چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپیرکے مسح کرنے کاراز
جبکہ یہ انسان کے بدن کے نظیف اورپاکیزہ ترین اعضا ہیں؟آنحضرت نے ان سے فرمایا:لمّااَن وَسوَسَ الشَّیطَان اِلٰی آدَم علیہ السلام دَنامِنَ الشَّجرةِ فَنَظَرَاِلَیْہَا فَذَ ہَبَ ماء وَجہِہِ ،ثمّ قام ومشی الیہاوہی اوّل قدم مشت الی الخطیئة ثمّ ت ناول بیدہ منہامماعلیہاواَکل فطارالحلی والحل عن جسدہ فوضع آدم یدہ علی راسہ وبکی فلمّاتاب الله عزّوجل فرض الله علیہ وذریتہ تطہیرہذہ الجوارح الاربع فاَمرالله تعالی لغسل الوجہ لمّانظرالی الشجرة ،واَمرہ بغسل الیدین الی المرفقین لمّات نامنہا،واَمرہ بمسح الراس لمّاوضع یدہ علی ام راسہ ،واَمرہ بمسح القدمین لما مشی بہا الی الخطیئة.جب شیطان نے حضرت آدم (علیھ السلام)کے دل میں وسوسہ ڈالااورآپ کواس درخت سے قریب کردیاکہ جس کے قریب جانے سے منع کیاگیاتھا،جیسے ہی آدم (علیھ السلام)نے اس درخت پرنگاہ ڈالی توآپ کے چہرے کی رونق ونورانیت چلی گئی ،اس کے بعدآپ کھڑے ہوگئے اورپھر درخت کی جانب حرکت کی ،عالم ہستی میں کسی خطاکی طرف اٹھنے والا سب سے پہلاقدم تھا،پھرآپ نے ہاتھوں سے درخت سے میوہ توڑکرت ناول کیاتوآپ کے جسم سے لباس وزینت اترگئے جس کی وجہ سے آپ اپنے سرپہ ہاتھ رکھ کربیٹھ گئے اورروکرتوبہ کرنے لگے،جب خداوندعالم نے آدم کی توبہ قبول کی توآپ پراورآپ کی اولادپران چاراعضا کے دضودینے کوواجب قراردیا۔خداوندعالم نے حضرت آدم(علیھ السلام) کوچہرہ دھونے کاحکم اس لئے دیاکیونکہ آپ نے اس درخت کی جانب نگاہ کی تھی تواس کی وجہ سے چہرہ کی رونق چلی گئی تھی اورکہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے دھونے کاحکم اس لئے دیاکیونکہ آپ نے ہاتھوں کے ذریعہ درخت سے پھل توڑکرت ناول کیاتھااورسرکے مسح کرنے کاحکم اسلئے دیاکیونکہ جب آپ برہنہ ہوئے تواپنے سرپر ہاتھ رکھ کربیٹھ گئے تھے جس کی وجہ سے خدانے سرکے مسح کرنے کاحکم دیااورچونکہ آدم (علیھ السلام) اپنے ان دونوں پیروں کے ذریعہ چل کرممنوعہ درخت کی جانب ) گئے تھے توخدانے حکم دیا:اے آدم!اپنے دونوں پاؤں کابھی مسح کرو۔( من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۵۶)روایت میں آیاہے : رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ)نماز صبح کے بعد بین الطلوعین(طلوع فجروطلوع آفتاب) مسجد میں بیٹھتے تھے اور لوگوں کے سوالوں کا جواب دے دیتے تھے کہ ایک دن دولوگوں نے اپنے سوال کوآنحضرت کی خدمت میں مطرح کر ناچاہا توجس شخص کی نوبت پہلے تھی آنحضرت نے اس سے فرمایا : اے بھائی!اگر چہ تم اپنے اس دوسرے بھائی پر مقدم ہو اگر اجازت ہو تو اپنی نوبت اس شخص کو دیدو کیونکہ اسے ایک بہت ضروری کام درپیش ہے اس شخص نے آنحضرت کی فرما ئش کو قبول کیا،اس کے بعدآپ نے فرمایا : اے بھائی! میں بتاؤ تم مجھ سے کیامعلوم کرنا چا ہتے تھے یاخودہی بتاناپسندکروگے ؟ دونوں نے عرض کیا : یارسول ا لله ! آپ ہی بیان کیجئے ، رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے فرمایا: تم میں ایک شخص حج کے بارے میں سوال کرناچاہتاہے اور دوسرا شخص ثواب وضو سے مطع ہونا چاہتا ہے ،پہلے آپ نے ثواب وضوسے مطلع ہونے شخص کاجواب دیاتاکہ دوسراشخص بھی اس سے مطلع ہوجائے لہٰذاآپ نے فرمایا:وضومیں چہرہ اور ہاتھوں کے دھونے اور سروپیروں کا مسح کرنے میں ایک راز پایاجاتاہے، وضو میں چہرہ دھونے کارازیہ ہے بارالٰہا!میں تیری بارگاہ میں کھڑے ہوکر عبادت کررہا ہوں اور پاک پیشانی کے ساتھ خاک پر سررکھتاہوں ، وضو میں ہاتھوں کا دھونے کے معنی یہ ہیں: خدایا !میں ان ہاتھوں کے ذریعہ انجام پانے والے گناہوں کو ترک کررہاہوں اور اب تک ان ہاتھوں کے ذریعہ جن گنا ہوں کا مرتکب ہواہوں ان سب نادم ہوں اورانھیں اپنے ان ہاتھوں سے پاک کرہا ہوں ، وضو میں سرکا مسح کرنے کامعنی ہیں: یعنی بارالٰہا ! وہ خیا ل باطل اور نا پاک ارادے جومیں نے اپنے سرمیں داخل کئے ہیں ان سب ناپاک ارادوں کو ذہن سے خارج کرتا ہوں، پیروں کا مسح کرنے کے معنی ہیں: بارلہا ! میں اپنے ان قدموں کوہر برائی کی طرف جانے سے اپنے قدموں کو محفوظ رکھوں گا اور جت نے بھی گناہ ان پیروں سے سرزدہوئے ہیں ان سب کو اپنے ) آپ سے دورکرتا ہوں۔( ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ١۶٧ /ص ۵٣)فضل بن شاذان سے روایت ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں:اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ چہرہ اورہاتھوں کادھونااورسروپاؤں کامسح کرناکیوں واجب ہے تواسے اس طرح جواب دو:لانّ العبداذاقام بین یدی الجبارقائماینکشف من جوارحہ ویظہرماوجب فیہ الوضوء وذلک انّہ بوجہہ یستقبل ویسجدویخضع وبیدہ یسئل ویرغب ویرہب ویتبتل وبراسہ یستقبل فی رکوعہ وسجودہ وبرجلہ یقوم ویقعد.جب بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں قیام کرتاہے تواپنے اعضاء وجوارح سے مانع اورحاجب کودورکرتاہے اوروہ اعضاکہ جن کووضومیں دھوناہے یامسح کرناواجب ہے ان کے ذریعہ بندگی کااظہارکرتاہے،کیونکہ نمازمیں چہرے کاقبلہ کی سمت رکھناواجب ہے اوراس کے ذریعہ سجدہ کیاجاتاہے اورخضوع وخشوع کااظہارکیاجاتاہے اورہاتھوں کے ذریعہ بارگاہ ربوبیت میں سوال کیاجاتاہے ،حاجتوں کوطلب کیاجاتاہے اورغیرخداکواپنے آپ سے منقطع قراردیاجاتاہے اورہاتھوں ہی کے ذریعہ ایک حالت سے دوسری میں منتقل ہوجاتاہے اوررکوع و سجودمیں جانے کے لئے اورقیام وقعودکے بھی دونوں ہاتھوں کاسہارالیاجاتاہے ، اورسرکے ذریعہ اپنے آپ کورکوع وسجودمیں قبلہ کی سمت رکھناواجب ہے اورپیروں کے ذریعہ اٹھااوربیٹھاجاتاہے اسی لئے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسج کرنے حکم دیاگیاہے(علل الشرائع/ج ١/ص ٢۵٧)وضومیں تمام دھونایاتمام مسح کیوں نہیں ہے؟وضومیں چہرہ اورہاتھوں کادھونااورسروپاو ںٔ کامسح کرناواجب قرار دیا گیا ہے،وضومیں نہ تمام دھوناہے اورنہ تمام کومسح کرناہے بلکہ بعض کودھویاجاتاہے اوربعض کومسح کیاجاتاہے اگرکوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ وضومیں تمام اعضا کودھوناکیوں نہیں ہے یاتمام کومسح کومسح کرناکیوں نہیں ہے اس کی وجہ اوررازکیاہے؟فضل ابن شاذان سے مروی ہے کہ امام علی رضا نے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کا دھونے اورسروپاو ںٔ کامسح کرنے کی چندوجہ بیان کی ہیں:١۔رکوع وسجودیہ دونوں ایسی عظیم وبرترعبادت ہیں کہجنھیں چہرے اوردونوں ہاتھوں سے انجام دیاجاتاہے نہ سراوردونوں پاو ںٔ کے ذریعہ لہٰذاواجب ہے کہ وضومیں چہرہ اوردونوں ہاتھوں کودھویاجائے تاکہ اس ذریعہ سے اورزیادہ طہارت اورپاکیزگی حاصل ہوجائے ۔ ٢۔انسان روزانہ چندمرتبہ اپنے سراوردونوں پاو ںٔ کودھونے کی قوت نہیں رکھتاہے کیونکہ سردی گرمی،سفروحضر،صحت وبیماری ،رات اور دن وغیرہ جیسے تمام حالات میں سراورپاو ںٔ کے دھونے میں دشواری ہے لیکن سروپاو ںٔ کے دھونے کے مقابلہ میں چہرہ اورہاتھوں کاکوئی مشکل کام نہیں ہے اورسروپاؤں کے دھونے سے بہت زیادہ آسان ہے اسی لئے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کودھونے اورسروپاو ںٔ کے دھونے کاحکم دیاگیاہے ۔٣۔ چہرہ اوردونوں ہاتھ غالباًکھلے رہتے ہیں لیکن سرٹوپی، عمامہ یاپگڑی سے چھپارہتاہے اورپاو ؤں بھی جوتے اورموزہ سے چھپے رہتے ہیں اس لئے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کودھویاجاتاہے اورسروپاو ؤں پرفقط مسح کیاجاتاہے۔( عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١١١)وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کے چند علل واسباب اوربھی ذکرکئے گئے ہیں جومندرجہ ذیل ذکرہیں:١۔ چونکہ انسان ان اعضاء کو بہت زیادہ بروئے کارلاتاہے اوران کواپنے کاموں میں بہت زیادہ استعمال کرتاہے اس لئے خدانے بعض اعضاء کے دھونے اوربعض کے مسح کرنے کاحکم دیاہے ۔٢۔ انسان دوسرے اعضاء کے مقابلے میں ان اعضاء کے ذریعہ گناہوں کازیادہ مرتکب ہوتاہے جسکی وجہ سے یہ اعضاء آلودہ ہوجاتے ہیں۔٣۔ وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے کواس لئے واجب قرادیاگیاہے تاکہ انسان اپنے دل میں یہ خیال پیداکرے کہ جس طرح ان اعضاء کودھوناضروری ہے دل ودماغ کوگناہوں کی گندگی سے پاک کرنااس سے کہیںزیادہ ضروری ہے کیونکہ انسان دل ہی کے ذریعہ نمازمیں باری تعالیٰ کی متوجہ ہوتاہے اورخدالوگوں کے چہروں کونہیں دیکھتا بلکہ دلوں پرنگاہ ڈالتاہے کیونکہ دل تمام اعضائے بدن کابادشاہ اورفرمانرواہوتاہے اوراعضائے وضودل ہی کے حکم سے گناہوں کی طرف حرکت کرتے ہیں اورانسان کویادالٰہی سے غافل کرتے ہیں لہٰذاان اعضاء کودھونے سے پہلے قلب کودھولیناچاہئے تاکہ انسان ظاہری اورباطنی پلیدگی سے پاک ہوکرمعبودحقیقی کی عبادت کرے۔۴۔ ان اعضاء دھونے کاایک رازیہ بھی ہے کہ ہاتھ اورچہرہ کے دھو نے کامقصدیہ ہے کہ ہم دنیاسے ہاتھ دھورہے ہیں اورغیرخداکی طرف ہونے سے منھ پھیررہے ہیں۔ انسان کوسعادت اورخوش بختی اسی وقت نصیب ہوسکتی ہے جب اس کے ہاتھ اورصورت دنیاوی پلیدگی میں آلودہ نہ ہوں کیونکہ دنیاوآخرت دوایسی چیزیں ہیں کہ انسان ان دونوں میں سے جس سے جت نازیادہ قریب ہوتاجائے گا دوسری سے ات ناہی زیادہ دورہوتاجائے گالہٰذاانسان کوچاہئے کہ بارگاہ خداوندی میں قیام کرنے سے پہلے دنیاسے ہاتھ دھوئے اوراسسے اپنامنھ پھیرلے۔۵۔ وضومیں سب سے پہلے چہرہ دھویاجاتاہے جس کاراز یہ ہے کہ ظاہری صورت باطنی صورت کاآئینہ ہوتی ہے اورچہرے پرخداکی طرف متوجہ ہونے کے آثاردوسرے اعضاء وضو کے مقابلہ میںزیادہ نمایاں ہوتے ہیں اسی لئے وضومیں چہرہ دھونے کومقدم کیاگیاہے۔ ۶۔وضومیں ہاتھوں کے کہنیوں سمیت دھونے کواس لئے واجب قراردیاگیاہے کیونکہ یہی ہاتھ ہوتے ہیں جودوسرے اعضاء کے مقابلے میں دنیاوی امورکی طرف زیادہ درازہوتے ہیں اور گناہوں میں آلودہ ہوتے ہیں لہٰذاخداوندمتعال کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے ہاتھوں کوآلودگی سے پاک کرلیناضروری ہے۔٧۔سرکے مسح کرنے کافلسفہ یہ ہے کہ دماغی طاقت اسی کے اندرواقع ہے اوردنیاوی(مادّی وشہوتی) مقاصدحاصل کرنے کاارادہ اسی کے ذریعہ شروع ہوتاہے اورمادّی وشہوتی امورکی طرف متوجہ ہونامعنوی توجہ پیدانہ کرنے کاسبب واقع ہوتی ہیں اورمادی وشہوتی امورکی طرف سرہی کے ذریعہ متوجہ ہواجاتاہے لہٰذاسرکے مسح کرنے کامقصدیہ ہے کہ ہم مادّی وشہوتی امورکی طرف متوجہ ہونے سے دوری اختیارکررہے ہیں اوراپنارخ خداکی جانب کررہے ہیں۔٨۔ پیروں کے مسح کرنے کارازیہ ہے کہ انسان انھیں کے ذریعہ تمام دنیاوی مقاصدکی جانب بڑھتاہے اورانھیں حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے لہٰذاہم سرکے اگلے حصہ پرمسح کے ذریعہ اپنی جہت کوبدل رہے ہیں اور خداکی جانب حرکت کررہے ہیں کیونکہ عبادت خداکے ذریعہ اسی وقت سعادت نصیب ہوسکتی ہے اورالله کے ذکرسے اسی وقت دل کوآرام مل سکتاہے ) جب ہم اپنی راہ کودنیاوی مقاصدسے خداکی طرف موڑدیں۔( قصص الصلاة/ج ٢/ص ٢۴ ۔ ٢۶محمدبن سنان سے مروی ہے کہ امام ابوالحسن علی موسی الرضا کی خدمت میں جوخط لکھے گئے ان میں ایک خط میں امام (علیھ السلام) سے متعددسوال کئے گئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ وضومیں چہرہ اوراہاتھوں کے دھوے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کی وجہ کیاہے؟توامام (علیھ السلام)نے اس خط کے جواب میں تحریرکیااوراس طرح وجہ بیان کی: وضومیں چہرہ اوردونوں ہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کوواجب قراردیاگیاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب حق تعالیٰ کی بارگاہ میں قیام کرتاہے توان چاراعضاوجوارح سے اس سے ملاقات کرتاہے ،چہرے کے دھونے کواس واجب قراردیاگیاہے کیونکہ اس کے ذریعہ سجوداورخضوع کرناواجب ہے اوردونوں ہاتھوں کے دھونے کااس لئے حکم دیاگیاہے کیونکہ انھیں حرکت دی جاتی ہے اوران کے ہی ذریعہ میل ورغبت ،خوف وحشت اورقطع کرناوجداکرناانجام پاتاہے لہٰذاان دونوں کے دھونے کوواجب قراردیا گیاہے اورسرودونوں پاؤں کے مسح کرنے کااس لئے حکم دیاگیاہے کیونکہ یہ دونوں ظاہرومکشوف یعنی کھلے رہتے ہیں اورتمام حالات میں ان کے ذریعہ استقبال کیاجاتاہے اوروہ خضوع خشوع جوچہرے اوردونوں میں نہیں پائی جاتی ہے وہ ان دونوں میں پائی جاتی ہے ۔( علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨٠). مرحوم کلینی نے اپنی کتاب “الکافی” میں ایک روایت نقل کی ہے:ابن اذینہ سے مروی ہے کہ ایک دن امام صادق نے مجھ سے فرمایا:یہ ناصبی لوگ کس طرح کی روایت نقل کرتے ہیں؟میں نے کہا:آپ پرقربان جاؤں کس بارے میں؟آپ (علیھ السلام) نے فرمایا: اذان، رکوع ،سجودکے بارے میں؟ میں عرض کیا:وہ لوگ کہتے ہیں کہ ان تمام مسائل کو”ابی ابن کعب” نے خواب میں دیکھاہے ،امام (علیھ السلام) نے فرمایا:وہ جھوٹ کہتے ہیں، دین خداتو خواب میں دیکھنے سے بھی کہیں درجہ بلندوبالاہے ،راوی کہتاہے کہ اسی وقت سدیرصیرفی نے امام (علیھ السلام) سے عرض کیا:ہم آپ پرقربان جائیں !آپ ہمارے لئے اس بارے میں کچھ بیان کیجئے ،امام (علیھ السلام) نے فرمایا:جب نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)معراج پرگئے اورساتوے آسمان پرپہنچے …آنحضرت سے کہاگیا:اے محمد!اپنے سرکوبلندکرواوراوپرکی طرف نگاہ کرو،نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کہتے ہیں کہ :میں نے جیسے ہی سربلندکیاتودیکھاکہ آسمان کے تمام طبقے شکافتہ ہوگئے ہیں اورآسمان کے تمام پردے اٹھالئے گئے ہیں ،اسکے بعدمجھ سے کہاگیا:اے محمد!اب نیچے کی طرف بھی دیکھو!میں نے جیسے نیچے کی طرف نگاہ ڈالی توخانہ کٔعبہ کے مانند ایک گھرنظرآیااورمسجدالحرام کے مانندایک حرم دیکھا،اگرمیں اس وقت اپنے ہاتھ سے کوئی چیزنیچے کی طرف چھوڑتاتووہ سیدھی اسی حرم میں آکرگرتی ،اس وقت مجھ سے کہاگیا:یامحمدااِنّ ہذالحرم وانت الحرام ولکل مثل مثال ثمّ اوحی الله الیّ :یامحمد! ادن من “صاد”فاغسل مساجدک وطہرہاوصلّ لربّک۔اے محمد!یہ حرم ہے اورتومحترم اورہرایک چیزکی ایک مثالی تصویرہوتی ہے ،اس کے بعدمجھ پروحی نازل ہوئی اورمجھ سے کہا گیا :اے محمد!صاد(صاد وہ پانی ہےجوعرشکی بائیں پنڈلی سے جاری ہے)کے قریب جاؤاوراپنے اعضاء سجدہ کوپانی سے دھوؤاوراپنے پروردگارکے لئے نمازپڑھو،رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)صادکے قریب پہنچے اوردائیں ہاتھ کی چلّومیں پانی لیا ،چونکہ نبی نے دائیں ہاتھ سے پانی چلومیں لیاتو اسی لئے دائیں ہاتھ سے وضوکرناسنت قرار پایا، پھر خدا نے وحی نازل کی: اغسل وجہک فانک ت نظرالیٰ عظمتی ثمّ اغسل ذراعیک الیمنیٰ والیسریٰ فانّک تلقی بیدک کلامی ثمّ امسح راسک بفضل مابقی فی یدک من الماء ورجلیک الیٰ کعبیک۔ اپنے چہرہ دھوؤکیونکہ تم اس کے ذریعہ میری عظمتوں کامشاہدہ کرتے ہو،اس کے بعداپنے دائیں اوربائیں ہاتھ کوکہنیوں سمیت دھوؤکیونکہ تم ان ہی ہاتھوں کے ذریعہ میرے کلام کوحاصل کرتے ہو،اس کے بعدہاتھ پرباقیماندہ پانی کی رطوبت کے ذریعہ سرکا اورپیروں کاکعبین تک مسح کروپھرمیں تمھیں ایک خوشی طعاکروں گااورتمھارے قدموں کووہاں تک پہنچادوں گاکہ ) جہان پرآج تک کسی نے قدم نہیں رکھاہے(کافی /ج ٣/ ص ۴٨۵)