‘آرماگڈون‘‘ یا” جنگ قرقیسیا” کی وضاحت

277

ظہور کا واقعہ ایک عظیم واقعہ ہے اوراس دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں نے اپنی خارجہ پالیسیوں کو اسی واقعہ ظہور سے پہلے رونما ہونے والے واقعات کے مطابق مرتب کیا اور اپنے فوجی منصوبوں کو اس طرح منظم کیا ہے تاکہ اس واقعہ کے لئے ضروری تیاری کرلیں اوران حکومتوں کے دینی ادارے اورمیڈیا لوگوں کو اس حادثہ کے لئے تیار کررہے ہیں۔
ان دینی اداروں نے ان حکومتوں کے ساتھ مل کر۸۰ کی دھائی سے اپنے لوگوں کو شام کی سرزمین میں واقع ہونے والے حادثے پر یقین رکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے ،جہاں ایٹمی جنگ ہوگی۔ یہ ادارے ہمیشہ سے اپنے لوگوں کو اس مطلب کی طرف توجہ دلاتے آرہے ہیں کہ عنقریب مسیح کے دشمنوں کا ایک بہت بڑا لشکر عراق سے حرکت کرے گاکہ جس میں لاکھوں کروڑوں کے قریب فوجی ہوں گے اور نہر فرات (کہ اس زمانہ میں فرات سوکھ جائے گی )کو عبور کرے قدس کی طرف روانہ ہوگا۔لیکن عیسی مسیح کے پیروکار اس لشکر کے سامنے ڈٹ جائیں گے اور ان دونوں لشکروں کے درمیان ‘آرماگڈون‘‘ میں سخت جنگ ہوگی اس جنگ میں پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے …،دیواریں زمین میں دھنس جائیں گی… ، انسانوں کے جسموں کی جلد پانی ہوجائے گی اورلاکھوں کروڑوں انسان مارے جائیں گے …، یہ آخری اورایٹمی جنگ ہے اورپھر عیسی مسیح دوسری مرتبہ آسمان سے زمین پر آئیں گے اورکچھ عرصہ کے بعد دنیا کی باگ ڈور سنبھال لیں گے اورعالمی سطح پر صلح قائم کریں گے، وہ نئی زمین پر اور نئے آسمان کے نیچے اپنی صلح والی حکومت قائم کریں گے اور وہ قدس کو مرکز بناکراس مہم کو عملی جامہ پہنائیں گے ۔
اکتوبر 1975 ‘ٹلسن‘‘ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی ایک تحقیق میں آیاہے کہ فی الحال ۶۰ کروڑ دس لاکھ امریکی اس آرماگدون واقعہ کے انتظار کررہے ہیں، اس کے علاوہ بہت سے دینی ادارے ،ریڈیو،اورٹی وی چینلز ہیں جو اس واقع کو بیان کرتے ہیں ،یہاں پر ان سب کو ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
امریکہ کے دینی اداروں نے اس مطلب کو واضح بیان کیاہے کہ عراق کی طرف سے قدس کی طرف آنے والالشکر حرقیال (کے باب ۳۸و ۳۹)میں پیشین گوئی کے مطابق، عراق، ایران، لیبیا، سوڈان اورروس کے جنوبی علاقے قفقاز کے فوجیوں پر مشتمل ہوگا۔
امریکہ کے انجیلی سکولوں میں اس واقعہ آرماگڈون کے بارے میں اس تجزیہ کی تبلیغ کی جاتی ہے کہ تنہا یہی وہ واقعہ باعث بنے گا کہ عیسی مسیح دوبارہ زمین پر آئیں گے اوریہ واقعہ بہت نزدیک ہے۔
آرماگڈون وہی عظیم واقعہ ہے کہ جو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے رونما ہوگا اور ہمارے آئمہ معصومین علیھم السلام نے اسے ‘قرقیسیا‘‘ کے نام سے یاد کیاہے اورانہوں نے اس بات کی خبر بھی دی ہے کہ امریکہ، یورپ، روس، ترکی، مصر اور بعض عربی ممالک کے لاکھوں سپاہی مثلاً شام، اردن، لبنان، فلسطین اور اسرائیل کے فوجی بھی سب یہاں آپس میں ایک دوسرے سے اسی علاقے میں جنگ کریں گے اوراس جنگ میں سفیانی سب کا قتل عام کرے گا اور اسے اس جنگ میں فتح حاصل ہوگی، میسر امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتاہے کہ آ پؑ نے فرمایا: ‘اے میسر!یہاں سے قرقیسیا کتنے فاصلے پر ہے‘‘ میں نے عرض کیا:یہاں نزدیک ہی فرات کے ساحل پر واقع ہے۔‘‘پھر فرمایا: اس جگہ پر ایک ایساواقعہ رونما ہوگا ۔یہ واقعہ ایک دسترخوان ہے جس سرزمین کے درندے اورآسمان کے پرندے سیرہوں گے اس قسم کی روایات امام صادق علیہ السلام اوردوسرے ائمہ علیھم السلام سے بھی نقل ہوئی ہیں۔اس بارے میں دو تحقیق کو بیان جاسکتاہے:
پہلا بیان: بعض دانشوروں نے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامات میں سے ایک علامت ‘ھرّمجدون‘‘ کے علاقے میں جنگ کے واقع ہونے کو قرار دیاہے کہ روایات کی تعبیر میں اسے ‘قرقیسیا‘‘کہا گیاہے اس واقعہ کی طر ف اہل کتاب کی کتابوں میں اشارہ کیا گیاہے۔ ( کتاب مقدس، رؤیای یوحنا، ۱۶،۱۶۔۱۳، سفر زکریا،۱۴،۱۔۱۵، کتاب مقدس ،ص ۸۴۳.)
یہود اور نصاریٰ اسے کو بہت بڑی اورخطرناک جنگ سمجھتے ہیں کہ جو انسانی تاریخ کے آخری دور میں رونما ہوگی۔
‘ھرّمجدون‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو ‘ھر‘‘ اور’مجدو‘‘ سے مرکب ہے اور’ھر‘‘ کا معنی پہاڑ اور’مجدو‘‘ فلسطین کے شمال میں ایک چھو ٹی پہاڑی یاوادی کانام ہے۔ اہل کتاب کا یہ گمان ہے کہ یہ جنگ فلسطین کے شمالی حصہ مجدوّ کے علاقے میں شروع ہوکر فلسطین کے جنوب میں ایڈوم تک پھیل جائے گی اوریہ فاصلہ تقریباً ۲۰۰ میل بنتاہے۔ ( صحیح بخاری، ج۳ ، ص۲۳۲.)
ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اس جنگ میں تقریباً چالیس کروڑ افرادکا لشکر شرکت کرے گا۔اور یہ لشکر عراق، ایران، لیبا، سوڈان اور قفقاز کے افراد سے روس کے جنوب میں تشکیل ہوگا۔ ( موعود شناسی ، سوال ۴۱۰، ص۵۲۵.)
ڈاکٹر عبدالکریم زبیدی کہتے ہیں :’… یہ واقعہ وہی عظیم واقعہ ہے جو امام مھدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے رونما ہوگا اور احادیث میں اسے جنگ ‘قرقیسیا‘‘ کے نام سے یادکیاگیاہے اس واقعہ میں امریکہ، یورپ، روس ،ترکی ، مصر اور مغربی عرب ممالک کا کروڑوں افراد پر مشتمل لشکر شام، اردن، لبنان، فلسطین اور اسرائیل سے کئی لشکر شرکت کریں گے اور یہ سب شام کے علاقے قرقیسیامیں آپس میں ٹکرائیں گے اور اس وقت سفیانی قیام کرے گا۔ ( مجلہ الافکر الجدید، شمارہ ۱۵و۱۶، موعود شناسی ، سوال ۴۱۰، ص۵۲۶.)
مجموعی طور پر یہ روایات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اسلام کے دشمنوں کی طرف سے اس جنگ کا کمانڈر سفیانی نام کا ایک شخص ہوگا۔ یہ وہی شخص ہے کہ جو یہود اور آمریکا کے جاسوسی مراکز کی مدد سے لوگوں میں تفرقہ ڈالے گا اور انہیں شیعیان اہل بیت کے خلاف اٹھائے گا۔
جب امام زمان علیہ السلام اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ خانہ کعبہ میں پناہ لیں گے تو وہ حضرت کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے اپنا لشکر بھیجے گا کہ جو بیدا نامی علاقے میں زمین میں دھنس جاے گا۔
کلینی نے امام باقر علیہ السلام سے نقل کیاہے کہ آپ میسر سے فرمایا: اے میسر! تمہارے اور قرقیسیا کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ اس نے عرض کیا: نہر فرات کے نزدیک ہے آپ نے فرمایا: ‘اما انہ سیکون بھا وقعۃ لم یکن مثلھا منذ خلق اللہ تبارک وتعالی السموات والارض ولا یکون مثلھا ما دامت السموات والارض مادبہ للطیر تشبع منھا سباع الارض وطیور السماء…‘‘ ( نعمانی،الغیبۃ، ص۳۸۹،ح۶۳.)
دوسرا بیان: قَرقیسیاکی جنگ: سفیانی اپنے مخالفوں کو کچلنے کے بعد عراق پر حملے کے لئے تیاری کرے گا اوراپنے بہت بڑے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف بڑھے گا ،تو راستہ میں قرقیسیا کے مقام پر ہولناک جنگ ہوگی اوربہت سے لوگ مارے جائے گے۔
ائمہ معصومین علیھم السلام کی کئی احادیث میں ‘قرقیسیا‘‘ کی جنگ کے بارے میں خبر دی گئی ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے:’ان للہ مائدۃ [مادبۃ] بقرقیسیا یطلع مطلع من السماء فینادی: یا طیر السماء و یا سباع الارض، ھلموا الی الشبع من لحوم الجبارین‘‘
قرمیسیا کے مقام پرخداوند متعال کا ایک کھانے کا دسترخوان ہے، آسمان سے ایک منادی ظاہر ہوکر ندا دے گا:اے آسمان کے پرندو اور اے زمین کے درندو، ظالموں کے گوشت سے سیر ہونے کے لئے جلدی کرو۔ ( عقد الدرر،ص۸۷،باب ۴، فصل۲.)
ایک روایت نے اس جنگ کے دو طرف لشکر والوں کو عباس اور مروان کی اولاد میں سے قرار دیا ہے، لیکن چار اور حدیثوں نے اس جنگ کے ایک طرف والے لشکر کو سفیانی کا لشکر قرار دیا ہے، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ‘یظھر السفیانی علی الشام ثم یکون بینھم وقعۃ بقرقیسیا حتی تشبع طیر السماء وسباع الارض من جیفھم…‘‘ سفیانی شام پر غلبہ پالے گا۔ پھر ان کے درمیان قرقیسیاکے مقام پر جنگ واقع ہوگی اس جنگ میں اتنے لوگ مارے جائیں گے کہ آسمان کے پرندے اور زمین کے درندے ان کے گوشت سے سیر ہوجائیں گے۔‘‘ ( نعمانی، الغیبۃ، ص۴۱۷، باب ۱۸، ح۳.)
ان تمام مذکورہ روایات میں فقط امام باقر علیہ السلام کی حدیث سند کے اعتبار سے معتبر ہے:ویمر جیشہ بقرقیسیا فیقتلون لھا فیقتل من الجبارین مأۃ الف…، سفیانی کی فوج قرقیسیا کے مقام پر پہنچے گی اور وہاں جنگ برپا ہوئی اور ظالموں میں سے ایک لاکھ افراد قتل ہوں گے۔(نعمانی، الغیبه،ص392، باب 14، ح67)
ان روایات میں جو روایت جنگ کرنے والوں کی دونوں طرفوں کو عباس اور مروان کی اولاد جانتی ہے وہ حدیث خبر واحد ہونے ،دوسری روایات کے مخالف اور سند ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل اعتماد نہیں ہے لیکن پیچھے گزرچکی معتبر روایت اوراس کی تائید میں ذکر ہونے والی احادیث کے پیش نظر چند مطالب کو بیان کیاجاسکتا ہے۔
(۱)۔ قرقیسیا کی جنگ واقع ہوگی۔
(۲)۔ جنگ کے ایک طرف سفیانی ہوگا۔
(۳)۔جنگ کرنے والے دونوں لشکر اہل باطل ہوں گے۔
(۴)۔اس جنگ میں بہت زیادہ انسان مارے جائیں گے۔
(۵)۔ بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہونے کے باوجود سفیانی کو فتح حاصل ہوگی۔
احادیث نے اس جنگ کے اسباب کو ذکر نہیں کیا ہے لیکن یہ احتمال دیاجاسکتاہے کہ یہ جنگ اس سرزمین کے حکمرانوں کی،سفیانی کے ظلم وستم اورتجاوز کے مقابلے میں استقامت اورپائیداری کی وجہ سے ہو، کیونکہ سفیانی کوفہ پہنچنے کے لئے ، شام سے کوفہ کے راستے کے تمام علاقوں پر قبضہ کرلے گا۔
احادیث میں اس قرقیسیا کی جنگ میں دوسری طرف والے لشکر کے بارے میں کچھ نہیں بتایاگیا ہے ،بلکہ صرف اتنا ذکر ہواہے کہ دونوں گروہ اہل باطل ہوں گے اورمعتبر روایت میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:’ کفی بالسفیانی نقمۃ لکم من عدوکم و ھو من العلامات لکم، مع ان الفاسق لوقدخرج لمکثتم شھرین بعد خروجہ لم یکن علیکم بأس حتی یقتل خلقا کثیراً دونکم…‘‘ سفیانی تمہارے دشمنوں کے عذاب کے لئے کافی ہے اوروہ تمہارے لئے ایک علامت ہے ،جب یہ فاسق مرد قیام کرے گا تو تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے تم ایک دو ماہ تک صبر کرو وہ تمہارے بہت سارے دشمنوں کو قتل کردے گا۔ ( نعمانی، الغیبۃ، ص۴۱۷، باب ۱۸، ح۳.)
اس روایت میں اگرچہ قرقیسیا کی جنگ کی طرف اشارہ نہیں کیا گیاہے، لیکن دوسری احادیث کے قرینہ سے ہم یہ احتمال دے سکتے ہیں کہ یہ وہی قرقیسیا کی جنگ کی طرف اشارہ ہے، بنابرین اس روایت سے سمجھا جاسکتاہے کہ اس جنگ کی دوسری طرف بھی شیعوں کے دشمن ہوں گے۔ ( نصرت اللہ آیتی ، سفیانی از ظہور تا افول ،ص ۷۷ الی ۸۰ ، نبرد قرقیسیا۔)
جوچیز قابل قبول ہے وہ یہ کہ جنگ یقیناًواقع ہوگی لیکن اس کی تفصیلات کے بارے میں حتمی بات نہیں کی جاسکتی ، صرف اس مطلب کی طرف توجہ دینا چاہئے کہ انسان اپنے اختیار کی بنا پر کئی امور کو تبدیل کرسکتاہے اورقرآن اوراحادیث نے بھی اس مطلب کی وضاحت کی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.