گھريلو لڑائي جھگڑے سے پرہيز

200

ايسے بچوں كے دلوں ميں گرہيں پرجاتى ہيں ، اعصاب كمزور ہوجاتے ہيں ، دل شكستہ رہتے ہيں اور وہ بدبينى كے عالم ميں زندگى گزارتے ہيں _ ہوسكتا ہے ايسے گھر كى بيٹى اپنے باپ كى بداخلاقى اور كج مزاجى سے يہ سمجھے كہ سارے مرد ايسے ہى ہوتے ہيں ممكن ہے اس خيال كے باعث وہ شادى كے نام ہى سے خوف كھاتى ہو _ ہوسكتا ہے ايسے گھر كا بيٹا
33اپنى ماں كى بداخلاقى اور لڑا كا پن كے باعث سب عورتوں كو ايسا ہى خيال كرے اور شادى سے بيزار ہوجائے _ اس صورت حال ميں اولاد كے دل ميں ماں يا باپ ميں سے كسى ايك كے ليے كينہ اور نفرت پيدا ہوجاتى ہے يہاں تك كہ بعض اوقات اولاد انتقامى حربے بھى اختيار كرتى ہے _ اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے كہ بہت سے آوارہ ، نشہ باز اور بدكردار بچے ماں باپ كے روز روز كے جھگڑوں كے باعث اس مصيبت ميں گرفتار ہوتے ہيں _اگر آپ اپنے بچوں كے تلخ واقعات اور ماں باپ كے اختلافات (اگر تھے) كا سوچيں تو آپ محسوس كريں گے كہ سالہا گزرنے كے باوجود ان كى تلخ ياديں آپ كے ذہن پر نقش ہيں _ايك دانشور لكھتے ہيں :ماں باپ كو يہ بات معلوم ہونا چاہيے كہ گھر كے بڑے افراد كے درميان لڑائي جھگڑا بچوں پر برا اثر ڈالتا ہے اور بڑوں كے باہمى روابط بچے كى شخصيت كى تعمير پر اثر انداز ہوتے ہيں … اگر ايك گھر ميں اتفاق و اتحاد كى فضا نہ ہو تو ايسى صورت ميں ممكن نہيں كہ وہاں بچوں كى صحيح پرورش ہوسكے _ جب بڑے لڑنے جھگڑنے لگيں تو انہيں بھول جاتا ہے كہ بچے بھى ان كے ساتھ ہيں اور ان كى تربيت بھى ان كے ذمہ ہے _ ايسى صورت ميں بچہ كوئي صحيح سبق نہيں سيكھ سكتا _ اس كا مزاج بھى غصيلا ہوجاتا ہے وہ تند مزاج اور گوشہ نشين ہوجاتا ہے _ خصوصاً كچھ بڑى عمر كے بچے ايسى صورت ميں سخت مشكل سے دوچار ہوجاتے ہيں _ان كا دل باپ كى حالت پر كڑھتا ہے _ وہ يہ فيصلہ نہيں كرپاتے كہ كس كا ساتھ ديں اور كس كے ساتھ ہوجائيں _ كبھى وہ حقيقت كو پہچانے بغير ہر دو كے خلاف ہوجاتے ہيں _ (1)كسى نے اپنے ايك خط ميں لكھا ہے كہ :—————1_ روان شناسى تجربى ص 673
34” … ميرے بچپن كے بدترين واقعات ميں سے وہ مواقع ہيں كہ جب ميرے ماں باپ آپس ميں جھگڑتے تھے اور گالى گلوچ كرتے تھے _ ميں ميرى بہن اور ميرا بھائي ايسے موقعے پر ايك طرف كھڑے ہو كر لرزتے رہتے تھے _ جب تك لڑائي رہتى تھى ہم ميں كچھ كرنے كا حوصلہ نہ ہوتا تھا _ مجھے ياد ہے كہ ميرى چھوٹى بہن اس صورت حال كو ديكھ كررونے لگتى تھى اور كتنى دير تك اس كے اوسان بحال نہ ہوتے تھے _ اس وقت وہ ضعف اعصاب كا شكار ہوچكى ہے _ ايسا لگتا ہے كہ ہمارے ماں باپ كے لڑائي جھگڑے ميرى بہن كى روح پر برى طرح اثر انداز ہوئے ہيں …”_ايك مرد نے اپنے خط ميں لكھا ہے _” … بچپن كے ايك تلخ واقعے كى يادميرے دل سے جاتى ہى نہيں _ ميرا باپ بہت بداخلاق ، بدسلوك ، غصيلا ، اور خود غرض تھا ، گھر ميں وہ بہانے بہانے سے جھگڑتا رہتا اور سب پر برستا _ ہمارے ماں باپ صبح سے آدھى رات تك آپس ميں لڑتے رہتے ، خدا جانے وہ تھكتے كيوں نہ تھے _ جھگڑے بھى بالكل معمولى معمولى باتوں پر ہوتے تھے _ كوئي رات ايسى نہ تھى كہ ميں روئے بغير سوجاتا _ اسى وجہ سے ميرے اعصاب كمزور پڑگئے ہيں ڈرتا رہتاہوں اور ڈراؤنے خواب ديكھتا ہوں _ ڈاكٹر كے پاس بھى گيا ہوں وہ كہتا ہے كہ گھريلو اختلافات كا اثر ہے اور اس كا آرام كے علاوہ كوئي علاج نہيں ہے _ ميرى خوشى كا زمانہ اس وقت شروع ہوا جب ميرى شادى ہوگئي اور ميں نے اس گھر سے نجات پالى اور اب اگر چہ ميرى زندگى اچھى گزررہى ہے پھر بھى يوں لگتا ہے جيسے ميں ايك شكست خوردہ آدمى ہوں اور زندگى ميں ترقى نہيں كرسكتا _ ميں والدين سے درخواست كرتا ہوں كہ خدارا اگر تمہارے درميان كوئي اختلاف ہو بھى تو اپنے بچوں كے سامنے لڑائي جھگڑا نہ كرو _وہ اپنے تفصيلى خط ميں مزيد لكھتا ہے : ميرے بچپن كا بدترين واقعہ وہ ہے كہ ميں جب آٹھ سال كا تھا اور ميرے والدين كے درميان سخت جھگڑا رونما ہوا _ سارے
35بچے ڈركے مارے مختلف گوشوں ميں جا چھپے اس واقعے كا ميرى روح پر ايسا اثر ہواكہ ميں ايك عرصے تك مضطرب اور پريشان رہا _ ميں اپنے گھروالوں سے بيزار ہوگيا _ ميرا دل نہ كرتا كہ سكول سے گھر آؤں _ ميں خدا سے دعا كرتا كہ بيمارہوجاؤں اور مرجاؤں _ كئي دفعہ ميں نے خودكشى كا سوچا كئي مرتبہ خوابوں ميں ميں نے ديكھا كہ ميں اپنى ہونے والى بيوى سے لڑرہا ہوں اور اس سے جنگ وجدال ميں مصروف ہوں عالم خواب ميں ميں يہ پروگرام بناتا كہ اپنے حق كو ميں كيسے بچا سكتا ہوں _ شادى كے شروع شروع ميں ميں نے كئي بہانوں سے كوشش كى كہ اپنى بيوى سے جھگڑوں اور اسے بتاؤں كہ ميں بہت غصے والا ہوں اور اونچى آواز سے بولوں تا كہ اس پر ظاہر كر سكوں كہ ميرى بھى كوئي شخصيت ہے _ خوش قسمتى سے ميرى بيوى ٹھنڈے دل و دماغ والى اور عقل مند تھى _ وہ ميرے ساتھ اچھا سلوك كرتى تھى اور اس كے بعد دليل و برہان سے مجھے مطمئن كرتى _ خوش قسمتى كى بات يہ ہے كہ ميرا يہ مزاج زيادہ دير تك باقى نہ رہا _ جب مجھے اپنے ماں باپ كى غلطى كا احساس ہوا اور ميں نے خوداپنى كمزوريوں پر نظر كى تو ميں نے اپنے اخلاق كو تبديل كرليا اور اب زندگى آرام سے گزرہى ہے _ايك اور صاحب اپنے خط ميں لكھتے ہيں:… ميں نوسال كا تھا كہ ميرے ماں باپ نے باہمى اختلافات كى وجہ سے ايك دوسرے سے جدا ئي كا فيصلہ كرليا _ انہوں نے مجھے، ميرى بہن اور بھائي كو دادا كے گھر بھجواديا _ ہم وہاں روتے رہتے _ جب ميں اپنى ماں سے ملنے جاتا تو راتوں كو ايسے خواب ديكھتا كہ كہ رہا ہوتا كہ ميں ابو كے گھر نہيں جاؤںگا _ كچھ عرصے كے بعد امى اور ابو كے بعض رشتہ داروں نے مل ملاكر صلح كرادى اور ميرى امى واپس گھر آئي _ ليكن اس تھوڑے سے عرصے نے ميرى روح پر ايسا اثر كيا كہ ابھى تك اس كے آثار باقى ہيں _ ميں اب كوشش كرتا ہوں كہ اگر ميرے اور بيوى كے درميان كوئي اختلاف پيدا ہوجائے تو اسے اپنے بچوں كے سامنے ظاہر نہ ہونے ديں _
36ايك اور خط ہا خطہ كيجئے :ميرے بچپن كى بہت سى تلخ ياديں ہيں ، خوشى كى ياديں تو بہت ہى كم ميں _جب تھى مجھے وہ زمانہ ياد آتا ہے تو ناراحت ہو جاتى ہوں اور بے اختيار ميرے آنسو جارى ہو جاتے ہيں اس غم كى وجہ يہ ہے كہ جب سے مجھے ياد ہے ميں نے ہميشہ اپنے ماں باپ كو بحث و جدل اور لڑائي جھگڑ اكر تے ہى ديكھا _ اس طرح انہوں نے مجھ پر اور ميرے بہن بھائيوں پر زندگى اجيرن كردى تھى _ ہم آئھ بہن بہن بھائي تھے اسى وجہ سے مين اپنے شوہر سے تو تكرار نہيں كرتى اور اپنے شوہر اور بچوں كى زندگى تلخ نہيں كرتى _ايك خط ميں كسى نے لكھا :پانچ سال كى عمر بچپن كا بہترين زمانہ ہو تا ہے _ ميں اس عمر كا تھا كہ ميرے ماں باپ ميں شديد اختلاف پيدا ہوئے _ ميرے باپ نے دوسرى شادى كرلى _ اس اختلاف كى وجہ سے مير ى ماں نے طلاف لے لى _ ہم چھ بہن بھائي تھے _ ايك دن بہت تلخ تھا _ ميں اور ميرا بھائي كھيل رہے تھے كہ امى جان خداحافظ كہنے كو آئيں _ خدا جانتا ہے ہ بچے كس قدر ناراحت ہوئے _ ہمارى ماں چلى گئي اور ہم اپنے باپ اور نئي ماں كے ساتھ رہ گئے _ دو سال گويا ہم ماں كے بغيررہے اور باپ كى بے اعتنائي كے صد ے سہتے رہے _ اس كے بعد ايك روز ہمارى آمى آئيں اور مجھے اور ميرے بھائي كو اپنے گھر لے گئيں _ انہيں ہمارى نانى سے جائيداد سے كچھ حصہ ملا تھا وہ اسى كے ذريعے ہمارى ديكھ بھال كرتى رہيں _ پھر دگر بہن بھائي بھى آگئے _ ہمارى ماں نے ہمارے ساتھ ماں كا كردار بھى ادا كيا اور باپ كا بھى _ہم اس كے ايثار اور قربانيوں كو بھلا نہيں سكتے:ايك خاتون اپنے خط ميں لكھتى ہے :ميرے ماں باپ ہميشہ لڑتے جھگڑتے رہتے تھے اور ہمارے گھر ميں ايك جنجال بپا ہو تا تھا _ ہمارى ماں ہميشہ غصے ميں رہتى ہيں آٹے سال كى تھى دوسرے
37بچوں كو ميرے پاس پھوڑتى اور چلى جاتى _ ميرے بہن بھائي كوئي دو سال كا تھا ، كوئي چار سال كا تھا ، كوئي چھ سال كا تھا _ يہاں تك كہ ايك چھ ماہ كا بھى تھا_ ميں نا چار ان سب كى خدمت كرتى رہتى _ كبھى باپ سے بھى ماركھاتى _ ان سارے حالات كے باوجود ميں كوشش كرتى كہ پڑھتى بھى رہوں ليكن دوسرى جماعت ميں ميں فيل ہو گئي تھى _ ميرى استانيوں كو ميرے حالات كى خبر تھى _ انہوں نے ميرے اور پر رحم كيا اور مجھے كچھ اضافى نمبر دے ديئے _ انہيں حالات ميں ميں ہائي سكول تك جا پہنچى _ اس وقت تو ميں خود ماں بن چكى ہوں _ كوشش كرتى ہوں كہ جنگ و جدل سے نہ اپنے آپ كو بے آرام كروں اور نہ شوہر اور بچوں كو _جوماں باپ احساس ذمہ دارى ركھتے ہيں اور انہين اپنے بچوں كى تربيت سے دلچسپى ہے تو انہيں چاہيے گھر كے لڑائي جھگڑ ے سے سختى سے اجتناب كريں اور ہر گز بچوں كے سامنے لڑائي جھگڑانہ كريں اور لمبى كدور توں اور با ہمى غصے سے بچوں كے ليے ناراضى اور پريشانى كے اسباب فراہم نہ كريں _ اس سے بدتر كوئي كام نہيں ہو سكتا كہ ماں باپ گھر ميں جھگڑيں اور بے گناہ بچوں كو چھوڑ كر اپنى راہ ليں _ اگر ماں باپ كو پتہ ہو كہ اس مارت مين اگر چہ وہ تھوڑى سى ہى كيوں نہ ہو ، بچوں پر كيا گزرى تو وہ كبھى اس لڑائي جھگڑے كو اختيار نہ كريں _ ايسے واقعات آخر عمر تك نہيں بھولتے اور اولاد كى روح كو اداس اور پريشان كرديتے ہيں _ البتہ شايد بہت كم ہى گھرا يسے ہوں جہاں سليقے كا اختلاف نہ ہو ليكن از دواجى زندگى ميں در گزركى ضرورت ہوتى ہے _ سمجھدار اور آگاہ ماں باپ اپنے اختلافات كو افہام و تفہيم اور منطق و استدلال كے ذريعے سے حل كرتے ہيں اور اگر نا چار كچھ سخت سست كہنا ہى پڑ جائے تو جائے تو بچوں كے سامنے ايسا نہيں ہو نا چا ہيے اور اگ بچوں كو كچھ پتہ چل بھى جائے تو انہين بتا نا چا ہيے كہ اختلاف كام ميں نہيں ہے بلكہ ہمارے در ميان صرف طريقے ميں اختلاف اور مشكلات ہيں اور ان كے حل كوشش كررہے ہيں اور يہ كوئي اہم مسئلہ نہيں ہے _ ماں باپ كو نہين چاہيے اگر چہ وہ غصے كے عالم ميں ہوں طلاق اور جدائي كا ذكر كريں _ كيونكہ اس سے نہ فقط ازدواجى زندگى متز لزل ہو جاتى ہے بلكہ بچوں كے ليے بھى بے اطمينانى اور اضطراب پيدا ہو تا ہے _ مياں بيوى كى ايك دوسرے سے جدائي اولاد كے ساتھ
38بھى ايك بہت بڑى خيانت ہے _ كيونكہ ان كاتو گو يا آشيانہ گر جا تا ہے اور ان كى زندگى پريشان و ويران ہو جاتى ہے _ كيونكہ بچے تو ماں باپ دونوں كو چا ہتے ہوتے ہيں نہ كہ ان ميں سے كسى ايك كو _ اگر طلاق كے بعد بچے باپ كى تحويل ميں رہيں اور وہ دوسرى شادى كرلے تو وہ بے گناہ مجبورا سو تيلى ماں كے زير دست زندگى گزاريں گے _ سوتيلى ماں اگر چہ كتنى ہى اچھى كيوں نہ ہو حقيقى ماں كى جگہ نہيں لے سكتى _ زيادہ تر تو وہ اپنے شوہر كے بچوں كو اذيت و آزار ہى پہنچا تى ہے سوتيلى ماں كے سولك كے بارے ميں آپ اخبار و جرائد مين پڑ ھتے ہى ہوں گے اور اگر بچے ماں كى تحويل ميں چلے جائے تو اگر چہ وہ باپ سے بہتر نگھدارى كرتى ہے ليكن باپ كى جگہ خالى رہتى ہے اور باپ سے دورى كا غم انہيں ستا تا رہتا ہے اور اگر وہ دونوں ڈھٹائي سے كام ليں اور اپنے بچوں كو كسى اور كے پس چھوڑديں تو وا مصيبتا _بہر حال بچے پيدار ہونے سے پہلے مياں بيوى آزاد ہيں _ ليكن اولاد كى پيدائشے كے بعد وہ ذمہ دار ہيں كہ اختلاف سے پر ہيز كريں اور گھر كے نظام كى المقدور حفاظت كريں اور بے گناہ بچوں كى پريشانى اور اذيت سامان فراہم نہ كريں _ ورنہ وہ بارگاہ عدل الہى ميں جواب دہ ہو ںگے اوران كا مو آحذہ كيا جائے گا_
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.