حسین میرا ،حسین تیرا ،حسین رب کا حسین سب کا

497

اسم گرامی : حسین (ع)لقب : سید الشھداء۔اس کے علاوہ سید وصبط اصغر، شہیداکبر، اورسیدالشہداء زیادہ مشہورہیں۔ علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ سبط اورسید خود رسول کریم کے معین کردہ القاب ہیں (مطالب السؤل ص 312) ۔کنیت : ابو عبد اللہ والد کا نام : علی (ع)والدہ کا نام : فاطمہ زھرا (ع)تاریخ ولادت : 3شعبان 4ھءجائے ولادت : مدینہ منورہمدت امامت : 12 سال عمر : 57 سالتاریخ شہادت :10 / محرم الحرام 61ھء شہادت کا سبب: یزید ابن معاویہ کے حکم سے شہید کیے گئےروضہ اقدس : کربلائے معلّیٰاولاد کی تعداد :4 بیٹے اور 2 بیٹیاںبیٹوں کے نام :  علی اکبر, علی اوسط , جعفر , عبد اللہ ( علی اصغر )بیٹیوں کے نام : سکینہ , فاطمہ
خدا کے پیارے نبی کے پیارے علی کے پیارے حسین آئےھوا نے سورج کو دی مبارک براں کے پارے حسین آئےزمیں خوشی سے تھرک رھی تھی تھے رقصاں تارے حسین آئےشفق،صدف،روشنی، ھوایئں سبھی پکارے حسین آئے (صفدر ھمدانی)
 ابھی آپ کی ولادت نہ ہونے پائی تھی کہ بروایتی ام الفضل بنت حارث نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم کے جسم کاایک ٹکڑا کاٹ کران کی آغوش میں رکھا گیا ہے اس خواب سے وہ بہت گھبرائیں اوردوڑی ہوئی رسول کریم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پرداز ہوئیں کہ حضورآج ایک بہت برا خواب دیکھا ہے۔ حضرت نے خواب سن کرمسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ خواب تونہایت ہی عمدہ ہے۔  اے ام الفضل کی تعبیر یہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیدا ہو گا جو تمہاری آغوش میں پرورش پائے گا ۔
ھجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ھوئی . اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے , بیٹے کو گود میں لیا , دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دی . پیغمبر کا مقدس لعاب دھن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا . ساتویں دن عقیقہ کیا گیا . آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جارھی تھی مگر آنے والے حالات کاعلم پیغمبر کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہتا تھا  .
نشو و نما
 پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگہوارہ تھی اب دن بھردو بچّوں کی پرورش ھونے لگی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ھی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رھے تھے . ایک طرف پیغمبر  اسلام جن کی زندگی کا مقصد ھی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام جو اپنے عمل سے خدا کے محبوب تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ھی قدرت کی طرف سے پیدا ھوئی تھیں، اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ھوئی.
رسول کی محبت
 حضرت محمد مصطفےٰ (ص)اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے ، سینہ پر بٹھاتے تھے ، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ خاص امتیاز رکھتے تھے .ایسا ھوا ھے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین پشت  مبارک پرآگئے تو سجدہ میں طول دے دیا اور جب بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیٰحدہ ھوگیا اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ھوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ھونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نے اپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ دیکھو یہ حسین ھے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو  رسول(ص) نے حسین علیہ السّلام کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ھوں ۔ مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیا میں حسین کی بدولت قائم رھے گا .
 جنت کے کپڑے اور فرزندان رسول کی عید
امام حسن اورا مام حسین کا بچپنا ہے عید آنے والی ہےاوران اسخیائے عالم کے گھرمیں نئے کپڑے کا کیا ذکر پرانے کپڑے نہیں ہے ۔بچوں نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں مادرگرامی اطفال مدینہ عید کے دن زرق برق کپڑے پہن کرنکلیں گے اورہمارے پاس بالکل لباس نونہیں ہے ہم کس طرح عید منائیں گے ماں نے کہا بچوگھبراؤ نہیں، تمہارے کپڑے درزی لائے گا عید کی رات آئی بچوں نے ماں سے پھرکپڑوں کا تقاضا کیا،ماں نے وہی جواب دے کرنونہالوں کوخاموش کردیا۔ابھی صبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا، دروازہ کھٹکھٹایا فضہ دروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ لباس دیا، فضہ نے سیدہ عالم کی خدمت میں اسے پیش کیا اب جوکھولاتواس میں دوچھوٹے چھوٹے عمامے دوقبائیں،دوعبائیں غرضیکہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے ماں کا دل باغ باغ ہوگیا وہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہا بچوں کوجگایا کپڑے دئیے صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کی توکہا مادرگرامی یہ توسفید کپڑے ہیں اطفال مدینہ رنگین کپڑے پہننے ہوں گے، امام جان ہمیں رنگین کپڑے چاہئیں ۔حضور انورکواطلاع ملی، تشریف لائے، فرمایا گھبراؤ نہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہوجائیں گے اتنے میں جبرائیل آفتابہ لیے ہوئے آ پہنچے انہوں نے پانی ڈالا محمدمصطفی کے ارادے سے کپڑے سبزاورسرخ ہوگئے سبزجوڑاحسن نے پہنا سرخ جوڑاحسین نے زیب تن کیا، ماں نے گلے لگا لیا باپ نے بوسے دئیے نانا نے اپنی پشت پرسوارکرکے مہارکے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں اورکہا،میرے بچو، رسالت کی باگ ڈورتمہارے ہاتھوں میں ہے جدھرچاہو موڑدو اورجہاں چاہولے چلو(روضہ الشہداء ص 189 بحارالانوار) ۔
بعض علماء کاکہناہے کہ سرورکائنات بچوں کوپشت پربٹھا کردونوں ہاتھوں اورپیروں سے چلنے لگے اوربچوں کی فرمائش پراونٹ کی آوازمنہ سے نکالنے لگے (کشف المحجوب)۔
امام حسین کا سردار جنت ہونا
یغمبر اسلام کی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ “الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنہ و ابوہما خیر منہما” حسن اور حسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدر بزرگواران دنوں سے بہتر ہیں (ابن ماجہ) صحابی رسول جناب حذیفہ یمانی کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سرور کائنات صلعم کو بے انتہا مسرور دیکھ کرپوچھا حضور،افراط مسرت کی کیا وجہ ہے فرمایا اے حذیفہ آج ایک ایسا ملک نازل ہوا ہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا اس نے مجھے میرے بچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہا ہے کہ”ان فاطمہ سیدہ نساء اہل الجنہ وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنہ” فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (کنزالعمال جلد 7 ص 107، تاریخ الخلفاص 123، اسدالغابہ ص 12، اصابہ جلد 2ص 12، ترمذی شریف، مطالب السول ص 242 صواعق محرقہ ص 114) ۔  رسول کی وفات کے بعد
 امام حسین علیہ السّلام کی عمر ابھی چھ سال ھی کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے نانا کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کی خانہ نشینی کادور تھا .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوار حالات امام حسین علیہ السّلام دیکھتے رھے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا بھی مطالعہ فرماتے رھے .
یہ وھی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا۔35ھ میں جب حسین کی عمر31 برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علی  ا بن ابی طالب علیھما السّلام کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین علیہ السّلام کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میں جمل، صفین اور نھروان کی جنگ ھوئی اور امام حسین علیہ السّلام ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ھوئے اور شجاعت کے جوھر بھی دکھلائے 40ھ میں جناب امیر علیہ السّلام مسجد کوفہ میں شھید ھوئے۔
 اور اب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن علیہ السّلام کے سپرد ھوئیں جو حضرت امام حسین علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے .حسین علیہ السّلام نے ایک باوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن علیہ السّلام کاساتھ دیااور جب امام حسن علیہ السّلام نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکے معاویہ کے ساتہ صلح کرلی تو امام حسین علیہ السّلام بھی اس مصلحت پر راضی ھوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف رھے مگر معاویہ نے ان شرائط کو جو امام حسن علیہ السّلام کے ساتھ ھوئے تھے بالکل پورا نہ کیا بلکہ امام حسن علیہ السّلام کو زھر کے ذریعہ شھید بھی کرا دیا-حضرت علی  بن ابی طالب علیہ السّلام کے شیعوں کو چن چن کے قید کیا گیا، سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیا اور سب سے آخر میں اس شرط کے بالکل خلاف کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کرنے کا حق نہ ھو گا معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے لئے ولی عہد بنا دیا ۔ تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی اور زور و زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکا دیا گیا-
امام حسين کا دورانِ جواني
 پيغمبر اکرم  کي وفات کے بعد سے امير المومنين کي شہادت تک کا پچيس سالہ دور ہے۔ اِس ميں يہ شخصيت، جوان، رشيد، عالم اورشجاع ہے ، جنگوں ميں آگے آگے ہے، عالم اسلام کے بڑے بڑے کاموں ميں حصہ ليتا ہے اور اسلامي معاشرے کے تمام مسلمان اِس کي عظمت وبزرگي سے واقف ہيں۔ جب بھي کسي جواد و سخي کا نام آتا ہے تو سب کي نگاہيں اِسي پر مرکوز ہوتي ہيں، مکہ ومدينے کے مسلمانوں ميں، ہر فضيلت ميں اور جہاں جہاں اسلام کا نور پہنچا، يہ ہستي خورشيد کي مانند جگمگا رہي ہے، سب ہي اُس کا احترام کرتے ہيں، خلفائے راشدين بھي امام حسن اور امام حسين کا احترام کرتے ہيں ، اِن دونوں کي عظمت و بزرگي کے قولاً و عملاً قائل ہيں، ان دونوں کے نام نہايت احترام اور عظمت سے ليے جاتے ہيں ، اپنے زمانے کے بے مثل و نظير جوان اور سب کے نزديک قابل احترام۔ اگر اُنہي ايام ميں کوئي يہ کہتا کہ يہي جوان (کہ جس کي آج تم اتني تعظيم کررہے ہو) کل اِسي امت کے ہاتھوں قتل کيا جائے گا تو شايد کوئي يقين نہ کرتا۔
امام حسين کا دورانِ غربتسيد الشہدا کي حيات کا تيسرا دور، امير المومنين کي شہادت کے بعد کا دور ہے، يعني اہل بيت کي غربت و تنہائي کا دور۔ امير المومنين کي شہادت کے بعد امام حسن اور امام حسين مدينے تشريف لے آئے۔حضرت علي کي شہادت کے بعد امام حسين بيس سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام ١ رہے اور آپ تمام مسلمانوں ميں ايک بزرگ مفتي کي حيثيت سے سب کيلئے قابل احترام تھے۔ آپ عالم اسلام ميں داخل ہو نے والوںک ي توجہ کا مرکز، اُن کي تعليم وتر بيت کا محور اوراہل بيت سے اظہا رعقيدت و محبت رکھنے والے معنوي امام اس لحاظ سے کہ امير المومنين کي شہادت کے بعد امامت ، امام حسن کو منتقل ہوئي اور آپ کي شہادت کے بعد امامت ، امام حسين کو منتقل ہوئي۔ امام حسن کي امامت کا زمانہ يا امام حسين کي اپني امامت کا دور، دونوں زمانوں ميں امام حسين ٢٠ سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام رہے ۔ (مترجم)
 اخلاق و اوصاف
امام حسین علیہ السّلام سلسلہ امامت کی تیسری فرد اور عصمت و طہارت کا باقاعدہ مجسمہ تھے- آپ کی عبادت, آپ کے زہد, آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کے دوست و دشمن سب ھی قائل تھے- آپ نےپچیس حج پاپیادہ کئے- آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا ” حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ھے “۔ چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رھتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نھیں ھوتا تھا-اسی وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ھو گیاتھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارک پر پڑ گئے تھے- حضرت ھمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ” جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمھارے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمھارے ہاتھ بیچ ڈالی- اب تمھارا فرض یہ ھے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو, کم سے کم اپنی ھی عزتِ نفس کا خیال کرو”۔غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپ انھیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ھوا تھا- مذھبی مسائل اور اھم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا- ۔ آپ رحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے-ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہ راستے میں چند مساکین بیٹھے ھوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رھے تھے اور آپ کو پکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت فوراً زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہ کھانے میں شرکت نہیں فرمائی اس بناء پر کہ صدقہ آلِ محمد پر حرام ھے مگر ان کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نھیں ھوا- اس خاکساری کے باوجود آپ کی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماھوتے تھے لوگ نگاہ اٹھا کر بات بھی نہیں کرتے تھے – جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھے وہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے-
 ایک مرتبہ حضرت امام حسین علیہ السّلام نے حاکم شام معاویہ کو ایک سخت خط لکھا جس میں اس کے اعمال و افعال اور سیاسی حرکات پر نکتہ چینی کی تھی ۔ اس خط کو پڑھ کر معاویہ کو بڑی تکلیف محسوس ھوئی- پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپ بھی اتنا ھی سخت خط کاجواب لکھئیے- معاویہ نے کہا, “میں جو کچھ لکھوں گا وہ اگر غلط ھو تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں اور اگر صحیح لکھنا چاھوں تو بخدا حسین میں مجھے ڈھونڈنے سے بھی کوئی عیب نھیں ملتا”۔ آپ کی اخلاقی جراَت , راست بازی اور راست کرداری , قوتِ اقدام, جوش عمل اور ثبات و استقلال , صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ھیں-ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کی کوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی مگر جو صحیح راستہ پہلے دن اختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ھٹے- آپ نے بحیثیت ایک سردار کے کربلا میں ایک پوری جماعت کی قیادت کی اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بے مثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی۔
دين ميں ہونے والي تحريفات سے مقابلہ
امام حسين کي عبادت اور حرم پيغمبر ميں آپ کا اعتکاف اور آپ کي معنوي رياضت اور سير و سلوک؛ سب امام حسين کي حيات مبارک کا ايک رُخ ہے۔ آپ کي زندگي کا دوسرا رُخ علم اور تعليمات اسلامي کے فروغ ميں آپ کي خدمات اور تحريفات سے مقابلہ کيے جانے سے عبارت ہے۔ اُس زمانے ميں ہونے والي تحريف دين درحقيقت اسلام کيلئے ايک بہت بڑي آفت و بلا تھي کہ جس نے برائيوں کے سيلاب کي مانند پورے اسلامي معاشرے کو اپني لپيٹ ميں لے ليا تھا۔ يہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلامي سلطنت کے شہروں، ممالک اور مسلمان قوموں کے درميان اِس بات کي تاکيد کي جاتي تھي کہ اسلام کي سب سے عظيم ترين شخصيت پر لعن اور سبّ و شتم کريں۔اگر کسي پر الزام ہوتا کہ يہ امير المومنين کي ولايت و امامت کا طرفدار اور حمايتي ہے تو اُس کے خلاف قانوني کاروائي کي جاتي، ”اَلقَتلُ بِالظَنَّۃِ وَالآَخذُ بِالتُّھمَۃِ”،(صرف اِس گمان و خيال کي بنا پر کہ يہ اميرالمو منين کا حمايتي ہے ، قتل کرديا جاتا اور صرف الزام کي وجہ سے اُس کا مال و دولت لوٹ ليا جاتا اور بيت المال سے اُس کاوظيفہ بند کرديا جاتا)۔اِن دشوار حالات ميں امام حسين ايک مضبوط چٹان کي مانند جمے رہے اور آپ نے تيز اور برندہ تلوار کي مانند دين پر پڑے ہوئے تحريفات کے تمام پردوں کو چاک کرديا، (ميدان منيٰ ميں) آپ کا وہ مشہور و معروف خطبہ اور علما سے آپ کے ارشادات يہ سب تاريخ ميں محفوظ ہيں اور اِس بات کي عکاسي کرتے ہيں کہ امام حسين اِس سلسلے ميں کتني بڑي تحريک کے روح رواں تھے۔
امر بالمعروف و نہي عن المنکر
آپ ٴنے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر بھي وسيع پيمانے پر انجام ديا اور يہ امر و نہي، معاويہ کے نام آپ کے خط کي صورت ميں تاريخ کے اوراق کي ايک ناقابل انکار حقيقت اور قابل ديد حصّہ ہيں۔  آپ کا وہ عظيم الشّان خط اور آپ کا مجاہدانہ اور دليرانہ انداز سے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر انجام دينا دراصل يزيد کے سلطنت پر قابض ہونے سے لے کر مدينے سے کربلا کيلئے آپ ٴکي روانگي تک کے عرصے پر مشتمل ہے۔ اِس دوران آپٴ کے تمام اقدامات، امر بالمعروف اور نہي عن المنکر تھے۔ آپ ٴخود فرماتے ہيں کہ ”اُرِيدُ اَن آمُرَ باِلمَعرُوفِ و اَنہٰي عَنِ المُنکَرِ”، ”ميں نيکي کا حکم دينا اور برائي سے منع کرنا چاہتا ہوں۔”
زندگي کے تين ميدانوں ميں امام حسين کي جدوجہد
 امام حسين اپني انفرادي زندگي _ تہذيب نفس اور تقويٰ ميں بھي اتني بڑي تحريک کے روح رواں ہیں اورساتھ ساتھ ثقافتي ميدان ميں بھي تحريفات سے مقابلہ، احکام الہي کي ترويج و اشاعت ، شاگردوں اور عظيم الشان انسانوں کي تربيت کو بھي انجام ديتے ہیں نيز سياسي ميدان ميں بھي کہ جو اُن کے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر سے عبارت ہے، عظيم جدوجہد اور تحريک کے پرچم کو بھي خود بلند کرتے ہیں۔ يہ عظيم انسان انفرادي ، ثقافتي اور سياسي زندگي ميں بھي اپني خود سازي ميں مصروف عمل ہے۔اب ہم واقعہ کربلا کي طرف رُخ کرتے ہيں ۔ واقعہ کربلا ايک جہت سے بہت اہم واقعہ ہے اورخود يہ مسئلہ اُن افراد کيلئے درس ہے کہ جو امام حسين کو اپنا آئيڈيل قرار ديتے ہيں۔ واقعہ کربلا آدھے دن يا اِس سے تھوڑي سي زيادہ مدت پر محيط ہے اور اُس ميں بہتر (٧٢) کے قريب افراد شہيد ہوئے ہيں ۔ دنيا ميں اور بھي سينکڑوں شہدا ہيں ليکن واقعہ کربلا نے اپني مختصر مدت اور شہدا کي ايک مختصر سي جماعت کے ساتھ اتني عظمت حاصل کي ہے اور حق بھي يہي ہے ؛ واقعہ کربلا روح اور معني کے لحاظ سے اہميت کا حامل ہے۔
آوازہ یا حسین کا پھر نینوا میں ھےشبیر تیرے خون کی خوشبو ھوا میں ھےچہلم کی شان سے ھے پریشان یزیدٍ وقت زینب تری دعا کا اثر کربلا میں ھے (صفدر ھمدانی)
روح کربلا
واقعہ کربلا کي روح و حقيقت يہ ہے کہ امام حسين اِ س واقعہ ميں ايک لشکر يا انسانوں کي ايک گروہ کے مد مقابل نہيں تھے، ہرچند کہ وہ تعداد ميں امام حسين کے چند سو برابر تھے،بلکہ آپ انحراف و ظلمات کي ايک دنيا کے مد مقابل کھڑے تھے اور اِ س واقعہ کي يہي بات قابل اہميت ہے ۔ سالار شہيدان اُس وقت کج روي، ظلمت اور ظلم کي ايک پوري دنيا کے مقابلے ميں کھڑے تھے اور يہ پوري دنيا تمام مادي اسباب و سائل کي مالک تھي يعني مال و دولت، طاقت ، شعر، کتاب، جھوٹے راوي اور درباري ملا، سب ہي اُس کے ساتھ تھے اور جہان ظلم و ظلمت اور انحراف کي يہي چيزيں دوسروں کي وحشت کا سبب بني ہوئي تھيں۔ايک معمولي انسان يا اُس سے ذرا بڑھ کر ايک اور انسان کا بدن اُس دنيا ئے ظلمت و ظلم کي ظاہري حشمت ، شان وشوکت اور رعب و دبدبہ کو ديکھ کر لرز اٹھتا تھا ليکن يہ سرور شہيداں تھے کہ آپ کے قدم و قلب اُس جہان شر کے مقابلے ميں ہرگز نہيں لرزے ، آپ ميں کسي بھي قسم کا ضعف و کمزوري نہيں آئي اور نہ ہي آپ نے (اپني راہ کے حق اور مدمقابل گروہ کے باطل ہونے ميں) کسي قسم کا شک وترديد کيا، (جب آپ نے انحرافات اور ظلم و زيادتي کا مشاہدہ کيا تو) آپ فوراً ميدان ميں اتر آئے۔ اس واقعہ کي عظمت کاپہلو يہي ہے کہ اس ميں خالصتاً خدا ہي کيلئے قيام کيا گيا تھا۔
”حُسَين? مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسَينِ”کا معنيکربلا ميں امام حسين کا کام بعثت ميں آپ کے جد مطہر حضرت ختمي مرتبت  کے کاموں سے قابل تشبيہ و قابل موازنہ ہے، يہ ہے حقيقت۔ جس طرح پيغمبر اکرم نے تن ِ تنہا پوري ايک دنيا سے مقابلہ کيا تھا امام حسين بھي واقعہ کربلا ميں جہانِ با طل کے مدمقابل تھے؛ حضرت رسول اکرم  بھي ہرگز نہيں گھبرائے ، راہ حق ميں ثابت قدم رہے اور منزل کي جانب پيش قدمي کرتے رہے، اسي طرح سيد الشہدا بھي نہيں گھبرائے، ثابت قدم رہے اور آپ ٴنے دشمن کے مقابل آکر آنکھوں ميں آنکھيں ڈال ديں۔ تحريک نبوي  اور تحريک حسيني کا محور و مرکز ايک ہي ہے اور دونوں ايک ہي جہت کي طرف گامزن تھے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں”حُسَين? مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسَينِ ” کا معني سمجھ ميں آتا ہے ۔ يہ ہے امام حسين کے کام کي عظمت۔ْْْْٰقيام امام حسين کي عظمت!امام حسين نے شب عاشور اپنے اصحاب و انصار سے فرمايا تھا کہ” آپ سب چلے جائيے اور يہاں کوئي نہ رہے ، ميں اپني بيعت تم سب پر سے اٹھاليتا ہوں اور ميرے اہل بيت کو بھي اپني ساتھ لے جاو، کيونکہ يہ ميرے خون کے پياسے ہيں”۔ امام حسين کے يہ جملے  اگر اُن کے اصحاب قبول بھي کرليتے اور امام حسين يکتا و تنہا يا دس افراد کے ساتھ ميدان ميں رہ جاتے توسيد الشہدا کے کام کي عظمت کبھی کم نہیں ھوتی بلکہ  ھمیشہ کی طرح اسي عظمت و اہميت کے حامل ہوتے ۔
امام حسين کي عظمت و شجاعتامام حسين کے کام کي عظمت يہ تھي کہ آپ نے ظالم و جابر، خلافت رسول ۰ کے مدعي اور انحراف کے پورے ايک جہان کے دباو کو قبول نہيں کيا۔  مدينے ميں صحابہ کرام کي اچھي خاصي تعداد موجود تھي جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد مدينہ ميں رونما ہونے والے واقعہ حرّہ ميں مسلم ابن عقبہ کے قتل عام کے مقابلے ميں ثابت قدمي کا مظاہرہ کيا اور جنگ کي ۔ليکن امام حسین دوسري شجاعت کے مالک تھے، اِس واقعہ کربلا کي عظمت کا پہلو يہ ہے کہ امام حسين ايک ايسي طاقت و قدرت کے مد مقابل سيسہ پلائي ہوئي ديوار بن گئے کہ جو تمام مادي اسباب و وسائل کي مالک تھي۔ امام حسين کے دشمن کے پاس مال و دولت تھي ، وہ قدرت و طاقت کا مالک تھا، اسلحہ سے ليس سپاہي اس کي فوج ميں شامل تھے اور ثقافتي و معاشرتي ميدانوں کو فتح کرنے والے مبلغ و مروج اورمخلص افراد کا لشکر بھي اُس کے ساتھ تھا۔ کربلا قيامت تک پوري دنيا پر محيط ہے ، کربلا صرف ميدان کربلا کے چند سو ميٹر رقبے پر پھيلي ہوئي جگہ کا نام نہيں ہے۔ آج کي دنيائے استکبار و ظلم اسلامي جمہوريہ کے سامنے کھڑي ہے۔
نفس نفس علی علی زباں زباں حسین ھے کہاں کوئی بتا سکا کہاں کہاں حسین ھے کربلا کے بعد اب یہ فیصلہ ھو گیاجہاں جہاں یزید ھے وہاں وہاں حسین ھے(صفدر ھمدانی)
کربلا میں ورود
2محرم الحرام 61 ھ بروزجمعرات کو امام حسین علیہ السلام وارد کربلا ہو گئے۔ واعظ کاشفی اور علامہ اربلی کا بیان ہے کہ جیسے ہی امام حسین (ع) نے زمین کربلا پر قدم رکھا زمین کر بلا زرد ہو گئی اور ایک ایسا غبار اٹھا جس سے آپ کے چہرہ مبارک پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔یہ دیکھ کر اصحاب ڈرگئے اور جنابِ اُم کلثوم رونے لگیں۔صاحب مخزن البکا لکھتے ہیں کہ کربلا پر درود کے فوراََ بعد جنابِ ام کلثوم نے امام حسین (ع) سے عرض کی،بھائی جان یہ کیسی زمین ہے کہ اس جگہ ہمارادل دھل رہا ہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا بس یہ وہی مقام ہے جہاں بابا جان نے صفیں کے سفر میں خواب دیکھا تھا۔یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارا خون بہے گا۔کتاب مائتین میں ہے کہ اسی دن ایک صحابی نے ایک بیری کے درخت سے مسواک کے لیے شاخ کاٹی تواس سے خون تازہ جاری ہو گیا۔
امام حسین (ع) کا خط اہل کوفہ کے نام
کربلا پہنچنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اتمام حجت کیلئے اہل کوفہ کے نام قیس ابن مسہر کے ذریعہ سے ایک خط ارسال فرمایا۔جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ تمھاری دعوت پر میں کربلا تک آگیا ہوں الخ۔قیس خط لیے جارہے تھے کہ راستے میں گرفتار کر لیے گئے۔اور انھیں ابن زیاد کے سامنے کوفہ لے جاکر پیش کر دیا گیا۔ابن زیاد نے خط مانگا۔قیس نے بروایتے چاک کرکے پھینک دیا اوربروایتے اس خط کو کھا لیاابن زیاد نے انھیں بضرب تازیانہ شہید کر دیا۔
عبیداللہ ابن زیاد کا خط امام حسین (ع) کے نام
علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے کربلا پہنچنے کے بعد حرنے ابن زیاد کو آپ کی رسیدگی کربلا کی خبردی۔ا س نے امام حسین (ع) کو فوراََ ایک خط ارسال کیا۔جس میں لکھا کہ مجھے یزید نے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے اس کے لیے بیعت لے لوں ،یا آپ کو قتل کر دوں۔امام حسین (ع) نے اس خط کا جواب نہ دیا۔اَلقَاہُ مِن یَدِہ اور اسے زمین پر پھینک دیا۔  اس کے بعد آپ نے محمد بن حنفیہ کو اپنے کربلاپہنچنے کی ایک خط کے ذریعہ سے اطلاع دی اور تحریر فرمایا کہ میں نے زندگی سے ہاتھ دھولیا ہے اور عنقریب عروس موت سے ہم کنار ہو جاؤں گا۔
دوسری محرم سے نویں محرم تک کے مختصر واقعات
دوسری محرم 61 ء ہجری
دوسری محرم الحرام 61 ء ھجری کو آپ کا کربلا میں ورود ہوا۔آپ نے اہل کوفہ کے نام خط لکھا۔آپ کے نام ابن زیاد کاخط آیا،اسی تاریخ کو آپ کے حکم سے برلبِ فرات خیمے نصب کئے گئے۔  حرنے مزاحمت کی اور کہا کہ فرات سے دور خیمے نصب کیجئے۔  عباس ابن علی کو غصہ آگیا  ۔ امام حسین (ع) نے غصہ کوفروکیا۔اور بقول علامہ اسفر ائنی 3یا5  میل کے فاصلہ پر خیمے نصب کئے گئے  نصبِ خیام کے بعد ابھی آپ اس میں داخل نہ ہوئے تھے۔کہ چند اشعار آپ کی زبان پر جاری ہوئے۔جنابِ زینب نے جونہی اشعار کو سنا اس درجہ روئیں کہ بے ہوش ہوگئیں۔امام نے رخسار پر پانی چھڑک کر باہوش کیا  پھر آلِ محمد داخل خیمہ ہوئے۔اس کے بعد ساٹھ ہزار درہم پر 1مربع میل زمین خرید کر چند شرائط کے ساتھ انھیں کو ہبہ کر دی۔
تیسری محرم الحرام یوم جمعہ
تیسری محرم الحرام یوم جمعہ کو عمر ابن سعد  بقول علامہ اربلی 22 ہزار سوار و پیادے لے کر کربلا پہنچا اور اس نے امام حسین (ع) سے تبادلہ خیالات کی خواہش کی۔حضرت نے ارادہ کوفہ کا سبب بیان فرمایا۔اس نے ابن زیاد کوگفتگو کی تفصیل لکھ دی اور یہ بھی لکھا کہ امام حسین (ع) فرماتے ہیں کہ اگر اب اہل کوفہ مجھے نہیں چاہتے تو میں واپس جانے کوتیارہوں ۔ابن زیاد نے عمر بن سعد کے جواب میں لکھا کہ اب جب کہ ہم نے حسین (ع) کو چنگل میں لے لیا ہے تو وہ چھٹکارا چاہتے ہیں۔لات حین مناص۔یہ ہرگز نہیں ہوگا۔ان سے کہہ دو کہ یہ اپنے تمام اعزاواقرباسمیت بیعت یزید کریں یاقتل ہونے کے لیے آمادہ ہوجائیں۔میں بیعت سے پہلے ان کی کسی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں  اسی تیسری تاریخ کی شام کو حبیب ابن مظاہر قبیلہ ابنی اسد میں گئے ا ور ان میں سے جانبازامداد حسینی کے لیے تیار کئے وہ انھیں لارہے تھے کہ کسی نے ابن زیاد کو اطلاع کر دی۔اس نے 400 سوکالشکر بھیج کر اس کمک کو روکوا دیا۔
چوتھی محرم الحرام یوم شنبہ۔ہفتہ
چوتھی محرم الحرام یوم شنبہ کوابن زیاد نے مسجد جامع میں ایک خطبہ دیا جس میں اس نے امام حسین (ع) کے خلاف لوگوں کو بھڑکایااور کہا کہ حکم یزید سے تمھارے لیے خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے ہیں تم اس کے دشمن حسین (ع) سے لڑنے کے لیے آمادہ ہوجاؤ۔اس کے کہنے سے بے شمار لوگ آمادہ کر بلا ہو گئے اور سب سے پہلے شمر نے روانگی کی درخواست کی ۔چنانچہ شمر کو چارہزار،ابن رکاب کو دوہزار،ابن نمیر کو چار ہزار ،ابن رھینہ کوتین ہزار،ابن خرشہ کو دو ہزار سواردے کر روانہ کر بلا کردیا گیا۔
پانچویں محرم الحرم یوم یک شنبہ۔ اتوار
پانچویں محرم الحرام یوم یک شنبہ اتوار کو شیث ابن ربعی کو چار ہزار،عروہ ابن قیس کو چار ہزار سنان ابن انس کو دس ہزار،محمد ابن اشعث کو ایک ہزار ۔عبداللہ ابن حصین کو ایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کر دیا گیا۔
چھٹی محرم الحرام بروز پیر
چھٹی محرم الحرام بروز پیر کو خولی ابن یزید اصبحی کو دس ہزار کعب ابن الحروکوتین ہزار،حجاج ابن حرکوایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کر دیا گیا۔ان کے علاوہ چھوٹے بڑے اور کئی لشکر ارسال کر نے کے بعد ابن زیاد نے عمر ابن سعد کو لکھا کہ اب تک تجھے اسی ہزار کا کوفی لشکر بھیج چکا ہوں،ان میں حجازی اور شامی شامل نہیں ہیں۔تجھے چاہئے کہ بلاحیلہ حوالہ حسین کو قتل کر دے۔اسی تاریخ کو خوبی ابن یزید نے ابن زیاد کے نام ایک خط ارسال کیا جس میں عمر ابن سعد کے لیے لکھا کہ یہ امام حسین(ع) سے رات کو چھپ کر ملتا ہے۔اور ان سے بات چیت کیاکرتا ہے۔ابن زیاد نے اس خط کو پاتے ہی عمر سعدکے نام ایک خط لکھا کہ مجھے تیری تمام حرکتوں کی اطلاع ہے تو چھپ کر باتیں کرتا ہے۔دیکھ میرا خط پاتے ہی امام حسین (ع) پر پانی بند کر دے اور انھیں جلد سے جلد موت کے گھاٹ اتار نے کی کوشش کر۔
ساتویں محرم الحرام بروز منگل
ساتویں محرم الحرام بروزمنگل عمر ابن حجاج کو پانچ سوسواروں سمیت نہرفرات پر اس لیے مقرر کر دیا گیا کہ امام حسین (ع) کے خیمہ تک پانی نہ پہنچنے پائے  پھر مزید احتیاط کے لیے چار ہزار کا لشکر دے کر حجر کو ایک ہزار کا لشکر دے کر شیث ابن ربعی کو روانہ کیا گیا۔ اور پانی کی بندش کر دی گئی۔پانی بند ہو جانے کے بعد عبداللہ ابن حصین نے نہایت کر یہہ لفظوں میں طعنہ زنی کی  جس سے امام حسین (ع) کو سخت صدمہ پہنچا  پھر ابن حوشب نے طعنہ زنی کی جس کا جواب حضرت عباس نے دیا۔  آپ نے غالباََ طعنہ زنی کے جواب میں خیمہ سے 19قدم کے فاصلہ پر جانب قبلہ ایک ضرب تیشہ سے چشمہ جاری کر دیا۔  اور یہ بتادیا کہ ہمارے لیے پانی کی کمی نہیں ہے۔لیکن ہم اس مقام پرمعجزہ دکھانے نہیں آئے بلکہ امتحان دینے آئے ہیں۔
آٹھویں محرم الحرام بروز بدھ
آٹھویں محرم الحرام بروزبدھ کی شب کو خیمہ آلِ محمد سے پانی بالکل غائب ہو گیا۔اس پیاس کی شدت نے بچوں کو بے چین کر دیا ہے۔امام حسین (ع) نے حالات کو دیکھ کر حضرت عباس کو پانی لانے کا حکم دیا آپ چند سواروں کو لے کر تشریف لے گئے اور بڑی مشکلوں سے پانی لائے۔وَلِذَالِکَ سُمِیَ العَبَّاسُ السقَاء اسی سقائی کی وجہ سے عباس(ع) کو سقاء کہا جاتا ہے۔  رات گزرنے کے بعد جب صبح ہوئی تو یزید ابن حصین صحرائی نے باجازت امام حسین (ع)،ابن سعد کو فہمائش کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔اس نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں حسین (ع) کو پانی دے کر حکومت چھوڑدوں۔  امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ابن حصین اور ابن سعد کی گفتگو کے بعد امام حسین(ع) نے اپنے خیموں کے گرو خندق کھودنے کاحکم دیا۔ اس کے بعد حضرت عباس(ع) کو حکم دیا کہ کنواں کھود کر پانی برآمد کرو۔آپ نے کنواں تو کھودا۔لیکن پانی نہ نکلا۔
نویں محرم الحرام بروز جمعرات
نویں محرم الحرام بروز جمعرات کی شب کو امام حسین اور عمر بن سعد میں آخری گفتگو ہوئی۔آپ کے ہمراہ حضرت عباس اور علی اکبر بھی تھے۔آپ نے گفتگو میں ہر قسم کی حجت تمام کر لی۔نویں کی صبح کو آپ نے حضرت عباس کو پھر کنواں کھودنے کا حکم دیا لیکن پانی بر آمد نہ ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد امام حسین نے بچوں کی حالت کے پیشِ نظر پھر عباس سے کنواں کھودنے کی فرمائش کی آپ نے سعی بلیغ شروع کردی جب بچوں نے کنواں کھدتا ہوا دیکھا تو سب کوزے لے کر آپہنچے۔ابھی پانی نکلنے نہ پایا تھا کہ دشمنوں نے آکر اسے بند کر دیا۔ دشمنوں کو دیکھ کر بچے خیموں میں جا چھپے۔پھر تھوڑی دیر کے بعد حضرت عباس (ع) نے کنواں کھودا وہ بھی بند کر دیا گیا حتی حفراربعا۔یہاں تک کہ چار کنویں کھودے اور پانی حاصل نہ کر سکے۔ اس کے بعد امام حسین (ع) ایک ناقہ پر سوار ہوکر دشمن کے قریب گئے اور اپنا تعارف کرایا لیکن کچھ نہ بنا. مورخین لکھتے ہیں کہ نویں تاریخ کو شمر کو فہ واپس گیااور اس نے عمر ابن سعد کی شکایت کرکے ابن زیاد سے ایک سخت حکم حاصل کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اگرحسین (ع) بیعت نہیں کرتے تو انھیں قتل کرکے ان کی لاش پرگھوڑے دوڑادے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو شمر کو چار ج دے دے ہم نے اسے حکم تعمیل حکم یزید دے دیا ہے۔  ابن زیاد کا حکم پاتے ہی ابن سعد تعمیل پر تیار ہو گیا۔اسی نویں تاریخ کو شمر نے حضرت عباس(ع) اور ان کے بھائیوں کو امان کی پیش کش کی انھوں نے بڑی دلیری سے اسے ٹھکرادیا ( تفصیل کے لیے ملاخطہ ہوذکر العباس از180تا182)
اسی نویں کی شام آنے سے پہلے شمر کی تحریک سے ابن سعد نے حملہ کاحکم دے دیا۔امام حسین (ع) خیمہ میں تشریف فرما تھے۔آپ کو حضرت زینب(ع) پھر حضرت عباس (ع) نے دشمن کے آنے کی اطلاع دی۔حضرت نے فرمایا کہ مجھ پر ابھی غنودگی طاری ہو گئی تھی۔میں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا۔انھوں نے فرمایا کہ انک تروح غدا حسین (ع) تم کل میرے پا س پہنچ جاؤ گے . جناب زینب رونے لگیں اور امام حسین (ع) نے حضرت عباس (ع) سے فرمایا کہ بھیا تم جاکر ان دشمنوں سے ایک شب کی مہلت لے لو۔حضرت عباس(ع) تشریف لے گئے اور لڑائی ایک شب کے لیے ملتوی ہو گئی۔
دسوییں محرم الحرام بروز جمعہ (یومٍ عاشور )
10 محرم سنہ 61 ھ۔ کو میدان کربلا میں نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے بہتّر جاں نثاروں کے ہمراہ دین مقدس اسلام آزادی اور حریت کی پاسداری کے لئے بے مثال شجاعت و دلیری اور ایثار وفداکاری کا عظیم الشان مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردی اور اسلام کو زندۂ جاوید بنادیا ۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : میں ایسے ذلّت آمیز ماحول میں موت کو سعادت و خوش نصیبی سمجھتا ہوں اور ستمگروں کے ساتھ زندگی گزارنے کو ذلت وبدبختی ۔
مطلومیت کا کیسا یہ سکہ جما دیا چشمٍ بشر کو اشک بہانا سکھا دیااعجاز ھے حسین علیہ السلام کاکٹوا کے سر یزید کے سر کو جھکا دیا(صفدر ھمدانی)
قیام کربلا اور اس کے اسرار رموز
کربلا کے واقعہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقوال پر نظر ڈالنے سے، عاشورا کے جو پیغام ہمارے سامنے آتے ہیں ان کوہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔
(1) پیغمبر (ص) کی سنت کو زندہ کرنا:
بنی امیہ یہ کوشش کر رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی سنت کو مٹا کر زمانہٴ جاہلیت کے نظام کو جاری کیا جائے۔ یہ بات حضرت کے اس قول سے سمجھ میں آتی ہے کہ “میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے یا فساد پھیلانے کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔ بلکہ میرا مقصد امت اسلامی کی اصلاح اور اپنے جد پیغمبر اسلام (ص) و اپنے بابا علی بن ابی طالب کی سنت پر چلنا ہے۔”
(2) باطل کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹنا:
بنی امیہ اپنے ظاہری اسلام کے ذریعہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ واقعہ کربلا نے ان کے چہرے پر پڑی اسلامی نقاب کوالٹ دیا،  تاکہ لوگ ان کے اصلی چہرے کو پہچان سکے۔ ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ نے انسانوں و مسلمانوں کو یہ درس بھی دیا کہ انسان کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور دین کامکھوٹا پہنے فریبکار لوگوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔
(3) امر بالمعروف کو زندہ رکھنا:
حضرت امام حسین علیہ السلام کے ایک قول سے معلوم ہوتا ہے، کہ  آپ کے اس قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا ۔ آپنے ایک مقام پر بیان فرمایا کہ میرا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکرہے۔ایک دوسرے مقام پر بیان فرمایا کہ : اے اللہ! میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو بہت دوست رکھتا ہے۔
(4) حقیقی اور ظاہری مسلمانوں کے فرق کو نمایاں کرنا:
آزمائش کے بغیر سچے مسلمانون، معمولی دینداروں اور ایمان کے جھوٹے دعویداروں کو پہچاننا مشکل ہے۔ اور جب تک ان سب کو نہ پہچان لیا جائے، اس وقت تک اسلامی سماج اپنی حقیقت کا پتہ نہیں لگاسکتا۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان، دینی پابندی  و حق پرستی کے دعووں کوپرکھا جا رہا تھا۔ امام علیہ السلام نے خود فرمایا کہ لوگ دینا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تودیندار کم نکلتے ہیں۔
(5) عزت کی حفاظت کرنا:
حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت وآزادی کا مظہر ہے۔ امام علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور  دوسرا  عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجانا۔ امام نے ذلت کو پسند نہیں کیا اور عزت کی موت کو قبول کرلیا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ :  ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میںذلت کوقبول کرنے والا نہیں ہوں۔
(6) طاغوتی طاقتوں سے  جنگ:
امام حسین علیہ السلام کی تحریک طاغوتی طاقتوں کے خلاف تھی۔ اس زمانے کا طاغوت یزید بن معاویہ تھا۔ کیونکہ امام علیہ السلام نے اس جنگ میں پیغمبراکرم (ص) کے قول کو سند کے طور پر پیش کیا ہے کہ ” اگر کوئی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ا ور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کوحرام کررہا ہو،  تواس پر لازم ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے اللہ کی طرف سے سزا دی جائے گی۔”
(7) دین پر ہر چیز کو قربان کردینا چاہئے:
دین کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے بچانے کے لئے ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں ،بھائیوں اور اولاد کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے امام علیہ السلام نے شہادت کو قبول کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی اہمیت بہت زیادہ اور وقت پڑنے پر  اس کو بچانے کے لئے سب چیزوں کو قربان کردینا چاہئے۔
(8) شہادت کے جذبے کو زندہ رکھنا:
جس چیز پر دین کی بقا، طاقت، قدرت و عظمت کا دارومدار ہے  وہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ دین فقط نماز روزے کا ہی نام نہیں ہے یہ خونی قیام کیا ،تاکہ عوام میں جذبہٴ شہادت زندہ ہو اور عیش و آرام کی زندگی کا خاتمہ ہو۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد  فرمایاکہ :  میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں۔ آپ کا یہ جملہ دین کی راہ میں شہادت کے لئے تاکید ہے۔
(9)اپنے ہدف پرآخری دم تک  باقی رہنا:
جو چیز عقیدہ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ ہے اپنے  ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا۔ امام علیہ السلام نے عاشورا کی پوری تحریک میںیہ ہی کیا ،کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے  تسلیم نہیں ہوئے۔ امام علیہ السلام نے امت مسلمہ کو ایک بہترین درس  یہ دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوںکے سامنے ہرگز نہیں جھکنا  چاہئے۔
(10)جب حق کے لئے لڑو تو ہر طبقہ سے کمک حاصل کرو:
کربلا سے، ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر سماج میں اصلاح یا انقلاب منظور نظر ہو تو سماج میں موجود ہر س طبقہ سے مدد حاصل کرنی چاہئے۔ تاکہ ہدف میں کامیابی حاصل ہو سکے۔امام علیہ السلام کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی طرح کے لوگ موجود تھے۔
(11) افراد کی قلت سے گھبرانا نہیں چاہئے :
کربلا ،امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی مکمل طور پر جلوہ گاہ ہے کہ “حق و ہدایت کی راہ میں افراد کی تعدا د کی قلت  سے نہیںگھبرانا چاہئے۔”  جو لوگ اپنے ہدف پر ایمان رکھتے ہیں ان کے پیچھے بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھیوں کی تعداد کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہئے اور نہ ہی ہدف سے پیچھے ہٹنا چاہئے۔ امام حسین علیہ السلام اگر تنہا بھی رہ جاتے تب بھی حق سے دفاع کرتے رہتے اور اس کی دلیل آپ کا وہ قول ہے جو آپ نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ آپ سب جہاں چاہو چلے جاؤ یہ لوگ فقط میرے —–۔
(12)ایثار کے ساتھ سماجی تربیت کوملا دینا:
کربلا ،تنہا جہاد و شجاعت کا میدان نہیں ہے بلکہ سماجی تربیت و  وعظ ونصیحت کا مرکز بھی ہے۔ تاریخ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا یہ پیغام  پوشیدہ ا ہے۔ امام علیہ السلام نے شجاعت، ایثار اور اخلاص کے سائے میں اسلام کو نجات دینے کے ساتھ لوگوں کو بیدار کیا اور ان کی فکری و دینی سطح کو بھی بلند کیا،تاکہ یہ سماجی و جہادی تحریک ،اپنے نتیجہ کو حاصل کرکے نجات بخش بن سکے۔
(13) تلوار پر خون کوفتح:
مظلومیت سب سے اہم اسلحہ ہے۔ یہ احساسات کو جگاتی ہے اور واقعہ کو جاودانی بنادیتی ہے۔ کربلا میں ایک طرف ظالموں کی ننگی تلواریں تھی اور دوسری طرف مظلومیت۔ ظاہراً امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھی شہید ہو گئے۔ لیکن کامیابی انھیں کو حاصل ہوئی۔ ان کے خون نے جہاں باطل کو رسوا کیا وہیں حق کو مضبوطی بھی عطا کی۔ جب مدینہ میں حضرت امام سجاد علیہ السلام سے ابراہیم بن طلحہ نے سوال کیا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟  تو آپ نے جواب دیا کہ اس کا فیصلہ تو نماز کے وقت ہوگا۔
(14) پابندیوں سے نہیں گھبرانا چاہئے:
کربلا کا ایک درس یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنے عقید و ایمان پر قائم رہنا چاہئے۔ چاہے تم پر فوجی و اقتصادی پابندیاں ہی کیوں نہ لگی ہوں۔ امام علیہ حسین السلام پر تمام پابندیاں لگی ہوئی تھی۔ کوئی آپ کی مدد نہ کرسکے اس لئے آپ کے پاس جانے والوں پر پابندی تھی۔ نہر سے پانی لینے پر پابندی تھی۔ مگر ان سب پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی کربلا والے نہ اپنے ہدف سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی دشمن کے سامنے جھکے۔
(15) نظام :
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی پوری تحریک کو ایک نظام کے تحت چلایا۔ جیسے ،بیعت سے انکار کرنا، مدینہ کو چھوڑ کر کچھ مہینے مکہ میں رہنا، کوفہ و بصرے کی کچھ شخصیتوں کو خط لکھ کر انہیں اپنی تحریک میں شامل کرنے کے لئے دعوت دینا۔ مکہ، منیٰ اور کربلا کے راستے میں تقریریں کرنا وغیرہ۔ ان سب کاموں کے ذریعہ امام علیہ السلام اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ عاشورا کے قیام کا کوئی بھی جز بغیر تدبیر کے پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عاشور کی صبح کو امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کے درمیان جو ذمہ داریاں تقسیم کی تھیں وہ بھی ایک نظام کے تحت تھیں۔
(16) خواتین کے کردار سے  استفادہ:
خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو حضرت عیسیٰ ، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم السلام یہاں تک کہ پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے کے واقعات میں بھی خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ اسی طرح کربلا کے واقعات کو جاوید بنانے میں بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا، حضرت سکینہ علیہا السلام، اسیران اہل بیت اورکربلا کے دیگر شہداء کی بیویوں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہونچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک اسیران کربلا نے  ہی پہنچایا ہے۔
(17)میدان جنگ میں بھی  یاد  خدا:
جنگ کی حالت میں بھی اللہ کی عبادت ا ور اس کے ذکرکو نہیں بھولنا چاہئے۔  میدان جنگ میں بھی عبادت و یادخدا ضروری ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور دشمن سے جو مہلت لی تھی، اس کا مقصدتلاوت قرآن کریم ، نماز اور اللہ سے مناجات تھا۔ اسی لئے اپنے فرمایاتھاکہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.