امام مھدی(عج) احادیث کے آینہ میں (پانچویں قسط)
اعتراض یا شبھہ:
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں امام مہدی(عج) کا تذکرہ کیوں نہیں ہوا شاید یہ ان کے نزدیک مسلم موضوع نہ تھا اور انہیں اس موضوع پر کوئی صحیح حدیث نہ ملی اسی لئے انہوں نے اپنی کتاب میں امام مہدی(عج) کے متعلق روایات کو ذکر نہیں کیا ۔
قابل غور نکات:
اس سے پہلے کہ ہم اس اعتراض کا تجزیہ کریں چند اہم نکات کی طرف توجہ دلاتے ہیں :
(۱)بخاری اپنی کتاب کے بارے میں ایک معروف و مشہور جملہ کہتے ہیں کہ : میں نے یہ کتاب ایک لاکھ صحیح حدیث (بعض کے مطابق دو لاکھ صحیح حدیث ) کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھی اور صحیح احادیث جنہیں میں نے چھوڑ دیا وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں ۔پس جناب بخاری کی اپنی تصریح کے مطابق وہ بہت سی احادیث جو انہوں نے چھوڑ دی ہیں وہ ضعیف نہیں بلکہ وہ صحیح تھیں مگر انہوں نے اپنی کتاب میں انہیں ذکر نہیں کیا
(۲)علماء اھل سنت کا ہرگز یہ نظریہ نہیں کہ وہ تمام روایات جو صحیح مسلم یا صحیح بخاری میں نقل نہیں ہوئیں وہ ضعیف ہیں بلکہ بات اس کے برعکس ہے کہ بہت سی احادیث صحیح ہیں لیکن صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ذکر نہیں ہوئیں لھذا انہوں نے انہیں استدراک کیا یعنی صحاح ستہ کی دیگر کتب میں ذکر کیا تاکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے خلا اور نقص کا جبران ہوسکے ۔
(۳)کسی بھی سنی محدث اور محقق نے کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یہ معیار قرار نہیں دیا کہ وہ صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں موجود ہونی چاہئے بلکہ بعض ایسی احادیث کو جو اھل سنت کے نزدیک قطعی طور پر صحیح ہیں وہ صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں موجود نہیں ہیں مثلا حدیث العشرہ المبشرہ بالجنۃ کہ اسے نہ تو بخاری نے نقل کیا اور نہ مسلم نے ،جبکہ اھل سنت کے نزدیک یہ حدیث متواترہ ہے۔
جواب شبھہ:
یہ واضح سی بات ہے کہ امام مہدی(عج) کے متعلق احادیث مختلف جہات سے وارد ہوئیں مثلا بعض آپ کے نام شریف کے بارے میں، بعض آپ کے اوصاف کے بارے میں اور بعض آپ کے ظہور کی علامات کو بیان کرتے ہیں اور بعض آپ کی طرز حکومت کے حوالے۔۔۔لھذا ان تمام احادیث میں ضروری نہیں ہے کہ بہرصورت کلمہ مہدی موجود ہو کیونکہ ان احادیث کا معنی و مراد روشن و آشکار ہے مثلا کسی کتاب میں کوئی صحیح حدیث ذکر ہو اور اس میں امام مہدی(عج) کے نام سے ان کی کسی صفت کا تذکرہ ہو اور یہی حدیث اسی لب و لہجہ اور مضمون کے ساتھ صحیح بخاری میں نقل ہو لیکن وہاں امام مہدی(عج) کے نام مبارک کی بجائے کلمہ رجل یعنی ایک شخص کا ذکر ہو اب یہاں یہ شک و تردید رکھنا کہ شاید یہ حدیث امام مہدی(عج) سے مربوط نہیں ہے یہ دانشمندی نہیں ہے ۔
کیونکہ بہت سی روایات مجمل ہوتی ہیں اور ان کا اجمال دیگر بہت سی مفصل روایات سے برطرف کیا جاتا ہے ،علماء حدیث کے نزدیک یہ ایک عام اور مسلم سی بات کہ جب کسی حدیث کے بارے میں وہ اجمال یا ابھام کا شکار ہوتے ہیں تو وہ حدیث کسی دوسری کتاب میں مفصل حالت میں موجود ہوتی ہے وہ اسے ڈھونڈ کر دونوں کا مقایسہ کرتے ہوئے حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ اجمال والی وضعیت ختم ہوجاتی ہے اسے لئے جب ہم صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان دونوں نے حضرت مہدی(عج) کے متعلق دسیوں احادیث مجمل ذکر کیں اور بعد والے علماء اھل سنت یا ان کی کتب کے شارحین نے ان احادیث کو بالصراحت امام مہدی(عج) کے ساتھ نسبت دی چونکہ اسی طرح کی دیگر کتب سے صحیح احادیث نے وضاحت کرتے ہوئے یہ اجمال دور کردیا تھا ۔
سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اھل سنت کے چہار موثق بزرگ علماء نے اپنی کتاب میں صحیح مسلم سے یہ حدیث نقل کی: المھدی حق وھو من ولد فاطمہ مہدی حق ہیں اور فاطمہ کی اولاد سے ہیں
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ صحیح مسلم کے عصر حاضر کے نسخہ جات میں یہ حدیث موجود نہیں ہے
وہ چار علماء مندرجہ ذیل ہیں :
(۱)ابن حجر میثمی (متوفی ۹۷۴ ھجری) اپنی کتاب الصواعق المحرقہ کے گیارہویں باب اور ص نمبر ۱۶۲ پر نقل کرتے ہیں
(۲)متقی ھندی حنفی (متوفی ۹۷۵ ھجری) اپنی کتاب کنز العمال کے چودھویں جلد اور صفحہ نمبر ۲۶۴ پر نقل کرتے ہیں۔
(۳)شیخ محمد علی صبان (متوفی ۱۲۰۶ ھجری)اپنی کتاب اسعاف الراغبین کے صفحہ نمبر ۱۴۵ پر نقل کرتے ہیں
(۴)شیخ حسن عدوی حمزاوی مالکی (متوفی ۱۳۰۳ھجری) اپنی کتاب مشارق الانوار کے صفحہ نمبر ۱۱۲ پر نقل کرتے ہیں
بہرحال صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بعض ایسی احادیث ہیں کہ جو فقط امام مہدی(عج) کے متعلق ہیں ان کے علاوہ کسی اور موضوع سے ھرگز مربوط نہیں ہیں یہ نکتہ نظر ہمارا نہیں ہے بلکہ یہ صحیح بخاری کے پانچ شارحین کہ جو اھل سنت کے بزرگ علماء سے تھے یہ ان کا نقطہ نظر ہے اور انہوں نے بالصراحت ان احادیث کی تشریح اور تفسیر میں انہیں امام مہدی(عج) کے موضوع کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ (بحث جاری ہے)
اسلام کے دیگر بنیادی موضوعات کی مانند امام مھدی کا موضوع بھی طول تاریخ میں ہمیشہ دشمنان دین اور دشنمان اھل بیت کے حملوں کی زد میں رہا ہے ۔