قیامت میں انسان كی حیات ابدی
اس آیت {كل شئی ھالك الا وجھہ} سے قیامت میں انسان كی حیات ابدی كہاں سمجھ میں آرہی ہے ؟
درحقیقت "ھلك" كے معنی تباہ وبرباد ہونے كے ہیں 1 اور یہ لفظ قرآن میں متعدد مقامات پر موت كے معنی میں بھی استعمال ہواہے ۔ 2
اور زبان عرب میں بھی اس كو موت ہی سے تعبیر كیا گیاہے ، لہذا یہ آیہ شریفہ {كل شئی ھالك الا وجھہ} 3 دنیا كی حیات اوربرزخ دونوں سے مربوط ہے كہ جس دن تم مخلوقات اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی ، پس یہ آیت حیات اخروی كی نفی نہیں كرتی ہے بلكہ قیامت میں (جنت جہنم میں) جاویدانی حیات ہے ۔
قرآن مجید ایك دوسری آیت میں فرماتا ہے ۔
{كل من علیھا فان ویبقی وجہ ربك ذوالجلال الااكرام } 4
ترجمہ: جوبھی روئے زمین پر ہے سب فنا ہوجانے والے ہیں صرف تمہارے اب كی ذاب جو صاحب جلال واكرام ہے وہی باقی رہنے والی ہے ۔
اس آیت سے بھی دنیا كی دگرگونی سمجھ میں آرہی ہے اور سب كو سوائے خدا كے فنا اور زوال ہے ، جو اس آیت كے بہرحال موجودات كی دوقسم ہے ۔
1. واجب الوجود بالذات :اس ذات كو كہتے ہیں جس كا ہونا ضروری ہے اور اس كی ذات میں ذرہ برابر تغیر و تبدیل نہیں ہوسكتاہے اور نہ ہی ہلاك و نابود ہوگی جس سے صرف خداوند عالم كی ذات مختص ہے ۔
2. ممكن الوجود بالذات: اس ذات كو كہتے ہیں كہ جس كا ہونا اور نہ ہونا دونوں برابر ہے اور یہ اسی وقت وجود دنیا كی تمام مخلوقات (خداكے علاوہ ) ممكن الوجود بالذات ہیں یعنی اپنے سے دنیا میں وجود میں نہیں آئی ہیں اور كسی طرح سے دائنمی حیات نہیں پاسكتی ہیں لیكن اگر ان كو وجہ الہی كے لحاظ سے دیكھا جائے تو خدانے ان كو حیات جاویدانی عطا كی ہے ، اور ابدتك زندہ رہ سكتی ہے ۔
مذكورہ مطالب كے روشنی میں آیت كے معنی یہ ہوں گے كہ ہماری ساری چیزذاتی طور پر تباروبرباد ہونے والی ہے اور صرف پروردگار كی ذات باقیاور زوال ناپذیر ہے ۔ ہاں !قیامت میں انسان جاویداں ہے لیكن اس كا تعلق فیض الہی سے ہے ورنہ خود اس كی ذات پر نظر كی جائے تو سوائے مخلوق فانی كے كچھ نہیں ہے ۔ 5
1. قاموس قرآن ج۷ص۱۵۹۔
2. مومن آیہ ۸۲،نساء آیہ ۱۷۶، جاثیہ آیہ ۲۴، مائدہ آیہ ۱۷ ۔
3. قصص آیہ ۸۹۔
4. رحمن آیہ ۲۶۔
5. اس سلسلے میں مزید معلومات كے لئے تفسیرالمیزان ج۱۶، ص۹۲۔۹۷ كو ملاحظہ فرمائیں ۔