فلسفہء غیبت، ظہور و انتظام امام زمانہ (عج)

201

حضرت حجت (ع) كے ظہور سے متعلق ہمارے ذہنوں میں بہت سے تصورات و خیالات ایك افسانوی نوعیت پر مبنی ہیں ۔ غیبت حضرت حجت (ع) ایك ایسا مسئلہ ہے جو بظاہر قابل فہم نظر نہیں آتا یہی وجہ ہے كہ جب یہ موضوعات ہم دوسروں كے سامنے ركھتے ہیں تو دوسروں كو سمجھانے میں مشكل پیش آتی ہے جب كہ ہمیں چاہیئے كہ ہم اسلوب قرآنی اختیار كریں اور جس طرح حقیقت ہے اسی طرح پیش كریں ۔ اگر ہم تاریخ قرآن پر غور كریں تو دیكھیں گے كہ بعض ایسے حقائق جو لوگوں كے لئے اس وقت بھی ایك افسانوی حیثیت ركھتے تھے لیكن قرآن نے یہ موضوعات ایسے اسلوب اور ایسے انداز سے پیش كئے كہ بالآخر لوگوں كو تسلیم كرنے پڑے ۔
چونكہ اسلام دین فطرت ہے اس لئ جب اس كے مطالب كو فطرت كے مقابل ركھیں گے تو فطرت اور اسلام میں كوئی تضاد نہیں نظر آئے گا ۔ اگر ہم كسی موضوع كو غیر فطری انداز میں پیش كریں گے، نہ تو یہ عوام كی سمجھ میں آئے گا اور نہ ہی فطرت كے لئے قابل قبول ہوگا ۔ یہی وجہ ہے كہ غیبت و ظہور حضرت حجت (ع) سے متعلق بہت سے شكوك و شبہات نہ صرف مفكریں عالم بلكہ خود ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں ۔ اس كی وجہ یہ ہے كہ ہم نے ان موضوعات كو مجھنے كی كبھی كوشش ہی نہیں كی ۔
غیبت اور ظہور كا آپس میں گہرا ربط ہے ۔ غیبت كیا چیز ہے؟ عصر غیبت میں انتظار كیا ہے؟ جب یہ دوں گا ہماری سمجھ میں آجائیں گے تو پھر واضح ہوجائے گا كہ ظہور كیا چیز ہے؟ اور ظہور كے بعد كیا ہوگا؟ حضرت حجت (ع) سے متعلق ایك سوال جو ہمارے ذہنوں میں اكثر ہوجائے اٹھتا ہے كہ حضرت حجت (ع) تو پہلے سے موجود ہیں پھر ظہور كے كیا معنی؟ اس سمجھنے كے لئے لازمی ہے كہ ہم یہ جان لیں كہ كون غائب ہے، كون ظہور كرے گا اور ہم كس كا انتظار كررہے گا؟ ۔
اگر اس ذات سے معرفت ہوجائے تو ان ساری باتوں كی حیثیت خود ہی مشخص ہوكر سامنے آجائیگی ۔ مثلا اگر ہم كسی معلوم كا انتظار كررہے ہوں تو اس كا مطلب یہ نہیں كہ ہم خود تو نجی كاموں میں مشغول رہیں اور زبان سے معلم كا ذكر كرتے رہے رہیں ۔ بلكہ معلم كے انتظآر كا دمطلب یہ ہے كہ میں معلم كا ظہورر ہو تو بغیر كسی تاخیر كے وہ درس و تدریس كے عمل كو شروع كرسكے ۔ اس سے پہلے لازم ہے كہ طلباء معلم كی معرفت ركھتے ہوں كیونكہ اس كی معرفت كے بغیر كے لئے آداب كلاس بجالانا ناممكن ہوگا۔ حضرت حجت (ع) كے لئے خداوند تعالی نے جو منصب منتخب كیا ہے وہ امامت ہے ۔ چونكہ غیبت بھی امام (ع) كی ہے اور ظہور بھی امام (ع) كا ہی ہوگا اس سے اندازہ ہوتا ہے كہ غیبت اور ظہور جیسے مسائل كا امامت سے گہرا ربط ہے ۔ لہذا ضرورت اس بات كی ہے كہ پہلے ہم امام كو پہچانیں ۔
اصول كافی میں علامہ یعقوب كلینی نے ایك پورا باب معرفت امام كے عنوان سے مرتب كیا ہے ۔ جس میں ایك روایت كے مطابق حضرت امام جعفر صادق (ع) سے كسی شخص نے حضرت حجت (ع) كے بارے میں سوال كیا تو امام (ع) نے فرمایا كہ ,, فضیلت انتظار كو تم بھی درك كرسكتے ہو لیكن اس كی كچھ شرائط ہیں، ان میں سے ایك یہ ہے كہ تم اپنے امام كو پہچان لو اگر تم نے اپنے امام كو پہچان لیا تو وہ ظہور جو كئی سو سال بعد سے شروع ہوگا، تم اس میں ابھی سے شریك ہوسكتے ہو ۔٬٬ جو نسخہ امام (ع) نے بیان كیا وہ آج بھی كار آمد ہے اور اس كے پیچھے ایك بہت تلخ حقیقت كارفر ہے وہ یہ كہ جب ہم امام كہتے ہیں تو وہ منصب امامت كی بنا پر كہتے ہیں ۔ امامت نام ہے ایك نظام امامت دامت كہیں گے اور جب ایك نظام كی بات ہوگی تو اس كے تمام اركان كی بات ہوگی ورنہ ہم نہ تو اس نظام كے بارے میں كچھ سمجھ پائیں گے اور نہ ہی دوسروں كو سمجھاپائیں گے ۔ اگر ہم یہ فلسفہ نامكمل طور پر پیش كریں گے تو نامكمل ہی سمجھ میں آئے گا بلكہ مزید مشكلات اور پیچیدگیوں كا سبب بنے گا ۔ كیونكہ امامت اصول دین ہے اور اصول دین كی بنیاد ہیں ۔ جس فرد پر دین كے بنیادی عقائد ہی واضح نہ ہوں وہ بہت ساری مشكلات كا شكار ہوسكتا ہے ۔ جو حقیقت توحید كو نہ سمجھ سكے وہ بت پرستی اور شرك كی وادیوں میں جانكلے، جو حقیقت نبوت كو نہ سمجھے وہ نبوت كے جھوٹے دعویداروں كے پیرو كار شمار ہوئے ۔اور جن پر حقیقت آئمہ نہ كھل سكی وہ امامت كے منكر ہوگئے ۔ اور اگر امامت كے قائل ہوئے بھی تو ان لوگوں كے نزدیك امامت ایك افسانوی حیثیت سے زیادہ كچھ نہیں ۔ امامیہ كے نزدیك امامت ایك بہت بڑی حقیقت، عظیم فلسفے اور بہترین نظام كا نام ہے ۔ معصومین (ع) كی روایات كے مطابق خدا نے انسان كو جو نعمتیں عطا كی ہیں، ان نعمتوں كی تكمیل نظام امامت و ولایت ہی سے ہوتی ہے پس ضروری ہے كہ ہم پہلے اس نظام كو پوری طرح سمجھیں پھر ہم اس كے ذیل موضوعات كو سمجھنے كے قابل ہوسكیں گے ۔ اللہ تعالی نے معصومین (ع) كو منصب امامت عطا كیا تاكہ یہ نظام قائم ہوسكے ۔ ایك حصہ جو امام سے مربوط ہے وہ ہے ہدایت، اور دوسرا حصہ اس نظام امامت و امت برپا ہوگا ۔
امامیہ كے نزدیك امیرالمومنین علی (ع) نے نبی اكرم (ص) كے بعد منصب امامت سنبھالا جب كہ دوسرے (مسلك) اس بارے میں تاریخی یا اعتقادی لحاظ سے اختلاف ركھتے ہیں ۔ اطاعت امام ہو یا نہ ہو امام پھر بھی امام ہوتا ہے مگر نظام امامت برپا نہیں ہوسكتا ۔ جیسا كہ كوئی خدا كو مانے یا نہ مانے خدا تو خدا ہی ہے لیكن نظام توحید كے نفاذ كے لئے خدا كو كو ماننا پڑے گا ۔ اسی طرح امام ہر حالت میں امام ہے لیكن نظام امامت اس وقت تك رائج نہیں ہوسكتا ۔ جب تك كہ نظام امامت كو بڑھ كر قبول نہ كرلیا جائے ۔
واضح رہے كہ امت اور قوم میں فرق ہے ۔ امت بن كر زندہ رہنا ایك دیگر مطلب ہے جب كہ افراد، گروہ پارٹی، یا قبیلہ بن كر زندہ رہنا اور زندگی ہے جب كہ ہمارے اندر امت كی روح مری ہوئی ہے ہم محض ایك قوم بن كر جی رہے ہیں ہم نے مذہب كو بھی قوم بنالیا ہے ۔ شیعہ ایك مذہب كا نام ہے، ایك مسلك كا نام ہے ۔ قومیت نے نہ صرف ہمیں تباہ كردیا بلكہ اس كی عصبتیوں نے ہمارے لئے مسائل كھڑے كئے اور ہمیں حق سے دور كردیا ۔ صدر اسلام سے لے كر آج تك قومیت پرستی ہی ہماری راہ میں میں سب سے بڑی ركاوٹ ہے ۔ آج قومیت، لسانیت، انفرادیت اور علاقائیت جیسے تمام رنگ ہماری زندگی میں موجود ہیں مگر امت كی كوئی جھلك ہمارے اندر موجود نہیں ۔ جیسا كہ حضرت علی (ع) نے جمعہ كے خطبہ میں ارشاد فرمایا كہ: “ایھا الناس المجتمعۃ الابدانھم” ۔
ترجمہ: ۔ كہ تم وہ لوگ ہو جن كے بدن تو اكٹھے ہیں مگر دل ایك دوسرے سے جدا ہیں ۔ یعنی تم لوگ اجسام كا ایك مجموعہ تو ہو مگر امت نہیں ہو ۔ امت كے كچھ اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور جب تك ہم امت كے پلیٹ فارم پر نہیں آجاتے وہ نظام (نظام امامت و امت) جو خدا نے ہمارے لئے مقرركیا ہے رائج نہیں ہوسكتا ۔ اس نظام كا ایك حصہ كٹا ہوا ہے یعنی امام تو موجود ہیں مگر امت نہیں ہے ۔
رسول اللہ (ص) كے عہد میں یہ دونوں حصے مكمل تھے ۔ نبی اكرم (ص) امام كی حیثیت سے موجود تھے اور باقی امت بن كر ۔ وہ لوگ صرف مجتمعۃ الابندان نہیں تھے بلكہ مجتمعۃ القلوب، مجتمعۃ الصلوا ۃ، مجتمعۃ المقاصد، مجتمعۃ الطریق، مجتمعۃ السلوك، مجتمعۃ الفكر اور مجتمعۃ النظر، بھی تھے ان لوگوں كا ہر چیز پر اجماع تھا ۔ جو بات رسول اللہ كہہ دیتے تھے وہ لوگ بڑھ كر قبول بھی كرتے تھے ۔ لیكن یہ نظام نبی كریم (ص) كے بعد بحران كا شكار ہوا ۔ رسول اللہ (ص) نے اپنی رحلت كے وقت امت بھی دی اور امت كو امام بھی دیا مگر ایك امام كے بعد جب دوسرے امام (نبی كریم (ص) كے بعد جب حضرت علی (ع) ) كی باری آئی تو امت كو سمجھنے میں مشكل پیش آئی یعنی امت كا شعور ہی اتنا تھا كہ وہ لوگ سمجھ نہ سكے اور اس نظام كا ایك حصہ كٹ گیا ۔ امام تو موجود تھے مگر، امامت سے دورہوتی چلی گئی ۔ جن اقوام كو نبی كریم (ص) نے اپنی ۲۳ سالہ تبلیغ كے بعد امت بنایا تھا وہ آپ كی رحلت كے بعد امامت كا دامن چھوڑ كر ایك بار پھر زمانہ جاہلیت كی طرف واپس پلٹ گئے ۔ ایك بار پھر وہ لوگ مكی ۔ مدنی، عربی عجمی، قریشی، ہاشمی، بنو قریظہ، بنو امیہ اور بہت ساری اقوام میں تقسیم ہوگئے اور ان لوگوں میں وہی عصبیتیں وہی قومبتیں واپس پلٹ آئیں ۔ یہی وہ پہلا بحران تھا جو نظام امامت و امت كے درمیان رخنہ بن كر وارد ہوا ۔ رسول اللہ (ص) كی رحلت كے بعد امت اپنے امام سے ۲۵ سال تك دور رہی اور اس ۲۵ سال كی دوری نے امت كو اپنے امام سے اس قدر دور كر دیا كہ آج تك امام تو موجود ہیں مگر امت اپنے پلیٹ فارم پر واپس نہیں آسكی ۔ نظام امامت و امت ہر فرد كی ضرورت ہے ۔ دنیا كی تمام چیزوں سے یہ نظام ضروری ہے كیونكہ اگر انسان كو ہوا، كھانا، پانی دیگر ضروریات ہے ۔ دنیا كی تمام چیزوں سے یہ نظام زیادہ ضروری ہے كیونكہ اگر انسان كو ہوا، كھانا، پانی دیگر ضروریات زندگی نہ ملیں تو انسان زیادہ سے زیادہ تزكیہ نفس میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ مگر آخرت تباہ نہیں ہوتی جبكہ نظام امامت و امت نہ ہو تو دنیا بھی تباہ اور آخرت بھی تباہ ہوجاتی ہے ۔
اب اس تناظر میں دیكھیں كہ امت نے اپنے امام علی (ع) سے فاصلہ لینا شروع كردیا اور اتنی دوری پر چلی گئی كہ جب امام علی (ع) دوبارہ اس نظام كو رائج كرنے كے قابل ہوئے (یعنی اقتدار ملنے كے بعد) اور امت پشیمان ہوئی اور امت كے اندر احساس بیدار ہوا كہ ہم غلط ڈگر پر چل رہے تھے تو لوگ جمع ہو كر امام عالی مقام كے پاس آئے كہ آپ ہماری اصلاح فرمائیں ۔ لیكن جو امت امام (ع) كے پاس آئی تو یہ وہ امت نہیں تھی جس كو نبی كریم (ص) رحلت كے وقت چھوڑ گئے تھے كہ حضرت علی (ع) خود فرماتے ہیں كہ: «آج جو تم لوگ آئے ہو میرے پیچھے (مقتدی بن كر) تو تمہاری حالت وہ نہیں جس پر رسول اللہ (ص) رحلت كے وقت تمہیں چھوڑ گئے تھے بلكہ آج تمہاری حالت وہ نہیں جس پر رسول اللہ (ص) رحلت كے وقت نہیں چھوڑ گئے تھے بلكہ آج تمہاری حالت وہ ہے جب نبی كریم (ص) كی بعثت ہوئی تھی ۔ تم اتنا پیچھے چلے گئے ہو كہ رسول اللہ (ص) كی بعثت اور رحلت میں ۲۳ سال كا عرصہ گزرا اس ۲۳ سال كے عرصہ میں نبی كریم (ص) نے تمہیں جس مقام تك پہنچایا آج تم وہاں نہیں ہو بلكہ تم آج اس مقام پر ہو جب نبی كریم (ص) كو مبعوث كیا گیا تھا یعنی وہی عصر جاہلیت میں تم موجود ہو، تم ایك بار پھر سے قوم بن گئے ہو تم حزب، جماعت، پارٹی اور قبیلہ بن گئے ہو تمہارے اندر سے امت كی روح نكل گئی ہے ۔ لہذا اب ضرورت اس امر كی ہے كہ تم میری امامت میں آؤ اور میں تمہیں امت بناؤں تاكہ پھر سے نظام امامت و امت رائج ہوسكے» ۔
اسلام كے اوائل میں یہ ایك بہت بڑا المیہ تھا اور اسی المیہ كے ثمرات آج بھی امام كے ماننے والوں اور منكرین امام دونوں میں موجود ہیں ۔ اسی المیہ كا نتیجہ ہے كہ ہم روح نظام سے دور ہیں، روح امامت كو چھوڑ دیا ہے اور ہم سمجھ نہیں سكے كہ حقیقت كیا ہے لہذا جب ہم دوسروں كے سامنے اس نظام كو پیش كرتے ہیں تو وہ بھی اس كو قبول نہیں كرتے ۔حضرت علی (ع) نے اپنے چند رسالہ دور حكومت میں جب اس نظام كو رائج كرنے كی كوشش كی تو امت اپنے امام سے اس قدر دور ہوچكی تھی كہ علی (ع) جو رسول كریم (ص) كی معیت (ساتھ) میں تھے تو تمام جنگیں كفار و مشركین كے خلاف لڑیں ۔ اور جب اپنا عہد حكومت آیا تو علی (ع) نے تمام جنگیں اپنی امت كے خلاف لڑیں ایك موقع بھی ایسا نہیں آیا كہ جس میں امام بیرونی محاظ پر جنگ كرتے كفار وامت كے خلاف لڑتے ۔ كفار كو مسلمان كرتے ۔ بلكہ كبھی قاسطین، كبھی ناكثین، كبھی ماركین، كبھی جمل، كبھی نہروان اور كبھی سفین جیسے معركہ سرانجام دینا پڑے آخر ایسا كیوں ہوا؟ اس لئے كہ امت اور امامت كی دوری كو ختم كیا جائے اور امت كے ٹوٹے ہوئے حصوں كو دوبارہ جوڑ كر نظآم امامت و امت رائج كیا جائے وہ دین، وہ نظام جو مورد رضائے خدا ہے ۔ وہ دین جو خدا كا سپندیدہ ترین دی ہے وہ نظام جو خدا كا قائم كردہ ہے نافذ كیا جاسكے مگر امت اب اتنے فاصلے پر جا چكی تھی كہ اب علی (ع) نے جتنی كوشش كی امت كو جمع كرنے كی وہ اور زیادہ دور ہوتی گئی ۔ امیرالمومنین علی (ع) نے حضرت نوح كے سارے الفاظ دوہرائے حضرت نوح (ع) نے فرمایا كہ۔
“رب انی دعوت قومی لیلا و نھارا فلم یزدھم دعائی الا فرارا” (نوح ۔ ۵تا ۶)
ترجمہ: میں نے ان كو دن میں پكارا، رات میں پكارا، صبح میں، شام میں، بحر میں، بر میں، ہرطرح سے بلایا محبت سے، پیارے، ڈانٹ كر ڈپٹ كر مگر جتنا ان كو بلایا یہ اتنا ہی مجھ سے دور ہوتے چلے گئے ۔
اور یہی حالت حضرت علی (ع) كی بھی ہوگئی جو حضرت نوح (ع) كی تھی ۔ نظام امامت وامت میں سے دوسرا ركن (امت) ہوگیا اور اس قدرمتزلزل ہوا كہ اپنے مقام پر دوبارہ واپس نہیں آسكا اور باوجود كوشش كے نظام امام وامت نافذ نہ ہوسكا حتی كہ حضرت علی (ع) كی شہادت ہوئی امامت كے عہدہ پر امام حسن (ع) فائز ہوئے اب منصب دار امامت ہونے كے ناطے اس نظام كو امام حسن (ع) نے رائج كیا ہے ۔ امام حسن (ع) نے اس نظام كو نافذ كرنے كا اہتمام كیا لیكن امت ذہنی، عملی، اور فكری طور پر اس قدر دور جاچكی تھی كہ اب اس امت كے ذریعے اس نظام كا رائج كرنا ممكن نہ رہا ۔ لہذا حضرت امام حسن (ع) نے كتنے جتن كئے اس نظام كے نفاذ كے لئے لشكر كی تشكیل، لوگوں كو جنگ كے لئے آمادہ كرنا مگر امام ان لوگوں سے اتنے مایوس ہوگئے كہ امام یقین ہوگیا كہ ان لوگوں كہ جنگ كے لئے آمادہ كرنا مگر امام ان لوگوں سے اتنے مایوس ہوگئے كہ امام كو یقین ہوگیا كہ ان لوگوں كے ذریعے نظآم امامت وامت كا نفاذ ناممكن ہوگیا ہے ۔ تو امام (ع) نے صلح نامے پر دستخط كردیئے یعنی امام خلافت سے دست بردار ہوگئے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ امام (ع) دستبردار كیوں ہوئے؟ اس كی وجہ یہ نہیں تھی كہ امام (ع) طاقت نہیں ركھتے تھےبلكہ یہ تھی كہ نظام كا نفاذ كے ركن كے ذریعے نا ممكن تھا نظام كے نفاذ كے لئے اس كے سارے اركان كا ہونا لازمی ہے اكیلا امام نظام نافذ نہیں كرسكتا ۔ لہذا امام حسن (ع) كے زمانے میں دوسرا ركن اتنا دور ہوا كہ امام كو دستبردار ہونا پڑا كہ ان لوگوں كے ذریعے اس نظام كا نفاذ ناممكن ہے ۔ سب نے دیكھا تاریخ نے گواہی دی كہ نظام نافذ نہیں ہوسكا ۔
پھر امام حسین (ع) نے دوبارہ اس امت فاسد، امت خفتہ، امت غافل، امت خوابیدہ، امت گمراہ اور امت فاسق كی اصلاح كی كوشش كی جیسا كہ امام حسین (ع) اپنے خطبے میں اظہار فرماتے ہیں كہ: «میں كوئی ظالم اور مفسد نہیں بلكہ میں تو اپنی جد كی امت كی اصلاح كے لئے نكلا ہوں» ۔ یعنی امت فاسد ہوچكی ہے ۔ امت میں فساد نہیں بلكہ میں تو اپنی جد كی امت كی اصلاح كے لئے نكلا ہوں ۔ یعنی امت فاسد ہوچكی ہے ۔ امت میں فساد كیا تھا؟ شرابیت تھی، كبابی تھی معاذ اللہ؟ پوری امت شراب و كباب میں مشغول نہیں تھی سواء یزید لعن اور چند حكمرانوں كے ۔ لیكن امام نے فرمایا كہ ساری امت تباہ ہے ۔ ساری امت فاسد ہے اصلاح صرف یزید كو نہیں بلكہ پوری امت كو اصلاح كی ضرورت ہے ۔ امت میں وہی فساد تھا جو رسول اللہ (ص) كی رحلت كے بعد شروع ہوا اور بتدریج بڑھتا گیا ۔ امام حسن (ع) كے زمانے میں یہ فساد اپنے عروج كو پہنچا حتی كہ امام (ع) دستبردار ہوگئے ۔ یہ امت اس قدر دین سے لاتعلق ہوچكی تھی، اس قدر غرق تھے یہ لوگ اپنی خانوادی، سماجی، معاشرتی اور تجارتی زندگیوں میں كہ یزید جیسا حكمران برسر اقتدار آیا تو ان كے كانوں پر جوں تك نہ رینگی۔
افراد كا فساد اور چیز ہوتی ہے اور امتوں كا فاسد ہونا اور بات ہے جب امتیں فاسد ہوجائیں تو سب سے پہلے علامت اس امت پر یہ ظاہر ہوتی ہے كہ ان پر فاسد حكمران مسلط كردیئے جاتے ہیں ۔ اور یہ فساد امام حسین (ع) برداشت نہیں كرسكے اور اس امت خفیہ كو دو بارہ امت بنانے كو كوشش كی ۔ قبیلوں كو پھر امت كے زیر پرچم لانے كی كوشش كی ۔ امتیں تحریروں، تقریروں، لیكچروں، پمفلٹوں، كتابوں سے بیدار نہیں ہوتیں ۔ ان چیزوں سے اور زیادہ سوجاتی ہیں ۔ كسی امت كو سلانا ہو تو باتیں شروع كردیں قصے، كہانیں، سنانا شروع كردیں تاكہ امت غافل سے غافل تر ہوجائے ۔ امتیں ان چیزوں سے بیدار نہیں ہوتی ہیں امتیں جب بے شعور، غافل، اور مدہوش ہوجائیں تو وہ اپنے امام كا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں اپنے امام كو تنہا كردیتی ہیں اس پختہ، بے شعور، غافل اور مدہوش امت كو كون جگائے؟ كیسے بیدار ہوگی؟ ابھی عصر حاضر كی مثال ہمارے سامنے ہے كہ امام خیمینی (رح) نے امت كو بیدار كیا؟ امتیں كیسے بیدار ہوتی ہیں؟ امتیں جہاد سے بیدار ہوتی ہیں، امتیں خون سے بیدار كیا ۔ كیسے بیدار كرنے كے لئے جہاد كا رستہ اپنایا ۔ اس كےبعد دیكھیں امام زین العابدین (ع) تنہا امام، امت نے ساتھ نہیں دیا ۔ امام باقر (ع) امام ہیں مگر امت نے ساتھ نہیں دیا ۔ یہ كیسے ہوسكتا ہے كہ امام ہوں، نظام ہو، امت بھی ہو، اور امام ۱۴ سال تك جیل میں گزار دیں امام موسی كاظم (ع) اپنی زندگی كے ۱۴ سال قید و بند كے صعوبتیں برداشت كریں اور امت كے كانوں پر جوں تك نہ رینگے اور وہ آئمہ جو جیل میں نہیں تھے ان كی زندگی بھی جیل سے كم تر نہیں تھی ۔ یہ بیڑیاں جو امام كاظم (ع) كے بدن مبارك پر لگائی گئیں تھیں یہ سارے آئمہ كو برداشت كرنا پڑیں ۔ امام رضا (ع) كو خلافت كی جانشینی كا منصب سونپا گیا مگر اس كے باوجود امام پر ہونے والے مظالم اپنے والد بزرگوار سے كسی طرح بھی كم نہ تھے ۔ امام رضا (ع) بھی امام بلا امت تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو امام مدینہ سے روانگی كے وقت گریہ نہ كرتے اپنے اہل خانہ كو یہ نہ كہتے كہ: «میں خلیفہ بننے نہیں جارہا درحقیقت مجھے اپنے امت كے سامنے تماشہ بنایا جارہا ہے یہ مجھے بلاكر امت لاتعلق، امت بے تفاوت، امت خاموش كے سامنے رسوا كریں گے ۔ یہ میری تنہائی اور مظلومیت سے فائدہ اٹھانے كی كوشش كی جارہی ہے ۔ اگر امت میرا فرمان مانتی تو ان لوگوں كی كیا جرات تھی كہ یہ مجھے اس طرح بلاتے؟ »ی
ہ امتیں ہی جو اپنے آئمہ كو تہنا چھوڑ كر مظلوم بنا دیتی ہیں ۔ كیوں اسیران كربلا اس طرح گلی و كوچہ و بازار میں پھرائے گئے ۔ اس كے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جن لوگوں نے یہ سب كیا مگر اصلی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہیں ۔ جنھوں نے ان ظالموں كو موقع دیا ۔ اپنے پیغمبر (ص) گویہ امت كیا منہ دكھائی گی؟ كہ جس كے ہوتے ہوئے علی (ع) و نبی (ص) كی بیٹیاں اسیر ہوكر بازاروں میں پھرائی گئیں ۔
امام ہو اور امت ساتھ نہ دے تو یہ نظام رائج نہیں ہوسكتا اور نہ ہی امام كی عدم موجودگی میں نظام امامت و امت برپا ہوسكتا ہے ۔ امام علی (ع)، امام حسن (ع)، امام حسین (ع) موجود تھے مگر امت نہیں تھی اور نظام امامت و امت برپا نہیں ہوسكا ۔ جس مختصر سے زمانے میں امام علی (ع) نے كوشش كی تھی اس نظام كو نافذ كرنے كی تو حضرت (ع) اس امت سے بہت نالاں ہوئے ۔ نھج البلاغہ میں امام كے خطبے ملاحظہ فرمائیں تو امام نے اتنی سرزنش و ملامت ان لوگوں كو كی اتنی دشمنی كو بھی نہیں كی ۔ پھر آخر تك تمام آئمہ كے حالات ہمارے سامنے ہیں ۔ امام موجود رہے امام نے اپنی ذمہ داریوں كو نبھایا مگر امت نے اپنی ذمہ داری قبول نہیں كی لہذا نظام نافذ نہیں ہوا ۔
ہم جو یہ كہتے ہیں كہ العجل یا امام (ع) اور اگر امام (ع) آجاتے ہیں تو پھر یہ ہماری ذمہ داری بن جائیگی كہ بڑھ كر اس نظام كو قبول كریں ۔ اس كے زیر سایہ جانا پڑے گا ۔ نظام امامت ایسے برپا نہیں ہوتا جب تك امت اس میں شامل نہ ہوجائے، اپنی ذمہ داریوں كو پورا نہ كرے ۔ یعنی خدائے بزرگ نے اس نظام كے دو حصے بنا كر ایك كی ذمہ داری امام كے كاندھوں پر ڈال دی اور دوسرے آدھے حصے كی ذمہ داری امت كی گردن میں ڈال دی وہ ہے اطاعت ۔ پس ہر زمانے كے امام نے اپنی ذمہ داری (ہدایت) كو بطریق احسن سرانجام دیا مگر امت نے اطاعت نہیں كی ۔ امت اپنی ذمہ داری كو بڑھ كر قبول نہیں كیا ۔ لمحہ فكر یہ ہے كہ خدانے آئمہ بھیجے ہم نے انھیں تنہا چھوڑا اور امت نہیں بن سكے تو خدا نے یہ شرط عائد كردی كہ اب جب تك تم امت نہیں بن جاتے، اپنے آپ كو اس قابل نہیں بنالیتے كہ اپنی اطاعت كی ذمہ داری كو پورا كرسكو تب تك ہم امام كو ظاہر نہیں كریں گے ۔
جب كہ امام موجود ہیں ۔ اور اگر امام تمہاری دسترس میں بھی ہوں تو تم زیادہ سے زیادہ یہی كروگے كہ اپنا مریض بچہ لے آؤ گے كہ اس پر ہاتھ ركھ دیں اس كو شفا ہوجائیگی ۔ زیادہ سے زیادہ تم اپنے امام سے طبیب والا، معالج و الاكام لوگے ۔ لیكن ہرگز بڑھ كر یہ نہیں كہو گے كے یا امام (ع) ہمیں حكم دیں ہم جہاد كے لئے تیار ہیں ۔ حضرت علی (ع) نے اپنے امت كو صبح میں بلایا، شام میں بلایا، دن میں بلایا، رات میں بلایا مگر امت ٹس سے مس نہ ہوئی ۔ جب ۱۱ آئمہ كا امت نے ساتھ نہیں دیا تو كیا كیا ضمانت ہے كہ بارہویں كا ساتھ دوگے ۔ كیا یہ تجربہ كافی نہیں نظام امامت و امت برپا كرنے كے لئے كہ امام تو كامل ہے مگر دوسرا ركن كامل نہیں ہے ۔ لہذا انتظار كیا جائے ۔ كس بات كا انتظار؟ اس بات كا انتظار كہ ہم امت بن جائیں ۔، نہ كہ اس بات كا انتظار كہ امام بن جائیں وہ تو امام كامل ہیں ۔ وہ تو آمادہ ہیں ۔ وہ تو منتظر ہیں ہمارے امت بن جانے كے ۔ ظہور امام زمانہ (ع) كی روایات كے مطالعہ سے بہت سارلے مطلب بالكل واضح ہوجاتا ہے كہ ظہور كے بعد امام نظام امامت و امت كا نفاذ كریں گے ۔ كس طرح كریں گے ۔؟ معجزہ كے ذریعے سے؟ نہیں اپنی جد كی طرح ہم لوگوں كے ذریعے جہاد كریں گے ۔ جنگ كریں گے لیكن اگر اگر ہم ان كو بھی تنہاچھوڑ دیں گے امام علی (ع) اور امام حسن (ع) كی طرح، وہ بھی اگر اس زمانے میں ظہور فرمائیں تو وہ بھی تنہا ہو كر امام حسن (ع) كی طرح مجبور ہوجائیں گے آج كے معاویہ (امریكہ) كے ساتھ صلح كرنے پر ۔ جس طرح كہ امام خـمینی (رح) نے كیا كہ دشمنوں كے ساتھ جہاد كیا ایك طویل عرصے تك جنگ كی مگر امام خمینی (رح) كو بھی عالم اسلام نے اس طرح تنہا چھوڑا كہ آخر كار دشمنان اسلام سے صلح كرنے پر مجبور ہوگئے ۔ اقوام متحدہ كی قرار دادیں منظور كرنا پڑیں ۔ كیا یہ ثابت كرنے كے لئے یہ مثال كافی نہیں ہے كہ ہم ابھی ظہور امام (ع) كے قابل نہیں ہوئے ۔ ورنہ اگر عالم اسلام امام خمینی (رح) كا ساتھ دیتا تو انھیں كیوں مجھرا صلح كرنی پڑی؟ كیوں مجبورا قراردادیں تسلیم كرتے؟ كیوں زہر كا جام نوش فرماتے؟ فقط یہ كہہ دینا كافی نہیں ہے كہ امام (ع) كا ہونا ضروری ہے بلكہ خود كو امام (ع) كی اطاعت كے لئے تیار كرنا پڑے گا ۔ اس نظام كے زیر سایہ آنا پڑے گا ۔ پس یہاں سے فلسفہ غیبت امام واضح ہوگیا كہ امام كیوں غائب ہوئے؟ بس خدا كی مصلحت یہی تھی كہ غیر آمادہ امت كا امام بہتر ہے كہ منظر عام پر نہ ہو ۔
ہمارے استاد محترم آغا جوادی آملی مدظلہ فرماتے تھے كہ «ہمیں بہت محبت ہے امام غائب سے مگر ہم امام حاضر سے ڈرتے ہیں ! اس لئے كہ جب امام حاضر ہوں گے تو ہماری یہ آسائش ختم ہوجائیں گی ۔ » ہم زبان سے تو كہتے ہیں یا امام عجل علی ظہورك مگر دل میں یہ كہتے ہیں كہ اچھا ہے غائب ہی رہیں آگئے تو ہمیں مشكل میں ڈال دیں گے ۔ جیسے امام علی (ع) امام حاضر تھے تو امت كو بھی حاضر كردیا ۔ امام حسین (ع) حاضر تھے تو امت كو بھی حاضر ركھا اس لئے ہمیں تو یہیں پسند ہے كہ امام نہ آئیں ۔ جیسے خدائے غائب سے بہت محبت ہے اس خدا سے جو آسمانوں كے بیچ بہت دور كہیں ہے ۔ جو ہمارے ہر عمل پر حاضر نہ ہو جب تك ہم گڑ گڑ ائیں نہیں، شور نہ مچائیں تو اس كے كانوں تك معاذ اللہ آواز ہی نہیں جاتی ۔
امام خمینی (رح) نے فرمایا كہ «این عالم محضر خدا اسے»٬ یہ دنیا خدا كی بارگاہ ہے جس نے اس دنیا كو خدا كی بارگاہ جان لیا اس كا خدا حاضر ہے ۔ لہذا منتظر حقیقی وہ ہے كہ جو فلسفہ غیب، فلسفہ نظام امامت و امت كو سمجھ گیا ۔ جس كو غیبت كی وجہ سے معلوم ہوگئی كہ امام كیوں غیب ہیں؟ چونكہ امام بلا امت ہیں اس لئے ۔ انتظار یعنی كہ امت بننا ہے ۔ انتظار نام ہے كچھ كرنے كا ۔ امت بنو اور حقیقت انتظار كو سمجھ جاؤ، حقیقت امام كو سمجھ جاؤ، حقیقت امام كو سمجھ جاؤ تو ایسا ہی ہے كہ جیسے عصر ظہور میں ہو ۔ اگر امام حاضر ہوتے تو كیا كرتے؟ اگر امام حسین (ع) كے زمانے میں ہوتے تو ہم كیا كرتے؟ یقینا جہاد كرتے ۔ امام كے فرمان پر جنگ كرتے ۔ شہید ہوجاتے اگر آج بھی یہی كام كررہے ہو تو سمجھ لو كہ عصر ظہور میں ہو۔ امام كے ہونے نہ ہونے سے تمہیں كوئی فرق نہیں پڑتا فرق ہمارے ہونے نہ ہونے سے پڑتا ہے مثلا ! امام علی (ع) موجود تھے، ہم موجود نہیں تھے امام حسن موجود تھے اور ہم نہیں تھے ۔ تو كیا ہوا كچھ بھی نہیں ہوسكا امام حسین (ع) موجود تھے امت نہیں تھی تو كیا ہوا سب نے دیكھ لیا ۔ یہ۱۱ آئمہ پے درپے موجود تھے اور امت نہیں تھی اس لئے نظام نافذ نہیں ہو سكا ۔ اگر یہ بارہویں امام بھی امت كے بغیر ظاہر ہوجائیں تو كچھ بھی نہیں ہوگا پس انتظار درحقیقت امت كی آمادگی كا نام ہے، جیسا كہ امام صادق (ع) نے فرمیا كہ اگر تم نے اپنے امام كو پہچان لیا تو تم منتظر حقیقی ہو ۔ ایسی ہی ہے جیسے تم نے اپنے امام كا ساتھ دیا، امام كی اطاعت كی تو گویا تم حضرت حجت (ع) كی فوج میں ہو، امام زمانہ (ع) كے مركزی خیمہ میں ہو ۔
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں كہ «اگر تم چاہتے ہو كہ ظہور میں تعجیل ہو تم آگے بڑھو نہ كہ اپنے امام كو كہو كہ آپ (ع) آگے آئیے» جیسے ہم كہتے ہیں كہ عجل علی ظہورك، العجل العجل العجل، یعنی كہ اے امام آئیے، آئیے، ایئے جیسے كوفے والے امام حسین (ع) كو كہتے تھے كہ آپ آگے بڑھیئے خود ساتھ نہیں آئے تو بات ذہن نشین ركھیں كہ اپنے امام كو آگے كرنے والی قوتیں ہمیشہ اپنے امام كو تنہا چھوڑ دیتی ہیں، لیكن جو اپنے امام كو كہیں كہ ہم پہلے آپ بعد میں ۔ جیسے امام علی (ع) نے ہمیشہ رسول اللہ (ص) آپ تشریف ركھیں ہم پہلے جنگ میں جائیں گے ۔ ہم نہیں ہونگے تو پھر آپ جائیے گا ۔ جب تك ہم خود كو امام علی (ع) كی طرح امام زمانہ (عج) كے سامنے پیش نہیں كردیتے كہ اے امام ہم آپ كی اطاعت كے لئے تیار ہیں تو قیامت تك ہم ایك امت نہیں بن سكتے ۔
وہ عظیم لوگ جنھیں امام خمینی (رح) نے تیاركیا كس طرح انھوں نے جنگ كی، كس طرح قربانیاں پیش كیں، كس طرح آگے بڑھ كر پرچم اسلام كو سربلند كیا ۔ پس كچھ فرق ہونا چاہیئے ان لوگوں میں جو منكرین امامت ہیں اور ان میں جنھوں نے امامت كو تسلیم كرلیا ہو۔ امام خمینی (رح) بارہا كہتے رہے ہیں كہ «اسلام گمشدہ اسے»٬ اٹھو اور آگے بڑھ كر اسلام كو تلاس كرو ۔ انہی مدرسہ والوں كو كہتے تھے، جہاں دین پڑھا اور پڑھایا جاتا تھا كہ دین گم ہوگیا ہے اسے ڈھونڈوتا كہ كوئی آئے اور ہمیں اصل اسلام سے روشناس كرائے ۔ مگر ہماری بدقسمتی كہ ہم حاسد ترین ماحول میں رہتے ہوئے بھی خوش ہیں، گندے ترین ماحول میں تمام تر آلودگیوں كے ساتھ بھی خوش ہیں ہماری مثال سرطان كے اس مریض كے جیسی ہے جو ہلاكت كے قریب پہنچ گیا ہے مگر پھر بھی خوش ہے ۔ آج اگر امام (ع) آجائیں تو كیا ہم اس قابل ہیں كہ اس حالت میں ہم امام (ع) كے سامنے حاضر ہوسكیں؟ كیا ہم امام (ع) كو منہ دكھانے كے قابل ہیں؟ كیا ہمارے اعمال ایسے ہیں كہ امام (ع) ہمیں قبول كر لیں؟ ۔
اوائل صدر اسلام والے لوگ ہماری نسبت بہت اچھے تھے ان كو یہ آسائشیں نہ تھیں پھر بھی ان كو امت بننے میں مشكلات درپیش آئیں ۔ آج آپ جس سرزمین پر موجود ہیں كیا اے ۔ سی والے كمروں سے نكل كر ہم امام (ع) كا ساتھ دے سكیں گے كیا ہم اپنی موجودہ آسائشوں كو ترك كركے امام (ع) كو اس سرزمین پر خوش آمدید كہہ سكیں گے؟ ۔ جب كہ اوائل صدر اسلام كے لوگ اسی گرمی میں رہتے تھے ان كے پاس یہ آسائشیں نہ تھیں ۔ یعنی اگر وہ لوگ اس سر زمین پر امام كا ساتھ دیتے تو ہماری نسبت ان كے لئے زیادہ آسان تھا ۔ چونكہ آج ہم تو وسائل كا شكار ہوچكے ہیں ۔ ابھی ابھی تو گھر بنایا ہے، ابھی تو بچوں كی شادیاں كرنی ہیں، یہ بنگلہ، یہ گاڑی ابھی تو ہم نے خوشیاں نہیں دیكھی ہیں یہ سارے جواب ہم نے امام زمانہ (ع) كے لئے تیار كر ركھے ہیں ۔ اور ہمارے جواب امام نے سن بھی لئے ہیں ۔ كہا كہ اچھا تم ابھی شادیوں میں مشغول ہو، تم ابھی فارغ نہیں ہو ۔ تم گھر بناتے رہو، نوكریاں كرتے رہو، بزنس كرتے رہو جس دن احساس ہوا كہ تم امام كے منتظر حقیقی ہو تمہیں امام كی ضرورت ہے اس دن میں آجاؤں گا ۔
فقط ہم امام (ع) كے منتظر نہیں ہیں بلكہ امام (ع) بھی ہمارے امت بننے كے منتظر ہیں ۔ واضح ہوگیا كہ غیبت كیوں ہوئی؟ انتظار كیا ہے؟ ساری كڑیاں مل جاتی ہیں بس ہمیں ہٹ دھرمی ترك كركے حقائق كو سچے دل كے ساتھ قبول كرنا ہوگا اپنے تخیلاتی قصے كہانیوں سے نكلنا ہوگا ۔ جیسا كہ روایات میں ہے كہ جب امام ظہور كریں گے تو ہم ان كو بھی كہیں گے كہ یہ جو دین آپ نے پیش كیا ہے یہ تو ہم نے سناہی نہیں تھا ۔ ہمیں كسی نے بتایا ہی نہیں تھا تو امام (ع) پوچھیں گے كہ كن سے نہیں سنا تھا كس نے نہیں بتایا تھا ۔ ہم كہ دیں گے كہ ان ذاكروں اور ان خطیبوں سے نہیں سنا تھا ۔ یہ تو بالكل ایسا ہی ہے جیسے كوئی فٹبال كے كھلاڑی سے دین كے بارے میں پوچھے تو وہ كہہ دے كہ مجھے تو اپنے كو چ نے كچھ نہیں بتایاتھا ۔ ہم نے ساری زندگی تو آرٹسٹوں، شاعروں ادیبوں میں گزاردی ہے ۔ اور ان لوگوں سے ہمیں دین حقیقی كہاں مل سكتا ہے ۔ دین معلوم ہوتا ہے علماء سے، دین مل سكتا ہے فقہا سے امام خمینی (رح)، رہبر انقلاب اسلامی جیسے لوگوں سے جن سے ہم نے كبھی رجوع كرنے كی زحمت ہی نہیں كی ہم اپنے بچوں كو بھیج سكتے ہیں یا دینی تعلیم كے لئے بھی مدرس مہیا كرسكتے ہیں ۔ اگر چہ اس مسئلہ پر ہم كچھ زیادہ بیان نہیں كرسكے مگر بنیاد ضرور فراہم كردی ہے، یہاں سے انسان اپنی راہیں متعین كرلیتا ہے كہ ہمیں كرنا كیا ہے؟ اگر یہ نكتہ انسان اپنے دل میں بٹھالے تو پھر آرام سے نہیں بیٹھ سكتا اگر یہ بنیادی نكتہ ہماری سمجھ میں آگیا تو ساری روایتیں ساری چیزیں سمجھ میں آجاتی ہیں ۔
انتظار كا مطلب ہے امت كا تیار ہونا ۔ تیاری مختلف ہے كچھ لوگ یہ كہیں گے كہ ہمارے پاس تو كچھ ہے ہی نہیں ہم كیا تیاری كریں؟ تیاری كے لئے كئی ملین ہونا ضروری نہیں بلكہ تیاری سے مراد كم ازكم تیاری ہے یعنی اپنی حیثیت كے مطابق جس كی جتنی زیادہ استعطاعت ہے وہ اس كے مطابق تیاری كرے اور جب خود تیار ہوجائے اور اس كے پاس گنجائش ہو تو دوسروں كو بھی تیار كرے ۔ بہرحال یہ كم از كم تیاری ہے ۔ جیسے روزے كے بارے میں ہے كہ افطار كرواؤ ۔ كم از كم ایك كھجور كے ذریعے؟ یعنی اگر كوئی فقیر ہے تو بھی كراسكتا ہے ۔ اور جس كی جتنی استطاعت ہو وہ اتنا ہی زیادہ سے زیادہ اہتمام كرے ۔جب كہ ہماری حالت یہ ہے كہ جہاں ہمارا مفاد ہو وہاں ہم كم از كم كو زیادہ سے زیادہ سمجھ لیتے ہیں اور جہاں ہمارا نفع نہ ہو وہاں ہم زیادہ سے زہادہ كو بھی كم از كم سمجھتے ہیں یہ المیہ ہے ہمارا ۔
پس اگر امام عالی مقام (ع) كے ظہور میں تاخیر ہے تو وہ ہماری تیاری نہ ہونے كی وجہ سے ہے ۔ اس لئے نہیں كہ امام (ع) كی طرف سے تاخیر ہے جس دن ہم حقیقی امت بن جائیں گے امام ظہور (ع) میں ایك لحظہ بھی تاخیر نہیں كرینگے ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.