حضرت ام ابیها فاطمه زهراء سلام الله علیها کی حدیثیں

158

1. عبادت میں خلوص کے فوائدقالت فاطمة الزهراء سلام الله عليها: من أصعد إلی الله خالص عبادته، أهبط الله عزوجل إلیه أفضل مصلحته.فرمایا: جو شخص اپنی خالص عبادت خداوند متعال کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے (اور صرف اس کی رضا کے لئے عمل کرتا ہے﴾ خدا بھی اپنی بہترین مصلحتیں اس پر نازل فرماکر اس کے حق میں قرار دیتا ہے.تحف العقول ص۹۶۰
2. آل محمد کی محبت میں مرنا شهادت ہےعَنْ فَاطِمَةُ بِنْتَ مذوسَى بْن ر جَعْفَر (ع)… عَنْ فَاطِمَةَ بِنْت ِرَسُول ِاللّهِ صَلَّى اللّه عَلَیه ِوَ آلِهِ وِ سَلَّمَ ، قالَتْ (سلام الله عليها): قَالَ رَسُولُ اللّه ِصَلَّى اللّه ِعَلَیه ِوَ آلِه ِوَ سَلَّمَ : «ألا مَنْ ماتَ عَلى حُبِّ آل ِمُحَمَّد ماتَ شَهِیداً.حضرت فاطمہ معصومہ (س) حضرت امام صادق (ع) کی بیٹی سے ایک روایت نقل کرتی ہیں جس کا سلسلہ سند حضرت فاطمہ زہرا (س) تک پہنچتا ہے ۔۔۔ حضرت زھراء (س﴾ فرماتی ہیں کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا: «آگاه رہو ! جو شخص آل محمّد کی محبت کے ساتھ مرے وہ شہید مرا ہے۔عوالم العلوم، ج ٢١، ص ٣٥٣
3. حبدار علی (ع﴾ سعادتمند و خوشبخت ہےقالَتْ (سلام الله عليها): ان السعید، کل السعید، حق السعید من أحب علیا فی حیاته و بعد موتهفرمایا: بے شک حقیقت اور اور مکمل سعادتمند شخص وہ ہے جو امام علی علیہ السلام سے آپ (ع) کی حیات میں اور بعد از حیات، محبت رکھے.شرح نهج البلاغه ج 2، ص 449 مجمع الزّوائد: ج 9، ص 132
4. آل محمد (ص) كا تعارفقالَتْ (سلام الله عليها): نحن وسیلته فی خلقه و نحن خاصته و محل قدسه و نحن حجته فی غیبه و نحن ورثه أنبیائهفرمایا: ہم اہل بیت رسول خدا (ص) خدا كے ساتھ مخلوقات كے ارتباط كا وسیلہ ہیں؛ ہم خدا كی برگزیدہ ہستیاں ہیں اور نیكیوں كا مقام اعلی ہیں، ہم خدا كی روشن دلیلیں ہیں اور انبیاءُاللہ كے وارث ہیں.(شرح‌ نهج‌ البلاغه‌ ج‌ 16 ، ص‌ 211)
5. قرآنی سورتوں کی تلاوت کا ثوابقالَتْ (سلام الله عليها): قاریءُ الحدید، و اذا وقعت، و الرحمن، یدعی فی السموات و الارض، ساکن الفردوسفرمایا: سورة الحدید، سورة الواقعه اور سورة الرحمن كی تلاوت كرنے والے لوگ آسمانوں اور روئے زمين پر جنتی كہلاتے ہیں.(کنزالعمال ، ج‌ 1 ، ص582)
6. بهترین و اور قابل قدرترين افرادقالَتْ (سلام الله عليها): خیارکم الینکم مناکبة و اکرمهم لنسائهمفرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جو لوگوں کا سامنا کرتے وقت زیاده نرم اور زیاده مہربان ہو اور تم میں سے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ زیادہ مہربان اور زیاده بخشنے والے ہوں.(دلال الامامه ص76 و کنزالعمال ، ج‌ 7، ص225)
7. مؤمنین کے لئے پسندیدہ چیزیںقالَتْ (سلام الله عليها): حبب الی من دنیاکم ثلاث: تلاوة کتاب الله و النظر فی وجه رسول و الانفاق فی سبیل اللهفرمایا: تمہاری دنیا میں میری پسندیدہ چیزیں تین ہیں :1- تلاوت قرآن2- رسول خدا (ص) کیے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنا اور3- خدا کی راہ میں انفاق و خیرات کرنا.(وقایع الایام خیابانی، جلد صیام، ص295)
8. اہل بیت (ع﴾ کی اطاعت و امامت کے فوائدقالَتْ (سلام الله عليها): فجعل الله…اطاعتنا نظاما للملة و امامتنا أمانا للفرقةفرمایا: خدا نے ہم اہل بیت کی اطاعت و پیروی امت اسلامی کو سماجی نظم کا سبب قرار دیا ہے اور ہماری امامت و رہبری کو اتحاد و یکجہتی کا سبب اور تفرقے سے امان قرار دیا ہے.(بحار الانوار، ج 43، ص 158)
9. ایمان اور نماز کے فوائدقالَتْ (سلام الله عليها): فجعل الله الایمان تطهیرا لكم من الشرك ، و الصلاة تنزیها لكم عن الكبرفرمایا: خدائے تعالی نے ایمان کو تمہارے لئے شرک سے پاکیزگی کا سبب قرار دیا اور نماز کو تکبر اور خودخواہی اور خودپرستی سے دوری کا عامل.(احتجاج طبرسی،ج1،ص258)
10.امام کي مثال کعبہ کي مثال ہےقالَتْ (سلام الله عليها): مَثَلُ الإمام مَثل الكَعبة إذ تُؤتي وَ لا تَأتيحضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: امام، کعبہ کی مانند ہے لوگوں کو امام کی جانب جانا اور رجوع کرنا پڑتا ہے جبکہ امام کسی کے پاس نہیں جاتا (لوگوں کو امام کی خدمت میں حاضرہوناپڑتا ہے چنانچہ امام کے اپنے پاس آنے کی توقع نہیں کرنی چاہئے).(بحار الانوار ، ج 36 ، ص 353)
11.صبر و جہاد کی ثمراتقالَتْ (سلام الله عليها): جعل الله … الجهاد عز للإسلام، و الصبر معونة علي استيجاب الأجرفرمایا: خداوند متعال نے جہاد کو اسلام کی عزت و ہیبت کا سبب اور صبر و استقامت کو حق تعالی کے انعام و جزا کے استحقاق کا باعث قرار دیا ہے.(احتجاج طبرسی، ج 1، ص 258)
12.ایمان و عدل کی ثمراتقالَتْ (سلام الله عليها): فَفَرَضَ اللّه‏ُ الايمانَ تَطهيرا مِنَ الشِّركِ… وَ العَدلَ تَسكينا لِلقُلوبِفرمایا: خداوند متعال نے ایمان کو شرک سے پاکیزگی کے لئے واجب کیا اور … عدل و انصاف کو قلوب کی تسکین کے لئے.(من لایحضره الفقیه، ج 3، ص 568)
13.علي (ع) فرشتوں كے بھي قاضيعن عَبْدُ اللّهِ بْنِ مَسْعُود، فالَ: أتَيْتُ فاطِمَةَ صَلَواتُ اللّهِ عَلَيْها، فَقُلْتُ: أيْنَ بَعْلُكِ؟ فَقالَتْ (عليها السلام): عَرَجَ بِهِ جِبْرئيلُ إلَى السَّماءِ، فَقُلْتُ: فيما ذا؟ فَقالَتْ: إنَّ نَفَراً مِنَ الْمَلائِكَةِ تَشاجَرُوا فى شَيْىء، فَسَألُوا حَكَماً مِنَ الاْدَمِيّينَ، فَأَوْحىَ اللّهُ إلَيْهِمْ أنْ تَتَخَيَّرُوا، فَاخْتارُوا عَليِّ بْنِ أبي طالِب (عليه السلام).عبد اللّہ بن مسعود کہتے ہیں: ایک روز میں حضرت فاطمہ زہراء (س) کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: آپ کے خاوند (علی علیہ السلام) کہاں ہیں؟فرمایا: جبرئیل کے ہمراہ آسمانوں کی جانب عروج کرکے گئے ہیں.میں عرض کیا: کس مقصد کی لئے؟فرمایا: ملائکة اللہ کے درمیان نزاع واقع ہوا ہے اور انہوں نے اللہ سے التجا کی ہے کہ انسانوں میں سے ایک فرد ان کے درمیان فیصلہ اور قضاوت کرے؛ چنانچہ خداوند متعال نے فرشتوں کو وحی بھیجی اور ان کو قاضی کے انتخاب کا اختیار دیا اور انہوں نے حضرت علىّ بن ابى طالب (علیہ السلام) کا انتخاب کیا.اختصاص شیخ مفید: ص 213، س 7، بحارالأنوار: ج 37، ص 150، ح 15.
14.امام علی علیہ السلام کا تعارفقالَتْ (عليها السلام): وَهُوَ الإمامُ الرَبّانى، وَالْهَيْكَلُ النُّورانى، قُطْبُ الأقْطابِ، وَسُلالَةُ الاْطْيابِ، النّاطِقُ بِالصَّوابِ، نُقْطَةُ دائِرَةِ الإمامَةِ.فرمایا: علی ابن ابی طالب علیہ السلام الہی پیشوا، نور اور روشنی کا پیکر، تمام موجودات اور عارفین کا مرکز توجہ اور طاہرین و طیبین کے خاندان کے پاک و طیب فرزند ہیں؛ حق بولنے والے متکلم ہیں (بولتے ہیں تو حق بولتے ہیں)، اور ہدایت دینے والے راہنما ہیں؛ وہ امامت و قیادت کا مرکز و محور ہیں.ریاحین الشّریعة: ج 1، ص 93.
15.محمد و علی امت کے باپقالَتْ (عليها السلام): أبَوا هِذِهِ الاْمَّةِ مُحَمَّدٌ وَ عَلىٌّ، يُقْيمانِ أَودَّهُمْ، وَ يُنْقِذانِ مِنَ الْعَذابِ الدّائِمِ إنْ أطاعُوهُما، وَ يُبيحانِهِمُ النَّعيمَ الدّائم إنْ واقَفُوهُما.فرمایا: حضرت محمّد صلى الله علیہ وآلہ و سلم اور علىّ علیہ السلام دونوں، اس امت کے باپ ہیں اور اگر اہل امّت ان کی پیروی کریں تو وہ (دو باپ) ہرگز انہیں دنیاوی انحرافات کا شکار نہیں ہونے دیں گے اور انہیں آخرت کے دائمی عذاب سے نجات دیں گے اور انہیں جنت کی فراوان نعمتوں سے بہر مند کردیں گے.تفسیر الإمام العسکرى (علیه السلام): ص 330، ح 191، بحارالأنوار: ج 23، ص 259، ح 8.
16.شیعیان اہل بیت کے حق میں سیدہ کی دعقالَتْ (سلام الله عليها): إلهى وَ سَيِّدى، أسْئَلُكَ بِالَّذينَ اصْطَفَيْتَهُمْ، وَ بِبُكاءِ وَلَدَيَّ فى مُفارِقَتى أَنْ تَغْفِرَ لِعُصاةِ شيعَتى، وَشيعَةِ ذُرّيتَى.فرمایا: خداوندا! تیرے برگزیدہ (منتخب) اولیاء اور مقربین کے صدقے اور تجھے میری شہادت کے بعد میری جدائی میں میرے بچوں کے گریہ و بکاء کے واسطے، التجاء کرتی ہوں کہ تو میرے اور میری اولاد کے گنہگار شیعوں کے گناہ بخش دے.کوکب الدّرىّ: ج 1، ص 254.
17.شیعہ کون ہے؟قالَتْ (سلام الله عليها): شيعَتُنا مِنْ خِيارِ أهْلِ الْجَنَّةِ وَكُلُّ مُحِبّينا وَ مَوالى اَوْليائِنا وَ مُعادى أعْدائِنا وَ الْمُسْلِمُ بِقَلْبِهِ وَ لِسانِهِ لَنا.فرمایا: ہمارے شیعہ اور پیروکار اور اسی طرح ہمارے محبین اور ہمارے دوستوں کے دوست اور ہمارے دشمنوں کے دشمن اور قلب و زبان کے ذریعے ہمارے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے لوگ جنتیوں میں بہترین افراد ہونگے.بحارالأنوار: ج 68، ص 155، س 20، ضمن ح 11.
18.اگر بے گناه مبتلا نہ ہوتے بددعا دیتیقالَتْ (سلام الله عليها): وَاللّهِ يَابْنَ الْخَطّابِ لَوْلا أنّى أكْرَهُ أنْ يُصيبَ الْبَلاءُ مَنْ لا ذَنْبَ لَهُ، لَعَلِمْتَ أنّى سَأُقْسِمُ عَلَى اللّهِ ثُمَّ أجِدُهُ سَريعَ الاْجابَةِ.فرمایا: اے خطّاب کے بیٹے! قسم خدا کی، اگر میں ناپسند نہ کرتی که خدا کا عذاب کسی بے گناه پر نازل ہو جائے خداوند عالم کو قسم دیتی اور بددعا دیتی اور تم دیکھ لیتے کہ میری دعا کتنی جلد قبول ہوتی ہے. (1)اصول کافى: ج 1، ص 460، بیت الأحزان: ص 104، بحارالأنوار: ج 28، ص 250، ح 30
19.میں ہرگز تم سے نہ بولوں گیقالَتْ (سلام الله عليها): وَاللّهِ! لا كَلَّمْتُكَ أبَداً، وَاللّهِ! لاَدْعُوَنَّ اللّهَ عَلَيْكَ فى كُلِّ صَلوة.سیدہ کے گھر پر حملہ ہؤا تو آپ نے خلیفہ اول سے مخاطب ہوکر فرمایا: خدا کی قسم! ابد تک تم سے نہ بولوں گی؛ خدا کی قسم ہر نماز میں تمہیں بددعا دیتی رہوں گی.(2)صحیح مسلم: ج 2، ص 72، صحیح بخارى: ج 6، ص 176.
20.تم نےمجھے ناراض و غضبناک کیا ہےقالَتْ (سلام الله عليها): إنّى أُشْهِدُ اللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ، أنَّكُما اَسْخَطْتُمانى، وَ ما رَضيتُمانى، وَ لَئِنْ لَقيتُ النَبِيَّ لأشْكُوَنَّكُما إلَيْهِ.[جب خلیفہ اول و دوئم سیدہ (س) کی عیادت کے لئے آئے تو (آپ (س) نے حدیث نبوی «من اسخط فاطمة فقد اسخطنی… » کی صحت کا اقرار لینے کے بعد] فرمایا: میں خدا اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں کہ تم نے مجھے غضبناک کیا اور تم نے مجھے خوشنود نہ کیا اور جب میں رسول اللہ (ص) سے ملوں گی آپ (ص) سے تم دونوں کی شکایت کروں گی.بحارالأنوار: ج 28، ص 303، صحیح مسلم: ج 2، ص 72، بخارى: ج 5، ص 5.
21.عہدشکن میری میت پر نماز نه پڑھیںقالَتْ (سلام الله عليها): لا تُصَلّى عَلَيَّ اُمَّةٌ نَقَضَتْ عَهْدَ اللّهِ وَ عَهْدَ أبى رَسُولِ اللّهِ فى أمير الْمُؤمنينَ عَليّ، وَ ظَلَمُوا لى حَقىّ، وَ أخَذُوا إرْثى، وَ خَرقُوا صَحيفَتى اللّتى كَتَبها لى أبى بِمُلْكِ فَدَك.فرمایا: وه لوگ جنہوں نے امیرالمؤمنین علىّ (علیه السلام) کے بارے میں خدا اور میرے والد رسول خدا (ص) کے ساتھ کیا ہوا عہد توڑا اور میرے حق میں ظلم کا ارتکاب کیا اور میرے ارث کو غصب کیا اور جنہوں نے میرے لئے وہ صحیفہ پهاڑ ڈالا جو میرے والد نے فدک کے سلسلے میں میرے لئے لکها تها وه میری میت پر نماز نہ پڑھیں.بیت الأحزان: ص 113، کشف الغمّة: ج 2، ص 494.
22.غدیر کے بعد کو‏ئی عذر نہ رہقالَتْ (سلام الله عليها): إلَيْكُمْ عَنّي، فَلا عُذْرَ بَعْدَ غَديرِكُمْ، وَ الاَْمْرُ بعد تقْصيركُمْ، هَلْ تَرَكَ أبى يَوْمَ غَديرِ خُمّ لاِحَد عُذْراٌ.مہاجرین و انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: مجھ سے دور ہوجاؤ اور مجھے اپنے حال پر چھوڑو اتنی ساری بے رخی اور حق سے چشم پوشی کے بعد، تمہارے لئے اب کوئی عذر باقی نہیں رہا ہے۔ کیا میرے والد نے غدیر خم میں (اپنے جانشین کا تعین کرکے اور مسلمانوں کو اس امر پر گواہ بنا کر) تمہارے لئے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا ہے؟خصال: ج 1، ص 173، احتجاج: ج 1، ص 146.
23.ایمان، نماز، زکواة، روزے اور حج کے ثمراتقالَتْ (سلام الله عليها): جَعَلَ اللّهُ الاْيمانَ تَطْهيراً لَكُمْ مِنَ الشّـِرْكِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزيهاً لَكُمْ مِنَ الْكِبْرِ، وَ الزَّكاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ، وَ نِماءً فِى الرِّزقِ، وَ الصِّيامَ تَثْبيتاً لِلاْخْلاصِ، وَ الْحَّجَ تَشْييداً لِلدّينِفرمایا: خداوند سبحان نے ایمان و اعتقاد کو شرک سے طهارت اور گمراهیوں و شقاوتوں سے نجات قرار دادیا اور نماز کو خضوع اور انکسار اور ہرگونہ تکبر سے پاکیزگی قرار دیا ہے اور زکواة (و خمس) کو تزکیه نفس اور وسعت رزق کا سبب گردانا ہے اور روزے کو ارادے میں استقامت اور اخلاص کے لئے لازم قرار دیا ہےاور حجّ کو شریعت کی بنیادیں اور دین کی اساس کے استحکام کی خاطر واجب کیا ہے.ریاحین الشّریعة: ج 1، ص 312، فاطمة الزّهراء (س) ص 360، خطبه آنحضرت. احتجاج طبرسی، ج 1.
24.میں سب سے پہلے اپنے والد سے ملحق ہونگیقالَتْ (سلام الله عليها): يا أبَا الْحَسَنِ! إنَّ رَسُولَ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) عَهِدَ إلَىَّ وَ حَدَّثَنى أنّى اَوَّلُ أهْلِهِ لُحُوقاً بِهِ وَ لا بُدَّ مِنْهُ، فَاصْبِرْ لاِمْرِاللّهِ تَعالى وَ ارْضَ بِقَضائِهِ.فرمایا: اے ابا الحسن! بے شک رسول اللہ (ص) نے میرے ساتھ عہد باندھا ہے اور مجھے خبر دی ہے کہ: مین آپ (ص) کے خاندان میں سپ سے پہلے اآپ سے جا ملوں گی اور اس عہد سے کو‎‎ئی گریز نہیں ہے، پس صبر کا دامن تھام کے رکھنا اور اللہ کی قضا و قدّر پر راضی ہونا.بحارالأنوار: ج 43، ص 200، ح 30.
25.سیدہ (س) اور آپ کے والد (ص) پر تین روز تک سلام کا ثمرہقالَتْ (سلام الله عليها): مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ اَوْ عَلَيَّ ثَلاثَةَ أيّام أوْجَبَ اللّهُ لَهُ الجَنَّةَ، قُلْتُ لَها: فى حَياتِهِ وَ حَياتِكِ؟ قالَتْ: نعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنا.فرمایا: جو شخص میرے والد ـ رسول خدا (ص)ـ اور مجھ پر تین روز تک سلام بھیجے خدا اس پر جنت واجب کردیتا ہے۔راوی کہتا ہے: میں نے عرض کیا یہ سلام آپ اور آپ کے والد (ص) کے ایام حیات کے لئے ہے؟سیدہ (س) نے فرمایا: ہمارے ایام حیات اور ہماری موت کے بعد کے لئے ہے.بحارالأنوار: ج 43، ص 185، ح 17.
26.علی (ع) نے فریضۂ الہی پر عمل کیقالَتْ (سلام الله عليها): ما صَنَعَ أبُو الْحَسَنِ إلاّ ما كانَ يَنْبَغى لَهُ، وَ لَقَدْ صَنَعُوا ما اللّهُ حَسيبُهُمْ وَ طالِب2ُهُمْ.فرمایا:جو کچھ علی عليہ السلام نے – رسول اللہ کی تدفین اور بیعت کے سلسلے میں – سرانجام دیا وہ خدا کی جانب سے مقررہ فريضہ تھا اور جو کچھ دوسروں نے سرانجام دیا خداوند متعال ان کا احتساب کرکے انہيں سزا دے گا.الإمامة والسّیاسة: ص 30، بحارالأنوار: ج 28، ص 355، ح 69.
27.خواتین کے لئے کون سی چیز بہتر ہے؟قالَتْ (سلام الله عليها): خَيْرٌ لِلِنّساءِ أنْ لا يَرَيْنَ الرِّجالَ وَ لا يَراهُنَّ الرِّجالُ.فرمایا: عورت کی شخصیت کی حفاظت کے لئے بہترین عمل یہ ہے کہ (غیر) مرد کو نہ دیکھے اور (غیر) مرد بھی اسے نہ دیکھیں.بحارالأنوار: ج 43، ص 54، ح 48.
28.یاعلی مجھے ہرگز نہ بھولنقالَتْ (سلام الله عليها): أوُصيكَ يا أبَا الْحَسنِ أنْ لا تَنْسانى، وَ تَزُورَنى بَعْدَ مَماتى.بي‌بي سیدہ (س) نے اپنی وصیت کے ضمن میں فرمایا: اے ابالحسن! میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ میری موت کے بعد کے بعد مجھے کبھی نہ بھولنا اور میری زیارت و دیدار کے لئے میری قبر پر آیا کرنا.زهرة الرّیاض ـ کوکب الدّرى: ج 1، ص 253.
29.خواتین کی میت بھی نامحرموں کی نظروں سے محفوظ ہوقالَتْ (سلام الله عليها): إنّى قَدِاسْتَقْبَحْتُ ما يُصْنَعُ بِالنِّساءِ، إنّهُ يُطْرَحُ عَلىَ الْمَرْئَةِ الثَّوبَ فَيَصِفُها لِمَنْ رَأى، فَلا تَحْمِلينى عَلى سَرير ظاهِر، اُسْتُرينى، سَتَرَكِ اللّهُ مِنَ النّارِ.سیدہ علیہاالسلام نے اپنی عمر مبارک کے آخری ایام میں اسماء بنت عمیس سے مخاطب ہوکر فرمایا: میں یہ عمل بہت ہی برا اور بھونڈا سمجھتی ہوں کہ لوگ خواتین کی موت کے بعد ان کی میت پر چادر ڈال اس کی تشییع کریں اور قبرستان تک لے جائیں اور بعض لوگ ان کے اعضاء اور بدن کے حجم کا مشاہدہ کرکے دوسروں کے لئے حکایت کریں چنانچہ میری میت کو ایسی چارپائی یا تختے کے اوپر مت رکھنا جس کے ارد گرد بدن چھپانے کا انتظام نہ ہو اور اس پر ایسا وسیلہ نہ ہو جو لوگوں کے تماشے کے لئے رکاوٹ ہو. اور پورے پردے میں میری میت کی تشییع کرنا خداوند متعال تمہیں دوزخ کی آگ سے مستور و محفوظ رکھے.تهذیب الأحکام: ج1، ص 429، کشف الغمّه: ج 2، ص 67، بحار:ج 43، ص 189،ح 19.
30.پردہ حتی نابینا مردوں سےقالَتْ (سلام الله عليها): … إنْ لَمْ يَكُنْ يَرانى فَإنّى أراهُ، وَ هُوَ يَشُمُّ الريح.[ایک روز ایک نابینا آدمی داخل ہوا تو حضرت زہراء (علیہا السلام) نے پردہ کیا. رسول اکرم (ص) نے فرمایا: جان پدر! یہ شخص نابینا ہے اور دیکھتا نہیں ہے تو عرض کیا] اگر وہ مجهے نہیں دیکھتا تو میں تو اسے دیکھتی ہوں! اور پھر یہ کہ وہ ہوا میں عورت کی بو سونگھ سکتا ہے. [یہ حدیث ان خواتین کی لئی قابل توجہ ہی کہ وہ بینا لوگون سی پردہ تو نہین کرتین بلکہ میک اپ کرکی بن تهن کر دل موہ لینے والے عطریات لگا کر غیر مردوں کے ساتھ مسکرا مسکرا کر باتیں کرنے سے لذت اٹھاتی ہیں اور اس حرام عمل کو تجدد اور عورت کی آزادی سمجھتی ہیں].بحارالأنوار: ج 43، ص 91، ح 16، إحقاق الحقّ: ج 10، ص 258.
31.ترک دنیا اور غاصبوں کی ابدی مخالفت …قالَتْ (سلام الله عليها): أصْبَحْتُ وَ اللهِ! عاتِقَةً لِدُنْياكُمْ، قالِيَةً لِرِجالِكُمْ.[فدک غصب ہوجانے اور سیدہ سلام اللہ علیہا کے استدلال و اعتراض کے بعد مہاجرین انصار کی بعض عورتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ کا حال پوچهنے لگیں تو سیدہ سلام اللہ علیہا نے] فرمایا: خدا کی قسم! میں نے تمہاری دنیا کو آزاد کیا اور میری اب تمہاری دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور تمہارے مردوں کی ہمیشہ کے لئے دشمن رہوں گی.دلائل الإمامة: ص 128، ح 38، معانى الأخبار: ص 355، ح 2.
32.شیعیان اہل بیت کون ہیں؟قالَتْ (سلام الله عليها): إنْ كُنْتَ تَعْمَلُ بِما أمَرْناكَ وَ تَنْتَهى عَمّا زَجَرْناكَ عَنْهُ، قَأنْتَ مِنْ شيعَتِنا، وَ إلاّ فَلا.فرمایا: اگر تم ہم اہل بیت عصمت و طہارت کے اوامر پر عمل کرو اور جن چیزوں سے ہم نے نہی کی ہے ان سے اجتناب کرو تو تم ہمارے شیعوں میں سے ہو ورنہ تو نہیں.تفسیر الإمام العسکرى (علیه السلام): ص 320، ح 191.
33.نئی شادی کے سلسلے میں علی (ع) کو وصیتقالَتْ (سلام الله عليها): أُوصيكَ اَوّلاً أنْ تَتَزَوَّجَ بَعْدى بِإبْنَةِ اُخْتى أمامَةَ، فَإنَّها تَكُونُ لِوُلْدى مِثْلى، فَإنَّ الرِّجالَ لابُدَّ لَهُمْ مِنَ النِّساءِ.بی‌بی سیدہ نے اپنی عمر کے آخری لمحات میں علی (ع) کو سفارش کی: میرے بعد میری بھانجی “أمامه” کے ساتھ شادی کرنا، کیونکہ وہ میرے بچوں کے لئے میری طرح ہمدرد اور دلسوز ہے اور پھر مردوں کے لئے عورتوں کی ضرورت ہوتی ہے.بحارالأنوار: ج 43، ص 192، ح 20، أعیان الشّیعة: ج 1، ص 321.
34.ماں کی خدمت اور اس کے ثمراتقالَتْ (سلام الله عليها): الْزَمْ عجْلَها فَإنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ أقْدامِها و الْزَمْ رِجْلَها فَثَمَّ الْجَنَّةَ.فرمایا: ہمیشہ ماں کی خدمت میں اور اس کے پابند رہو، کیونکہ جنت ماں کے قدموں (پاؤں) تلے ہے؛ اور تمہارے اس عمل کا نتیجہ بہشتى نعمتیں ہیں.کنزل العمّال: ج 16، ص 462، ح 45443.
35.روزہ کس طرح ہونا چاہئے؟قالَتْ (سلام الله عليها): ما يَصَنَعُ الصّائِمُ بِصِيامِهِ إذا لَمْ يَصُنْ لِسانَهُ وَ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ جَوارِحَهُ.فرمایا: وہ روزہ دار شخص جو اپنی زبان اور کانوں اور آنکھوں و دیگر اعضاء و جوارح کو قابو میں نہ رکھے اپنے روزے سے کوئی فائدہ نہ اٹھائے.مستدرک الوسائل: ج 7، ص 336، ح 2، بحارالأنوار: ج 93، ص 294، ح 25.
36.خوشروئی اور اس کے ثمراتقالَتْ (سلام الله عليها): اَلْبُشْرى فى وَجْهِ الْمُؤْمِنِ يُوجِبُ لِصاحِبهِ الْجَنَّةَ، وَ بُشْرى فى وَجْهِ الْمُعانِدِ يَقى صاحِبَهُ عَذابَ النّارِ.فرمایا: مؤمن کے سامنے تبسّم اور شادمانى جنت میں داخلے کا باعث بنتا ہےجبکہ دشمنوں اور مخالفین کے سامنے تبسم عذاب سے بچاؤ کا سبب بنتا ہے.تفسیر الإمام العسکرى (ع) ص 354، ح 243، مستدرک الوسائل: ج 12، ص 262، بحار: ج 72، ص 401، ح 43.
37.کھانے کے بعد ہاتھ دہونے کی ضرورتقالَتْ (سلام الله عليها): لا يَلُومَنَّ امْرُءٌ إلاّ نَفْسَهُ، يَبيتُ وَ فى يَدِهِ ريحُ غَمَر.فرمایا: جو شخص کھانا کھانے کے بعد ہاتھ نہ دھوئے اور اس کے ہاتھ آلودہ ہوں؛ اگر اس کو کوئی پریشانی (بیماری وغیره) لاحق ہوجائے تو اپنے سوا کسی پر بهی ملامت نہ کرے.کنزل العمّال: ج 15، ص 242، ح 40759.
38.جمعہ کے روز دعا کا بہترین موقعقالَتْ (سلام الله عليها): اصْعَدْ عَلَى السَّطْحِ، فَإنْ رَأيْتَ نِصْفَ عَيْنِ الشَّمْسِ قَدْ تَدَلّى لِلْغُرُوبِ فَأعْلِمْنى حَتّى أدْعُو.روز جمعہ غروب آفتاب کے قریب غلام کو حکم دیا کرتے تھیں: گھر کی چھت پر جا کر بیٹھو اور جب آدھا سورج ڈوب جائے مجھے خبر کردو تا کہ میں (اپنے اور دوسروں کے لئے) دعا کروں.دلائل الإمامة: ص 71، س 16، معانى الأخبار: ص 399، ضمن ح 9.
39.خدا تمام گناہوں کو بخش دیتا ہےقالَتْ (سلام الله عليها): إنَّ اللّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَميعاً وَلايُبالى.فرمایا: بے شک خدا تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس سلسلے میں کسی کی پروا نہیں کرے گا. [البتہ حق الناس اور شرک قابل بخشش گناہ نہیں ہیں جس پر قرآن میں بھی تصریح ہوئی ہے اور احادیث میں بھی، البتہ خدا اگر کسی کے ساری گناہ (سوائے شرک کے) بخشنا چاہے تو وہ وسیلہ ساز ہے اور اگر کسی کا اس شخص پر کوئی حق ہے تو اس کے دل میں عفو و درگذر کا احساس پیدا کرتا ہے یا اس کو انعام و اکرام سے نواز کر مطلوبہ شخص کے گناہ بخشوادیتا ہے اور یہ سارے امور اللہ کے لئے آسان ہیں.]تفسیر التّبیان: ج 9، ص 37، س 16.
40.سواری اور گھر پر مرد کا حققالَتْ (سلام الله عليها): الرَّجُلُ اُحَقُّ بِصَدْرِ دابَّتِهِ، وَ صَدْرِ فِراشِهِ، وَالصَّلاةِ فى مَنْزِلِهِ إلاَّ الاْمامَ يَجْتَمِعُ النّاسُ عَلَيْهِ.فرمایا: ہر شخص اپنی سواری، اپنے گھر کے صدر مجلس اور اپنے گھر میں نماز قائم کرنے (اور امامت کے حوالے سے) دوسروں پر اولویت و ترجیح رکھتا ہے مگر یہ کہ امام جماعت کوئی ایسا شخص ہو جس کی امامت پر لوگوں کا اتفاق ہو اور لوگ اس کی امامت میں نماز ادا کرنا چاہیں.مجمع الزّوائد: ج 8 ، ص 108 ، مسند فاطمه: ص 33 و 52.
41.قیامت کے روز لوگوں کی حالت سے فکرمندیقالَتْ (سلام الله عليها): يا أبَة، ذَكَرْتُ الْمَحْشَرَ وَوُقُوفَ النّاسِ عُراةً يَوْمَ الْقيامَةِ، وا سَوْأتاهُ يَوْمَئِذ مِنَ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ.اباجان!(یا رسول اللہ (ص)) مجھے قیامت یاد آئے کہ لوگ خدا کی بارگاه کس طرح ننگے پیش کئے جائیں گے اور ان کا کوئی یار و مددگار نہ ہوگا! اگر کسی کا کوئی غمخوار ہوگا بھی تو وہ اس کا عمل اور اہل بیت (ع) سے اس کی محبت و عقیدت ہوگی. وا سوآتاہ۔۔۔۔کشف الغمّة: ج 2، ص 57، بحار الأنوار: ج 8 ، ص 53، ح 62.
42.امت کے گنہگاروں کی شفاعتقالَتْ (سلام الله عليها): إذا حُشِرْتُ يَوْمَ الْقِيامَةِ، أشْفَعُ عُصاةَ أُمَّةِ النَّبىَّفرمایا: جب روز قیامت محشور و مبعوث ہوجاؤں امت رسول خدا (ص) کے گنہگاروں کی شفاعت کروں گی.إحقاق الحقّ: ج 19، ص 129.
43.میت کے لئے تلاوت قرآن اور دعقالَتْ (سلام الله عليها): فَأكْثِرْ مِنْ تِلاوَةِ الْقُرآنِ، وَالدُّعاءِ، فَإنَّها ساعَةٌ يَحْتاجُ الْمَيِّتُ فيها إلى أُنْسِ الاْحْياءِ.بی‌بی سیدہ نے امام علىّ (علیہ السلام) سے مخاطب ہوکر فرمایا: مجھے سپرد خاک کرنے کے بعد میرے لئے قرآن مجید کی تلاوت بکثرت کرنا اور میرے حق میں دعا کرنا کیونکہ میت کو اس حالت میں زندہ افراد کے ساتھ انس کی ضرورت ہوتی ہے.بحارالأنوار: ج 79، ص 27، ضمن ح 13.
44.خواتین اپنے مردوں کو مشقت میں نہ ڈالیںقالَتْ (سلام الله عليها): يا أبَا الحَسَن، إنّى لأسْتَحى مِنْ إلهى أنْ أكَلِّفَ نَفْسَكَ ما لا تَقْدِرُ عَلَيْهِ.بی‌بی سیدہ نے اپنے شریک حیات حضرت امیرالمؤمنین علىّ (علیہ السلام) سے مخاطب ہوکر فرمایا: میں اپنے معبود سے شرماتی ہوں کہ آپ سے ایسی چیز کی درخواست کروں جس کی فرااہمی آپ کے لئے ممکن نہ ہو.أمالى شیخ طوسى : ج 2، ص 228.
45.اولاد رسول (ص) کے قاتلین کا انجامقالَتْ (سلام الله عليها): خابَتْ أُمَّةٌ قَتَلَتْ إبْنَ بِنْتِ نَبِيِّها.فرمایا: وه گروہ ہرگز سعادت و فلاح نہ پائے گا جو اپنے پیغمبر کے فرزند کو قتل کردے.مدینة المعاجز: ج 3، ص 430.
46.گناہان کبیرہ سے اجتناب کے ثمراتقالَتْ (سلام الله عليها): … وَ النَّهْىَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزيهاً عَنِ الرِّجْسِ، وَاجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِ اللَّعْنَةِ، وَ تَرْكَ السِّرْقَةِ ايجاباً لِلْعِّفَةِ.فرمایا: خداوند متعال نے شرابخواری سے نہی – معاشرے کو بدیوں اور جرائم سے پاک کرنے کے لئے – قرار دی؛ تہمتوں، بہتان تراشیوں اور ناروا الزامات سے اجتناب – معاشرے کو غضب اور نفرین سی محفوظ بنانے کے لئے – قرار دیا؛ اور ترک سرقت – معاشروں اور افراد کی پاکیزگی اور پاکدامنی کا سبب – قرار دیا.ریاحین الشّریعة: ج 1، ص 312، فاطمة الزهراء (س﴾ ص 360، خطبه معروف. احتجاج طبرسی ج1.
47.شرک کیوں حرام ہے؟قالَتْ(عليها السلام): وَ حَرَّمَ – اللّه – الشِّرْكَ إخْلاصاً لَهُ بِالرُّبُوبِيَّةِ، فَاتَّقُوا اللّه حَقَّ تُقاتِهِ، وَ لا تَمُوتُّنَ إلاّ وَ أنْتُمْ مُسْلِمُونَ(1)، وَ أطيعُوا اللّه فيما أمَرَكُمْ بِهِ، وَ نَهاكُمْ عَنْهُ، فَاِنّهُ، إنَّما يَخْشَى اللّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءِ.فرمایا: خداوند سبحان نے شرک کو (مختلف امور میں) حرام کردیا تا کہ سارے لوگ اس کی ربوبیت کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور سعادت و خوشبختی کے مقام پر پہنچیں؛ پس تقوائے الہی اپنانا اور خدا کا خوف رکھنا جیسا کہ تقوائے الہی اور خدا کے خوف کا حق ہے؛ اور مسلمان ہوئے بغیر مت مرنا چنانچہ جن چیزوں میں تمہیں اللہ نے امر کیا ہے اور جن چیزوں سے تمہیں روکا ہے ان میں اللہ کی اطاعت کرنا کیوں کہ صرف علماء اور دانشمند افراد خدا سے خوف و خشیت رکھتے ہیں.ریاحین الشّریعة: ج 1، ص 312، فاطمة الزهراء (س﴾ ص 360، خطبه معروف. احتجاج طبرسی ج1.
48.عترت نبی (ص) کی فرمانبرداری کے ثمراتقالَتْ (سلام الله عليها): أمّا وَاللّهِ، لَوْ تَرَكُوا الْحَقَّ عَلى أهْلِهِ وَ اتَّبَعُوا عِتْرَةَ نَبيّه، لَمّا اخْتَلَفَ فِى اللّهِ اثْنانِ، وَ لَوَرِثَها سَلَفٌ عَنْ سَلَف، وَ خَلْفٌ بَعْدَ خَلَف، حَتّى يَقُومَ قائِمُنا، التّاسِعُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ(عليه السلام).فرمایا: خدا کی قسم اگر انہوں نے حق – یعنی خلافت و امامت – کو اہل حق کے سپرد کیا ہوتا اور عترت رسول (ص) اور اہل بیت (ع) کی پیروی کی ہوتی حتی دو افراد بهی خدا اور دین کے سلسلے میں ایک دوسرے سی اختلاف نہ کرتے اور خلافت و امامت کا عہده لائق اور شائستہ افراد سے لائق اور شائستہ افراد کو منتقل ہوتا رہتا اور آخر کار قائم آل محمد ( عجّل اللّه فرجه الشّریف ، و صلوات اللّہ علیہم اجمعین) کو واگذار ہوتا جو کہ امام حسین علیہ السلام کے نویں فرزند ہیں.الإمامة والتبصرة: ص 1، بحارالأنوار: ج 36، ص 352، ح 224.
49.دسترخوان کے بارہ آدابقالَتْ (سلام الله عليها): فی المائدة اثنتا عشرة خصلة یجب علی کل مسلم ان یعرفھا اربع فیھا فرض؛ و اربع فیھا سُنَّة و اربع فیھا تأدیب: فامّا الفرض فالمعرفة و الرضا والتسمیة و الشکر؛ و اما السنة فالوضو ء قبل الطعام و الجلوس علی الجانب الایسر و الاکل بثلاث اصابع و لعق الاصابع؛ فامّا التأدیب فاکل بما یلیک و تصغیر اللقمہ و المضغ الشدید وقلة النظر فی وجوہ الناس.فرمایا: آداب دسترخوان بارہ ہیں جن کا علم ہر مسلمان کو ہونا لازم ہے. ان میں سے چار چیزیں واجب، چار مستحب اور 4 رعایت ادب کے لئے ہیں. واجبات دسترخوان کچھ یوں ہیں: معرفت رب، رضائے الہی، شکر پروردگار، اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا؛ وہ جو مستحب ہیں یہ ہیں: کھانے سے پہلی وضو کرنا، بائیں پہلو کی جانب بیٹهنا، تین انگلیوں سے لقمہ اٹهانا اور انگلیوں کو چاٹنا اور وہ چار چیزیں جو رعایت ادب کا تقاضا ہیں یہ ہیں: جو کچھ تمہارے سامنے رکها ہے کهالینا (اور اپنے سامنے ہی سے کها لینا)، لقمہ چهوٹا اٹهانا، خوب چبا کر کهالینا (دسترخوان پر بیٹهے ہوئے) افراد کی طرف کم ہی دیکهنا (اور انہیں گهور کر مت دیکهنا اور تکنا مت).تحف العقول ص ۹۶۲1-2 – ایک طرف سے سیدہ (س) نے ابن خطاب سے مخاطب ہوکر فرمایاہے که میں اگر بےگناہوں پر آفت نازل ہونے کو ناپسند نہ کرتی تو بددعا دیتی اور آپ نے کسی ضمیر کا استعمال نہیں کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بی بی سارے ظالمین و غاصبین کے لئے اجتماعی بددعا نہیں دینا چاہتی تھیں ورنہ اس کے نتیجے میں خشک و تر جل کر راکھ ہوجاتا جبکہ بعد کی حدیث میں خلیفہ اول سے مخاطب ہوکر فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم میں ہر نماز میں تمہیں بددعا دیتی ہوں اور اس بددعا سے مراد انفرادی بددعا ہے اور بزرگان دین اور انبیاء و اوصیاء کی انفرادی بددعا کا تعلق عام طور پر آخرت سے ہوتا ہے واضح ہے کہ انکی دعا کبھی رد نہیں ہوتی.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.