اسلام اورجمھوریت (1)

392

ھم نے گذشتہ بحث کے دوران اسلام کے سیاسی نظریہ کو دوحصوں میں تقسیم کیاتھا:ایک قوہ مقنقنھ( قانون گذاری) دوسراقوہ مجریھ( قانون کو جاری کرنے والی طاقت)،اور اس سلسلہ میں ھو نے والے اعتراضات کے جوابات بھی دئے، نظریہ کی بنیاد یہ تھی کہ سیاسی حکومت منجملہ اسلامی حکومت کے دو حصے ھوتے ھےں، (البتہ ممکن ھے کہ دوسرے نظریات کے تحت تین یا چار حصے بھی ھوسکتے ھیں) پھلا حصہ قانون گذاری کا ھے اور دوسرا حصہ قوانین کا جاری کرنا ھے ،قانون گذاری کے سلسلہ میں اسلام کا نظریہ یہ ھے کہ معاشرہ میں وہ قوانین حاکم ھوں جن کے ذریعہ معاشرہ کے مادّی ومعنوی مصلحتوں کو پورا کیا جاسکے، اسی بناپر وہ شخص معاشرہ کے لئےا مکمل قانون بنا سکتا ھے جو انسان کے مادی ومعنوی تمام پھلووٴں اور اجتماعی زندگی کے مختلف شرائط سے باخبر ھو ، اور یہ قوانین اس طرح بنائے جائیں کہ جن سے عالم آخرت میں انسانی سعادت فراھم ھوسکے، اور ظاھر ھے کہ خداوندعالم یا خدا وندعالم کا منتخب بندہ ھی ایسے علم ودانش کا مالک ھوسکتاھے۔اس کے علاوہ خداوندعالم کی تشریعی ربوبیت میں توحید کا تقاضا یہ ھے کہ خداکے بندے خدا کے احکامات کی اطاعت کریں اور خداوندعالم کے تشریعی ارادہ کو اپنی زندگی میں حاکم قرار دیں، اور اس کے مرضی کے خلاف قدم نہ اٹھائیں، لھٰذا قانون گذاری میں خداوندعالم کی تشریعی ربوبیت کی رعایت کی جائے. چونکہ اسلامی قوانین مخصوص حقیقت کے حامل ھیں لھٰذا انسان کے بنائے ھوئے قوانین سے امتیاز رکھتے ھیں۔مختصر الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ اسلامی قوانین خدا یا جس کو خدا اجازت دے کر بھیجے،اس کی طرف سے ھونا چاھئے. اسی طرح قوانین کو جاری کرنے والوں کے لئے بھی ھے، کیونکہ قانون کا مجری گویا معاشرہ کے لوگوں میں تصرفات کرتا ھے،اور ان کو قوانین الھٰی پر عمل کرنے پر آمادہ کرتا ھے، کبھی کبھی حدود وتعزیرات کو جاری کرتا ھے او رکبھی جرم کے مقابلہ میں خاص پابندیا ں لگاتا ھے۔بھر حال یہ کچھ تصرفات ھیں جو خدا کے بندوں میں ھوتے ھیں، او ریہ تصرفات صرف وہ حضرات کرسکتے ھیں جو خداوندعالم کی طرف سے اذن یافتہ ھےں، ان کے علاوہ یہ تصرفات جائز نھیں ھیں۔
2۔قانون کے جاری کرنے والوں کے لئے بھی اذن خدا ضرور یممکن ھے کہ بعض لوگ یہ سوال کریں کہ جب ھم نے قانون کو قبول کرلیا اور ان کے جاری ھونے والے راستوں کواچھی طرح پھچان لیا اور یقین کرلیا کہ فلاں خاص موقع پر فلاں قانون جاری ھونا چاھئے، تو اس میں کوئی فرق ن نھیں ھے کہ قانون کا جاری کرنے والا زید ھو یا عمرو؟ جب خدا کا صحیح قانون جاری ھو جائے تو پھر خدا کی اجازت کی کیا ضرورت؟ ھم نے قبول کرلیا کہ معاشرہ میں قوانین الھٰی جاری ھوں ، لیکن پھر جاری کرنے والے کے بارے میں اجازت کی کیا ضروت؟گذشتہ اعتراض کو اگر فقھی فضاء میں بیان کیا جائے تو جواب بھی فقھی روش کے لحاظ سے دیاجائے گا، اگر کوئی اس اعتراض کو فقھی تحقیق اور آزاد طریقہ سے بیان کرے، او رھم سے جواب لینا چاھے اور یہ چاھے کہ عمومی طور پر قابل فھم ھوتو پھر ھم اجتماعی مثالوں کے ذریعہ عام فھم زبان میں عرض کریں گے، مثلاً آپ کی گھریلو زندگی میں کچھ قوانین ھوتے ھیں جن کو آپ کی بیوی اور بچوں کو رعایت کرنا ھوتا ھے، مثلاً یہ کھیں کہ کوئی دوسرا کسی کی چیزکو ھاتہ نہ لگائے، یھاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے کھلونے او رکاپی پینسل وغیرہ میں اس قانون کی رعایت کرتے ھیں، اور ان میں سے کوئی دوسرا بغیر اجازت کے کسی دوسرے کی چیز کو اٹھاتا ھے، تو اس پر اعتراض ھوتا ھے، یا اگر آپ کا کوئی پڑوسی آپ کی اجازت کے بغیر آپ کے گھر میں داخل ھوکر آپ کے سامان کو لے جائے ،اگرچہ وہ سامان آپ کے نزدیک بے کار ھی کیوں نہ ھو، تو آپ فوراً اعتراض کردیتے ھیںکہ میری اجازت کے بغیر کس طرح میرے گھر میں داخل ھوئے ،یا کیوں ھمارے سامان کو اٹھاکر لے گئے، یھاں تک کہ اگر ا س نے آپ کے ساتھ کچھ احسان بھی کررکھا ھو، پھر بھی آپ کو حق ھے کہ اس پر اعتراض کریں۔ایک دوسری مثال کو فرض کیجئے کہ کسی ادارہ میں کچھ قوانین نافذ ھونا چاھتے ھیں لیکن ابھی تک اس ادارہ کے رئیس کا حکم نامہ نھیں آیا ھے، اگر کوئی آکر کھے کہ میں ایک بااطمینان اور باامن انسان ھوں، اور قوانین کو بھی اچھی طرح جانتا ھوں اور اب رئیس کی کرسی پر بیٹھتا ھوں اور ان قوانین کو یکے بعد دیگرے جاری کرتا ھوں، تو کوئی بھی اس کو اس کا م کی اجازت نھیں دیگا؛ یھاں تک کہ اگر وہ شخص بعد کا ھونے والا رئیس ھی کیوں نہ ھوں، جب تک اس کا حکم نامہ نہ آجائے اس کو حق نھیں ھے کہ کرسی پر آکر بیٹھے او رلوگوں کو حکم دے۔اور اگر کوئی ایسا کام کرے بھی تو وہ مجرم مانا جائے گا، اور ھوسکتا ھے کہ اس کو عدالت میں بھی بھیج دیا جائے اور اس کو سزا بھی ھو، جب اس نے خدمت انجام دی ھے او راس نے وھی کام انجام دیا ھے کہ جو ابھی کچھ دنوں کے بعد ھونے والا ھے، کیوںاس اصل کو تمام عقلمند حضرات قبول کرتے ھیں؟ اس لئے جب تک اس کے اوپر والا رئیس اس کو اس کام کی اجازت نہ دے تو اس کو ایسے کاموں کی اجازت نھیں ھے خلاف قانون کی تو دور کی بات ھے۔معاشرہ میں اجتماعی زندگی کے اندر اس قبول شدہ اصل کے پیش نظر ھم آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتے ھیں، کہ وہ معاشرہ جو خدا سے متعلق ھے اور لوگوں نے خدا کو ربّ مانا ھے، اگر کوئی اپنے ربّ کی اجازت کے بغیر حکومت کرنا چاھے اس کی مثال اس شخص کی ھے کہ جو کسی ادارہ میں ریاست کرنا چاھے، یا مثلاً کوئی رئیس مملکت بننا چاھے، اور اس کے کاموں میں مشغول ھو؛ بغیر اس کے اس بلند رتبہ والا اس کو اجازت دے، یھاں تک کہ اگر اس کا کام بھی صحیح اور بجا ھو،تو اس سے باز پرس کی جاتی ھے، اور ممکن ھے کہ اس کو سزا بھی ھو، اسی وجہ سے ھم کھتے ھیں کہ اسلامی قوانین کا اجراء کرنے والا بھی خدا کی طرف سے ھو، جو لوگوں کا مالک حقیقی ھے، ورنہ اس سے باز پرس ضرور ھوگی، جیسا کہ ھم نے گذشتہ مثال میں عرض کیا ، اور اگر یہ فرض کریں کہ اس سے باز پرس بھی نہ ھو ، تو لوگوں پر اس کی اطاعت واجب نھیں ھے، یھاں تک کہ اسی قانون کے بارے میں لوگ کھیں گے کہ جب تک آپ کا حکم نامہ نہ آجائے تب تک آپ کیسے رئیس بن بیٹھے؟ اور جب تک لوگ یہ یقین نہ کرلیں کہ اس کو بلند مرتبہ رئیس نے اس رتبہ پر فائز کیا ھے اس کی اطاعت بھی نھیں کرتے۔اسلامی نظریہ کے لحاظ سے ،معاشرہ کے تمام ھی افرادخدا کی مخلوق ھیں،اور خدا ان کا مالک اور خالق ھے، لھٰذا مالک کی اجازت کے بغیر کسی کو یہ حق نھیں ھے کہ اس کے امور میں دخالت کرے جب تک کہ ان کا مالک (خدا) اس کام کی اجازت نہ دے، یھاں تک کہ قانون الھٰی کووھی معین شخص جس کو خدا کی طرف سے اجازت ھے، جاری کرسکتا ھے، اسی وجہ سے اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینیۺ نے اسلامی نظریہ کے مطابق اپنے کو اسلامی حاکم صدر مملکت کے لئے جو حکم نافذ کیا اس میں یہ تحریر کیا کہ میں تم کو نصب کرتا ھوں یعنی آپ نے کسی بھی موقع پر لوگوں کے ووٹ کوکافی نہ جانا، یھاں تک بعض موقعوں پر فرمایا: میں اُس ولایت کی رو سے جو تم پر رکھتا ھوں تم کو منصوب کرتا ھوں، ایک موقع پر آپ نے فرمایا:”ان لوگوں کی باتوں کو نہ سنو کہ جو اسلامی نظریات کے خلاف ھیں، اور خود کو روشن فکر تصور کرتے ھیں اور ولایت فقیہ کو قبول نھیں کرتے، اگر ولی فقیہ اس کو منصوب نہ کرے تو اس کی حکومت غیرمشروع ھے اور جب غیر مشروع ھوئی تو وہ طاغوت ھے، اور اس کی اطاعت طاغوت کی اطاعت ھوگی”( صحیفہ نور ج9ص251.) یہ کوئی امام خمینیۺ کا ذاتی نظریہ نھیں ھے بلکہ یہ نظریہ قرآن وحدیث سے اخذ کیا گیا ھے، بھر حال یہ اس شخص کا نظریہ ھے جس نے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی ھے۔لھٰذا قانون کو جاری کرنے والا، اولاً اسلامی نظریہ کے مطابق تمام قوانین کو جاری کرنا، ثانیاً وہ خدا کی طرف سے اذن یافتہ ھو. اور یہ اذن کبھی خاص ھوتاھے جیساکہ حضرت رسول خدا او رائمہ معصومین علیھم السلام کے بارے میں ھے یا ان لوگوں کے بارے میں ھے جن کو خود آنحضرت نے منصوب فرمایا ھے، یا جس طرح حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف سے بعض اسلامی ریاستوں کے والی وحاکم معین ھوئے ھیں، یا جس طرح امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے زمانہ میں نواب اربعہ خاص طور پر منصوب ھوئے۔ان تمام مقامات میں یہ افراد اس شخص کی اجازت سے منصوب ھوئے جو اپنی حکومت میں الھٰی قوانین کو بیان اور کو جاری کرتے تھے. کبھی یہ منصوب کرنا عام ھوتا ھے؛ جیسے امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں، یا ان ائمہ علیھم السلام کے زمانہ میں کہ جو مبسوط الید (آزاد) نہ تھے اور حکومت ان کے ھاتھوں میں نہ تھی، ایسے موقعوں پر باصلاحیت افراد اذن عام کی بناپر منصوب اور احکام الھٰی کے جاری کرنے کے لئے معین ھوتے تھے، مثلاً حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے شیعہ فقھاء کو اجازت دی ھے کہ جن علاقوں میں لوگوں کی امام (ع) تک رسائی ممکن نہ ھو،وھاں علماء احکامات الھٰی کو جاری کریں اور حکومتی کاموں میں مشغول رھیں،زمانہ ٴ غیبت میں یہ مسئلہ بدرجہ اولیٰ ثابت ھے۔کیونکہ جب امام حاضر اور مبسوط الید نھیں ھے یا امام تقیہ کی عالم میں ھے، تووہ بطور عام ان افراد کو منصوب کرتا ھے جو اس کی طرف سے حکومتی مسائل میں دخالت رکھتے ھیں، کیا یہ کام امام علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں کہ جس میں امام علیہ السلام تک رسائی ممکن نھیں اولیٰ اور مناسب نھیں ھے؟اس وقت ھم فقھی مبانی اور شرعی دلیلوں کو ثابت کرنا نھیں چاھتے ، صرف اس مسئلہ کی وضاحت کردینا چاھتے ھیں کہ اسلام میں حتیٰ اسلامی قانون کو جاری کرنے والے کے لئے بھی خدا کی اجازت کی ضروت ھے، اور کس طرح خداوندعالم قانون کو جاری کرنے والوں کو اجازت دیتا ھے، جیسا کہ ھم نے عر ض کیا کہ یہ اجازت یا کسی خاص شخص کے لئے بصورت خاص ھوتی ھے، یا بصورت عام جیسا کہ جامع الشرائط فقھاء کرام کے لئے ھے۔اس نظریہ پر چاھے وہ قانون گذاری پھلو ھو یا قانون کو جاری کرنے والا پھلوبعض اعتراض ھوتے تھے، جن میں سے سب سے مھم یہ تھا کہ یہ نظریہ انسانوں کی آزادی کے مخالف ھے، البتہ ھم نے اس اعتراض کا گذشتہ گفتگو میں مفصل جواب عرض کردیا ھے. ان اعتراضات کا دوسرا حصہ قانون کو جاری کرنے کے بارے میں تھا، کہ یہ ولی فقیہ والا نظام ، جمھوریت کے ساتھ ھم آھنگ نھیں ھے. جمھوریت ایک ایسی حکومت ھے جس کو تمام ھی عقلاء عالم نے قبول کیا ھے ، یھاں تک وہ ممالک کہ جن میں سوسیالسٹی(Socialisty) حکومت تھی عملی میدان میں جمھوریت کے مقابلہ میں ٹھر نہ سکیں، اور مجبوراً ڈیموکراسک نظام کو قبول کرلیا. لھٰذا آج کا انسان ڈیموکراسک نظام کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نھیں رکھتا، اوریہ اسلامی حکومت جو ولایت فقیہ کی حکومت کے نام سے معروف ھے ، ڈیموکراسک سے ھم آھنگ نھیں ھے۔
3۔ جمھوریت کے معنی اور اس کے استعمال میں ایک بحرانپھلے ضروی سمجھتے ھیں کہ لفظ “جمھوریت” (ڈیموکراٹک) “Democratique” کے بارے میں کچھ وضاحت کریں، کیونکہ ھوسکتا ھے بعض لوگ اس لفظ کے بارے میں کافی معلومات نہ رکھتے ھوں، جمھوریت کے لفظی معنی؛ لوگوں کی حکومت ، مراد یہ ھے کہ معاشرہ کے افراد بھی قانون گذاری اور اجرائے قانون میں اھم کردار رکھتے ھیں اور کوئی دوسرا قانون گذاری اور اجرائے قانون میں حق دخالت نھیں رکھتا، یہ ھیں لفظ ڈیموکراسک کے معنی۔تاریخ کے اوراق پر جمھوریت کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ھے: جیسا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی ولادت سے پانچ صدی پھلے یونان کے پائے تخت “آٹن” میںیہ نظریہ وجود میں آیا اور کچھ مدت کے لئے یہ نظریہ اجراء کیا گیا اس طرح کہ تمام لوگ سوائے غلاموں اور 2۰سال سے کم عمر والوں کے سبھی لوگ سیاسی او راجتماعی مسائل میں براہ راست دخالت کرتے تھے. جس وقت کوئی 2۰ سال کا ھوجاتا تھا تو اپنے شھر کے سیاسی کاموں میں دخالت کرسکتا تھا. البتہ کسی پر ضروری نھیں تھا بلکہ یہ لوگ آزاد تھے. اس زمانہ میں لوگ کسی بڑے میدان میں جمع ھوتے تھے اور اپنے شھر کے بارے میں نظریات پیش کرتے تھے، بحث وگفتگو ھوتی تھی اور اسی کے نتیجہ میں تصیم گیری ھوتی تھی اور انھیں پر عمل ھوتا تھا،ایسا نھیں ھوتا تھا کہ کوئی خاص شخص یا خاص گروہ حکومت کے لئے معین ھوتا تھا، بلکہ خود افراد براہ راست اجتماعی وسیاسی مسائل میں دخالت کرتے تھے۔اس طرز فکر کو جمھوریت یا لوگوں کی حکومت کا نام دیا جاتا تھا، حکومت کا یہ انداز ایک مدت تک یونان کے پائے تخت آٹن میں چلتا رھا، لیکن بڑے بڑے دانشمند اور فلاسفہ حضرات نے اس نظریہ کی بھر پور مخالفتکی، اور ا س کو برے نام سے یاد کیا کرتے ،یعنی اس کو جھال(جمع جاھل) کی حکومت کھتے تھے، ادھر عملی طور پر بھی اس جمھوری حکومت کے برے نتائج سامنے آئے ، اسی وجہ سے حکومت کا یہ سلسلہ ختم ھوگیا۔طبیعی ھے کہ بڑے بڑ ے ممالک اور کثیر آبادی والے شھروں میں یہ طریقہ کار مشکل تھا کیونکہ ممکن نہ تھاکہ ھمیشہ اجتماعی مسائل میں تمام لوگ براہ راست دخالت رکھیں. چھوٹے شھروں میں یہ انداز کچھ مدت کے لئے ممکن ھے، لیکن لاکھوں والے شھروں میں کس طرح ممکن ھے کہ روز مرّہ کے کاموں میں سب مل کر کوئی فیصلہ لیں؟!بھرحال یہ انداز ختم ھوگیا ، یھاں تک کہ “رنسانس” کے زمانہ میں ڈیموکراٹک کی ایک دوسری تصویر پیش کی گئی، وہ اس طرح کہ لوگوں کے کچھ نمائندے حکومت کے کاموں کے لئے منتخب ھوں ، اور وہ سبھی لوگوں کی نمائندگی میں حکومت کریں؛ کیونکہ لوگوں کی براہ راست دخالت ممکن نہ تھی. اس کے بعد سے اس نظریہ کے بھت زیادہ حامی پائے جانے لگے اور آھستہ آھستہ بعض ممالک میں اس طرح کی حکومت رائج ھوگئی،یھاں تک کہ انیسویں صدی میں تقریباً یورپ اور دوسرے ممالک میں اس طرح کی حکومت لوگوں میںمقبول ھوگئی اور اسی طرز پر حکومتیں بننے لگیں۔ھمارے ملک میںبھی ڈیموکراٹک کا یھی طریقہ ھے، تمام لوگ حکومتی شعبوں کے مختلف ووٹنگ میں شرکت کرتے ھیں. مثلاً صدر مملکت اور اسلامی پارلیمنٹ کے نمائندگان کو ووٹوں کے ذریعہ انتخاب کرتے ھیںکہ جو لوگوں کی نمائندگی میں قوانین بناتے اور ان کو جاری کرتے ھیں.اسی طرح شوریٰ اور دوسرے انتخابات جن کا ذکر قانون اساسی میں آیا ھے شرکت کرتے ھیں. پس ڈیموکراسک کی دوسری تصویر جس میں سیاسی واجتماعی مسائل میں لوگ خود اپنی رائے او راپنے ووٹوں کے ذریعہ نمائندوں کو منتخب کرتے ھیں۔
4۔دور حاضر میں جمھوریت کا مفھومآج کے زمانے میں ڈیموکراسک کچھ اور ھی خاص معنی پیدا کرتی جارھی ھے اس حکومت کو ڈیموکراسی حکومت کھتے ھیں جس میں دین کا کوئی نقش نہ ھولھٰذا جس وقت یہ کھا جاتا ھے: “فلاں حکومت جمھوری ھے او رفلاں ملک ڈیموکراسک طریقہ پر حکومت کرتا ھے” اس کا مطلب یہ ھے کہ اس معاشرہ میں دین کا کوئی کرادر نھیں ھے، یعنی قانون کے بنانے والے اور قانون کو جاری کرنے والے کسی بھی موقع پر دین کی دخالت کو نھیں مانتے .البتہ ڈیموکراٹک کا یہ انداز دین کی نفی نھیں کرتا، لیکن سیاسی واجتماعی مسائل میں دین کی دخالت کو قبول نھیں کرتے، اور اس چیز کی اجازت نھیں ھے کہ قانون کے جاری کرنے والے قوانین کو جاری کرتے وقت دین کی کوئی بات کریں، اور کوئی بھی طریقہ کار دینی احکام کی بناپر نہ ھو. درحقیقت ڈیموکریسی کا یہ طریقہ “لائک” اور “سیکولر” نظام کی بنیاد پر ھے جن کا نظریہ یہ ھے کہ سیاسی واجتماعی مسائل سے دین کو بالکل جدا اور الگ ھونا چاھئے. البتہ ھوسکتا ھے کہ خود قانون گذار یا قوانین کے جاری کرنے والے افراد متدین اور دیندار ھوسکتے ھیں کہ ھر ھفتہ کلیسا(گرجاگھر) میں جائیں اور وھاں نذر ونیاز کریں. ممکن ھے یہ لوگ دینی انجمنوں کے ممبر بھی ھوں اور حکومتی کاموں کے علاوہ ایک معمولی انسان کے طرح دینی کاموں میں بھی مشغول رھیں. لیکن حکومت کے کاموں میں چاھے قانون گذاری شعبہ ھو یا شعبہ اجراء قوانین دین کی کوئی بات نہ کریں۔اگر آپ سنےں کہ مثلاً “فرانس “میں( جو آزادی او ر جمھوریت کا گھوارہ مانا جاتا ھے) ایک باحجاب لڑکی کو کالج اور یونیورسٹی میں جانے سے روکا جاتا ھے ، تو اس کی وجہ یھی ڈیموکراٹک ھے جس میں دینی کاموں سے روکنا اس کا ایک وظیفہ ھے، اور کھتے ھیں کہ ھماری حکومت ایک لائک حکومت ھے ، لھٰذا دین کی کوئی علامت ھمارے کسی بھی سرکاری شعبوں میں نھیں ھونا چاھئے،روسری اورنقاب کا لگانا دینی طرفداری کی ایک نشانی ھے، اور سرکاری شعبوں مثلاً مدرسہ میں اس کا پھنناممنوع ھے ؛ ھاں اگر کوئی مدرسہ کلیسا سے مربوط ھوتا یا کوئی پبلک اسکول ھوتا تو اگر تمام لڑکیاں روسری پھنتی تو کوئی پریشانی والی بات نہ تھی، لیکن سرکاری کالج یا یونیورسٹی میں جھاں سرکاری سند دی جاتی ھے وھا ں یہ سب کچھ نھیں ھونا چاھئے، اسی طرح دوسرے وزارتخانوں میں دین کا کوئی اثر نھیں ھونا چاھئے. یہ تھی جمھوریت کی ایک نئی تفسیر جس کی بناپر دینی اثرات جمھوریت کے خلاف ھیں۔ڈیموکراٹک کی اصلی اور نئی تصویر کے مطابق جس میں ڈیموکراسی کے معنی لوگوں کی حکومت ھے، اگر کچھ لوگ دیندار ھوں اور چاھیں کہ ادارہ جات میں دینی آداب ورسوم پر عمل کریں، تو پھر مخالفت نھیں ھونا چاھئے؛ کیونکہ یہ کام لوگوں کی مرضی کے مطابق اور ان کے بنائے قوانین کے اعتبار سے ھے، ڈیموکراسک کا تقاضا یہ ھے کہ لوگ ھر جگہ حتی مدارس اور وزارتخانوں او ردوسرے ادارجات میں لباس پھننے میں آزاد ھو، اور اگر لوگوں کی اکثریت دیندار ھے او راسی دین کی وجہ سے کوئی خاص قسم کا لباس پھننا چاھیں یا دینی پروگرام کرنا چاھیں ، تو پھر کسی کو حق نھیں ھے کہ ان کو روکے. جس وقت لوگوں کی مرضی سے یہ قانون بنایا گیا کہ وزارتخانوں، یونیورسٹیوں اور دوسرے اداروں میں نماز جماعت کا ھونا ضروری ھے یہ ڈیموکراسک (جس معنی میں ھم مانتے ھیں)کے خلاف نھیں ھے، کیونکہ خود لوگوں نے اس قانون کو بنایا ھے اور خود ھی جاری کرتے ھیں، لیکن ڈیموکراسک کی دوحاضر کیتصویر کے مطابق اجماعی وسیاسی مسائل میں دینی رجحان نھیں ھونا چاھئے۔
5۔ جمھوریت کی نئی تصویر سے استعمار کا بے جا فائدہ اٹھاناجیساکہ ھم نے عرض کیا کہ ڈیموکراٹک کی نئی تصویر جسے استعمار ی حکومتیں پیش کرتی ھیں اور اپنے مقاصد کے تحت اس کو جاری کرتی ھے ، لائک اور سیکولرحکومتوں کے برابر ھے جو ذرہ برابر بھی یہ نھیں چاھتیں کہ سیاسی واجتماعی امور میں دین کی دخالت ھو. یھاں تک کہ اگر خود لوگ یہ کھیں کہ ھم اس دین کو قبول کرتے ھیں اور چاھتے ھیں کہ سرکاری دفاتر میں دینی رسم ورواج پر عمل کریں، پھر بھی لوگوں کی مرضی کو ڈیموکراسک کے مخالف سمجھا جائے گا۔اسی وجہ سے جب “الجزائر” میں انتخابات ھوئے اور وھاں ایک اسلامی پارٹی کامیاب ھوئی اور ڈیموکراٹک اصولوں اور اس ملک کے قوانین کے مطابق حکومت بنانا چاھی اور اسلامی قوانین کو جار ی کرنا چاھا ، مخالفوں نے احساس کیا کہ یہ پارٹی تو مضبوط ھوتی جارھی ھے اور مستقبل میں اسلامی حکومت بنانا چاھتی ھے تو بغاوت کردی او رانتخاب کو رد کرکے اس پارٹی کے لیڈروں کو پکڑپکڑ کرجیل میں ڈال دیا، اور اس پارٹی کو ختم کرکے اس کو غیر قانون قرار دے دیا. اور چند سال گذرنے کے بعد بھی اس پارٹی کو سراٹھانے کی اجازت نھیں ھے، جب کہ اس اسلامی ملک نے لاکھوں قربانی دے کر اس آزادی اور استقلال کو حاصل کیا تھا، اور قربان ھونے والے وھی مسلمان تھے کہ جھنوں نے اسلام کی خاطر اس وقت کی استعماری حکومت سے جنگ لڑی تھی یھاں تک کہ الجزائز کے لوگوں کو آزادی نصیب ھوئی، آج وھاں کی حالت بھت زیادہ خراب ھے جیسا کہ اخباروں میں پڑھتے رھتے ھیںکہ ھر روز دسیوں لوگ کو خطرناک طریقے سے قتل کیا جاتا ھے۔وھاں رونما ھونے والے ان تمام حادثوں کے پیش نظر وھاں کی وہ حکومت جو بغاوت کرکے بنائی گئی ھے اس قتل وغارت گری کے ذریعہ اپنی حکومت کو مضبوط کرتی جارھی ھے، اور استعماری حکومتوں کے نزدیک وھاں کی یہ حکومت مقبول تر ھے، اس حکومت کے مقابلہ میں جو ووٹنگ او رلوگوں کی رائے سے بنی تھی جو دین اور اس کے احکامات کو جاری کرنا چاھتی تھی. اس خوف سے کہ کھیں دنیا میں ایک نئی اسلامی حکومت نہ بن جائے”اس طرح کی حکومت کو جمھوری نام رکھا، لیکن اگر خود لوگ اپنی رائے اور اپنی مرضی سے اسلام اور اسلامی حکومت کو چاھیںاس کو غیر ڈیموکراٹک کھتے ھیں کیونکہ لوگ اسلام کی طرف رجحان رکھتے ھیں” لھٰذا جمھوریت کی نئی تفسیر کی بناپر دین کو اجتماعی وسیاسی مسائل میں بالکل دخالت نھیں کرنا چاھئے، یھاں تک کہ کوئی لڑکی چادر یا مقنعہ پھن کر کالج نھیں جاسکتی؛ جیسا کہ ترکی میں بھی اسی طرح ھوتا ھے۔استعماری پٹھو ، اسلامی ممالک میں بھی یہ خیال کرتے ھیں کہ اسلامی ممالک میں بھی اسی طرح کی جمھوریت ھونا چاھئے حکومتی مسائل میں دین کے لئے کوئی جگہ نہ ھو چاھے قانون گذاری والا شعبہ ھو یا قانون کے جاری کرنے والا شعبھ، وہ ممالک جو اسلامی حکومت بنانے کے لئے بھت زیادہ راغب ھیں ان میں ثقافتی حملہ اور یونیورسٹیوں میں نفوذ کے ذریعہ اسلامی رجحان کو ضعیف وکمزور کرنا چاھتے ھیں، اور جمھوریت کی اس تصویر کو رائج کرنا چاھتے ھیں، اپنے خیال ناقص میں یہ گمان کرتے ھیں کہ چند سال بعد جب یہ نسل بدل جائے گی تو انقلابی نسل ختم ھوجائے گی اور اس کی جگہ وہ نسل آجائے گی کہ جو انقلاب کے اصولوں سے واقف نھیں ھے، وہ نسل ڈیموکراٹک کی اس نئی تصویر وتفسیر کو بروئے کار لائے گی۔نتیجہ یہ نکلا کہ جمھوریت کے تین معنی اور تفسیر ھیں:1۔ لوگوں کا حکومتی مسائل میں براہ راست دخالت دینا جیسا کہ کچھ مدت کے لئے یونان میں رھی اور پھر ختم ھوگئی۔2۔ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعہ حکومت میں دخالت، جیسا کہ آج کل کے بعض ممالک میں رائج ھے او رخود ھمارے ملک میں بھی موجود ھے۔3۔ حکومت کے تمام کام (قانون گذاری ھو یا اجرائے قانون) دین سے جدا ھوں، یعنی ڈیموکراٹک کاسیکولر اور لائک ھونا شرط ھے۔
6۔ اسلامی نظریہ کے مطابق جمھوریت کی مناسب تصویرھم نے اس سوال کے جواب میں کہ اسلام حکومت کے کس انداز کو قبول کرتا ھے ؟ ھم نے قانون گذاری کے بحث میں عرض کیا کہ اگر قانون گذاری میںجمھوریت کے یھی معنی ھوں کہ اگر لوگوں کی اکثریت(51 فی صد) جس قانون کی حمایت کریں وہ قانون معتبر اور واجب الاتباع ھے چاھے قرآن کی صریح آیات کے خلاف کیوں نہ ھو،تو اسلام ایسی ڈیموکراٹک کو نھیں مانتا، وہ اسلام جو خود حکومت کے مختلف پھلوٴں پر منجملہ عدالت (کورٹ) معاشی مسائل ، وغیرہ وغیرہ تمام مسائل میں قوانین رکھتا ھے وہ اس بات کی اجازت نھیں دےتا کہ اس کے صریح قوانین کے مخالف قوانین رواج پیدا کریں، اور اگر ھم اس طرح کے قوانین کو رسمی مانے تو گویا ھم نے اسلام کو نادیدہ قرار دیا ھے۔ایسی جمھوریت کا اسلامی قانون گذاری سے مخالف ھونا ایک بدیھی اور ظاھری بات ھے اور کسی استدلال کی ضرورت نھیں ھے. اگر کوئی یہ کھے کہ جمھوریت قانون گذاری یعنی قانون کے معتبر ھونے میں اسلام کے ساتھ ھم آھنگ نھیں ھے ، ظاھر ھے کہ اسلام بھی اس کے ساتھ ھم آھنگ نھیں ھوسکتا، اور جب کسی مجموعہ میں اسلام کی مخالفت پائی جاتی ھوتو اس کی بارے میں دلیل بھی پیش کرنے کی کوئی ضرورت نھیں ھے،اور جب کسی مجموعہ میں اصل اسلام سے ایسی مخالفت موجود ھو تو پھر یہ سوال نھیں ھونا چاھئے کہ اسلام کے ساتھ ھم آھنگ ھے یہ نھیں؟ کیونکہ خود مجموعہ اس کی مخالفت میں بنایا گیا ھے ، پس اگر جمھوریت یعنی وہ قوانین جو اسلام سے متفق نہ ھوں ان کو معتبر ماننا تو پھر ھم یہ کھیں گے کہ اسلام اس جمھوری قانون کو معتبر جانتا ھے اس کا مطلب یہ ھوا کہ جو چیز اسلام سے سازگار نھیں ھے وہ سازگار ھوجائے، یہ ایک تناقض اور واضح البطلان نظریہ ھے استدلال کی ضرورت نھیں ۔بھرحال جس چیز کی وضاحت کی ضرورت ھے جس کا ھم نے وعدہ بھی کیا ھے،وہ یہ ھے کہ جمھوریت کااجرائی سلسلہ ھے؛ یعنی قانون کو جاری کرنے والوں کے یقین میں لوگوں کا کیا کردار ھے؟،اسی طرح ان لوگوں کے انتخاب میں جو قوانین کو اسلامی نظریات کے تحت بنانا چاھتے ھیں (مثلاً اسلامی پارلیمینٹ کے ممبران )ان کے سلسلہ میں لوگوں کی کیا ذمہ داری ھے؟. اور جھاں پر اسلام کے ثابت اور دائمی قوانین نھیں ھیں ، اور آج کی ترقی یافتہ دنیا میں انسانی حالات کے پیش نظر نئے قوانین کی ضرورت ھوتی ھے، اسلام نے ان موارد میں حکومت کو اجازت دی ھے کہ اسلامی دائرہ میں ضروری قوانین کو بنائے ، مثلاً گاڑی چلانے سے متعلق قوانین وہ داھنی طرف چلیں یا بائیں طرف، یا ان کی رفتار کتنی ھو، ظاھر ھے کہ قرآن واحادیث میں اس سلسلہ میں کوئی واضح حکم تو ھے نھیں، اور ایسے متغیر قوانین زمان ومکان کے لحاظ سے بدلتے رھتے ھیں، یہ کام اسلامی حکومت کا ھے کہ وہ اسلام کے کلی نظریات کے مطابق مناسب قوانین بنائے۔مذکورہ بحث کی رو سے نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ جمھوریت اور لوگوں کی اھمیت کا اندازہ قانون گذار اور قانون کے جاری کرنے والے جواسلامی بنیادوں کی رعایت کرتے ھوئے موٴقت اور متغیر قوانین بناتے ھیں ان کی تعین میں لگتا ھے. دوسرے الفاظ میںیوں عرض کیا جائے کہ جمھوریت یعنی لوگوں کا جدیت کے ساتھ اسلامی حدود وقیود کی رعایت کرتے ھوئے نمائندگان کے انتخاب کی معین شدہ خصوصیات کو مدنظر رکھتے ھوئے ان کے چننے کے لئے انتخابات میں شرکت کرنا،اور اس پرشروع انقلاب اور امام خمینیۺ کے زمانہ سے عمل ھوتاآیا ھے. مثلاً اسلامی پارلیمنٹ کا انتخاب، صدر مملکت کا انتخاب، خبرگان رھبری کا انتخاب اور شوریٰ کا انتخاب. لھٰذا لوگوں کے منتخب شدہ افراد میں خاص شرائط کا ھونا ضروری ھے۔یعنی مسلمان اور اسلامی احکامات کا دلسوز ھو اور قانون بناتے وقت اسلامی قوانین کی رعایت ضروری ھے. اقلیت کے نمائندوں کے علاوہ تمام نمائندوں میں ان صفات کے علاوہ مسلمان اور احکامات اسلامی کا دلسوز ھونا ضروری ھے ، اور اس کے ساتھ شورای نگھبان ھے تاکہ ایسا نہ ھو کہ پارلیمینٹ کے نمائندوں نے غفلت یا غلطی سے ایسے قوانین بنا ڈالے ھوں جو اسلام کے مخالف ھوں ، شورای نگھبان کا وظیفہ یہ ھے کہ پارلیمینٹ کے بنائے ھوئے قوانین کو دیکھے کہ آیا اسلام سے مطابقت کرتے ھیں یا نھیں، اور اگر اسلام کے مطابق ھیں تو ان کی تائید کرتی ھے او راگر اسلامی نظریات کے موافق نھیں ھیں تو پارلیمینٹ کو واپس بھیچ دیتے ھیں تاکہ ان پر تجدید نظر کرے، ھمارے ملک میں اس طرح کے قوانین سسٹامیٹک ھیں جن کو سب قبول کرتے ھیں او رکوئی بھی ان کی مخالفت نھیں کرتا۔اسی طر ح قانون کو جاری کرنے والے جن میں سب سے اوپر صدر مملکت ھوتا ھے یھاں بھی اسلامی قوانین کی رعایت ضروری ھے. سب سے پھلے صدر مملکت میں ایسے صفات ھوں جو قانون اساسی میں ذکر ھوئے ھیں جو کہ اسلام سے ماخوذ ھیں ذکر ھوا ھے، اور اپنی حکومت کو چلانے میں خدا کی طرف سے اذن رکھتا ھو، اس طرح کہ لوگوں کی اکثریت کی حمایت کے بعد ولی فقیہ کے ذریعہ منصوب ھو، لھٰذااس صورت میں اس کی حکومت مشروع اور جائز ھوگی ، یہ وہ چیزیں ھیں کہ جو ھمارے ملک میں انجام پاتی ھیں۔لوگوں کے نقش اور اسلامی نظام میں ان کے دخالت کو بھتر طور پر سمجھنے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ھیں؛ فرض کریں کہ ھم لوگ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ میں ھوتے او راپنے شھر میں کسی شائستہ ،مناسب اور صالح شخص کو ولایت کے لئے مناسب سمجھتے اور امام علیہ السلام کی خدمت میں جاکر عرض کرتے کہ فلاں شخص ھمارے شھر میں والی ھونے کی صلاحیت رکھتاھے، ممکن تھا امام علیہ السلام ھمارے اس مشورے پر اس شخص کو والی کے عنوان سے منصوب فرماتے۔اب اگر لوگوں کی اکثریت امام علیہ السلام کی خدمت میں یہ مشورہ پیش کرےں تو بطریق اولیٰ امام علیہ السلام اس مشورہ کو قبول فرماتے، اور اس شخص کو اپنی حکومت کے اس علاقہ کی ولایت کے لئے منصوب فرماتے.پس معلوم یہ ھوا کہ لوگوں کے کردارکی اھمیت حکومت اور حکومتی کاموں میں تھیوری کے لحاظ سے ھے اسی طرح کہ افراد تحقیق وبررسی کریں کہ قانون گذاری اور ان کے اجراء کے لئے کون افراد مناسب ھیں ان کو ووٹ دیں او رلوگوں کا ووٹ دینا گویا رھبری کو مشورہ دینا ھے اور درحقیقت ولی فقیہ سے ایک عھدوپیمان ھے کہ اگر اس کو ھماراحاکم معین کریں تو اس کی اطاعت کریں گے، اسی وجہ سے جب امام خمینیۺ کے زمانے میں لوگوں کی اکثریت کسی کو صدر مملکت کے عنوان سے منتخب کرتی تھی، تو حضرت امام خمینیۺ فرماتے تھے:میں ان کو جنھیں لوگوں کی تائید بھی حاصل ھے صدر کے عنوان سے منصوب کرتا ھوں ، یعنی لوگوں کے ووٹ ایک مشورہ کی طرح ھےں کہ ھم اس کو قبول کریں گے۔یہ اسلامی حکومت کی تھیوری اور نظریہ ھے جو جمھوریت کے دوسرے معنی کے لحاظ سے کوئی مخالفت نھیں رکھتا، اور 2۰ سال سے ھمارے ملک میں نافذ ھے او رکوئی بھی مشکل نھیں آئی. لیکن اگر جمھوریت کے معنی یہ ھوں کہ معاشرہ میں دین کی دخالت نہ ھوسرکاری اداروں میں کوئی بھی دینی پروگرام نہ ھوںتو کیا ایسی چیز اسلام سے ھم آھنگ ھے یا نھیں؟ بے شک تیسرے معنی کی جمھوریت جو آج کا استعمار اس کی تفسیر کرتا ھے اور دوسروں پر اس کو تحمیل کرنا چاھتا ھے، سو فی صد اسلام ایسی جمھوریت کا مخالف ھے، کیونکہ یہ اسلام کے منافی ھے۔لیکن جمھوریت دوسرے معنی یعنی اسلام کے ان شرائط کا لحاظ رکھنا جن کو اسلام نے قانون گذار اور قانون کے جاری کرنے والوں کے لئے معین کئے ھیں،گویا لوگ صالح او رباصلاحیت افراد کو قانون گذاری اور اجرائے قانون کے لئے انتخاب کریںاور اپنی شرکت سے اسلامی حکومت سے ھمدردی اور ھمکاری کو ثابت کریںاور خود کو ملک کے مسائل میں شریک جانیں. جمھوریت کی یہ تصویر اسلام کی نظر میں مقبول ھے اور ھمارے ملک میں اس پر عمل ھوتا ھے، اور اگر کسی مقام پر اس خلاف ورزی ھوتی ھے دیگر خلاف ورزیوں کی طرح جو گاھے گاھے وجود میں آتی رھتی ھیں تو ھم کو اس کی پیگیری کرنا چاھئے تاکہ دوبارہ اس قسم کی خلاف ورزی کی تکرار نہ ھو۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.