امام موسیٰ كاظم علیہ السلام كی شہادت
اسم مبارك: موسیٰالقاب: كاظم، عبد صالح، نفس زكیہ ، صابر، امین، باب الحوائج وغیرہكنیت:۔ ابو الحسن، ابو ابراہیم، ابو علی، ابو عبد اللہپدر بزرگوار:۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلاموالدہ گرامی:۔ حمیدہ خاتونتاریخ ولادت:۔ ٧ صفر ۲۸ھتاریخ شہادت: ۲۵ رجب ۱۸۳ھمدفن: كاظمین (بغداد) عراقحضرت امام موسیٰ كاظم علیہ السلام ، رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے ساتویں جانشین اور ہمارے ساتویں امام ہیں ۔سلسلہ عصمت كی نویں كڑی ہیں ۔آپ كے والد محترم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور آپ كی والدہ ماجدہ جناب حمیدہ خاتون تھیں ، جو بربر یا اندلس كی رہنے والی تھیں ۔ امام محمد باقر علیہ السلام جناب حمیدہ خاتون كے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: آپ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں ۔امام موسیٰ كاظم علیہ السلام اپنے ابائو اجداد كی طرح امام منصوص من اللہ، معصوم، اعلم زمانہ اور افضلِ كائنات تھے ۔ آپ دنیا كی تمام زبانیں جانتے تھے اور علم غیب سے آگاہ تھے، آپ دنیا كے عابدوں میں سے سب سے بڑے عبادت گزاراور سخاوت میں سب سے زیادہ سخی تھے۔حضرت امام موسیٰ كاظم علیہ السلام ٧صفر المظفر ۸۲۱ھ مطابق ۱۰نومبر ۷۴۵ع شنبہ كے روز ابوا كے مقام جو مدینہ و مكہ كے درمیان واقع ہے پیدا ہوئے۔ولادت كے فوراً بعد ہی آپ نے اپنے ہاتھوں كو زمین پر ٹیك كر آسمان كی طرف رخ كركے كلمہ ¿ شہادتین زبان پر جاری فرمایا۔ یہ عمل آپ نے بالكل اسی طرح انجام دیا جس طرح آپ (ع) كے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انجام دیا تھا۔آپ كے داہنے بازو پر یہ كلمہ ” تمت كلمۃ ربك صدقا وعدلا ” لكھا ہوا تھا۔۱۴۸ھ میں امام جعفر صادق علیہ السلام كو شہید كیا گیا ۔باپ كی شہادت كے بعد آپ منصب امامت پر فائز ہوئے اور امامت كے تمام فرائض كے ذمہ دار ہوئے ۔اس وقت منصور دوانقی ملعون كی حكومت تھی ۔ یہ وہی ظالم و جابر بادشاہ تھا جس كے ہاتھوں لاتعداد سادات موت كے گھاٹ اتار دیئے گئے یا دیوار میں چنوا دئے گئے۔۱۵۸ھ كے آخر میں منصور دوانقی ملعون واصل جہنم ہوتا ہے، اس كے بعد اس كا بیٹا مہدی تخت سلطنت پر بیٹھتا ہے ۔ شروع میں اس نے امام علیہ السلام كو كسی قسم كی اذیت نہ دی اور نہ ہی بے احترامی كی لیكن چند سال بعد اس كو بھی اولاد پیغمبر كی مخالفت كا جذبہ ابھرا اور ۱۶۴ھ میں حج كے بہانے حجاز كی جانب روانہ ہوا ۔ وہ امام موسیٰ كاظم علیہ السلام كو بھی اپنے ساتھ مكہ سے بغداد لے گیااور بغداد میں امام علیہ السلام كو قید كر دیا ۔ایك سال امام علیہ السلام اس كی قید میں رہے ۔ بعد میں اس ملعون كو اپنی غلطی كا احساس ہوا اور امام علیہ السلام كو آزاد كر كے مدینہ واپس بھیج دیا۔ مہدی كے بعد اس كا بھائی ہادی ۱۶۹ھ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایك سال اس نے حكومت كی ۔ اس كے بعد ہارون رشید كا زمانہ آیا ۔ اس ملعون كے دور میں امام موسیٰ كاظم علیہ السلام كو آزادی كی سانس لینا نصیب نہیں ہوا ۔علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں كہ جس وقت آپ درجہ امامت پر فائز ہوئے اس وقت آپ كی عمر مبارك بیس سال تھی ۔ 1
امام علیہ السلام كی شہادتامام علیہ السلام كو بصرہ میںایك سال قید ركھنے كے بعد ہارون رشید ملعون نے والی بصرہ عیسیٰ بن جعفر كو لكھا كہ موسیٰ بن جعفر ( امام موسیٰ كاظم علیہ السلام ) كو قتل كركے مجھ كو ان كے وجود سے سكون دے ۔ اس نے اپنے ہمدردوں سے مشورہ كرنے كے بعد ہارون رشید ملعون كو لكھا: میں نے امام موسیٰ كاظم علیہ السلام میں اس ایك سال كے اندر كوئی برائی نہیں دیكھی ۔ امام موسیٰ كاظم علیہ السلام روز و شب نمازاور روزہ میں مصروف و مشغول رہتے ہیں اور عوام و حكومت كے لئے دعائے خیر كرتے ہیں اور ملك كی فلاح و بہبودی كے خواہشمند ہیں ۔ كس طرح ایسے شخص كو قتل كر دوں ۔میں ان كے قتل كرنے میں اپنے انجام اور اپنی عاقبت كی تباہی دیكھ رہا ہوں لہٰذا تو مجھے اس گناہ عظیم كے ارتكاب سے معاف كر بلكہ تو مجھے حكم دے كہ میں ان كو اس قید با مشقت سے آزاد كر دوں ۔اس خط كو پانے كے بعد ہارون رشید ملعون نے اس كام كو سندی بن شاہك كے حوالے كیا اور اسی ملعون كے ذریعہ امام علیہ السلام كو زہر دلواكر شہید كر دیا ۔علامہ ابن حجر مكی لكھتے ہیں ہارون رشید نے آپ كو بغداد میں قید كردیا ” فلم یخرج من حبسہ الا میتا مقیدا” اور تاحیات قید ركھا، آپ (ع) كی شہادت كے بعدآپ كے ہاتھوں اور پیروں سے ہتھكڑیاں اوربیڑیاں كاٹی گئیں۔آپ كی شہادت ہارون رشید كے زہر سے ہوئی جو اس نے سندی ابن شاہك كے ذریعہ دلوایا تھا۔ 2امام موسیٰ كاظم علیہ السلام كی شہادت ٥٢ رجب المرجب بروز جمعہ ۱۸۳ھ میں واقع ہوئی۔ اس وقت آپ كی عمر ٥٥ سال كی تھی ۔ آپ نے ۱۴سال ہارون رشید كے قید خانہ میں گزارے ۔ شہادت كے بعد آپ كے جنازہ كو قید خانہ سے ہتھكڑی اور بیڑی سمیت نكال كر بغداد كے پل پر ڈال دیا گیا تھااور نہایت ہی توہین آمیز الفاظ میں آپ كو اور آپ كے ماننے والوں كو یاد كیا گیا۔سلیمان بن جعفر ابن ابی جعفر اپنے كچھ ساتھیوں كے ساتھ ہمت كركے نعش مبارك كو دشمنوں سے چھین كر لے گئے اور غسل و كفن دے كر بڑی شان سے جنازہ كو لے كر چلے ۔ ان لوگوں كے گریبان امام مظلوم كے غم میں چاك تھے انتہائی غم و اندوہ كے عالم میں جنازہ كو لے كر مقبرہ قریش میں پہنچے۔امام علی رضا علیہ السلام كفن و دفن اور نماز كے لئے مدینہ منورہ سے با اعجاز پہنچ گئے۔آپ نے اپنے والد ماجد كو سپرد خاك فرمایا۔تدفین كے بعد امام علیہ السلام مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے ۔ جب مدینہ والوں كو آپ كی شہادت كی خبر ملی تو كہرام برپا ہو گیا ۔ نوحہ و ماتم اور تعزیت كا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔مرزا دبیر كہتے ہیں:مولا پہ انتہائے اسیری گزر گئی ۔زندان میں جوانی و پیری گزر گئی
اقوال امام علیہ السلام- صالح افراد كے ساتھ اٹھنا بیٹھنا فلاح اور بہبود كی طرف دعوت دیتاہے۔علماءكا ادب كرنا عقل میں اضافہ كا سبب ہے۔- جو شخص اپنے غیظ و غضب كو لوگوں سے روكے تو قیامت میں خدا اس كواپنے غضب سے محفوظ ركھے گا۔- معرفت الٰہی كے بعد جو چیزیں انسان كو سب سے زیادہ خدا سے نزدیك كرتی ہیں وہ نماز ، والدین كے ساتھ اچھا برتائو، حسد نہ كرنا، خود پسندی سے پرہیز كرنا، فخر و مباہات سے اجتناب كرنا۔- مخلوقات كا نصب العین اطاعت پروردگار ہے ۔ اطاعت كے بغیر نجات ممكن نہیں ۔ اطاعت علم كے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔ علم سیكھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ علم عقل كے ذریعہ حاصل كیا جاتا ہے ۔ علم تو بس عالم ربانی كے پاس ہے ۔عالم كی معرفت اس كی عقل كے ذریعہ سے ہے۔- تمھارے نفس كی قیمت تو بس جنت ہے۔بس اپنے كو جنت كے علاوہ كسی اور سے نہ فروخت كرو۔- نعمت اس شخص كے پاس رہتی ہے جو میانہ روی اور قناعت كو اپناتاہے ۔اور جو شخص بے جا مصرف اوراسراف كرتا ہے تو اس سے نعمت دور ہوجاتی ہے۔- امانت داری اور سچائی رزق مہیا كرتے ہیں ۔خیانت اور جھوٹ فقر اور نفاق پیدا كرتے ہیں ۔- عاقل وہ ہے جسے رزق حلال شكر سے باز نہیں ركھتا اور نہ كبھی حرام اس كے صبر پر غالب آتا ہے ۔- علی بن یقطین سے فرماتے ہیں: ظالم بادشاہ كی نوكری كرنے كا كفارہ یہ ہے كہ تم اپنے بھائیوں كے ساتھ احسان كرو۔- جو شخص حمد و ثنائے پرور دگار اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود و سلام بھیجے بغیر دعا مانگتا ہے وہ بالكل اس شخص كے مانند ہے جو بغیر ہدف كے تیر چلائے۔- غور فكر كرنا نصف راحت ہے اور لوگوں سے محبت كرنا نصف عقل ہے كیوں كہ لوگ تمھیں تمھارے عیوب سے آگاہ كریں گے ۔ اور یہی لوگ تمھارے حقیقی مخلص ہیں۔- وہ شخص ہم سے نہیں ہے ( ہمارا دوست نہیں ہے ) جو اپنی دنیا كو دین كے لئے ترك كر دے یا اپنے دین كو دنیا كے خاطر ترك كردے ۔