اقبال اور جوش کے کلام میں کربلا
کیوں اقبال کے فارسی کلام کی مثالیں تو یقینا مولانا کی زندگی کی ہیں مولانا کا انتقال ۱۹۳۱ء میں ہوا اور اس میں شک نہیں کہ اقبال کا اثر نہایت ہمہ گیر اور وسیع تھا۔ رموز بے خودی میں “درمعنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا” سے متعلق اشعار رکن دوم میں آئے ہیں‘ جہاں شروع کا حصہ رسالت محمدیہ اور تشکیل و تاسیس حریت و مساوات و اخوت بنی نوع آدم کے بارے میں ہے۔ اس کے بعد اخوت اسلامیہ کا حصہ ہے‘ پھر مساوات کا اور ان کے بعد حریت اسلامیہ کے معنی میں سر حادثہ کربلا بیان کیا ہے۔ اس حصے میں شروع کے کچھ اشعار عقل و عشق کے ضمن میں ہیں اس کے بعد اقبال جب اصل موضوع پر آتے ہیں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کردار حسین کو کس نئی روشنی میں دیکھ رہے ہیں اور کن پہلوؤں پر زور دینا چاہتے ہیں۔ حسین کے کردار میں انہیں عشق کا وہ تصور نظر آتا ہے جو ان کی شاعری کا مرکزی نقطہ تھا۔ اور اس میں انہیں حریت کا وہ شعلہ بھی ملتا ہے جس کی تب و تاب سے وہ ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے۔ اور نئے نو آبادیاتی تناظر میں ہم وطنوں کو جس کی یاد دلانا چاہتے ہیں۔درمعنی حریت اسلامیہ و سرحادثہ کربلا
ہر کہ پیماں باہو الموجودبستگردنش ازبند ہر معبود رست۔۔۔
عشق را آرام جاں حریت استناقہ اش راسارباں حریت است
آں شنیدستی کہ ہنگام نبردعشق باعقل ہوس پرور چہ کرد
آں اماں عاشقاں پور بتولسرو آزادے زبستان رسول
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدرمعنی ذبح عظیم آمدپسر
بہرآں شہزادہ خیر المللدوش ختم المرسلین نعم الجمل
سرخ روعشق غیور ازخون اوشوخی ایں مصرع ازمضمون او
درمیان امت آں کیواں جنابہمچو حرف قل ھواللہ درکتاب
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزیدایں دو قوت از حیات آیدپدید
زندہ حق ازقوت شبیری استباطل آخر داغ حسرت میری است
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیختحریت را زہر اندر کام ریخت
خاست آں سر جلوہ خیر الاممچوں سحاب قبلہ باراں درقدم
برزمین کربلا بارید و رفتلالہ در ویرانہ ہاکارید و رفت
تاقیامت قطع استبداد کردموج خون او چمن ایجاد کرد
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ استپس بنائے لاالہ گردیدہ است
مدعایش سلطنت بودے اگرخود نکردے باچنپن ساماں سفر
دشمنان چوں ریگ صحرا لاتعددوستان او بہ یزداں ہم عدد
سرابراہیم و اسماعیل بودیعنی آں اجمال راتفصیل بود
عزم اوچوں کوہساراں استوارپائدار و تندسےر وکامگار
تیغ بہر عزت دین است وبسمقصد اوحفظ آئین است وبس
ماسواللہ رامسلماں بندہ نیستپیش فرعونے سرش افگندہ نیست
خون اوتفسیر ایں اسرار کردملت خوابیدہ را بیدار کرد
تیغ لاچوں ازمیاں بیروں کشیدازرگ ارباب باطل خوں کشید
نقش الا اللہ برصحرا نوشتسطر عنوان نجات ما نوشت
رمز قرآں ازحسین آموختیمزآتش او شعلہ ہا اندوختیم
شوکت شام وفربغداد رفتسطوت غرناطہ ہم ازیادرفت
تارما اززخمہ۔۔۔اش لرزاں ہنوزتازہ ازتکبیراد اوایماں ہنوز
اے صبا اے پیک دور افتادگاںاشک مابرخاک پاک او ساںرموز بیخودی ہی میں “درمعنی ایں کہ سیدة النسا فاطمتہ الزہرا اسوہ کاملہ ایست برائے نساء اسلام” کے ذیل میں بھی حسین کا ذکر آیا ہے۔درنوائے زندگی سوز ازحسیناہل حق حریت آموز ازحسین
سیرت فرزندہا از امہاتجوہر صدق و صفا از امہات
مزرع تسلیم را حاصل بتولمادراں را اسوہ کامل بتولاس کے فوراً بعد “خطاب بہ مخدرات اسلام” میں یہ حوالہ پھر آیا ہے۔فطرت تو جذبہ ہا دار بلندچشم ہوش از اسوہ زہر مبند
تاحسینے شاخ تو بار آوردموسم پیشیں بہ گلزار آوردپھر یہ حوالہ زبور عجم ۱۹۶۷ء کی ایک غزل کے اس زبردست شعر میں ملتا ہے۔ریگ عراق منتظر کشتِ حجاز تشنہ کامخونِ حسین باز دہ کوفہ و شام خویش راریگ عراق منتظر ہے‘ کشت حجاز تشنہ کام ہے‘ اپنے کوفہ و شام کو خونِ حسین پھردے‘ اس میں حال کا صیغہ اور کوفہ و شام خویش نئی فکر کے غماز ہیں‘ یعنی پھر وہی تشنگی کا منظر ہے اور موجودہ حالات میں تمہارے کوفہ و شام کو خون حسین کی پھر ضرورت ہے۔ یہ تھی وہ تڑپ اور آگ جو اقبال کو بار بار اس حوالے کی طرف لے آتی تھی۔جاوید نامہ (۱۹۳۲ء) میں سلطان شہید (ٹیپو سلطان) کا ذکر کرتے ہوئے اسے “وارث جذب حسین ” کہا ہے۔ پس چہ باید کرد (۱۹۳۶ء) میں بھی “فقر” اور “حرفے چند باامت اسلامیہ” کے ذیل میں حسین کا حوالہ آیا ہے۔فقرِ عریاں گرمی بدروحنیںفقرِ عریاں بانگ تکبیر حسینارمغان حجاز (۱۹۳۸) میں فرماتے ہیں:اگرپندے ز درویشے پذیریہزار امت بمیرد تو نہ میری
بتولے باش وپنہاں شوازیں عصرکہ در آغوش شبیرے بگیریآخری مجموعہ ارمغان حجاز جو اقبال کے انتقال کے کچھ ماہ بعد ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ اس شعر پر ختم ہوتا ہے۔ازاں کشت خرابے حاصلے نیستکہ آب ازخون شبیرے ندارد!اقبال فارسی میں بھی جو کچھ کہتے تھے‘ پوری اردو دنیا میں اس سے ارتعاش پیدا ہوتا تھا۔ رثائی ادب سے ہٹ کر نئے تناظر میں اس تاریخی حوالے کی اہمیت کا ذکر اردو دنیا کے لیے ایک بالکل نیا موضوع تھا۔ اقبال کی اردو شاعری میں اس موضوع کی گونج پہلی بار بال جبریل (۱۹۳۵ء) کی غزلوں اور نظموں میں سنائی دیتی ہے۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے کلام کے پیش نظر اقبال کے یہاں حسین ‘ شبیر‘ مقام شبیری‘ اسوہ شبیری‘ باقاعدہ تھیم کا درجہ رکھتے ہیں۔ ذیل کے اردو اشعار اس سلسلے میں بے حد اہم ہیں۔ ان کو اس رحجان کے اولین سنگ میل سمجھنا چاہئے۔ نئے نو آبادیاتی تناظر میں ان کی معنویت غور طلب ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ان اشعار نے بعد کے شعرا کے لیے اس تاریخی حوالے کے نئے علامتی ابعاد کو روشن نہ کیاہوگا۔حقیقت ابدی ہے مقام شبیریبدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستاں حرمنہایت اس کی حسین‘ ابتدا ہے اسماعیلاقبال کے اس تخلیقی رویے کا اثر بعد میں آنے والے شاعروں پر رفتہ رفتہ مرتب ہوا‘ اوریوں آہستہ آہستہ شعری اظہار کی ایک نئی راہ کھل گئی۔ بال جبریل کی مختصر نظم “فقر” کا نقطہ عروج بھی کئی فارسی نظموں کی طرح سرمایہ شبیری ہی ہے۔اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیریاک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیریاک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میریمیراث مسلمانی‘ سرمایہ شبیریلیکن انتہا درجہ کی حسن کاری اور حد درجہ شدت احساس کے ساتھ یہ حوالہ بال جبریل کی شاہکار نظم “ذوق وشوق” کے دوسرے بند میں ابھرتا ہے۔ اختتامی بیت میں تطبیق‘ تصورعشق سے کی گئی ہے جو اقبال کامرکزی موضوع ہے۔صدق خلیل بھی ہے عشق‘ صبر حسین بھی ہے عشقمعرکہ وجود میں‘ بدروحنین بھی ہے عشقلیکن اسی بند کا یہ شعر:قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیںگرچہ ہے تاب دارا بھی گیسوئے دجلہ و فراتبالخصوص اس کا پہلا مصرع تو ضرب المثل کا درجہ احتیار کرچکا ہے۔ شاعر تڑپ کر کہتاہے کہ ذکر عرب عربی مشاہدات سے اور فکر عجم عجمی تخیلات سے تہی ہوچکے ہیں۔ کاش کوئی حسین ہو جو زوال و غفلت کے اس پرآشوب دور میں حریت و حق کوشی کی شمع روشن کرے۔رموز بے خودی ۱۹۱۸ء میں بال جبریل ۱۹۳۵ء میں اور ارمغان حجاز ۱۹۳۸ء میں منظر عام پر آئیں۔ لگ بھگ اسی زمانے میں جوش ملیح آبادی کے یہاں بھی شہادت حسین کا حوالہ سے انقلابی ابعاد کے ساتھ لگتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ یوں تو جوش ملیح آبادی نے ذاکر سے خطاب اور سوگواران حسین سے خطاب” جیسی نظمیں بھی لکھیں جن کا مقصد اصلاح تھا‘ لیکن شہادت حسین کی انقلابی معنویت کی طرف اشارے انہوں نے “رثائی ادب” کے دائرے ہی میں رہ کر کیے۔ شعلہ و شبنم میں اس نوعیت کا جتنا کلام ہے‘ اس کے بارے میں خود جوش نے وضاحت کردی ہے کہ یہ تمام نظمیں ۱۹۲۷ء سے پہلے کی ہیں جوش ان منظومات کو بھلے ہی زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوں‘ کردار حسین کی انقلابی معنویت کو روشن کرنے میں جوش کی شاعری نے نہایت اہم خدمات انجام دیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کا پہلا مرثیہ جو “آواز حق” کے نام سے شائع ہوا‘ اور جس کے آخری بند میں واضح طور پر جوش نے صدیوں کی تاریخ کا سلسلہ اپنے عہد کی سامراج دشمنی سے ملا دیا‘ ۱۹۱۸ء کی تصنیف ہے۔ اقبال کی شہرہ آفاق تصنیف رموزبے خودی بھی (جس سے ہم درمعنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا اور متعدد دوسرے حوالے پیش کرچکے ہیں ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کا اور تحریک خلافت کے تقریباً آغاز کا زمانہ تھا۔ جوش کا یہ بند ملاحظہ ہو جس میں وہ دعوت دیتے ہیں کہ اسلام کا نام جلی کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علی ہو۔اے قوم! وہی پھر ہے تباہی کا زمانہاسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ
کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہتاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ
مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہولازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علی ہوواضح رہے کہ “آواز حق” کو شعلہ و شبنم میں شامل کرتے وقت جو ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی جوش نے اعتذار کا لہجہ اختیار کیا اور یہ نوٹ درج کیا “اس نظم کو صرف اس نظر سے پڑھا جاسکتا ہے کہ یہ آج سے اٹھارہ برس پیشتر کی چیز ہے۔ (ص ۲۴۸)۔یوں تو جوش ملیح آبادی نے نو مرثیے لکھے جنہیں ضمیر اختر نقوی نے مرتب کرکے شائع کر دیا ہے (جوش ملیح آبادی کے مرثیے لکھنو ۱۹۸۱ء) لیکن آزادی سے پہلے “آواز حق” کے علاوہ جو ش کا صرف ایک اور مرثیہ “حسین اور انقلاب” ملتا ہے جو ۱۹۴۱ء کی تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے انقلابی خیالات کا اظہار اور بھی کھل کر کیاہے اور کئی بندوں میں حسین کو حریت و آزادی کے مظہر کے طور پر پیش کیا ہے۔ چالیسویں بند کی بیت ہے۔عباس نامور کے لہو سے دُھلا ہوااب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا
***اس کے بعد کچھ بند ملاحظہ ہوں۔
یہ صبح انقلاب کی جو آج کل ہے ضویہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو
یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے لودر پردہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو
حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستویہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو
پھر حق ہے آفتاب لب بام اے حسینپھر بزم آب وگل میں ہے کہرام اے حسین
پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسینپھر حریت ہے مورد الزام اے حسین
ذوق فساد ولولہ شر لیے ہوئےپھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لیے ہوئے
مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعاراس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار
پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یارپھر کربلائے نو سے ہے نوع بشر دوچار
اے زندگی جلال شہ مشرقین دےاس تازہ کربلا کو بھی عزم حسین دے
آئین کشمکش سے ہے دنیا کی زیب و زینہرگام ایک بدر “ہر ہو سانس اک “حنین”
بڑھتے رہو یو نہیں پے تسخیر مشرقینسینوں میں بجلیاں ہوں زبانوں پہ “یاحسین”
تم حیدری ہو‘ سینہ اژدر کو پھاڑ دواس خیبر جدید کا در بھی اکھاڑ دو
***
اس مرثیہ کا خاتمہ اس بیت پر ہوا ہے۔
دنیا تری نظیرشہادت لیے ہوئےاب تک کھڑی ہے شمع ہدایت لیے ہوئے
***
جوش ملیح آبادی نے اسی زمانے میں کہا
انسان کو بیدار تو ہو لینے دوہرقوم پکارے گی ہمارے ہیں حسیناس سلسلے میں جوش کے ایک سلام کے یہ شعر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں‘ جس میں عہد نو کی صاف گونج موجود ہے۔محراب کی ہوس ہے نہ منبر کی آرزوہم کو ہے طبل وپرچم ولشکر کی آرزو
اس آرزو سے میرے لہو میں ہے جزرومدشت بلا میں تھی جو بہتر کی آرزوان مثالوں سے ظاہر ہے کہ جوش رثائی ادب کی کلاسیکی روایت سے جو مذہبی مقصد کے لیے مخصوص تھی‘ سیاسی نوعیت کا کام لے رہے تھے‘ اس پر کچھ اعتراض بھی ہوئے۔ باایں ہمہ اس کا اعتراف بھی کیا گیا کہ “جوش نے مرثیے میں انقلاب اور قومی آزادی کے تصور کو رواج دیا” تاہم رثائی ادب کی اپنی حدود تھیں‘ جن کا احترام مرثیہ گو شعرا کے لیے واجب تھا۔ جوش کی البیلی شخصیت کی بات ہی اور تھی۔ وہ اپنی رومانیت اور بغاوت کی وجہ سے ہر چیز کو نبھالے جاسکتے تھے۔ دوسروں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ جمیل مظہری نے کچھ کوشش کی لیکن ان سے چلا نہیں‘ اور اس کا چلنا ممکن بھی نہیں تھا۔ ان کوششوں کے برعکس‘ اقبال اور محمد علی جوہر نے نظم اور غزل میں کردار حسین کی عظمت کے بلاواسطہ اور بالواسطہ تخلیقی اظہار کی جو راہ دکھائی تھی۔ اس نے آنے والوں کے لیے ایک شاہراہ کھول دی۔ اور بعد کی اردو شاعری میں اس رجحان کا فروغ دراصل انہیں اثرات کے تحت ہوا۔