حضرت خديجہ سلام اللہ عليہا كے ساتھ شادي
حضرت خديجہ (ع) رشتے ميں پيغمبر اكرم (ص) كى چچازاد بہن لگتى تھيں اور دونوں كا شجرہ نسب جناب قصى بن كلاب سے جاملتا تھا، حضرت خديجہ (ع) كى ولادت و پرورش اس خاندان ميں ہوئي تھى جو دانا نسب كے اعتبار سے اصيل، ايثار پسند اور خانہ كعبہ كا حامي(1) وپاسدار تھا اور خود حضرت خديجہ (ع) اپنى عفت وپاكدامنى ميں ايسى مشہور تھيں كہ دور جاہليت ميں بھى انہيں ‘طاہرہ’ اور’سيدہ قريش’ كے لقب سے ياد كياجاتا تھا ، ان كيلئے بہت سے رشتے آئے اگر چہ شادى كے خواہشمند مہر ادا كرنے كےلئے كثير رقم دينے كيلئے تيار تھے مگر وہ كسى سے بھى شادى كرنے كيلئے آمادہ نہ ہوئيں_جب رسول خدا (ص) ملك شام كے تجارتى سفرسے واپس مكہ تشريف لائے تو حضرت خديجہ (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں قاصد بھيجا اور آپ (ص) سے شادى كى خواہش كا اظہار كيا _(2)رسول خدا (ص) نے اس مسئلے كو حضرت ابوطالب عليہ السلام اور ديگر چچائوں كے درميان ركھا اور جب سب نے اس رشتے سے اتفاق كيا تو آ پ (ص) نے حضرت خديجہ (ع) كے قاصد كو مثبت جواب ديا ، رشتے كى منظورى كے بعد حضرت ابوطالب عليہ السلام اور دوسرے چچا حضرت حمزہ نيز حصرت خديجہ (ع) كے قرابت داروں كى موجودگى ميں حضرت خديجہ (ع) كے گھر پر نكاح كى شايان شان تقريب منعقد ہوئي اور نكاح كا خطبہ دولہا اور دلہن كے چچائوں ‘حضرت ابوطالب(ع) ‘ اور ‘عمروابن اسد’ نے پڑھا_جس وقت يہ شادى ہوئي اس وقت مشہور قول كى بنا پر رسول خدا (ص) كا سن مبارك پچيس سال اور حضرت خديجہ (ع) كى عمر چاليس سال تھي_(3)
حضرت خديجہ (ع) سے شادى كے محركاتہر چيز كو مادى نظر سے ديكھنے والے بعض لوگوں نے اس شادى كو بھى مادى پہلو سے ہى ديكھتے ہوئے يہ كہنا چاہا ہے :’چونكہ حضرت خديجہ (ع) كو تجارتى امور كيلئے كسى مشہور و معروف اور معتبر شخص كى ضرورت تھى اسى لئے انہوں نے پيغمبر اكرم (ص) كو شادى كا پيغام بھيجا، دوسرى طرف پيغمبر اكرم (ص) يتيم ونادار تھے اور حضرت خديجہ (ع) كى شرافتمندانہ زندگى سے واقف تھے اسى لئے ان كى دولت حاصل كرنے كى غرض سے يہ رشتہ منظور كرليا گيا حالانكہ سن كے اعتبار سے دونوں كى عمروں ميں كافى فرق تھا’_جبكہ اس كے برعكس اگر تاريخ كے اوراق كا مطالعہ كياجائے تو اس شادى كے محركات ميں بہت سے معنوى پہلو نظر آتے ہيںاس سلسلے ميں ہم يہاں پہلے پيغمبر خدا (ص) كى جانبسے اور بعد ميں حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے شادى كے اسباب اور محركات كے بيان ميں ذيل ميں چند نكات بيان كريں گے:1_ ہميں پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى سارى زندگى زہد وتقوى ومعنوى اقدار سے پر نظر آتى ہے جو اس بات كى دليل ہے كہ آنحضرت (ص) كى نظر ميں دنياوى مال و دولت اور جاہ و حشم كى كوئي قدر وقيمت نہ تھى ، آپ (ص) نے حضرت خديجہ (ع) كى دولت كو كبھى بھى اپنے ذاتى آرام و آسائشے كى خاطر استعمال نہيں كيا _2_ اس شادى كى پيشكش حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے كى گئي تھى نہ كہ رسول خدا (ص) كى طرف سے_اب ہم يہاں حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے اس شادى كے محركات بيان كرتے ہيں :1_ چونكہ كہ وہ بذات خود عفيف و پاكدامن خاتون تھيں اس لئے انہيں ايسے شوہر كى تلاش تھى جو متقى اور پرہيزگار ہو_2_ ملك شام سے واپس آنے كے بعد جب ‘ميسرہ’ غلام نے سفر كے واقعات حضرت خديجہ (ع) كو بتائے تو ان كے دل ميں ‘امين قريش’ كيلئے جذبہ محبت والفت بڑھ گيا البتہ اس محبت كا سرچشمہ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے ذاتى كمالات اور اخلاقى فضائل تھے اور حضرت خديجہ (ع) كو ان ہى كمالات سے تعلق اور واسطہ تھا_3_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے شادى كرنے كے بعد حضرت خديجہ (ع) نے آپ (ص) كو كبھى سفر تجارت پر جانے كى ترغيب نہيں دلائي _ اگر انہوں نے يہ شادى اپنے مال و دولت ميں اضافہ كرنے كى غرض سے كى ہوتى تو وہ رسول اكرم (ص) كو ضرور كئي مرتبہ سفر پر روانہ كرتيں تاكہ بہت زيادہ مال و دولت جمع ہوسكے، بلكہ اس كے برعكس حضرت خديجہ (ع) نے اپنى دولتآنحضرت (ص) كے حوالے كردى تھى تاكہ اسے آپ (ص) ضرورت مند لوگوں پر خرچ كريں_حضرت خديجہ (ع) نے رسول خدا (ص) سے گفتگو كرتے ہوئے شادى كى درخواست كے اصل محرك كو اس طرح بيان كيا ہے:’ اے ميرے چچا زاد بھائي چونكہ ميں نے تمہيں ايك شريف ،ديانتدار ، خوش خلق اور راست گو انسان پايا اسى وجہ سے ميں تمہارى جانب مائل ہوئي (اور شادى كے لئے پيغام بھيجا)'(4)
حوالہ جات1_مثال كے طور پر جب يمن كے بادشاہ تبع نے حجر اسود كو مكہ سے يمن لے جانے كا عزم كيا تو حضرت خديجہ (ع) كے والد خويلد نے اپنى سعى و كوشش سے تبع كو اس ارادے سے باز ركھا ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج 1 ص138_2_ تاريخ كى بعض كتابوں ميں آيا ہے كہ حضرت خديجہ (ع) نے براہ راست پيغمبر اكرم (ص) كو شادى كا پيغام بھيجا ملاحظہ ہو سيرہ ابن اسحاق ص 60_3_السيرة الحلبيہ ج 1 ص 137 _ 139_4_السيرة الحلبيہ ج 1 ص 271_