طلوع ِ سحرِ امامت
تاریخ اسلامی میں کچھ ایسی شخصیات بھی گزری ہیں جن کا وجود تمام کمالات سے ملبس تھا۔ان شخصیات میں سے ایک اہم ہستی جناب امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔جناب امیرالمومنین علیعلیہ السلام کی صرف ایک عظمت جو کہ تمام عالم پرفضیلت رکھتی ہے مولا کاکعبۃاللہ میں آنابےمثل ونظیرہے۔مولاسےپہلےاورمولاکےبعدکوئی بھی اس عظیم فضیلت کامالک نہیں بن سکااور نہ بنےگا۔حقیر چند سطورمیں امام علیہ السلام کی آمدکواپنی استعدادکےمطابق مختلف کتب سےبیان کرنے کی کوشش کرےگا۔انشاءاللہ امیرالمومنین علی ابن ابیطالب ؑ کی ذات گرامی اپنی بارگاہ میں اس چھوٹی سی کوشش کوقبول فرمائیں گے۔آمین
میلاد مسعودامیر کائنات،ولی خدا،مالک ممکنات امیر المومنین علی بن ابی طالب ؑ۱۳ رجب المرجب ۳۰ عام الفیل کو کعبۃ للہ (بیت اللہ)میں تشریف لائے۔مولی الموحدین امیر المومنین علی بن ابی طالب ؑسے پہلےاور مولا ؑ کے بعد کوئی بھی شخصیت کعبہ میں نہ آئی ہےاور نہ آئےگی ۔(۲
اسم ِمبارکصاحب الانوار لکھتے ہیں کہ : کتاب خدا میں امیرالمومنین ؑ کے ۳۰۰ نام ہیں،(۳)مشہورترین مولا ؑ کانام امیرالمومنین ؑ ہے ،اور ابن شہر آشوب نے مولا ؑ کے ناموں کو ۸۵۰ سے زیادہ ذکر کیا ہے۔(۴)
کنیت والقاب مبارکامام علیہ السلام کی مشہور ترین کنیت ‘‘ابوالحسن’ ہے مولا کے ان مشہور ترین ناموں کے علاوہ اور بھی نام ہیں جو مختلف آسمانی کتابوںاور مختلف زبانوں میں آئے ہیں ۔جس طرح مولا امیرالمومنین ؑ آسمان والوں کے لئے شمساطیل، زمین والوں کے لئے جمحائیل کے نام سے مشہور ہیں۔لوح میں مولا امیرالمومنین ؑ کا نام قنسوم،قلم میں منصوم، عرش پہ معین اور رضوان کے پاس مولا امیرالمومنین ؑ کا نام مبارک امین ہے۔مولا امیرالمومنین ؑ کا نام مبارک صحف حضرت ابراہیم ؑ میں حزبیل ،زبان عبرانیہ میں بلقیاطیس ،سریانیہ میں شروحیل،تورات میں ایلیا ،زبور میں اریا، انجیل میں بریااور قرآن میں مولا ؑ کا نام علی ہے۔(۵)
مولا کے مشہور ترین القاب یہ ہیںیعسوب الدین، امام المسلمین، قاتل الناکثین و القاسطین و المارقین، قائد غر المحجلین، مرتضی، رئیس الموحدین، نفس الرسول، امن الرسول، زوج البتول، سیف الله، امیرالبرره، قاتل الفَجَره، صاحب اللواء، قسیم الجنہ و النار، سید العرب، عین الله الناظره،مظهر العجائب، والد السبطین، اسد الله الغالب، کلام الله الناطق، المحامی عن حرم المسلمین، وارث علم النبیین، وجہ الله الزاهره، صالح المومنین، رحمۃ الله الواسعۃ، کشاف الکب، صدیق الاکبر، هادی، فاروق الاعظم، باب المدینہ العلم، خازن علم الله، میزان القسط، عروة الوثقی، مطهر، شاهد، نفس الله، حیاة العارفین، حبل الله المتین، صلوة المومنین، ولی المتقین، لسان الله، سید الوصیین، عون المومنین، بحر العلوم، ولد المہسنات، نعیم، ابن الصفا،نبأ العظیم۔
والدین گرامیامام علیہ السلام کے والد محترم عالی مقام حضرت سید بطحاء جناب ابو طالب علیہ السلام ہیں اور والدہ محترمہ بی بی پاک دامن ،طاہرہ حضرت فاطمہ بنت ااسد بن ھاشم بن عبد مناف ہیں۔یہ بی بی ِپاک دامن خاندان بنی ھاشم میں پہلی عظیم و با فضیلت خاتون ہیں جن کے بطن مبارک سے امیرالمومنین علی علیہ السلام کا نور ولایت اس دینا میں ظاہر ہوا۔سبحان اللہ کیا فضیلت تھی اس بی بی پاک طاہرہ کی یہ صرف والدہ امیرالمومنین ؑ نہ تھیں بلکہ حضرت عبد المطلب ؑ کی وفات کے بعد جب رسول اکرم ﷺ سن مبارک ۶ یا ۷ سال تھا رسول معظم ﷺکی پرورش کا ذمہ بھی جناب حضرت ابو طالب ؑ کو سونپا گیا ۔حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا ہمیشہ پیغمبر اکرم ﷺکو اپنی اولاد پر ترجیح دیتی تھیں اور ہر روز رسول اکرم ﷺسے علامات نبوت کا مشاہدہ کرتی تھیں رسول اکرم ﷺبھی ان کو ہمیشہ ماں کے نام سے خطاب کیا کرتے تھے۔(۶)اسی طرح جناب حضرت خدیجہسلام اللہ علیہاکی وفات کے بعد بھی رسول اکرم ﷺنے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکو بھی اس بی بی پاک دامن کے سپرد کیا ۔جناب فاطمہ بنت اسدسلام اللہ علیہاسگی ماں کی طرح بی بی پاک فاطمہ زہرا سلام اللہ کی پرورش کرتی رہیں یہاں تک کہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔(۷)جب امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنی ماں کی وفات کی خبر رسول اکرمﷺ کو دی تو رسول اکرم ﷺنے فرمایایہ میری ماں تھیں ۔اس کے بعد رسول اکرم ﷺ نے اپنا عمامہ اور لباس فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکو دیتے ہوئے فرمایا ان کپڑوں سے مخدومہ عالیہ کو کفن دیں مخدومہ کا جنازہ بھی رسول اکرم ﷺ نے خود پڑھایا اور جنازہ نماز میں ۴۰ تکبیریں کہیں اور فرمایا چالیس [۴۰]صفیں ملائکہ کی نماز جنازہ میں شریک ہوئی ہیں اس لئے میں نے چالیس تکبیریں کہیں ہیں اس کے بعد رسول اکرم خود قبر میں سوئے اور بی بی کے لئے دعا فرمائی (۸)
نور ِ امیر المو منین علیہ السلامحدیث ولادت امیر المومنین ؑ (بہت معروف و مشہور حدیث ہے )جوایمان والدین امیرالمومنین پہ دلالت کرتی ہے (۹) ۔نور الہٰی پروردگار کی طرف سےجناب عبدالمطلب ؑ کی صلب میں آیااس کے بعدیہ نور دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔ایک نور کاحصہ جناب عبداللہ (والد محترم رسول اکرمﷺ) کی پیشانی میں منتقل ہوا جس کا نتیجہ جناب آمنہ سلام اللہ علیہا کے بطن مبارک سے رسول اکرم ﷺ کی صورت میں اس دنیا میں ظاہر ہوا۔نورکا دوسرا حصہ جناب ابو طالب ؑ(والد محترم امیرالمومنینؑ)کی پیشانی مبارک میں منتقل ہواجب یہ نور جناب فاطمہ بنت اسد (والدہ محترم امیرالمومنینؑ ) کی طرف منتقل ہوا اس نور نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی پیشانی کو نورانی کر دیا اور مخدومہ کی پیشانی ہمیشہ منور نظر آتی تھی۔
محل ولادتامیر المومنین ؑ کو ذات اقدس کے سواءکوئی بھی آج تک بیت اللہ جیسے مقدس ترین مقام پر پیدا نہیں ہوا اور دنوں کے لحاظ سے آپ دنوں کے سردار جمعۃ المبارک ماہ مبارک رجب المرجب میں ظاہراً تشریف لائے ۔(۱۰)امیر المومنینؑ نے اپنی آنکھوں کو تین دن تک نہیں کھولا یہاں تک کہ پیغمبر اکرمﷺ کی زیارت کی (۱۱)پیغمبر اکرمﷺ کی زیارت کے بعد رسول اکرم ﷺ مولا کو جناب ابو طالب کے گھر لیکر آئے(۱۲)
پیشن گوئیِ ولادت امیرالمومنینؑجابر بن عبداللہ انصاریؓ روایت نقل کرتے ہیں :مثرم بن رعیب کے نام سے ایک راہب تھا جس نے ۱۹۰ سال خداوند متعال کی عبادت کی تھی مگر خدا وند متعال سے کوئی چیز نہیں مانگی تھی ایک دن اس راہب نے خدا سے دعا مانگی ۔یا اللہ! اے میرے خدا! میں چاہتا ہوں کسی ولی کو دیکھوں خدا وند متعال نے اس راہب کی دعا قبو ل فرمائی اور جناب ابو طالب ؑ کو اس کے پاس بھیجا مختصرا ًراہب نے جناب ابو طالب ؑ کو بشارت دی:وَلَدٌ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِكَ هُوَ وَلِيُّ اللَّهِ تَبَارَكَ اسْمُهُ وَ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَ هُوَ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ وَ وَصِيُّ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَإِنْ أَدْرَكْتَ ذَلِكَ الْوَلَدَ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ وَ قُلْ لَهُ إِنَّ المثرم يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَ هُوَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ وَ أَنَّكَ وَصِيُّهُ حَقّاً بِمُحَمَّدٍ يَتِمُّ النُّبُوَّةُ وَ بِكَ يَتِمُّ الْوَصِيَّةُ قَالَ فَبَكَى أَبُو طَالِبٍ وَ قَالَ لَهُ مَا اسْمُ هَذَا الْمَوْلُودِ قَالَ اسْمُهُ عَلِيٌّاے ابوطالب !عنقریب خداوند کریم آپ کو ایک فرزند عطا کریگا جو ولی خدا ہو گا،امام المتقین اور وصی مصطفیٰﷺہو گاجب آپ اس کو ملیں تو ان کو میرے سلام کہنا اور کہنا کہ میں مثرم راہب گواہی دیتا ہوں کہ خدا وحدہ لا شریک ہے ،محمد ﷺ اللہ کے عبد و رسول ہیں اور آپ (علیؑ) محمد مصطفیٰﷺ کے حق کے وصی ہیں۔حضرت محمد ﷺ کے ذریعے نبوت ختم ہوگی اور آپ کے ساتھ وصایت ختم ہوگی۔جناب ابو طالبؑ نے سوال کیا اس بچے کا نام کیا ہوگا؟ راہب نے کہا اس کا نام علی ؑ ہوگا۔(۱۳)
والدہ محترمہ علی ؑ کعبہ میں۱۳ رجب المرجب کی رات جناب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا نے احساس درد کیا لیکن کجھ اسماء کا ذکر کرنے سے آرام ہوگیا۔جنا ب ابو طالب ؑ نے چاہا کہ قریش کی چند عورتوں کوجناب فاطمہ بنت اسد کی مدد کیےلئے بلائیں ۔اچانک ایک طرف سے آواز آی ۔ااے ابو طالب !صبر کریں معمولی ہاتھ ولی خدا کو لمس نہ کریں ۔جب صبح ہوئی تو جناب فاطمہ بنت اسد نے ایک ندا سنی اے فاطمہ !ہمارے گھر تشریف لائیں (۱۴)رسول اکرم ﷺ و جناب ابو طالب ؑ فاطمہ بنت اسد کو مسجد الحرام (کعبۃ اللہ) تک لائے ۔عباس بن عبدلمطلب، یزید بن قعنب کجھ لوگوں کےساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھےدیکھا فاطمہ بنت اسدسلام اللہ علیہا مسجد الحرام میں داخل ہوئیں اور کعبۃ اللہ کے سامنے آکر اپنی نگاہیں آسمان کی طرف کر کے اس طرح خدا سے راز و نیاز کر رہی ہیں :خدایا !میں آپ پر اور آپ کے تمام بھیجےہوئے پیغمبروں پر اور ان تمام کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں جو آپ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔میں اپنے جد ابراہیم خلیل اللہ ؑ کے کلام کی تصدیق کرتی ہوں اور وہی تھے جنہوں نے آپ کے گھر کو بنایا تھا ۔خدایا !میں آپ کو قسم دیتی ہوں اس نبی کی جنہوں نے اس گھر کو بنایا اور اس فرزند کی جو میرے اس شکم میں ہےجومجھ سے باتیں کرتا ہے اور اس کے بولنے سے مجھے انس و سکون ملتا ہے۔ خدایا مجھے یقین ہے یہ تیری نشانیوں میں سے ایک نشانی ہےاس مولودکے صدقے اس ولادت کو آسان فرما(۱۵)جو لوگ مسجد الحرام میں بیٹھے تھے دیکھتے ہیں اچانک پشت دیوار ِکعبہ شق ہوتی ہے کعبۃاللہ میں ایک دروازہ بنتا ہےاور جناب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا اندر داخل ہو جاتی ہیں۔اس کے بعد وہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں نے بہت کوشش کی کہ کعبۃ اللہ کے دروازہ پہ لگے ہوئے قفل کو کھولیں لیکن اپنی کوشش میں ناکام ہوئے اور قفل نہ کھلا تو ان کو سمجھ آگیا جو بھی ہے حکمت و مصلحت ِ خدا وند متعال ہے(۱۶)جناب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا بیان کرتی ہیں جس وقت میں کعبۃ اللہ میں داخل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہاں جناب حوا ، جناب سارا ،جناب آسیہ اور والدہ جناب موسیٰ بن عمراناور والدہ جناب عیسیٰ سلام اللہ علیہم موجود ہیں انہوں نے مجھے سلام کیا :السلام علیک ِ یا ولیۃاللہ اس کے بعد میرے سامنے بیٹھیں اور انہوں نے وہی کام انجام دئیے جو ولادت رسول اکرم ﷺ پر انجام دیئے تھے۔(۱۷)
روز ولادت امیرالمومنین علی بن طالب ؑمولا امیر علیہ السلام کا اس دنیا میں ظہور دنوں کے سردار دن روز جمعہخورشید کی طرح کعبۃ اللہ میں ہوا ۔فقَدْ سَجَدَ عَلَى الْأَرْضِ وَ هُوَ يَقُولُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ وَ أَشْهَدُ أَنَّ عَلِيّاً وَصِيُّ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ وَ بِمُحَمَّدٍ يَخْتِمُ اللَّهُ النُّبُوَّةَ وَ بِي يُتِمُّ الْوَصِيَّةَ وَ أَنَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِين۔۔امام علی علیہ السلامنے سجدہ کیا اور فر مایا میں گواہی دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کے سواء کوئی خدا نہیں ہے، محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ کے رسول ہیں ،ان کےذریعے سے اللہ نے نبوت کو ختم کیا ،مجھ سے وصیت کو ختم کریگااور میں علی ؑ مومنوں کا امیر ہوں۔(۱۸)اس کے بعد مولا نے فرمایا :جاء الحق و زھق الباطل، حق آیا باطل گیاجیسےہیمولاامیرالمومنین ؑ کےوجودپاککاکعبۃاللہمیں ظہورہواکعبۃ اللہ میں جو بت تھے وہ زمین پر گر پڑےاور شیطان کی مسلسل یہ آواز آ رہی تھی جو بلند آواز سے زور زور سے پکار رہا تھا اس بچے کی وجہ سے وائے ہو ان بتوں پر اور ان کی عبادت کرنے والوں پر ۔
امیر المومنینؑ کا ولادت کے بعد باتیں کرنا۔مولا نےپیدا ہوتے ہی بہشت سے آنے والی بیبیوں پر سلام کیا سب بیبیوں نے مولا کو آغوش میں لیا مولا نے ان سے تکلم کیا جب بی بی حوا ؑ نے آغوش میں لیا۔ مولا نے فرمایا اے مادر حوا !میرا سلام ہو آپ پر جناب حوا نے بھی کہا بیٹا میرا بھی آپ پر سلام ہو،اسی طرح مولا نے تمام بہشتی خواتین سے تکلم کیا اور انہوں نے بھی مولا سے تکلم کیا۔انخواتینکےجانےکےبعدپیامبرانالٰہیعلیھمالسلامجنابآدم ؑ ،جنابنوح ؑ،جنابابراہیمؑ،جنابحضرتعیسیٰؑوجنابحضرتموسیٰ ؑ تشریفلائےپیامبراننےآتےہیمولاکوسلامکیاسلامہوآپپراےولیخدا،اےوصیپیغمبر ؐ خدا ۔مولانےانکوجوابدیا (۱۹) اسکےبعدملائکہکےگروہآتےرہےاورمولا ؑ کےمختلففضائلومناقبپڑھتےرہے(۲۰)
حوالہ جات(ا)علامہ امینی،فی بحث ولادت امیرالمومنین ؑ،الغدیرج ۶ ص ۲۲۔(۲)عزّالدین،مناقب بن شہرآشوب، ج ۳ ص۳۱۱۔(۳)عزّالدین،مناقب بن شہرآشوب ج۳ ص۳۲۱۔(۴)عزّالدین،مناقب بن شہرآشوب ج۳ ص۳۱۹۔(۵)خراسانی،محمدہاشم،منتخب التواریخ،۱۱۳۔(۶)بیہقی،نیشاپوری،منتخب التواریخ،ص ۱۱۳۔(۷)ذبیح اللہ محلاتی،ریاحین الشریعہ،ج۳،ص۷۲۔ (۸)اعلام الوریٰ ج ۱ ص ۳۰۶(۹)ریاحین الشریعہ،ج ۳ ،ص ۶ ، ۷ ۔(۱۰)عزّالدین،مناقب بن شہرآشوب ج۲ ،ص ۲۰۰ ۔(۱۱)عزّالدین،مناقب بن شہرآشوب ج۲ ،ص ۲۰۴، ۲۰۵ (۱۲)علامہاربلی،کشف الغمہ،ج ۱ ص ۵۹ ۔(۱۳)عزّالدین،مناقب بن شہرآشوب ج ۲ ص ۱۹۲ ، (۱۴)مجلسی،محمدباقر،بحارالانوار،ج۳۵ص۵موسسۃالوفا،بیروت،وعزّالدین،(۱۵)علامہ مجلسی ،محمد باقر،بحارالانوار،ج۳۵ ص ۳۶ موسسۃ الوفاء،بیروت لبنان۔(۱۶)علامہ مجلسی ،محمد باقر،بحارالانوار،ج۳۵ ص ۷موسسۃ الوفاء،بیروت لبنان۔(۱۷)علامہ مجلسی ،محمد باقر،بحارالانوار،ج۳۵ ص ۶موسسۃ الوفاء،بیروت لبنان۔(۱۸)علامہ مجلسی ،محمد باقر،بحارالانوار،ج۳۵ ص ۱۰ موسسۃ الوفاء،بیروت لبنان۔(۱۹)ميرزا،محمدعلی،علیوليدالكعبہ، ص ۳۶ ۔(۲۰)ميرزا،محمدعلی،علی وليدالكعبہ، ص ۳۶ ۔**************