دنیا کی حقیقت

560

حضرت علی علیہ السلام نے دنیا کی حقیقت کو دنیا والوں کے سامنے اس طرح آشکار اور روشن کرکے اس کے چہرہ سے دھوکہ اور فریب کی نقاب ہٹا دی ہے جس کے بعد ہر شخص دنیا کی اصلی شکل و صورت کو پہچان سکتا ہے۔لہٰذا دنیا کے بارے میں آپ کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں :۱۔ ‘ و اﷲ ما دنیاکم عندی الاکسَفْرٍ علیٰ منھل حلّوا ، اذ صاح بھم سائقھم فارتحلوا ، و لا لذاذاتُھا فی عینی الا کحمیم أشربُہ غسّاقا ، و علقم أتجرع بہ زُعافا، وسمّ أفعاۃٍ دِھاقاً، وقَلادۃٍ من نار ‘ (۱)’خدا کی قسم تمھاری دنیا میرے نزدیک ان مسافروں کی طرح ہے جو کسی چشمہ پر اترے ہوں ،اور جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں ،اور اس کی لذتیں میری نگاہ میں اس گرم اورگندے پانی کی طرح ہیں جسے مجبوراً پینا پڑے اور وہ کڑوی چیز ہے جسے مردنی کی حالت میں زبردستی گلے سے نیچے اتارا جائے اور وہ اژدہے کے زہر سے بھرا ہوا پیالہ اور آگ کا طوق ہے’اس دنیا کا جو رخ لوگوں کو دکھائی دیتا ہے وہ اسی بھرے ہوئے چشمہ کی طرح ہے جس پر قافلہ ٹھہراہو ‘ سفرعلی منھل حلوا’اور یہ اسکا وہی ظاہری رخ ہے جس کے اوپر وہ ایک دوسرے کو مرنے اور مارنے کو تیار رہتے ہیں ۔جبکہ مولائے کائنات (ع) نے اس کو زود گذر قرار دیا ہے جو کہ دنیا کا واقعی چہرہ ہے 🙁 اذ صاح بہم سائقہم فارتحلوا )’ جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں’یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جن لذتوں کےلئے لوگ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ مولائے کائنات (ع)کی نگاہ میں گرم، بدبوداراور سانپ کے زہر کے پیالہ کی طرح ہے ۔’جب معاویہ نے جناب ضرار بن حمزہ شیبانی(رح) سے امیر المومنین (ع)کے اوصاف و خصائل و معلوم کئے تو آپ نے کہا کہ بعض اوقات میں نے خوددیکھا ہے کہ آپ رات کی تاریکی میں محراب عبادت میں کھڑے ہیں اور اپنی ریش مبارک ہاتھ میںلئے ہوئے ایک بیمار کی طرح تڑپ رہے ہیں اور ایک غمزدہ کی طرح گریہ کررہے ہیںاس وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری رہتے ہیں :’ یادنیاالیک عنی، أبی تعرّضتِ؟ أم الیّ تشوّقتِ ؟ ھیھات !! غرّی غیری لا حاجۃ لی فیکِ ،قد طلقتک ثلاثاً، لارجعۃ فیھا:فعیشک قصیر، و خطرک کبیر، و املک حقیر، آہ من قلّۃ الزاد، و طول الطریق ‘ (۲)’اے دنیا مجھ سے دورہوجا کیا تو میرے سامنے بن ٹھن کر آئی ہے اور کیا واقعاً میری مشتاق بن کر آئی ہے بہت بعید ہے جا میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دینا مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں ہے ۔میں تجھے تین بار طلاق دے چکا ہوں جس کے بعد رجوع ممکن نہیںہے تیری زندگی بہت مختصر،تیری حیثیتبہت معمولی ،تیری آرزوئیں حقیر ہیں ،آہ، زاد راہ کس قدر کم اور راستہ کتنا طولانی ہے ‘آپ نے دنیاکے ان تینوں حقائق کو اس سے فریب کھانے والے شخص کے لئے واضح کردیا ہے کہ اس کی زندگی بہت مختصر اس کے خطرات زیادہ اور اس کی آرزوئیں حقیر ہیں ۔اس بارے میں آپ کے یہ ارشادات بھی ہیں ۔۱۔ ( ألا وان الدنیا دارغرّارۃ ، خدّاعۃ ، تنکح فی کل یوم بعلاً، و تقتل فی کل لیلۃ أھلاً، و تُفرّق فی کل ساعۃ شملاً) (۳)’یاد رکھو یہ دنیا بہت پر فریب گھر ہے اور بیحد دھوکے باز(عورت کے مانند ہے جو) ہر روز ایک نئے شوہر سے نکاح کرتی ہے اوہر رات اپنے گھر والوں کوہلاک کرڈالتی ہے اور ہرساعت ایک قوم کو متفرق کرڈالتی ہے ‘۲۔(ان اقبلت غرّت،وان أدبرت ضرّت) (۴)’اگریہ دنیا تمہاری طرف رخ کرے گی تو تمہیں فریب میں مبتلا کردیگی اور اگروہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئی تونقصان دہ ہے ‘۳۔(الدنیا غرورحائل،وسراب زائل،وسنادمائل) (۵)’دنیابدل جانے والا فریب، زائل ہوجانے والا سراب اور خم شدہ ستون ہے ‘۴۔دنیا کے ظاہر وباطن کی نقشہ کشی آپ نے ان الفاظ میں کی ہے :(مثل الد نیا مثل الحیّۃ مسّھا لیّن،وفی جوفھاالسم القاتل ، یحذرھا الرجال ذووالعقول، و یھوی الیھا الصبیان بأید یھم ) (۶)’یہ دنیا بالکل سانپ کی طرح ہے جو چھونے میں بہت نرم ہے مگراس کے اندر مہلک زہر بھرا ہوا ہے اہل عقل اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور بچے اسے ہاتھ میں اٹھانے کے لئے جھک جاتے ہیں ‘اس قول میں امام نے بہت ہی حسین وجمیل انداز میں دنیا کے ظاہروباطن کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے کہ اسکا ظاہر سانپ کی طرح جاذب نظراور چھونے پر بہت نرم معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے باطن میں دھوکہ اور زوال ہی زوال ہے جیسے ایک سانپ کے منھ میں مہلک زہر بھرا رہتا ہے ۔اسی طرح اس دنیا کی طرف دیکھنے والے لوگوں کی بھی دو قسمیں ہیں :اہل عقل اور صاحبان بصیرت اس سے خائف رہتے ہیں جس طرح انہیں سانپ سے خوف محسوس ہوتاہے ۔لیکن ان کے علاوہ بقیہ لوگ اس سے اسی طرح دھوکہ کھاجاتے ہیں جس طرح زہریلے سانپ کی چمکیلی اور نرم کھال دیکھ کر بچے دھوکہ کھاتے ہیں ۔
آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ’یہ ایک ایسا گھر ہے جو بلاؤں میں گھرا ہوا ہے اور اپنی غداری میں مشہور ہے نہ اس کے حالات کو دوام ہے اور نہ اس میں نازل ہونے والوں کے لئے سلامتی ہے ۔اس کے حالات مختلف اور اس کے طورطریقے بدلنے والے ہیں اس میں پر کیف زندگی قابل مذمت ہے اور اس میں امن وامان کا کہیں دو ر دور تک پتہ نہیں ہے ۔۔۔اس کے باشندے وہ نشانے ہیں جن پر دنیا اپنے تیر چلاتی رہتی ہے اور اپنی مدت کے سہارے انھیں فنا کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے ۔اے بندگان خدا ،یاد رکھو اس دنیا میں تم اور جو کچھ تمہارے پاس ہے سب کا وہی راستہ ہے جس پر پہلے والے چل چکے ہیں جن کی عمریں تم سے زیادہ طویل اور جن کے علاقے تم سے زیادہ آبادتھے ان کے آثار بھی دور دور تک پھیلے ہوئے تھے لیکن اب ان کی آوازیں دب گئیں ہیں ان کی ہوائیں اکھڑگئیں ہیں ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے ہیں ۔ان کے مکانات خالی ہوگئے ہیں اور ان کے آثار مٹ چکے ہیں وہ مستحکم قلعوں اور بچھی ہوئی مسندوں کو پتھروں اور چنی ہوئی سلوں اور زمین کے اندرقبروں میں تبدیل کرچکے ہیں جن کے صحنوں کی بنیاد تباہی پر قائم ہے اور جن کی عمارت مٹی سے مضبوط کی گئی ہے ۔ان قبروں کی جگہیں تو قریب قریب ہیں لیکن ان کے رہنے والے سب ایک دوسرے سے اجنبی اور بیگانہ ہیں ایسے لوگوں کے درمیان ہیں جو بوکھلائے ہوئے ہیں اور یہاں کے کاموں سے فارغ ہوکر وہاں کی فکر میں مشغول ہوگئے ہیں ۔نہ اپنے وطن سے کوئی انس رکھتے ہیں اور نہ اپنے ہمسایوں سے کوئی ربط رکھتے ہیں ۔حالانکہ بالکل قرب وجوار اور نزدیک ترین دیار میں ہیں ۔ اور ظاہر ہے اب ملاقات کا کیاامکان ہے جبکہ بوسیدگی نے انہیں اپنے سینہ سے دباکر پیس ڈالا ہے اور پتھروں اور مٹی نے انہیں کھاکر برابر کردیا ہے اور گویا کہ اب تم بھی وہیں پہونچ گئے ہو جہاں وہ پہونچ چکے ہیں اور تمہیں بھی اسی قبر نے گروی رکھ لیا ہے اور اسی امانت گا ہ نے جکڑلیا ہے ۔ذرا سوچو اس وقت کیا ہوگا جب تمہارے تمام معاملات آخری حد تک پہنچ جائیںگے اور دوبارہ قبروں سے نکال لیا جائے گا اس وقت ہر نفس اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرے گا اور سب کو مالک برحق کی طرف پلٹادیا جائے گا اور کسی پر کوئی افترا پر دازی کام آنے والی نہ ہوگی۔ (۷)سید رضی نے نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت امیر المومنین (ع) نے شریح بن حارث سے فرمایا:( بلغنی انّک ابتعت داراً بثمانین دیناراً،وکتبت لھاکتاباً، وأشھدت فیہ شھوداً؟!۔۔۔)مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اسی (۸۰) دینا ر میں ایک گھر خریدا ہے اور اس کے لئے باقاعدہ ایک بیع نامہ لکھ کر لوگوں کی گواہی بھی درج کی ہے ۔تو شریح نے عرض کی :اے امیر المومنین (ع) ۔جی ہاں: ایسا ہی ہے ۔تو آپ نے ان کی طرف غصہ بھری نظر وں سے دیکھ کرکہا ۔اے شریح عنقریب تمہارے پاس ایسا شخص آنے والا ہے جو نہ تمہارے اس بیع نامہ کو دیکھے گا اور نہ گواہوں کے بارے میں تم سے کچھ سوال کرے گا اور وہ تمہیں اس گھر سے نکال کر تن تنہا تمہاری قبر کے حوالے کردیگا لہٰذا ۔ اے شریح۔کہیں ایسا نہ ہوکہ تم نے اس گھر کو اپنے مال سے نہ خریدا ہو اور ناجائز طریقے سے اس کے دام ادا کئے ہوں۔اگر ایسا ہواتو تم دنیا اورآخرت دونوں جگہ گھاٹے میں ہو ۔کاش تم یہ گھر خریدنے سے پہلے میرے پاس آجاتے تو میں تمہارے لئے ایک دستاویز تحریر کردیتا تو تم ایک درہم میں بھی یہ گھر نہ خریدتے ۔میں اس کی دستاویز اس طرح لکھتا :یہ وہ مکان ہے جسے ایک بندئہ ذلیل نے اس مرنے والے سے خریداہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کردیا گیا ہے ۔یہ مکان پر فریب دنیا میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے ۔اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہیں ۔ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اور دوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے تیسری حد ہلاک کردینے والی خواہشات کی طرف ہے اور چوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف سے گھر کا دروازہ کھلتا ہے ۔اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب وخواہش کی ذلت میں داخل ہوگیا ہے ۔اب اگر اس خریدار کو اس سودے میں کوئی خسارہ ہوتو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموں کو تہ وبالا کرنے والا، جابروں کی جان لینے والا،فرعونوں کی سلطنت کوتباہ کردینے والا،کسریٰ وقیصر ،تبع وحمیر اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں،مستحکم عمارتیں بناکر انھیں سجانے والوں،ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو فناکے گھاٹ اتار دینے والا ہے ۔کہ ان سب کو قیامت کے میدان حساب اور منزل ثواب و عذاب میں حاضر کردے جب حق وباطل کا حتمی فیصلہ ہوگا اور اہل باطل یقیناخسارہ میں ہونگے۔اس سودے پر اس عقل نے گواہی دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے ‘ (۸)دنیا کے بارے میںآپ نے یہ بھی فرمایا ہے :یاد رکھو:اس دنیا کا سرچشمہ گندہ اور اسکا گھاٹ گندھلاہے ،اسکا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن اندر کے حالات انتۂی درجہ خطرناک ہیں ،یہ ایک فنا ہوجانے والا فریب، بجھ جانے والی روشنی ،ڈھل جانے والا سایہ اور ایک گر جانے والا ستون ہے ۔جب اس سے نفرت کرنے والا مانوس ہوجاتا ہے اور اسے برا سمجھنے والا مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اچانک اپنے پیروں کو پٹکنے لگتی ہے اور عاشق کو اپنے جال میں گرفتار کرلیتی ہے اور پھر اپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے انسان کی گردن میں موت کا پھندہ ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کر قبر کی تنگی اور وحشت کی منزل تک لے جاتی ہے جہاں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معاوضہ حاصل کرلیتا ہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتا رہتا ہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پر آجاتی ہے نہ موت چیرہ دستیوں سے بازآتی ہے اور نہ آنے والے افراد گناہوں سے باز آتے ہیں پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہا ء وفنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں ۔ (۹)دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :’میں اس دار دنیاکے بارے میں کیا بیان کروں جسکی ابتداء رنج وغم اور انتہا فنا ونابودی ہے اس کے حلال میں حساب ہے اور حرام میںعذاب،جو اس میں غنی ہوجائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجائے ۔ اور جو فقیر ہوجائے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجائے ۔جو اس کی طرف دوڑلگائے اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اس کے پاس حاضر ہوجائے جو اسکو ذریعہ بناکر آگے دیکھے اسے بینابنادے اور جو اسے منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے ‘ (۱۰)اپنے دور خلافت سے پہلے آپ نے جناب سلمان فارسی ؓ کو اپنے ایک خط میں یہ بھی تحریر فرمایا تھا ۔اما بعد :اس دنیا کی مثال صرف اس سانپ جیسی ہے جو چھونے میں انتۂی نرم ہوتا ہے لیکن اسکا زہر انتۂی قاتل ہوتا ہے اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے بھی کنارہ کشی اختیار کرو۔کہ اس میں سے ساتھ جانے والا بہت کم ہے ۔اس کے ہم وغم کو اپنے سے دور رکھو کہ اس سے جدا ہونا یقینی ہے اور اس کے حالات بدلتے ہی رہتے ہیں ۔اس سے جس وقت زیادہ انس محسوس کرو اس وقت زیادہ ہوشیار رہو کہ اسکا ساتھی جب بھی کسی خوشی کی طرف سے مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اسے کسی ناخوشگواری کے حوالے کردیتی ہے اور انس سے نکال کرو حشت کے حالات تک پہونچادیتی ہے ۔والسلام ‘ (۱۱)دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایاہے :آگاہ ہوجاؤ دنیا جارہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں وہ تیزی سے منھ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف لی جارہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے اس کی شیرینی تلخ ہوچکی ہے اور اس کی صفائی ہوچکی ہے اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو، تہ میں بچاہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیاسا پی بھی لے تو اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے لہٰذا بند گان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جس کے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبردار: تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا’ (۱۲)دنیا کے بارے میں آپ (ع) نے یہ بھی فرمایاہے :میں تم لوگوں کو دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ شیریں اور شاداب ہے لیکن خواہشات میں گھری ہو ئی ہے اپنی جلد مل جانے والی نعمتوں کی بنا پر محبوب بن جاتی ہے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت بن جاتی ہے یہ امیدوں سے آراستہ ہے اور دھوکہ سے مزین ہے۔نہ اس کی خو شی دائمی ہے اور نہ اس کی مصیبت سے کو ئی محفوظ رہنے والا ہے یہ دھوکہ باز ،نقصان رساں ،بدل جانے والی ،فنا ہو جانے والی ،زوال پذیراور ہلاک ہو جانے والی ہے ۔یہ لوگوں کو کھا بھی جاتی ہے اور مٹا بھی دیتی ہے ۔جب اس کی طرف رغبت رکھنے والوں اور اس سے خوش ہو جانے والوںکی خواہشات انتہاء کو پہونچ جاتی ہے تویہ بالکل پروردگار کے اس ارشاد کے مطابق ہو جاتی ہے :(کماءٍ أنزلناہ من السماء فاختلط بہ نبَات الأرض فأصبح ھشیماً تذروہ الریاح وکان اﷲ علیٰ کل شیءٍ مقتدرا) (۱۳) ‘یعنی دنیا کی مثال اس پانی کے جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا اور اس کے ذریعہ زمین کے سبزہ مخلوط(ہوکر روئیدہ)ہوئے وہ سبزہ سوکھ کر ایسا تنکا ہوگیا جسے ہوائیں اڑالے جاتی ہیں اور اللہ ہر شئے پر قدرت رکھنے والا ہے ‘اس دنیا میں کو ئی شخص خوش نہیں ہوا ہے مگر یہ کہ اسے بعد میں آنسو بہانا پڑے اور کوئی اس کی خوشی کو آتے نہیں دیکھتا ہے مگر یہ کہ وہ مصیبت میں ڈال کر پیٹھ دکھلا دیتی ہے اور کہیں راحت وآرام کی ہلکی بارش نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ بلاؤں کا دو گڑا گرنے لگتا ہے ۔اس کی شان ہی یہ ہے کہ اگر صبح کو کسی طرف سے بدلہ لینے آتی ہے تو شام ہوتے ہوتے انجان بن جاتی ہے اور اگر ایک طرف سے شیریںاور خوش گوار نظر آتی ہے تو دوسرے رُخ سے تلخ اور بلا خیز ہوتی ہے ۔کوئی انسان اس کی تازگی سے اپنی خواہش پوری نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ اس کے پے درپے مصائب کی بنا پر رنج وتعب کا شکار ہو جاتا ہے اور کوئی شخص شام کو امن وامان کے پروں پر نہیں رہتا ہے مگر یہ کہ صبح ہوتے ہوتے خوف کے بالوں پر لاد دیا جاتا ہے ۔یہ دنیا دھو کہ باز ہے اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب دھو کہ ہے ۔یہ فانی ہے اور اس میں جو کچھ ہے سب فنا ہونے والاہے ۔اس کے کسی زادراہ میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔ اس میں سے جوکم حاصل کرتا ہے اسی کو راحت زیادہ نصیب ہوتی ہے اور جو زیادہ کے چکّر میں پڑجاتا ہے اس کے مہلکات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور یہ بہت جلد اس سے الگ ہوجاتی ہے ۔کتنے اس پراعتبار کرنے والے ہیں جنہیں اچانک مصیبتوں میں ڈال دیا گیا اور کتنے اس پر اطمینان کرنے والے ہیں جنہیں ہلاک کردیا گیا اور کتنے صاحبان حیثیت تھے جنہیں ذلیل بنا دیاگیا اور کتنے اکڑنے والے تھے جنہیں حقارت کے ساتھ پلٹا دیاگیا ۔اس کی بادشاہی پلٹا کھانے والی۔ اس کا عیش مکدّر ۔اس کا شیریں شور ۔اس کا میٹھا کڑوا ۔اس کی غذاز ہر آلود اور اس کے اسباب سب بوسیدہ ہیں ۔اس کازندہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کا صحت مندبیمار یوں کی زدپر ہے ۔اس کا ملک چھننے والا ہے اور اس کا صاحب عزت مغلوب ہونے والا ہے ۔اس کا مالدار بدبختیوں کا شکار ہونے والا ہے اور اس کا ہمسا یہ لُٹنے والا ہے ۔کیا تم انھیں کے گھر وں میں نہیں ہو جوتم سے پہلے طویل عمر ،پائید ارآثار اور دوررس امیدوں والے تھے ۔بے پناہ سامان مہیا کیا ،بڑے بڑے لشکر تیار کئے اور جی بھر کر دنیا کی پر ستش کی اور اسے ہر چیز پر مقدم رکھا لیکن اس کے بعد یوں روانہ ہو گئے کہ نہ منزل تک پہونچا نے والا زادراہ ساتھ تھا اور نہ راستہ طے کرانے والی سواری ۔کیا تم تک کوئی خبر پہو نچی ہے کہ اس دنیا نے ان کو بچانے کے لئے کوئی فدیہ پیش کیا ہو یا ان کی کوئی مدد کی ہو یا ان کے ساتھ اچھا وقت گزاراہو ۔؟ بلکہ اُس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے ،آفتوں سے اُنھیں عاجز ودر ماندہ کردیا اور لَوٹ لَو ٹ کرآنے والی زحمتوں سے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل اُنھیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے گھروں سے کچُل ڈالا ،اور ان کے خلاف زمانہ کے حوادث کا ہاتھ بٹا یا ۔تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دُنیا کی طرف جھکا اور اسے اختیار کیا اور اس سے لپٹا ،تو اس نے (اپنے تیّور بدل کر ان سے کیسی )ا جنبیّت اختیار کرلی ۔ یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس سے جُدا ہوکر چل دئیے ،اور اس نے انھیں بھُوک کے سوا کچھ زادِراہ نہ دیا ،اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹھہر نے کا سامان نہ کیا ،اور سواگھُپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا ،تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو،یا اسی پر مطمئن ہو گئے ہو یا اسی پر مرے جا رہے ہو ؟جو دنیا پر بے اعتماد نہ رہے اور اس میں بے خوف و خطر ہو کر رہے اس کے لئے یہ بہت برا گھر ہے ۔جان لو اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو ،کہ (ایک نہ ایک دِن)تمھیں دنیا کو چھوڑنا ہے ،اور یہاں سے کوچ کرنا ہے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ ‘ہم سے زیادہ قوت و طاقت میں کون ہے ۔’ انھیں لاد کر قبروں تک پہونچایا گیا مگر اس طرح نہیں کہ انھیں سوار سمجھا جائے انھیں قبروں میں اتار دیا گیا ،مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے پتھروں سے اُن کی قبریں چن دی گئیں ،اور خاک کے کفن ان پر ڈال دئے گئے اور گلی سڑی ہڈیوں کو ان کا ہمسایہ بنا دیا گیا ہے ۔وہ ایسے ہمسایہ ہیں جو پکارنے والے کو جواب نہیں دیتے ہیں اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں ۔اگر بادل (جھوم کر)ان پر برسیں ،تو خوش نہیں ہوتے اور قحط آئے تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی ۔وہ ایک جگہ ہیں ،مگر الگ الگ ،وہ آپس میں ہمسایہ ہیں مگر دور دور ،پاس پاس ہیں مگر میل ملاقات نہیں،قریب قریب ہیں مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے، وہ بردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں ،ان کے بغض و عناد ختم ہو گئے اور کینے مٹ گئے ۔نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے ،نہ کسی تکلیف کے دور کرنے کی توقع ہے انھوں نے زمین کے اوپر کا حصہ اندر کے حصہ سے اور کشادگی اور وسعت تنگی سے ،اور گھر بار پردیس سے اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے اور جس طرح ننگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے ، ویسے ہی زمین میں (پیوند خاک )ہوگئے اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کر گئے ۔جیسا کہ خداوندقدوس نے فرمایاہے :(کما بدأنا أول خلق نعیدہ وعداًعلینا انّا کنا فاعلین) (۱۴)’جس طرح نے ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دو بارہ پیدا کریں گے ۔ اس وعدہ کا پورا کرنا ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کرکے رہیں گے ‘آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:’ واُحذّرکم الدنیا فانھا منزل قُلعۃ ، ولیست بدارنُجعۃ ، قد تزیّنت بغرورھا، وغرّت بزینتھا، دارھانت علیٰ ربھا، فخلط حلالھا بحرامھا، وخیرھا بشرھا، و حیاتھا بموتھا، و حلوھا بمرّھا، لم یصفّھا اﷲ تعالیٰ لاولیائہ، ولم یَضنّ بھا علیٰ أعدائہ۔۔۔ ‘ (۱۵)’میں تمہیں اس دنیا سے ہو شیار کر رہا ہوں کہ یہ کوچ کی جگہ ہے ۔آب ودانہ کی منزل نہیں ہے ۔یہ اپنے دھوکے ہی سے آراستہ ہوگئی ہے اور اپنی آرائش ہی سے دھو کا دیتی ہے ۔اس کا گھر پروردگار کی نگاہ میں با لکل بے ارزش ہے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام ۔خیر کے ساتھ شر، زندگی کے ساتھ موت اور شیریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیاہے اور نہ اسے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیا ہے اور نہ اپنے دشمنوں کو اس سے محروم رکھا ہے ۔اس کا خیر بہت کم ہے اور اس کا شر ہر وقت حاضر ہے ۔اس کا جمع کیا ہو ا ختم ہوجانے والا ہے اور اس کا ملک چھن جانے والا ہے اور اس کے آباد کو ایک دن خراب ہوجانا ہے ۔بھلا اُس گھر میں کیا خوبی ہے جوکمز ور عمارت کی طرح گرجائے اور اس عمر میں کیابھلائی ہے جو زادراہ کی طرح ختم ہوجائے اور اس زندگی میں کیا حسن ہے جو چلتے پھرتے تمام ہوجائے ۔دیکھو اپنے مطلوبہ امور میں فرائض الٰہیہ کو بھی شامل کرلو اور اسی سے اس کے حق کے ادا کرنے کی توفیق کا مطالبہ کرواپنے کانوں کو موت کی آواز سنادوقبل اس کے کہ تمہیں بلالیا جائےدنیا کے سلسلہ میں ہی فرماتے ہیں :’۔۔۔عباداﷲاُوصیکم بالرفض لھذہ الدنیاالتارکۃ لکم وان لم تحبوا ترکھا،والمبلیۃ لأجسامکم وان کنتم تحبون تجدیدھا ، فانّما مثلکم و مثلھا کسَفْرٍ سلکوا سبیلاً فکأنّھم قد قطعوہ۔۔۔’ (۱۶)’بندگانِ خدا !میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ اس دنیا کو چھوڑ دو جو تمہیں بہر حال چھوڑنے والی ہے چاہے تم اس کی جدائی کو پسند نہ کرو۔وہ تمہارے جسم کو بہرحال بوسیدہ کردے گی تم لاکھ اس کی تازگی کی خواہش کرو ۔ تمہاری اور اس کی مثال ان مسافروں جیسی ہے جو کسی راستہ پر چلے اور گویا کہ منزل تک پہونچ گئے ۔کسی نشان راہ کا ارادہ کیا اور گویا کہ اسے حاصل کرلیا اور کتنا تھوڑا و قفہ ہوتا ہے اس گھوڑا دوڑانے والے کے لئے جو دوڑاتے ہی مقصد تک پہونچ جائے ۔اس شخص کی بقا ہی کیا ہے جس کا ایک دن مقرر ہو جس سے آگے نہ بڑھ سکے اور پھر موت تیز رفتاری سے اسے ہنکا کرلے جارہی ہو یہانتک کہ بادل ناخواستہ دنیا کو چھوڑدے ۔ خبردار دنیا کی عزت اور اس کی سربلندی میں مقابلہ نہ کرنا اور اس کی زینت و نعمت کو پسند نہ کرنا اور اس کی دشواری اور پریشانی سے رنجیدہ نہ ہونا کہ اس کی عزت وسربلندی ختم ہوجانے والی ہے اور اس کی زنیت و نعمت کو زوال آجانے والا ہے اوراس کی تنگی اور سختی بہرحال ختم ہوجانے والی ہے ۔یہاں ہر مدت کی ایک انتہا ہے اور ہر زندہ کے لئے فنا ہے ۔کیا تمہارے لئے گذشتہ لوگوں کے آثار میں سامان تنبیہ نہیں ہے ؟اور کیا آباء واجداد کی داستانوں میں بصیرت وعبرت نہیں ہے ؟اگر تمہارے پاس عقل ہے!کیا تم نے یہ نہیں دیکھا ہے کہ جانے والے پلٹ کر نہیں آتے ہیں اور بعد میں آنے والے رہ نہیں جاتے ہیں ؟کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اہل دنیا مختلف حالات میںصبح وشام کرتے ہیں ۔کوئی مردہ ہے جس پر گریہ ہو رہا ہے اور کوئی زندہ ہے تو اسے پرسہ دیاجارہا ہے ۔ ایک بستر پر کوئی غفلت میں پڑا ہوا ہے تو زمانہ اس سے غافل نہیں اور اس طرح جانے والوں کے نقش قدم پر رہ جانے والے چلے جارہے ہیں ۔آگاہ ہوجاؤ کہ ابھی موقع ہے اسے یاد کرو جو لذتوں کو فنا کردینے والی ۔خواہشات کو مکدر کردینے والی اور امیدوں کو قطع کردینے والی ہے ایسے اوقات میں جب برے اعمال کا ارتکاب کر رہے ہو اور اﷲسے مدد مانگو تاکہ اس کے واجب حق کو ادا کردو اور ان نعمتوں کا شکریہ ادا کر سکو جن کا شمار کرنا ناممکن ہے ‘یہ زندگانی دنیا کا پہلا رخ ہے چنانچہ دنیا کے اس چہرے کی نشاندہی کرنے کے لئے ہم نے روایات کو اسی لئے ذرا تفصیل سے ذکر کیا ہے کیونکہ اکثر لوگ دنیا کے باطن کو چھوڑ کراس کے ظاہر پر ہی ٹھہرجاتے ہیں اور ان کی نظر یں باطن تک نہیں پہونچ پاتیں ۔شاید ہمیں انہیں روایات میں ایسے اشارے مل جائیں جن کے سہارے ہم ظاہر دنیا سے نکل کر اس کے باطن تک پہونچ جائیں ۔
دنیا کا ظاہری رخ ( روپ )دنیاوی زندگی کا ظاہری روپ بے حد پر فریب ہے کیونکہ جس کے پاس چشم بصیرت نہ ہو اسکو یہ زندگانی دنیا دھوکے میں مبتلا کرکے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور پھراسے آرزووں ،خواہشات ، فریب اور لہوولعب کے حوالے کردیتی ہے ۔جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :(وما الحیاۃ الدنیا الا لعب ولھو) (۱۷)’اور یہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے ‘(ما ھذہ الحیاۃ الدنیا الا لھوولعب) (۱۸)’اور یہ زندگانی دنیا ایک کھیل تماشے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ‘(انماالحیاۃ الدنیالعب ولھووزینۃ وتفاخر بینکم) (۱۹)’یاد رکھو کہ زندگانی دنیا صرف ایک کھیل تماشہ ،آرائش باہمی فخرومباہات اور اموال واولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے ‘خداوند عالم نے دنیا کے جس رخ کو لہو ولعب قرار دیا ہے وہ اسکا ظاہری رخ ہے ۔اور لہو ولعب سنجیدگی اور متانت کے مقابلہ میں بولاجاتا ہے ۔۔۔البتہ انسان اسی وقت لہو ولعب میں گرفتار ہوتا ہے کہ جب وہ دنیا کے ظاہری روپ پر نظر رکھے اور سنجیدگی و متانت سے دو ر رہے چنانچہ اگر وہ دنیا کے ظاہرکے بجائے اس کے باطن پر توجہ رکھے تو لہو ولعب (کھیل کود)سے بالکل دور ہوکر زاہد وپارسا بن جائیگا اور دنیا کے دوسرے معاملات میں الجھنے کے بجائے اسے صرف اپنے نفس کی فکر لاحق رہے گی۔کیونکہ دنیا’لُماظۃ’ہے ۔مولائے کائنات (ع)فرماتے ہیں :’ ألا مَن یدع ھذہ اللُّماظۃ ‘ (۲۰)’کون ہے جو اس لماظہ کو چھوڑ دے ‘لماظہ منھ کے اندر بچی ہوئی غذا کو کہا جاتاہے ‘۔حضرت علی (ع):’ اُحذّرکم الدنیا فانھا حلوۃ خضرۃ، حُفّت بالشھوات ‘ (۲۱)’میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ ایسی شیرین وسرسبز ہے جوشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ‘
دنیاوی زندگی کے ظاہر اور باطن کا موازنہقرآن کریم میں دنیاوی زندگی کے دونوں رخ (ظاہر وباطن )کا بہت ہی حسین موازنہ پیش کیا گیا ہے نمونہ کے طورپر چند آیات ملاحظہ فرمائیں :۱۔ ( انّما مثل الحیاۃ الدنیا کماءٍ أنزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض مما یأکل الناس والانعام حتیٰ اذا أخذت الارض زُخرفھا وازّیّنت وظنّ أھلھا أنّھم قادرون علیھا أتاھا أمرنا لیلاً أونھاراً فجعلناھا حصیداً کأن لم تغن بالامس کذٰلک نفصّل الآیات لقومٍ یتفکّرون) (۲۲)’زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا پھر اس سے مل کر زمین سے نباتات برآمد ہوئیں جن کو انسان اور جانور کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے سبز ہ زارسے اپنے کو آراستہ کرلیا اور مالکوں نے خیال کرنا شروع کردیا کہ اب ہم اس زمین کے صاحب اختیار ہیں تو اچانک ہمارا حکم رات یا دن کے وقت آگیا اور ہم نے اسے بالکل کٹا ہواکھیت بناد یا گویا اس میں کل کچھ تھا ہی نہیں ہم اس طرح اپنی آیتوں کو مفصل طریقہ سے بیان کرتے ہیں اس قوم کے لئے جو صاحب فکر ونظر ہے ‘اس آیۂ کریمہ میں زندگانی دنیا ،اس کی زینت اور آرائشوں اور اس کی تباہی و بربادی اور اس میں اچانک رو نما ہو نے والی تبدیلیوں کی عکاسی مو جود ہے ۔چنانچہ دنیا کو اس بارش کے پانی سے تشبیہ دی گئی ہے جو آسمان سے زمین پر برستا ہے اور اس سے زمین کے نباتات ملتے ہیں تو ان نباتات میں نمو پیدا ہوتا ہے اور وہ انسانوں اور حیوانوں کی غذانیززمین کی زینت بنتے ہیں ۔یہاں تک کہ جب زمین اپنی آرائشوں اور زینتوں سے آراستہ ہوجاتی ہے۔۔۔تو اچانک یہ حکم الٰہی کسی بجلی، آندھی(ہوا)وغیرہ کی شکل میں اس کی طرف نازل ہوجاتا ہے اور اسے بالکل ویرانے اور خرابے میں تبدیل کردیتا ہے جیسے کل تک وہ آباد ،سرسبز و شاداب ہی نہ تھی یہ دنیا کے ظاہری اور باطنی دونوں چہروںکی بہترین عکاسی ہے کہ وہ اگر چہ سر سبزو شاداب ، پُرفریب ، برانگیختہ کرنے والی،پرکشش (جالب نظر)دلوں کے اندر خواہشات کو بھڑکانے والی ہے لیکن جب دل اس کی طرف سے مطمئن ہو جاتے ہیں تواچانک حکم الٰہی نازل ہوجاتا ہے اور اسے کھنڈر اور بنجر بناڈالتا ہے جس سے لوگوں کو کراہیت محسوس ہو تی ہے ۔اس سورہ کا پہلا حصہ دنیا کے ظاہری چہرہ کی وضاحت کر رہا ہے جو انسان کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کردیتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وعظ و نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کا سرچشمہ ہے ۔جو کہ دنیا کا باطنی رخ ہے ۔۲۔: ‘ انّا جعلنا ما علیٰ الارض زینۃً لھا لنبلوھم أیّھم أحسن عملاً ‘ (۲۳)’بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زینت قرار دیدیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے ‘دنیا یقینا ایک زینت ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہی زینت و آرائش انسانی خواہشات کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے مگر ان آرائشوں کی کوکھ میں مختلف قسم کے امتحانات بلائیں اور آزما ئشیںپو شیدہ رہتی ہیں جن کے اندر انسان کی تنزلی کے خطرات چھپے رہتے ہیں اور یہ بالکل اسی طرح ہیں جیسے کسی شکار کو پکڑنے کے لئے چارا ڈالا جاتا ہے ۔۳۔ ( اعلموا أنما الحیاۃ الدنیا لعب ولہو و زینۃ و تفاخر بینکم و تکاثر فی الاموال والاولاد کمثل غیث أعجب الکفّار نباتہ ثم یھیج فتراہ مصفرّا ثم یکون حطاماً و فی الآخرۃ عذاب شدید و مغفرۃ من اﷲ ورضوان و ما الحیاۃ الدنیا الاّٰ متاع الغرور) (۲۴)’یاد رکھو کہ زندگانی دنیا صرف ایک کھیل تماشہ ،آرائش ،باہمی فخر و مباہات، اور اموال واولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے اور بس ۔جیسے کوئی بارش ہو جسکی قوت نامیہ کسان کو خوش کردے اور اس کے بعد وہ کھیتی خشک ہوجائے پھر تم اسے زرد دیکھو اور آخر میں وہ ریزہ ریزہ ہوجائے اور آخرت میں شدید عذاب بھی ہے اور مغفرت اور رضائے الٰہی بھی ہے اور زندگانی دنیا تو بس ایک دھوکہ کا سرمایہ ہے اور کچھ نہیں ہے ‘
دنیا کے بارے میں نگاہوں کے مختلف زاوئےدر حقیقت دنیا کو متعدد زاویوںسے دیکھنے کی وجہ سے ہی دنیا کے مختلف رخ دکھائی دیتے ہیں اسی لئے زاویہ نگاہ تبدیل ہوتے ہی دنیا کا رخ بھی تبدیل ہوجاتا ہے ورنہ دنیا تو ایک ہی حقیقت کا نام ہے مگر لوگ اس کی طرف دو رخ سے نظر کرتے ہیں ۔کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو دنیا کو پر غرور اور پرفریب نگاہوں سے دیکھتے ہیں جبکہ بعض حضرات اسے عبرت کی نگاہوں سے دیکھاکرتے ہیں ان دونوں نگاہوںکے زاویوںمیں ایک انداز نگا ہ سطحی ہے جو دنیا کی ظاہری سطح پر رکا رہتا ہے اور انسان کو شہوت وغرور (فریب)میں مبتلا کردیتا ہے جبکہ دوسرا انداز نظر اتنا گہرا ہے کہ وہ دنیا کے باطن کو بھی دیکھ لیتا ہے لہٰذا یہ اندازنظر رکھنے والے حضرات اس دنیا سے دوری اور زہد اختیار کرتے ہیں مختصر یہ کہ اس مسئلہ کا دارو مدار دنیا کے بارے میں ہمارے زاویہ نگاہ اور انداز فکر پر منحصر ہے ۔لہٰذا دنیا کے معاملات کو صحیح کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کے بارے میں انسان کا انداز فکر صحیح ہوناچۂےے جس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ دنیا کے بارے میں اپنا زاویۂ نگاہ صحیح کرے اس کے بعد وہ اسکو جس نگاہ سے دیکھے گا اسی اعتبار سے اس کے ساتھ پیش آئے گا ۔لہٰذا جو حضرات دنیا کو پر فریب نگاہوں سے دیکھتے ہیں انہیں دنیا دھوکہ میں ڈال دیتی ہے اور خواہشات میں مبتلا کردیتی ہے اور ان کے لئے یہ زندگانی ایک کھیل تماشہ بن کر رہ جاتی ہے جسکی طرف قرآن مجید نے متوجہ کیا ہے ۔اور جو لوگ دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وہ اپنے اعمال میں صداقت اور سنجیدگی کا خیال رکھتے ہیں اور آخرت کا واقعی احساس انہیں دنیا کے کھیل تماشہ سے دور کردیتا ہے ۔مولائے کائنات(ع) کے کلمات میں دنیا کے بارے میں موجود مختلف نگاہوں کی طرف واضح اشارے موجود ہیںجن میں سے ہم یہاں بعض کا تذکرہ کر رہے ہیں:( کان لی فیما مضیٰ أخ فی اﷲ ، و کان یعظّمہ فی عینی صغر الدنیا فی عینہ ) (۲۵)’گذشتہ زمانہ میں میرا ایک بھائی تھا جس کی عظمت میری نگاہوں میں اس لئے تھی کہ دنیا اس کی نگاہ میں حقیر تھی ‘دنیا کی توصیف میں آپ فرماتے ہیں 🙁 ما أصف من دار أوّلھا عناء ، و آخرھا فناء ، فی حلالھا حساب ، و فی حرامھا عقاب ، من استغنیٰ فیھا فُتن ، و من افتقر فیھا حزن ) (۲۶)’میں اس دنیا کے بارے میں کیا کہوں جسکی ابتدا رنج وغم اور انتہا فناونیستی ہے اس کے حلال میں حساب اور حرام میں عقاب ہے۔جو اس میںغنی ہوجاتاہے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجاتاہے اور جو فقیر ہوجاتاہے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجاتاہے ‘یہی رخ دنیا کا باطنی رخ اور وہ دقت نظر ہے جو دنیا کے باطن میں جھانک کردیکھ لیتی ہے ۔پھر آپ فرماتے ہیں :(من ساعاھافا تتہ،ومن قعدعنھاواتتہ) (۲۷)’جو اس کی طرف دوڑلگاتاہے اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اس کے پاس حاضر ہوجاتی ہے ‘دنیا سے انسانی لگاؤ کے بارے میں خداوند عالم کی یہ ایک سنت ہے جس میں کبھی بھی خلل یا تغیر پیدا نہیں ہوسکتا ہے چنانچہ جو شخص دنیا کی طرف دوڑلگائے گا اور اس کے لئے سعی کریگا اور اس کی قربت اختیار کریگا تو وہ اسے تھکاڈالے گی۔اور اس کی طمع کی وجہ سے اس کی نگاہیں مسلسل اس کی طرف اٹھتی رہیں گی۔چنانچہ اسے جب بھی کوئی رزق نصیب ہوگا تو اسے اس سے آگے کی فکر لاحق ہوجائیگی۔اور وہ اس کے لئے کوشش شروع کردیگا مختصر یہ کہ وہ دنیا کا ساتھی ہے اور اس کے پیچھے دوڑلگاتا رہے گا مگر اسے دنیا میں اسکا مقصد ملنے والا نہیں ہے ۔البتہ جو دنیا کی تلاش اور طلب میں صبروحوصلہ سے کام لیکر میانہ روی اختیار کریگا تو دنیا خود اس کے قدموں میں آکر اس کی اطاعت کرے گی اور وہ بآسانی اپنی آرزو تک پہونچ جائے گا۔پھر آپ ارشاد فرماتے ہیں:( من أبصر بھا بصّرتہ ، و من أبصر الیھا أعمتہ ) (۲۸)’جو اسکو ذریعہ بنا کر آگے دیکھتارہے اسے بینابنادےتی ہے اور جو اسکو منظور نظر بنالےتاہے اسے اندھا کردیتی ہے ‘سید رضی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی یہ تشریح فرمائی ہے: کہ اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی ( من ابصر بھا بصرتہ ) میں غور وفکر کرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرلے گا جن کی بلندیوں اور گہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے ۔مولائے کائنات (ع) نے دنیا کے بارے میں نگاہ کے ان دونوں زاویوں کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں سے ایک یہ ہے ‘کہ دنیا کو ذریعہ بناکر آگے دیکھا جائے ‘اس نگاہ میں عبرت پائی جاتی ہے اور دوسرا زاویہ نظر یہ ہے کہ انسان دنیا کو اپنا منظور نظر اور اصل مقصد بنالے اس نگاہ کا نتیجہ دھوکہ اور فریب ہے جسکی وضاحت کچھ اس طرح ہے :یہ دنیا کبھی انسان کے لئے ایک ایسا آئینہ بن جاتی ہے جس میں وہ مختلف تصویریں دیکھتا ہے اور کبھی اس کی نظر خود اسی دنیا پر لگی رہتی ہے ۔چنانچہ جب دنیا انسان کے لئے ایک آئینہ کی مانند ہوتی ہے جس میں جاہلیت کے تمدن اور زمین پر فساد برپا کرنے والے ان متکبرین کا چہرہ بخوبی دیکھ لیتا ہے جن کو خدا نے اپنے عذاب کا مزہ اچھی طرح چکھادیا …تو یہ نگاہ ،عبرت ونصیحت کی نگاہ بن جاتی ہے ۔لیکن جب دنیا انسان کے لئے کل مقصد حیات کی شکل اختیار کرلے اور وہ ہمیشہ اسی نگاہ سے اسے دیکھتا رہے تو دنیا اسے ہویٰ وہوس اور فتنوں میں مبتلا کرکے اندھا کردیتی ہے اور وہ اسے بہت ہی سر سبز و شیرین دکھائی دیتی ہے۔اس طرح پہلی نگاہ میں عبرت کا مادہ پایا جاتا ہے اور دوسری نظر میں فتنہ وفریب کا مادہ ہوتا ہے ۔پہلی نگاہ میں فقط بصیرت پائی جاتی ہے جبکہ دوسری نگاہ میںعیاری اور دھوکہ ہے ۔انہیں جملوں کی شرح کے بارے میں ابن الحدید کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت کے یہ جملات پڑھے تو اس کی تشریح میں یہ دو اشعار کہے :’ دنیاک مثل الشمس تدنی الیک الضوء لکن دعوۃَ المہلکِ ان أنت أبصرت الیٰ نورھا تَعْشُ وان تُبصربہ تدرک ‘تمہاری دنیا کی مثال اس سورج جیسی ہے جس کی ضیاء تمہارے سامنے ہے لیکن ایک مہلک انداز میں کہ اگر تم اس (نور)کی طرف دیکھو گے تو تمہاری نگاہ میں خیرگی پیدا ہوجائیگی اور اگر اس کے ذریعہ کسی چیز کو دیکھنا چاہو گے تو اسے دیکھ لو گے .اسی زاویہ نگاہ کی بنیاد پر مولائے کائنات (ع)نے یہ ارشاد فرمایا ہے :(۔۔۔جعل لکم أسماعاً لتعی ما عناھا ، أبصاراً لتجلوعن عشاھا ۔۔۔ و کأن الرشدَ فی احراز دنیاھا ۔۔۔ ) (۲۹)’اس نے تمہیں کان عطا کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی عطا کریں ۔۔۔اور تمہارے لئے ماضی میں گذر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں ۔۔۔لیکن موت نے انہیں امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا۔۔۔انہوں نے بدن کی سلامتی کے وقت کوئی تیاری نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی ۔۔۔ تو کیا آجتک کبھی اقرباء نے موت کودفع کیا ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے (ہرگز نہیں) مرنے والے کو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی قبر میں تنہاچھوڑدیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے مکوڑے اس کی جلد کو پارہ پارہ کررہے ہیں۔۔۔اور آندھیوں نے اس کے آثار کو مٹادیاہے اور روز گار کے حادثات نے نشانات کو محو کردیا ہے ۔۔۔تو کیا تم لوگ انہیں آباء واجداد کی اولاد نہیں ہو اور کیا انہیں کے بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے جارہے ہو اور انہیں کے طریقے کو اپنائے ہوئے ہو اور انہیں کے راستے پر گامزن ہو؟حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت سے غافل ہوگئے ہیں غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کامخاطب ان کے علاوہ کوئی او ر ہے اور شاید ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع کرلینے میں ہے ‘اس بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے :’ وانما الدنیا منتھیٰ بصر الاعمیٰ، لا یبصر مما وراء ھا شیأاً، والبصیر ینفذھا بصرہ، ویعلم أن الدار ورائھا، فالبصیر منھا شاخص، والأعمیٰ الیھا شاخص، والبصیر منھا متزود، والأعمیٰ لھا متزود’ (۳۰)’یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اس کے ماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جبکہ صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ہے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے والا ہے بصیر اس سے زادراہ فراہم کرنے والا ہے اور اندھا اس کے لئے زاد راہ اکٹھاکرنے والاہے’واقعاً اندھا وہی ہے جس کی نگاہیں دنیا سے آگے نہ دیکھ سکیں اور وہ اس سے وابستہ ہوکر رہ جائے (اس طرح دنیا اندھے کی نگاہ کی آخری منزل ہے )لیکن صاحب بصیرت وہ ہے جسکی نگاہیں ماوراء دنیا کا نظارہ کرلیتی ہیں اور اس کی عاقبت کو دیکھ لیتی ہیں آخرت اس کی نظروں کے سامنے ہے لہٰذا (اس کی نگا ہیں )اور اس کے قدم اس دنیا پر نہیںٹھہرتے بلکہ وہ اس سے عبرت حاصل کرکے آ گے کی طرف کوچ کرجاتا ہے ۔ابن ابی الحدید نے اس جملہ کی مذکورہ شرح کے علاوہ ایک اور حسین تشریح کی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں ۔دنیا اور مابعد دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے اندھا کسی خیالی تاریکی کا تصور کرتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اس تاریکی،کو محسوس کررہا ہے جبکہ وہ واقعاً اسکاا حساس نہیں کرپاتا بلکہ وہ عدم ضیاء ہے (وہاں نور کا وجود نہیں ہے) بالکل اس طرح جیسے کوئی شخص کسی تنگ و تاریک گڑھے میں گھس جائے اور تا ریکی کا خیال کرے مگر اسے کچھ نہ دکھائی دے اور اس کی نگاہیںکسی چیز کا مشاہدہ کرتے وقت کام نہیں کرپاتیں مگر وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ تاریکی وظلمت کو دیکھ رہا ہے ۔لیکن جو شخص روشنی میں کسی چیز کو دیکھتا ہے اس کی بصارت (نگاہ)کام کرتی ہے اور وہ واقعاًمحسوسات کو دیکھتا ہے ۔چنانچہ دنیا اور آخرت کی بھی بالکل یہی حالت ہے :کیونکہ اہل دنیا کی نگاہوں کی آخری منزل اور ان کی پہنچ صرف ان کی دنیا تک ہے ۔او ر ان کا خیال یہ ہے کہ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں جبکہ واقعاً انہیں کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا ہے اور نہ ان کے حواس کسی چیز کے اوپر کام کرتے ہیں ۔ لیکن اہل آخرت کی نگاہیں بہت کارگر ہیں اور انہوں نے آخرت کو باقاعدہ دیکھ لیا ہے لہٰذا دنیا پر ان کی نگاہیں نہیں ٹھہرتی ہیں ،تو در حقیقت یہی حضرات صاحبان بصارت ہیں’ (۳۱)
طرز نگاہ کا صحیح طریقہ کارجس طرح انسان کے تمام اعمال وحرکات میں کچھ صحیح ہوتے ہیںاور کچھ غلط ۔ اسی طرح کسی چیزکے بارے میں اسکا طرز نگاہ بھی صحیح یا غلط ہوسکتا ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم نے رفتار وکردار کے صحیح طریقوں کی تعلیم دیتے ہوئے صحیح طرز نگاہ کی تعلیم ان الفاظ میں دی ہے :(ولا تمدّنَّ عینیک الیٰ ما متّعنابہ أزواجاً منھم زھرۃ الحیاۃ الدنیا لنفتنھم فیہ ورزق ربک خیروأبقیٰ) (۳۲)’اور خبر دار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالامال کردیا ہے اس کی طرف آپ نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھیں کہ یہ ان کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزق اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے ‘نظر اٹھاکر دیکھنا بھی کسی چیز کو دیکھنے کا ایک طریقہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی نگاہ اس مال ودولت اور رزق کے اوپر پڑتی رہے جو خداوند عالم نے دوسروں کو عنایت فرمائی ہے اس مد نظر (نگاہیں اٹھاکر دیکھنے)میں اپنی حد سے تجاوز کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں ۔گویا انسان کی نگاہیں اپنے پاس موجود خداوند عالم کی عطا کردہ نعمتوں سے تجاوز کرکے دوسروں کے دنیاوی راحت وآرام اور نعمتوں کی سمت اٹھتی رہیں اور مسلسل انہیں پر جمی رہیں ۔حد سے یہ تجاوزہی انسانی مشکلات اور عذاب کا سرچشمہ ہے ۔۔۔کیونکہ جب تک خداوند عالم اسے مال نہ دیگا اسے مسلسل اس کی تمنا رہے گی اور وہ اس کے لئے کوشش کرتا رہے گا۔اور جب خداوند عالم اسے اس نعمت سے نواز دیگا تو پھر وہ ان دوسری نعمتوں کی خواہش اور تمنا شروع کردیگا جو دوسروں کے پاس ہیں اور اس کے پاس نہیں ہیں ۔۔۔اور اس طرح دنیا سے اس کی وابستگی اور اس کے لئے سعی وکوشش میں دوام پیدا ہوجاتا ہے۔( جیسا کہ مولائے کائنات (ع)نے ارشادفرمایا ہے ) نیز اس کے پیچھے دوڑنے سے عذاب مزید طولانی ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آخری مقصد تک نہیں پہونچ پاتا ہے، دنیا کے بارے میں اس طرز نگاہ سے انسا ن کو یاس وحسرت کے علاوہ اور کچھ ہاتھ آ نے والا نہیں ہے ۔واضح رہے کہ لوگوں کے پاس موجود نعمتوںپر نگاہیں نہ جمانے اور ان کی طرف توجہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان سعی وکوشش اور محنت و مشقت کرنا ہی چھوڑدے کیونکہ ایک مسلمان ہمیشہ متحرک رہتا ہے ۔مگر لوگوں کے پاس موجود نعمتوں کو دیکھ کر حسرت اورغصہ کے گھونٹ پینے کی وجہ سے نہیں ۔مختصر یہ کہ: کسی بھی چیز کے بارے میں انسان کی طرز نگاہ اس کے نفس کی سلامتی یا بربادی میں اہم کردار اداکرتاہے ۔کیونکہ کبھی کبھی ایک نظر انسان کی روح کو آلودہ اور گندھلا بنادیتی ہے اور اسے ایک طولانی مصیبت اور عذاب میں مبتلا کردیتی ہے۔ جیسا کہ روایت میں ہے 🙁 رُبَّ نظرۃ تورث حسرۃ ) (۳۳)’کتنی نگاہوں سے حسرت ہی ہاتھ آتی ہے ‘جبکہ کبھی کبھی یہی نگاہ انسان کی استقامت اور استحکام عمل کا سرچشمہ قرار پاتی ہے بیشک اسلام ہمیں’نگاہ ونظر’سے منع نہیں کرتا ہے بلکہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں ہمارا زاویہ نگاہ کیا ہونا چۂے!
نفس کے اوپر طرز نگاہ کے اثرات اورنقوش
محبت یا زہد دنیاانسان اپنی زندگی میں کسی چیز کے بارے میں چاہے جو طرز نگاہ اپنا لے اس کے کچھ نہ کچھ مثبت یا منفی (اچھے یا برے )اثرات ضرور پیدا ہو تے ہیں اور انسان اسی زاویۂ دید کے مطابق اس کی طرف قدم ا ٹھاتا ہے اس طرح انسان دنیا کے بارے میں چاہے جو زاو یہ نگاہ رکھتا ہو یا اسے جس زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہو اس کے فکر وخیال اور رفتار وکردار حتی اس کے نفس کے اوپر اس کے واضح آثار ونتائج اور نقوش نظر آئیں گے جن میں اس وقت تک کسی قسم کا تغیّریا تبدیلی ممکن نہیں ہے جب تک انسان اپنا انداز فکر تبدیل نہ کرلے ۔اس حقیقت کی بیحدا ہمیت ہے اوریہ اسلامی نظام تربیت کی ریڑ ھ کی ہڈی کا ایک حصّہ ہے اسی بنیاد پر ہم دنیا کے بارے میںسطحی طرز نگاہ ۔(جو دنیا سے آ گے نہیں دیکھتی )اور جسے مولا ئے کائنات (ع)نے ۔ ( الابصار الی الدنیا ) دنیا کو منظور نظر بنا کر دیکھنے سے تعبیر کیا ہے ۔۔۔اور دنیا کے بارے میں عمیق طرز نگاہ جسے امیرالمو منین (ع)نے (ابصاربالدنیا) دنیا کو ذریعہ بنا کر دیکھنے سے تعبیر کیا ہے ان دونوں کے نفسیاتی اور عملی اثرات کا جائز ہ پیش کریں گے البتہ ان دونوں نگاہوں کا سب سے بڑا اثرحب دنیا یا زہد دنیا ہے ۔۔۔کیونکہ حب دنیا دراصل دنیا کے بارے میں سطحی طرز نگاہ کا فطری نتیجہ ہے اورزہد دنیا اس کے بارے میں عمیق طرز نگاہ کا فطری نتیجہ ہے ۔لہٰذا اس مقام پر ہم انسانی زندگی کی ان دونوں حالتوں پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
حـــب دنیاجیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ حب دنیا دراصل دنیا کے بارے میں سطحی انداز فکر کا نتیجہ ہے اور اس انداز نگاہ میں ماور ائے دنیا کو دیکھنے کی طاقت نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا یہ دنیا کی رنگینیوں اور آسائشوں تک محدود رہتی ہے اور اسی کی طرف متوجہ کرتی رہتی ہے ۔جبکہ زہد وپارسائی،دنیا کے بارے میں باریک بینی اور دقت نظر کا نتیجہ ہے ۔
حب دنیا ہر برائی کا سر چشمہانسانی زندگی میں حب دنیا ہی ہر برائی اور شروفساد کا سرچشمہ ہے چنانچہ حیات انسانی میں کوئی برائی اور مشکل ایسی نہیں ہے جسکی کل بنیاد یااس کی کچھ نہ کچھ وجہ حب دنیا نہ ہو!رسول اکرم (ص):(حبّ الدنیا أصل کل معصیۃ،وأول کل ذنب) (۳۴)’دنیاکی محبت ہر معصیت کی بنیاد اور ہر گناہ کی ابتدا ہے ‘حضرت علی (ع)کا فرمان ہے :(حبّ الدنیا رأس الفتن وأصل المحن) (۳۵)’محبت دنیا فتنوں کا سر اور زحمتوںکی اصل بنیاد ہے ‘امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے :(رأس کل خطیئۃ حبّ الدنیا ) (۳۶)’ہر برائی کی ابتدا (سر چشمہ )دنیاکی محبت ہے ‘
حب دنیا کا نتیجہ کفر ؟حب دنیا کا سب سے خطر ناک نتیجہ کفر ہے جیسا کہ قرآن مجید میں محبت دنیا اور کفر کے درمیان موجود رابطہ اور حب دنیا کے خطر ناک نتائج کا تذکر ہ بار بار کیا گیا ہے ۔۱۔خدا وندعالم کا ارشاد ہے :(ولکن من شرح با لکفرصدراً فعلیھم غضب من اﷲ ولھم عذاب عظیم ذلک بأنھم استحبوا الحیاۃ الدنیاعلیٰ الآخرۃ وأن اﷲ لا یھدی القوم الکافرین ) (۳۷)’ لیکن جو شخص کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو ان کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔یہ اس لئے کہ ان لوگوں نے زندگانی دنیا کو آخرت پر مقدم کیا اور اﷲ،ظالم قوموں کو ہر گز ہدایت نہیں دیتا ہے ‘اس آیۂ کریمہ میں صرف کفرہی کو حب دنیا کا اثر نہیں قرار دیا گیا ہے بلکہ آیۂ کریمہ نے اس سے کہیں آگے اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ حب دنیا سے کفر کے لئے سینہکشادہ ہو جاتا ہے اور انسان اپنے کفر پر اطمینان خاطر پیدا کر لیتا ہے اور اس کے لئے کھلے دل (سعہ صدر )کا مظاہر ہ کرتا ہے اور یہ صور تحال کفر سے بھی بدتر ہے ایسے لوگوں پر خدا وند عالم غضبناک ہوتا ہے اور انھیں اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔۲۔ارشاد الٰہی ہے :(وویل للکافرین من عذاب شدید٭الذین یستحبون الحیاۃ الدنیا علیٰ الآخرۃ ویصدّ ون عن سبیل اﷲ ویبغونھا عوجاً)’اور کافروں کے لئے تو سخت ترین اورا فسوسناک عذاب ہے وہ لوگ جو زندگانی دنیا کو آخرت کے مقابلے میں پسند کر تے ہیں اور لوگوں کو راہ خدا سے روکتے ہیں اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں ‘اس آیۂ کریمہ میں حب دنیا اور کفر یا راہ خدا سے روکنے کے درمیان موجود رابطہ کا بخوبی مشاہد ہ کیا جاسکتا ہے ۔——————————————————————————–۱۔بحارالانوارج۷۷ص۳۵۲۔۲۔ نہج البلاغہ حکمت ۷۷وبحارالانوار ج۷۳ص۱۲۹۳۔بحارالانوارج۷۷ص۳۷۴۔۴۔بحارالانوارج۷۸ ص۲۳۔۵۔غررالحکم ج۱ص۱۰۹۔۶۔ بحارالانوارج۷۸ص۳۱۱۔۷۔نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۶۔۸۔نہج البلاغہ خطبہ۸۳۹۔نہج البلاغہ مکتوب ۳۔۱۰۔نہج البلاغہ خطبہ ۸۲۔۱۱۔نہج البلاغہ مکتوب۶۸۔۱۲۔نہج البلاغہ خطبہ ۵۲۔۱۳۔سورئہ کہف آیت۴۵۔۱۴۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۱،آیت ۱۰۴ ازسورئہ انبیائ۱۵۔نہج البلاغہ خطبہ۱۱۳۔۱۶۔نہج البلاغہ خطبہ ۹۹۔۱۷۔ سورئہ انعام آیت ۳۲۱۸۔سورئہ عنکبوت آیت ۶۴۔۱۹۔سورئہ حدید آیت ۲۰۔۲۰۔بحارالانوار ج۷۳ص ۱۳۳۔۲۱۔بحارالانوار ج ۷۳ص۹۶۔۲۲۔سورئہ یونس آیت ۲۴۔۲۳۔سورئہ کہف آیت ۷۔۲۴۔سورئہ حدیدآیت ۲۰۔۲۵۔نہج البلاغہ حکمت۲۸۹۔۲۶۔نہج البلاغہ خطبہ۸۲۔۲۷۔نہج البلاغہ خطبہ۸۲۔۲۸۔نہج البلاغہ خطبہ۸۲۔۲۹۔نہج البلاغہ خطبہ۸۳۔۳۰۔نہج البلاغہ خطبہ ۱۳۳۔۳۱۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ص۲۷۶۔۳۲۔سورئہ طہ آیت ۱۳۱۳۳۔ وسائل الشیعہ ج۱۴ص۱۳۸۔فروع کافی ج۵ص۵۵۹۔میزان الحکمت ج۱۰۔۳۴۔میزان الحکمت ج۳ص۲۹۴۔۳۵۔غرر الحکم ج۱ص۳۴۲۔۳۶۔بحار الا نوار ج۷۳ص۷ ۔۳۷۔ سورئہ نحل /۱۰۶و۱۰۷
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.