حکومتِ امام زمان عج (اسلامی گلوبلائزیشن)
ان دنوں دنیامیں اس موضوع سے متعلق ہونے والی مباحث اور مغرب میں ہونے والی تبلیغات سے جو چیزسامنے آتی ہےکہ پوری دنیا پر حکومت کرنا اور اس کے لئے مغربی ممالک لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں بلکہ بعض مغربی ممالک میں انہوں نے اس کو نافذ بھی کیا ہےلیکن دنیا میں گلوبلائزیشن سے متعلق ہونے والے گفتگو سے حقیقت کا دور دور تک کوئی ارتباط نہیں ۔یہ نظام مغربی ممالک کے لئے تو ہو سکتا ہے لیکن اسلامی ممالک کے لئے یہ نظام کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ اگر ہم گلوبلائزیشن کی درست اور واقعی تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہےکہ اس سے مراد ‘‘اسلامی دستوری ڈھانچے اور اسلوب پر استوار بین الاقوامی معاشرے کاقیام’یا‘‘دنیا پر اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرنا’ایسی گلوبلائزیشن خداوندمتعال کا قطعی فیصلہ ہے جس کا وعدہ قرآن مجید اور پیغمبر اکرمﷺ کی سنت میں کیاہے اور عقلی و برہانی اعتبار سے بھی نہ صرف ممکن ہی نہیں بلکہ قابل تحقق اور نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ انسان کے اپنے بنائے ہوئے تمام نظام ناپختہ و ناپائیدار ہیں۔جی ہاں! بشریت کے حق میں خداوندمتعال کا یہ وعدہ عملی ہو کر رہے گا اور وہ حضرات معصومین علیہم السلام کے پاکیزہ معارف سے ضرور سیراب ہوکر رہیں گے۔مغربی گلوبلائزیشن ایسے بشری نظریات سے مقابلہ کرنے کی توان نہیں رکھتی جو عقل اور فطرت سے الہام لیتے ہوئے دینی ثقافت اورتفکرات کے مطابق ہوں جو در حقیقت وحی الہٰی اور پیغمبر اکرم ﷺ کی اس پاکیزہ سنت سے طلوع ہوں جن کی جڑیں بشریت کے وجود کی گہرائیوں میں مضبوطی سے موجود ہیں۔آج کی دنیا میں جہاںمیڈیا اور انٹرنیٹ نےتمام حدود کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ایک انقلاب برپا کررکھا ہے اسے اسلام کی بےنظیر معنوی ثقافت سے متأثر ہوکر اس مادی بے رونق اوربےجان معاشرے میں قرآن وعترت کا پیغام پہنچا کر ایک نئی روح پھونکنےکی ضرورت ہے۔قرآن و عترت کے وہ گوہر باراور ناب معارف اگر تشنگان حقیقت تک پہنچ جائیں اور بشریت ان پاکیزہ معارف سے آشنا ہوجائے تو تمام جہان میں انہیں معارف کا بول بالا ہوگا ہر طرف انہیں کے خریدار ہوں گے اور اس طرح اسلام کی معنوی گلوبلائزیشن دنیا بھر میں رفتہ رفتہ استوار ہوتی جائے گی۔ اس مقدس ہدف تک رسائی کے لیے کوشش کرناتمام باایمان افراد،اداروں،دینیمدارس،کالجز اوریونیورسٹیوں کی ذمہ داری ہے۔تاکہ اس طرح اسلام کی مطلوبہ گلوبلائزیشن کے حصول کے لیے علمی اور عملی اقدامات کر کےبین الاقوامی سطح پر اسلام کا صحیح تعارف کروایاجاسکے۔ہم اپنی اس مختصر تحقیق میںاسلامی گلوبلائزیشن یعنی اسلام کی عالمی حکومت سے متعلق قرآن و سنت کی بشارت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی مناسب وضاحت کریں گے ہمیں امید ہے قطب عالم امکان ،منجی بشریت حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہماری اس کاوش سے خوشنود ہوکر ہمارا شمار اپنے مخلص سپاہیوں میں فرمائیں گے۔
مہدویتاسلامی گلوبلائزیشن کے لیے الہام بخشالہٰی گلوبلائزیشن در حقیقت تاریخ بشریت میں رونما ہونے والے تمام انقلابات کے مقابلے میں عظیم ترین انقلاب یعنی حضرت صاحب الزمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی عالمی حکومت کے ذریعہ ہی متحقق ہوگی ۔خاندان عصمت و طہارت کے اس عظیم نورانی سرمائے کے ظہور کے دوران اسلام عالمی سطح پرحکمفرما ہوگا اور پوری دنیا میں ایک ہی اسلامی حکومت برسر اقتدار ہوگی ۔جی ہاں! اسلام کے پرچم کا پوری دنیا میں لہرانا ہمارا خواب ہی نہیں بلکہ ایسی یقینی حقیقت ہے جو حضرت قائم آل محمد عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے بعد سوفیصد متحقق ہوگی ۔ شیعہ سنی روائی منابع میں موجود نہایت ہی معتبر ترین روایات میں اس مطلب کی طرف کثرت سے اشارہ کیا گیا ہے اورانہی روایات میں اسلامی گلوبلائزیشن یعنی حضرت صاحب الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی بین الاقوامی اسلامی حکومت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔پیغمبر اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:’أُبَشِّرُكُمْ بِالْمَهْدِيِّ يُبْعَثُ فِي أُمَّتِي۔۔۔۔ فَيَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً يَرْضَى عَنْهُ سَاكِنُ السَّمَاءِ وَ سَاكِنُ الْأَرْضِ يَقْسِمُ الْمَالَ صِحَاحاً فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ وَ مَا صِحَاحاً قَالَ السَّوِيَّةُ بَيْنَ النَّاسِ‘‘(۱)میں آپ کو مہدی ؑکے ظہورکی بشارت دیتا ہوں،وہ میری امت میں ظہور کریں گے۔۔اور زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔آسمان و زمین کے تمام مکین اُن سے راضی وخشنود ہوں گےوہ مال و دولت کو لوگوں میں درست تقسیم کرے گا۔ اسی اثنا میں ایک شخص نے اٹھ کر پیغمبر اکرم ﷺسے سوال کیا کہ اموال کی درست تقسیم سے کیا مراد ہے؟آپؐ نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں مساوات کے قانون کی مراعات کرنا۔(۱)
اس نورانی حدیث میں پیغمبر اکرم ﷺ نےاس حکومت کی تشکیل سے متعلق دنیا کے کسی خاص نقطہ کی طرف اشارہ نہیں فرمایا بلکہ ‘‘ارض’ کا لفط استعمال فرماکر تمام دنیا پر اس حکومت کے استقرار کی بشارت دی ہے اور دوسرا کلمہ ‘‘ناس’کا استعمال فرمایا ہے یعنی دنیا کے تمام لوگوں میں بطور مساوی اموال کو تقسیم فرمائے گا جس سے تمام جہان میں عدل وانصاف کی فراہمی ممکن ہوگی۔اس دنیا میں رائج امتیازی اور طبقاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا سے نوے فیصد جرائم کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور اس طرح سے زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی۔زمین و آسمان میں رہنے والی تمام مخلوقات اس حکومت سے راضی ہوں گےاوراس نورانی حدیث سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے یہ حکومت حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت سے کئی گنا عظیم تر ہو گی۔ایک دوسری حدیث میں حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی تمام کرۂ ارض پرعالمیحکومت کی طرف اشارہ ملتاہے:’قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:لَا تَنْقَضِي السَّاعَةُ حَتَّى يَمْلِكَ الْأَرْضَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً۔۔۔‘‘(۲)قیامت اس وقت تک رونما نہیں ہو گی جب تک میرے اہلبیت میں سے ایک شخص زمین پر حکومت کر کے اسے عدل وانصا ف سے پر نہیں کر دیتا اسی طرح جیسے وہ پہلے ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔اس حدیث کوابوسعید خدری نے پیغمبر اکرم ﷺسے نقل کیا ہے اور یہی حدیث شریف ایک دوسری نقل کے مطابق عبدالله بن عمر سے بھی منقول ہے جس میں اس طرح سے بیان ہوا ہے:’قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَا يَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمْلِكَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً‘‘(۳)روز قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگا جب تک میرے اہلبیت سے ایک شخص زمین کا مالک اور حکمران نہیں بن جاتا جو میرا ہمنام ہوگا اورزمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے لبریز ہو گی۔حذیفہ بن یمان پیغمبراکرم ﷺکے اس فرمان کوجس میں آپ ؐ نے زمین و آسمان کے مکینوں کی حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خلافت الہٰیہ پر رضایت سے متعلق بشارت دی ہےاس طرح بیان کرتا ہے:’عَنِ النَّبِيِّ ص أَنَّهُ قَالَ الْمَهْدِيُّ مِنْ وُلْدِي وَجْهُهُ كَالْقَمَرِ الدُّرِّيِّ۔۔۔۔ يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً يَرْضَى بِخِلَافَتِهِ أَهْلُ السَّمَاوَاتِ وَ أَهْلُ الْأَرْضِ وَ الطَّيْرُ فِي الْجَوِّ۔۔‘‘(۴)مہدی(عج)میرے فرزندوں میں سے ہے ان کا نورانی چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند درخشاں ہوگا وہ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی ان کی خلافت اور عالمی حکومت پر تمام آسمان و زمین کے مکینوں کے علاوہ ہوا میں اڑنےکرنے والے پرندے بھی راضی ہونگے۔یہی حدیث مختلف الفاظ سے مختلف سندی سلسلوں کے ساتھ پیغمبر اکرمﷺسے نقل ہوئی ہے:’قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّى يُخْرِجَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً‘‘(۵)اگردنیا کی مادی زندگی سے فقط ایک دن باقی بچا ہو تو خداوندمتعال اس دن کو اس قدر طولانی فرمائے گا تاکہ میرے اہلبیت میں سے ایک فرد ظہور فرمائے جو زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام حضرت صاحب الزمان (عج)کے والد بزرگوار اپنے فرزند کے دیدار کی ایک جھلک دیکھنے پر خداوندمتعال کی حمد و ستایش بیان کرتے ہوئےحضرت مہدی(عج)کی عدل و انصاف پر مشتمل عالمی حکومت سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:’الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يُخْرِجْنِي مِنَ الدُّنْيَا حَتَّى أَرَانِي الْخَلَفَ مِنْ بَعْدِي أَشْبَهَ النَّاسِ بِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خَلْقاً وَ خُلْقاً يَحْفَظُهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى فِي غَيْبَتِهِ ثُمَّ يُظْهِرُهُ فَيَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً‘‘(۶)خداوندمتعال کی حمد و ثناء کرتا ہوں جس نے اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے ہی مجھے میرے جانشین کا دیدار کروادیا جو خلق و خُو میں رسول خدا ﷺسے شبیہ ترین ہےخداوندمتعال اسے اس کی غیبت کے دوران اپنی حفظ و امان میں رکھے گا اور ان کا ظہور فرما کر ان کے ذریعہ زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و جور سے مملو ہوگی
پھر امام حضرت مہدی ؑ پر درود و سلام بھیجتے ہوئے ان کے لیے اس طرح سے دعا فرماتے ہیں:’وَ اقْصِمْ بِهِ جَبَابِرَةَ الْكُفْرِ وَ اقْتُلْ بِهِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنَافِقِينَ وَ جَمِيعَ الْمُلْحِدِينَ حَيْثُ كَانُوا مِنْ مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَ مَغَارِبِهَا بَرِّهَا وَ بَحْرِهَا وَ امْلَأْ بِهِ الْأَرْضَ عَدْلًا‘‘(۷)خداوندا!حضرت مہدیؑ کے ذریعے زمین کے مشرق،مغرب،خشکیاورتریمیں موجودتمامسرکشکافروں،منافقوں اور ملحدوں کی گردنوں کو توڈ ڈال اور انہیں کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے۔یقیناًمعصوم علیہ السلام کی یہ دعاحضرت حق متعال کی بارگاہ میں مستجاب ہوگی اور زمین کےتمام طغیان گر سرپھروں سے صفایا ہوکر رہے گا اورمعصوم امام علیہ السلام کی سرپرستی میں پوری دنیا پر ایک واحد اسلامی حکومت قائم ہوکررہے گی ۔اس طرح اسلامی گلوبلائزیشن کا وہ خواب عملی ہوگا جس کی بشارت خود خداوند متعال نے قرآن مجید میں دی اورحضرات معصومین علیہم السلام نےبھی اسی الہٰی بشارت کا بارہا تذکرہ فرما یا ہے۔محمدبن مسلم کہتا ہے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا میں چاہتا تھا کہ آپ ؑ سےحضرت قائم آل محمد ؑ کے متعلق سوال کروں۔ ابھی میں نے حضرت کے سامنے لب کشائی نہیں کی تھی کہ خود حضرت نے میرا جواب دیتے ہوئے اس طرح سے گفتگو کا آغاز فرمایا:’إِنَّ فِي الْقَائِمِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ ص شَبَهاً مِنْ خَمْسَةٍ مِنَ الرُّسُلِ۔۔۔ أَمَّا شَبَهُهُ مِنْ جَدِّهِ الْمُصْطَفَى ص فَخُرُوجُهُ بِالسَّيْفِ وَ قَتْلُهُ أَعْدَاءَ اللَّهِ وَ أَعْدَاءَ رَسُولِهِؐوَالْجَبَّارِينَوَالطَّوَاغِيتَوَأَنَّهُيُنْصَرُبِالسَّيْفِوَالرُّعْبِ۔۔۔‘‘(۸)اے محمد بن مسلم! حضرت قائم آل محمدؐ میں پانچ پیغمبروں سے پانچ شباہتیں پائی جاتی ہیں۔۔۔ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ مشابہت پائی جاتی ہے کہ لوگ ان کے بارے میں اختلاف عقیدہ کا شکار ہوں گے؛بعض کہیں گے وہ متولد ہو چکےہیں،بعض کہیں گے وہ وفات پا چکے ہیں،بعض کہیں گے وہ قتل ہو چکے ہیں۔۔۔اے محمد بن مسلم! حضرت قائم آل محمدؐ میں پانچ پیغمبروں سے پانچ شباہتیں پائی جاتی ہیں۔۔۔ان میں ان کے داد پیغمبر اکرم ﷺ سے یہ مشابہت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے داد کی طرح تلوار کے ذریعہ قیام فرماتے ہوئے خداوندمتعال اور اس کے پیغمبر کے جباراورطاغوت دشمنوں کا صفایا کریں گے۔ان کی تلوار ہی کے ذریعہ دشمنوں کے دلوں میں رعب و دبدبہ ایجاد کرنے میں مدد ہوگی۔اس نورانی حدیث میں تلوار کے ذریعہ خدا اور اسکے پیغمبروں کے دشمنوں کی طاغوت حکومتوں کا پوری دنیا میں سرنگوں ہونا صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔لہٰذا حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے قیام سے پوری دنیا کی طاغوت قوتوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور ایک ہی الہٰی اسلامی حکومت پوری دنیا میں حکمفرما ہوگی۔خداوندمتعال نے معراج کی رات اپنے حبیب پیغمبر اکرم ﷺ کی خدمتاقدس میں اُن کے اہلبیت علیہم السلام کے فضائل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’بِالْقَائِمِ مِنْكُمْ أَعْمُرُ أَرْضِي۔۔۔۔ بِهِ أُطَهِّرُ الْأَرْضَ مِنْ أَعْدَائِي وَ أُورِثُهَا أَوْلِيَائِي وَ بِهِ أَجْعَلُ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِيَ السُّفْلَى وَ كَلِمَتِيَ الْعُلْيَا وَ بِهِ أُحْيِي عِبَادِي وَ بِلَادِي ۔۔۔۔۔ ‘‘(۹)آپ کے قائم کے ذریعہ میں اپنی زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کرتے ہوئے آباد کروں گا اور اپنے اولیاء کو اس کاوارث بناؤں گااور انہی کے ذریعےکافروں کی چہ مگوئیوں کو نیچا دکھاتے ہوئے اپنے کلام کو بلند کروں گا اورانہی کے ذریعے اپنے بندوں اوربلاد کو زندہ کروں گا۔اس حدیث قدسی میں خداوندمتعال نے اپنے تمام دشمنوں کی نابودی کاوعدہ کرتے ہوئے زمین کی آبادانی کے بعد اپنے اولیاء کو اس کا وارث قرار دینے کی بشارت دی ہے۔لہٰذا حضرت مہدیؑ کے عالمی انقلاب کے دوران پوری دنیا میں تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
پیغمبر اکرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں:’لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَقُومَ بِأَمْرِ أُمَّتِي رَجُلٌ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ يَمْلَأُهَا عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً‘‘(۱۰)دنیا کے انجام سے پہلے حسین ؑ کی نسل سے ایک مرد میری امت کی سرپرستی کے لیے قیام کرے گا جو زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے مملو ہو گی۔پیغمبر اکرمﷺ کی اس نورانی حدیث میں عالمی سطح پر عدالت کے قیام کی بشارت دی گئی ہے۔یہاں کسی خاص ملک میں عدالت کے نفاذ سے متعلق بحث نہیں کی جا رہی بلکہ حضرت امام زمان ؑ تمام دنیا میں عدل و انصاف برقرار فرمائیں گے۔ابوہریره پیغمبر اکرمﷺسے نقل کرتا ہے:’لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا لَيْلَةٌ لَمَلَكَ فِيهَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي‘‘(۱۱)اگر دنیا کی عمر فقط ایک رات بھر کے لیے باقی رہ جائے تو میرے اہلبیت میں سے ایک مرد اسکا مالک اور حاکم ہوگا۔اس روایت میں اگر‘‘فیہا’کی ضمیر کو‘‘دنیا’ کی طرف پلٹائیں توحضرت مہدی ؑ کی عالمی حکومت کی طرف واضح اشارہ ہوگا اور اگر ضمیر کو‘‘لیلۃ’یعنی رات کی طرف پلٹائیں تو تب بھی حضرت کے الہٰی انقلاب کی اہمیت کی خاطر حضرت کے تمام دنیا پر تسلط کی طرف اشارہ ہے۔یہی حدیث پیغمبر اکرم ﷺ متعدد طرق سے نقل ہوئی ہے جیسے ارشاد ہوا ہے:’لَمْ يَبْقَ مِنَ الدَّهْرِ إِلَّا واحدا(يَوْمٌ وَاحِدٌ) لَبَعَثَ اللَّهُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً‘‘(۱۲)اگر دنیا کا فقط دیک دن باقی رہ گیا ہو تب بھی خداوندمتعال اس دن میرے اہلبیت سے تعلق رکھنے والے ایک مرد کو مبعوث فرمائے گا جوعدل و انصاف کے نظام سے اس دنیا کو اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے مملو تھی۔حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہم السلام حضرت مہدی (عج)کے ہاتھوں دنیا جہان کے تمام ظالم حکمرانوں کی نابودی سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:’لَيَعْزِلَنَّ عَنْكُمْ أُمَرَاءَ الْجَوْرِ وَ لَيُطَهِّرَنَّ الْأَرْضَ مِنْ كُلِّ غَاشٍّ وَ لَيَعْمَلَنَّ بِالْعَدْلِ ‘‘(۱۳)یقینا تم میں سے ظالم ستمگر وں کو معزول کردے گا اور اس طرح پوری دنیا کو مکار چال باز حکمرانوں سے پاک کرنے کے بعد عدل و انصاف پر مشتمل نظام قائم کرے گا۔حضرت امیرالمؤمنینعلیہالسلامکی اس نورانی حدیث میں کلمہ ‘ارض‘‘استعمال ہوا ہے اور تمام افعال کی نون تاکید ثقیلہ کے ساتھ تاکید کی گئی ہے یعنی بطورقطع و یقین حضرت مہدی ؑ کے انقلاب میں تمام دنیاظالم ،جابرو ستمگروں سے پاک صاف کردی جائے گی۔معاشرے سے منحرفوں کی تطہیر کا یہ سلسلہ کسی خاص معین شدہ جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایسا انقلاب رونما ہوگا۔جب مفضل نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے چودہ معصوم ہستیوںکی تعریف و تمجید سنی تو آپؑ سے سوال کرنے لگاکہ یہ چودہ معصوم ہستیاںکون ہیں؟حضرت نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:’مُحَمَّدٌ وَ عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ الْأَئِمَّةُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ آخِرُهُمُ الْقَائِمُ الَّذِي يَقُومُ بَعْدَ غَيْبَتِهِ فَيَقْتُلُ الدَّجَّالَ وَ يُطَهِّرُ الْأَرْضَ مِنْ كُلِّ جَوْرٍ وَ ظُلْمٍ ‘‘ (۱۴)محمدمصطفیٰؐ،علی مرتضیٰ،فاطمہ زہرا،حسن مجتبیٰ،حسین شہید کربلاعلیہم السلام کے علاوہ امام حسین علیہ السلام کی نسل سے تعلق رکھنے والے معصوم امام جن کے سلسلہ کی آخری کڑی حضرت قائم ہوں گے جو اپنی غیبت کے بعد قیام کریں گے اوردجال کو قتل کرنے کے بعد دنیا کوعدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
ایک دوسری حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام حضرت مہدیظہور کو سرتاسر زمین پر نور الہٰی کی تابش سے تعبیر فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’ إِنَّ قَائِمَنَا إِذَا قَامَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها وَ اسْتَغْنَى الْعِبَادُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْس‘‘(۱۵)جب ہمارےقائم ظہور فرمائیں گے تو زمین اپنے پروردگار کے نور سےاس طرح منور ہو جائے گی کہ پھر لوگوں کوسورج کی روشنی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ابو بصیر حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی قدرت اورعالمی حکومت سے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل کرتے ہیں:۔۔ إِنَّهُ إِذَا تَنَاهَتِ الْأُمُورُ إِلَى صَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ رَفَعَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَهُ كُلَّ مُنْخَفِضٍ مِنَ الْأَرْضِ وَ خَفَضَ لَهُ كُلَّ مُرْتَفِعٍ حَتَّى تَكُونَ الدُّنْيَا عِنْدَهُ بِمَنْزِلَةِ رَاحَتِهِ فَأَيُّكُمْ لَوْ كَانَتْ فِي رَاحَتِهِ شَعْرَةٌ لَمْ يُبْصِرْهَا!!(۱۶)جب تمام امور صاحب الامر کے سپرد کر دئیے جائیں گے تو خداوندمتعال زمین کے ہر نشیب کو بلند اور ہر مرتفع مقام کو ہموار کردے گا!اس طرح تمام دنیا اُن کے سامنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح ہموار ہو جائے گی! تم میں سے کس کے ہاتھ پر بال رکھ دیا جائے جو اسے نظر نہ آئے ؟ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام عبدالملک بن اعین کے لیے حضرت مہدی ؑ کے ساتھیوں کے خصائص اور اُن کی زمین پر حاکمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّهُ ‘لَوْ كَانَ ذَلِكَ أُعْطِيَ الرَّجُلُ مِنْكُمْ قُوَّةَ أَرْبَعِينَ رَجُلًا وَ جُعِلَ قُلُوبُكُمْ كَزُبَرِ الْحَدِيدِ لَوْ قَذَفْتُمْ بِهَا الْجِبَالَ فَلَقَتْهَا وَ أَنْتُمْ قُوَّامُ الْأَرْضِ وَ خُزَّانُهَا‘‘(۱۷)حضرت صاحب العصر والزمان کے دور میں تم میں سےہر ایک مرد کو چالیس مردوں کی قوت عطا کردی جائے گی اور تمہارے دل لوہے کے ٹکڑے کی طرح مضبوط اور استوار ہوں گے ؛ اگر تم پہاروں سے ٹکراؤ تو انہیں اپنے جگہ سے اکھاڑ دو؛ تم لوگ ہی معاشرے کے مسائل حل کرنے کے لیے زمین پر حکمران اور اس کے خزانوں کے کلید بردار ہوگے۔اس نوارنی حدیث میں حضرت مہدی (عج)کے اصحاب کی عالمی سطح پر حاکمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کے وہ زمین کے خزانوں کے خزانہ داراور تمام جہان کا اقتصادی نظام ان کے کنترول میں ہوگا جسے وہ عادلانہ طور پر عدالت برقرار کرنے کے لیے تقسیم کریں گے۔ابوجارود حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام اپنے والد بزرگوار اور وہ اپنے جد بزرگوار حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں:’يخرج رجل من ولدي في آخر الزمان ۔۔۔ إذا هز رايته أضاء لها ما بين المشرق و المغرب و وضع يده على رءوس العباد فلا يبقى مؤمن إلا صار قلبه أشد من زبر الحديد و أعطاه الله تعالى قوة أربعين رجلا ۔‘‘(۱۸)میری نسل سے ایک مرد آخری زمانے میں قیام کرے گا۔۔۔۔جب ان کا پرچم لہرایا جائے گاتو مشرق اور مغرب کے درمیان کو ان کے لیے روشن کر دیا جائے گا،وہ لوگوں کے سروں پر ہاتھ رکھیں گے جس سے سب مؤمنین کے دل لوہے سے زیادہ سخت اور مضبوط ہو جائیں گے، خداوند متعال انھیں چالیس مردوں کی قوت عطا فرمائے گا۔احادیث میں حضرت مہدی(عج)پر سلام کرنے کی کیفیت کو اس طرح سے اُن کے شایانِ شان ذکر کیا گیاہے:’۔۔۔السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا بَقِيَّةَ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ‘‘(۱۹)اے روی زمین پر اللہ کی آخری حجت‘‘بقیۃ اللہ’ آپ پر میرا سلام ہو۔یونس بن عبد الرحمن حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوااورسوال کیا:’يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَنْتَ الْقَائِمُ بِالْحَقِّ؟ فَقَالَ:أَنَا الْقَائِمُ بِالْحَقِّ وَ لَكِنَّ الْقَائِمَ الَّذِي يُطَهِّرُ الْأَرْضَ مِنْ أَعْدَاءِ اللَّهِ وَ يَمْلَؤُهَا عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً هُوَ الْخَامِسُ مِنْ وُلْدِي‘‘اے رسول خداﷺ کے فرزند!کیا آپ حق پر قیام کرنے والے قائم ہیں؟امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: میں حق پر قائم ہوں لیکن وہ قائم نہیں جو زمین کو خداوند متعال کے دشمنوں سے پاک کر کے عدل وانصاف کا نفاذکرے گا جس طرح وہ اس سے پہلے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی ہوگی؛ وہ میرے پانچویں فرزند ہیں۔(۲۰)
اس حدیث شریف کے مطابق زمین کو خداوندمتعال کے دشمنوں سے پاک و صاف کرنا اور سراسر جہان میں عدل الہٰی کو برقرار کرنا فقط حضرت امام زمان ؑ کی خصوصیات میں سے ہے۔ایک حدیث میں امام زمان ؑ کے اصحاب کو زمین کے حکمرانوں میں سے شمار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’ إذا قام قائمنا أذهب الله عن شيعتنا العاهة و جعل قلوبهم كزبر الحديد و جعل قوة الرجل منهم قوة أربعين رجلا و يكونون حكام الأرض و سنامها‘‘(۲۱)جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو اس وقت خداوندمتعال ہمارے شیعوں سے عذر کو دور کردے گااور اُن کے دلوں کو لوہے کی طرح سخت کردے گا اُن میں سے ہر ایک کو جالیس مردوں کے برابر قوت ہوگیاور وہ زمین پر حکمران ہوں گے۔دعبل بن علی خزاعی کہتا ہے میں نے حضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا ؑ کے حضور اپنا وہ قصیدہ پڑھنا شروع کیا جس کا ابتدائی مصرع یہ ہے: ‘‘مدارس آیات حلت من تلاوه و منزل وحی مقفر العرصات’ اور جب میں اِن ابیات پر پہنچا:خروج امام لامحالة خارج یقوم علی اسم الله و البرکاتیمیّز فینا کل حق و باطل و یجزی علی السماء و النقماتبَكَى الرِّضَا ع بُكَاءً شَدِيداً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ فَقَالَ لِي يَا خُزَاعِيُّ نَطَقَ رُوحُ الْقُدُسِ عَلَى لِسَانِكَ بِهَذَيْنِ الْبَيْتَيْنِ فَهَلْ تَدْرِي مَنْ هَذَا الْإِمَامُ وَ مَتَى يَقُومُ؟تو حضرت امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام نے شدید گریہ فرمانا شروع کردیا اور پھر کچھ دیر بعد اپنا نورانی سر مبارک اٹھا کر مجھ سے ارشاد فرماتے ہیں:اے دعبل خزاعی! اس مصرع کو ‘‘ روح القدس ‘ نے تمہاری زبان پر جاری کیا ہے!کیا جانتے ہو یہ امام کون ہیں اور کب قیام فرمائیں گے؟میں نے عرض کیا:’لَا يَا مَوْلَايَ إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُ بِخُرُوجِ إِمَامٍ مِنْكُمْ يُطَهِّرُ الْأَرْضَ مِنَ الْفَسَادِ وَ يَمْلَؤُهَا عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً‘‘نہیں مولا میں نہیں جانتا !میں نے تو فقط اُن کے قیام کی خبر آپ ہی کے لب مبارک سے سنی ہے کہ‘‘ وہ زمین کو ظلم و جور سے ختم کر کے عدل و انصاف کا نفاذ کریں گے اسی طرح جسطرح پہلے وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:’فَقَالَ يَا دِعْبِلُ۔۔۔۔ الْحُجَّةُ الْقَائِمُ الْمُنْتَظَرُ فِي غَيْبَتِهِ الْمُطَاعُ فِي ظُهُورِهِ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّى يَخْرُجَ فَيَمْلَأَهَا عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً۔۔۔‘‘(۲۲)اے دعبل!۔۔۔۔وہ قائم جن کی غیبت کے زمانے میں اُن کا انتظار کرنا اور اُن کے ظہور کے وقت ان کی اطاعت کرنا ضرور ی ہے ضرورظہور فرمائیں گےا گرچہ دنیا کی مہلت سے فقط ایک ہی دن باقی کیوں نہ بچ گیا ہو توخداوندمتعال اس دن کو اس قدر طولانی کرے گا کہ وہ قیام فرمائیں اور زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دیں جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی۔حضرت عبدالعظیم حسنی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کے میں اپنے مولا و آقا حضرت امام محمد جواد علیہ السلام کی حضور شرفیاب ہوا اور عرض کی:’إِنِّي لَأَرْجُوُ انَ قَائِمَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ الَّذِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً‘‘میں امیدوار ہوں کہ آپ ہی اہلبیت محمد علیہم السلام سے وہ قائم ہوں گے جو زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے لبریز تھی؟حضرت امام محمد جواد علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا: ‘فَقَالَ:يَا أَبَا الْقَاسِمِ مَا مِنَّا إِلَّا قَائِمٌ بِأَمْرِ اللَّهِ وَ هَادٍ إِلَى دِينِ اللَّهِ وَ لَسْتُ الْقَائِمَ الَّذِي يُطَهِّرُ اللَّهُ بِهِ الْأَرْضَ مِنْ أَهْلِ الْكُفْرِ وَ الْجُحُودِ وَ يَمْلَؤُهَا عَدْلًا وَ قِسْطاً۔۔۔هُوَ الَّذِي يُطْوَى لَهُ الْأَرْضُ وَ يَذِلُّ لَهُ كُلُّ صَعْبٍ يَجْتَمِعُ إِلَيْهِ مِنْ أَصْحَابِهِ عَدَدُ أَهْلِ بَدْرٍ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا مِنأَقَاصِي الْأَرْضِ ۔۔۔ فَإِذَا اجْتَمَعَتْ لَهُ هَذِهِ الْعِدَّةُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ أَظْهَرَ أَمْرَهُ فَإِذَا أُكْمِلَ لَهُ الْعَقْدُ وَ هُوَ عَشَرَةُ آلَافِ رَجُلٍ خَرَجَ بِإِذْنِ اللَّهِ فَلَا يَزَالُ يَقْتُلُ أَعْدَاءَ اللَّهِ حَتَّى يَرْضَى اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى۔۔۔‘‘(۲۳)اے ابا القاسم!ہم میں سے کوئی بھی امام خدا وندمتعال کی تائید کے بغیر اس کے دین کی رہنمائی کے لیےقیام نہیں کرتا،لیکن اس کے باوجود میں وہ قائم نہیں جس کے ذریعہ خداوندمتعال زمین کو کفر اور ظلم و ستم کرنے والوں سے اس طرح پاک کرے گا جس طرح وہ ظلم و ستم سے لبریز تھی۔۔۔۔۔اُن کے لیے زمین رام ہو جائے گی اور ہر سخت نقطہ ہموار ہو جائے گا ؛ ان کے ساتھی اصحاب بدر کی طرح ۳۱۳ نفر ہوں گے جو زمین کے مختلف مقامات سے اُن کے گرد جمع ہوں گےاور جب انکے معاہدے کے مطابق ان کی تعداد جو دس ہزار نفر ہے مکمل ہوجائے گی تو وہ حکم الہٰی سے قیام کریں گے اور خداندمتعال کی کامل رضایت تک اس کےدشمنوں کا قتل عام جاری رکھیں گے۔
انقلاب ارتباطات اور مہدویتحضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے متعلق احادیث میں تمام دنیا سے آسان اور سریع ارتباط کا ذکر بھی ملتا ہے جسے ہم اطلاعات و ارتباطات کے انقلاب سے تعبیرکرسکتے ہیں؛حضرات معصومین علیہم السلام کا ہزاروں سال پہلے اس قسم کے انقلاب کی پیش گوئی فرمانا ان کی مختلف علوم میں مہارت پر دلیل ہے۔ان احادیث کی رو سے ارتباطات و اطلاعات کے آلات اور وسائل اس قدر ترقی کر جائیں گے کہ گویا دنیا اُن کے سامنے ہاتھ کی ہتھیلی کی مانند واضح ہوگی اور اس طرح حکومت اسلامی کا مرکز تمام علاقوں کی مکمل صورتحال پر نظارت کرتے ہوئے اپنے تحت تسلط تمام نقاط سے با آسانی ارتباط برقرار کرسکے گا۔اگر آج کل دنیا میں بحث ہونے والےگلوبلائزیشن کو تاریخی،اجتماعی لحاظ سے ارتباطات کا ایک وسیلہ ہی تصور کیا جائے تو یہی آلات حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی عالمی حکومت اور قرآن و عترت کی اسلامی ثقافت اوراقدار کی حاکمیت کی نشرواشاعت کے لیے بہترین وسیلہ ہیں جسے حضرات معصومین علیہم السلام کے زمانے میں معجزہ تصور کیا جاتا تھاجبکہ آج یہ معمولی عمل ہے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث میں منقول ہوا ہے:’إِنَّ قَائِمَنَا إِذَا قَامَ مَدَّ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لِشِيعَتِنَا فِي أَسْمَاعِهِمْ وَ أَبْصَارِهِمْ حَتَّى لَا يَكُونَ بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ الْقَائِمِ بَرِيدٌ يُكَلِّمُهُمُ فَيَسْمَعُونَ وَ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ وَ هُوَ فِي مَكَانِهِ‘‘(۲۴)جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو خداوندمتعال ہمارے شیعوں کے کانوں اور آنکھوں کو اس قدر تقویت فرمادے گا کہ اُن کے اور حضرت قائم ؑکے درمیان رابطہ خط و کتابت کے ذریعہ نہیں ہوگا بلکہ وہ دنیا کےایک کونے سے گفتگو کریں گے تو دوسری طرف ان کی بات کو سننے کے ساتھ انھیں دیکھا بھی جاسکے گا جبکہ وہ اپنی ہی جگہ پر ہوں گے۔یہ جو آج کل کمپیوٹر کے ذریعہ ایک انسان کیتصویراورآوازباآسانیدنیاکے دوسرے نقطہ پر منتقل ہو جاتی ہے صدیوں پہلے ایسا تصور بھی ناممکن تھا جسے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے پیش بینی فرمایا ہے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ایک دوسری حدیث میں حضرت مہدی ؑ کا اپنے اصحاب سے مشرق اور مغرب میں ارتباط کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:’إِنَّ الْمُؤْمِنَ فِي زَمَانِ الْقَائِمِ وَ هُوَ بِالْمَشْرِقِ لَيَرَى أَخَاهُ الَّذِي فِي الْمَغْرِبِ وَ كَذَا الَّذِي فِي الْمَغْرِبِ يَرَى أَخَاهُ الَّذِي فِي الْمَشْرِقِ‘‘(۲۵)بتحقیق مؤمن حضرت قائم آل محمد ؑ کے زمانے میں مشرق میں ہوتے ہوئے مغرب میں اپنے بھائی کو دیکھ سکے گا اور اسی طرح مغرب والا مؤمن بھی اپنے مشرق والے بھائی کو دیکھے گا۔اس حدیث شریف میں اسلام کی وسعت اور اہل ایمان کی دنیا کے مشرق و مغرب میں موجوگی اور اُن کے آپس میں ارتباط کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اہلسنت کی نظر میں حضرت مہدیؑ کا عالمی انقلاباہلسنت کے معروف دانشمند،شیخ منصور علی ناصف اپنیکتاب ‘التّاج‘‘میں صحاح ستہ کی مورد اطمینان احادیث کو جمع آوری کرتے ہوئے لکھتے ہیں:حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت آسمان سے نازل ہوں گے ۔حضرت مہدی ؑکے پیچھے نماز جماعت کی اقتداء کریں گے اور اُن کی عالمی اسلامی حکومت کے قیام میں اُن کی مدد فرمائیں گے۔یہ مسئلہ کاملاً واضح اور روشن ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت گذشتہ زمانے سے متعلق رکھتی ہے جو اسلام کے آنے سےمنسوخ ہوگئی ہے اب جبکہ اس جدید شریعت کے آخری خلیفہ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اسی شریعت کی گلوبلائزیشن کے لیے قیام فرمارہے ہیں تو ان کی کامیابی کے لیے انہیں کی رہبری میں حضرت عیسیٰ ؑ جو خداوند متعال کے اولوالعزم پیغمبر ہیں انہی کے شانہ بشانہ انکی قیادت میں اسلامی اقدار کی عالمی سطح پر حکومت کے لیے حضرت مہدیؑ کی مدد فرمائیں گے۔اس انقلاب کی ترقی اور عالمی سطح پر حاکمیت کے لیے ایک اولوالعزم پیغمبر کا حضرت مہدیؑ کے ہمرکاب ہونا اس انقلاب کی پیش روئی میں نہایت ہی مؤثر ثابت ہوگا۔اس وقت کے جدید آلات اوروسائل کے ذریعہ جب عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گفتگو سنیں گے اور حضرت مہدی ؑ کی اقتداء میں ان کے نماز پڑھنے کو مشاہدہ کریں گے تو انکی اقتداء کرتے ہوئے ضرور بہ ضرور حضرت مہدیؑ کی نصرت کے لیے پیش قدمی کریں گے اور اس طرح اسلام بہت جلد پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔کروڑوں کی تعداد میں عیسائیوں کی موجودہ جمعیت میں سے صادق عناصر مختلف مغربی ممالک سے ایسے اسلام کی طرف پیش قدمی فرمائیں گے جس کے مبلغ خود حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام ہوں گے جو قائد انقلاب حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے معاون و مددگار ہوتے ہوئے اسلام کی دنیا پر حاکمیت کے لیے اہم کرداد ادا فرمائیں گے۔حضرت عیسیٰؑ اور حضرت مہدی ؑ کی آپس میں اس ہمکاری کا تذکرہ پیغمبر اکرم ﷺ اور حضرات معصومین علیہم السلام کی نورانی احادیث میں بخوبی قابل مشاہدہ ہے۔ابو سعید خدری پیغمبرا کرم ﷺسے حدیث نقل فرماتے ہیں جس میں اہلبیت علیہم السلام کی چھ بےنظیر خصائص کی طرف اشارہ ہوتا ہے:’وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ الَّذِي يُصَلِّي عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ خَلْفَهُ‘‘(۲۶)مہدی جن کی اقتداء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز پڑھیں گے وہ ہم ہی سے ہیں۔ایک دوسری حدیث نبوی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلاماورحضرت مہدی (عج)کے درمیان تعاون سے متعلق اس طرح بیان ہوا ہے:’مِنْ ذُرِّيَّتِي الْمَهْدِيُّ إِذَا خَرَجَ نَزَلَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِنُصْرَتِهِ فَقَدَّمَهُ وَ صَلَّى خَلْفَهُ‘‘(۲۷)مہدی ؑمیری نسل سے ہیں جب وہ قیام کریں گے تو عیسیٰ ابن مریم انکی مدد کے لیے آسمان سے نزول فرمائیں گے اور انہیں آگے کھڑا کر کے اُن کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ابن عباس نے بھی پیغمبر اکرم ﷺسے حضرت مہدیؑ کے عالمی انقلاب کی وسعت اور انکی حکومت کے مشرق و مغرب میں مستقر ہونے کیبشارت کو نقل کیا ہےکہ آپ ؐ فرماتے ہیں:’الْمَهْدِيُّ يَمْلَأُهَا قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً وَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ نَبِيّاً لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَأَطَالَ اللَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّى يَخْرُجَ فِيهِ وَلَدِي الْمَهْدِيُّ فَيَنْزِلَ رُوحُ اللَّهِ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ علیہ السلام فَيُصَلِّيَ خَلْفَهُ وَ تُشْرِقَ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها وَ يَبْلُغَ سُلْطَانُهُ الْمَشْرِقَ وَ الْمَغْرِب‘‘(۲۸)مہدیؑ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گاجس طرح وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی؛مجھے اس ذات کی قسم جس نے مجھے برحق نبوت پر مبعوث فرمایا؛ اگر دنیا کی مہلت سے فقط ایک دن باقی بچاہو تو خداوندمتعال اس دن کو اس قدر طولانی فرمائے گا کہ میرا بیٹا مہدی قیام کرے،عیسیٰ بن مریمؑ بھی آسمان سے تشریف لائیں گےاس کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے اور پروردگار کا نور زمین پرتابش کرے گا جس کی قدرت مشرق اور مغرب تک پھیل جائے گی۔
اکثر احادیث کی کتابوں میں پیغمبر اکرمﷺسے یہ حدیث ملتی ہے کہ آپؐ ارشاد فرماتے ہیں:’۔۔۔ أَنَّهُ قَالَ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَ إِمَامُكُمْ مِنْكُمْ‘‘(۲۹)اس دن تمہاری کیا کیفیت ہو گی جب مریم کا بیٹا تمہارے درمیان ہوگااور تمہارا امام تم ہی سے ہوگا؟!پیغمبر اکرم ﷺسے حدیث معراج میں منقول ہوا ہے کہخداوندمتعال امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت کو بیان کرتے ہوئے پیغمبر اکرم ﷺسے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے:’۔۔۔أَعْطَيْتُكَ أَنْ أُخْرِجَ مِنْ صُلْبِهِ أَحَدَ عَشَرَ مَهْدِيّاً كُلُّهُمْ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ مِنَ الْبِكْرِ الْبَتُولِ آخِرُ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُصَلِّي خَلْفَهُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً أُنْجِي بِهِ مِنَ الْهَلَكَةِ وَ أَهْدِي بِهِ مِنَ الضَّلَالَةِ وَ أُبْرِئُ بِهِ الْأَعْمَى وَ أَشْفِي بِهِ الْمَرِيضَ ‘‘(۳۰)ہم نے تمہیں علی ابن ابیطالب کی نسل سے گیارہ ہدایت کرنے والے مہدی عطا کیے ہیں وہ سب کے سب تمہاری ذریت اور فاطمہ زہرا سے ہوں گے،اُن میں سے آخری مرد کی اقتداء میں عیسیٰ بن مریم نماز پڑھیں گے،وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہظلم و ستم سے لبریز تھی،اسی کے ذریعہ ہلاکت سے نجات ، گمراہی سے ہدایت، نابینا کو بینائی اور بیمار کو شفاء عنایت کروں گا۔اس حدیث قدسی میں صراحت سے بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ حضرت مہدی ؑ کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے اور ان کی عالمی حکومت کے قیام میں معاونت فرمائیں گے۔اسی حدیث میں خداوندمتعال نے کرۂ ارض پر حضرت مہدی ؑ کی عدل و انصاف پر مشتمل حکومت کی بھی بشارت دی ہے۔روایت میں نقل ہوا ہے کہ ایک دن پیغمبر اکرم ﷺ خوشحالی سے مسکرا رہے تھےاصحاب نے اس کی وجہ دریافت کی تو ارشاد فرمایا:ہر روز صبح و شام خداوندمتعال کی جانب سے میرے لیے تحفہ آتا ہے لیکن آج خداوندمتعال نے جو تحفہ مجھے عنایت فرمایا ہے وہ اس سے پہلے کبھی عنایت نہیں فرمایا تھاجبرائیل نے خداوندمتعال کی جانب سے مجھے سلام پہنچایا اور کہا:’مِنْكُمُ الْقَائِمُ يُصَلِّي عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ خَلْفَهُ إِذَا أَهْبَطَهُ اللَّهُ إِلَى الْأَرْضِ مِنْ ذُرِّيَّةِ عَلِيٍّ وَ فَاطِمَةَ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ‘‘(۳۱)آپ ہی سے قائم ہیں جو علی اور فاطمہ اور حسینعلیہم السلام کی نسل میں سے ہوں گے،عیسیٰ بن مریم انکی اقتداء میں نماز پرھیں گےجب خداوندمتعال انھیں زمین پر دوبارہ بھیجے گا۔اس حدیث نبوی میں بھی جبرائیل امین حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور انکی حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی عالمی حکومت کے قیام میں معاونت کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بشارت دے رہے ہیں۔ایک دوسری حدیث میں حافظ ابوعبد الله محمد بن یزید ماجہ قزوینی،ام شریک بنت ابی العکرکی زبانی نقل کرتا ہےکہ پیغمبر اکرم ﷺ حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی اقتداء میں نماز صبح کی جماعت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ’إِذَا نَزَلَ بِهِمْ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ علیہ السلام فَرَجَعَ ذَلِكَ الْإِمَامُ يَنْكُصُ يَمْشِي الْقَهْقَرَى لِيَتَقَدَّمَ عِيسَى ع يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَيَضَعُ عِيسَى ع يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ ثُمَّ يَقُولُ لَهُ تَقَدَّمْ‘‘ (۳۲)حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گےتو سب لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کو امام جماعت قرار دیتے ہوئے اُن کی اقتداء کرنا چاہیں گے ،اس صورتحال میں امام زمان پیچھے ہٹنے کی کوشش کریں گےتو حضرت عیسیٰ ؑ حضرت مہدی ؑکے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر انھیں مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرمائیں گے: ‘‘تقدّم’آپ آگے بڑھ کر لوگوں کی نماز جماعت کی امامت کے فرائض انجام دیں۔حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام بھی حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی مشرق ومغرب میں عالمی حکومت سے متعلق اس طرح بیان فرماتے ہیں:‘‘القائم منا۔۔۔ تظهر له الكنوز يبلغ سلطانه المشرق و المغرب و يظهر به الله دينه على الدين كله و لو كره المشركون فلا يبقى في الأرض خراب إلا عمر و ينزل روح الله عيسى ابن مريم فيصلي خلفه ‘ (۳۳)قائم ہم اہلبیت(علیہم السلام)سے ہیں۔۔۔ان کے لیے خزانے آشکار ہو جائیں گے،اُن کی حکومت مشرق سے مغرب تک پھیل جائے گی اور خداوند متعال اپنے دین کو اُن کے ذریعہ بقیہ ادیان پر غلبہ عطا فرمائے گا گرچہ کافرین کے لیے یہ گراں گزرے گا۔لہٰذا زمین میں کوئی خراب مکان باقی نہیں بچے گا مگر یہ کہ اسے آباد کردیا جائے گااور خداوندمتعال عیسیٰ بن مریم کو نازل کرے گا جو انکی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔عیسائی بھی حضرت مہدی موعود اور حضرت عیسی علیہم السلام کی رجعت کے معتقد ہیں۔‘‘ Patricia Aberdeen’اپنی کتاب ‘تکاپوی2000‘‘میں لکھتا ہے: دنیاسنہ۲۰۰۰یعنی موعود کے آنے کی صدی میں وسعت اختیار کر جائے گی؛جس کی پیشگوئی حضرت دانیال نبی کے صحیفہ،عہد عتیق،یوحنا کے مکاشفہ اور’رسول عہد جدید‘‘(باب نمبر ۲۰ آیت نمبر ۱ سے ۷ تک) میں ملتا ہے:موعود کی صدی یعنی ہزار سالہ وہ پیریڈ جس میں مسیح اور ان کے حواری دنیا کو اپنےکنٹرول میں لے لیں گے اور صلح و امنیت کاتمام زمین پر نفاذ ہوجائے گی۔وہ صدی تاریخ بشریت کی پیشانی پرنمایاں ہوگی جب عیسی مسیح کی رجعت کا دور ہوگا وہ کفاراور اپنے دشمنوں پر غلبہ پالیں گے۔
قرآنی نقطۂ نظر سے حضرت عیسیٰ ؑ کی حضرت مہدیؑ کے عالمی انقلاب میں معاونتحضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے زمانے میں حضرت عیسی ؑبن مریمؑ کا نازل ہو کر حضرت مہدیؑ کے عالمی انقلاب میں اُن کی معاونت کرنا پیغمبر اکرم ﷺ اور انکے اہلبیت علیہم السلام کی روایات میں صاف ،شفاف اور واضح انداز میں سب کے لیے بیان کردیا گیا ہے ان روایات میں سے بہت سی احادیث کو ہم نے بطور نمونہ اس مقالہ میں بیان کردیا ہے۔قرآن مجید میں بھی یہ حقیقت بیان ہوچکی ہےلیکن قرآن مجیدہمیشہ احادیث ہی سے سمجھا جاسکتا ہےلہٰذااس موضوع سے متعلق قرآن مجید کی آیات کو بھی احادیث ہی کی تفسیر سے سمجھا جائے گا۔قرآن مجید حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے انجام سے متعلق ارشاد فرماتا ہے:’ وَ قَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسيحَ عيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَ ما قَتَلُوهُ وَ ما صَلَبُوهُ وَ لكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَ إِنَّ الَّذينَ اخْتَلَفُوا فيهِ لَفي شَكٍّ مِنْهُ ما لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّباعَ الظَّنِّ وَ ما قَتَلُوهُ يَقيناً، بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَ كانَ اللَّهُ عَزيزاً حَكيماً،وَ إِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَ يَوْمَ الْقِيامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهيداً‘‘(۳۴)وہ لوگ کہتے تھے کہ ہم نے عیسی بن مریم کو قتل کر ڈالا ہے!جبکہ نہ توانھیں قتل کیا گیا اور نہ ہی تختہ دار پر لٹکایا گیا بلکہ حقیقت ان کے لیے مشتبہ ہوگئیاور وہ لوگ جو انکے قتل سے متعلق اختلاف کا شکار ہو کراس قضیہ سے متعلق مشکوک ہوگئے انھیں علم ہی نہیں وہ تو وہم وگمان کی پیروی کرتے ہیںیقینا انھوں نے انھیں قتل نہیں کیا!بلکہ خدا انھیں اپنے پاس اوپر لے گیا ہے خدا قادر اورحکیم ہے۔ بتحقیق کوئی بھی اہل کتاب نہیں مگر وہ (عیسی مسیح کے)مرنے سے پہلے اس پرایمان لائے گا اور روز قیامت(عیسیٰ) اس کی گواہی دیں گے۔ان تینوں آیات میں حضرت عیسی ٰ علیہ السلام سے متعلق چند اہم پہلوؤں کی طرف اشارہ ملتا ہے:الف:حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے اور نہ ہی انھیں تختۂ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ب:وہ آسمان کی طرف پرواز کرگئے اور اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں۔ج:تمام اہل کتاب مسیح کے اس دنیا سے رخصت سے پہلے اس پر ایمان لائیں گے۔مذکورہ آیات کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک طرف تو آسمان پر چلے گئے ہیں اور ابھی تک زندہ ہیں تو دوسری طرف ان کے انتقال سے پہلے تمام اہل ایمان اُن پر ایمان لے آئیں گے۔ اہل کتاب سے مراد زیادہ تر یہودی اور بنی اسرائیل ہی ہیں کیونکہ پہلے والی آیات میں انہیں کے بہت سے مظالم کا تذکرہ ہےخود یہ آیات بھی اُن کے حضرت عیسیٰ کو قتل کر ڈالنے کے دعوی کو بیان کرتیں ہیں کہ ابھی تک تو وہ ایسا کرنے(حضرت عیسیٰ کا قتل)میں کامیاب نہیں ہوئے تو پھر آیندہ انشاء اللہ قرآن مجید کا وعدہ ضرور عملی ہوگا۔بحرحال اس آخری آیت سے مراد یہی ہے کہ تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے سے پہلے اُن پر ایمان لے آئیں گے،یہودی انھیں بعنوان نبی قبول کرلیں گے اور عیسائی بھی اُن کی اولوہیت کے ادعا سے ہاتھ اٹھا لیں گے یہ سب کچھ اسی وقت ہوگا جب حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف عالمی قیام کے لیے ظہور فرمائیں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی اُن کی نصرت کے لیے رجعت فرماتے ہوئے آسمان سے نازل ہوں گے؛واضح ہے یہودیوں کا مہذہب حضرت مسیح کے دین سے پہلے تھا لہٰذا اُن کا حضرت عیسیٰ پر ایمان لانا نہایت ضروری ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آکر انکے دین کو نسخ کیا تھا اور عیسائیوں کا دین بھی اسلام سے پہلے تھا جس کا پیریڈ اسلام کے طلوع ہونے سے ختم ہوجاتا ہے لہٰذا جس طرح خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وظیفہ ہے کہ اسلام کو اختیار کرکے اس کے موجودہ رہبر یعنی حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی اقتداء کریں اسی طرح ان کی امت کا بھی یہی وظیفہ ہوگا۔اسلام کی گسترش اور سرعت سے پھیلاؤ کے عوامل میں سے حضرت عیسیٰ کی رجعت اور تمام اہل کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کا انھیں پہچان کر ان کی بیعت کرنا نہایت اہم ہے۔حضرت عیسی ٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف پر بھی ایمان لے آئیں گے اور اس طرح سے اسلام عالمی سطح پر پھیل جائے گا ۔مشرق ،مغرب اور دنیا کے تمام نکات میں اسلامی حکومتی نظام ہی کا نفاذ ہوگا اور اسلامی گلوبلائزیشن عملی طور پر متحقق ہو جائے گی۔محمد بن مسلم حضرت امام محمد باقرعلیہ السلامسے خداوندمتعال کے اس فرمان’وَ إِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَ يَوْمَ الْقِيامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهيدا‘‘سے متعلق نقل کرتا ہے:’إِنَّ عِيسَى ع يَنْزِلُ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَى الدُّنْيَا فَلَا يَبْقَى أَهْلُ مِلَّةٍ يَهُودِيٌّ وَ لَا نَصْرَانِيٌّ إِلَّا آمَنَ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَ يُصَلِّي خَلْفَ الْمَهْدِيِّ‘‘(۳۵)عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن سے پہلے اس دنیا میں واپس آئیں گے؛قوم یہود اور غیر یہود سے تعلق رکھنے والا ہر شخص مرنے سے پہلےعیسی پر ایمان لے آئے گا جبکہ خود عیسیٰ حضرت مہدی ؑ کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔اس حدیث شریف کی بنا پر اہل کتاب کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا ایسے زمانے میں ہوگا جب وہ خود حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے؛اس طرح وہ اپنی اس اقتداء سے اپنے تمام پیروکاروں کو حضرت مہدیؑ کی نصرت اور اُن کے دین پر ایمان لانے کی عملی ہدایت فرمائیں گے۔
نتیجۂ فکرقرآن مجید کی تفسیراورحضرات معصومین علیہم السلام کے فرامین کی روشنیمیں حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا موجود ہونا اور پردۂ غیب سے ظہور فرماناقطعی اور مسلمہ حقیقت ہے جو قرآن وسنت کی روشنی میں عملی طور پرمتحقق ہوگی اور عالمی سطح پر اسلام کے نفازاوراسلامی گلوبلائزیشن یعنی پوری دنیا میں حضرت مہدیؑ کی سربراہی میں ایک واحد اسلامی حکومت کے قیام کا باعث بنے گا۔یہ حقیقت ان تمام احادیث کی روشنی میں آشکار ہو جاتی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رجعت اور حضرت مہدیؑکی عالمی حکومت میں اُن کے کردار کو بیان کرتیں ہیں۔
حوالہ جات:۱۔ بحارالأنوار،ج۵۱ص۸۱۲۔ بحارالأنوار،ج۵۱،ص۷۸۳۔ بحارالأنوار،ج۵۱ص۸۱۴۔ بحارالأنوار،ج۵۱ص۹۱۵۔ بحارالأنوار،ج۵۱،ص۷۴۶۔ بحارالأنوار،ج۵۱،ص۱۶۱۷۔ بحارالأنوار،ج۵۳ص۱۷۳۸۔بحارالأنوار،ج۵۱،ص۲۱۷ ۹۔ بحارالأنوار،ج۱۸،ص۳۴۱۱۰۔ بحارالأنوار،ج۵۱،ص۶۶۱۱۔ بحارالأنوار،ج۵۱،ص۸۳۱۲۔ بحارالأنوار،ج۳۶،ص۳۶۸۱۳۔ بحارالأنوار،ج۵۱،ص۱۲۰۱۴۔ بحارالأنوار،ج۱۵ص۲۳15۔ بحارالأنوار،۵۲،ص۳۳۰۱۶۔ بحارالأنوار،ج۵۲،ص۳۲۸17۔ بحارالأنوار،ج۵۲،ص۳۳۵۱۸۔ كمالالدين،ج۲ص۶۶۳۱۹۔ بحارالأنوار،ج۲۴،ص۲۱۲۲۰۔مستدركالوسائل،ج۱۲،ص۲۸۲۲۱۔ روضةالواعظين،ج۲،ص۲۹۵۲۲۔ بحارالأنوار،ج۵۱،ص۱۵۴۲۳۔ بحارالأنوار،ج۵۱،ص۱۵۷۲۴۔ الكافي،ج۸،ص۲۴۰۲۵۔ بحارالأنوار،ج۵۲،ص۳۹۱ ۲۶۔ بحارالأنوار،ج۳۶،ص۳۱۹۲۷۔ بحارالأنوار،ج۱۴،ص۳۴۹؎۲۸۔ بحارالأنوار،ج۵۱،ص۷۱۲۹۔ بحارالأنوار،ج۱۴،ص۳۴۴ ۳۰۔ بحارالأنوار،ج۵۲،ص۲۷۶۳۱۔ الكافي،ج۸،ص۴۹۳۲۔ بحارالأنوار،ج۵۱،ص۹۰۳۳۔ إعلامالورى،ص۴۶۳۳۴۔سورہنساءآیتنمبر۱۵۷و۱۵۸اور۱۵۹۳۵۔ بحارالأنوار،ج۱۴،ص۳۴۹