حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے بعض کرامات
آصف بن برخیاوصی جناب سلیمان علیہ السلام کے لیے علماء نے اس قسم کے واقعات کاحوالہ دیاہے ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ مدینہ منورہ سے روانہ ہوکرشام پہنچے، وہاں ایک شخص کواس مقام پرعبادت میں مصروف ومشغول پایاجس جگہ امام حسین کاسرمبارک لٹکایاگیاتھا آپ نے اس سے کہاکہ میرے ہمراہ چلووہ روانہ ہوا، ابھی چندقدم نہ چلاتھا ،کہ کوفہ کی مسجدمیں جاپہنچا وہاں نمازاداکرنے کے بعد جوروانگی ہوئی، توصرف چندمنٹوں میں مدینہ منورہ جاپہنچے اورزیارت ونمازسے فراغت کی گئی، پھروہاں سے چل کر لمحوں میں مکہ معظمہ رسیدگی ہوئی ،طواف ودیگرعبادت سے فراغت کے بعدآپ نے چشم زدن میں اسے شام کی مسجدمیں پہنچادیا۔اورخود نظروں سے اوجل ہوکرمدینہ منورہ جاپہنچے پھرجب دوسراسال آیا توآپ بدستورشام کی مسجدمیں تشریف لے گئے اوراس عابدسے کہاکہ میرے ہمراہ چلو،چنانچہ وہ چل پڑاآپ نے چندلمحوں میں اسے سال گزشتہ کی طرح تمام مقدس مقامات کی زیارت کرادی پہلے ہی سال کے واقعہ سے وہ شخص بے انتہامتاثرتھا ہی، کہ دوسرے سال بھی ایساہی واقعہ ہوگیااب کی مرتبہ اس نے مسجدشام واپس پہنچتے ہی ان کادامن تھام لیا اورقسم دے کرپوچھا کہ فرمائیے آپ اس عظیم کرامت کے مالک کون ہیں آپ نے ارشادفرمایا کہ میں محمدبن علی (امام محمدتقی ہوں) اس نے بڑی عقیدت اورتعظیم وتکریم کے مراسم دااکئے۔آپ کے واپس تشریف لے جانے کے بعد یہ خبربجلی کی طرح تمام پھیل گئی جب والی شام محمدبن عبدالملک کواس کی اطلاغ ملی اوریہ بھی پتہ چلاکہ لوگ اس واقعہ سے بے انتہامتاثرہوگئے ہیں تواس نے اس عابدپر”مدعی نبوت” ہونے کاالزام لگاکراسے قیدکردیا اورپھرشام سے منتقل کراکے عراق بھجوادیا اس نے والی کوقیدخانہ سے ایک خط بھیجا جس میں لکھاکہ میں بے خطاہوں، مجھے رہاکیاجائے، تواس نے خط کی پشت پرلکھاکہ جوشخص تجھے شام سے کوفہ اورکوفہ سے مدینہ اوروہاں سے مکہ اورپھروہاں سے شام پہنچاسکتاہے اپنی رہائی میں اسی کی طرف رجوع کر۔اس جواب کے دوسرے دن یہ شخص مکمل سختی کے باوجود، سخت ترین پہرہ کے ہوتے ہوئے قیدخانہ سے غائب ہوگیا، علی بن خالدراوی کابیان ہے کہ جب میں قیدخانہ کے پھاٹک پرپہنچا تودیکھاکہ تمام ذمہ داران حیران وپریشان ہیں، اورکچھ پتہ نہیں چلتا کہ عابد شامی زمین میں سماگیا یاآسمان پراٹھالیاگیا، علامہ مفید علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے علی بن خالد جودوسرے مذہب کاپیروتھا، امامیہ مسلک کامعتقدہوگیا (شواہدالنبوت ص ۲۰۵ ،نورالابصار ص ۱۴۶ ، اعلام الوری ص ۷۳۱ ، ارشادمفید ص ۴۸۱) ۔
صاحب تفسیرعلامہ حسین واعظ کاشفی کابیان ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے کرامات بے شمارہیں (روضة الشہدا ص ۴۳۸) میں بعض کاتذکرہ مختلف کتب سے کرتاہوں ۔
علامہ عبدالرحمن جامی تحریرکرتے ہیں کہ :۱ ۔ مامون رشیدکے انتقال کے بعدحضرت امام محمدتقی علیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اب تیس ماہ بعدمیرا بھی انتقال ہوگا، چنانچہ ایساہی ہوا۔۲ ۔ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیاکہ ایک مسماة (ام الحسن) نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اپناکوئی جامہ کہنہ دیجیے تاکہ میں اسے اپنے کفن میں رکھوں آپ نے فرمایاکہ اب جامہ کہنہ کی ضرورت نہیں ہے روای کابیان ہے کہ میں وہ جواب لے کرجب واپس ہواتومعلوم ہواکہ ۱۳ ۔ ۱۴ دن ہوگئے ہیں کہ وہ انتقال کرچکی ہے۔۳ ۔ ایک شخص (امیہ بن علی) کہتاہے کہ میں اورحمادبن عیسی ایک سفرمیں جاتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ آپ سے رخصت ہولیں، آپ نے ارشادفرمایاکہ تم آج اپناسفرملتوی کردو، چنانچہ میں حسب الحکم ٹہرگیا، لیکن میراساتھی حمادبن عیسی نے کہاکہ میں نے ساراسامان سفرگھرسے نکال رکھاہے اب اچھانہیں معلوم ہوتا کہ سفرملتوی کردوں، یہ کہہ کروہ روانہ ہوگیا اورچلتے چلتے رات کو ایک وادی میں جاپہنچا اوروہیں قیام کیا، رات کے کسی حصہ میں عظیم الشان سیلاب آگیا،اوروہ تمام لوگوں کے ساتھ حمادکوبھی بہاکرلے گیا (شواہدالنبوت ص ۲۰۲) ۔۴ ۔ علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ معمربن خلادکابیان ہے کہ ایک دن مدینہ منورہ میں جب کہ آپ بہت کمسن تھے مجھ سے فرمایاکہ چلومیرے ہمراہ چلو! چنانچہ میں ساتھ ہوگیا حضرت نے مدینہ سے باہرنکل کرے ایک وادی میں جاکرمجھ سے فرمایاکہ تم ٹھرجاؤ میں ابھی آتاہوں چنانچہ آپ نظروں سے غائب ہوگئے اورتھوڑی دیرکے بعد واپس ہوئے واپسی پرآپ بے انتہاء ملول اوررنجیدہ تھے، میں نے پوچھا : فرزندرسول ! آپ کے چہرہ مبارک سے آثارحزن وملال کیوں ہویداہیں ارشادفرمایاکہ اسی وقت بغدادسے واپس آرہاہوں وہاں میرے والدماجدحضرت امام رضاعلیہ السلام زہرسے شہیدکردئیے گئے ہیں میں ان پرنمازوغیرہ اداکرنے گیاتھا۔۵ ۔ قاسم بن عبادالرحمن کابیان ہے کہ میں بغدادمیں تھا میں نے دیکھاکہ کسی شخص کے پاس تمام لوگ برابرآتے جاتے ہیں میں نے دریافت کیا کہ جس کے پاس آنے جانے کاتانتابندھاہواہے یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہاکہ ابوجعفرمحمدبن علی علیہ السلام ہیں ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ آپ ناقہ پرسواراس طرف سے گذرے ،قاسم کہتاہے کہ انہیں دیکھ کرمیں نے دل میں کہا کہ وہ لوگ بڑے بیوقوف ہیں جوآپ کی امامت کے قائل ہیں اورآپ کی عزت وتوقیرکرتے ہیں، یہ توبچے ہیں اورمیرے دل میں ان کی کوئی وقعت محسوس نہیں ہوتی، میں اپنے دل میں یہی سوچ رہاتھا کہ آپنے قریب آکرفرمایاکہ ایے قاسم بن عبدالرحمن جوشخص ہماری اطاعت سے گریزاں ہے وہ جہنم میں جائے گا آپ کے اس فرمانے پرمیں نے خیال کیاکہ یہ جادوگرہیں کہ انہوں نے میرے دل کے ارادے کومعلوم کرلیاہے جیسے ہی یہ خیال میرے دل میں آیاآپ نے فرمایاکہ تمہارے خیال بالکل غلط ہیں تم اپنے عقیدے کی اصلاح کرو یہ سن کرمیں نے آپ کی امامت کااقرارکیا اورمجھے مانناپڑاکہ آپ حجت اللہ ہیں۔۶ ۔ قاسم بن الحسن کابیان ہے کہ میں ایک سفرمیں تھا ، مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مفلوج الحال شخص نے مجھ سے سوال کیا،میں نے اسے روٹی کاایک ٹکڑا دیدیا ابھی تھوڑی دیرگذری تھی کہ ایک زبردست آندھی آئی اوروہ میری پگڑی اڑاکرلے گئی میں نے بڑی تلاش کی لیکن وہ دستیاب نہ ہوسکی جب میں مدینہ پہنچا اورحضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے ملنے گیاتوآپ نے فرمایاکہ اے قاسم تمہاری پگڑی ہوااڑالے گئی میں نے عرض کی جی حضور!آپ نے اپنے ایک غلام کوحکم دیاکہ ان کی پگڑی لے آؤ غلام نے پگڑی حاضرکی میں نے بڑے تعجب سے دریافت کیاکہ مولا! یہ پگڑی یہاں کیسے پہنچی ہے آپ نے فرمایاکہ تم نے جورہ خدامیں روٹی کاٹکڑادیاتھا، اسے خدانے قبول فرمالیاہے، ایے قاسم خداوندعالم یہ نہیں چاہتا جواس کی راہ میں صدقہ دیے وہ اسے نقصان پہنچنے دے۔۷ ۔ ام الفضل نے حضرت امام محمدتقی کی شکایت اپنے والدمامون رشید عباسی کولکھ کربھیجی کہ ابوجعفرمیرے ہوتے ہوئے دوسری شادی بھی کررہے ہیں اس نے جواب دیاکہ میں نے تیری شادی ان کے ساتھ اس نہیں کی حلال خداکوحرام کردوں انہیںقانون خداوندی اجازت دیتاہے کہ وہ دوسری شادی کریں، اس میں تیراکیادخل ہے دیکھ آئندہ سے اس قسم کی کوئی شکایت نہ کرنا اورسن تیرافریضہ ہے کہ تواپنے شوہرابوجعفرکوجس طرح ہوراضی رکھ اس تمام خط وکتابت کی اطلاع حضرت کوہوگئی (کشف الغمہ ص ۱۲۰) ۔علامہ شیخ حسین بن عبدالوہاب تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن ام الفضل نے حضرت کی ایک بیوی کوجوعماریاسر کی نسل سے تھی دیکھاتومامون رشیدکو کچھ اس طرح سے کہاکہ وہ حضرت کے قتل پرآمادہ ہوگیا، مگرقتل نہ کرسکا(عیون المعجزات ص ۱۵۴ طبع ملتان)۔