فقہی کونسل

175

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک کام کی تقسیم ہوئی ہے نہ تخصصی شعبے قائم ہوئے ہیں اور نہ آپس میں کسی قسم کا تعاون و تبادلہ خیال ہوتا ہے’ میں یہاں یہ بتانے کے لئے کہ خود اسلام کے اندر اس قسم کے تصورات اور مترقی احکام موجود ہیں۔ قرآن مجید کی ایک آیت اور نہج البلاغہ کے چند جملے پیش کر رہا ہوں۔
قرآن مجید میں سورئہ شوریٰ ۳۸ میں ہے:
والذین استجابوالربھم واقاموا الصلوة و امرھم شوریٰ بینھم ومما رزقناھم ینفقون
یہ آیت مومنوں اور اسلام کے پیروؤں کے اوصاف ان لفظوں میں بیان کرتی ہے:
“یہ لوگ حق کی دعوت قبول کرتے ہیں’ نماز پڑھتے ہیں’ اپنے کام باہمی ہم فکری اور رائے مشورے سے انجام دیتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عنایت کیا ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں۔”
پس اسلامی نقطہ نظر سے تبادلہ خیال اور ہم فکری مومنوں اور اسلام کے پیروؤں کی زندگی کے اصول میں شامل ہے۔
نہج البلاغہ میں ہے:
و اعلموا ان عباد اللہ المسحفطبر علمہ یصونون مصونہ و یفجرون عیونہ یتواصلون بالولایة ویتلاقون بالمحبہ’ ویساقون بکاس رویة و یصدرون بریة
“جان لو! خدا کے جن بندوں کو الٰہی علم سپرد کیا گیا ہے وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں’ اس کے چشموں کو جاری کرتے ہیں’ یعنی علم کے چشموں سے لوگوں کو سیراب کرتے ہیں’ آپس میں محبت آمیز عواطف اور دوستی کا رشتہ قائم کرتے ہیں’ کشادہ روئی’ محبت ار گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اپنی فکر و علم کے جام سے سیراب کرتے ہیں’ اپنے نظریات سے ایک دوسرے کو مستفید کرتے ہیں’ نتیجہ میں سب کے سب سیراب ہو کر باہر آتے ہیں۔”
اگر فقاہت کی علمی کونسل قائم ہو جائے اور تبادلہ خیال کا عمل باقاعدہ طور سے انجام پائے تو فقہ میں رونما ہونے والی ترقی کے علاوہ فتوؤں کا اختلاف بھی کافی حد تک برطرف ہو جائے گا۔
اگر ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہماری فقہ بھی دنیا کے واقعی علوم کا ایک حصہ ہے’ تو ہمیں بھی ان اسلوبوں سے استفادہ کرنا پڑے گا جس سے دوسرے علوم میں فائدہ اٹھایا جا رہا ہے’ اگر ہم ان اسلوبوں کو کام میں نہ لائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری فقہ’ علوم کی صف سے خارج ہے۔
کچھ اور بھی تجویزیں ہیں’ لیکن انہیں بیان کرنے کا اب وقت نہیں رہا ہے’ میں نے اس آیت کو سرنامہ کلام بنایا تھا:
قلولا نفرمن کل فرقة منھم طائفہ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلم یحذرون
یہ آیت واضح لفظوں میں حکم دے رہی ہے کہ کچھ مسلمانوں خو دین میں “تفقہ” کر کے دوسروں کو اپنے “تفقہ” سے بہرہ مند کرنا چاہئے۔
“تفقہ”، “فقہ” سے بنا ہے’ فقہ کا معنی صرف سمجھنا ہی نہیں ہے’ بلکہ گہرائی اور ایک شئے کی حقیقت کے متعلق بھرپور بصیرت کے ساتھ سمجھنے کو فقہ کہتے ہیں۔ راغب اصفہانی اپنی کتاب “مفردات” میں کہتے ہیں:
الفقہ ھوالتوصل الی علم غائب بعلم شاہد
“فقہ ظاہر و آشکار امر کے ذریعے کسی مخفی و پوشیدہ حقیقت کے انکشاف کا نام ہے۔”
تفقہ کی تعریف میں کہتے ہیں:
تفقہ اذا طلبہ فتخصص بہ
“کسی چیز کو تلاش کیا اور اس میں مہارت حاصل کر لی۔”
یہ آیت مسلمانوں سے کہتی ہے کہ دین کی معرفت سطحی نہیں ہونی چاہئے بلکہ گہرائی میں اتر کر غور و فکر کریں اور احکام کی روح و فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
یہ آیت اجتہاد و فقاہت کی دلیل ہے اور یہی آیت ہماری تجویزوں کی سند ہے’ جس طرح اس آیت کی روشنی میں اسلام میں تفقہ و اجتہاد کی بساط بچھائی گئی’ اسی طرح اس آیت کے فرمان کے مطابق اس کی بساط میں مزید وسعت دی جائے’ ضرورتوں پر مزید توجہ دی جائے’ فقہی کونسل میدان عمل قدم رکھے’ اجتماع سے کٹ کر انفرادی اقدامات منسوخ قرار دے دیئے جائیں’ تخصصی شعبے قائم کئے جائیں تاکہ ہماری فقہ اپنا ارتقائی سفر جاری رکھ سکے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.