پندرہ رمضان نواسہ رسول حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت

94

سن 3 ھ ق : امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت ۔امام حسن بن علی بن ابیطالب علیہ السلام شیعوں کے دوسرے امام ہیں ۔ آپ پندرہ رمضان سن 3 ھ ق کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانےمیں مدینہ منورہ میں پیدا ہوے۔ (1)آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے نواسے اور پہلے امام اور چوتھے خلیفہ امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام اور سیدۃ نساء العالمین فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کے فرزندہیں ۔امام حسن مجتبی علیہ السلام ایسے گھرانےمیں پیدا ہوے جو وحی اور فرشتوں کے نازل ہونےکی جگہ تھی ۔وہی گھرانا کہ جس کی پاکی کے بارے میں قرآن نے گواھی دی ہے : ” إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہ لِيُذْھبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اھلَ الْبَيْتِ وَيُطَہرَكُمْ تَطْہيرًا ” ۔یعنی: (بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اھل بیت علیہم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے) ۔ (2) اس طرح خدای سبحان نے قرآن کریم میں اس گھرانے کی بار بار تحسین اور تمجید کی ہے ۔امام حسن مجتبی علیہ السلام ، امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب (ع) اور سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زھرا(س) کے پہلے فرزند تھے ۔ اس لۓ آنحضرت کا تولدپیغمبر(ص) انکے اھل بیت اور اس گھرانے کے تمام چاہنے والوں کی خوشیوں کا باعث بنا ۔پیغمبر (ص) نے مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائيں کان میں قامت کہی اور مولود کا نام ” حسن ” رکھا ۔(3)امام حسن مجتبی علیہ السلام کے القاب کئ ہیں ازجملہ : سبط اكبر، سبط اول، طيب، قائم، حجت، تقي، زكي، مجتبي، وزير، اثير، امير، امين، زاھد و برّ مگر سب سے زیادہ مشھور لقب ” مجتبی ” ہے اور شیعہ آنحضرت کو کریم اھل بیت کہتے ہیں ۔آنحضرت کی کنیت ، ابو محمد ہے ۔(4)پیغبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کو بہت چاہتے تھے اور بچپن سے ہی نانا رسولخدا (ص) اور والدامیر المؤمنین علی(ع) اور والدہ سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زھرا (س) کے ملکوتی آگوش میں پروان چڑھے اور ایک انسان کامل اور امام عادل جہان کو عطا کیا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ایک حدیث کےذریعے اپنی نور چشم حسن مجتبی (ع) کی فضیلت یوں بیان فرمائي ہے ۔ فرمایا: البتہ ، حسن میرا فرزند اور بیٹا ہے ، وہ میرا نور چشم ہے ، میرے دل کا سرور اور میرا ثمرہ ہے وہ بہشت کے جوانوں کا سردار ہے اور امت پر خدا کی حجت ہے ۔ اس کا حکم میرا حکم ہے اسکی بات میری بات ہے جس نے اسکی پیروی کی اس نے میری پیروی کی ہے جس نے اس کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی ہے ۔ میں جب اسکی طرف دیکھتا ہوں تومیرے بعد اسے کیسے کمزور کریں گے ، اس یاد میں کھو جاتا ہوں؛ جبکہ یہ اسی حالت میں اپنی زمہ داری نبھا تا رہے گا جب تک کہ اسے ستم و دشمنی سے زھر دے کر شھید کیا جاۓ گا ۔اس وقت آسمان کے ملائک اس پر عزاداری کریں گے ۔اسی طرح زمین کی ھر چیز ازجملہ آسمان کے پرندے ، دریاؤں اور سمندروں کی مچھلیاں اس پر عزادری کریں گے ۔(6)مدارک اور مآخذ:1- الارشاد (شيخ مفيد)، ص 346؛ رمضان در تاريخ (لطف اللہ صافي گلپايگاني)، ص 107؛ منتہي الآمال (شيخ عباس قمي)، ج1، ص 219؛ كشف الغمہ (علي بن عيسي اربلي)، ج2، ص 80؛ تاريخ الطبري، ج2، ص 213؛ البدايہ و النہايہ (ابن كثير)، ج8، ص 372- آيہ تطہير ]سورہ احزاب(33)، آيہ 33[3- بحارالانوار (علامہ مجلسي)، ج43، ص 238؛ كشف الغمہ، ج2، ص 824- منتہي الآمال، ج1، ص 219؛ رمضان در تاريخ، ص 111؛ كشف الغمہ، ج2، ص 865- منتہي الآمال، ج1، ص 220؛ كشف الغمہ، ج2، ص 87؛ البدايہ و النہايہ، ج8، ص 376- بحارالانوار، ج44، ص 148
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.