دوست اور دوستي

162

جي ہاں !’ دوست اور دوستي ايک ايسارشتہ ہے جو نسبي طور پر دور ہونے کے باوجود قريبي ترين افراد سے بھي قريب تر ہوتا ہے‘‘. (۱) يہي وجہ ہے کہ امير المومنينعلیہ السلام دوستي کو قرابت داري و رشتہ داري قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:
‘المودۃ قرابۃ مستفادۃ‘‘يعني’دوستي انتہائي مفيد رشتہ داري و قرابت ہے ‘‘ (۲)دوستي کي اہميت کو مزيد اجاگر کرنے کے لئے آ پعلیہ السلام فرماتے ہيں :’رشتہ داري و قرابت ،دوستي کے بغير بر قرار نہيں رہ سکتي جبکہ دوستي کے لئے رشتہ داري کاہونا ضروري نہيںہے‘‘؟ (3)حضرت امير المومنينعلیہ السلام کے مذکورہ فرامين سے يہ بات عياں ہے کہ دنيا ميں انسان کا قريبي ترين ساتھي ،دوست ہوتا ہے اور ظاہر سي بات ہے کہ جب کوئي شخص انسان کے انتہائي قريب ہوگا تو جہاں اسکے دکھ درد ميں شريک ہوگا وہاں بہت سے مفيد مشوروں کے ذريعہ ا س کي راہنمائي بھي کرے گا . جس کے نتيجہ ميں انسان بہت سي مشکلات اور پريشانيوں سے چھٹکارا پالے گا.اسي لئے مولائے کائنات دوستي کو نصف عقل قرار ديتے ہيں :
‘التودد نصف العقل ‘‘ (۴)جبکہ دوست اور دوستي کے فقدان کو غربت وتنہائي شمار کرتے ہيں:
‘فقد ا الآحبۃغربۃ‘‘ ۔ (۵)’دوستوں کانہ ہونا غربت وتنہائي ہے ‘‘اور غريب و تنہا در حقيقت وہ شخص ہے جسکا کوئي دوست نہ ہو۔(۶)
دوستوں کا انتخاب:دوستي کے سلسلہ ميں سب سے اہم مرحلہ ‘دوستوں کا انتخاب‘‘ہے۔کيونکہ دوست اور دوستي کا رشتہ صرف با ہمي تعلقات اور زباني جمع خرچ کا نام نہيں بلکہ يہ ايسا انتہائي نازک رشتہ ہے،جو انسان کي دنيا وآخرت کو بگاڑنے يا سنوارنے کے لئے تنہا ہي کافي ہے .ليکن اس سلسلہ ميں جب ہم اپنے معاشرہ پر نظر ڈالتے ہيں تو دو قسم کے طرز فکر سامنے آتے ہيں۔کچھ لوگ دوست اور دوستي سے زيادہ تنہائي اور مطلب برآوري کو ترجيح ديتے ہيں اور بڑے فخر سے کہتے ہوئے نظر آتے ہيں کہ ميںکسي کو دوست نہيں بناتا کيونکہ دوستي،فضول کام اور بے کا رلوگوں کا شيوہ ہے، جو فقط وقت گزارنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہيں۔ان کے بر عکس ،کچھ لوگ ايسے بھي ہوتے ہيں جو ہر ايرے غيرے کے ساتھ دوستي کي پينگيں بڑھا ليتے ہيں اور پھر قدم قدم پرٹھوکريں کھا کر يہ کہتے ہوئے نظر آتے ہيں ديکھا جو تير کھا کے کميں گاہ کي طرف اپنے ہي دوستوں سے ملاقات ہو گئيبنيادي طورپر يہ دونوں طرز تفکر غلط ہيں.چنانچہ امير المومنين فرماتے ہيں :’اعجز الناس من…‘‘’درماندہ وناتوان ترين شخص وہ ہے جو کسي کو دوست نہ بنا سکے اور اس سے بھي زيادہ عاجز ونا توان وہ ہے جو بنے بنائے دوستوں سے بھي ہاتھ دھو بيٹھے‘‘۔(۷)دوست کے انتخاب کے سلسلہ ميںانسان کو خوددار ہونا چاہئے۔ کيونکہ دوستي ايک ايسا ناطہ ہے جسے برابري کي بنياد پر جوڑا جاتا ہے. لہذا ايسے افراد کي دوستي سے پرہيز کرنا چاہيے جو خود کو برتر سمجھيںيا دوستي استوار کرنے سے پہلو تہي کريں .اسي لئے تو امير المومنين فرماتے ہيں :’لا ترغبن فيمن زھد عنک‘‘(۸) يعني:’ايسے افراد کي دوستي کے طلبگار نہ بنو جو تم سے پيچھا چھڑانا چاہتے ہوں ۔اورا گر کوئي شخص تمہاري دوستي کا طلبگار ہو تو اسے مايوس نہ کرو کيونکہ اس طرح تم ايک اچھے ساتھي سے محروم ہو جاؤگے ‘‘۔چنانچہ امير المومنينعلیہ السلام فرماتے ہيں :’زھدک في راغب فيک نقصان حظ و رغبتک في زاھد فيک ذل نفس‘‘يعني:’جو تمہاري دوستي کا طلبگار ہو اس سے کنارہ کشي خسارہ ہے اور جو تم سے کنارہ کش ہو اس کي دوستي کے حصول کي کوشش خود کو رسوا کرنے کے مترادف ہے‘‘۔(۹)دوستي کے سلسلہ ميں با ہمي تعلقات کے مقام سے روشناس کروانے کے بعد امير المومنينعلیہ السلام ايسي صفات کے حامل افراد کي ہم نشيني اختيار کرنے کي تاکيد فرماتے ہيں جو انسان کي دنياوي و اخروي سعادت کا باعث ہوں چنانچہ آپعلیہ السلام فرماتے ہيں:’قارن اھل الخير تکن منھم‘‘يعني : ‘اہل خير کي ہمنشيني اختيار کرو ممکن ہے کہ تم بھي ان جيسے ہو جاؤ‘‘ (۱۰)مولائے کائنات علیہ السلام اس جملہ کے ذريعے ايک بہت اہم معاشرتي و تربيتي اصول کي جانب اشارہ کر رہے ہيں اور وہ يہ کہ ہم نشيني کے نتيجہ ميں انتہائي گہرے اثرات مرتب ہوتے ہيں. اور انسان اس ذريعے سے نہ صرف دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرتا ہے بلکہ ان کے مشوروں اور راہنمائيوں کے نتيجہ ميں آہستہ آہستہ خود بھي ان کے رنگ ميں رنگا جاتا ہے اور انہي کا ايک فرد شمار ہونے لگتا ہے۔نہج البلاغہ ميں دوستي کے بارے ميں امير المونينعلیہ السلام کے کلام کا جائزہ ليا جائے تو ايک دلچسپ بات يہ سامنے آتي ہے کہ دوست کے انتخاب کے سلسلہ ميں مولائے کائناتعلیہ السلام زيادہ تر دوستي کے لئے لائق و سزاوار افراد کا تعارف کروانے کي بجائے ان افراد کا تعارف کرواتے ہوئے نظرا تے ہيں جن سے دوستي نہيں کرنا چاہئے .امير المومنينعلیہ السلام کے اس اقدام کي بنيادي وجہ شايد يہ ہو کہ اگر صرف ايسي صفات پيش کي جائيں جو دوست ميں ہونا چاہئيں تو اسکا لازمي نتيجہ يہي نکلے گا کہکبوتر با کبوتر باز با باز کند ہم جنس با ہم جنس پروازکے تحت دوستي کا دائرہ نہايت محدود ہو جائے گا اور ہر شخص اپنے سے زيادہ بہتر و برتر صفات و عادات کے حامل افراد کي دوستي کے حصول کے چکر ميں پڑا رہے گا .جبکہ اگر يہ کہا جائے کہ فلاں فلاں صفات کے حامل افراد سے دوستي نقصان دہ ہے تو اس کے نتيجہ ميں جہاں دوستي کا دائرہ وسيع ہوگا وہاں منفي صفات کے حامل افراد کي اصلاح کا پہلو بھي نکل آئے گا۔کيونکہ منفي صفات کے حامل افراد نے اگر اچھے دوستوں کے حصول کے لئے اپني بري عادات وصفات سے ہاتھ نہ اٹھايا اور اصلاح کي جانب متوجہ نہ ہوئے تو معاشرہ ميں تنہا رہ جائيں گے۔آئيے ايک نظر ان افراد پر ڈالي جائے جن کي دوستي اختيار کرنے سے مولائے کائناتعلیہ السلام روک رہے ہيں اور ساتھ ہي ان خطرناک نتائج کي جانب اشارہ فرما رہے ہيں جو اس قسم کي دوستي کے نتيجہ ميں انسان کو بھگتنا پڑتے ہيں۔چنانچہ امير المومنين عليعلیہ السلام امام حسنعلیہ السلام کو وصيت فرماتے ہيں :’يا بني اياک و مصاحبۃ الاحمق فانہ…‘‘يعني:’اے فرزند!بے وقوف سے دوستي نہ کرنا؛ کيونکہ وہ تمہيں فائدہ پہنچانا چاہے گا تو نقصان پہنچائے گا.اور بخيل وکنجوس سے دوستي نہ کرنا؛ کيونکہ جب تمہيں اسکي مدد کي اشد ضرورت ہوگي وہ تم سے دور بھاگے گا، اور بدکار سے دوستي نہ کرنا ،وہ تمہيں کوڑيوں کے مول بيچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستي نہ کرنا کيونکہ وہ سراب کي مانند ہے؛ تمہارے لئے دور کي چيزوں کو قريب اور قريب کي چيزوں کو دور کرکے دکھائے گا‘‘۔(۱۱)آپعلیہ السلام ايک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہيں :’لا تصحب المائق…‘‘يعني’ بيوقوف کي ہم نشيني اختيار نہ کرو کيونکہ وہ تمہارے سامنے اپنے کاموں کو سجا کر پيش کرے گا اور يہ چاہے گا کہ تم اسي جيسے ہوجاؤ ‘‘(۱۲)يا ‘واحذرصحابۃ من…‘‘۔:’کمزور رائے اور برے افعال انجام دينے والے کي دوستي سے بچو کيونکہ آدمي کا اس کے ساتھي پر قياس کيا جاتا ہے اور فاسقوں کي صحبت سے بچے رہناکيونکہ برائي ،برائي ہي کي طرف بڑھا کرتي ہے‘‘۔ (۱۳)حضرت امير المومنينعلیہ السلامامام حسنعلیہ السلام کو تحرير کئے گئے خط ميں ارشاد فرماتے ہيں:’احمل نفسک…‘‘يعني:’اپنے نفس کو اپنے بھائي کے بارے ميں قطع تعلق کے مقابلہ ميں تعلق جوڑنے ،رو گرداني کے مقابلہ ميں مہرباني ،بخل کے مقابلہ ميں عطا ،دوري کے مقابلہ ميں قربت،شدّت کے مقابلہ ميں نرمي اور جرم کے موقع پر معذرت قبول کرنے کے لئے آمادہ کرو. گويا تم اس کے غلام اور وہ تمہارا آقا و ولي نعمت ہے۔(۱۴)حضرت امير المومنينعلیہ السلام کے ا س قسم کے فرامين جن ميں انسان کو دوستوں سے حسن سلوک اور ان کي غلطيوں سے درگزر کرنے کي تاکيد کي گئي ہے در اصل ان موارد کے لئے ہيں جن ميں دو دوستوں کے باہمي تعلقات کا جائزہ ليا گيا ہے. يعني دوست آپس ميں کس طرح کا برتاؤ کريں اور کون کون سي باتوں کا خيال رکھيں ۔مذکورہ فرامين کے علاوہ کچھ ايسے ارشادات بھي ہيں جن ميں دوستوں کي غير موجودگي يا دوسروں کے ساتھ دوستوں کے سلسلہ ميں برتاؤ کا انداز بتايا گيا ہے۔ جيساکہ امير المومنين علیہ السلامفرماتے ہيں:’لا يکون الصديق …‘‘۔’دوست ا س وقت تک دوست نہيں ہو سکتا جب تک تين مواقع پر دوست کے کام نہ آئے :مصيبت کے موقع پر ،غير موجودگي ميں اور مرنے کے بعد‘‘۔(۱۵)ايک اور مقام پر فرماتے ہيں:’دوست وہ ہوتا ہے جو غير موجودگي ميں بھي دوستي نبھائے اور جو تمہاري پرواہ نہ کرے وہ تمہارا دشمن ہے‘‘۔ (۱۶)دوستوں کے حقوق کا ايک تصور ہمارے يہاں ‘سب سانجھا‘‘قسم کا پايا جاتا ہے؛ يعني دوست کے حقو ق و مفادات کو اس قسم کا مشترک امر سمجھا جاتا ہے جس ميں دوسرے دوستوں کو دخالت کا پورا پورا حق حاصل ہوتا ہے. اور بعض اوقات اس قسم کے تصور کے نتيجہ ميں دوست کے حقوق دوستوں کے ہاتھوں ہي پائمال ہوتے ہيں .امير المومنينعلیہ السلامحقوق کے اس ناجائز استعمال سے منع فرماتے ہيں’لا تضيعن حق اخيک…‘‘يعني :’باہمي روابط و دوستي کي بنياد پر اپنے کسي بھائي کي حق تلفي نہ کرو کيونکہ پھر وہ بھائي کہاں رہا جس کا تم نے حق تلف کر ديا‘‘۔ (۱۷)دوستوں کے بارے ميں لوگوں کي باتوں پر کان نہ دھرنے کے سلسلہ ميںآپعلیہ السلام فرماتے ہيں:’ايھا الناس !من عرف من اخيہ..‘‘يعني:’اے لوگو!اگر تمہيں اپنے کسي بھائي کے دين کي پختگي اور عمل کي درستگي کا علم ہو تو پھر اس کے بارے ميں لوگوں کي باتوں کو اہميت نہ دو‘‘۔(۱۸)
دوست اور دوستي کي حديں:دوست اور دوستي کے بے شمار فوائد اور اہميت کے پيش نظر بہت سے لوگ دوستي ميں کسي قسم کي حدود و قيود کے پابند نہيں ہوتے. اور دوست کے سامنے اپنے سب راز بيان کر ديتے ہيں. ليکن مکتب امام عليعلیہ السلام ميں دوستي انتہائي گہري و پاکيزہ ہونے کے باوجود ايک دائرہ ميں محدود ہے ،جسے حدّ اعتدال بھي کہا جاتا ہے ۔چنانچہ امام عليعلیہ السلامفرماتے ہيں:’احبب حبيبک ھوناً ما…‘‘يعني:’دوست سے ايک محدود حد تک دوستي کرو کيونکہ ممکن ہے وہ ايک دن تمہارا دشمن ہو جائے اور دشمن سے دشمني بھي بس ايک حد تک ہي رکھو کہ شايد وہ کسي دن تمہارا دوست بن جائے ‘‘۔ (۱۹)امير المومنينعلیہ السلامکے اس فرمان ميں يہ حکمت پوشيدہ ہے کہ انسان اپنے راز کا غلام ہوتا ہے .اگر انسان کسي دوست کے سامنے اپنے تمام رازبيان کر دے اور زمانہ کے نشيب و فراز دوست ،کو دشمن بنا ديں تو انسان خود بخود اپنے دشمن کا غلام بن جائے گا۔ہمارے معاشرہ ميں دوست صرف انہي افراد کو تصور کيا جاتا ہے جن سے انسان بذات خود دوستي استوار کرتا ہے۔جبکہ امير المومنينعلیہ السلام دوستوں کے دائرے کو مزيد وسعت ديکر انسان کے حلقہ احباب ميں دو قسم کے دوستوں کا اضافہ فرماتے ہيں:’اصدقائک ثلاثۃ…صديقک. . . ‘‘يعني :تمہارے دوست بھي تين طرح کے ہيں اور دشمن بھي تين قسم کے ہيں۔تمہارا دوست،تمہارے دوست کا دوست اور تمہارے دشمن کا دشمن تمہارے دوست ہيں…..(۲۰)عام طور پر ہم دوستوں کي ان دو قسموں سے غافل رہتے ہيں جس کے نتيجے ميں بعض اوقات قريبي دوستوں سے ہاتھ دھونا پڑتے ہيں۔
دوستي کے لئے مفيد اور نقصان دہ چيزيں:دوستوں کے حقوق کي ادائيگي ہي درحقيقت دوستي کو مضبوط اور پائيدار کرتي ہے ليکن اس کے علاوہ بھي کچھ ايسے اسباب و عوامل ہيں جودوستي کے رشتے کے لئے نہايت مفيد شمار ہوتے ہيں. جيسا کہ امير المومنينعلیہ السلامفرماتے ہيں :’البشاشۃ حبالۃ المودۃ‘‘ ‘کشادہ روئي محبت کا جال ہے‘‘? (۲۱)اسي طرح آپعلیہ السلام فرماتے ہيں:’نرم خو، قوم کي محبت کو ہميشہ کے لئے حاصل کرليتا ہے۔‘‘ (۲۲)اسي طرح جہاں حقوق کي ادائيگي ميں کوتاہي کے نتيجے ميں دوستي جيسا مضبوط رشتہ کمزور ہوجاتا ہے وہيں کچھ اور چيزوں کي وجہ سے اس ميں دراڑيں پڑ جاتي ہيںچنانچہ اميرالمومنينعلیہ السلام فرماتے ہيں :’ حسد الصديق من سقم المودّۃ‘‘ يعني:دوست کا حسد کرنا دوستي کي خامي ہے? (۲۳)يا حضرتعلیہ السلامکا يہ فرمان:’من اطاع الواشي ضيع الصديق‘‘يعني:’ جو چغل خور کي بات پر اعتماد کرتا ہے وہ دوست کو کھو ديتا ہے‘‘۔(۲۴)ايک اور مقام پر دوستي کے لئے نقصان دہ عامل کي جانب اشارہ فرماتے ہيں:جس نے اپنے مومن بھائي کو شرمندہ کيا سمجھو کہ اس سے جدا ہوگيا۔ (۲۵)دوست اور دوستي کے سلسلہ ميں مولائے کائناتعلیہ السلامکے سنہرے کلمات کو بے ترتيبي سے جوڑ کر دوست اور دوستي کے خواہشمند افراد کي خدمت ميں اس اميد بلکہ اس يقين کے ساتھ پيش کررہے ہيں کہ اگر ہم ان راہنما اصولوں کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار ديں تو يقينا امير کائنات۔کے اس فرمان کي عملي تصوير بن سکتے ہيں جس ميں آپ فرماتے ہيں:’خالطوا الناس مخالطۃ ان متم . .‘‘: ‘لوگوں کے ساتھ اس طرح رہو کہ اگر مرجا ؤ تو تم پر روئيں اور اگر زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں‘‘? (۲۶)
حوالہ جات:1۔ (مکتوب/31)2۔ (حکمت/211)3۔ (ترجمہ و شرح ابن ميثم/ج5ص674)4۔ (حکمت/142)5۔ (حکمت/65)6۔ (مکتوب/31)7۔ (حکمت/12)8۔ (مکتوب/31)9۔ (حکمت/451)10۔ (مکتوب/31)11۔ (حکمت/38)12۔ (حکمت/293)13۔ (مکتوب/69)14۔ (مکتوب/31)15۔ (حکمت/134)16۔ (مکتوب/31)17۔ (مکتوب/31)18۔ (خطبہ/141)19۔ (حکمت/ 268)20۔ (حکمت/295)21۔ (حکمت/6)22۔ (خطبہ/23)23۔ (حکمت/218)24۔ (حکمت/239)25۔ (حکمت/480)26۔ (حکمت/10)
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.