کفرانِ نعمت
کفرانِ نعمت (احسانِ فراموشی) گناہِ کبیرہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور اسے چند مقامات پر کفر بھی کہا گیا ہے اور اسے پچھلی قوموں پر عذاب نازل ہونے کا سبب بھی بتایا گیا ہے۔خدا سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: “اور اے بنی اسرائیل اس بات کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے تم کو خبردار کیا تھا کہ اگر میری نعمتوں (ایمان اور نیک اعمال کی بدولت فرعون اور دوسروں کے شر سے نجات) پر شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کر دوں گا اور اگر ناشکراپن کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب (ناشکروں یا احسان فراموشوں پر) سخت ہو گا۔” (آیت۷)خدا سورة البقرہ میں فرماتا ہے: “سو مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہیں یاد کروں، میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور کافر نہ ہو۔” (آیت ۱۵۲)قومِ سبا احسان فراموشی کرتی ہے عذاب بھگتی ہےخداسورة سبا کے باشندوں کے بارے میں یوں فرماتا ہے: “سبا کے قبیلے کے لیے (جو یمن میں تھا) لوگوں کے گھر (ان کی قوت وطاقت، خدا کی نعمتوں کی فراوانی اور ان کی ناشکری پر سخت عذاب اور سزاؤں) کی نشانی تھے اور وہ نشانی یہ ہے کہ اس قبیلے کے دو باغ تھے جو راہ چلنے والے کے دائیں بائیں یا ان کے گھروں کے دونوں طرف واقع تھے (اور کہتے ہیں کہ ان میں سانپ، بچھو، مچھر، چیچڑی اور جوں وغیرہ کی قسم سے کوئی ستانے والا کیڑا نہیں تھا اور اگر کوئی ان درختوں کے نیچے خالی ٹوکری رکھ آتا تھا تو وہ ٹوکری پھلوں سے بھر جاتی تھی) پیغمبروں نے ان سے کہا: “خدا کا رزق کھاؤ اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرو، تمہارا شہر خوش حال ہے اور اور تمہارا خدا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔” انہوں نے سرکشی کی اور ناشکرا پن دکھایا (اور کہنے لگے ہم نہیں سمجھتے کہ خدا نے ہمیں کوئی نعمت بخشی ہے اور اگر یہ نعمتیں اسی کی دی ہوئی ہیں تو اس سے کہیے کہ وہ واپس لے لے)۔ چنانچہ ہم نے ان کے لیے عرم کا سیلاب بھیجا (بتایا گیا ہے کہ عرم ایک پشتے کا نام ہے جو سبا کی ملکہ بلقیس نے دو پہاڑوں کے بیچ میں پتھر اور تارکول سے بنوایا تھا جہاں بارش کا پانی اکٹھا ہوتا تھا۔ اس میں ایک کے اوپر ایک تین دروازے بنوائے تھے اور نیچے ایک بڑی سی جھیل تھی جس میں سے نکلنے والی نہروں کی تعداد کے مطابق بارہ موریاں بنوائی تھیں۔ جب بارش ہوتی تھی اس بند کے پیچھے پانی اکٹھا ہو جاتا تھا اس وقت اوپر کا دروازہ کھول دیتے تھے تاکہ پانی اس جھیل میں آ جائے اگر پانی کم ہوتا تھا تو درمیانی دروازہ کھول دیتے تھے اور اگر اور کم ہوتا تھا نچلا دروازہ اور جب پانی جھیل میں اکٹھا ہو جاتا تھا تو اسے نہروں میں بانٹ دیتے تھے۔ وقت یوں ہی گذرتا رہا یہاں تک کہ بلقیس کا انتقال ہو گیا۔ یہ لوگ باغی ہو گئے اور حد سے گذر گئے تو خدا نے ان پر بڑے بڑے چوہے مسلط کر دئیے جنہوں نے بند میں چھید کر دئیے۔ پانی میں طغیانی آ گئی جس نے اس پشتے کو منہدم کر دیا۔ کچھ لوگ ہلاک ہو گئے اور کچھ ادھر اُدھر بھاگ گئے اور ان کی بھگدڑ اور بے بسی عرب میں ضرب المثل بن گئی) اور ان دونوں باغوں کو ہم نے دو ایسے باغوں میں تبدیل کر دیا جن کے پھل کڑوے اور بدذائقہ تھے اور درختوں کو شورہ کھا گیا تھا جن میں سے کچھ درخت بیری کے تھے یہ سزائیں ان لوگوں کی احسان فراموشی اور ناشکرے پن کی تھیں اور کیا ہم ناشکروں کے سوا بھی کسی کو سزا دیتے ہیں؟” (آیات ۱۵ تا ۱۷)
نعمت نقمت ہو جا تی ہےخدا سورة نحل میں فرماتا ہے: “خدا نے ایک گاؤں کی مثال بیان کی ہے جس کے باسی امن اور اطمینان سے رہتے تھے ۔ہر طرف سے ان کے پاس بافراغت روزی چلی آتی تھی (خشکی اور تری دونوں سے) پھر انہوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے بھوک اور خوف کو ان کا اور اوڑھنا (لباس) بنا کر ان کے کرتوتوں کا انہیں مزا چکھا دیا۔” (آیت ۱۱۲) لباس کا ذکر عذاب کے ان کو گھیر لینے کی مناسبت سے کیا گیا ہے یعنی جس طرح لباس پہننے والے کو ڈھانک لیتا ہے اسی طرح عذاب نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت کے گاؤں سے شہر مکہ مراد ہے جس کے باشندے سات سال تک کال اور بھوک میں مبتلا رہے تھے اور مجبوری اور بھوک سے ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ جلی ہوئی ہڈیاں، مردار گوشت اور خون کھاتے تھے۔
ناشکرا پن ایک قسم کا کفر ہےٍ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ناشکرے پن کو کفر میں ہی شمار کرتے ہیں کیونکہ خداوند عالم سلیمان کی بات دہراتا ہے کہ خدا نے جو کچھ مجھے بخشا ہے اپنے فضل سے بخشا ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گذار ہوں یا ناشکرا۔ جو کوئی شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے شکر ادا کرتا ہے (کیونکہ اس سے اس کی نعمت بڑھتی ہے) اور جو کوئی ناشکرا پن کرے تو کرے حقیقت یہ ہے کہ میرا خدا شکرگذاری سے بے نیاز اور کریم ہے۔ اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمت میں اضافہ کر دوں گا اور جو ناشکرا پن کرو گے تو پھر بلاشبہ میرا عذاب بھی سخت ہو گا اور خدا یہ بھی فرماتا ہے کہ تم مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میرا شکر کرتے رہو ار میری ناشکری نہ کرو۔ (اصول کافی کتاب الایمان والکفر باب وجوہ الکفر)امام کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ خد نے ان تینوں گناہوں میں ناشکرے پن کرکفر کہا ہے۔ ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ناشکرے پن کے تین بڑے نتیجے نکلتے ہیں اس طرح کہ اس نے نعمت ختم ہو جاتی ہے ،اس کی وجہ سے سخت اور دردناک عذاب آتا ہے اور خدا ناشکرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
ناشکرا پن اور اہل بیت علیھم السلام کی روایاتاس بارے میں بہت سی روایتیں ہیں لیکن صرف چند کے بیان پر اکتفاء کیا جاتا ہے:پیغمبر اکرم فرماتے ہیں “ہر گناہ کے مقابلے میں ناشکرے پن کی سزا ناشکرے کو بہت جلد مل جاتی ہے۔” (وسائل الشیعہ باب ۸ ص۵۱۷)آپ یہ بھی فرماتے ہیں “تین گناہ ایسے ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے آخرت سے پہلے اپنی سزا کو پہنچیں گے ۔ والدین کی نافرمانی، لوگوں پر ظلم اور احسان فراموشی”۔ (وسائل الشیعہ)ٍ آپیہ بھی فرماتے ہیں: “خدا کا سب سے پیارا بندہ وہ ہے جو خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اور خدا کا سب سے زیادہ دشمن وہ ہے جو خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے۔” (مستدرک ص ۳۱۶)حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اپنی وصیت میں فرماتے ہیں: “کسی نعمت کی ناشکری نہ کرو کیونکہ حقیقت میں ناشکرا پن سب سے بڑا اور گھٹیا قسم کا کفر ہے۔” (مستدرک ص ۳۹۶)
کفرانِ نعمت کے معنیکفرانِ نعمت کے معنی نعمت کو چھپانا ہیں اور اس کی تین قسمیں ہوتی ہیں:(۱) نعمت سے ناواقفیت: یہ سب سے بُری اور شدید قسم ہے اور اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک نعمت سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی نہ سمجھنے کی وجہ سے نعمت کو نہیں پہچانتا، اس کی پرواہ نہیں کرتا یعنی اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور اس کے ہونے نہ ہونے کو یکساں جانتا ہے۔ دوسرے نعمت بخشنے والے سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی دراصل اپنے پروردگار ہی کو نہیں پہچانتا یا یہ نہیں جانتا کہ اس کی ایک صفت نعمت بخشنا بھی ہے۔ چنانچہ یہ نہیں سمجھتا کہ نعمت صرف اسی کی طرف سے آتی ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف سے آتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ نعمت سے خبری ہو یا نعمت دینے والے سے دونوں بے خبریاں کفرانِ نعمت یعنی احسان فراموشی ہیں اور صاف سزاؤں کی مستحق ہیں کیونکہ کفرانِ نعمت کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہ گناہِ کبیرہ ہے۔(۲) حالت کے لحاظ سے کفر: یہ اس طرح ہے کہ عاقل انسان کو اس نعمت کے ملنے پر خوش اور مسرور ہونا چاہیئے جو خدا اسے بخشتا ہے یہ سوچ کر کہ اللہ نے اس پر مہربانی کی اور اسے یاد رکھا اور وہ اس کے مسلسل فضل وکرم کا امیداوار ہے۔ (سورة یونس آیت ۵۸) اب اگر اس کے برعکس وہ اپنے پروردگار سے بدگمان رہے۔ اس کے فضل وکرم سے کوئی امید نہ رکھے یا اس سے خوش نہ ہو بلکہ اس سے بے تعلق اور نا امید ہو جائے تو یہ کیفیت یا حالت خدا کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔(۳) اعضائے جسم سے کفر: یعنی عملی کفر اس طرح کہ دل میں گناہ کی نیّت کرے اور زبان سے شکایت اور بُرائی کرے یعنی نعمتوں کا ذکر اور زبان سے ان کا شکر ادا کرنے کے بجائے سب کو نظر انداز کر دے (سورة الضحٰی آیت ۱۱) اور اپنی آرزوؤں کے پورا نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے خدا کے کاموں کی بُرائی کرے اور خدا کی نعمت کو وہاں صَرف کرے جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی اور اپنے اعضاء سے وہ کام لے جس سے خدا نے منع فرمایا ہے اور جو اس کی رحمت سے دُور کرنے والا ہے۔حضرت امام سجاد (علیہ السلام) (ایسے گناہ جو نعمتوں کو تبدیل کر دیتے ہیں) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “انہیں میں ناشکرا پن یعنی کفرانِ نعمت بھی شامل ہے۔” (معانی الاخبار)پیغمبر اکرم بھی فرماتے ہیں “مومن کے لیے فشار قبر (قبر کا مردے کو بھینچنا) ان نعمتوں کا کفارہ ہوتا ہے جو اس نے ضائع کر دی ہیں۔” (بحار الانوار جلد ۳)شکر نعمت کے واجب ہونے کے متعلق بہت سی آیتیں اور حدیثیں ملتی ہیں اور شکر کی حقیقت اور اس کی قسموں کی اس قدر تفصیل موجود ہے جس کے بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اس کے لیے اصول کافی اور دوسری اخلاقی کتابیں ملاحظہ فرمائیے۔
اگر شکر نہ کرے تو انسان جانور سے بھی گھٹیا ہےحضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “خاص تعریف اس خدا کے لیے ہے جو اگر اپنے بندوں کو ان نعمتوں کا شکر عطا نہ کرنا نہ بتاتا جو اس نے گاتار اور کھلم کھلا عنایت فرمائی ہیں تو اس میں شک نہیں کہ وہ ان نعمتوں کو لے کر ان کا شکرادا کیے بغیر انہیں اپنے کام میں لے آتے اور اگر وہ ایسا کرتے تو انسانیت کے دائرے سے نکل کر جنگلی جانوروں اور چوپایوں کی حد میں پہنچ جاتے جیسا کہ قرآن میں خدا فرماتا ہے: کفار حیوانات کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گھٹیا اور گمراہ ہیں۔” (دعائے اوّل صحیفہٴ سجادیہ)غرض یہ ہے کہ نعمت کا شکر ادا نہ کرنے والا انسان دراصل آدمیت سے ہی خارج ہے پھر ایسے شخص کے متعلق ایمان، صحیح معارف اور نیک اعمال کی بدولت حاصل ہونے والی انسانی سعادتوں اور برکتوں کا تو ذکر ہی کیا ہو سکتا ہے جو اس کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے ہوں گی۔
واسطوں اور ذریعوں سے انکار (کفران)چونکہ خدا نے دُنیا کو اپنی حکمت ومصلحت سے دارالاسباب قرار دیا ہے اور اپنے بندوں تک ہر نعمت پہنچانے کا کوئی نہ کوئی واسطہ، سبب یا ذریعہ مقرر فرمایا ہے جس کی بدولت وہ نعمت بندوں تک پہنچتی ہے اس لیے عقل اور شرع کی رو سے واسطوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کا بھی احسان ماننا چاہیئے البتہ یہ نہیں کہ اس واسطے ہی کو مستقل طور پر اور حقیقت میں اپنا منعم (نعمت بخشنے والا) سمجھے بلکہ اس کا احترام ضرور کرے کیونکہ وہ نعمت کا ذریعہ ہے اور اپنی زبان اور اپنی حالت و کیفیت سے خدا کا شکر ادا کرے کہ فلاں شخص نے مجھے تیری فلاں نعمت پہنچائی ہے۔ یہاں چند روایتوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “بلاشبہ خدا ہر شکرگذار بندے سے پسند فرماتا ہے اور قیامت میں اپنے ایک بندے سے پوچھے گا (دنیا میں) تو نے فلاں شخص کا (جو میری نعمت کا ذریعہ تھا) شکریہ ادا نہیں کیا اس لیے میرا بھی شکر ادا نہیں کیا۔” پھر امام نے فرمایا: “تم میں خدا کا سب سے زیادہ شکر گذار بندہ وہ ہے جو ان لوگوں کو بھی شکریہ ادا کرتا ہے جن کے واسطے سے خدا کی نعمتیں ملتی ہیں۔” (وسائل الشیعہ)حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “حقیقت میں خدا کا شکر ادا کرنا اس شخص کا شکریہ ادا کرنا ہے جس کے ذریعے سے تمہیں خدا کی نعمت ملی۔” (وسائل الشیعہ)حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “جو شخص ان لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا جن کے واسطے سے اسے نعمت الہٰی ملی ہے اس نے گویا خدا کا شکر ہی ادا نہیں کیا۔” (وسائل الشیعہ)رسول خدا فرماتے ہیں: “قیامت میں بندے کو حساب کتاب کے مقام پر لائیں گے اور خدا حکم دے گا کہ اسے دوزخ میں لے جاؤ تو وہ کہے گا۔ اے پروردگار! مجھے دوزخ میں لے جانے کا حکم کس لیے دیتا ہے جبکہ میں قرآن کی تلاوت کرتا رہا ہوں؟ خدا فرمائے گا: اس لیے کہ میں نے تجھے نعمت بخشی اور تُو نے شکر نہیں کیا۔ وہ کہے گا: اے خدا! تو نے مجھے فلاں نعمت دی تھی تو میں نے یوں شکر کیا، اور فلاں نعمت بخشی تو میں نے یوں شکرگذاری کی۔ اس طرح وہ خدا کی نعمتیں اور اپنی شکرگذاریاں گنائے گا۔ خدا فرمائے گا تُو نے سب کچھ سچ کہا لیکن یہ بات بھی تو ہے کہ میں جن لوگوں کے واسطے سے تجھے نعمتیں بھیجیں تو نے ان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ میں نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں نے جس بندے کو اپنی نعمت عطا فرمائی ہے اس کا شکر اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک کہ وہ اس شخص کا شکریہ ادا نہ کرے جس کے وسیلے سے نعمت اس تک پہنچی ہے۔ (وسائل الشیعہ باب ۸ ص ۵۱۶)پچھلی گفتگو میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ایک حدیث نقل کی گئی تھی جس میں آپ فرماتے ہیں: “اس شخص پر خدا کی لعنت ہو جس کے ساتھ کوئی بھلائی کی جائے اور وہ اس کا شکریہ ادا نہ کرے اور اس کی ناشکری گذاری (احسان فراموشی) کی وجہ سے نیکی کرنے والا پھر دوسروں کے ساتھ بھلائی نہ کرے۔” (۱)
نیکی کے واسطے شکریے کہ حقیقتپیغمبر اکرم فرماتے ہیں: “جب تجھے اپنے مومن بھائی سے کوئی نعمت یا نیکی حاصل ہو تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ خدا آپ کو جزائے خیر (اچھا صلہ) عطا کرے اور اگر تیرا ذکر اس محفل میں کیا جائے جس میں تو موجود نہ ہو تو کہہ دے کہ خدا انہیں جزائے خیر عطا فرمائے تو نے گویا اس طرح اس کی تلافی کر دی یعنی حساب برابر کر دیا۔”(وسائل الشیعہ۔ مستدرک)آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: “جس نے تمہیں خدا کی قسم دلا کر تم سے کچھ مانگا اور جس سے تمہیں بھلائی اور نعمت ملی اس کی تلافی کر دو یعنی تم بھی اس کی طرح اس کے ساتھ بھلائی کرو اور اگر تمہارے پاس وہ چیز نہ ہو جس سے تم تلافی کر سکتے ہو تو اس کے لیے اس طرح دعا کرو جس سے وہ جان جائے کہ تم نے تلافی کر دی ہے۔” (وسائل الشیعہ۔ مستدرک)غرض ہر احسان کا بدلہ احسان سے چکانا چاہیئے جیسا کہ خدا سورة رحمن میں فرماتا ہے: “کیا بھلائی کا بدلہ بھی بھلائی کے سوا کچھ ہو سکتا ہے؟” (آیت ۶۰) لیکن یہ پیشِ نظر رہے کہ بھلائی کی ابتداء کرنے والا افضل ہوتا ہے۔روایتوں میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ اس ظلم کے تحت احسان کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی مومن ہو یا کافر عبادت گذار ہو یا گناہگار غرضیکہ کوئی ہو اور اس نے کیسی ہی بھلائی کی ہو اس کی تلافی کرنا چاہیئے۔
ولایت سب سے اعلیٰ نعمت ہےاس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی شخص کے بارے میں خدا کی دنیاوی اور آخرت کی، صوری اور معنوی نعمتیں گنی نہیں جا سکتیں جیسا کہ قرآن مجید میں خدا یاد دلاتا ہے: “اگر تم خدا کی نعمتوں کو گننا بھی چاہو تو گن نہیں سکو گے۔” (سورة ابراہیم آیت ۳۴ ) ان نعمتوں میں سے ہر نعمت کی ناشکری، جن معنوں میں ذکر کیا گیا ، گناہِ کبیرہ اور عذاب کی سزاوار ہے۔ لیکن یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ نعمت جتنی اہم اور بڑی اور اس کا اثر جتنا زیادہ ہو گا اس کی ناشکری کی سزا بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اس کا گناہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔ہر نعمت سے اعلیٰ اور اہم آلِ محمد علیھم السلام کی ولایت ہے (دیکھئے بحار الانوار جلد۷) اور اس نعمت کی ناشکری ہر گناہ سے سخت ہے اور اس کی ناشکری ان کی ولایت کا نہ ماننا یا ان حضرات کو بھول جانا اور یاد نہ کرنا، ان سے محبت نہ رکھنا اور ان کے اقوال اور اوامر ونواہی کے ماننے سے منہ موڑنا غرض ان کے منصب کی پرواہ نہ کرنا اور ان کی ولایت کی نعمت سے فیض حاصل نہ کرنا ہے۔(۱) دیکھئے وسائل کتاب امر بمعروف جسکے باب ۸ میں اس موضوع پر ۱۶ حدیثیں، باب ۷ میں ۱۱ حدیثیں اور مستدرک میں ۱۴ حدیثیں اور باب ۷ میں ۹ حدیثیں بیان ہوئیں ہیں۔تفسیر صافی اور برہان وغیرہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی ایمان سے متعلق زیادہ تر آیتوں کا اشارہ ولایت پر ایمان رکھنے سے ہے اور اسی طرح کفر کے موضوع سے متعلق آیتیں زیادہ تر ولایت کے انکار سے متعلق ہیں۔ مثال کے لیے دو ایک آیتوں کا ذکر کیا جاتا ہے:خداوندعالم سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: “کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمت کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو جہنم میں جھونک دیا۔” (آیت ۲۴)یہ بات بہت سی روایتوں میں آئی ہے کہ نعمت معصوم اور پاک اہل بیت علیھم السلام ہیں اور کفر بنی امیہ اور آلِ محمد کے دشمن ہیں۔خدا سورةتکاثر میں فرماتاہے : “قیامت میں تم سے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔”(آیت ۸)بہت سی روایتوں میں یہ بات ملتی ہے کہ اس بات میں لفظ نعیم (نعمت) سے جس کے بارے میں پوچھا جائے گا آلِ محمد کی ولایت مراد ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ نعمت کی اصل اور حقیقت وہی ولایت کی نعمت ہے کیونکہ ہر نعمت کی فیض رسانی اسی پر منحصر ہے۔
علماء کے وجود سے انکارولایت کی نعمت سے انکار خدا کے عالموں اور روحانی فقیہوں کے وجود سے انکار ہے جو حضرت حجة ابن الحسن (علیہ السلام) کی غیبت کے زمانے میں ان کے عام نائب ہیں اور ظاہر ہے کہ نائب سے انکار اس سے انکار ہے جس کا وہ نائب ہے۔ جس طرح نائب کا شکریہ اس کا شکریہ ہے جس کا وہ نائب ہے چونکہ اس کے بارے میں دلیلوں اور روایتوں کا ذکر اور علماء کی فضیلت کا بیان طول کلام اور اس کتاب کے موضوع سے غیر متعلق ہو جانے کا سبب ہو گا اس لیے صرف نائب امام اور اس کی نعمت سے انکار کے معنی بیان کرنے پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے۔
نائب امام کون ہے؟نائب امام وہ شخص ہے جو علومِ آلِ محمد سے فیضیاب ہو چکا ہو اور یقین اور اطمینان کے مقام پر پہنچ گیا ہو اور نفسانی کمالات کے لحاظ سے ہو اور ہوس کی قید سے آزاد ہو، نفس اور شیطان پر غالب آ چکا ہو اور عدالت کی صفت رکھتا ہو۔خلاصہ یہ ہے کہ خود امام کا نمونہ ہو اور ان بزرگوار کے انوار سے فیض حاصل کر چکا ہو تاکہ دنیا والے اس کی گفتار اور کردار کی روشنی سے بلکہ اس کے نفس وجود سے فیضیاب ہوں اور اس کی پیروی کر کے نجات پائیں۔جاننے والے جانتے ہیں کہ اس بلند مقام (نیابت امام) پر پہنچنا بہت مشکل اور بہت زیادہ محنت اور مشقت کرنے پر منحصر ہے۔ چونکہ ایسے روحانی عالم کا وجود خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے اس لیے اس کا شکر بھی سب سے بڑا شکر ہے اور اسی طرح اس سے انکار بھی سب سے بڑا گنا ہ ہے۔
روحانی عالم کے وجود سے انکارروحانی عالم کے وجود سے انکار یہ ہے کہ اس کے وجود کو نعمت نہ مانا جائے، اس کی حیثیت کی پرواہ نہ کی جائے، اس کی اطاعت لازم نہ سمجھی جائے یا خدانخواستہ اس کا حکم نہ مانا جائے جو خود گناہِ کبیرہ اور امام کی مخالفت کے برابر ہے اور یہ خدا سے شرک کرنے کی حد میں آتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ امام سے کٹ جانا اور بے تعلق ہو جانا ہے۔ابوحمزہ نے کہا کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا: “عالم ہو یا طالب علم ہو یا اہل عِلم کا دوستدار بن اور چوتھی قسم (یعنی نہ عالم نہ طالب عِلم نہ ان کا دوستدار) نہ بن کیونکہ تو انہیں اپنا دشمن رکھ کر ہلاک ہو جائے گا۔” (اصولِ کافی کتاب فضل العلم باب اصناف الناس حدیث ۳)حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “خدا نے دانیال (علیہ السلام) کو وحی بھیجی کہ میرے نزدیک میرا سب سے بڑا دشمن بندہ وہ نادان ہے جو اہلِ علم کے حق کی پرواہ نہیں کرتا اور ان کی پیروی نہیں کرتا اور میرے نزدیک میرا سب سے زیادہ دوست بندہ پرہیزگار مناسب ثواب کا طالب، عالموں کا خادم، بردباروں کا پیرو اور حکمت شعاروں کی تواضح کرنے والا ہے۔” (اصول کافی باب ثواب العلم والتعلیم حدیث ۵)
علماء کے وجود سے انکار پر سخت سزائیںاس نعمت کے انکار پر سخت سزاؤں کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مثلاً پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: “ایک زمانہ آنے والا ہے جب لوگ عالموں سے یوں بھاگیں گے جیسے بھیڑیے سے بھیڑ بھاگتی ہے۔ چنانچہ خدا ان کو تین بلاؤں میں مبتلا فرمائے گا۔ ان کے مال وملکیت سے برکت اُٹھا لے گا، ان پر ظالم بادشاہ مقرر کرے گا، وہ دنیا سے بے ایمان جائیں گے۔” (سفینة البحار جلد ۲ ص ۲۲۰)واضح رہے کہ دینی علوم کے حاصل کرنے والے نیابت امام کے بلند مقام تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا وجود بھی نعمت ہے اور ان کا احترام کرنا بھی سب کے لیے لازم ہے اور ان کے وجود سے انکار، ان کی توہین اور سب کی بھی حرام ہے۔