دشمن شناسی از نظر رہبر معظم

515

رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حضرت امام خمینی (رہ) کی 25 ویں برسی کے موقعہ پر تہران میں حضرت امام خمینی کے مزار اقدس پر منعقد لاکھوں زائرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جمہوری اسلامی ایران اور مکتب امام خمینی کی خصوصیات کے علاوہ عالمی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت عالم اسلام میں جو تکفیری عناصر برادر کشی اور تخریب کاری میں ملوث ہیں یہ مسلمانوں کے اصل دشمن نہیں ہیں بلکہ فرعی دشمن ہیں اور مسلمانوں کا حقیقی اور اصلی دشمن امریکہ ہے جو اپنے جاسوسی ایجنسیوں کے ذریعہ ان جاہل اور نا فہم افراد کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہا ہے لہذا ہمیں اپنے اصلی اور غیر اصلی دشمن کی شںاخت میں غلطی نہیں کرنی چاہیئے۔
رہبر معظم نے ملت اور نظام اسلامی ایران کو درپیش بیرونی مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ لگاتار نظام اسلامی کی راہ میں رکاوٹیں اور موانع ایجاد کر رہا ہے اور ان امریکی حرکتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اسی مناسبت سے انہوں نے موجودہ امریکی حرکات اور پالیسیوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ نے دنیا کے ممالک کو تین حصوں میں تقسیم کردیا ہے، ایک قسم ان ممالک کی ہے جو امریکہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور امریکہ کے مکمل تابع و فرمانبردار ہیں، امریکہ بھی ان ممالک کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ان ممالک کے جرائم اور ستم، شہنشاہوں کی نادانیوں کو چھپاتا ہے اور اس طرح سے ان ممالک سے اچھی طرح استفادہ کرتا ہے اور ان پر سوار ہو کر ان سے خوب سواری لیتا ہے اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا رہتا ہے، رہبر انقلاب کی نظر میں دوسری قسم ان ممالک کی ہے جو امریکہ کے مکمل فرمانبردار اور مطیع نہیں ہیں لیکن امریکہ پالسیوں پر کوئی اعتراض بھی نہیں کرتے ہیں ان ممالک کے متعلق رویہ یہ ہے کہ مشترکہ منافع اور مفادات مدنظر رکھتے ہوئے انکے ساتھ نرمی سے کام لیا جائے، ان ممالک کی مثال یورپی ممالک کی ہے جبکہ پہلی قسم کے ممالک کی مثال اکثر عرب ممالک کی ہے۔
سید علی خامنہ ای کی نظر میں تیسری قسم ان ممالک کی ہے جو امریکہ کے نافرمان ہیں اور امریکی پالیسیوں کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور ان ممالک کے بارے میں امریکی رویہ یہ ہے کہ انہیں ہر ممکن ذریعہ سے دبایا اور کچلا جائے اور انکی دشمنی میں کسی بھی حد تک جانے سے اجتناب نہ کیا جائے، ان نافرمان ممالک کو تنگ اور پریشان کرنے کے لئے امریکہ کئی قسم کے چنگیزی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں، پہلے تو امریکہ کی ترجیح رہتی ہے کہ ان ممالک پر فوجی حملہ کردیا جائے لیکن یہ کام امریکہ کے لئے چونکہ عراق اور افغانستان میں مہنگا ثابت ہوا اب اس کارروائی کو اپنے منافع کے خلاف سمجھتا ہے اور اس سے اجتناب کرتا ہے چنانچہ ظاہر ہے کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کو کتنا مالی اور جانی نقصان ہوا اور اسکی بھی بچی کچھی عزت بھی گئی۔
دوسرا راستہ امریکہ کے پاس ان ممالک کے انتخابات میں شکست خوردہ اپوزیشن کو متحرک کرنا اور انہیں برسر اقتدار آئے ہوئے گروپ یا حکمران کے خلاف سڑکوں پر مظاہروں کے لئے لانا ہے یہاں تک کہ ان مظاہروں میں امریکی نمائندے خود بھی حکومت مخالف مظاہروں میں بے شرمی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، رہبر معظم کا اشارہ یہاں ایران کے 4 سال قبل الیکشن فسادات کی طرف اشارہ تھا اور اسی طرح ‘یوکراین‘‘ اور دیگر ممالک کے ایسے ہی مشابہ واقعات کی طرف تھا کہ جہاں امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے منتخب حکومتوں کو گرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، تیسرا راستہ امریکہ کا یہ ہے کہ ان ممالک میں دہشت گردی کو فعال کرنا ہے چنانچہ امریکہ نے عراق، افغانستان اور دیگر عربی ممالک میں ایسا ہی کیا، معصوم اور بے گناہوں کو قتل کروایا، ڈاکٹروں، اسکالروں اور دانشمند حضرات کو بھی نہیں بخشا گیا، رہبر معظم کی نظر میں چوتھا حربہ ان ممالک میں تفرقہ اور اختلافات ایجاد کرنا ہے اور یہ عمل بھی بہت سارے ممالک میں عملایا گیا۔ خلاصہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بحث کا نتیجہ یہ لیا کہ ایران میں امریکہ نے یہ سارے حربے استعمال کئے لیکن یہاں امریکہ ان تمام حربوں اور سازشوں میں ناکام ہوا اور الحمداللہ انقلاب اسلامی اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.