گھر میں عورت کےکام پر اسلام اور مغرب کا نظریہ

646

اس بناء پر ان دو مختلف نظریات میں کافی فرق پایا جاتا ہے ۔ اسلامی نظریے سے عورت اورمرد کنبے اور خاندان میں ایک دوسرے کے یارو مددگار ہیں اور عورت اور مرد ازدواجی زندگی تشکیل دینے کے ذریعے دنیا و آخرت کی سعادت و کامیابی حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے ہيں اس بناء پر خاندان ، ان کے لئے رقابت اور برتری حاصل کرنے کا نہیں ، بلکہ انسانوں میں باہمی تعاون اورصلاحیتوں کے اجاگر ہونے کے لئے حالات سازگار بنانے کامیدان ہے ۔ وہ چیز جو اسلامی خاندانوں پر حکم فرما ہے محبت اور باہمی یکجہتی کی روح ہے نہ کہ رقابت اور برتری ۔ عورت اور مرد کو چاہیئے کہ زندگي کے امور کو ایک دوسرے کی شراکت سے انجام دیں ۔ یہ مسئلہ ، کاموں اور ذمہ داریوں کی تقسیم کے ذریعے آسان بن جاتا ہے اور نتیجے میں مثبت جذبات اور امنگوں کے ابھرنے اور اسی طرح مشترکہ زندگی میں کامیابی کے لئے حالات سازگار بناتا ہے ۔
شادی کے بعد عورت اور مرد کا پہلا پروگرام ، کام کی تقسیم ہے ۔ اسلام نے عورت اور مرد کے جسمانی اور روحانی فرق کے پیش نظر اور کنبے ميں تعاون کے حالات سازگار بنانے کے مقصد سے، عورتوں اور مردوں کے لئے مختلف کردار کو متعارف کیا ہے جس کے صحیح اور مناسب طور پر انجام دہی سے کنبے کے ماحول کو آسائش اور سکون فراہم ہوتا ہے ۔عورت اورمرد زندگي ميں مختلف خصوصیات کے حامل ہيں لہذا ان کی ذمہ داریاں بھی مختلف ہيں ۔ مرد گھر کا سربراہ اور عورت گھر کی منتظم ہوتی ہے اس مثال پر توجہ کیجئے ۔ چار ستونوں والا ایک گھر ہے جو اس کی چھت کے مضبوط ہونے کاسبب بنتا ہے چھت کا کام بارش اور دیگر آسمانی آفات کی روک تھام کرنا ہے ۔ستون بھی چھت کی حفاظت کرتا ہے ۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے مرد چھت کی مانند اور عورت ستون کی مانند ہے ۔مرد اس لحاظ سے کہ وہ جسمانی اور روح کے اعتبار سے طاقتور ہے اس لئے اسے گھر کے باہر کے مسائل کا سامنا کرنا چاہئے ۔ ہر حملے ، بارش اور سورج کی تپش جو گھر والوں کے لئےمشکل ایجاد کرے تو مرد کو اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہئے ۔ اگرمرد نہ ہو تو یہی مسائل اور آفات گھر کے اندر رسوخ پیدا کرلیں گی ۔ عورت بھی ستون ہے کیاکبھی ایسا بھی ہوسکتا ہےکہ عورت جو گھر کاستون ہے وہ چھت کا بھی کردار ادا کرے ؟ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بعض ایسی خصوصیات ہیں جو عورت اور مرد دونوں میں پائی جاتی ہیں جو ان دونوں سے مختص ہیں ۔ یہ کوئی فضیلت نہیں ہے کہ عورت مرد کا رول ادا کرے اور مرد زنانہ رول کرے ۔
زندگي میں کام کی تقسیم ، زندگي کا ایک قانون اور گھریلو زندگي میں توازن کا باعث ہے ۔ گھریلو زندگي میں ہر مرد اورعورت کے لئے بعض ذمہ داریوں کو سنبھالنا ضروری ہے ۔ اس کام کی تقسیم میں عدالت اور مصلحت کا یہ تقاضا ہے کہ ایسے کام کہ جن کے لئے بدن کی اور جسمانی طاقت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے انہیں مردوں کو ، اور جو کام عطوفت و مہربانی اور زیادہ مہر ومحبت کے حامل ہیں انہیں عورتوں کوسونپا جائے ۔ اس بناء پر اسلام میں ماں کا کردار عورتوں سے اور روزی کی تلاش کا کام مردوں سے مخصوص ہے ۔ لیکن گھریلو کام کس طرح سےانجام دیا جائے ؟ کیا اسلام اسے عورتوں کی ذمہ داری قرار دیتا ہے یا مردوں کی ؟
اسلامی نقطۂ نگاہ سے ، اخلاقی و جذباتی پہلو سے عورت ،گھر کے کام انجام دینے کے لئے زیادہ مناسب ہے ۔ لیکن اسلامی قانون کے اعتبار سے اصولی طور پر گھر کے کام عورت کے سر تھوپنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور اس قسم کے کاموں میں عورتوں کو انتخاب کی آزادی دی گئی ہے ۔ گھرانے میں عورت کی ذمہ داری صرف اور صرف شوہر کی خدمت اور شوہر سے وفاداری کرنا ہے ۔ لیکن بچے کو دودھ پلانا ، برتن دھونا ، کپڑے دھلنا اور گھرصاف کرنا عورت کی ذمہ داری نہيں ہے ۔ امام خمینی (رح) اس سلسلے میں فرماتے ہیں ” شوہر کو یہ حق نہیں ہے کہ زوجہ کوگھر کے کام اور خدمت پر مجبور کرے ” ۔ اگرچہ اسلام نے گھر کے کام کی انجام دہی کو ہرگز عورت پر مسلط نہیں کیا ہے تاہم اخلاقی تلقینوں کے ذریعے عورت سے مطالبہ کیا ہے کہ گھر کے امور انجام دینے میں کوتاہی نہ کرے اور اسے ایک طرح کی عبادت سمجھے ۔ کیوں کہ گھریلو زندگي میں توازن برقرار کرنے کے لئے کام کی تقسیم ضروری ہے اور اسی بنیاد پر مردوں کو ، گھر سے باہر کے سخت کاموں کو انجام دینے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ پیغمبر اسلام (ص) عورتوں کو خطاب کرکے فرماتے ہیں ہر وہ عورت جو شوہر کے گھر میں کوئی کام انجام دے اور اس کا مقصد گھر کے امور کی اصلاح ہو تو خداوند عالم اس پرنظر رحمت کرتاہے اور جس پر خدا نظر رحمت کردے اس پر عذاب نہیں ہوگا ۔
بزرگان دین کی عملی سیرت سے آشنائی ، خاص طور پر کام کی تقسیم اور گھر کے امور میں عورت اور مردکی شراکت ،گھرانے کے استحکام کے لئے ایک مثالی نمونہ قرار پاسکتی ہے ۔ جیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ ایک دن حضرت علی (ع) اور فاطمہ الزہرا( س) نے اپنے کاموں کی تقسیم کے بارے میں پیغمبر اسلام سے استفسار کیا ۔ پیغمبر نے اس طرح سے فیصلہ کیا کہ گھر کے اندر کا کام فاطمہ اور گھر کےباہرکے کام علی انجام دیں ۔ اس وقد فاطمہ (س) نے خوش ہوکر فرمایا ” خدا کے سوا کسی کو نہيں معلوم کہ اس کام کی تقسیم سے میں کتنی خوش ہوئی ہوں کیوں کہ رسول خدا (ص) نے مجھے ان کاموں سے ، جو مردوں سے متعلق ہيں یا مردوں کے درمیان آمد ورفت کا باعث ہیں ، دور رکھا ہے ۔ در حقیقت یہ روایت اس امر کی عماز ہے کہ اسلام اور نظام خلقت میں مرد اور عورت دونوں کے کچھ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں اور شارع حکیم نے مرد اور عورت ہر ایک کے لئے اس کی ذمہ داری کی نوعیت کے اعتبار سے ، مخصوص حقوق اور فرائض بھی مد نظر قرار دیئے ہیں ۔ واضح ہے کہ ذمہ داری کی یہ تقسیم کسی کو اونچا اور نیچا قرار دینے کے مترادف نہیں ہیں ۔
دوسری جانب گھر کا صحیح طور پر چلانا خود ایک ہنر اور بہت زیادہ فضیلت اور ثواب کا کام ہے ۔ اسلام نےگھر کےامور انجام دینے میں عورتوں کے معنوی محرکات میں اضافے کےساتھ ہی گھریلو کام کی دشواری کو ان پر ہموار کر دیا ہے ۔ جب عورت یہ محسوس کرتی ہے کہ گھر کو منظم کرنے اور شوہر اوربچوں کے کام کو انجام دیتے وقت وہ عبادت میں مشغول ہے اور خوشنودی پروردگار کےحصول کی کوشش میں ہےتو پھر اسے تھکن وغیرہ کا احساس نہیں ہوتا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.