امام مہدی(عج) امام حسین علیہ السلام کا انتقام لیں گے
اسی حوالے سے چند احادیث قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں :قرآن مجید کی آیت ہے (ومن یقتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا فلا یسرف فی القتل انہ کان منصورا)ترجمہ: جو بھی مظلومیت کی حالت میں مارا جائے ہم نے اس کا انتقام لینے کے لئے ایک حاکم قرار دیا ہے پس وہ قتل کرنے میں اسراف نہیں کرے گا یقینا وہ وہی ہے کہ جسے نصرت حاصل ہوگی۔(۱)ابن بابویہ باسنادہ عن عبدالسلام بن الصالح الھروی قال قلت لابی الحسن علی بن موسی الرضا یابن رسول اللہ ما تقول فی حدیث روی عن الصادق انہ قال اذا قام القائم علیہ السلام قتل ذراری قتلہ الحسین علیہ السلام بفعال آبائھم فقال علیہ السلام ھو کذلک فقلت فقول اللہ عزوجل ولا تزروا وازراۃ وزرا اخری مامعناہ فقال صدق اللہ فی جمیع اقوالہ ولکن ذراری قلتلتہ الحسین یرضون بفعال آبائھم و یفتخرون بھا و من رضی شیئا کان کمن اماہ ولو ان رجلا قتل فی المشرق فرضی بقتلہ رجل فی المغرب لکان الراضی عنداللہ عزوجل شریک القاتل فانما یقتلھم القائم علیہ السلام اذا خرج لرضا ھم بفعل آبائھم قال فقلت لہ بای شی یبدء القائم منکم اذا قام قال بنی شبیہ فیقطع ایدیھم لانھم سراق بیت اللہ عزوجل ۔عبد السلام بن صالح ھروی روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام رضا کی خدمت میں عرض کیا اے فرزند رسول آپ امام صادق کی اس حدیث کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ جس میں انہوں نے فرمایا جب قائم آل محمد قیام کریں گے تو امام حسین کے قاتلوں کی اولاد کو ان کے آباؤ و اجداد کے ظالمانہ کاموں کی وجہ سے قتل کریں گے، تو حضرت نے جواب میں فرمایا ہاں اسی طرح ہے تو میں نےعرض کیا تو اس صورت میں اس آیہ شریفہ ولا تزروا وازرۃ اخری سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالی کی تمام باتیں سچی ہیں چونکہ امام حسین کے قاتلوں کی اولاد اپنے آباؤ و اجداد کے کاموں پر خوش ہیں اور فخر کرتے ہیں، جو بھی کسی کام پر راضی ہو تو جو راضی ہوگا اس قتل پر وہ یقینا قاتل کا شریک شمار ہوگا، اس لئے جب قائم آل محمد عجل اللہ فرجہ الشریف تشریف لائیں گے تو انہیں اپنے آباؤ و اجداد کے کردار اور افعال پر راضی ہونے کی بنا پر قتل کریں گے، میں نے عرض کیا جب وہ قیام فرمائیں گے تو کہاں سے شروع کریں گے فرمایا سب سے پہلے بنی شیبہ کے ہاتھوں کو کاٹیں گے کیونکہ وہ بیت اللہ عزوجل کے چور ہیں۔(۲)وفیہ نقلا عن العیاشی باسنادہ عن سلام بن المستنیر عن ابی جعفر فی قولہ تعالی و من قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا فلا یسرف فی القتل انہ کان منصورا قال الحسین ن علی قتل مظلوما و نحن اولیائہ والقائم منا اذا قام طلب بثار الحسین فیقتل حتی یقال قد اسرف فی القتل قال المسمی المقتول الحسین وولیہ القائم والاسراف فی القتل ان یقتل غیر قاتلیہ ان کان منصورا فانہ لا یذھب من الدنیا حتی ینتصر رجل من آل الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ یملا الارض قسطا و عدلا کما ملئت جورا و ظلما۔سلام بن مستنیر امام باقر علیہ السلام سے اس آیت و من قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا فلا یسرف فی القتل انہ کان منصورا کے بارے میں روایت کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا:یہ حضرت حسین بن علی علیہ السلام تھے کہ جو مظلومیت کی حالت میں قتل ہوئے اور ہم ان کے اولیاء (ورثا) ہیں اور جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو خون حسین کے انتقام کا مطالبہ کریں گے اور انہیں (دشمنوں کو) اس حد تک قتل کریں گے کہ کہا جائے گا کہ آپ نے حد سے زیادہ قتل کیا امام باقر علیہ السلام نے مزید فرمایا : آیت میں جسے مقتول کہا گیا ہے وہ حسین بن علی ہیں ولی سے مراد قائم آل محمد عج ہیں قتل میں اسراف سے مراد کہ ہے قاتلوں کے علاوہ ان کو قتل کرنا کہ جو قاتل نہیں ہیں (مگر امام کے قتل پر راضی ہیں) اور انہ کان منصورا سے مراد ہے کہ دنیا ختم نہیں ہو گی کہ اللہ تعالی کی جانب سے آل رسول میں سے ایسے شخص کی نصرت ہوگی کہ جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا کہ جس طرح وہ ظلم و ستم سے پوہوچکی ہوگی۔(۳)فی التفسیر القمی باسنادہ عن ابن مسکان عن ابی عبداللہ علیہ السلام فی قولہ اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا و ان اللہ علی نصرھم لقدیر قال ان العامۃ یقولون نزلت فی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ لما اخرجتہ قریش من مکۃ و انما ھو القائم علیہ السلام اذا خرج یطلب بدم الحسین و ھو قولہ نحن اولیاء کم فی الدم و طلب الدیۃ۔ابن مسکان امام صادق علیہ السلام سے اس آیت اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا کے بارے میں روایت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا اھل سنت والے اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے حق میں بیان کرتے ہیں کہ جب انہیں قریش نے مکہ سے نکالا حالانکہ یہ در حقیقت میں قائم (عج) کے بارے میں ہے کہ جب وہ قیام کریں گے اور خون حسین کا مطالبہ کریں گے کیونکہ اس خون کے اولیاء (ورثا) ہم ہیں(۴)و قولہ تعالی ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون۔وہ وہی اللہ ہے کہ جس نے اپنے پیغمبر کو ھدایت اور دین حق کے لئے بھیجا تاکہ وہ اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ بخشے اگرچہ مشرکین اسے پسند نہ کریں ۔و فی کمال الدین باسنادہ عن ابی بصیر قال قال ابوعبداللہ علیہ السلام فی قولہ تعالی ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق فقال واللہ ما نزلہ تاویلھا حتی یخرج القائم علیہ السلام فاذا خرج القائم علیہ السلام لم یبق کافرا باللہ العظیم ولا مشرک بالامامۃ الا کرہ خروجہ حتی لو کان کافرا او مشرکا فی بطن صخرۃ لقالت یا مومن فی بطنی کافرا کسرنی واقتلہ۔ابو بصیر نقل کرتا ہے کہ : امام صادق علیہ السلام نے اس آیہ شریفہ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق کے بارے میں فرمایا پروردگار کی قسم اس آیت کی تاویل اور باطن ابھی نازل نہیں ہوا اور اس وقت تک نازل نہ ہوگا جب تک قائم آل محمد ظہور نہیں کریں گے مشرکین و کفار میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ ان کے قیام کو ناپسند کریں یہاں تک اگر کوئی کافر یا مشرک کسی پتھر کے شکم میں پوشیدہ ہوگا تو وہ بولے گا اور کہے گا اے مومن میرے شکم میں کافر ہے مجھے ریزہ ریزہ کر اور اسے قتل کر۔ بشکریہ امام مہدی انفارمیشن سنٹر