صلح حسن علیہ السلام
ہمارے خیال میں سب سے زیادہ جس چیز نے اس سوال کو فروغ دیا ہے وہ ہے ‘قیام امام حسین ، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ۶۱ھ سے لیکر آج تک آپ کے قیام کی تمجید وتعریف دنیابھر میں ہوتی رہی ہے ، چونکہ آپ کا قیام اسلام کی پیشرفت اوراس کی بقاء ، بدعت اوربدعت گذاروں کی شناخت ، اورخلافت وسلطنت کے درمیان فرق ، اوریزید ومعاویہ کی شناخت کے سلسلے میں کافی مؤثر تھا ۔چنانچہ آپ کا یہ قیام اس بات کا موجب بناکہ بعض سادہ لوح افراد یہ سوچنے لگے کہ قیام ونہضت مطلقاً اچھی چیز ہے اوراگر کوئی قیام کے بجائے صلح وآشتی سے کام لے تو گویا اس نے اشتباہ کیا ہے ۔اورشاید یہی چیز (قیام امام حسین)سبب بنی کی لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ امام حسن کو بھی صلح کے بجائے قیام کرناچاہئے تھا، البتہ ایک دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ شاید یہ سوال دشمن کی سازش رہی ہو کہ ایک طرف تو اس نے امام حسن کو اپنی عیاریوں اورمکاریوں کے ذریعہ صلح کرنے پرمجبور کیا ہو اوردوسری طرف بعض لوگوں کوتحریک کیا ہوکہ جا کرامام سے پوچھیں ، یاسماج اورمعاشرے میں یہ سوال برپا کریں کہ آخرامام حسنؑ نے صلح کیوں کی ؟بہرحال اس سوال کا عامل جوبھی ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ ہمیشہ دشمن ایسے سوالوں کے ذریعہ سے سوء استفادہ کرنے کی تاک میں رہا ہے ، اوراس کی دلیل یہ ہے کہ یہی سوال امام حسین کے قیام کے بارے میں بھی ہوتا ہے ، یعنی ایک طرف توصلح حسن کو کم رنگ کرنے کے لئے سوال ہوتا ہے کہ صلح کیوں کی ؟اوردوسری طرف یہی اعتراض سیدالشہداء کے قیام کے بارے میں بھی ہوتا ہے کہ کیوں آپ نے قیام کر کے اپنے اعزاواقرباء کوقربان کر دیا، آپ نے بھی اپنے بھائی کی طرح صلح وآشتی سے کام کیوں نہیں لیا ؟بہر صورت ہمارا مقصد بھی یہاں پر یہی ہے کہ ہم اس سوال کا جواب دیں کہ امام حسن نے صلح کیوں کی ۔اس سوال کے بہت سارے جواب دیئے جا سکتے ہیں جن میں سے بعض جواب تحلیلی اوربعض جواب عقیدت کی بناپرہو سکتے ہیں ،پہلا جواب تو یہ ہے کہ ہم اپنے عقیدے کے مطابق یہ کہیں کہ چونکہ نبی ا کرم نے فرمایا ہے کہ حضرت علی کے بعد امام حسن اور آپ کے بعد امام حسین اس امت کے امام ہیں اوردونوں معصوم ہیں ۔چنانچہ فرمان رسول کے مطابق ہم شیعہ اس اجمالی جواب پرقانع ہوجائیں گے اوراس مسئلہ کے جزئیات میں نہیں جائیں گے اوریہ سوچ لیں کہ چونکہ امام حسن امام اورمعصوم ہیں اورمعصوم جوبھی کام کرتا ہے وہی مرضی خدا اوراسی میں خداکی خوشنودی ہوتی ہے ۔دوسرا جواب :ان روایتوں کے علاوہ (جو بارہ اماموں کے سلسلے میں اورحسنین بھی انکاجزء ہیں )ایک دوسری روایت میں نبی ا کرم فرماتے ہیں :الحسن والحسین ابنای امامان قاما اوقعدا ۔ حسن وحسیندونوں میرے فرزند ہیں اوردونوں امام ہیں خواہ قیام کریں یاقعود اس حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا دشوارنہ ہو گا کہ پیغمبر نے قیام حسین اورصلح حسن پرہونے والے اعتراض کاجواب اپنی زندگی میں ہی دیدیا تھا، کہ دیکھویہ میرے دونوں فرزند اگر ایک کے اوپرایساوقت آجائے کہ صلح کرنے پرمجبور ہو اورصلح کر لے تب بھی اما م ہے ، اوردوسرازمانے کے اوضاع واحوال کودیکھ کر قیام کے لئے اٹھ کھڑ ا ہو جائے تب بھی امام ہے ، اوربہت ممکن ہے کہ اس حدیث شریف میں قاما اورقعدا سے مراد قیام حسین وصلح حسن ہو ۔بعض افراد جیساکہ ذکرہو چکا ہے اس سوال کو امام حسین کے قیام کے مقابلے میں لا کر کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ کیوں امام حسن نے صلح اور امام حسین نے قیام کیا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ امیرالمومنین۴۰ھ میں ہوئی اور امام حسین کی شہادت ۶۱ھ میں اوران دونوں کے درمیان ۲۰سال کا فاصلہ ہے جس میں سے ۱۰ سال امام حسن کی امامت کا دور ہے اور ۱۰ سال امام حسین کی امامت کا زمانہَِِ، اورِ اگر کوئی چاہے تو تاریخ میں دیکھ سکتا ہے کہ امام حسن نے اپنی امامت کے آغاز میں معاویہ کے خلاف قیام کیا.معاویہ سے درگیر رہے لیکن جب شرائط جنگ مہیانہ رہے تو تقاضئہ مصلحت کی بنا پر آپ نے صلح کو قبول کیا اور اس کے بعد ۹ !سال کی زندگی آپ نے سکوت اور صلح میں گذاری ۔اور اسی طرح امام حسینکی زندگی پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپنے اپنی امامت کا آغاز سکوت وصلح کے زمانہ میں کیا اور یہ زمانہ ۹!سال جاری رہا اور اپنی امامت کے آخری دور میں آپ نے قیام کیاَ۔۔اب مذکورہ دونو باتوں کو پیش نظر رکھ کر یہ کہنا بہت آسان ہے کہ دونوں اماموں میں کوئی فرق نہیں ہے ، بلکہ دونو ں کی زندگی میں قیام وسکوت دونوں پاے جاتے ہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ امام حسن نے پہلے قیام کیا اور پھر صلح ، اور امام حسین نے پہلے سکوت کیا اور پھر قیام ، اب یہ بات تو بصیرت امامت پر موقوف تھی کہ کب صلح کریں اورکب قیام؟بہرکیف :اگر یہ جاننا ہے کہ امام حسن نے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی تو سب سے پہلے ضروری ہے کہ آپ کی تاریخی زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے اور س وقت کے اوضاع و احوال اور شرائط کے سائے میں ا سکا جواب تلاش کیا جائے ۔یہاں پر چند باتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو شاید ایک حد تک جواب تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہو سکیں ۔۱۔امام حسینؑ جب اپنے اصحاب اور انصارپر نظر ڈالتے ہیں تو آواز دیتے ہیں کہ میں نے اپنے اصحاب سے زیاد ہ باوفا اصحاب نہیں دیکھے ۔لیکن جب امام حسن کو دیکھتے ہیں تو آنحضرت اپنی بے یاوری کا ماتم کرتے ہوے نظر آتے ہیں یہ ایک ایسا مسئلہ تھا کہ بارہا امام نے فرمایا ۔’اگرلوگ میری بیعت اور ہمراہی کرتے تو آسمان اپنی برکتیں ان پر نازل کرتا اور معاویہ اپنی مکاریوں میں کامیاب نہیں ہوتا اس کے علاوہ امام نے ایک شخص کے جواب میں کہ جس نے سوال کیا تھا کہ معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی ؟لکھتے ہیں کہ خدا قسم اگر ناصر و یاور ہوتے تو معاویہ سے جنگ کرتا ‘‘(احتجاج ، طبرسی، ۱۵۱) یا دوسری جگہ فرماتے ہیں ۔: اگر انصار ہوتے تو رات دن معاویہ سے لڑ تا۔(بحار، مجلسی، ج۴۴ !۱۴۷ )۳۔امام حسن اور امام حسین دونو ں کے زمانے متفاوت تھے چونکہ امام حسن کے زمانہ میں معاویہ خود کو اہل مسجد و عبادت ظاہر کرتا تھا جبکہ امام حسین کے دور میں یزید علناًشراب خواری و سگبازی کرتا تھا اور فسق وفجور میں ملوث تھا ، اوروحی وخبر کا انکار کر رہا تھا ۔۴۔اگر امام حسن قیام کر کے شہید ہو جاتے تو آپکا خون رائگاں ہو جاتا کیونکہ معاویہ اپنی قداست کو ثابت کرتا ، اور تو اور۔ لوگ بھی امام کے اوپر اعتراض کرتے کہ آپنے صلح کیوں نہیں کی، جیسا کہ امام حسینؑ پر بعض نادان اور کج فہم افراداعتراض کرتے ہیں ۔۵۔امام حسن نے اسلئے صلح کی کیونکہ لوگ ابھی سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ معاویہ حکومت طلبی کو صلح کے قالب میں پیش کر رہا ہے بلکہ لوگ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اسلام کے نفع کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۔ صلح کی تجویز پیش کر رہا ہے ، چنانچہ ایسی صورت میں اگرامام قیام کر دیتے تو لوگ کہتے کہ امام حکومت طلبی کے لئے اٹھ کھڑ ے ہوئے ۔۶۔امام حال وآیندہ کے اوضاع واحوال کو دیکھ رہے تھے امام جانتے تھے کہ اگر قیام کر کے کامیاب ہوجائیں گے تو قتل عثمان کی طرح سے پھرایک غوغا برپا ہوجائے گا اورشکست کی صورت میں آئندہ اسلام ومسلمین اوربالاخص شیعوں کانام بھی باقی نہیں رہے گا۔۷۔امام نے شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے خون کو ہدردینے کے برابر سمجھا ۔لوگوں نے امام سے پوچھا کہ ہمارایہ کام (صلح )صحیح ہے آپ نے جواب دیاکہ ہاں ۔کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کل محشر میں ۷۰! سے ۸۰(شرح بن ابی الحدید ج!۴!۷)امام نے علی بن بشیر ہمدانی کے جواب میں لکھا کہ صلح سے میر امقصد تم لوگوں کی جان کو بچانا تھا ۔امام فرماتے ہیں :فنظرت لصلاح الامۃوقطع الفنۃ…ورایت اسالم معاویہ واضع الحرب بینی وبینہ وقد صالحتہ۔(ینابیع المودۃ۲۹۳)۸۔ایک اوراہم وجہ سے امام قیام سے دست بردار ہوکرصلح قبول کرنے پرمجبور ہوئے وہ لشکریوں کی خیانت تھی ، مقدمات جنگ فراہم ہو چکے تھے سپہ سالاروں کا انتخاب ہو چکا تھا ، لیکن سب نے خیانت کی اورمعاویہ کے گروہ میں چلے گئے ، امام نے یہ حالت دیکھ کر فرمایاکہ تم لوگ وہی تو ہو جنھوں نے صفین میں میرے بابا کے اوپر حاکمیت کو تحمیل کیا (انساب الا شراف ج ۲! ۳۹ ) یادوسرے مقام پر مولا فرماتے ہیں کہ اگر میں معاویہ سے جنگ کرونگا تو تم لوگ خودہی میرے ہاتھ باندھ کراس کے حوالے کر دو گے (احتجاج، طبرسی، ج۲!۱۹۰ وبحار، مجلسی، ج۴۴! ۲۰) ان کے علاوہ اوربھی بہت سے موارد ہیں جن کی مددسے یہ ثابت کیاجا سکتا ہے کہ امام حسن کی صلح ایک بصیرت افروزفیصلہ اورمصلحت زمان ومکان کا تقاضا تھی کی شہادت ہزار تک لوگ خداسے داد خواہی کریں کہ ہماراخون کیوں بہایا گیا ۔