ہفتہ وحدت

187

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت کو اپنے اتحاد کا محور قرار دیں اور بارہ سے سترہ ربیع الاول تک کے ایام کو ہفتۂ وحدت کے طور پر منائیں۔ ان کی اس تجویز کا پورے عالم اسلام میں بھرپور خیرمقدم کیا گيا اور اس پورے ہفتے میں عید میلادالنبی (ص) کے سلسلے میں جشن اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ عالمی وحدت اسلامی کے حوالے سے رہبر انقلاب اسلامی کے مختلف فرامین قار‏‏ئین کی خدمت میں پیش ہیں، آپ فرماتے ہیں؛اسلامی جمہوری ایران نے عالم اسلام کو دعوت دی ہے کہ آئیے بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول تک اتحاد کا تجربہ کریں۔ ایک روایت کے مطابق جسے اہل سنت کی اکثریت مانتی ہے اور بعض شیعہ بھی اسے قبول کرتے ہیں، بارہ ربیع الاول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یوم ولادت باسعادت ہے۔ دوسری روایت سترہ ربیع الاول کی ہے، جسے شیعوں کی اکثریت اور سنیوں میں بعض لوگ مانتے ہیں۔ بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکے گی۔
آپ مزید فرماتے ہیں،ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا کے اہل سنت حضرات آکر شیعہ ہوجائیں، یا دنیا کے شیعہ اپنے عقیدے سے دست بردار ہو جائیں۔ البتہ کوئی سنی یا کوئی دوسرا شخص تحقیق اور مطالعہ کرے اور پھر اس کے نتیجے میں وہ جو کوئی بھی عقیدہ اپنائے وہ اپنے عقیدے اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کرسکتا ہے۔ یہ اس کے اپنے اور اللہ تعالٰی کے بیچ کا معاملہ ہے۔ ہفتہ وحدت میں اور اتحاد کے پیغام کے طور پر ہمارا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب آکر اتحاد قائم کرنا چاہئے، ایک دوسرے سے دشمنی نہیں برتنا چاہئے۔ اس کے لئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے۔ اس بات میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔
قرآن پاک کہتا ہے کہ “و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا” اعتصام بحبل اللہ، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں۔ “جمیعا” یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کرکے اس عمل کو انجام دینا چاہئے۔ قرآن کی آیہ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ “فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی” (جو طاغوت کی نفی کرتا اور اللہ پر ایمان لاتا ہے، بے شک اس نے بہت مضبوط سہارے کو تھام لیا ہے، بقرہ 256) اس میں اعتصام بحبل اللہ کا مطلب سمجھایا گيا ہے۔ اللہ کی رسی سے تمسک اللہ تعالٰی کی ذات پر ایمان اور طاغوتوں کے انکار کے صورت میں ہونا چاہئے۔ جب یکتا پرست معاشرے میں کہ جس کی نظر میں عالم ہستی کا موجد و مالک، عالم وجود کا سلطان اور وہ حی و قیوم و قاہر کہ دنیا کی تمام اشیاء اور ہر جنبش جس کے ارادے اور جس کی قدرت کی مرہون منت ہے، واحد و یکتا ہے تو پھر (اس معاشرے کے انسان) خواہ سیاہ فام ہوں، سفید فام ہوں یا دیگر رنگ والے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے ہوں اور ان کی سماجی صورت حال بھی مختلف ہو، ایک دوسرے کے متعلقین میں ہیں۔ کیونکہ وہ سب اس خدا سے وابستہ ہیں۔ ایک ہی مرکز سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک ہی جگہ سے نصرت و مدد حاصل کرتے ہیں۔
یہ عقیدہ توحید کا لازمی و فطری نتیجہ ہے۔ اس نقطہ نظر کی رو سے انسان ہی ایک دوسرے سے منسلک اور وابستہ نہیں ہیں، بلکہ توحیدی نقطہ نظر سے تو دنیا کے تمام اجزاء و اشیاء، حیوانات و جمادات، آسمان و زمین۔ غرضیکہ ہر چیز ایک دوسرے سے وابستہ اور جڑی ہوئی ہے اور ان سب کا بھی انسانوں سے رشتہ و ناطہ ہے۔ بنابریں وہ تمام چیزیں جو انسان دیکھتا اور محسوس کرتا اور جس کا ادراک کرتا ہے وہ ایک مجموعہ، ایک ہی افق اور ایک دنیا ہے، جو ایک پر امن اور محفوظ دائرے میں سمائی ہوئی ہے۔
اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے، اس سے مراد ہے مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراؤ اور تنازعے سے گریز۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔ مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ حرکت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جانے والے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
ایک اور موقع پر فرماتے ہیںاتحاد بین المسلمین کا مطلب مختلف فرقوں کا اپنے مخصوص فقہی اور اعتقادی امور سے اعراض اور روگردانی نہیں ہے، بلکہ اتحاد بین المسلمین کے دو مفہوم ہیں اور ان دونوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ پہلا مفہوم یہ کہ گوناگوں اسلامی مکاتب فکر، جن کے اندر بھی کئی ذیلی فقہی اور اعتقادی فرقے ہوتے ہیں، دشمنان اسلام کے مقابلے میں حقیقی معنی میں آپس میں تعاون اور ایک دوسرے کی اعانت کریں اور ہم خیالی اور ہمدلی برقرار کریں۔ دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے مختلف فرقے خود کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کریں، ہم خیالی پیدا کریں، مختلف فقہی مکاتب کا جائزہ لیکر ان کے اشتراکات کی نشاندہی کریں۔ علما و فقہا کے بہت سے فتوے ایسے ہیں جو عالمانہ فقہی بحثوں کے ذریعے اور بہت معمولی سی تبدیلی کے ساتھ دو فرقوں کے ایسے فتوے میں تبدیل ہوسکتے ہیں، جو ایک دوسرے کے بہت قریب ہوں۔ یہ عظیم مجموعہ جس کا نام مسلم امہ ہے، بے حد قیمتی ثقافت اور باعظمت میراث کے ساتھ اور بے مثال درخشندگی اور بارآوری کے ساتھ، تنوع اور رنگارنگی کے باوجود بڑی حیرت انگیز یکسانیت اور یگانگت سے بہرہ مند ہے، جو اسلام کی گہرائی و نفوذ، اس کی خاص اور خالص وحدانیت کے باعث اس (عظیم پیکر) کے تمام اجزا، ستونوں اور پہلوؤں میں نمایاں و جلوہ فگن ہے۔ امت مسلمہ کے پاس اپنے وجود اور اپنے حقوق کے دفاع کے تمام وسائل موجود ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی بہت بڑی ہے۔ ان کے پاس عظیم قدرتی دولت ہے۔ ان میں نمایاں ہستیاں اور روحانی سرمائے سے مالامال شخصیات ہیں، جو لوگوں میں توسیع پسندوں کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ و جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے پاس قدیم تہذیب و تمدن ہے، جو دنیا میں کم نظیر ہے، ان کے پاس لامحدود وسائل ہیں، بنابریں صلاحیت کے اعتبار سے مسلمان اپنے دفاع پر قادر ہیں۔ عالم اسلام کو آج اپنے عزت و وقار کے لئے قدم بڑھانا چاہئے، اپنی خود مختاری کے لئے مجاہدت کرنا چاہئے، اپنے علمی ارتقاء اور روحانی طاقت و توانائی یعنی دین سے تمسک، اللہ کی ذات پر توکل اور نصرت پروردگار پر تیقن کے لئے کوشش کرنا چاہئے۔ “وعداتک لعبادک منجزہ” (اپنے بندوں سے کیا جانے والا تیرا وعدہ بالیقیں پورا ہونے والا ہے۔ وسائل الشیعہ ج 14 ص 395)
یہ وعدہ الہی ہے، یہ حتمی وعدہ الہی ہے کہ “ولینصرن اللہ من ینصرہ” (اللہ اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی نصرت کرے گا، حج 40) اس وعدے پر یقین کامل کے ساتھ میدان عمل میں قدم رکھیں۔ میدان عمل میں قدم رکھنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ بندوق اٹھا لی جائے۔ اس سے مراد فکری عمل ہے، عقلی عمل ہے، علمی عمل ہے، سماجی عمل ہے، سیاسی عمل ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالٰی کے لئے اور عالم اسلام کے اتحاد کی راہ میں انجام پائے۔ اس سے قوموں کو بھی فائدہ پہنچے گا اور اسلامی حکومتوں کو بھی ثمرہ حاصل ہوگا۔ مضمون کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ کی اس دعا سے کرتے ہیں “میری تمنا یہ ہے کہ میری زندگی اتحاد بین المسلمین کی راہ میں گزرے اور میری موت بھی مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں واقع ہو”
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.