ولادت امام جواد علیہ السلام

177

 
10 رجب:حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام ہمارے نویں امام ہیں، آنحضرت کا نام محمد اور کنیت ابوجعفر الثانی اور القاب تقی ،جواد، مرتضی، مختار ،منتجب،قانع اور عالم ہیں، البتہ تقی اور جواد الائمہ کا لقب زیادہ مشہورہے،آنحضرت (ع) کےوالد گرامی کا نام حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام اور والدہ ماجدہ کا نام سبیکہ ہے،(آپکی والدہ ماجدہ کے دوسرے نام” سکینہ” ، “مرضیہ” اور” درہ” بھی نقل کیے گیے ہیں)حضرت امام رضا نے اس عظیم خاتون کا نام ” خیزران ” رکہا تہا،(1)” خیزران ” شمالی افریقہ کے علاقے ” نوبہ ” اور پیغمبر اسلام(ص) کی ہمسر ماریہ قبطیہ کے خاندان سے ہیں اور وہ اپنے زمانے کی عظیم خاتون تہیں، پیغمبر اسلام (ص)نے اپنے زمانے میں اس خاتون کے بارے میں پیشنگوئی کی تہی اور ایک حدیث میں فرمایا تہا : بابی ابن خیرہ الاماء النوبیہ الطیبہ(2)میرےوالد اس بہترین کنیز کے فرزند کے قربان جو ” نوبہ ” کی ہو گی اور پاکیزہ سرشت ہوگی،امام موسی کاظم علیہ السلام نے بہی اس عظیم خاتون کے بارے میں پیشن گوئی کی ہے، امام (ع) نے ایک حدیث میں یزید بن سلیط سے فرمایا:مکہ کے راستے سے جب میرے بیٹے علی( امام رضا) کے ساتھ ملاقات کرو گے تو اسکو بیٹے کی بشارت دیناجو کہ امانتدار اور مبارک ہوگا، اس دن میرا بیٹا تجہے اس بات کی خبر دے گاکہ کس دن میرے ساتھ ملاقات کی اور کیا گفتگو ہوئی اور اس وقت تم بھی اسکو یہ خبر دینا کہ تمہارا بیٹا جس کنیز سے پیدا ہوگا وہ پیغمبر اسلام(ص) کی کنیز ماریہ قبطیہ کے خاندان سے ہو گی، اگر اس خاتون کو دیکہو گے تو اس تک میرا سلام پہچادینا،(3)حضرت امام جواد علیہ السلام مدینہ منورہ میں امام رضا (ع)کے گہر میں پیدا ہوے، البتہ تاریخ پیدایش کے حوالے سے مورخین اور سیرہ نویسوں کے درمیان اتفاق نہیں ہے، کیونکہ بعض نے 5 رمضان اور بعض نے 15 رمضان اور بعض نے تو 19 رمضان اور بعض دوسروں نے 10 رجب سن 195 ہجری کو حضرت کا یوم پیدایش لکہا ہے،(4)ابن عیاش نے بھی انکا یوم پیدایش 10 رجب لکہا ہے اور زیارت ناحیہ مقدسہ میں اس کی تائید ہے، دعای ناحیہ میں ہم پڑتے ہیں:اللھم انی اسئلک بالمولودین فی رجب محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد المنتجب(5)کلیم بن عمران سے روایت ہے: میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور امام سے درخواست کی کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ آپ کو اولاد عطا فرمائے، امام رضا علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:حق تعالی مجہے فرزند عطا کرے گا اور وہ میرا جانشین اور امامت کا وارث ہوگا،جب امام محمد تقی علیہ السلام پیدا ہوۓ تو امام رضا علیہ السلام نے فرمایا خدای متعال نے مجہے ایسا فرزند عطا کیا ہے کہ جسکی شباھت موسی ابن عمران سے ہے جس نے دریا کے دو ٹکڑے کۓ اور اسکی مثال عیسی ابن مریم کے مانند ہے کہ خداوند نے اسکی والدہ کو پاکیزہ ،طاہر و مطہر خلق کیا،(6)امام رضا علیہ السلام نے جب مامون کی درخواست پر خراسان (ایران )کا سفر کیا تو اس وقت انکے فرزند امام محمد تقی علیہ السلام پانچ سال کے تہے اور جب حضرت امام رضا علیہ السلام مامون کے ہاتہوں شہید ہوۓ اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام 8 سال کے تہے، امام محمد تقی علیہ السلام بچپن میں ہی امامت کے منصب پر فائز ہوۓ،اور اس کم سنی میں تشیع کی کشتی کی ہدایت کے فریضہ کو بنحو احسن انجام دیا اور اپنے والد اور اجداد کے مانند عدالت کے طلب گاروں اور مکتب اھل بیت(‏ع) کے پیرو کاروں کی پناہ گاہ بنے رہے،مامون عباسی جوکہ ایک زبردست دانشمند تہا اور اپنے زمانے کے خردمندوں میں سے تہا، اس نے عباسیوں کی مخالفت کے باوجود اپنی بیٹی “ام الفضل” کا نکاح امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ کیا،امام کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کچھ یوں کیا ہے،” واما ابو جعفر محمد بن علی اخترتہ لتبریرہ عیی کااھل الفضل فی علم و الفضل مع صغر سنہ، والا عجوبہ فیہ بذالک، وانا ارجو ان یظھر للناس ما قد عرفتہ منہ،فیعلموا ان الرای ما رائت فیہ”(7)یعنی : البتہ یہ کہ میں نے ابو جعفرمحمد بن علی کو اپنا داماد بنایا اور اس کو اپنی بیٹی ام الفضل کا شوہر انتخاب کیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کم سنی میں ہی تمام اہل فضل اور صاحبان علم و اندیشہ کے درمیان برتری حاصل کر چکا ہے وہ اپنے زمانے کا نابغہ ہے، مجہے امید ہے کہ جس طرح میں نے اسکے علمی کمالات کو سمجہا ہے اور لوگ بھی اس کو سمجہنے کی کوشش کریں اور جان لیں کہ صحیح وہی ہے جو میں پسند کروں،مامون عباسی کہ جس نے امام (ع) کا علمی مقام سمجہا تہا اور انھیں اپنی بیٹی ام الفضل کا شوہر انتخاب کیا تہالیکن مامون کے مرنے کے بعد جب امام نے دوسری بار بغداد کا سفر کیا ام الفضل کے چاچا نے اس کو امام (ع) کو مسموم کرنے کیلۓ اکسایا اور اس طرح امام اپنی بیوی کے ہاتہوں زہر سے شہید ہوگۓ،(8)1{منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص324؛کشف الغمہ(علی ابن عیسی اریلی)ج3ص186 }2{الارشاد (شیخ مفید)ص615؛ منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص325}3{ منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص325}4{ منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص325}5{مفاتیح الجنان( شیخ عباس قمی) رجب کی چھٹی دعا}6{ منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص326}7{2{الارشاد (شیخ مفید)ص621}8{2{الارشاد (شیخ مفید)ص621}
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.