اولیائے الٰہی كیلئے عزاداری كا فلسفہ كیا ہے؟
1۔ عزاداری حب و بغض كا مظہرحب اور بغض ایسے دو متناقض امر ہیں جو انسان پہ عارض ہوتے ہیں اور انھیں نفس كے تمایل و عدم تمایل سے تعبیر كیا جاتا ہے۔
وہ لوگ جن كی محبت واجب ہےعقلی اور نقلی دلیلوں سے پتہ چلتا ہے كہ بعض افراد كی انسانوں پر محبت واجب ہے، ملاحظہ كریں:
1۔ خداوند متعالخدا وند متعال كی ذات با بركت ان افراد میں سرفہرست ہے جس كی محبت اس كے جامع كمال و جمال ہونے كی وجہ سے اور تمام موجودات كےاسی سے وابستہ ہونے كی وجہ سے، بنیادی طور پہ واجب ہے۔خدا وند متعال فرماتا ہے:”قل ان كان اٰباؤكم و ابناؤكم و اخوانكم و ازواجكم و عشیرتكم و اموال اقترفتموھا و تجارۃ تخشون كسادھا و مساكن ترضونھا احب الیكم من اللہ و رسولہ و جھاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یأتی اللہ بامر ہ واللہ لا یھدی القوم الفاسقین” (توبہ:۲۴) اے رسول! امت سے كہو كہ اے لوگو اگر تم اپنے آباءو اجداد فرزندوں، بھائیوں، عورتوں، رشتہداروں اور وہ مال جو تم نے جمع كیا ہے اور وہ مال تجارت كہ جس كی كساد بارازی سے ڈرتے ہو اور وہ گھر كہ جن سے تم كو دلی خوشی ہے، كو “خدا اور رسول اور اس كی راہ میں جہاد كرنے سے زیادہ دوست ركھتے ہو پس منتظر رہو تا كہ خدا كا امر جاری ہوجائے اور خدا فاسقوں اور بدكاروں كی ہدایت نہیں كرتاہے۔
2۔ رسول خدا (ص)وہ افراد كہ جن سے خدا كیلئے محبت كی جائے، رسول اسلام (ص) كی شخصیت ہے كیونكہ وہ تشریع و تكوین كے واسطہ فیض اور شفیع ہیں۔ اسی وجہ سے مذكورہ آیت میں خدا كے نام كے ساتھ ان كا اسم گرامی بھی ذكر كیا گیا ہے اور ان سے محبت كا حكم ہوا ہے۔پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں:”واللہ لما یغذوكم و احبونی بحبّ اللہ” 1 خدا كو دوست ركھو كیونكہ وہ تمھیں رزق دیتا ہے اور مجھے خدا كیلئے دوست ركھو۔ دوسری طرف سے آنحضرت (ص) كے ذاتی فضائل اور كمالات ایسے عوامل ہیں جو انسان كو ان سے محبت كرنے پر مجبور كرتے ہیں اور ان كی طرف راغب كرتے ہیں۔
3۔ اہل بیت علیہم السلاماہل بیت (ع) كی محبت بھی واجب ہے كیونكہ وہ بھی فضائل و كمالات كا مظہر ہونے كے علاوہ تكوین و تشریع كے درمیان واسطۂ فیض ہیں۔ اسی لئے پیغمبر (ص) نے ان سے محبت كا حكم دیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں: “واحبّوا اھل بیتی لحبّی” اور میرے اہل بیت سے میرے لئے محبت كرو۔
2۔ حب آل رسول كے لازم ہونے كی وجوہاتآل رسول (ع) كی محبت خدا و رسول خدا (ص) كی مانند چند دلیلوں كی بناء پر واجب ہے۔1۔ اہل بیت (ع) ،صا”حب رسالت سے منسوب ہیں جیسا كہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: قیامت كے دن میرے علاوہ ہر حسب ونسب قطع ہوجائے گا۔2۔ اہل بیت خدا و رسول كے محبوب ہیں جیسا كہ حدیث”رأیہ”اور حدیث “طیر” میں اس كی طرف اشارہ ہوا ہے۔3۔ اہلبیت (ع) سے محبت اجر سالت ہے بقول خداوند متعال”قل لا اسئلكم علیہ اجراً الا المودۃ فی القربیٰ” (شوریٰ:۲۳)4۔ قیامت كے دن آل رسول (ص) كی محبت كے بارے میں پوچھا جائے گا جیسا كہ خدا فرماتا ہے “وقفوھم انھم مسئولون” (صافات: ۲۴) سبط ابن جوزی مجاہد سے نقل كرتے ہیں: قیامت كے دن علی (ع) سے محبت كے بارے میں سوال كیا جائے گا۔ 25۔ اہل بیت (ع) كتاب خدا كے ہم پلہ ہیں جیسا كہ رسول خدا (ص) نے حدیث ثقلین میں اس كی طرف اشارہ كیا ہے۔ “انی تارك فیكم الثقلین كتاب اللہ و عترتی”6۔ اہلبیت (ع) سے محبت ایمان كی شرط ہے جیسا كہ فریقین سے صحیح السند احادیث وارد ہوئی ہیں كہ رسول (ص) نے علی (ع) كو مخاطب كركے فرمایا: اے علی!آپ كو صرف مومن دوست ركھتا ہے اور صرف منافق دشمن ركھتا ہے۔7۔ اہل بیت (ع) امت كےلئے كشتیٔ نجات ہیں جیسا كہ صحیح السند احادیث میں فریقین نے ذكر كیا ہے كہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: “مثل اھل بیتی فیكم مثل سفینۃ نوح من ركبھا نجی ومن تخلف عنھا غرق”8۔ اہلبیت (ع) كی محبت اعمال و عبادت كے قبول ہونے كی شرط ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی (ع) سے فرماتے ہیں: اگرمیری امت كے لوگ اتنے روزے ركھیں كہ ان كی كمر جھك جائے سینہ اندر چلا جائے اور اتنی نمازیں پڑھیں كہ ٹہنی كی طرح بن جائیں، لیكن اگر تم سے دشمنی كریں تو خدا وند عالم انھیں منہ كے بل آتش جہنم میں ڈالے گا۔ 39۔ اہل بیت (ع) اہل زمین كیلئے امان ہیں: رسول اسلام (ص) فرماتے ہیں: ۔۔۔اور میرے اہلبیت (ع) زمین والوں كیلئے امان ہیں۔قابل ذكر یہ ہے كہ محبت ایسی قدرت اور طاقت ہے جو انسان كو متحرك كر كے فعال بنا دیتی ہے تا كہ وہ اپنے محبوب اور مقتداء كی طرف حركت كرے۔ فوق الذكر مطالب سے مجموعاً یہ نتیجہ نكلتا ہے كہ مجالس عزاداری بپا كرنا، محبوب سے محبت كرنے كا ایك ذریعہ، راستہ، مظہر اور جلوہ گاہ ہے كیونكہ ایك طرف سے ہم دیكھتے ہیں كہ لوگ محبت كے سلسلے میں مختلف درجوں پر فائز ہیں اور دوسری طرف سے محبت كا اثر، صرف تحریك نفس ہی نہیں ہے بلكہ اس كا اثر عیاں كرتی ہے۔ اسی طرح اس كا خارجی اثر، صرف محبوب كی اطاعت ہی نہیں ہے اگر چہ اطاعت، محبت كے فہم اور اصلی آثار میں سے شمار كی جاتی ہے بلكہ اس كے آثار اور بھی ہیں اور ان دلیلوں كا اطلاق لزوماً ان سب آثار پر شامل ہوتا مگر یہ كہ دوسری دلیلوں میں تعارض پیدا كرے جیسے محبوب كی محبت میں كسی كو قتل كرنا یا شریعت كے خلاف كوئی كام انجام دینا وغیرہ۔
انسان كی زندگی میں محبت كے جلوے1۔ اطاعت اور پیروی۔2۔ محبوب كی زیارت۔3۔ محبوب كی تعظیم ۔4۔ محبوب كی حاجت روائی ۔5۔ مختلف طریقوں سے محوب كا دفاع ۔6۔ محبوب كے فراق میں غم و ماتم جیسے یوسف (ع) كے فراق اور جدائی میں یعقوب (ع) كا حزن۔7۔ محبوب كے آثار كی حفاظت ۔8۔ محبوب كی نسل اور اولاد كا احترام ۔9۔ محبوب سے مربوط چیزوں كا بوسہ لینا ۔10۔ محبوب كی ولادت كے موقع پہ جشن منانا اور قصیدہ خوانی غیرہاس سے یہ نتیجہ نكلتا ہے كہ عزاداری، اہلبیت (ع) كی محبت كا لازمہ ہے۔فرہنگ عاشورا كو زندہ ركھنا اور اولیاء الٰہی كو یاد كرنا عقل كے مطابق ہےاس بحث كے آغازمیں بتایا گیا كہ عزاداری حب وبغض كا ایك جلوہ اور مظہر ہے۔ اگر عقل سلیم كی طرف رجوع كریں تو اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے كہ اولیاء خدا خاص كر سرور شہیدان امام حسین (ع) كی عزاداری عقل كے مطابق ہےكیونكہ ان كی تعظیم در حقیقت ان كی شخصیت اور اہداف كی تعظیم وتكریم ہے اور اگر ایك امت اپنے بزرگوں كی تعظیم نہ كرے اور انھیں یاد نہ كرے تو اس كا انجام فقط فنا ونابودی ہے اور یہ رہبر وبزرگ ہیں جو امتوں كی تاریخ میں اصلی كردار ادا كرتے ہیں اور یہی شخصیتیں تاریخ ساز بھی ہوتی ہیں۔
حسینی مشن كے بعض اہدافامام حسین (ع) فرماتے ہیں:1۔” انی لا اری الموت الا سعادۃ، والحیاۃ مع الظالمین الا برما ” 4 میں ان حالات میں موت كو سعادت اور ظالموں كے ساتھ زندہ رہنے كو رنج وغم كے علاوہ كچھ بھی نہیں جانتا۔2۔” لیس الموت فی سبیل العز الا حیاۃ خالدۃ و لیست الحیاۃ مع الذل الاموت الذی لا حیاۃ معہ”: عزت كی موت (عزت كی راہ میں موت) جاودانی حیات كے علاوہ كچھ بھی نہیں اور ذلت كی زندگی موت كے سوا كچھ بھی نہیں۔3۔ “ألا و ان الدعی وابن الدعی قد ركز بین اثنتین ، بین السلۃ والذلۃ و ھیھات منا الذلۃ”: جان لو كہ زنا زادہ فرزند زنا زادہ (ابن زیاد) نے مجھے دو چیزوں میں مخیر كرركھا ہے، یا ننگی تلوار كے ساتھ كیلئے تیار ہوجاؤں یا ذلت كی زندگی اختیار كروں (اور یزید كی بیعت كروں) لیكن ذلت ہم سے دور ہے۔4۔”انا للہ و انا الیہ راجعون وعلی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید” 5 ہم خدا كی طرف سے آئے ہیں اور اسی كی طرف پلٹ كر جانے والے ہیں، جب امت یزید جیسے كی رہبری میں گرفتار ہوجائے تو اسلام كو سلام كہہ دینا چاہیے۔5۔ “انی لم اخرج اشراً ولا بطراً ولا مفسداً وانما خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی ارید ان آمر بالمعروف وانھی عن المنكر واسیر بسیرۃ جدی و ابی علی ابن ابی طالب” 6 میں نے طغیان، اختلاف، فساد اور ظلم كیلئے قیام نہیں كیا ہے بلكہ میں نے اپنے نانا كی امت كی اصلاح كیلئے خروج (قیام) كیا ہے، میں چاہتا ہوں امر بمعروف اور نہی عن المنكر كروں اور اپنے جد اور والد حضرت علی ابن ابی طالب (ع) كی سیرت پہ عمل كروں۔
3۔ امت كا اولیاء خدا كے ساتھ عاطفی رابطہلو گوں كے عقیدتی، سیاسی اور اجتماعی مسائل كی توجیہ كا ایك مہم اور اصلی طریقہ، انسان كے احساس كو بیدار كرنے كا طریقہ ہے یعنی اس راستے سے ہم ان مسائل كو حل كرسكتے ہیں۔ اس لحاظ سے انسان عقل اور دوسرے پہلوؤں كی نسبت زیادہ تاثیر پذیر ہے، دوسری عبارت میں یہ طریقہ زیادہ مؤثر ہے۔ پس اولیاء خدا خاص كر سرور شہیدان امام حسین (ع) كی شہادت كے ذریعہ لوگوں كو متوجہ كركے ان كے احساسات اور عواطف كو بیدار كیا جاتا ہے اور اس طرح سے ان بزرگوں كو اسوہ قرار دے كر ان كے دستورات اور اوامر اور اہداف (جوكہ خدا كے اوامر ہیں) كو لوگوں تك پہنچا سكتے ہیں۔ اسی وجہ سے امام سجاد (ع) واقعہ عاشورا كے بعد 20 سال تك شہداء كربلا خاص كر امام حسین (ع) كیلئے گریہ وزاری كرتے رہے۔یہ بحث، پیغمبر اسلام (ص) كی امام حسین (ع) كیلئے مدح اور تمجید كو مدنظر ركھتے ہوئے زیادہ واضح ہوتی ہے۔پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: “حسین منی و انا من حسین،احب اللہ من احب حسیناً” 7 حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، خداوند اسے دوست ركھے جو حسین كو دوست ركھتا ہے۔نیز پیغمبر (ص) نے فرمایا: “الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنۃ” 8 حسن اور حسین جوانان جنت كے سردار ہیں۔
عزاداری پرروائی دلیلیںروایات معصومین (ع) اور صحابہ كی سیرت كو مدنظر ركھ كر پتہ چلتا ہے كہ یہ وہ بزرگوار ہیں جنھوں نے سب سے پہلے مجالس عزا كے اس مہم موضوع پر توجہ كرتے ہوئے اسے بپا كرنے میں اہم كردار ادا كیا۔حاكم نیشابوری اپنی صحیح سند میں ام الفضل سے نقل كرتے ہیں كہ آپ نے فرمایا: میں رسول خدا (ص) پہ وارد ہوئی اور عرض كیا: اے رسول خدا! آج رات میں نے ایك بہت ہی برا خواب دیكھاہے، حضرت نے فرمایا: كیا خواب دیكھا؟ میں نے عرض كیا: بہت ہی برا، فرمایا: كیا دیكھا؟ میں نے عرض كیا: میں نے عالم رؤیا میں دیكھا گویا كہ آپ كے بدن كا ایك حصہ جدا ہوا اور میری آغوش میں آگیا، پیغمبر نے فرمایا: بہت ہی اچھا خواب دیكھا ہے حضرت فاطمہ (ع) كو اگر خدا نے چاہابہت ہی جلد ایك بیٹا ہوگا جو تمھاری آغوش میں ہوگا۔ ام الفضل كہتی ہیں: فاطمہ زہرا (ع) كے ہاں امام حسین (ع) پیدا ہوئے اور وہ میری آغوش میں قرار پائے۔ جیسا كہ رسول خدا (ص) نے فرمایا تھا یہاں تك كہ میں رسول خدا (ص) كے پاس حاضر ہوئی اور انھیں ان كی گود میں ركھا۔ میں رسول خدا (ص) كی طرف متوجہ ہوئی، ناگاہ كیا دیكھا كہ آنحضرت (ص) كی آنكھوں سے آنسوجاری ہیں۔ میں نے عرض كیا: اے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جائیں، كیا ہوا ہے كہ آپ كو روتے ہوئے دیكھ رہی ہوں۔ حضرت نے فرمایا: جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور مجھے خبر دی كہ بہت جلد میری امت میرے اس فرزند كو شہید كرے گی۔ میں نے عرض كیا: اس فرزند كو؟ فرمایا: ہاں اور اس وقت مجھے اس تربت خونین سے تھوڑی سی خاك دی۔ 9حافظ طبرانی اپنی صحیح سند میں شیبان سے نقل كرتے ہیں: میں علی (ع) كے ساتھ تھا جب حضرت سرزمین كربلا پر وارد ہوئے، اس وقت فرمایا: اس جگہ پر كچھ شہید ہوں گے كہ ان جیسا شہداء بدر كے علاوہ كوئی نہیں ہوگا۔ 10ترمذی صحیح السند حدیث میں سلمی سے نقل كرتا ہے: میں ام سلمی كے پاس حاظر ہوا جبكہ وہ رو رہی تھیں۔ میں نے ان سے عرض كیا: آپ كیوں رو رہی ہیں؟ فرمایا: میں نے عالم رؤیا میں رسول خدا (ص) كو دیكھاجبكہ ان كا سر اور چہرہ خاك آلود تھا، میں نے عرض كیا اے رسول خدا! كیا ہوا؟ یہ كیاحالت ہے؟ آپ نے فرمایا: میں ابھی حسین (ع) كی شہادت (قتل ہونے) كو دیكھ رہاتھا۔ 11
اولیاء خدا كی عزاداری میں حاضر ہوناولیاء خدا خاص كر امام حسین (ع) كی عزاداری بپا كرنا نہ صرف جائز ہے بلكہ ثواب بھی ہے اور بزرگان دین اس عمل كو انجام دیتے آئے ہیں۔ بخاری اپنی سند میں عائشہ سے نقل كرتا ہے: جب زید بن حارثہ جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ كی شہادت كی خبر پیغمبر (ص) تك پہنچی آپ كے چہرے پر حزن اور غم كے آثار نمایاں تھے، آپ مسجد میں داخل ہوئے اور وہیں بیٹھ گئے۔ 12ابن ہشام اپنی كتاب سیرہ میں لكھتا ہے: جب پیغمبر (ص) مدینہ میں داخل ہوئے تو شہداء پر نوحہ اور ماتم كی آواز سننے لگے۔ اس وقت آنحضرت (ص) كی آنكھوں میں آنسو بھر آئےاور آپ نے روتے ہوئے فرمایا: حمزہ (ع) پہ رونے والا كوئی نہیں ہے۔ پیغمبر (ص) كا یہ كلام سن كر بنی اشہل كی عورتیں آئیں اور پیغمبر (ص) كے چچا پہ روئیں 13
مجالس عزاداری كے اہداف و مقاصداگر شیعوں كے درمیان اس طرح كی سنت رائج ہے تو اس كے مخلتف اہداف ہیں جو مختصراً عرض ہیں:1۔ اسلام كے بزرگوں اور پیشواؤں كا مقام پہچنوانا كہ جن كی تمام زندگی اسلامی معاشرے كیلئے نمونہ عمل اور سرمشق ہے۔2۔ اہل بیت (ع) سے عشق اور محبت میں اضافہ اور زیادتی3۔ طلب كمال اور فضیلت4۔ دین كی طرف دعوت اور حقائق سے آگاہی اور لوگوں كو اصلاح كی طرف بلانا اور فساد و انحراف سے روكن5۔ لوگوں كو امام حسین (ع) كے قیام سے آگاہ كرن6۔ مجالس عزا كے ضمن میں بھوكوں اور ناداروں كو كھانا كھلانا (جو كہ قرآن و اسلام كے مؤكد دستورات میں سے ہے)7۔ اہلبیت (ع) كے مصائب كو یاد كرنا جس سے اپنی سختیاں اور مصائب آسان ہوجاتی ہیں۔8۔ رسول خدا (ص) ،حضرت فاطمہ زہرا (س) اور تمام ائمہ علیہم السلام سے ہمدردی كا اظہار9۔ واقعہ عاشورا فراموش نہ ہونے دینا، كیونكہ اگر یہ عزاداری نہ ہوتی تو آنے والی نسلیں حقیقت سے بے خبر رہتیں10۔ ظالموں خاص كر بنی امیہ اور بنی عباس كے ظلم و ستم كو افشا كرن11۔ انسانی اور خدائی فضائل میں رشد اور شہادت كیلئے روح كی پرورش كرن12۔ اسلام كو زندہ ركھنا كیونكہ اس عزاداری سے اسلام بھی زندہ رہاہےامام خمینی (رح) عزاداری كے بارے میں فرماتے ہیں: “۔۔۔ وہ بالكل نہیں جانتے كہ سید الشہداء كا مكتب كیا تھا اور وہ یہ بھی نہیں جانتے كہ ان منبروں، گریہ و زاری اور ماتم نے ۱۴۰۰ سال سے ہمیں اور ہمارے مكتب كو بچائے ركھا ہے اور اب تك اسلام كوبچایا ہے” 14لہٰذا امام حسین (ع) كی عزاداری ایك انقلاب، قیام، موج اور اجتماعی مبارزہ وجہاد ہے۔ یہ عزاداری ہی ہے كہ جس كی وجہ سے عواطف اور احساسات میں شعور اور شناخت پیدا ہوجاتی ہے اور یہی عزاداری معاشرے كے ذہن میں ایمان كو اجاگر كرتی ہے اور مكتب عاشورا كو ایك فكر ساز عنوان كے طور پہ پیش كرتی ہے اور الہام بخش حادثہ كی صورت میں پہچنواتے ہوئے اپنی تاثیر كی حفاظت كرتی ہے۔ عزاداری كا مقصدخط خون و شہادت كو زندہ كرنا اور آل علی (ع) كی مظلومیت كی آواز كو تاریخ كے تمام لوگوں تك پہنچاناہے۔ اسی عزاداری كے سائے تلے امام حسین (ع) پر گریہ و زاری كے علاوہ امام حسین (ع) كے قیام اور نہضت كا ہدف بھی معلوم ہوجاتا ہے۔1. مستدرك “حاكم، ج۳، ص۱۹۴2. تذكرۃ الخواص، ص۱۰3. تاریخ مدینۃ دمشق، ج۲، ص۱۴۳4. تاریخ دمشق، ج۱۴، ص۲۱۸5. مقتل خوارزمی، ج۱، ص۱۸۴6. بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۲۸7. سنن ابن ماجہ، ج۱، فضائل اصحاب رسول8. صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۱۷؛ مسند احمد، ج۳، ص۳۶۹9. المستدرك، ج۳، ص۱۷۶؛ كنز العمال،ج۶، ص۲۲۳10. مقتل خوارزمی، ص۱۶۲11. مستدرك، ج۴، ص۱۹12. ارشاد الساری، ج۲، ص۳۹۳13. السیرۃ النبویۃ، ج۳، ص۱۰۵14. قیام عاشورا در كلام امام، ص۱۶