امام حسين کے قيام اورمقصد شہادت سے متعلق مختلف نظريات
الف:کيا امام حسين کا قيام تشکيل حکومت کيلئے تھا؟بہت سے افراد يہ کہتے ہيں کہ امام حسين ، يزيد کي فاسد حکومت کو ختم کرکے خود ايک حکومت تشکيل دينے کے خواہش مند تھے؛ يہ ہے اِن افراد کي نگاہوں ميں سيد الشہدا کے قيام کا مقصد۔ يہ بات تقريباً آدھي درست ہے ، ميں يہ نہيں کہتا کہ يہ غلط ہے۔ اگر اس نظريے کا مقصد يہ ہے کہ امام حسين نے تشکيل حکومت کيلئے اس طرح قيام کيا کہ اگر وہ ديکھتے کہ انسان اپنے نتيجے تک نہيں پہنچ سکتا تو وہ يہ کہتے کہ ہم حکومت تو نہيں بنا سکے لہٰذا اِس تحريک کو يہيں ختم کرکے واپس لوٹ جاتے ہيں ! يہ بات غلط ہے۔جي ہاں جو بھي حکومت بنانے کي غرض سے قدم اٹھاتا اور اُس کے ليے تحريک چلاتا ہے تو وہاں تک کوشش کرتا ہے کہ جہاں تک يہ کام ممکن اور شدني ہے ليکن جيسے ہي اُسے اُس کام کے نہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے يا وہ عقلي طورپر مقصد تک جانے والي راہوں کو مسدود پاتا ہے تو اُس کي ذمہ داري يہ ہے کہ وہ لوٹ آئے۔ اگر تشکيل حکومت ہي انسان کا مقصد ہے تو وہاں تک کوشش کرنا صحيح ہے کہ جہاں تک پيش رفت کرنا ممکن ہو اور جہاں اقدام کرنے کا امکان ختم ہوجائے تو اُسے لوٹ جانا چاہيے۔ اگر کوئي يہ کہے کہ اپنے قيام سے سيد الشہدا کا مقصد امير المومنين کي مانند ايک حکومت حق کي تشکيل تھي يہ بات درست نہيں ہے، اِس لئے کہ امام حسين کي پوري تحريک اس نظريے کي تائيد نہيں کرتي ۔اِس کے مقابل کچھ افراد کا نظريہ ہے کہ نہيں جناب، حکومت بنانے کا تو سوال ہي پيدا نہيں ہوتا؛ حضرت جانتے تھے کہ وہ حکومت نہيں بناسکتے ہيں، وہ تو کربلا اس ليے آئے تھے کہ قتل ہوں اور درجہ شہادت پر فائز ہوں! ايک زمانے ميں بہت زيادہ افراد اِس نظريے کے حامي اور طرفدارتھے اور بہت سے شعرائ اِس نظريے کو اپني خوبصورت شاعري کے قالب ميں ڈھال کر عوام کيلئے بيان کرتے تھے ۔ بعد ميں مَيں نے ديکھا کہ بعض بڑے علمائ نے بھي اِسي بات کو بيان کيا؛ يعني حضرت امام حسين نے صرف اس ليے قيام کيا تھا کہ وہ شہيد ہوجائيں ليکن درحقيقت يہ کوئي نئي بات اور نيا نظريہ نہيں ہے۔ لہٰذا اِن افراد کے نظريے کے مطابق سالار شہيداں نے يہ کہا کہ” ہمارے زندہ رہنے سے تو کوئي کام نہيں ہوسکتا پس ہم اپني شہادت سے کوئي کام انجام ديتے ہيں‘‘!
ب:کيا امام حسين نے شہادت کيلئے قيام فرماياتھا؟قرآن واہل بيت کي تعليمات ميں ان باتوں کي کوئي سند و اعتبار نہيں ہے کہ ”جاو اور بغير کسي وجہ کے شہيد ہوجاؤ‘‘؛ اسلامي تعليمات ميں ايسي کوئي چيز وجود نہيں رکھتي!ہم شريعت مقدس اور قرآن وروايات ميں جس شہادت کا ذکر پاتے ہيں اُس کا معني يہ ہے کہ انسان ايک واجب يا راجح (عقلي) مقدس ہدف کے حصول کي راہ ميں جدوجہد کرے اور اُس راہ ميں قتل کيا جائے؛ يہ ہے صحيح اسلامي شہادت۔ ليکن اگر انسان صرف اس ليے قدم اٹھائے کہ ميں جاوں اور بغير کسي وجہ کے قتل ہوجاوں يا شاعرانہ اور اديبانہ تعبير کے مطابق ميرے خون کا سيلاب ظالم کو بہاکر لے جائے اور وہ نيست و نابود ہوجائے! يہ تمام چيزيں ، واقعہ کربلا کے عظيم واقعہ سے کسي بھي طرح ميل نہيں کھاتيں۔ صحيح ہے کہ يہ ايک حقيقت ہے کہ امام حسين کي شہادت نے يہ کام انجام ديا ليکن سيد الشہدا کا مقصد يہ نہيں تھا۔المختصر يہ کہ ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ سيد الشہدا نے تشکيل حکومت کيلئے قيام کيا تھا اور اُن کا مقصد حکومت بنانا تھا اور نہ ہي ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ سيد الشہدا نے شہيد ہونے کيلئے قيام کيا تھا بلکہ آپ کا ہدف کوئي اور چيز تھي کہ جسے آپ کي خدمت ميں بيان کرنا چا ہتا ہوں۔
حکومت و شہادت دونتيجے تھے نہ کہ ہدف!ميں تحقيق و مطالعہ سے اِس نتيجے پر پہنچا ہوں کہ وہ لوگ جو اس بات کے معتقد ہيں کہ امام حسين کا ہدف حکومت يا شہادت تھا، اُنہوں نے ہدف اور نتيجے کو آپس ميں ملا ديا ہے، اِن ميں سے کوئي ايک بھي سيد الشہدا کا ہدف نہيں تھا بلکہ ايک دوسري ہي چيز سيد الشہدا کا ہدف تھي۔ پس فرق يہ ہے کہ اُس ہدف کے حصول کيلئے ايک ايسي تحريک و جدوجہد کي ضرورت تھي کہ جس کا اِن دو ميں سے ايک نتيجہ نکلنا تھا، يا حکومت ملتي يا شہادت۔ البتہ يہ بات ضروري ہے کہ سيد الشہدا دونوں نتيجوں کيلئے پہلے سے آمادہ اور تيار تھے؛ اُنہوں نے حکومت کي تشکيل اور شہادت کيلئے مقدمات کو تيار کرليا تھا اور دونوں کيلئے پہلے سے خود کو آمادہ کيا ہوا تھا؛ دونوں ميں سے جو بھي نتيجہ سامنے آتا وہ اُن کي منصوبہ بندي کے مطابق صحيح ہوتا ليکن حکومت و شہادت ميں سے کوئي ايک بھي اُن کا ہدف نہيں تھا بلکہ ايک تيسري ہي چيز اُن کا ہدف تھي۔
ہدف، ايسے عظيم واجب کو انجام دينا تھا کہ جس پر ابھي تک عمل نہيں کيا گيا تھا!سيد الشہدا کا ہدف کيا تھا؟ پہلے اس ہدف کو مختصراً ايک جملے ميں ذکر کروں گا اور اِس کے بعد اِس کي مختصر سي وضاحت کروں گا۔اگر ہم امام حسين کے ہدف کو بيان کرنا چاہتے ہيں تو ہميں اِس طرح کہنا چاہيے کہ اُن کا ہدف واجبات دين ميں سے ايک عظيم ترين واجب کو انجام دينے سے عبارت تھا کہ جس کو سيد الشہدا سے قبل کسي ايک نے ، حتي خود پيغمبر اکرم ۰ ، امير المومنين اور امام حسن مجتبيٰ نے بھي انجام نہيں ديا تھا۔وہ ايسا واجب تھا کہ جو اسلام کے عملي اور فکري نظام ميں بہت زيادہ اہميت کا حامل ہے؛ يہ واجب بہت زيادہ قابل اہميت اوربنيادي حيثيت کا حامل تھا ليکن اِس کے باوجود اُس پر عمل نہيں ہوا تھا ۔ ميں آگے چل کر يہ عرض کروں گا کہ اِس واجب پر ابھي تک عمل کيوں نہيں ہوا تھا، امام حسين کو اِ س واجب پر عمل کرنا چاہيے تھا تاکہ تاريخ ميں سب کيلئے ايک درس رہ جائے۔ جس طرح پيغمبر اکرم ۰ نے حکومت تشکيل دي تو آپ کا حکومت کو تشکيل دينا پوري تاريخ اسلام ميں سب کيلئے درس بن گيا۔ رسول اللہ ۰نے فقط احکام جاري نہيں کيے تھے بلکہ پوري ايک حکومت بنائي تھي يا حضرت ختمي مرتبت ۰ نے جہاد في سبيل اللہ انجام ديا تو يہ تا ابد تاريخ بشريت اور تاريخ اسلام کيلئے ايک درس بن گيا۔ اِسي طرح اِس واجب کو بھي امام حسين کے وسيلے سے انجام پانا چاہيے تھا تاکہ پوري تاريخ کے مسلمانوں کيلئے ايک عملي درس بن سکے۔
امام حسين کے زمانے ميں اِس واجب کو انجام دينے کي راہ ہموار ہوئي!اب سوال يہ ہے کہ امام حسين ہي کيوں اِ س واجب پر عمل کريں؟چونکہ اِس واجب کو انجام دينے کي راہ امام حسين کے دور ميں ہي ہموار ہوئي۔ اگر يہ حالات امام حسين کے زمانے ميں پيش نہيں آتے مثلاً امام علي نقي کے زمانے ميں يہ حالات پيش آتے تو امام علي نقي اِس کام کو انجام ديتے اورتاريخ اسلام ميں عظيم ترين حادثے اور ذبح عظيم کا محور قرار پاتے؛ اگر يہ حالات امام حسن مجتبيٰ يا امام جعفر صادق کے زمانے ميں پيش آتے تو يہ دونوں ہستياں اِسي طرح عمل کرتيں،چونکہ امام حسين سے قبل کسي اور معصوم کے زمانے ميں يہ حالات پيش نہيں آئے تھے لہٰذا کسي معصوم نے اُس پر عمل نہيں کيا تھا اور اسي طرح امام حسين کے بعد بھي زمانہ غيبت تک تمام آئمہ طاہرين کے دور ميں بھي يہ حالات پيش نہيں آئے۔پس سيد الشہدا کا ہدف اِ س عظيم ترين واجب کو انجام دينے سے عبارت ہے، اب ميں اِس کي وضاحت کرتا ہوں کہ يہ واجب کيا ہے ؟ اُس وقت اِس واجب کي ادائيگي خود بخود اِن دو نتيجوں ميں سے کسي ايک تک پہنچتي؛ يا اُس کا نتيجہ يہ نکلتا کہ امام حسين کو قدرت و حکومت حاصل ہوجاتي،سبحان اللہ؛ بہت خوب، اور امام حسين اس کيلئے پہلے سے تيار تھے۔ اگر حکومت کي زمام سيد الشہدا کے ہاتھ ميں آجاتي تو آپ پوري طاقت و قدرت کے ساتھ اُسے اپنے ہاتھ ميں لے ليتے اور اپنے معاشرے کو رسول اکرم ۰ و امير المومنين کے زمانے کي مانند چلاتے ؛ ايک وقت اس واجب پر عمل پير اہونے کا نتيجہ شہادت کي شکل ميں نکلتا تو بھي امام حسين شہادت اور اس کے بعد کے حالات و واقعات کيلئے پہلے سے تيار تھے۔خداوند عالم نے امام حسين سميت ديگر آئمہ معصومين کو اِس طرح خلق فرمايا تھا کہ اِس امر عظيم کيلئے پيش آنے والي اُس خاص قسم کي شہادت کے بار سنگين کو اٹھا سکيں اور اِن ہستيوں نے اِن تمام مصائب و مشکلات کوبرداشت بھي کيا۔ البتہ کربلا ميں مصائب کا پہلو اِس واقعہ کا ايک دوسرا عظيم رخ ہے۔
پيغمبر اکرم ۰ اسلامي احکامات کا مجموعہ لے کر آئےاب ميں چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کو تھوڑي وضاحت کے ساتھ بيان کروں۔ميرے محترم بہن بھائيو! پيغمبر اکرم ۰ يا کوئي رسول جب بھي خدا کي طرف سے آتا ہے تو اسلامي احکامات کا ايک مجموعہ ليکر آتا ہے۔ اِن ميں سے بعض احکامات انفرادي ہوتے ہيں تاکہ انسان اپني اصلاح کرے اور بعض اجتماعي ہوتے ہيں تاکہ دنيائے بشر کو آباد کرے، انسانوں کي صحيح سمت ميں راہنمائي کرے اور انساني معاشرے کو ايک صحيح نظام کے ذريعے قائم رکھے۔ يہ انفرادي و اجتماعي احکامات ايک مجموعے کي شکل ميں ہوتے ہيں کہ جنہيں” اسلامي نظام ‘‘کہا جاتا ہے۔قرآن؛ رسول اکرم ۰ کے قلب مقدس پر نازل ہوا اور حضرت ختمي مرتبت ۰ نماز ، روزہ، زکات، انفاق، حج، گھريلو زندگي کے احکامات، انفرادي رابطے و تعلقات ، جہاد في سبيل اللہ ، تشکيل حکومت، اسلامي معيشت، حاکم اور عوام کا رابطہ اور حکومت کي نسبت عوام کے وظائف کے احکامات لے کر آئے اِن تمام احکامات کو ايک مجموعے کي شکل ميں بشريت کے سامنے پيش کيا اور سب کے سامنے بيان فرمايا۔”مَا مِن شَي ئٍ يُقَرِّبُکُم مِنَ الجَنَّۃِ وَ يُبَاعِدُکُم مِنَ النَّارِ اِلَّا وَقَد نَہَيتُکُم عَنہُ وَ اَمَر تُکُم بِہِ‘‘ ١ ؛”کوئي ايسي چيز نہيں جو تمہيں جنت سے قريب کرے اور جہنم سے دور کرے مگر يہ کہ ميں نے تمہيں اُس کا حکم نہ ديا ہو اور اُس سے منع نہ کيا ہو‘‘ ۔ حضرت ختمي مرتبت ۰ نے اُن تمام چيزوں کو بيان کيا کہ جو انسان اور ايک انساني معاشرے کو سعادت و خوش بختي تک پہنچا سکتي ہيں؛ نہ صرف يہ کہ بيان کيا بلکہ اُن پر عمل بھي کيا اور اُنہيں نافذ بھي کيا۔
اب جب پيغمبر اکرم ۰ کي حيات مبارکہ ميں اسلامي حکومت اور اسلامي معاشرہ تشکيلپاگيا ،اسلامي اقتصاديات کو متعارف و نافذ کرديا گيا، اسلامي جہاد نے اپني جڑيں مضبوط کرکے اسلامي حکومت کو دوام بخشا اور زکات نے معاشرے پر سايہ کرليا اور يوں روئے زمين پر ايک حقيقي اسلامي ملک اور اسلامي نظام حکومت نے جنم ليا۔ اب اِس اسلامي نظام کا مدير اور رسول اکرم ۰ کے چلائے ہوئے کارواں کا رہبرو ہادي وہ ہوگا جو اُن کي جگہ پر بيٹھے گا۔
پيغمبر اسلام ۰کا بتايا ہوا راستہرسول اکرم ۰ کا بتاياہوا راستہ بہت واضح اور روشن ہے لہٰذا اِس معاشرے اور اِس سے تعلق رکھنے والے ہر ہر فرد کو چاہيے کہ اِسي راستے پر قدم اٹھائے ، اِسي راستے پر آگے بڑھے اور اِسي راستے سے اپنے ہدف و مقصد تک پہنچے۔ اگر اسلامي معاشرے کي حرکت اِسي راستے پر اور اسي سمت و سو ميں ہو تو اُس وقت اُس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام انسان اپنے کمال تک پہنچ جائیں گے؛وہ نيک اور فرشتہ صفت انسان بن جائيں گے ،معاشرے سے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوجائے گا ، معاشرے کو برائيوں ، فساد ، اختلافات ، فقر وافلاس اورجہالت کےمنحوس وجود سے نجات مل جائے گي، انسان اپني کامل خوش بختي کو پالے گا اور خدا کامقرب بندہ بن جائے گا۔رسول اکرم ۰ کے ذريعہ اسلام ايک ضابطہ حيات کي حيثيت سے لايا گيا اور اس زمانے کے معاشرے ميں نافذ ہوا ليکن کہاں؟ ايک شہر ميں کہ جسے مدينہ کہا جاتا ہے، اُس کے بعد مکہ اور ديگر چند شہروں ميںاِس اسلامي نظام نے وسعت پائي۔انحراف کي اقساميہاں ايک سوال ذہن ميں اُبھرتا ہے کہ يہ کارواں جسے پيغمبر اکرم ۰ نے اُس کے معين شدہ راستے پرگامزن کيا تھا،اگر کسي حادثے کا شکار ہوجائے اور کوئي اُس کارواں کو اُس کے معين شدہ راستے سے ہٹا دے تو يہاں وظيفہ کيا ہے؟ اگر اسلامي معاشرہ انحراف کا شکار ہوجائے اور يہ بگاڑ اور انحراف اِ س حد تک آگے بڑھ جائے کہ پورے اسلام اور اسلامي تعليمات کو اپني لپيٹ ميں لے لے تو يہاں مسلمانوں کي ذمہ داري کيا ہے؟انحراف کي دو قسميں ہيں؛ ايک انحراف وہ ہے کہ جس ميں لوگ خراب ہوجاتے ہيں، اکثر اوقات ايسا ہي ہوتا ہے ليکن لوگوں کے منحرف ہونے اور بگڑنے سے اسلامي احکامات ختم نہيں ہوتے ۔ دوسري قسم کا انحراف يہ ہے کہ جب لوگ خرابي کا شکار ہوتے ہيں تو حکومتيں بھي خراب ہوجاتي ہيں اور علمائ اور خطبائ ومقررين بھي انحراف کا شکار ہوجاتے ہيں! ايسے منحرف شدہ افراد سے صحيح دين کي توقع نہيں رکھي جاسکتي کيونکہ انحراف کا شکار افراد قرآن اور ديني حقائق ميں تحريف کرتے ہيں، اچھے کو برا، برے کو اچھا، منکر کو معروف اور معروف کو منکر بناکر پيش کرتے ہيں! اسلام کے بتائے ہوئے راستے کو ١٨٠ ڈگري تبديل کر ديتے ہيں! اگر اسلامي معاشرہ اور اسلامي نظام اِس مشکل سے دوچار ہوجائے تو يہاں ذمہ داري کيا ہے؟
شرعي ذمہ داري اوراُس کا حکم موجود تھا مگر عمل کيلئے حالات پيش نہيں آئے تھےپيغمبر اکرم ۰نے اس سلسلے ميں ذمہ داري اور وظيفے کو بيان کرديا ہے اور قرآن نے بھي يہ فرمايا ہے کہ ”مَن يَرتَدَّ مِنکُم عَن دِينِہِ فَسَوفَ يَآتِيَ اللّٰہُ بقَومٍ يُحِبُّھُم و يُحِبُّونَہ‘ ‘‘ 2 ،”تم ميں سے جو بھي اپنےدين سے مرتد ہوجائے تو اللہ ايسي قوم ليکر آئے گا کہ اُس سے محبت کرے گا اور وہ قوم بھي اللہ سے محبت کرےگي‘‘۔ اِ س بارے ميں آيات و روايات بہت زيادہ ہيں ليکن ميں اِسے امام حسين کے قول کي روشني ميں بيان کرناچاہتا ہوں۔امام حسين نے پيغمبر اکرم ۰ کي اِس قول کو لوگوں کے سامنے بيان کيا کہ يہ پيغمبر ۰ نے فرمايا ہے تو کيا خود پيغمبر اکرم ۰ نے بھي اِس حکم الٰہي پر عمل کيا تھا؟ نہيں کيا تھا؛کيونکہ يہ حکم الٰہي اُس وقت قابل عمل ہے کہ جب معاشرہ منحرف ہوچکا ہو، اگرمعاشرہ انحراف کا شکار ہوجائے تو اُس کا علاج کرنا چاہيے اور اُس بارے ميں خداوند عالم نے ايک خاص حکم جاري کيا ہے۔ ايسے معاشروں کيلئے کہ جہاں معاشرتي انحراف و بگاڑ اِس حد تک آگے بڑھ جائے کہ يہ اصل اسلام اور اُس کي تعليمات سے انحراف کا سبب بنے تو اِس مقام پر خداوند عالم نے ايک حکم نازل کيا ہے ؛ خداوند عالم نے انسان کو کسي بھي مسئلے ميں بغير حکم کے نہيں چھوڑا ہے۔حضرت ختمي مرتبت ۰ نے خود اِس حکم خدا کو بيان فرمايا ہے يعني قرآن و حديث نے اِس حکم کو بيان کيا ہے ليکن پيغمبر ۰ خود اِس حکم پر عمل درآمد نہيں کرسکے!آخر کيا وجوہات تھيں کہ پيغمبر ۰نے خود جس حکم کوبيان فرمايا خود اُس پر عمل نہيں کرسکے ؟ وجہ يہ ہے کہ ِاس حکم الٰہي پر اُس وقت عمل کيا جاتا ہے کہ جب معاشرہ منحرف ہو جائے۔ رسول اکرم ۰ کے عہد رسالت اورامير المومنين کے عہد ولايت و امامت ميں مسلمان معاشرہ اتنا نہيں بگڑا تھا کہ اِس حکم پر عمل کرنے کي نوبت آئے۔ اِسي طرح امام حسن کے دورميں بھي کہ جب ظاہريحکومت، معاويہ کے ہاتھ ميں تھي اور اِس اجتماعي انحراف کي بہت سے نشانياں ظہور پذير ہوگئي تھيں ليکن اِس کے باوجود اِس مرحلے تک نہيں پہنچي تھيں کہ جہاں پورے اسلام کي نابودي کا خطرہ پيش آتا۔يہ کہا جاسکتا ہے کہ ايک خاص زمانے ميں ايسي کوئي صورتحال پيش آئي ہو ليکن اُس وقت اِس حکم الٰہي پر عمل کرنے کي فرصت نہ ملي ہو يا موقع مناسب نہ ہو۔ يہ حکم الٰہي جو اسلامي احکامات کا ايک جزئ ہے اور اِس کي اہميت خود حکومت سے کسي بھي طرح کم نہيں ہے؛ اِس ليے کہ حکومت کا مطلب ہے معاشرے کي مديريت۔ اگر معاشرہبتدريج اپني راہ سے خارج ہوکر خرابي کا شکار ہوجائے اور حکم خدا تبديل ہوجائے اور ہمارے پاس اِس خراب حالت کو بدلنے کيلئے کوئي حکم اور منصوبہ بندي موجود نہ ہو تو ايسي حکومت کا کيا فائدہ؟!
منحرف معاشرے کو اُس کي اصلي راہ پر پلٹانے کے حکم کي اہميتپس معلوم ہوا کہ منحرف معاشرے کو اُس کي اصلي راہ پر پلٹانے کے حکم کي اہميت خود حکومت کے حکم ا ور اُس کي اہميت سے کسي بھي طرح کم نہيں ہے ۔ شايديہ بھي کہا جاسکتا ہے کہ اِس حکم کي اہميت خود کفار سے جہا د کرنے سے بھي زيادہ ہے؛يہ بھي کہنا ممکن ہے کہ اِس حکم کي اہميت ايک اسلامي معاشرے ميں ايک معمولي قسم کے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر سے بھي زيادہ ہے؛ حتي ہم يہ بھي کہہ سکتے ہيں کہ شايدمنحرف معاشرے کو اُس کے راستے پر پلٹانے کا حکم خداوند عالم کي طرف سے عظيم فرائض اور واجبات اور حج سے بھي زيادہ ہے۔ليکن سوال يہ ہے کہ اِس حکم کي اہميت کيوں زيادہ ہے؟ جواب يہ ہے کہ درحقيقت يہ حکم اسلام کو کہ جب وہ فنا کے قريب ہو يا ختم ہوگيا ہو، زندہ کرنے کا ضامن ہے۔اب يہاں ايک سوال اور ابھرتا ہے کہ کون ہے جو اِس اہم ترين حکم پر عمل کرے؟ اس عظيم حکم پر نبي اکرم ۰ کا کوئي جانشين ہي عمل کرسکتا ہے اور وہ ايسے زمانے ميں موجود ہو کہ معاشرہ اِس انحراف کا شکار ہوگيا ہو؛ البتہ اِس کي ايک بنيادي شرط يہ ہے کہ اِس حکم پر عمل درآمد کيلئے حالات مناسب ہوں؛ اِس ليے کہ خداوند عالم کسي ايسے عمل کو واجب نہيں کرتا کہ جس کا کوئي فائدہ نہ ہو۔ لہٰذا اگر حالات نامناسب ہوں اوريہ جانشين نبي ۰ کتني ہي محنت کيوں نہ کرے تو اُس کے عمل اور جدوجہد کا کوئي نتيجہ نہيں نکلے گا لہٰذا عمل درآمد کرنے کيلئے حالات کو مناسب و موزوں ہونا چاہيے۔اِس بات کي طرف بھي توجہ ضروري ہے کہ حالات کے مناسب ہونے کا معني کچھ اور ہے؛ نہ يہ کہ ہم يہ کہيں کہ چونکہ اِس حکم کو عملي جامہ پہنانے کي راہ ميں خطرات موجود ہيں لہٰذا حالات سازگار نہيں ہيں ! حالات کے سازگار ہونے کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے ۔ حالات و شرائط کو مناسب ہونا چاہيے يعني انسان يہ جانے کہ اگر اُس نے عمل کو انجام ديا تو اِس کا ايک نتيجہ ظاہر ہوگا، يعني لوگوں تک پيغام پہنچ جائے گا، عوام اِس نتيجے سے حقيقت کو سمجھيں گے اور شک و ترديد کے تمام سياہ بادل اُن کے سامنے سے ہٹ کر حقيقت کا اُفق اُن کيلئے روشن و صاف ہوجائے گا۔
امام حسين کے زمانے ميں انحراف بھي تھااور حالات بھي مناسب تھے!حضرت سيد الشہدا کے زمانے ميں يہ انحراف وجود ميں آچکا تھا اور اِس انحراف کو ختم کرنے کے حکم الٰہي پر عمل درآمد کيلئے حالات بھي مناسب تھے۔ پس اِن حالات ميں امام حسين کو قيام کرنا چاہيے تھا کيونکہ انحرافات اور بدعتوں نے اسلامي معاشرے کو مکمل طورسے اپني لپيٹ ميں لے ليا تھا۔ وہ مناسب حالات يہ ہيں کہ معاويہ کے بعد ايسا شخص حکومت کا مالک بن بيٹھا ہے (يا جسے پہلے سے تيار شدہ ايک جامع منصوبہ بندي کے تحت ولي عہد بنايا گيا تھا تاکہ اسلام کو نابود کرنے کے بنو اُميہ کے ديرينہ منصوبے پر عمل درآمد کيا جاسکے) جو اسلام کے ظاہري احکام و آداب کي ذرّہ برابر بھي رعايت نہيں کرتا ہے! وہ اايسا ( خودساختہ) خليفہ مسلمين ہے جو شراب پيتا ہے اور اسلامي شريعت کي کھلم کھلا مخالفت اُس کا وطيرہ ہے ، جنسي گناہوں ، ديگر برائيوں اورقبيح ترين اعمال کا علي الاعلان ارتکاب اُس کا شيوہ ہے ، قرآن کے خلاف باتيں کرنا اُس کي عادت ہے، وہ قرآن کي مخالفت اور دين کي تحقير و اہانت کيلئے اشعار باطلہ سے اپني محفل کو زينت ديتا ہے؛ خلاصہ يہ کہ وہ اسلام کا کھلا ہوا دشمن ہے!چونکہ وہ نام کا خليفہ مسلمين ہے لہٰذا وہ اسلام کے نام کو مکمل طور سے ختم نہيں کرنا چاہتا ۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ نہ اسلام کا پيروکار ہے، نہ اُسے اسلام سے کوئي دلچسپي ہے اور نہ ہي اُس کا دل اسلام کيلئے دھڑکتا ہے بلکہ اپنے عمل ميں اُس چشمے کي مانند ہے کہ جس سے مسلسل گند گي اور بدبو دار پاني اُبل اُبل کر پوري وادي کو خراب و بدبودار کررہا ہے اور اپنے وجود کے گندے اور بدبودار اعمال سے پورے اسلامي معاشرے کي فضا کو متعفّن و آلودہ کررہا ہے! ايک برا اور فاسد حاکم ايسا ہي ہوتا ہے ۔ چونکہ حاکم، معاشرے ميں سب سے اونچے اور بلند ترين منصب کا حامل ہوتا ہے بالکل ايک بلند ترين چوٹي کي مانند، لہٰذا اُس سے جو بھي عمل صادر ہوگا اُس کے اثرات صرف اُسي چوٹي تک ہي محدود نہيں رہيں گے بلکہ اُس سے نيچے آکر اطراف کے علاقے کو اپني لپيٹ ميں لے ليں گے جبکہ عام عوام و افراد کا عمل اِس خاصيت کا حامل نہيں ہوتا ہے۔عام افراد کا عمل صرف اُنہي کي چار ديواري اور ذات کے دائرے کے اندر رہتا ہے؛ ليکن جس کا مرتبہ و منصب جتنا بلند ہو اور وہ معاشرے ميں جتنے بڑے درجے کا مالک ہو اُس کي برائيوں کا نقصان بھي اُسي نسبت سے زيادہ ہوتا ہے۔ عام آدميوں کي برائياں اور غلطياں ممکن ہے کہ صرف اُنہي کيلئے يا اُن کے اطراف ميں موجود چند افراد کيلئے نقصان دہ ہوں ليکن جو کسي بڑے عہدے اور درجے کا مالک ہے اگر برائيوں اور غلطيوں کا ارتکاب کرنے لگے تو اُس کے اعمال کے برے اثرات اطراف ميں پھيل کر پورے معاشرتي ماحول کو آلودہ کرديں گے۔ اِسي طرح اگر معاشرے ميں کسي اعليٰ منصب و مرتبے پر فائز ہونے والا شخص نيک ہوجائے تو اُس کے نيک اعمال کے اثرات اور خوشبو پورے معاشرے کو اپني لپيٹ ميں ليکر ماحول و فضا کو معطر کردے گي۔معاويہ کے بعدايک ايسا ہي شخص منبر رسول ۰ پر بيٹھ کر خليفہ مسلمين بن گيا ہے اور اپنے آپ کو جانشين پيغمبر ۰ کہتا ہے ! کيا اِس سے بڑھ کر بھي کوئي انحراف ہوگا؟! اب اِس حکم الٰہي پر عمل درآمد کرنے کے حالات و شرايط مہيا ہوگئے ہيں۔ حالات مناسب و سازگار ہيں، اِس کا مطلب کيا ہے؟ کيا اِس کا مطلب يہ ہے کہ اِس راہ ميں کوئي خطرہ موجود نہيں ہے؟ کيوں نہيں، خطرہ موجود ہے۔ کيا يہ بات ممکن ہے کہ کسي اقتدار کا مالک اپنے مقابلے پر آنے والوں کيلئے خطرناک ثابت نہ ہو؟! يہ تو کھلي جنگ ہے؛ آپ چاہتے ہيں کہ اُس کا تخت و تاج اور اقتدار چھين ليں او ر وہ بيٹھ کر صرف تماشا ديکھے! واضح سي بات ہے کہ وہ بھي پلٹ کر آپ پر حملہ کرے گا، پس خطرہ ہر حال ميں موجود ہے۔
سب آئمہ کا مقام امامت برابر ہے!يہ جو ہم کہتے ہيں کہ حالات مناسب ہيں تو اِس کا مطلب يہ ہے کہ اسلامي معاشرے کا ماحول اور سياسي و اجتماعي حالات ايسے ہيں کہ ممکن ہے کہ اِس زمانے ميں اور پوري تاريخ ميں انسانوں تک امام حسين کا پيغام پہنچ جائے۔ اگر معاويہ کے دور حکومت ميں امام حسين قيام کرتے تو اُن کا پيغام دفن ہو جاتا۔ وجہ يہ ہے کہ معاويہ کے دور حکومت ميں (اجتماعي و ثقافتي) حالات اور سياست ايسي تھي کہ لوگ حق بات کو نہيں سن سکتے تھے (يا اُن ميں حق و باطل ميں تشخيص کي صلاحيت نہيں تھي)! يہي وجہ ہے کہ امام حسين معاويہ کي خلافت کے زمانے ميں دس سال امام رہے ليکن آپ کچھ نہيں بولے اور کسي قيام و اقدام کيلئے کوئي کام انجام نہيں ديا چونکہ حالات مناسب نہيں تھے۔
امام حسين سے قبل امام حسن امام وقت تھے، اُنہوں نے بھي قيام نہيں کيا چونکہ اُن کے زمانے ميں بھي اِس کام کيلئے حالات غير مناسب تھے؛ نہ يہ کہ امام حسن و امام حسين ميں کا م کو انجام دينے کي صلاحيت و قدرت نہيں تھي۔ امام حسن و امام حسين ميں کوئي فرق نہيں ہے، اِسي طرح امام حسين اور امام سجاد اور امام علي نقي و امام حسن عسکري ميں بھي کوئي فرق نہيں ہے! صحيح ہے کہ سيد الشہدا نے چونکہ قيام کيا ہے لہٰذا اُن کا قيام و منزلت اُن آئمہ سے زيادہ ہے کہ جنہوں نے قيام نہيں کيا، ليکن مقام امامت کے لحاظ سے سب آئمہ برابر ہيں۔ آئمہ ميں اگرکسي ايک کيلئے بھي کربلاجيسے کے حالات پيش آتے تو وہ قيام کرتے اور اُسي مقام پر فائز ہوتے۔
وظيفے کي ادائيگي ہميشہ خطرے کے ساتھ ہے!اب امام حسين انحراف و بدعت کے طوفان کے سامنے کھڑے ہيں پس انہيں اپنے وظيفے پر عمل کرنا چاہیے؛ حالات بھي مناسب ہيںلہٰذا اب کسي عذر کي گنجائش نہيںہے۔ يہي وجہ ہے کہ عبداللہ ابن جعفر ، محمد ابن حنفيہ۱ اور عبداللہ ابن عباس ۱ جيسي خاص، دين شناس ، عارف ، عالم، فہم وادراک رکھنے والي شخصيات نے امام حسين سے کہا کہ” اے مولا! اِس راہ ميں خطرات ہيں، آپ نہ جائيے۔‘‘ يعني وہ يہ کہنا چاہتے تھے کہ جب وظيفے کي انجام دہي ميں خطرات ہوں تو وظيفے کي ادائيگي واجب نہيں ہوتي۔ يہ لوگ اِس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ يہ وظيفہ کوئي ايسا وظيفہ نہيں ہے کہ جو خطرات کي موجودگي ميں ساقط ہوجائے گا! 3اِس وظيفے کي ادائيگي ہميشہ خطرات کے درميان گھري ہوئي ہے۔ کيا يہ بات ممکن ہے کہ انسان ايک بہت بڑے اقتدار اور ايک انتہائي مضبوط قسم کے نظام کے خلاف قيام کرے اور اُسے کسي قسم کے خطرات کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ اِس واجب پر عمل پيرا ہونے کا مطلب يہ ہے کہ انسان خطرات کو دعوت دے رہا ہے ۔ يہ وہي واجب ہے کہ جسے حضرت امام خميني۲ نے انجام ديا؛ اِن کو بھي يہي کہا جاتا تھا کہ آغا! آپ تو شاہ ايران سے ٹکر لے رہے ہيں،آپ خطرات ميں گھر جائيں گے ۔کيا امام خميني۲ نہيں جانتے تھے کہ اِس راہ ميں خطرات ہيں؟ کيا امام خميني۲ اس بات سے بے خبر تھے کہ شاہ ايران کي خفيہ ايجنسي جب کسي کو گرفتار کرتي ہے تو اُسے شکنجہ و اذيت ديتي ہے ، اُسے قتل کرتي ہے ، اُس گرفتار ہونے والے انسان کے دوستوں کو موت کے گھاٹ اتار ديتي ہے اور اُنہيں جِلا وطن کرديتي ہے؟! کيا امام خميني۲ يہ سب نہيں جانتے تھے؟!وہ کام جو امام حسين کے زمانے ميں انجام پايا، اُس کي ايک چھوٹي سي مثال ہمارے زمانے ميں امام خميني۲ کے ذريعے سے سامنے آئي۔ فرق يہ ہے کہ اُس قيام کا نتيجہ شہادت کي صورت ميں سامنے آيا اور امام خميني۲ کے جہاد و قيام کا نتيجہ حکومت کي صورت ميں نکلا؛ يہ وہي کام ہے اور اس ميں کوئي فرق نہيں ہے۔ امام حسين اور امام خميني۲ کا ہدف، ايک ہي تھا۔ يہي مطلب، امام حسين کي تعليمات کي اساس و جان ہے اور امام حسين کي تعليمات ، شيعہ مذہب کي تعليمات کا ايک بڑا حصہ ہيں؛ سيد الشہدا کي تعليمات مضبوط و محکم بنياد ہیں اوراسلام کي بنيادوں سے تعلق رکھتي ہيں۔
اسلامي معاشرے کو صحيح راہ پر لوٹانا، ہدف ہے!پس ہدف يہ ہے کہ اسلامي معاشرے کو اُس کے صحيح راستے کي طرف لوٹايا جائے ، مگر کون سے زمانے ميں؟ اُس وقت کہ جب اسلام کا راستہ تبديل کرديا گيا ہو اور خاص اورصاحب اثر و نفوذ افراد کي جہالت، ظلم و استبداد اور خيانت، مسلمانوں کو منحرف کردے اورقيام کي شرائط پوري ہوگئي ہوں۔البتہ تاريخ کے مختلف ادوار ميں مختلف زمانے آتے ہيں ،ايک وہ زمانہ ہے کہ جب شرائط پوري ہوں اور ايک وہ زمانہ ہے کہ جب حالات مناسب ہوں۔ امام حسين کے دور ميں بھي حالات اور شرائط مناسب تھے اور ہمارے زمانے ميں بھي۔ امام خميني۲ نے بھي وہي کام انجام ديا کہ جو امام حسين نے انجام ديا تھا کيونکہ دونوں کا ہدف ايک ہي تھا۔جب ايک انسان ايک ہدف کے حصول کيلے قدم اٹھاتا ہے اور چاہتا ہے کہ ايک ظالم حکومت اور باطل کے خلاف قيام کرے؛ کيونکہ وہ چاہتا ہے کہ اسلام، اسلامي معاشرے اور اسلامي نظام کو اُس کے صحيح راستے پر لوٹا دے تو ايک وقت ايسا ہوتا ہے کہ جب وہ قيام کرتا ہے تو اُسے حکومت مل جاتي ہے، يہ اِس قيام کي ايک صورت ہے کہ جو الحمدللہ ہمارے زمانے ميں سامنے آئي۔ ايک وقت وہ ہے کہ جب وہ قيام کرتا ہے تو وہ حکومت تک نہيں پہنچتا ليکن درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے۔کيا اِس دوسري صورت ميں اِس وظيفے پر عمل کرنا واجب نہيں ہے؟ کيوں نہيں؛واجب ہے، گرچہ وہ شہيد ہي کيوں نہ ہوجائے۔ يہاں ايک اور سوال پيش آتا ہے کہ کيا اِس صورت ميں کہ جب وہ اپنے وظيفے کي ادائيگي ميں درجہ شہادت کو پالے تو اُس کے قيام کا کيا فائدہ ہے؟ جواب يہ ہے کہ کوئي فرق نہيں پڑتا؛ اِس قيام اور اِس حکومت کي دونوں صورتوں ميں اُس کے قيام کا فائدہ ہے، خواہ وہ درجہ شہادت پر فائز ہو يااُسے حکومت ملے۔ فرق يہ ہے کہ دونوں کا فائدہ الگ الگ ہے ليکن ہر صورت ميں قيام کرنا اور قدم اٹھانا چاہيے۔
سيد الشہدا نے پہلي بار يہ قدم اٹھايايہ وہ کام تھا کہ جسے سيد الشہدا نے انجام ديا اور آپ ٴ وہ پہلي شخصيت تھے کہ جس نے پہلي بار يہ قدم اٹھايا۔ آپ سے قبل يہ کام انجام نہيں ديا گيا تھا کيونکہ زمانہ رسالت ميں نہ يہ بدعتيں تھيں اور نہ امير المومنين کے دور امامت ميں يہ انحرافات وجود ميں آئے تھے يا اگر کچھ مقامات ميں انحرافات تھے بھي تو اُن کے خلاف قيام کي شرائط پوري نہيں تھيں اور نہ ہي حالات مناسب تھے۔ليکن امام حسين کے دور امامت ميں يہ دونوں چيزيں موجود تھيں۔ تحريک حسيني کي حقيقت يہي جاندار نکتہ ہے۔پس ہم اِس طرح خلاصہ کرسکتے ہيں کہ امام حسين نے اِس ليے قيام کيا کہ اُس عظيم واجب کو انجام دے سکيں جو اسلامي نظام اور اسلامي معاشرے کو ازسر نو تعمير کرنے يا اسلامي معاشرے ميں انحرافات کے مقابلے ميں قيام کرنے سے عبارت ہے۔ يہ عظيم کام؛ قيام اور امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کے ذريعہ ممکن ہے بلکہ انحرفات کا راستہ روکنا خود امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کا زندہ مصداق ہے۔ البتہ يہ کام کبھي حکومت و اقتدار پر اختتام پذير ہوتا ہے کہ امام حسين اِس کيلئے تيار تھے اور کبھي انسان کو درجہ شہادت تک پہنچا ديتا ہے اور سيد الشہدا نے خود کو اِس کيلئے بھي آمادہ کيا ہوا تھا۔
حکومت يزيد سے اسلام کو زبردست خطرہ ہےہم کس دليل کي بنا پر يہ بات کہہ رہے ہيں ؟ ہم نے اِن تمام باتوں کو خود سيد الشہدا کے کلمات سے اخذ کيا ہے۔ ہم نے امام حسين کے کلمات و ارشادات ميں سے چند عبارتوں کا انتخاب کيا ہے۔جب مدينے ميں وہاں کے حاکم وليدنے حضرت ٴ کو اپنے پاس بلاکر کہا کہ ”معاويہ کا انتقال ہوگيا ہے اور آپ کو (نئے خليفہ کي) بيعت کرني چاہيے‘‘۔ حضرت سيد الشہدا نے اُسے جواب ديا : ”نَنظُرُ وَ تَنظُرُونَ اَيُّنَا اَحَقُّ بِالبَيعَۃِ وَ الخِلَافَۃِ ‘‘ 4 ۔ آپ نے فرمايا کہ” صبح تک انتظار کرو ، ہم فکر کرتے ہيں کہ ہم (حسين اور يزيد )ميں سے کون خلافت اور بيعت کے لئے شائستہ ہے‘‘!اگلے دن مروان نے جب امام حسين کو ديکھا تو کہنے لگا: ”اے ابا عبداللہ، آپ اپنے آپ کو ہلاکت ميں کيوں ڈال رہے ہيں! خليفہ وقت سے آکر بيعت کيوں نہيں کرليتے؟ آپ اپني موت کا سامان تيار نہ کريں!‘‘ سيد الشہدا نے اُس کے جواب ميں يہ جملہ ارشاد فرمايا: ”اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَيہِ رَاجِعُونَ وَ عَلَي الاِسلَامِ السَّلَامُ، اِذ قَد بُلِيَتِ الاُمَّۃُ بِرَاعٍ مِثلَ يَزِيد ‘‘ ، ”ہم اللہ کي طرف سے آئے ہيں اور ہميں لوٹ کر اُسي کي ہي طرف جانا ہے، جب يزيد جيسا شخص امت مسلمہ کا خليفہ بن جائے تو اسلام کو خدا حافظ کہہ دينا چاہيے‘‘، يعني اسلام پر فاتحہ پڑھ ليني چاہيے کہ جب يزيد جيسا (فاسق و فاجر) شخص اقتدار کو سنبھال لے اور اسلام يزيديت جيسي موذي بيماري ميں مبتلا ہوجائے! يہاں يزيد کي ذات کا مسئلہ نہيں ہے بلکہ جو بھي يزيد جيسا ہو ٢ ۔ حضرت سيد الشہدا يہ کہنا چاہتے ہيں کہ پيغمبر اکرم ۰کے بعد سے ليکر اب تک جو ہوا وہ سب قابل تحمل تھا ليکن اب خود اصل دين اور اسلامي نظام (اور اُس کي بنياديں) نشانے پر ہيں اور يزيد جيسے کسي بھي شخص کي حکومت کرنے سے اسلام نابود ہوجائے گا۔يہي وجہ ہے کہ اس انحراف کا خطرہ بہت زيادہ ہے کيونکہ يہاں خود اسلام خطرے ميں ہے۔٢ امام حسين نے يہ نہيں فرمايا کہ جب صرف ٦١ ہجري کا يزيد مسلمانوں پر مسلط ہوجائے بلکہ آپ نے فرمايا کہ مثل يزيد، يعني يزيد جيسا کوئي بھي شخص خواہ وہ ٦١ ہجري يزيد ہو يا کسي بھي زمانے کا ظالم و ستمگر ۔واقعہ کربلا ميں يزيد کي ذات سے نہيں بلکہ يزيدي فکر اور يزيديت سے جنگ تھي۔ (مترجم)حضرت سيد الشہدا نے مدينہ سے اور اِسي طرح مکہ سے اپني روانگي کے وقت محمد ابن حنفيہ سے گفتگو کي ہے۔ مجھے ايسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ٴکي يہ وصيت مکہ سے آپ کي روانگي کے وقت کي ہے۔ ماہ ذي الحجہ ميں محمد ابن حنفيہ بھي مکہ آچکے تھے اور انہوں نے کئي مرتبہ امام حسين سے گفتگو کي ہے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں حضرت ٴنے اپنے بھائي کو اپني تحرير وصيت کے عنوان سے دي۔
ميرے قيام کا مقصد، امت محمدي ۰ کي اصلاح ہےامام حسين خدا کي وحدانيت کي گواہي دينے اور مختلف امور کو بيان کرنے کے بعد تحرير فرماتے ہيں کہ ”وَاِنِّي لَم اَخرُج اَشِرًا وَّلَا بَطَراً وَّلَا مُفسِدًا وَّلَا ظَالِماً ‘‘ 5 يعني آپ فرماتے ہيں کہ لوگ غلطي کا شکار نہ ہوں اور دشمن کي پروپيگنڈا مشينري اُنہيں دھوکہ نہ دے کہ امام حسين بھي دوسروں کي مانند ہيں کہ جو مختلف جگہوں پر خروج کرتے ہيں، صرف اِس لئے کہ اقتدار کواپنے ہاتھ ميں ليں، اپني خودنمائي، عياشي اور ظلم و فساد برپا کرنے کيلئے ميدان جنگ ميں قدم رکھتے ہيں؛ آپ فرماتے ہيں کہ ہمارا ايسا کوئي ارادہ نہيں ہے بلکہ ”وَ اِنَّمَا خَرَجتُ لِطَلَبِ الاِصلَاحِ فِي اُمَّۃِ جَدِّي ‘‘6 ،”ميں صرف اور صرف اپنے جد محمد ۰ کي امت کي اصلاح کيلئے ميدان عمل ميں آيا ہوں)۔ ميں فقط اصلاح کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ يہ وہ واجب ہے کہ جو امام حسين سے قبل انجام نہيں ديا گيا تھا۔يہ اصلاح ، ”خروج‘‘ کے ذريعے انجام پائے گي؛ خروج يعني قيام اور امام حسين نے اِس نکتے کو اپني اِس وصيت ميں تحرير فرمايا ہے اور صراحت کے ساتھ اِس معني کو بيان کيا ہے۔ يعني اولاً وہ قيام کرنا چاہتے ہيں اور يہ قيام اِس ليے ہے کہ ہم ”اصلاح‘‘ کے طالب ہيں ، نہ يہ کہ حتماً حکومت و اقتدار ہمارے ہاتھ آجائے اور نہ اِس ليے کہ ہم جاکر صرف شہيد ہونا چاہتے ہيں، نہيں ! ہمارا ہدف صرف اصلاحِ امت ہے۔ البتہ يہ بات بھي قابل توجہ ہے کہ اصلاح کا کام کوئي معمولي نوعيت کا کام نہيں ہے۔ اِسي اصلاح کے دوران کبھي حالات ايسے پيش آتے ہيں کہ انسان حکومت تک پہنچتا ہے اور زمام قدرت کواپنے ہاتھ ميں لے ليتا ہے اور کبھي ايسا ہوتا ہے وہ يہ کام نہيں کرسکتا بلکہ يہ کام غير ممکن ہوجاتاہے اور وہ درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے ليکن دونوں صورتوں ميں اُس کا قيام اصلاح کے عمل کيلئے ہوتاہے۔اِس کے بعد امام حسين فرماتے ہيں کہ” اُرِيدُ اَن آمُرَ بِالمَعرُوفِ وَاَنہٰي عَنِ المُنکَرِ وَاُسِيرُ بِسِيرَۃِ جَدِّ وَ اَبِ ‘‘ 7 ۔”ميں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف کروں اور نہي عن المنکر انجام دں اور ميں اپنے نانا اور بابا کي سيرت پر قدم اٹھانا چاہتا ہوں‘‘۔ اصلاح کا ايک مصداق امر بالمعروف اور نہي عن المنکر ہے۔سيد الشہدا نے مکے ميں دو گروہوں کو خط لکھے ، ايک بصرہ کي اہم شخصيات کو اور دوسرا کوفہ کے اہم افراد کو۔ بصرہ کي اہم شخصيات کے نام جو آپ نے خط لکھا ہے اُس ميں اِ س طرح تحرير فرمايا ہے: ” وقَد بَعَثَ رَسُولِي اِلَيکُم بِھٰذَا الکِتَابِ وَاَنَا اَدعُوکُم اِلٰے کِتَابِ اللّٰہِ و سُنَّۃِ نَبِيِّہِ فَاِنَّ سَنَّۃَ قَد اُمِيتَت وَالبِدعَدَّ اُوحِيَت فَاِن تَسمَعُوا قَولِي اَھدِيکُم اِلٰي سَبِيلِ الرِّشَادِ ‘‘۔”ميرا نمائندہ ميرے خط کے ساتھ تمہارے پاس آيا ہے اور ميں تم لوگوں کو کتاب خدا اور اُس کے رسول ۰ کي سنت کي طرف دعوت ديتا ہوں۔ بے شک سنتِ رسول ۰کو زندہ درگور کرديا گيا ہے اور زمانہ جاہليت کي بدعتوں و خرافات کو زندہ کرديا گيا ہے، اگر تم ميري پيروي کرو تو ميں تم کو راہِ راست کي ہدايت کروں گا۔‘‘ يعني ميں بدعتوں کو ختم کرنا اور سنتِ رسول ۰ کا احيائ چاہتا ہوں کيونکہ حاکمان وقت نے سنت کو مردہ اور بدعتوں کو زندہ کرديا ہے۔ اگر تم لوگ ميري بات مانو اور ميرے پيچھے قدم اٹھاو تو جان لو کہ ہدايت کا راستہ صرف ميرے پاس ہے، ميں ايک بہت بڑا فريضہ انجام دينا چاہتا ہوں کہ جو اسلام، سنتِ رسول ۰ اور اسلامي نظام کے احيائ سے عبارت ہے۔
اسلامي حاکم ، معاشرے ميں کتاب خدا کو نافذ کرےاہل کوفہ کے نام آپ نے اپنے مکتوب ميں تحرير فرمايا:” فلعمرِ ما الاِمَامُ اِلَّا الحَاکِمُ بِاالکِتَابِ وَالقَآئِمُ بِالقِسطِ الدَّآئِنُ بِدِينِ الحَقَّ وَالحَابِسُ نَفسِہ عَلٰے ذَالِکَ لِلّٰہِ والسَّلَام‘‘8 ، ”امام فقط وہي ہے جو صرف کتاب الٰہي کے مطابق حکومت کرے، عدل و انصاف کو قائم کرے، ملک و معاشرے اور قانونکي حق کي طرف راہنمائي کرے اور صراطِ مستقيم پر ہر طرح سے اپني حفاظت کرے‘‘۔ امام وپيشوا اور اسلامي معاشرے کا سربراہ اور حاکم ، اہل فسق و فجور، خائن، فسادي ، قبيح اعمال کاارتکاب کرنے والا شخص اور خدا سے دوري اختيار کرنے والا فرد نہيں ہوسکتا ہے ۔ اسلامي معاشرے کا حاکم اُسے ہونا چاہيے کہ جو کتاب خدا کے مطابق فيصلہ کرے، کتابِ الٰہي پر عمل پيرا ہو، معاشرے ميں اپني اجتماعي ذمہ داريوں اور فرائض سے کنارہ کشي اختيار نہ کرے؛ نہ يہ کہ ايک کمرے ميں بيٹھ کر تنہائي ميں عبادت خدا بجالائے؛ اسلامي حاکم کو چاہيے کہ معاشرے ميں کتاب خدا کو زندہ کرے، عدل وانصاف کا بول بالا کرے اور ”حق‘‘ کو معاشرے کا قانون قرار دے نہ کہ نفساني خواہشات اور شخصي رائے کو۔”الدَّائِنُ بِدِينِ الحَقِّ ‘‘ يعني اسلامي حاکم کو چاہيے کہ معاشرے کا قانون اور اُس کا راستہ صرف حق کے مطابق متعين کرے اور باطل افکار و نظريات اور شخصي رائے کو ترک کردے۔ ”والحَابِسُ نَفسِہِ عَلٰے ذَالِکَ لِلّٰہِ‘‘ اِس جملے کا ظاہري معني يہ ہے کہ خدا کہ راستے ميں جس طرح بھي ہو اپني حفاظت کرے اور شيطاني اور مادّي جلووں اور رنگينيوں کا اسير نہ ہو۔
پيغمبر ۰ نے ذمہ داري مشخص کردي ہےسيد الشہدا جب مکے سے باہر تشريف لے گئے تو راستے ميں آپ نے مختلف مقامات پر مختلف انداز سے گفتگو فرمائي ۔ ”بيضہ‘‘ نامي منزل پر، کہ جب حُرّ ابن يزيد رياحي کا لشکر آپ کے ساتھ ساتھ تھا، اُترنے کے بعد شايد آپ نے استراحت کرنے سے قبل يا تھوڑي استراحت کے بعد کھڑے ہو کر دشمن کے لشکر سے اِس طرح خطاب فرمايا:”اَيُّھا النَّاسُ اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ (صَلَّي اللّٰہ عَلَيہ وآلِہ) قَالَ: مَن رَآَيٰ سُلطَاناً جَآئِرًامُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰہِ نَاکِثًا لِعَھدِ اللّٰہِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ يَعمَلُ فِي عِبَادِ اللّٰہِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰے اللّٰہِ اَن يَدخُلَہُ مَدخَلَہُ‘‘ 9 ۔ ”رسول اللہ ۰نے ارشاد فرمايا کہ ”جو کسي جائر و ظالم حاکم کو ديکھے جو حرام خدا کو حلال جاننے والا، قانون خدا کو توڑنے والا، سنت رسول ۰ کا مخالف اور مخلوق خدا ميں گناہ و سرکشي سے حکومت کرنے والا ہو تو يہ ديکھنے والا اپنے قول و فعل سے اُس کے خلاف حکمت عملي اختيار نہ کرے تو خداوند عالم اِس سکوت و جمود اور خاموشي اختيار کرنے والے شخص کو اُس ظالم سلطان کے ساتھ عذاب ميں ڈالے گا‘‘۔ يعني اگر کوئي يہ ديکھے کہ معاشرے ميں کوئي حاکم برسر حکومت ہے اور ظلم و ستم کررہا ہے ، حرام خدا کو حلال قرار دے رہا ہے اور حلال خدا کو حرام بنارہا ہے، اُس نے حکم الٰہي کو پس پشت ڈال ديا ہے اور دوسرے افراد کو بھي عمل نہ کرنے کيلئے مجبور کررہا ہے، لوگوں ميں گناہ اور ظلم و دشمني سے حکومت کرے __ اُس زمانے ميں ظالم اور جائر حاکم کا کامل مصداق يزيد تھا__ ”و لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ‘‘ ،” اپني زبان و عمل سے اُس کے خلاف اقدام نہ کرے‘‘۔ ” کَانَ حَقًّا عَلٰے اللّٰہِ اَن يَدخُلَہُ مَدخَلَہُ‘‘ ،”توخداوند عالم روز قيامت سکوت وجمود اختيار کرنے والے بے طرف و بے عمل شخص کو اُسي ظالم کے ساتھ ايک ہي عذاب ميں ڈالے گا‘‘۔يہ پيغمبر ۰ کا قول ہے؛ يہ جو ہم نے کہا ہے کہ پيغمبر ۰ نے يہ فرمايا ہے تو يہ اُن کے اقوال کا ايک نمونہ ہے۔ پس حضرت ختمي مرتبت ۰ نے پہلے سے مشخص کرديا تھا کہ اگر اسلامي نظام انحراف کا شکار ہوجائے تو کيا کام کرنا چاہيے۔ امام حسين نے پيغمبر اکرم ۰ کے اِسي قول کو اپني تحريک کي بنياد قرار ديا۔
ميں دوسروں سے زيادہ اِس قيام کيلئے سزاوار ہوںپس اِن حالات ميں ذمے داري کيا ہے؟اس حديث نبوي ۰ کي روشني ميں ذمہ داري ” يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ‘‘ (اپنے زبان و عمل سے اقدام کرے) ہے۔ اگر انسان اِن حالات کا مشاہدہ کرے البتہ شرائط و حالات کا مناسب ہونا ضروري ہے، تو اُس پر واجب ہے کہ ظالم و جائر حاکم کے عمل کے جواب ميں قيام و اقدام کرے۔ وہ اِس قيام و اقدام ميں کسي بھي حالات سے دوچار ہو، قتل ہوجائے، زندہ رہے يا ظاہراً اُسے کاميابي نصيب ہو يا نہ ہو، اِن تمام حالات ميں ”قيام‘‘ اُس کا وظيفہ ہے۔ يہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اِن حالات ميں قيام و اقدام کرے اور يہ وہ ذمہ داري ہے کہ جسے حضرت ختمي مرتبت ۰ نے بيان فرمايا ہے۔اِس کے بعد سيد الشہدا نے فرمايا: ”وَاِنِّي اَحَقُّ بِھٰذَا‘‘ ،ميں اِس قيام کيلئے بقيہ تمام مسلمانوں سے زيادہ سزاوار ہوں کيونکہ ميں فرزند پيغمبر ۰ ہوں۔ اگر پيغمبر ۰ نے حالات کي تبديلي يعني اُس قيام کو ايک ايک مسلمان پر واجب کيا ہے تو ظاہرہے کہ حسين ابن علي جو فرزند پيغمبر ۰ ہیں اور اُن کے علم و حکمت کا وارث بھي ہیں، اِس قيام کيلئے دوسروں سے زيادہ مناسب ہیں۔ پس امام حسين فرماتے ہيں کہ ميں نے اِسي لئے قيام کيا ہے اور وہ اپنے قيام کے علل و اسباب کو بيان فرما رہے ہيں۔
جو کچھ خدا نے ہمارے لئے چاہا ہے ، خير ہے”اَزيد‘‘ نامي منزل پر کہ جب چار افراد حضرت ٴ سے آملے ، آپ نے فرمايا: ” اَمَّا وَاللّٰہِ اَنِّي لَاَرجُو اَن يَکُونَ مَا اَرَادَ اللّٰہُ بِنَا قُتلِنَا اَو ظَفُرنَا ‘‘ ، ”جو کچھ اللہ نے ہمارے ليے مقرر کيا ہے وہ ہمارے ليے صرف خير وبرکت ہي ہے، خواہ قتل کرديے جائيں يا کامياب ہوجائيں‘‘۔ کوئي فرق نہيںہے خواہ کاميابي ہمارے قدم چومے يا راہ خدا ميں قتل کرديے جائيں، ذمے داري کو ہر صورت ميں ادا کرنا ہے؛ آپ نے يہي فرمايا کہ خداوند عالم نے جس چيز کو ہمارے لئے مقرر فرمايا ہے، اُس ميں ہمارے ليے بہتري اور بھلائي ہي ہے؛ ہم اپني ذمہ داري کو ادا کررہے ہيں خواہ اِس راہ ميں قتل کرديئے جائيں يا کامياب ہوجائيں۔سرزمين کربلا ميں قدم رکھنے کے بعد آپ نے اپنے پہلے خطبے ميں ارشاد فرمايا: ”قَد نَزَلَ مِنَ الاَمرِ ما قَد تَرَونَ ۔۔۔ ‘‘ 10 ”اَلَا تَرَونَ اِلَے الحَقِّ لَا يُعمَلُ بِہِ وَ اِليٰ البَاطِلِ لَا يُتَنَاھيٰ عَنہُ لِيَرغَبِ المُومِن فِي لِقَآئِ اللّٰہِ مُحِقًّا ‘‘11 ، ”کيا تم نہيں ديکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہيں کيا جارہا ہے اور باطل سے دوري اختيار نہيں کي جارہي ايسے وقت ميں مومن کو چاہيے کہ وہ ملاقات خدا کے ليے تيار رہے۔‘‘
امام حسين نے اسلام کا بيمہ کياپس امام حسين نے ايک امر واجب کيلئے قيام فرمايا۔ يہ ايک ايسا واجب ہے کہ جو ہر زمانے اور ہر تاريخ ميں تمام مسلمانوں کو اپني طرف بلارہا ہے اور يہ واجب عبارت ہے اِس امر سے کہ مسلمان جب اِس بات کا مشاہدہ کريں کہ اسلامي معاشرے کا نظام ايک بُنيادي خرابي کا شکار ہوگيا ہے اور اُس سے تمام اسلامي احکامات کي خرابي کا خطرہ لاحق ہے تو اِن حالات ميں ہر مسلمان کو قيام کرنا چاہيے۔البتہ يہ قيام، مناسب حالات و شرائط ميں واجب ہے (کہ جسے گذشتہ صفحات ميں بيان کيا جا چکا ہے ) کہ جب قيام کرنے والا يہ جانتاہو کہ يہ قيام اثر بخش ہوگا۔ اِن مناسب حالات کا قيام کرنے والے کے زندہ رہنے، قتل نہ ہونے يا مشکل و مصائب کا سامنا نہ کرنے سے کوئي تعلق نہيں ہے۔ يہي وجہ ہے کہ امام حسين نے قيام فرمايا اور عملاً اِس واجب کو انجام ديا تاکہ رہتي دنيا کيلئے ايک درس ہو۔اِس بات کا بھي امکان ہے کہ تاريخ کے کسي بھي زمانے ميں کوئي بھي شخص مناسب شرائط و حالات ميں يہ کام انجام دے البتہ يہ بات بھي قابل غور ہے کہ سيد الشہدا کے بعد کسي بھي امام معصوم کے زمانے ميں ايسے حالات پيش نہيں آئے ۔ خود يہ بات تجزيہ و تحليل کا تقاضا کرتي ہے کہ ايسے حالات دوبارہ کيوں نہيں پيش آئے۔ چونکہ بہت سے اہم ترين کام تھے کہ جنہيں انجام دينا ضروري تھا اور کربلا کے قيام کے بعد سے امام حسن عسکري کي شہادت اور حضرت امام عصر کي غيبت کے ابتدائي زمانے تک اسلامي معاشرے ميں ايسے حالات کبھي سامنے نہيں آئے۔ تاريخ کے مختلف ادوار ميں اِس قسم کے حالات اسلامي ممالک ميں زيادہ ظہور پذير ہوتے رہتے ہيں اور آج بھي دنيائے اسلام ميں بہت سے مقامات پر اِس کام کيلئے زمين ہموار ہے اور مسلمانوں کو چاہيے کہ اِس فريضے کو انجام ديں۔ اگر وہ اِس واجب کو انجام ديں تو اِس طرح وہ اپني ذمہ داري کو ادا کرسکيں گے اور اسلام کي توسيع اور حفاظت کي زمين ہموار کريں گے۔ زيادہ سے زيادہ يہي ہوگا کہ ايک دو افراد شکست کھائيں گے۔جب معاشرتي حالات کي تبديلي، قيام اور اصلاحي تحريک کيلئے بار بار اقدامات کيے جائيں تو برائياں اور انحرافات يقيني طور پر ختم ہوجائيں گے۔ امام حسين سے قبل کوئي بھي اِس راستے سے واقف اور اِس کام سے آگاہ نہ تھا، چونکہ زمانہ پيغمبر ۰ ميں يہ کام انجام نہيں ديا گيا تھا، خلفائ کے زمانے ميں بھي ايسے حالات نہيں تھے اور امير المومنين کہ جو معصوم تھے، نے بھي اِس کام کو انجام نہيں ديا تھا۔ يہ امام حسين ہي تھے کہ جنہوں نے عملي طور پر پوري تاريخ انسانيت کو ايک بہت بڑا درس ديا اور درحقيقت خود اپنے زمانے ميں اور آنے والے زمانوں ميں اسلام کا بيمہ کرديا ۔
سيد الشہدا کي ياد اور کربلا کيوں زندہ رہے؟جہاں بھي حالات اور برائياں و انحرفات ، امام حسين کے زمانے جيسے ہوں، سيد الشہدا وہاں زندہ ہيں اور آپٴ اپنے شيوہ اور عمل سے بتارہے ہيں کہ آپ لوگوں کو کيا کام انجام دينا چاہيے چنانچہ وہي ذمہ داري اور وظيفہ قرار پائے گي۔ لہٰذا سيد الشہدا کي ياد اور ذکر کربلا کو ہميشہ زندہ رہنا چاہيے کيونکہ يہ ذکر کربلا ہي ہے جو اِس عمل کو ہمارے سامنے متجلّي کرتا ہے۔افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامي ممالک ميں کربلا کو جس طرح پہچاننا چاہيے تھے ، پہچانا نہيں گيا۔ اقوام عالم کو چاہيے کہ اِسے پہچانيں، ہمارے ملک ميں کربلا کي شناخت صحيح طور پر موجود ہے؛ ہماري عوام (کئي صديوں سے) امام حسين کي شناخت رکھتي ہے اور اُن کے قيام سے واقف و آگاہ ہے۔ معاشرے ميں حسيني روح موجود تھي لہٰذا جب امام خميني۲ نے فرمايا کہ محرم وہ مہينہ ہے کہ” جب خون، تلوار پر کامياب ہوگيا ‘‘تو ہماري عوام نے کسي قسم کا تعجب نہيں کيا۔ حقيقت بھي يہي تھي کہ خون اور مظلوميت، ظلم وشمشير پر غالب آگئي۔
وہ درس جو طوطوں نے اسير طوطے کودياميں نے کئي سال قبل البتہ قبل از انقلاب ، کسي محفل ميں ايک مثال بيان کي تھي کہ جسے مولانا رومي نے اپني مثنوي ميں بيان کيا ہے۔يہ مَثَل ہے اور اِسے حقائق کوبيان کرنے کيلئے سنايا جاتا ہے۔ ايک تاجر نے اپنے گھر ميں پنجرے ميں ايک طوطے کو پالا ہوا تھا۔ ايک مرتبہ جب اُس نے ہندوستان جانے کا ارادہ کيا تو اپنے اہل و عيال سے خدا حافظي کي اور اپنے اِس طوطے سے بھي خدا حافظي کي۔ اُس نے اپنے طوطے سے کہا کہ ”ميں ہندوستان جارہا ہوں جو تمہارا ملک اور تمہاري سرزمين ہے‘‘۔
طوطے نے کہا ”تم ہندوستان ميں فلاں جگہ جانا، وہاں ميرے عزيز و اقارب اور دوست احباب ہيں ، اُن سے کہنا کہ تمہاري قوم کا ايک طوطا ميرے گھر ميں پنجرے ميں ہے، يعني ميري حالت کو اُن کيلئے بيان کرنا؛ اِس کے علاوہ ميں تم سے کسي اور چيز کا طلبگار نہيں ہوں‘‘۔يہ شخص ہندوستان گيا اور ُا س جگہ گيا کہ جہاں کا پتہ اُس کے طوطے نے ديا تھا۔ اُس نے ديکھا کہ بہت سے طوطے درختوں پر بيٹھے ہيں، اُس نے اونچي آواز ميں سب کو مخاطب کيا اور کہا کہ اے ”پيارے اور اچھے طوطوں! ميں تمہارے ليے ايک پيغام لايا ہوں۔ تمہاري قوم کا ايک طوطا ميرے گھر ميں ہے، وہ بہت اچھي حالت ميں زندگي بسر کررہا ہے اور ميں نے اُسے پنجرے ميں قيد کيا ہوا ہے، ميں اُسے اچھي غذائيں ديتا ہوں اور اُس نے تم سب کو سلام کہا ہے‘‘۔ ابھي تاجر نے اتنا ہي کہا تھا کہ اُس نے ديکھا کہ وہ طوطے جو درختوں پر بيٹھے تھے ، اچانک اُنہوں نے اپنے پروں کو پھڑپھڑايا اور زمين پر گر پڑے ۔ يہ شخص آگے بڑھا تو ديکھا کہ يہ طوطے مرچکے ہيں، اُسے بہت افسوس ہوا کہ ميں نے ايسي بات ہي کيوں کي کہ جس کو سُننے سے يہ سارے پرندے مثلاً پانچ دس طوطے اپني جان گنوا بيٹھے۔ اب جو ہونا تھا وہ ہوگيا اور اب کچھ نہيں کيا جاسکتا ہے۔تاجر جب اپنے وطن لوٹا اور اپنے گھر پہنچنے کے بعد طوطے کے پنجرے کے پاس گيا تو اُس نے کہا کہ ”ميں نے تمہارا پيغام انہيں پہنچاديا تھا‘‘ ۔ طوطے نے پوچھا کہ ”اُنہوں نے کيا جواب ديا‘‘۔ تاجر نے کہا کہ ”جب انہوں نے مجھ سے تمہارا پيغام سنا تو پروں کو پھڑپھڑايا اور زمين پر گر کر مرگئے‘‘۔ ابھي تاجر نے اتنا ہي کہا تھا کہ اُس نے ديکھا کہ طوطے نے پنجرے ميں پر پھڑپھڑائے اور گر کر مرگيا۔ تاجر کو اُس کي موت کا بہت افسوس ہوا، اُس نے پنجرے کا دروازہ کھولا کيونکہ اِس مردہ طوطے کو پنجرے ميں رکھنے کا اب کوئي فائدہ نہيں تھا۔ اُس نے طوطے کو پنجوں سے پکڑا اور چھت کي طرف اچھال ديا۔ طوطا جيسے ہي ہوا ميں اچھلا ، اُس نے فضا ميں ہي اپنے پروں کو پھڑپھڑانا شروع کرديا اور ديوار پر جا بيٹھا اور کہنے لگا کہ ”اے تاجر ، اے ميرے دوست، ميں تمہارا بہت احسان مند ہوں کہ تم نے خود ميري رہائي کے اسباب فراہم کيے۔ ميں مرا نہيں تھا بلکہ مردہ بن گيا تھا ! يہ وہ درس تھا کہ جسے ہندوستان کے طوطوں نے مجھے ديا ہے۔ جب وہ متوجہ ہوئے کہ ميں يہاں پنجرے ميں قيد ہوں تو انہوں نے سوچا کہ وہ کس زبان سے کہيں کہ ميں کيا کام کروں تاکہ قيد سے رہائي حاصل کرسکوں؟ اُنہوں نے عملي طور پر مجھے بتايا کہ يہ کام انجام دوں تاکہ اسيري سے رہائي پاوں! مرجاو تاکہ زندہ ہوسکو ( اور آزادي کي زندگي گذارو)! ميں نے اُن کے پيغام کو تمہارے ذريعہ سے سمجھ ليا۔ يہ وہ درس تھا کہ جو ہزاروں ميل دور اُس جگہ سے مجھ تک پہنچا اور ميں نے اُس درس سے اپني نجات و آزادي کيلئے اقدام کيا‘‘۔ميں نے اُسي محفل ميں تقريباً بيس بائيس سال قبل(١٣٩٦ہجري ) موجود مرد و خواتين سے عرض کيا کہ محترم سامعين، امام حسين کس زبان سے ہميں سمجھائيں کہ تم سب کي ذمہ داري کيا ہے؟
امام حسين نے اپنے عظيم عمل سے ذمہ داري کو واضح کردياہمارے زمانے کے حالات ، امام حسين کے زمانے کے حالات جيسے ہيں اور آج کي زندگي ، ويسي ہي زندگي ہے اور اسلام وہي اسلام ہے جو سيد الشہدا کے زمانے ميں تھا۔ اگر امام حسين سے ايک جملہ بھي نقل نہ کيا جاتا تب بھي ہميں چاہيے تھا کہ ہم سمجھيں کہ ہماري ذمہ داري کيا ہے؟وہ قوم جو اسير اور غير ملکي طاقتوں کي زنجيروں ميں قيد ہے، جس کے اعليٰ عہديدار برائيوں کا علي الاعلان ارتکاب کررہے ہيں، وہ قوم کہ جس پر دُشمنان دين حکومت کررہے ہيں اور اُس کي قسمت اور زندگي کے فيصلوں کو اپنے ہاتھوں ميں ليا ہوا ہے، لہٰذا تاريخ سے سبق لينا چاہيے کہ اِن حالات ميں ذمہ داري کيا ہے۔ چونکہ فرزند پيغمبر ۰نے عملي طور پر يہ بتاديا ہے کہ اِس قسم کے حالات ميں کيا کام کرنا چاہيے۔يہ درس ، زبان سے نہيں ديا جاسکتا تھا؛ اگر امام حسين اِسي درس کو سو مرتبہ بھي زبان سے کہتے اور عملي طور پر خود تشريف نہيں لے جاتے تو ممکن ہي نہيں تھا کہ آپ کا يہ پيغام صديوں پر محيط ہوجاتا؛ صرف نصيحت کرنے اور زباني جمع خرچ سے يہ پيغام صديوں کا فاصلہ طے نہيں کرپاتا اور تاريخ کے اُسي دور ميں ہي دفن ہوجاتا۔ ايسے پيغام کو صديوں تک پھيلانے اور تاريخ کا سفر طے کرنے کيلئے عمل کي ضرورت تھي اور وہ بھي ايسا عمل کہ جو بہت عظيم ہو، سخت مشکلات کا سامنا کرنے والا ہو، جو ايثار و فداکاري اور عظمت کے ساتھ ہو اور پُر درد بھي ہو کہ جسے صرف امام حسين نے ہي انجام ديا!حقيقت تو يہ ہے کہ واقعہ کربلا ميں روز عاشورا کے سے جو واقعات و حادثات ہماري آنکھوں کے سامنے موجود ہيں، اُن کيلئے ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ يہ واقعات و حادثات ، پوري تاريخ بشريت ميں اپني نوعيت کے بے مثل و نظير واقعات ہيں۔ جس طرح پيغمبر اکرم ۰ نے فرمايا، امير المومنين نے فرمايا اور امام حسن مجتبيٰ نے فرمايا اور جو کچھ واقعات ميں آيا ہے کہ ”لَا يَومَ کَيَومِکَ يَا اَبَا عَبدِ اللّٰہِ ‘‘ 12 ،”اے ابا عبداللہ ! (امام حسين ) کوئي دن بھي آپ کے دن،( عاشورا، کربلا اور آپ کے اِس حادثے )کي طرح نہيں ہے‘‘۔ 13
مختلف قسم کي ذمہ داريوں ميں سے اصلي ذمے داري کي تشخيصتحريک کربلا ميں بہت سے نکات مضمر ہيں کہ اگر امت مسلمہ اور دانشور حضرات و مفکرين اِس سلسلے ميں مختلف جہات سے تحقيق کريں جو اِس واقعہ اور اِس سے متعلق قبل و بعد کے امور ، مذہبي زندگي کي راہوں اور مختلف قسم کے حالات ميں موجودہ اور آنے والي مسلمان نسلوں کيلئے اُن کے وظائف اور ذمہ داريوں کو مشخص کرديں گے۔واقعہ کربلا کے درسوں ميں سے ايک نہايت ہي اہم نکتہ يہ ہے کہ حضرت سيد الشہدا نے تاريخ اسلام کے بہت ہي حساس دور ميں مختلف قسم کي ذمہ داريوں ميں سے اپنے اصلي اور حقيقي ذمہ داري کہ جو مختلف جہات سے قابل اہميت تھي ، کو تشخيص ديا اور اُس ذمہ داري کو ادا بھي کيا اور ساتھ ہي آپ اُس امر کي شناخت ميں شک و ترديد اور توھّم کا شکار نہيں ہوئے کہ جس کي دنيائے اسلام کو اُس وقت اشد ضرورت تھي۔ خود يہ امر وہ چيز ہے کہ جو مختلف زمانوں ميں مسلمانوں کي زندگي کيلئے باعث خطرہ بنا ہو اہے، يعني يہ کہ ايک قوم کي اکثريت ، اُس کے سربراہ و حاکم اور امت مسلمہ کے چيدہ چيدہ اور خاص افراد خاص حالات ميں اپني اصلي ذمہ داري کي شناخت و تشخيص ميں غلطي کر بيٹھيں اور وہ يہ نہ جانيں کہ کون سا کام اِس وقت لازمي ہے کہ جسے اِس وقت انجام دينا ضروري ہے اور دوسرے امور کو _ اگر لازمي ہوا_ اِس پر قربان کرنا چاہيے اور وہ يہ تشخيص نہ دے سکيں کہ کون ساامر ثانوي حيثيت کا حامل ہے اور وہ يہ سمجھ نہ سکيں کہ ہر قدم و ہرکام کو اُس کي حيثيت کے مطابق اہميت ديني چاہيے اور اُسي کے مطابق اُس کيلئے جدوجہد کرني چاہيے۔امام حسين کي تحريک کے زمانے ميں ايسے افراد بھي تھے کہ اگر اِس بارے ميں اُن سے گفتگو کي جاتي کہ ہميں ہر صورت ميں قيام کرنا چاہيے تو وہ سمجھ جاتے کہ اِ س قيام کے نتيجے ميں بہت سي مشکلات و مصائب اُن کا انتظار کررہے ہيں تو وہ ثانوي حيثيت والے امور کو توجہ ديتے اور دوسرے درجے کي ذمہ داريوں کي تلاش ميں نکل پڑتے! بالکل ايسا ہي ہوا کہ ہم نے ديکھا کہ کچھ افراد نے عيناً يہي کام انجام ديا؛ امام حسين کے ساتھ نہ آنے والے افراد ميں بہت سے مومن اور ديندار افراد موجود تھے ، ايسا نہيں تھا کہ نہ آنے والے سب کے سب دنيادارہوں۔اُس زمانے ميں دنيائے اسلام کے بڑے بڑے افراد اور خاص شخصيات ميں اہل ايمان ، مومن اور اپنے وظيفے اور ذمہ داريوں پر عمل کرنے کے خواہشمند افراد بھي تھے ليکن وہ اپني ذمہ داريوں کو تشخيص دينے والي صلاحيت سے عاري تھے اور اُن ميں يہ قابليت نہيں تھي کہ حالات کے دھارے کو سمجھيں يا نوشتہ ديوار پڑھيں اور اپنے اصلي اور حقيقي دشمن کو سمجھيں۔ يہ افراد جوبظاہر مومن اور ديندار تھے اپنے اصلي اور لازم الاجرائ امور اور دوسرے اور تيسرے درجے کے کاموں کي تشخيص ميں غلطي کر بيٹھے اور يہ امر اُن بڑي آفت اور بلاؤں سے تعلقرکھتا ہے کہ جس ميں امت مسلمہ ہميشہ گرفتار رہي ہے۔
معاشرتي زندگي اور اُس کي بقا ميں حقيقي ذمہ داري کي شناخت کي اہميتآج ممکن ہے کہ ہم بھي اِس بلا ميں گرفتار ہوجائيں اور اہم ترين افر اور کم اہميت والے امر کي تشخيص ميں غلطي کر بيٹھيں۔ لہٰذا حقيقي ذمہ داري کي شناخت بہت ضروري ہے جو کسي بھي معاشرے کي حيات و بقا ميں بہت اہميت کي حامل ہو تي ہے۔ايک زمانہ تھا کہ اِس ملک ميں استعمار، استبداد اور طاغوتي نظام حکومت کے خلاف ميدانِ مبارزہ موجود تھا ليکن بعض ايسے افراد بھي تھے جو اِ س مبارزے اور قيام کو اپنا وظيفہ نہيں سمجھتے تھے اور اُنہوں نے دوسرے امور کو اپنا ہدف بنايا ہوا تھا۔ اگر کوئي اُس وقت کسي جگہ تدريس علم ميں مصروف عمل تھا يا کسي کتاب کي تاليف وجمع آوري ميں کوشاں تھا ، يا اگر محدود پيمانے پر تبليغ ميں سرگرم عمل تھا يا اگر کسي نے ديني و مذہبي امور کے ساتھ ساتھ مختصر پيمانے پر عوام الناس کي ہدايت کو اپنے ذمہ ليے ہوا تھا تو وہ يہ سوچتا تھا کہ اگر وہ جہاد ميں مصروف ہوجائے گا تو يہ سارے امور يونہي ادھورے پڑے رہ جائيں گے ! لہٰذا وہ اِس فکر و خيال کے نتيجے ميں اُس عظيم اور اہميت والے جہاد اور قيام کو ترک کرديتا تھا اور لازم و غير ضروري يا اہم ترين اور اہم امور کي تشخيص ميں غلطي کر بيٹھتا تھا۔سيد الشہدا نے اپنے بيانات سے ہميں سمجھايا کہ ايسے حالات ميں طاغوتي طاقتوں سے مقابلہ اور طاغوتي اور شيطاني قدرت و طاقتوں سے انسانوں کي نجات کيلئے اقدام کرنا دنيائے اسلام کيلئے واجب ترين کاموں ميں سے ايک کام ہے۔ واضح ہے کہ سيد الشہدا اگر مدينے ميں ہي قيام پذير رہتے تو عوام ميں احکام الٰہي اور تعليمات اہل بيت کي تبليغ فرماتے اور کچھ افراد کي تربيت کرتے ؛ليکن اگر ايک حادثہ رُونما ہونے کي وجہ سے مثلاً عراق کي طرف حرکت فرماتے تو آپٴ کو اِن تمام کاموں کو خير آباد کہنا پڑتا اور اِس حالت ميں آپٴ لوگوں کو نماز اوراحاديث نبوي ۰ کي تعليم نہيں دے سکتے تھے، آپ کو اپنے درس و مکتب اور تعليمات کے بيان کو خدا حافظ کہنا پڑتا اور يتيموں ، مفلسوں اور فقرائ کي مدد کہ جو آپ مدينے ميں انجام ديتے تھے، سب کو چھوڑنا پڑتا!اِن تمام امور ميں سے ہر ايک ايسا وظيفہ تھا کہ جسے سيد الشہدا انجام دے رہے تھے ليکن آپ ٴ نے يہ تمام ذمہ دارياں ايک عظيم اور اہم ذمہ داري پر قربان کردي! يہاں تک کہ حج بيت اللہ کو اُس کے آغاز ميں کہ جب مسلمان پوري دنيا سے حج کيلئے آرہے تھے، اِس عظيم ترين فريضے پر فدا کرديا، بالآخر وہ ذمہ داري کيا تھي؟
آج واجب ترين کام کيا ہے؟جيسا کہ خود امام حسين نے٧ فرمايا کہ ظلم و فساد اوربرائي کے نظام سے مقابلہ واجبات ميں سے ايک واجب ہے۔ ”اُرِيدُ اَن آمُرَ بِالمَعرُوفِ وَ اَنہٰي عَنِ المُنکَرِ وَاُسِيرُ بِسِيرَۃِ جَدَّ وَاَبِ ‘‘ 14 يا ايک اور خطبے ميں آپٴ نے ارشاد فرمايا: ”اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ قَد قَالَ فِي حَيَاتِہِ مَن رَآَيٰ سُلطَاناً جَآئِرًا مُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰہِ نَاکِثًا لِعَھدِ اللّٰہِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ يَعمَلُ فِي عِبَادِ اللّٰہِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰے اللّٰہِ اَن يَدخُلَہُ مَدخَلَہُ‘‘ ٢ يعني وظيفہ ”اِغَارَۃ‘‘ ہے يا بہ عبارت ديگر ايسے سلطان ظلم و جور کے خلاف حالات کو تبديل کرنا کہ جو برائيوں کو عام کررہا ہے اور ايسے نظام حکومت کے خلاف قيام کرنا جو انسانوں کو نابودي اور مادي اور معنوي فنا کي طرف کھينچ رہا ہے۔يہ تھي امام حسين اِس کي تحريک کو امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کا مصداق بھي قرار ديا گيا ہے اور امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کي ذمہ داري ميں حتماً اِن نکات کي طرف توجہ ہوني چاہيے۔ يہي وجہ ہے کہ سيد الشہدا ايک اہم ترين واجب کي ادائيگي کيلئے اقدام کرتے ہيں اور دوسري بہت سي اہم ذمہ داريوں کو اِس اہم ترين ذمہ داري پر قربان کرديتے ہيں اور اِس بات کو تشخيص کرتے ہيں کہ آج کيا ذمہ داري ہے؟
آج اِس بات کي گنجائش نہيں ہے کہ ہم دشمن کي شناختاور اُس سے مقابلے کيلئے ضروري اقدامات ميں غلطي کريں!ہر زمانے ميں اسلامي معاشرے کيلئے ايک خاص قسم کي ذمہ داري معين ہے کہ جب دشمن اور باطل قوتوں کا محاذ، عالم اسلام اور مسلمانوں کو اپنے نشانے پر لے آئے تو کيا کيا جا ئے؟ اگر ہم نے دشمن کي شناخت ميں غلطي کي اور اُس جہت کو تشخيص نہيں دے سکے کہ جہاں سے اسلام اور مسلمانوں کو خسارہ اٹھانا پڑے گا اور جہاں سے اُن پر حملہ کيا جائے گا تو نتيجے ميں ايسا نقصان و خسارہ سامنے آئے گا کہ جس کا ازالہ کرنا ممکن نہيں ہوگا اور بہت بڑي فرصت ہاتھ سے نکل جائے گي۔
بحيثيت امت مسلمہ آج ہماري ذمہ داري ہے کہ پوري ملت اسلاميہ اور اپني عوام کيلئے اپني اِسي ہوشياري، توجہ، دشمن شناسي اور وظيفے کي تشخيص کو ہر ممکن طريقے سے اعليٰ درجہ تک پہنچانے کيلئے اپني تمام صلاحيتوں کو بروئے کار لائيں۔آج اسلامي حکومت کي تشکيل اور پرچم اسلام کے لہرائے جانے کے بعد ايسے امکانات اور فرصت کے لمحات مسلمانوں کے اختيار ميں ہيں کہ تاريخ اسلام ميں اُس کے آغاز سے لے کر آج تک جس کي مثال نہيں ملتي۔ آج ہميں کوئي حق نہيں کہ شناخت دشمن اور اُس کے حملے کي جہت سے آگاہي ميں غلطي کريں۔يہي وجہ ہے کہ اسلامي انقلاب کي کاميابي کے آغاز سے لے کر آج تک امام خميني۲ اور اُن کي راہ پر قدم اٹھانے والي شخصيات کي يہي کوشش رہي ہے کہ يہ معلوم کيا جائے کہ موجودہ دنيا ميں مسلمانوں، ايران کے اسلاميمعاشرے ، حق اور عدل و انصاف کو قائم کرنے ميں دشمن کي کون سي سازش اور چال سب سے زيادہ خطرناک ہے!گذشتہ سالوں کي طرح آج بھي (انقلاب اسلامي کو اُس کے بلند وبالا مقصد و ہدف کي طرف پيش قدمي سے روکنے کيلئے عالمي کفر و استکبار کي طرف سے دشمني ، حملے اور تمام تر خطرات اپنے عروج پر ہيں! يہ وہ بزرگترين خطرہ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو لاحق ہے۔ صحيح ہے کہ ايک معاشرے کے اندروني اختلافات اور ضعف و کمزوري،دشمن کے حملے کي زمين ہموار کرتے ہيں ليکن دشمن اپنے مد مقابل افراد کي اِسي ضعف و کمزوري کو اپنے تمام تر وسائل اور امکانات کے ساتھ ايک صحيح و سالم معاشرے پر تھونپ ديتا ہے لہٰذا ہميں اِس بارے ميں ہرگز غلطي کا شکار نہيں ہونا چاہيے۔ آج اسلامي معاشرے کي حرکت کي جہت کو عالمي استکبار سے مقابلے اور اُس کي بيخ کني کي جہت ميں ہونا چاہيے کہ جس نے اپنے پنجوں کو پوري دنيا ئے اسلام ميں گاڑا ہو اہے۔ 15قيام کربلا کا فلسفہروز اربعين امام حسين کي زيارت ميں ايک بہت ہي پُر معنٰي جملہ موجود ہے اور وہ يہ ہے کہ” وَ بَذَلَ مُھجَتَہُ فِيکَ لِيَستَنقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الجَھَالَۃِ وَحَيرَۃِ الضَّلَالَۃِ ‘‘ 16 ،امام حسين کي فدا کاري اور شہادت کے فلسفے کو اِس ايک جملے ميں سمو ديا گيا ہے ۔اِس جملے ميں ہم کہتے ہيں کہ ”بار الھا! تيرے اِس بندے _ حسين ابن علي _ نے اپنے خون کو تيري راہ ميں قربان کرديا تاکہ تيرے بندوں کو جہالت سے باہر نکالے اوراُنہيں گمراہي ميں حيرت و سردگرداني سے نجات دے‘‘۔ ديکھئے کہ يہ کتنا پُر معنٰي جملہ ہے اور کتنے ہي عظيم مفاہيم اِس ايک جملے ميں موجود ہيں۔مسئلہ يہ ہے کہ بشريت ہميشہ شيطاني ہاتھوں ميں بازيچہ بني رہي ہے، بڑے چھوٹے شيطانوں کي ہميشہ سے يہي کوشش رہي ہے کہ اپنے مقاصد تک رسائي کيلئے انسانوں اور قوموں کو قربان کرديں۔ آپ نے تاريخ ميں اِن تمام حالات و واقعات کو خود ديکھا ہے اور جابر و ستمگر سلاطين کے حالات زندگي ، قوموں سے اُن کي روش و برتاو ، موجودہ دنيا کي حالت زار اور بڑي طاقتوں کے سلوک کا آپ نے بہ چشم ديد مشاہدہ کيا ہے۔ انسان ، شيطاني مکرو فريب کے نشانے پر ہے لہٰذا اِس انسان کي مدد کرني چاہيے اور بندگان الٰہي کي فرياد رسي کے اسباب فراہم کرنے چاہئيں تاکہ وہ خود کو جہالت کے اندھيروں سے نجات دے سکيں اور حيرت و سرگرداني سے خود کو باہرنکال سکيں۔وہ کون ہے کہ جو ہلاکت کي طرف گامزن بشريت کي نجات کيلئے اپنے دست نجات کو پھيلائے ؟ وہ لوگ تو اِس سلسلے ميں ايک قدم بھي آگے نہيں بڑھائيں گے جو اپني خواہشات نفساني اور شہوتوں کے اسير و غلام ہيں کيونکہ يہ لوگ خود گمراہ ہيں،لہٰذا جو لوگ اپني خواہشات کے اسير و غلام ہوں وہ بشريت کو کيسے نجات دے سکتے ہيں؟! يہ نجات دہندہ کوئي ايسا فردہو جو اِن سب کو نجات سے ہمکنار کرے يا لطف الٰہي اُن کے شامل حامل ہو اور اُن کا
ارادہ مستحکم ہوجائے تاکہ خود کو خواہشات و شہوات کي اسيري کي زنجيروں سے رہائي دلاسکيں۔ وہ ذات جو بشر کو نجات ورہائي دے اُسے درگذر کا مالک ہونا چاہيے تاکہ ايثار و فداکاري سے کام لے سکے اور اپني شيطاني شہوت و خواہشات کو چھوڑ دے، اپني انانيت ، خود پرستي، خود خواہي، حرص ، ہوا وہوس، حسد، بُخل اور ديگر برائيوں کي قيد سے باہر آکر گمراہي ميں سرگرداں بشريت کي نجات کيلئے شمع روشن کرسکے۔——-1بحارالانوار ، جلد ٢ ص ١٧٠2 سورہ مائدہ / ٥٤3 جب يہ لوگ دين شناس اور صاحب فہم و ادرک تھے تو اتني سي بات کيوں نہيں سمجھ سکے جو امام حسين نے سمجھي؟! جواب يہ ہے کہ صحيح ہے کہ يہ لوگ دين شناس تھے مگر چونکہ ايسے حالات کبھي پيش نہيں آئے تھے لہٰذا اُن کے ذہن ميں وہ بات نہيں آئي کہ جو امام حسين کے ذہن ميں آئي۔(مترجم)4 بحار الانوار ، جلد ٤٤، س ٣٢٥5 و6 بحار الانوار، جلد ٤٤، ص ٣٢٩7 حوالہ سابق8بحار الانوار جلد ٤٤، صفحہ ٢٣٥9 بحار الانوار جلد ٤٤ ، صفحہ ٣٨٢10 بحار الانوار ج ٤٤، صفحہ ٣٨١11 حوالہ سابق12 بحار الانوار، جلد ٤٥ ، صفحہ ٢١٨ 13 خطبہ نماز جمعہ، ١٠ محرم ١٤١٦ ہجري14بحار الانوار، جلد ٤٤، صفحہ ٣٢٩ ٢ بحار الانوار، جلد ٤٤، صفحہ ٣٨٢15 علما سے خطاب، ٧/ ٥/١٣٧١16 زيارت اربعين، مفاتيح الجنان