حضرت لوط علیہ السلام
“سدوم” قوم لوط كے ایك شھر اور آبادی كا نام تھا جو شامات(ملك اردن میں) ” بحر المیت” كے قریب واقع تھا جو آباد اور درختوں اور سبزہ زار سے بھرا تھا، لیكن اس بدكاروبے غیرت قوم پر عذاب الٰھی كے نازل هونے كے بعد، ان كے شھر مسمار اور تہ وبالا هوگئے، چنانچہ انھیں ” مدائن موٴتفكات”۔ (تہ وبالاهونے والے شھر) كہتے ھیں ۔
بعض كا نظر یہ، یہ ھے كہ ان شھروں كے ویرانے زیر آب آگئے ھیں، اور ان كا دعویٰ ھے كہ انهوں نے ” بحر المیت”كے ایك گوشہ میں كچھ ستون اور دوسرے آثار جوان شھروں كے خرابوں پر دلالت كرتے ھیں دیكھے ھیں ۔
جب كہ بعض لوگوں كا نظریہ ھے كہ قوم لوط كے شھر زیر آب نھیں آئے، اور اب بھی “بحر المیت”كے قریب ایك علاقہ ھے جو سیاہ پتھروں كے نیچے ڈھكا هوا ھے، احتمال ھے كہ قوم لوط كے شھروں كی جگہ یھیں هو ۔
اور یہ بھی كھا ھے كہ ابراھیم(ع) كا مركز شھر “حبرون” میں تھا، جو شھر” سدوم ” سے چنداں دور فاصلہ پر نھیں تھا، اور جس وقت زلزلہ یا صاعقہ كے زیراثران كے شھروں كو آگ لگی تو اس وقت ابراھیم حبرون كے قریب كھڑے هوئے تھے، اور شھر سے جو دھنواں اٹھ رھا تھا اسے اپنی آنكھ سے دیكھ رھے تھے ۔
اس گفتگو كے مجموعہ سے ان شھروں كے قریباً حدودواضح هوگئے، اگرچہ ان كے جزئیات كے ابھی تك پردہ ابھام میں ھیں ۔
قوم لوط كا سب سے بڑا اخلاقی انحراف
قرآن كریم اس عظیم پیغمبر اور ان كی قوم كے واقعہ كو اس طرح شروع كرتا ھے كہ “لوط كی قوم نے خدا كے بھیجے هوئے رسولوںكی تكذیب كی۔” (سوره شعراء آیت ۱۶۱)
“مرسلین” (رسولوں) كو جمع كی صورت میں بیان كرنے كی وجہ یا تویہ ھے كہ انبیاء علیھم السلام كی دعوت ایك هوتی ھے لہٰذا كسی بھی پیغمبر كی تكذیب سب كی تكذیب شمار كی جاتی ھے یا پھر اس لئے ھے كہ وہ گزشتہ كسی بھی پیغمبر پر ایمان نھیں ركھتے تھے۔پھر فرمایا گیا ھے: میں تمھارے لئے امین رسول هوں ۔
اب جبكہ صورت حال یہ ھے تو پرھیزگاری اختیاركرو، خدا سے ڈرو اور میری اطاعت كرو، كیونكہ میں راہ سعادت كا رھبر هوں ۔” (سوره شعراء آیت ۱۶۲۔)
كیا اب تك تم نے مجھ سے كوئی خیانت دیكھی ھے؟ اس كے بعد وحی الٰھی اور تمھارے رب كا پیغام پہنچانے میں بھی یقینا امانت كو مدنظر ركھوں گا ۔یہ نہ سمجھوكہ یہ دعوت الٰھی میرے گزراوقات كا ایك ذریعہ ھے یا كسی مادی مقصد كو پیش نظر ركھ كر ایسا كام كررھاهوں، نہ، میں تو ذرہ بھر بھی تم سے اجرت نھیں مانگتا، میرا اجر تو صرف عالمین كے رب كے پاس ھے۔” (سوره شعراء آیت ۱۶۳۔)
پھروہ ان كے ناشائستہ اعمال اورا ن كی كچھ اخلاقی بے راھروی كی باتوں كو بیان كرتے ھیں اور چونكہ ان كا بڑا انحراف اور ھم جنس بازی تھا لہٰذا اسی بات پرزیادہ زوردے كر كہتے ھیں: آیا تم ساری دنیا میں صرف مردوں كے پاس ھی جاتے هو “۔ (سوره شعراء آیت ۱۶۵)یعنی باوجود یكہ خداوندعالم نے اس قدر جنس مخالف تمھارے لئے خلق فرمائی ھے جن سے صحیح طریقے سے شادی كركے پاك وپاكیزہ اور اطمینان بخش زندگی بسركرسكتے هو ں
خدا كی اس پاك اور فطری نعمت كو چھوڑكر تم نے خود كو اس طرح كے پست اور حیا سوزكام سے آلودہ كرلیا ھے ۔
“اپنی ازواج كو ترك كردیتے هو جنھیں خدانے تمھارے لئے خلق فرمایا ھے تم تو تجاوز كرنے والی قوم هو ۔” (سوره شعراء آیت ۱۶۶)یقینا كسی روحانی یا جسمانی فطری ضرورت نے تمھیں اس بے راھروی پر آماوہ نھیں كیا بلكہ یہ تمھاری سركشی ھے جس نے تمھارے دامن كو اس شرمناك فعل كی گندگی سے آلودہ كردیا ھے ۔
تمھارے كام كی مثال ایسے ھے جیسے كوئی شخص خوشبودار میوے، مقوی اور صحیح سالم غذائیں چھوڑكرزھر آلوداور مارڈالنے والی غذاؤں كو استعمال كرے یہ فطری خواہش نھیں بلكہ سركشی ھے ۔
جھاں پر عفت ایك عیب هو
قوم لوط كے افراد جو بادہ شهوت وغرور سے مست هوچكے تھے، اس رھبر الٰھی كی نصیحتوں كو جان ودل سے قبول كرنے اور خود كو اس دلدل سے باھر نكالنے كی بجائے اس كے مقابلے پر تل گئے اور ان سے كھا: اے لوط(ع) !كافی هوچكا ھے، اب خاموش رهو اگر ان باتوں سے بازنہ آئے تو تمھارا شمار بھی اس شھر سے نكال دئیے جانے والوں میں سے هوگا “۔ (سورہ شعرا آیت ۱۶۷)
تمھاری باتیں ھماری فكر اور آرام میں خلل ڈال رھی ھیں ھم ان باتوں كے سننے كے ھرگز روادار نھیں، اگر تمھاری یھی حالت رھی تو ھم تمھیں سزادیں گے جو كم از كم جلاوطنی كی صورت میں هوگی ھے ۔قرآن مجیدمیں ایك اور مقام پر ھے كہ انھوں نے اپنی اس دھكی كو عملی جامہ بھی پہنایا اور حكم دیا كہ لوط(ع) كے خاندان كو شھرسے باھر نكال دو كیونكہ وہ پاك لوگ ھیں اور گناہ نھیں كرتے ۔
ان گمراہ اور گناہ سے آلود لوگوں كی جسارت اس حدتك جاپہنچی كہ تقویٰ اور طھارت ان كے درمیان بہت بڑا عیب سمجھا جانے لگا اور ناپا كی اور گناہ سے آلود گی سرمایہٴ افتخار اور یہ كسی معاشرے كی تباھی كی علامت هوتی ھے جو تیزی كے ساتھ برائیوں كی طرف بڑھ رھا هوتا ھے ۔اس سے معلوم هوتا ھے كہ اس فاسق وفاجر گروہ نے ایسے پاك وپاكیزہ لوگوں كوپھلے باھرنكال دیا جوان كوان كے بے هودہ اعمال سے روكا كرتے تھے لہذا انھوںنے حضرت لوط علیہ السلام كو بھی یھی دھمكی دی كہ اگر تم نے اپنے اس تبلیغی سلسلے كو جاری ركھا تو تمھارا بھی وھی انجام هوگا ۔بعض تفسیروں میں صراحت كے ساتھ تحریر ھے كہ وہ پاك دامن لوگوں كو بدترین طریقے سے جلاوطن كردیا كرتے تھے ۔
قرآن كہتا ھے ان كے پاس اس كے سوا اور كوئی جواب نھیں تھا كہ ایك دوسرے سے كھا: “لوط كے خاندان كو اپنے شھر اور علاقے سے نكال باھر كرو كیونكہ یہ برے پاكباز لوگ ھیں اور یہ اپنے تئیں ھم سے ھم آہنگ نھیں كرسكتے “۔ (سوره شعراء آیت ۱۶۷)یہ ایك ایسا جواب ھے جو ان كی فكری پستی اور انتھائی اخلاقی تنزل كا آئینہ دار ھے ۔
جی ھاں: مجرم اور گناہ سے آلودہ ماحول میں پاكیزگی ایك جرم وعیب هوا كرتی ھے یوسف جیسے پاكدامن كو عفت وپارسائی كے جرم میں زندانوں میں ڈالا جاتا ھے جبكہ زلیخائیں اس ماحول میں آزاد اور صاحب جاہ ومقام، هوا كرتی ھیں اور قوم لوط(ع) اپنے اپنے گھروں میں آرام وآساآش كے ساتھ رہتی ھے ۔یھیں پر قرآن مجید كا مصداق واضح هوجاتاھے جووہ گمراہ لوگوں كے بارے میں كہتا ھے كہ:
ھم (ان كے اپنے اعمال كی بناپر) ان كے دلوں پر مھرلگادیتے ھیں اور ان كی آنكھوں پر پردے ڈال دیتے اور ان كے كان بھرے هوجائے ۔
ایك احتمال یہ بھی ھے كہ وہ گناهوں كی دلدل میں اس حدتك پھنس چكے تھے كہ لوط كے خاندان كا تمسخراڑا كر كہتے تھے كہ وہ ھمیں ناپاك سمجھتے ھیں اور خود بڑے پاكباز بنتے ھیں، یہ كیسا مذاق ھے؟یہ عجیب بات نھیں تو اور كیا ھے كہ بے حیائی اور بے شرمی كے فعل سے مانوس هوجانے كی وجہ سے انسان كی حس شناخت ھی یكسر بدل جائے یہ بالكل اس چمڑارنگنے والے كی مثال ھے جوبدبوسے مانوس هوچكا تھا اور جب ایك مرتبہ وہ عطاروں كے بازارسے گزررھا تھا تو عطر كی نامانوس بوكی وجہ سے بے هوش هوگیا، جب اسے حكیم كے پاس لے گئے تو اس نے حكم دیا كہ اسے دوبارہ چمڑار نگنے والوں كے بازار میں لے جایاجائے چنانچہ ایسا ھی كیا گیا اور وہ هوش میں آگیا اور مرنے سے بچ گیایہ واقعاًاس بارے میں ایك دلچسپ حسی مثال ھے ۔
30 سال سعی و كوشش
جناب لوط علیہ السلام نے اس قوم كو تیس سال تك تبلیغ كی، لیكن اپنے خاندان كے سوا(اور وہ بھی بیوی كو مستثنیٰ كر كے كیونكہ وہ مشركین كے ساتھ ھم عقیدہ هوگئی تھی) ، اور كوئی آپ پر ایمان نھیں لایا۔
لیكن حضرت لوط علیہ السلام نے ان دھمكیوں كی كوئی پرواہ نہ كی اور اپنا كام جاری ركھا اور كھا: ” میں تمھارے ان كاموں كا دشمن هوں ۔” (سوره شعراء آیت ۱۶۷)یعنی میں اپنا احتجاج برابر جاری ركھوں گا، تم جو كچھ میرا بگاڑنا چاہتے هو بگاڑلو، مجھے راہ خدا اور برائیوں كے خلاف جھاد كے سلسلے میں ان دھمكیوں كی قطعا ًكوئی پرواہ نھیں ھے۔
اس احتجاج میں اور بھی بہت سے لوگ جناب لوط علیہ السلام كے ھمنوا هوچكے تھے، یہ اوربات ھے كہ سركش قوم نے آخركارانھیں جلاوطن كردیا ۔
لائق توجہ بات یہ كہ حضرت لوط علیہ السلام فرماتے ھیں كہ “تمھارے اعمال كا دشمن هوں” یعنی مجھے تمھاری ذات سے دشمنی نھیں بلكہ تمھارے شرمناك اعمال سے نفرت ھے اگر ان اعمال كو اپنے سے دور كردو تو پھر تم میرے پكے دوست بن جاوٴگے ۔
بھرحال جناب لوط علیہ السلام كی ذمہ داری كا آخری مرحلہ آن پہنچا لہٰذا وقت آپہنچا كہ جناب لوط علیہ السلام خود كو بھی اور جو لوگ ان پر ایمان لاچكے ھیں انھیں بھی اس گناہ آلود علاقے سے باھر نكال كرلے جائیں تاكہ هولناك عذاب اس بے حیاقوم كو اپنی لپیٹ میں لے لے ۔
حضرت لوط علیہ السلام نے اللہ كی بارگاہ میں دست دعا بلند كركے كھا:
“پروردگار: ! جو كچھ یہ لوگ كہہ رھے ھیںمجھے اور میرے خاندان كو اس سے نجات دے ۔” (سوره شعراء آیت ۱۶۹)
یہ ھے گناہ گاروں كا انجام
آخركار حضرت لوط علیہ السلام كی دعا مستجاب هوئی اور خدا كی طرف سے اس قوم تباہ كار كے خلاف سخت سزا كا حكم صادر هوا، وہ فرشتے جو عذاب نازل كرنے پر مامور تھے قبل اس كے كہ سرزمین لوط پر اپنا فرض ادا كرنے كے لئے جاتے، حضرت ابراھیم (ع) كے پاس ایك اور پیغام لے كر گئے اور وہ پیغام تھا، حضرت ابراھیم (ع) كو فرزند كی پیدائش كی خوشخبری تھی ۔
“اس كی وضاحت یہ ھے كہ: ابراھیم شام كی طرف جلا وطن هونے كے بعد لوگوں كو خدا كی طرف دعوت دینے اور ھر قسم كے شرك و بت پرستی كے خلاف مبارزہ كرنے میں مصروف تھے، حضرت “لوط”جو ایك عطیم پیغمبر تھے، ان ھی كے زمانہ میں هوئے ھیں اور احتمال یہ ھے كہ آپ ھی كی طرف سے مامور هوئے تھے، كہ گمراهوں كو تبلیغ و ہدایت كرنے كے لئے شام كے ایك علاقہ (یعنی سدوم كے شھروں كی طرف) سفر كریں، وہ ایك ایسی گناہگار قوم كے درمیان آئے جو شرك اور بہت سے گناهوں میں آلودہ تھی، اور سب سے قبیح گناہ اغلام اور لواطت تھی، آخر كار فرشتوں كا ایك گروہ، اس قوم كی ھلاكت پر ماٴ مور هوا لیكن وہ پھلے ابراھیم(ع) كے پاس آئے۔
ابراھیم(ع) مھمانوں كی وضع و قطع سے سمجھ گئے كہ یہ كسی اھم كام كے لئے جارھے ھیں، اور صرف بیٹے كی ولادت كی بشارت كے لئے نھیں آئے، كیونكہ اس قسم كی بشارت كے لئے تو ایك ھی شخص كا فی تھا، یا اس عجلت كی وجہ ھے جو وہ چلنے كے لئے كر رھے تھے، اس سے محسوس كیا كہ كوئی اھم ڈیوٹی ركھتے ھیں”۔ قرآن میںحضرت ابراھیم علیہ السلام سے ملاقات كا ذكر ھے چنانچہ كھا گیا ھے: جس وقت ھمارے ایلچی حضرت ابراھیم علیہ السلام كے پاس بشارت لے كرگئے ۔انھیں اسحاق اور یعقوب كے پیدا هونے كی خوش خبری سنائی اور پھر (قوم لوط كی بستی كی طرف اشارہ كرتے هوئے) كھا كہ ھم اس شھر اور اس میں رہنے والوں كو ھلاك كردیں گے كیونكہ یہ لوگ ظالم ھیں۔ ” (سوره عنكبوت آیت ۳۱)
چونكہ فرشتوں نے “ھذہ القریة”۔ كھا اس سے ثابت هوتا ھے كہ قوم لوط اسی مقام كے قرب جوار میں رہتی تھی جھاں حضرت ابراھیم(ع) رہتے تھے۔، اور اس قوم كو لفظ “ظالم” سے یاد كرنا اس وجہ سے تھا كہ وہ اپنے نفوس پر ظلم كرتے تھے یھاں تك كہ اس طرف سے گزرنے والے مسافروں اور قافلوں پر بھی ستم كرتے تھے ۔
جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یہ بات سنی تو انھیں حضرت لوط پیغمبر خدا كی فكر هوئی اور كھا: “اس آبادی میں تو لوط بھی ھے”۔(سوره عنكبوت آیت ۳۲۔)
اس پر كیا گزرے گی؟
مگر فرشتوں نے فورا ًجواب دیا: “آپ فكر نہ كریں ھم ان سب لوگوں سے خوب واقف ھیں جو اس بستی میں رہتے ھیں”۔ (سوره عنكبوت آیت۳۲)
ھم اندھا دھند عذاب نازل نھیں كریں گے ھمارا پروگرام نھایت سنجیدہ اور نپاتلاھے ۔
فرشتوںنے یہ بھی كھا كہ” ھم لوط(ع) اور اس كے خاندان كو نجات دیں گے بجز اس كی بیوی كے كہ جو اس قوم كے ساتھ ھی مبتلائے عذاب هوگی”۔ (سوره عنكبوت آیت۳۲)
صرف ایك خاندان مومن اور پاك
فرآن سے بخوبی ثابت هوتاھے كہ اس علاقے كی تمام آبادیوں اور بستیوں میں صرف ایك ھی خاندان مومن اور پاك نفس تھا اور خدانے بھی اسے عذاب سے نجات دی جیسا كہ قرآن میں مذكورھے:
“ھم نے وھاں ایك خاندان كے سوائے كوئی بھی مسلمان نہ پایا ۔” (سوره ذاریات آیت۳۶۔)یھاں تك كہ حضرت لوط كی زوجہ بھی مومنین كی صف سے خارج تھی اس لئے وہ بھی عذاب میں گرفتار هوئی ۔
وہ عورت جو خانوادہ ٴنبوت میں شامل تھی اسے تو “موٴمنین اور مسلمین ” سے جدا نھیں هونا چاہئے تھا مگر وہ اپنے كفرو شرك اور بت پرستی كی وجہ سے اس صنف سے جدا هوگئی ۔
اس طرح كلام سے واضح هوتاھے كہ وہ عورت منحرف العقیدہ تھی كچھ بعید نھیں كہ اس میں یہ بد عقیدگی اس مشرك معاشرے كے اثر سے پیداهوگئی هو ا، ور ابتدا میں مومن وموحد هو اس صورت میں حضرت لوط پر یہ اعتراض نھیں هوتا كہ انھوں نے ایسی مشركہ سے نكاح ھی كیوں كیا تھا؟یہ خیال بھی هوتاھے كہ اگر كچھ اور لوگ حضرت لوط علیہ السلام پر ایمان لائے هوں گے تو وہ حتما ًنزول عذاب سے پھلے اس گناہ آلود زمین سے ہجرت كرگئے هوں گے، تنھا حضرت لوط علیہ السلام اور ان كے اھل وعیال اس مقام پر اس توقع سے آخری وقت تك ٹھھرے هوں گے كہ ممكن ھے ان كی تبلیغ اور ڈرانے كا لوگوں پر اثرهو۔ی
ھاں تك كہ حضرت ابراھیم علیہ السلام سے فرشتوں كی گفتگو ختم هوگئی اور وہ حضرت لوط علیہ السلام كے علاقے كی طرف روانہ هوگئے ۔
حضرت لوط علیہ السلام مھمانوں كو دیكھ كر پریشان هوگئے
قرآن میں ارشاد هوتاھے:
“جب ھمارے رسول، لوط(ع) كے پاس آئے تو وہ ان كے آنے پر بہت ھی ناراحت اور پریشان هوئے، ان كی فكر اورروح مضطرب هوئی اور غم واندوہ نے انھیں گھیرلیا ۔” (سوره هودآیت ۷۷)
اسلامی روایات اور تفاسیر میں آیا ھے كہ حضرت لوط اس وقت اپنے كھیت میں كام كررھے تھے، اچانك انهوں نے خوبصورت نوجوانوں كو دیكھا جو ان كی طرف آرھے تھے وہ ان كے یھاں مھمان هونا چاہتے تھے، اب حضرت لوط(ع) مھمانوں كی پذیرائی بھی چاہتے تھے لیكن اس حقیقت كی طرف بھی ان كی توجہ تھی كہ ایسے شھر میں جو انحراف جنسی كی آلود گی میں غرق ھے۔
ان خوبصورت نوجوانوں كا آنا طرح طرح كے مسائل كا موجب ھے اور ان كی آبروریزی كا بھی احتمال ھے، اس وجہ سے حضرت لوط سخت مشكل سے دوچار هوگئے یہ مسائل، روح فرسا افكار كی صورت میں ان كے دماغ میں ابھرے اور انهوں نے آہستہ آہستہ اپنے آپ سے كہنا شروع كیا! آج بہت سخت اورو حشتناك دن ھے۔” (سوره هودآیت ۷۷)
بھرحال حضرت لوط علیہ السلام كے پاس اس كے علاوہ كوئی چارہ كار نہ تھا كہ وہ اپنے نووارد مھمانوں كو اپنے گھرلے جاتے، لیكن اس بناء پر كہ وہ غفلت میں نہ رھیں راستے میں چند مرتبہ ان كے گوش گزار كردیا كہ اس شھر میں شریر اور منحرف لوگ رہتے ھیں تاكہ اگر مھمان ان كا مقابلہ نھیں كرسكتے تو صورت حال كا اندازہ كرلیں۔
خداوند عالم نے فرشتوں كو حكم دیا تھا كہ جب تك یہ پیغمبر تین مرتبہ اس قوم كی برائی اور انحراف كی گواھی نہ دے انھیں عذاب نہ دیا جائے (یعنی یھاں تك كہ ایك گنہگار قوم سے متعلق بھی حكم خدا عدالت كے ایك عادلانہ فیصلے كی روشنی میں انجام پائے) اور ان رسولوں نے راستے میں تین مرتبہ لوط علیہ السلام كی گواھی سن لی ۔
حضرت لوط علیہ السلام نے مھمانوں كو اتنی دیر تك (كھیت میں) ٹھھرائے ركھا كہ رات هوگئی تاكہ شاید اس طرح اس شریر اور آلودہ قوم كی آنكھ سے بچ كر حفظ آبرو كے ساتھ ان كی پذیرائی كر سكیں لیكن جب انسان كا دشمن خود اس كے گھر كے اندر موجود هوتو پھر كیا كیا جاسكتا ھے حضرت لوط علیہ السلام كی بیوی كو جوایك بے ایمان عورت تھی اور اس گنہگار قوم كی مدد كرتی تھی جب اسے ان نوجوانوں اور خوبصورت مھمانوں كے آنے كی خبر هوئی تو چھت پر چڑھ گئی پھلے اس نے تالی بجائی پھر آگ روشن كركے اس كے دھوئیں كے ذریعے اس نے منحرف قوم كے بعض لوگوں كو آگاہ كیا كہ لقمہٴ تر جال میں پھنس چكا ھے ۔
قوم لوط(ع) آپ كے گھر میں داخل هوگئی
شھروالوں كو جب لوط علیہ السلام كے پاس آنے والے نئے مھمانوں كا پتہ چلاتو وہ ان كے گھر كی طرف چل پڑے، راستے میں وہ ایك دوسرے كو خوشخبری دیتے تھے۔ گمراھی كی شرمناك وادی میں بھٹكنے والے ان افراد كا خیال تھا كہ گویا نرمال ان كے ھاتھ آگیا ھے خوبصورت اور خوش رنگ نوجوان اور وہ بھی لوط كے گھر میں ۔
قرآن میںاس جگہ اھل مدینہ استعمال هوا ھے اوریہ كی تعبیر نشاندھی كرتی ھے كہ كم از كم شھر كے بہت سے لوگ ٹولیوں میںحضرت لوط علیہ السلام كے گھر كی طرف چل پڑے، اس سے یہ امر واضح هوتا ھے كہ وہ كس حدتك بے شرم، ذلیل اور جسور تھے خصوصا لفظ “یستبشرون “(ایك دوسرے كو بشارت دیتے تھے) ان كی آلودگی كی گھرائی كی حكایت كرتا ھے كیونكہ یہ ایك ایسا شرمناك عمل ھے كہ شاید كسی نے اس كی نظیرجانوروں میں بھی بہت ھی كم دیكھی هوگی اور یہ عمل اگر كوئی انجام دیتا بھی ھے تو كم از كم چھپ چھپا كراور احساس شرمندگی كے ساتھ ایسا كرتا ھے لیكن یہ بدكاراور كمینہ صفت قوم كھلم كھلا ایك دوسرے كو مباركباد دیتی تھی۔
حضرت لوط علیہ السلام نے جب ان كا شوروغل سنا تو بہت گھبرائے اورمضطرب هوئے انھیں اپنے مھمانوں كے بارے میں بہت خوف هوا كیونكہ ابھی تك وہ نھیں جانتے تھے كہ یہ مھمان مامورین عذاب ھیںاور قادر وقاھر خدا كے فرشتے ھیں لہذا وہ ان كے سامنے كھڑے هوگئے اور كہنے لگے: یہ میرے مھمان ھیں، میری آبرونہ گنواؤ۔” (سوره حجر آیت ۶۸)ی
عنی اگر تم خدا، پیغمبر اور جزاء وسزا كے مسئلہ سے صرف نظر كرلو تو بھی كم از كم یہ انسانی مسئلہ ھے اور یہ بات تو سب انسانوں میں چاھے مومن هوں یا كافر، موجود ھے كہ وہ مھمانوں كا احترام كرتے ھیں تم كیسے انسان هو كہ اتنی سی بات بھی نھیں مانتے هو اگر تمھارا كوئی دین نھیں تو كم ازكم آزاد انسان تو بنو ۔اس كے بعد آپ نے مزید كھا: آؤ خدا سے ڈرو اور مجھے میرے مھمانوں كے سامنے شرمسار نہ كرو۔” (سوره حجرآیت ۶۹)
لیكن، وہ بہت جسوراورمنہ پھٹ تھے بجائے اس كے كہ و ہ شرمندہ هوتے كہ انهوں نے اللہ كے پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام سے كے سا مطالبہ كیا ھے الٹا اس طرح سے پیش آئے جیسے لوط علیہ السلام سے كوئی جرم سرزد هوا ھے انھوں نے زبان اعتراض دراز كی اور كہنے لگے: ” كیا ھم نے تجھ سے نہ كھا تھا كہ دنیا والوں كو اپنے یھاں مھمان نہ ٹھھرانا اور كسی كو اپنے یھاں نہ آئے دینا ۔” (سوره حجر آیت ۷۰)
تم نے اس كی خلاف ورزی كیوں كی اور ھمارے كہنے پر عمل كیوں نہ كیا ۔یہ اس بناء پر تھا كہ یہ قوم انتھائی كم ظرف اور كنجوس تھی یہ لوگ ھرگز كسی كو اپنے یھاں مھمان نھیں ٹھھراتے تھے اور اتفاق سے ان كے شھرقافلوں كے راستے میں پڑتے تھے كہتے ھیں كہ انھوں نے یہ كام بعض
آنے والوں كے ساتھ اس لئے كیا كوئی ان كے یھاں ٹھھرے نہ، آہستہ آہستہ ان كی عادت بن گئی لہٰذا جب حضرت لوط علیہ السلام كو شھر میںكسی مسافر كے آنے كی خبر هوتی تو اسے اپنے گھر میں دعوت دیتے تاكہ وہ كھیں ان كے چنگل میں نہ پھنس جائے ان لوگوں كو جب اس كا پتہ چلاتو بہت سیخ پاهوئے اور حضرت لوط علیہ السلام سے كھل كر كہنے لگے كہ تمھیں كوئی حق نھیں پہنچتا كہ اب تم كسی مھمان كو اپنے گھرلے جاؤ ۔
اے كاش میں تم سے مقابلہ كرسكتا
بھر حال جب حضرت لوط علیہ السلام نے ان كی یہ جسارت اور كمینہ پن دیكھی تو انھوں نے ایك طریقہ اختیار كیا تاكہ انھیں خواب غفلت اور انحراف وبے حیائی كی مستی سے بیدار كرسكیں ۔ آپ نے كھا: تم كیوں انحراف كے راستے پر چلتے هو اگر تمھارا مقصد جنسی تقاضوں كو پورا كرنا ھے تو جائز اور صحیح طریقے سے شادی كركے انھیں پورا كیوں نھیں كرتے، ، یہ میری بیٹیاں ھیں (تیار هوں كہ انھیں تمھاری زوجیت میں دے دوں) اگر تم صحیح كام انجام دینا چاہتے هو تو اس كا راستہ یہ ھے ۔” (سوره حجر آیت ۷۱)
اس میں شك نھیں كہ حضرت لوط علیہ السلام كی تو چند بیٹیاں تھیں اور ان افراد كی تعداد زیادہ تھی لیكن مقصدیہ تھا كہ ان پر اتمام حجت كیا جائے اور كھا جائے كہ میں اپنے مھمانوں كے احترام اور حفاظت اور تمھیں برائی كی دلدل سے نكالنے كے لئے اس حد تك ایثار كے لئے تیار هوں۔یہ بات واضح ھے كہ جناب لوط یونھی اپنی لڑكیوں كا عقد ان مشركوں اور گمراهوں سے نھیں كرنا چاہتے تھے بلكہ مقصد یہ تھا كہ پھلے ایمان لے آوٴ تاكہ بعد میں اپنے لڑكیوں كی شادی تم سے كردوں۔
لیكن افسوس! شهوت، انحراف اور ہٹ دھرمی كے اس عالم میں ان میں ذرہ بھر بھی انسانی اخلاق اور جذبہ باقی هوتا تو كم از كم اس امر كے لئے كافی تھا كہ وہ شرمندہ هوتے اور پلٹ جاتے، مگرنہ صرف یہ كہ وہ شرمندہ نہ هوئے بلكہ اپنی جسارت میں اور بڑھ گئے اور چاھا كہ حضرت لوط كے مھمانوں كی طر ف ھاتھ بڑھائیں ۔
وہ قوم حرص اور شوق كے عالم میں اپنے مقصد تك پہنچنے كے لئے بڑی تیزی سے لوط كی طرف آئی۔
مگر اس تباہ كار قوم نے نبی خدا حضرت لوط(ع) كو بڑی بے شرمی سے جواب دیا:
“تو خود اچھی طرح سے جانتا ھے كہ ھماراتیری بیٹیوں میں كوئی حق نھیں، اور یقینا تو جانتا ھے كہ ھم كیا چاہتے ھیں ۔” (سوره هودآیت ۷۹)یہ وہ مقام تھا كہ اس بزر گوار پیغمبر نے اپنے آپ كو ایك محاصرے میں گھراهوا پایا اور انهوں نے ناراحتی وپریشانی كے عالم میں فریاد كی: اے كاش: مجھ میں اتنی طاقت هوتی كہ میں اپنے مھمانوں كا دفاع كر سكتا اورتم جیسے سر پھروں كی سركوبی كرسكتا “۔(سوره هود آیت ۸۰) ی
ا كوئی مستحكم سھارا هوتا، كوئی قوم و قبیلہ میرے پیروكارںمیں سے هوتا اور میرے كوئی طاقتور ھم پیمان هوتے كہ جن كی مدد سے تم منحرف لوگوں كا مقابلہ كرتا۔ (سورہ هود آیت۸۰)
اے لوط(ع) آپ پریشان نہ هوئیے
آخر كار پروردگار كے رسولوں نے حضرت لوط كی شدید پریشانی دیكھی اور دیكھا كہ وہ روحانی طور پر كس اضطراب كا شكار ھیں تو انهوں نے اپنے اسرار كار سے پردہ اٹھایا اور ان سے كھا: “اے لوط(ع) : ھم تیرے پروردگار كے بھیجے هوئے ھیں، پریشان نہ هومطمٴن رهو كہ وہ ھرگز تجھ پر دسترس حاصل نھیں كرسكیں گے”۔ (سورہ هود آیت ۸۱)
قرآن میں دوسری جگہ پر ھے: 1یہ آیت نشاندھی كرتی ھے كہ اس وقت حملہ آورقوم پروردگار كے ارادے سے اپنی بینائی كھوبیٹھی تھی
اور حملے كی طاقت نھیں ركھتی تھی بعض روایات میں بھی ھے كہ ایك فرشتے نے مٹھی بھر خاك ان كے چھروں پر پھینكی جس سے وہ نابینا هوگئے ۔
بھرحال جب لوط اپنے مھمانوں كے بارے میں ان كی ماموریت كے بارے میں آگاہ هوئے تو یہ بات اس عظیم پیغمبر كے جلتے هوئے دل كے لئے ٹھنڈك كی مانند تھی، ایك دم انهوں نے محسوس كیا كہ ان كے دل سے غم كا بار گراں ختم هوگیا ھے اور ان كی آنكھیں خوشی سے چمك اٹھیں، ایسا هوا جیسے ایك شدید بیماری كی نظر مسیحاپر جاپڑے، انهوں نے سكھ كا سانس لیا اور سمجھ گئے كہ غم واندوہ كا زمانہ ختم هورھاھے اور اس بے شرم حیوان صفت قوم كے چنگل سے نجات پانے كا اور خوشی كا وقت آپہنچا ھے ۔
مھمانوں نے فوراً لوط علیہ السلام كو حكم دیا: تم تاریكی شب میں اپنے خاندان كو اپنے ساتھ لے لو اور اس سرزمین سے نكل جاؤ لیكن یہ پابندی ھے كہ ” تم میں سے كوئی شخص پس پشت نہ دیكھے۔ “2
اس حكم كی خلاف ورزی فقط تمھاری معصیت كار بیوی كرے گی كہ جو تمھاری گنہگار قوم كو پہنچنے والی مصیبت میں گرفتار هوگی ۔” (سورہ هود آیت ۸۱)
كیا صبح قریب نھیں ھے؟
بالآخر انھوں نے لوط سے آخری بات كھی: “نزول عذا ب كا لمحہ اور وعدہ كی تكمیل كا موقع صبح ھے اور صبح كی پھلی شعاع كے ساتھ ھی اس قوم كی زندگی غروب هوجائے گی ۔” (سوره هود آیت ۸۱)
ابھی اٹھ كھڑے هو اور جتنا جلدی ممكن هو شھر سے نكل جاؤ”كیا صبح نزدیك نھیں ھے ۔” (سوره هود آیت ۸۱)
بعض روایات میں ھے كہ جب ملائكہ نے كھا كہ عذاب كے وعدہ پر عمل درآمدصبح كے وقت هوگا توحضرت لوط علیہ السلام كو جو اس آلودہ قوم سے سخت ناراحت اور پریشان تھے، وھی قوم كہ جس نے اپنے شرمناك اعمال سے ان كا دل مجروح كرركھا تھا اور ان كی روح كو غم واندوہ سے بھردیا تھا، فرشتوں سے خواہش كی كہ اب جب كہ ان كو نابودھی هونا ھے تو كیا ھی اچھا هو كہ جلدی ایسا هو لیكن انهوں نے حضرت لوط كی دلجوئی اور تسلی كے لئے كھا: كیاصبح نزدیك نھیں ھے؟
آخركار عذاب كا لمحہ آن پہنچا اور لوط پیغمبر علیہ السلام كے انتظاركے لمحے ختم هوئے، جیسا كہ قرآن كہتا ھے:
“جس وقت ھمارا فرمان آن پہنچا تو ھم نے اس زمین كو زیروزبر كردیا اور ان كے سروں پر مٹیلے پتھروں كی پیھم بارش برسائی ۔” (سوره هود آیت ۸۲)
پتھروں كی یہ بارش اس قدر تیز اور پے درپے تھی كہ گویا پتھرایك دوسرے پر سوار تھے ۔لیكن یہ معمولی پتھرنہ تھے بلكہ تیرے پروردگار كے یھاں معین اور مخصوص تھے “مسومة عند ربك”۔ البتہ یہ تصور نہ كریں كہ یہ پتھر قوم لوط كے ساتھ ھی مخصوص تھے بلكہ “یہ كسی ظالم قوم اور جمعیت سے دور نھیں ھیں۔” (سوره هود آیت ۸۳)
اس بے راہ روااور منحرف قوم نے اپنے اوپر بھی ظلم كیا اور اپنے معاشرے پر بھی وہ اپنی قوم كی تقدیر سے بھی كھیلے اور انسانی ایمان واخلاق كا بھی مذاق اڑایا، جب ان كے ھمدرد رھبر نے داد وفریاد كی تو انهوں نے كان نہ دھرے اور تمسخركیا اعلیٰ ڈھٹائی، بے شرمی اور بے حیائی یھاں تك آپہنچی كہ وہ اپنے رھبر كے مھمانوں كی حرمت وعزت پر تجاوز كے لئے بھی اٹھ كھڑے هوئے ۔یہ وہ لوگ تھے كہ جنهوں نے ھر چیز كو الٹ كر ركھ دیا ان كے شھروں كو بھی الٹ جانا چاہئے تھا فقط یھی نھیں كہ ان كے شھرتباہ وبرباد هوجاتے بلكہ ان پر پتھروں كی بارش بھی هونا چاہئے تھی تاكہ ان كے آخری آثار حیات بھی درھم وبرھم هوجائیں اور وہ ان پتھروں میں دفن هوجائیں اس سے كہ ان كا نام ونشان اس سرزمین میں نظر نہ آئے، صرف وحشت ناك، تباہ وبرباد بیابان، خاموش قبرستان اور پتھروں میں دبے هو ئے مردوں كے علاوہ ان میں كچھ باقی نہ رھے ۔
كیا صرف قوم لوط(ع) كو یہ سزا ملنی چاہئے ۔۔۔۔۔۔ نھیں، یقینا ھر گز نھیں بلكہ ھر منحرف گروہ اور ستم پیشہ قوم كے لئے ایسا ھی انجام انتظار میں ھے كبھی سنگریزوں كی بارش كے نیچے، كبھی آگ اگلتے بموں كے نیچے اور كبھی معاشرے كے لئے تباہ كن اختلافات كے تحت ۔۔۔۔۔۔۔ خلاصہ یہ كہ ھر ستمگر كو كسی نہ كسی صورت میں ایسے عذاب سے دوچار هونا پڑے گا ۔
صبح كے وقت نزول عذاب كیوں؟
یھاں پر ذہن میں یہ سوال پیدا هوتاھے كہ نزول عذاب كےلئے صبح كا وقت كیوں منتخب كیا گیا رات كے وقت ھی عذاب كیوں نازل نھیں هوا؟
ایسا اس لئے تھا كہ جب حضرت لوط(ع) كے گھر پر چڑھ آنے والے افراد اندھے هوگئے اور قوم كے پاس لوٹ كر گئے اور واقعہ بیان كیا تو وہ كچھ غور وفكر كرنے لگے، معاملہ كیا ھے خدانے صبح تك انھیں مھلت دی كہ شاید بیدار هوجائیں اور اس كی بارگاہ كی طرف رجوع كریں اور توبہ كریں یا یہ كہ خدا نھیں چاہتا تھا كہ رات كی تاریكی میں ان پر شب خون مارا جائے اسی بناء پر حكم دیا كہ صبح تك مامور عذاب سے ھاتھ روكے ركھیں۔تفاسیر میں اس كے بارے میں تقریباً كچھ نھیںلكھا گیا لیكن جو كچھ ھم نے اوپر ذكر كیا ھے وہ اس سلسلے میں پند قابل مطالعہ احتمالات ھیں۔
زیرو زبركیوں كیا گیا
ھم كہہ چكے ھیں كہ چكے ھیں كہ عذاب كی گناہ سے كچھ نہ كچھ مناسبت هونا چاہئے، اس قوم نے انحراف جنسی كے ذریعہ چونكہ ھر چیز كوالٹ پلٹ كردیا تھا لہٰذا خدا نے بھی ان شھروں كو زیرو زبر كردیا اور چونكہ روایات كے مطابق ان كے منہ سے ھمیشہ ركیك اور گندی گندگی كی بارش هوتی تھی لہٰذا خدانے بھی ان پر پتھروں كی بارش برسائی ۔
جس نكتے كا ھم آخر میں ذكر ضروری سمجھتے ھیں وہ یہ ھے كہ جنسی انحراف كی طرف افراد كے میلان كے بہت سے علل واسباب ھیں یھاں تك كہ بعض اوقات ماں باپ كا اپنی اولاد سے سلوك یا ھم جنس اولاد كی نگرانی نہ كرنا، ان كے طرز معاشرت اور ایك ھی جگہ پر سونا وغیرہ بھی هوسكتا ھے اس آلودگی كا ایك عامل بن جائے ۔
بعض اوقات ممكن ھے كہ اس انحراف سے ایك اور اخلاقی انحراف جنم لے لے، یہ امر قابل توجہ ھے كہ قوم لوط كے حالات میں ھے كہ ان كے اس گناہ میں آلودہ هونے كا ایك سبب یہ تھا كہ وہ بخیل اور كنجوس لوگ تھے اور چونكہ ان كے شھر شام جانے والے قافلوں كے راستے میں پڑتے تھے اور وہ نھیں چاہتے تھے كہ مھمانوں اور مسافروں كی پذیرائی كریں لہٰذا ابتداء میں وہ اس طرح ظاھر كرتے تھے كہ وہ چاہتے تھے كہ مھمانوں اور مسافروں كو اپنے سے دور بھگائیں لیكن تدریجاًیہ عمل ان كی عادت بن گیا اور انحراف جنسی كے میلانات آہستہ آہستہ ان كے وجود میں بیدار هوگئے اور معاملہ یھاں تك جاپہنچا كہ وہ سرسے لے كر پاؤںتك اس میں آلودہ هوگئے ۔3
قوم لوط (ع) كا اخلاق
اسلامی روایات وتواریخ میں جنسی انحراف كے ساتھ ساتھ قوم لوط(ع) كے برے اور شرمناك اعمال اور گھٹیا كردار بھی بیان هواھے ۔
كھا گیا ھے كہ ان كی مجالس اور بیٹھكیں طرح طرح كے منكرات اور برے اعمال سے آلودہ تھیں وہ آپس میں ركیك جملوں، فحش كلامی اور پھبتیوں كا تبادلہ كرتے تھے ایك دوسرے كی پشت پر مكے مارتے تھے قمار بازی كرتے تھے بچوں والے كھیل كھیلتے تھے گزرنے والوں كو كنكریاں مارتے تھے طرح طرح كے آلات موسیقی استعمال كرتے تھے او رلوگوں كے سامنے برہنہ هو جاتے تھے اور اپنی شرمگاهوں كو ننگاكردیتے تھے ۔
واضح ھے كہ اس قسم كے گندے ماحول میں ھر روز انحراف اور بدی نئی شكل میں رونما هوتی ھے اور وسیع سے وسیع تر هوتی چلی جاتی ھے ایسے ماحول میں اصولی طور پر برائی كا تصور ختم هوجاتاھے اور لوگ اس طرح سے اس راہ پر چلتے ھیں كہ كوئی كام ان كی نظر میں برا اور قبیح نھیں رہتا ان سے زیادہ بد بخت وہ قومیں ھیں جو علم كی پیش رفت كے زمانے میں انھی راهوں پر گا مزن ھیں، بعض اوقات تو ان كے اعمال اس قدر شرمناك اور رسوا كن هوتے ھیں كہ قوم لوط كے اعمال بھول جاتے ھیں ۔
حضرت لوط (ع) كی بیوی كافروں كے لئے مثال
قرآن مجید میں ارشاد هوتا ھے “خدا نے كافروں كے لئے ایك مثال بیان كی ھے” نوح علیہ السلام كی بیوی كی مثال اور لوط علیہ السلام كی بیوی كی مثال “وہ دونوں ھمارے دوصالح بندوں كے ما تحت تھیں لیكن انهوں نے ان سے خیانت كی، لیكن ان دو عظیم پیغمبر وں سے ان كے ارتباط نے عذاب الٰھی كے مقابلہ میں انھیں كوئی نفع نھیں دیا اور ان سے كھا گیا كہ تم بھی آگ میں داخل هونے والے لوگوں كے ساتھ آگ میں داخل هوجاؤ۔ ” (سوره تحریم آیت ۱۰)
حضرت نوح كی بیوی كا نام “والھہ” اور حضرت لوط كی بیوی كا نام “والعة”تھا ۱ اور بعض نے اس كے برعكس لكھا ھے یعنی نوح كی بیوی كانام”والعة” اورلوط كی بیوی كا نام “والھہ” یا “واھلہ” كھا ھے۔
بھرحال ان دونوں عورتوں نے ان دونوں عظیم پیغمبروں كے ساتھ خیانت كی، البتہ ان كی خیانت جائدہ عفت سے انحراف ھرگزنھیں تھا كیونكہ كسی پیغمبر كی بیوی ھرگز بے عفتی سے آلودہ نھیں هوتی جیسا كہ پیغمبر اسلام سے ایك حدیث میں صراحت كے ساتھ بیان هواھے:
“كسی بھی پیغمبر كی بیوی ھرگز منافی عفت عمل سے آلودہ نھیںهوئی”۔
حضرت لوط كی بیوی كی خیانت یہ تھی كہ وہ اس پیغمبر كے دشمنوں كے ساتھ تعاون كرتی تھی اور ان كے گھر كے راز انھیں بتاتی تھی اور حضرت نوح (ع) كی بیوی بھی ایسی ھی تھی ۔
حواشی1 . وہ لوط علیہ السلام كے مھمانوں كے بارے میں تجاوز كا ارادہ ركھتے تھے لیكن ھم نے ان كی آنكھیںاندھی كردیں۔
2 . “ولا یلتفت منكم احد”۔ كی تفسیر میں مفسیرین نے چند احتمال ذكر كیے ھیں:
پھلا یہ كوئی شخص اپنی پس پشت نہ دیكھے ۔
دوسرا یہ كہ شھر میں سے مال اور وسائل لے جانے كی فكر نہ كرے بلكہ صرف اپنے آپ كو اس ھلاكت سے نكال لے جائے ۔
تیسرایہ كہ اس خاندان كے اس چھوٹے سے قافلہ میں سے كوئی شخص پیچھے نہ رہ جائے۔
چوتھا یہ كہ تمھارے نكلنے كے وقت زمین ھلنے لگے كی اور عذاب كے آثار نمایاں هوجائیں گے لہٰذا اپنے پس پشت نگاہ نہ كرنا اور جلدی سے دور نكل جانا۔
البتہ كوئی مانع نھیں ھے كہ یہ سب احتمالات اس آیت كے مفهوم میں جمع هوں
3 . یھاں تك كے فضول قسم كا مذاق جو كبھی كبھی لڑكوں كے درمیان اپنے ھم جنسوں كے بارے میں هوتا ھے بعض اوقات ان انحرافات كی طرف كھینچ لے جانے كا سبب بن جاتاھے ۔