔ اور وہ لوگ جو ہماری اور ہمارے طرز زندگی کے بارے میں کافی شناخت نہیں رکھتے ہیں، ترکی کے قدیم رسم و رواج کے سبب ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، ہم ان کو کبھی نہیں بخشیں گے۔ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم فکر نو کی موجوں پر زمانہ کے قدم سے قدم ملاکر انہیں کے راستہ پر گامزن رہیں اور کامیابی کے راستہطے کریں۔'(٢)…………..(١)و(٢)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ڈاکٹر محمد محمد حسین، ص٢٣٣۔مؤلف نے ان باتوں کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:’کمال آتاترک’ چلا گیا تاکہ وہ اپنے نظام کی ان وسعتوں کو جن کے ذریعہ اپنی تحریک کا آغازکیا تھا اس کو انجام تک پہونچائے۔ وہ اس بات کا اقرار کرتا تھا کہ ترکی کے سابقہ متعفن، بدبودار اور فاسد نظام سے جمہوریۂ ترکی کو جدا کردے، تمام وہ ویرانیاں اور برائیاں جو اس نظام کا احاطہ کئے ہوئے تھیں، ان نحوستوں کو اس سے یکسر ختم کرکے ان کی اصلاح کردے۔ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ جب تک اس نے ترکی کے قدیمی ڈھانچے کو بالکل بدل نہیں دیا، چین سے نہیں بیٹھا۔ بادشاہت کو آزاد جمہوریہ سے، شہنشاہیت کو ایک واحد آزاد ملک اور خالص دینی حکومت کو ایک سادی اور معمولی جمہوریت میں تبدیل کردیا ہے اور یہ اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔اور وہ اس بات کا بھی معترف تھا کہ اس نے بادشاہ (خلیفہ عثمانی) سے حکومت چھین لی اور عثمانی شہنشاہیت سے حالیہ ترکی کے تمام روابط ختم کردیئے اور ابھی بھی پرانی ذہنیت، قدیمی تصورات اور فکر کہن، رسم و رواج، پہناوا، اخلاق و آداب معاشرت اور زمانہ کے نئے نئے رسم و رواج، روز مرہ کی زندگی کی طور طریقہ کو جدید نظام میں تبدیل کر دینا اور ان سب سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا، کسی نئے کام کی انجام دہی اور ازسرنو کسی سیاسی مشن کے وجود میں لانے سے بس دشوار ہے۔آتاترک نے بھی ایسے اقدامات کی معلومات بڑی ہی دشواری سے حاصل کی تھیں، جیسا کہ ایک مرتبہ اس نے یہ کہا بھی تھا: میں اپنے دشمن پر فتحیاب ہو گیا اور اس پر ظفر و کامیابی حاصل کر لی ہے، اور اپنی سر زمین یعنی سرحدوں کو وسیع کرلیا ہے، اب کیا اس بات پر بھی قادر ہوں کہ اپنی عوام پر بھی تسلط حاصل کرپاؤں؟!'(١)’مصطفی کمال آتا ترک’ نے تین آذار (بہار کا پہلا مہینہ) ١٩٢٤ء میں عثمانی حکومت سے جدید ترکی حکومت میں تبدیلی کا لائحۂ عمل ترکی کی پارلمان (Turkish Parliament) کے حوالہ کردیا اور اس کے ساتھ ہی عثمانی حکومت کی بساط الٹ کر رکھ دی۔ اس نے بڑی ہی جرأت اور صراحت کے ساتھ اسی موضوع پر تقریر کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اس طرح اظہار کیا ہے:’چونکہ عثمانی شہنشاہیت کی بنیاد اسلام پر استوار تھی اور اسلام کی سرشت اور اس کے خمیر نیز اس کے افکار و تصورات عربی زبان پر استوار ہیں، انسان کے زندگی بسر کرنے، (پیدائش سے مرنے تک) کے کچھ اصول و ضوابط ہیںجس کو اس نے ایک خاص طریقہ پر استوار کیا ہے۔ اسلام نے اپنی اولادوں کو جاہ طلبی کے خلاف تعلیم دے کر ان میں جاہ طلبی کو بالکل ختم کر دیاہے اور بغاوت، سرکشی اور جارحانہ (تہاجمی) کیفیت پر روک لگادی ہے۔ ہر وہ حکومت جس کا سرکاری مذہب اسلام ہو وہ حکومت نابودی کے دہانے پر کھڑی ہے۔’اگرچہ ترکی کی پارلمان ‘عوامی مجلس’ نے ان چیزوں کی منظور ی بھی دے دی تھی، اسکے با وجود لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف زیادہ مرکوز نہیں کرپایا، در حقیقت یہ منظوری پیکر اسلام پر ایک کاری ضرب تھی جو بالکل صحیح نشانہ پر جا لگی۔ ترکی کی پارلمان کا منظور شدہ قانون یہ تھا کہ تعلیم و تربیت کے نظام کویکجا یعنی لڑکیوں اور لڑکوں کے تعلیمی نظام کو مخلوط کر دیا جائے، اس لئے کہ کسی بھی تہذیب و ثقافت کی ترقی میں نظام تعلیم و تربیت ہی اپنا دائمی اور…………..(١)Greywoolf,ص ٢٨٧۔گہرا اثر چھوڑ تے ہیں۔ اس (کمال آتا ترک) کے اس اقدام سے، وزارت تعلیم نے جمہوری حکومت کے احاطہ میں تمام دوسرے تعلیمی اداروں کو اپنی طرف کھینچ کر اپنے آپ سے مخصوص کرلیا، اور اس طرح دوسرے تعلیمی اداروں پر اپنا تسلط اور اقتدار جمالیا۔ حالات کی تبدیلی اور معلمین و اساتذہ کی سلب آزادی نے اُن کو مفلوج کرکے رکھدیا، اور ان سے اس اختیار کو سلب کرلیا۔
‘آتا ترک’ اور اس کے معاصر ‘ہٹلر’ کا موازنہمشہور و معروف مورخ ‘آرنالڈ ٹو ین بی’ (Toynbee) اپنی کتاب History) (A Study of مطالعۂ تاریخ میں نہایت ہی فصیح و بلیغ اور مؤثر عبارت کے ضمن میں لکھا ہے: ترکی کے رسم الخط کی تبدیلی اور اس سلسلہ میں ‘کمال آتاترک’ کی زیرکی اور فراست نیز اپنے مقصد کے حصول کے لئے بہترین کارروائی کے بارے میں تحریر کرتے ہوئے ا سطرح کہا ہے:’لوگوں کے درمیان یہ بات پھیل گئی تھی کہ ‘کمال آتاترک’ نے ‘اسکندریہ’ کے عظیم کتب خانہ کی کتابوں کو (جو گذشتہ نو صدیوں کا بہت بڑا علمی ذخیرہ تھیں) حمام کے چراغوں کے روشن کرنے اور اس کے پانی کو گرم کرنے کی غرض سے نذر آتش کر دیا۔'(١) (بڑی ہی خوبصورتی سے بہانہ تراشا اور اتنا بڑاقومی سرمایہ نابودی کے گھاٹ اتار دیا۔ تاکہ…………..(١)اسکندریہ کے کتب خانہ کی آتش سوزی کی طرف اشارہ ہے ،اس کو ایک شاخسانہ قرار دیا۔ اس افسانہ کا خلاصہیہ ہے۔ وہ برابر کہا کرتا تھا کہ ان علمی ذخائر کو میں نے اپنے تئیں برباد نہیں کیا، بلکہ یہ سب خلیفہ کے دستور سے ہوا ہے، حالانکہ تاریخی تحقیق اور جانچ پڑتال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ گڑھا اوربے بنیاد ہے۔ ان علمی ذخیروں کو اس نے خود سرانہ طور پر جلایا ہے۔وہ اس کو نابود کرکے اپنے مقصد کو حاصل کرلے اور اس طرح اپنے اہم مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے یہ کہاکرتا تھا کہ مطبع اور پریس کا لگانا بہت مشکل بلکہ محال کام ہے۔مترجم)ہمارے زمانہ میں ہٹلر نے بھی تمام کوششیں کر ڈالیںکہ ہر اس علم کو مٹادے جو اس کے خلاف ہو اور اس کی فکر سے تال میل نہ کھائے اور ایسے علمی ذخائر کو نابودی کے گھاٹ اتار دیتا تھا اور اپنے اس عمل میں کامیابی کے حصول کی خاطر یہ کہا کرتا تھا کہ مطبع اور پریس کا لگانا بہت مشکل بلکہ اس امر کو محال سے زیادہ مشابہ بتایا تھا۔ (تاکہ وہ اپنے مقصد کو اس کے ذریعہ اس افسانہ کی آڑ میں حاصل کرلے اور عوام الناس اس پر زیادہ زور اور دباؤ بھی نہ بنا پائیں۔مترجم)’مصطفی کمال’ (معاصر ہٹلر) نے اپنے دفاع اور عقل کو ایسے راستہ کے حصول میں لگایا جس کے ذریعہ اس کو کامیابی حاصل ہو، آخرکار اس کے ذریعہ اس کو بہت بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ترکی کے آمر (Dictator) نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ ترکوں اور ان کی ذہنیت کو اس تہذیب سے جو اس (آتاترک) کے بقول وحشت گری کا تمدن تھا۔ وہ اپنی پوری قدرت اور تمام کوششوں کو بروئے کار لاکر ترکی کی عوام کو مغربی تمدن کے ثبات، استواری اور استقرا پر کاربند تھا۔ اس نے کتابوں کوجلانے اور نذر آتش کے بجائے! حروف تہجی اور
رسم الخط کی تبدیلی پر ہی اکتفا کیا، اپنے اس اقدام کے ذریعہ اس نے چین کی شہنشاہیت اور عربی خلیفہ کی پیروی سے اپنے کو بے نیاز اور آزاد کرلیا؛ اسی طرح سے فارسی، عربی اورترکی زبان کے قدیم علمی ذخائر بھی ایسے ہی حالات، نتائج اور سرنوشت سے دوچار ہوئے؛ جس کے بعد پھر ان ذخائر تک کسی کی رسائی ممکن نہ ہوسکی، یعنی پھر اس کو کوئی سمجھ ہی نہ سکے اور اس کی ضرورت ہی باقی نہ رہ جائے۔ ایسا ہی ہوا کہ لوگ اس کے درک و فہم سے عاجز ہوگئے، پھر آہستہ آہستہ ان زبانوں سے دور ہوگئے۔ اور اس طرح علمی ذخائر یعنی قدیمی کتابوں کو آگ لگانے کی ضرورت بھی باقی نہ رہ گئی؛ اس لئے کہ عربی زبان کے حروف تہجی کی بساط ہی الٹ دی گئی تھی۔ یہ کارروائی اس نتیجہ کے حصول اور اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرنے، کتابوں کو غسل خانوں کے پانی گرم کرنے کے مقصد سے نذر آتش کردینا ایک بہانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ (اس کے علاوہ) اپنے اس اقدام کے ذریعہ (مصنفین، اہل قلم حضرات اور ان کے دیوان) لوگوں کے احساسات اور جذبات یہ سب مردہ عجائب گھر اور میوزیم کی زینت بن گئے اور ان کو طاق نسیاں کے حوالہ کر دیا۔ اور اب اس کا حا صل کرنا ضروری نہیں رہ گیا، چونکہ ان افکار اور شائعات کے اوپر مکڑی نے جالے تن دیئے یعنی یہ سب باتیں ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئیں۔ اب ان کتابوں کو کچھ بوڑھے مولویوں کے علاوہ کوئی پڑھنے والا نہ تھا۔'(١) (یعنی ان کے علاوہ کوئی بھی شخص اس کے پڑھنے پر قادر نہیںتھا، اور کوئی ایسی پرانی اور بوسیدہ تحریروں کو پڑھنے کے لئے راغب و مائل بھی نہیں ہوتا تھا۔مترجم)…………..(١)الصراع بین الفکرة الاسلامیة والفکرة الغربیة، الندوی، ص٦٢۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.