امام حسن علیہ السلام نے انسانی معاشرے کوعظیم درس دیا
تہران کے خطیب جمعہ آیت اللہ امامی کاشانی نے نمازکے دوسرے خطبے کے آغازمیں نمازیوں کو تقوائے الہی اختیارکرنے اورگناہوں سے دوررہنے کی نصیحت کی۔
انہوں نے کی مرکزی نمازجمعہ آج آیت اللہ امامی کاشانی کی امامت میں اداکی گئی جس میں روزہ دارنمازیوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔تہران کے خطیب جمعہ نے نمازکے خطبوں کے آغازمیں سبط اکبرفرزندرسول امام حسن مجتبی علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت کی آمد کی مناسبت سے سب کو مبارکباد پیش کی۔آیت اللہ امامی کاشانی نے کہا کہ جب امام حسن علیہ السلام کی ولادت کی خبرپیغمبراسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملی توآپ اس وقت مسجد نبوی میں تھے آپ فورا سیدہ عالمین (س) کے گھر تشریف لائے اور حضرت علی اورحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھما کومبارکباد پیش کی۔اس کے بعد آنحضرت (ص) نے مولود مسعود کے ایک کان میں اذان کہی اوردوسرے کان میں اذان اقامت ۔تہران کے خطیب جمعہ نے اس موقع پرایک روایت نقل کی جو کچھ یوں ہے:کوفہ میں ایک شامی شخص امام علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میں آپ سے سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ اس موقع پر وہاں حضرات حسنین علیھماالسلام اورجناب محمد حنفیہ بھی موجود تھے۔ مولائے کائنات نے فرمایا کہ یہ دونوں یعنی حسن وحسین (ع) رسول اسلام (ع) کے فرزند ہيں اوریہ محمد حنفیہ میری اولاد ہیں تم ان تینوں میں سے جس سے چاہو اپنا سوال پوچھ سکتے ہو۔اس شخص نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی طرف پہلے دیکھا پھر ان سے سوال کیا کہ: حق اور باطل کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟امام حسن علیہ السلام نے جواب دیا کہ حق اورباطل کے درمیان فاصلہ اتنا ہے جتنا کان اور آنکھ کے درمیان ہوتا ہے؛ جو آنکھ سے دیکھو وہ حق ہے اورجو کا ن سے سنو وہ زیادہ ترباطل ہوتا ہے۔امام حسن مجتبی علیہ السلام ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھ رہے تھے جہاں ہمیشہ حق اورباطل پرہی گفتگو ہوتی تھی ۔امام حسن علیہ السلام نے حق وباطل کی تشریح کان اورآنکھ کے فاصلے سے کرکے معاشرے اور مسلمانوں کو بہت بڑادرس دیا ہے۔تہران کے خطیب جمعہ نے کہا کہ اس دورمیں سنی سنائی بات پربہت ہی کچھ ہوجاتا تھا اوربہت سی لڑائیاں اورجھگڑے سنی سنائی باتوں پرہی ہوجاتے تھے اسی لئے مقتضائے حال کے مطابق سبط اکبرنے یہ عظیم درس اخلاق دیا اور امام حسن علیہ السلام کا درس ہمارے آج کے معاشرے کے لئے بھی بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔
آیت اللہ امامی کاشانی نے کہا کہ آج بھی لوگ حق اسی بات کو سمجھتے اورتسلیم کرتے ہیں جو دامن عقل میں سماتی ہے اورجو بات دامن عقل میں نہیں سماتی اسےحق نہیں سمجھا جاتا ۔ یعنی اگرمعاشرہ عقلانی اور منطقی معاشرہ ہوتا ہے تو حق کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے۔تہران کےخطیب جمعہ نے کہا کہ اگرآج لوگ اسلامی انقلاب کے ثمرات کو دیکھیں اوران کو درک کریں تو حق سمجھ میں آجائے گا کہ اس انقلاب نے عالمی سطح پرکتنے اثرات مرتب کئے ہيں۔انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے اس انقلاب کے دشمن بھی زیادہ ہيں چنانچہ ہم کو حقائق پرنظررکھنا چاہئے اوردنیا کوبھی اس بات کی دعوت دینا چاہئے کہ وہ حق کا مطالعہ کرے تاکہ حقائق زیادہ سے زیادہ روشن ہوسکیں ۔انہوں نے کہا کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انقلاب کے ثمرات اوراقدارکوبرآمدکیا جائے۔تہران کے خطیب جمعہ نے تمام اہل قلم حضرات سے کہا کہ وہ اپنے فرائض پرعمل کریں کیونکہ اگر ہم اپنے فرائض پر عمل کریں تو تو گویا ہم نے امام حسن مجتبی علیہ السلام کے اس عظیم درس اخلاق پرعمل کیا ہے کہ “جو اپنی آنکھوں سے دیکھو اسے حق سمجھو”۔تہران کے خطیب جمعہ نے ماہ مبارک رمضان کی فضیلتوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کوچاہئے کہ اس مبارک مہینے کی برکتوں سے بھرپور استفادہ کریں اورلیلۃ القدرکے فضائل سے استفادہ کریں۔انہوں نے کہا کہ صرف قرآن کریم ہی نہيں بلکہ دیگرآسمانی کتابيں بھی ماہ مبارک رمضان میں نازل ہوئی ہیں۔انہوں نے روایتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صحیفۂ ابراہیم (ع) ماہ مبارک کی ابتدائی تاریخوں میں ہی نازل ہوا ہے ، توریت ماہ رمضان کی چھ تاریخ کو نازل ہوئی ہے، انجیل ماہ رمضان کی تیرہ تاریخ کو نازل ہوئی (1) زبوراس مبارک مہینے کی اٹھارہ تاریخ کونازل ہوئی اورقرآن کریم ماہ مبارک رمضان کی شب تیئس کونازل ہوا۔ چنانچہ یہ مہینہ بہت ہی فضیلتوں کا مہینہ ہے اس کے تمام لمحات متبرک ہیں ۔انہوں نے کہا کہ خداوند عالم نے ماہ رمضان کو قمری مہینے میں اس لئے قراردیا کہ تاکہ یہ مہینہ تمام عیسوی اورشمسی مہینوں میں باری باری قرارپائے تاکہ سال کا ہردن اس مبارک مہینے کی برکت سے متبرک ہوجائے لہذا ہم سب کواس مہینے کے معنوی لمحات سے فیضیاب ہونا چاہئے اورخاص طورپرشب قدر کی قدرکرنی چاہئے ، اس شب میں جلوہ الہی کا چشم بصیرت سےمشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔۔تہران کے خطیب جمعہ نے نمازکے خطبے کے آخر میں نمازیوں اورمومنین سے کہاکہ آج چونکہ امام حسن علیہ السلام کی شب ولادت باسعادت ہے اس لئے یتیموں کا خاص خیال رکھيں اوران کے اطعام اورانھيں کھانا کھلانے سے کسی بھی طرح گریزنہ کریں کیونکہ اس کا بہت زیادہ ثواب ہے ۔
مآخذ:1۔ کتاب ” وقایع الایام ” کے مولف کے نقل کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام پر ” انجیل” تین رمضان کو نازل ہوئی(وقايع الايام (شيخ عباس قمي)، ص 22 )ابن کثیر نے 13 رمضان بیان کیا ہے (البدايہ و النہايہ (ابن كثير)، ج3، ص 11) اور ایک روایت کے مطابق 18 رمضان نقل کیا گيا ہے ۔(البدايہ و النہايہ (ابن كثير)، ، ج2، ص 92)