خوشبوئے حیات حضر ت ا ما م علی نقی علیہ ا لسلا م
ولادت باسعادتاس مولود مبارک سے دنیاروشن ومنور ہوگئی،آپ مقام بصریا(١)میںپیداہوئے، امام محمد تقی نے اس مولود مبارک کی ولادت با سعادت پرتمام شرعی رسومات انجام دلوائیں،داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور ائمہ ہدیٰ کی اتباع کرتے ہوئے عقیقہ میں گوسفند ذبح کیا۔آپ کی ولادت باسعادت ٢٧ ذی الحجہ ٢١٢ ھ میں ہوئی۔
اسم گرامیحضرت امام محمد تقی نے تبرکاً آپ کا اسم مبارک اپنے جدبزرگوارامیرالمومنین علی کے نام پر علی رکھا،چونکہ آپ فصاحت وبلاغت،جہاداوراللہ کی راہ میں مصائب برداشت کرنے میںاُن (امام علی )کے مشابہ تھے اورآپ کی کنیت ابوالحسن رکھی،جس طرح آپ کے کریم القاب مرتضیٰ،عالم اور فقیہ وغیرہ ہیں ۔
آپ کی پرورشامام علی نقی نے اس خا ندان میں پرورش پائی جو لو گو ں کے ما بین ممتاز حیثیت کا حا مل تھا ان کا سلوک منور و روشن اور ان کے آداب بلندو با لا تھے، ان کا چھو ٹا بڑے کی عزت اور بڑا چھو ٹے کا احترا م کر تا تھا ،مو رخین کے نقل کے مطابق اس خاندان کے آداب یہ ہیں: حضرت امام حسین اپنے بھا ئی امام حسن کی جلالت اورتعظیم کی خا طران کے سا منے کلا م نہیں کر تے تھے، روا یت کی گئی ہے کہ امام زین العابدین سید السا جدین اپنی تر بیت کر نے وا لیوں کے سا تھ ان کے التماس کر نے کے با وجود کھا نا نوش نہیں فر ما تے تھے اور ان کو اس با ت کے ڈر سے منع کر دیتے تھے کہ کہیں میری نظر اس کھا نے پر نہ پڑجا ئے جس پر مجھ سے پہلے ان کی نظر پڑگئی ہو تو اس طرح اُ ن کے نا فر ما ن قرارپا ئیں گے دنیا میں وہ کو نسا ادب ان آداب کے مشا بہ ہو سکتا ہے جو انبیا ء کے آدا ب ان کے بلندو بالا سلوک اور ان کے بلند اخلا ق کی حکا یت کر رہا ہے ؟امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے والد بزر گوار حضرت امام محمد تقی کے زیر سایہ پر ور ش پائی جو فضا ئل و آداب کی کائنات تھے، آپ ہی نے اپنے فر زند پر اپنی رو ح اخلا ق اور آداب کی شعا عیں ڈالیں ۔
بچپن میں علم لدنی کے ما لک آپ کی غیرمعمولی استعدادحضرت امام علی نقی علیہ السلام اپنے عہد طفولیت میں بڑے ذہین اور ایسے عظیم الشان تھے جس سے عقلیں حیران رہ جا تی ہیں یہ آپ کی ذکا وت کا ہی اثر تھا کہ معتصم عبا سی نے امام محمد تقی کو شہیدکر نے کے بعد عمر بن فر ج سے کہا کہ وہ امام علی نقی جن کی عمر ابھی چھ سا ل اور کچھ مہینے کی تھی ان کے لئے ایک معلم کا انتظام کر کے یثرب بھیج دے اس کو حکم دیا کہ وہ معلم اہل بیت سے نہا یت درجہ کا دشمن ہو، اس کو یہ گمان تھا کہ وہ معلم امام علی نقی کو اہل بیت سے دشمنی کر نے کی تعلیم دے گا ،لیکن اس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ائمہ طا ہر ین بندوں کے لئے خدا کاتحفہ ہیںجن کواس نے ہرطرح کے رجس و پلیدی سے پاک قراردیا ہے ۔جب عمر بن فر ج یثر ب پہنچا اس نے وہاں کے وا لی سے ملا قا ت کی اور اس کو اپنا مقصد بتایا تو اس نے اس کا م کیلئے جنیدی کا تعا ر ف کر ا یا چو نکہ وہ علوی سا دات سے بہت زیا دہ بغض و کینہ اور عدا وت رکھتا تھا ۔ اس کے پاس نمائندہ بھیجا گیاجس نے معتصم کا حکم پہنچا یا تو اس نے یہ با ت قبول کر لی اور اس کے لئے حکومت کی طر ف سے تنخواہ معین کر دی گئی اور جنیدی کو اس امر کی ہدا یت دیدی گئی کہ ان کے پاس شیعہ نہ آنے پائیں اور ان سے کو ئی را بطہ نہ کر پا ئیں، وہ امام علی نقی کو تعلیم دینے کے لئے گیا لیکن امام کی ذکا وت سے وہ ہکا بکا رہ گیا ۔ محمد بن جعفر نے ایک مر تبہ جنیدی سے سوال کیا : اس بچہ (یعنی امام علی نقی )کا کیا حا ل ہے جس کو تم ادب سکھا ر ہے ہو ؟جنیدی نے اس کا انکار کیااور امام کے اپنے سے بزر گ و بر تر ہو نے کے سلسلہ میں یوں گو یا ہو ا: کیا تم ان کو بچہ کہہ رہے ہو !!اور ان کو سردار نہیں سمجھ ر ہے ہو، خدا تمہا ری ہدا یت کر ے کیا تم مدینہ میں کسی ایسے آدمی کو پہچا نتے ہو جو مجھ سے زیا دہ ادب و علم رکھتا ہو ؟اس نے جوا ب دیا :نہیںسنو !خدا کی قسم جب میں اپنی پوری کو شش کے بعد ان کے سا منے ادب کا کو ئی با ب پیش کرتا ہوں تو وہ اس کے متعلق ایسے ابواب کھول دیتے ہیں جن سے میں مستفید ہوتا ہوں ۔ لوگ یہ گمان کر تے ہیں کہ میں ان کو تعلیم دے رہا ہوں لیکن خدا کی قسم میں خود ان سے تعلیم حا صل کر ر ہا ہو ں ۔زما نہ گذر تا رہا، ایک روز محمد بن جعفر نے جنیدی سے ملا قا ت کی اور اس سے کہا :اس بچہ کا کیا حا ل ہے ؟اس با ت سے اس نے پھر نا پسندیدگی کا اظہار کیا اور امام کی عظمت کا اظہا رکر تے ہو ئے کہا :کیا تم اس کو بچہ کہتے ہو اور بزر گ نہیں کہتے جنیدی نے انھیںایسا کہنے سے منع کر تے ہوئے اس سے کہا : ایسی بات نہ کہو خدا کی قسم وہ اہل زمین میں سب سے بہتراور خدا کی مخلوق میں سب سے بہترہیں،میں نے بسا اوقات ان کے حجرے میں حاضرہوکران کی خدمت میں عرض کیا!یہاں تک کہ میںان کوایک سورہ پڑھاتا تو وہ مجھ سے فرماتے :’تم مجھ سے کون سے سورہ کی تلاوت کرانا چاہتے ہو؟’،تومیں ان کے سامنے ان بڑے بڑے سوروںکاتذکرہ کرتاجن کوانھوںنے ابھی تک پڑھا بھی نہیں تھاتو آپ جلدی سے اس سورہ کی ایسی صحیح تلاوت کرتے جس کو میںنے اس سے پہلے نہیں سناتھا،آپ دائودکے لحن سے بھی زیادہ اچھی آواز میں اس کی تلاوت فرماتے ،آپ قرآن کریم کے آغاز سے لے کر انتہا تک کے حافظ تھے یاآپ کوسارا قرآن حفظ تھااورآپ اس کی تاویل اور تنزیل سے بھی واقف تھے ۔جنیدی نے مزیدیوںکہا:اس بچہ نے مدینہ میں کالی دیوارروںکے مابین پرورش پائی ہے اس علم کبیر کی ان کوکون تعلیم دے گا؟اے خدائے پاک وپاکیزہ ومنزہ!!جنیدی نے اہل بیت کے متعلق اپنے دل سے بغض وکینہ وحسد وعدوات کونکال کرپھینک دیااوران کی محبت وولایت کادم بھرنے لگا۔(2)اس چیزکی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں بیان کی جاسکتی کہ مذہب تشیع کاکہنا ہے کہ خدا نے ائمہ طاہرین کوعلم وحکمت سے آراستہ کیااوران کو وہ فضیلت وبزرگی عطاکی جودنیامیںکسی کونہیں دی ہے۔
علویوںکاآپ کی تعظیم کرناامام علی نقی علوی سادات کی تعظیم وتکریم کے احاطہ میں رہے ،انھوں نے ہی آپ کے بلند مرتبہ کو پہچانا،آپ کوواجب الطاعةامام تسلیم کیاہے (یعنی جن کی اطاعت کرناواجب قراردیاگیاہے) راویوںنے امام موسیٰ بن جعفر کے فرزندزیدسے روایت کی ہے، آپ چھوٹے سے سن میں ہی بہت بڑے تیرانداز تھے، زید امام کے نگہبان عمربن فرج سے اجازت لے کرامام سے ملاقات کرنے کیلئے جاتے ،وہ ان کو اجازت دیتا تو داخل ہوتے اورامام کے سامنے بڑی ہی تعظیم وتکریم کے ساتھ ادب سے بیٹھتے ،ایک مرتبہ جب آپ امام سے ملاقات کیلئے گئے تو امام تشریف نہیںرکھتے تھے توآپ(زید) خودمجلس کی صدارت کرنے لگے،جب امام علی نقی تشریف لائے توزیداپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اوران کواپنی جگہ بٹھایااورامام علی نقی کاچھوٹاسن ہونے کے باوجودآپ ان کے سامنے بڑے ہی ادب واحترام کے ساتھ بیٹھ گئے ،گویاکہ آپ (زید)امام کی عظمت اور امام کے واجب الطاعةہونے کے معترف تھے۔ (3)حضرت امام علی نقی کی تعظیم صرف علوی سادات ہی نہیںکرتے تھے بلکہ ہرطبقہ کاشخص آپ کی تعظیم وتکریم کرتا تھا ،محمد بن حسن اشترسے روایت ہے:میں اپنے والدبزرگوارکے ساتھ لوگوںکے مجمع میں متوکل کے دروازے پرتھاحالانکہ مجمع میں طالبی،عباسی اورجعفری خاندان کے افراد تھے ،ہم لوگ کھڑے ہی تھے کہ اتنے میںابوالحسن تشریف لائے تومجمع آپ کی عزت وجلالت کی وجہ سے ہٹ گیا ،یہاںتک کہ آپ محل میںداخل ہوگئے ۔بعض بغض وکینہ رکھنے والوں نے کہا:اس بچہ کو کیوںراستہ دے رہے ہو؟وہ ہم سے اشرف اور سن میں ہم سے بڑانہیںہے،خداکی قسم جب یہ باہر نکلیںگے تو ہم ان کوراستہ نہیںدیںگے۔۔۔مومن ابوہاشم جعفری نے یوںجواب دیا:خداکی قسم تم ان کے سامنے ذلت و حقارت سے پا برہنہ چلوگے ۔جب امام محل سے باہرتشریف لائے تولوگوںکی تکبیروتہلیل کی آوازیںبلندہوئیںاور سب نے آپ کااحترام واکرام کیا،ابوہاشم نے مجمع کی طرف متوجہ ہوکرکہا:کیاتم یہ سوچتے ہوکہ ان کا کوئی احترام نہیں کرے گا؟وہ امام کی بناء پر اپنی حیرت وپسندیدگی کوقابومیںنہ رکھ سکے اورکہنے لگے :خداکی قسم ہم بے قابوہوکرپیادہ ہوگئے ۔(4)اسی طرح امام کی شخصیت نے لوگوںکے قلوب کوتعظیم کے لئے بھردیاتھا،آپ کی جلالت وبزرگی کاجھک کر استقبال کرتے تھے ،آپ کی یہ ہیبت کسی ملک وسلطنت کی وجہ سے نہیںتھی بلکہ یہ اللہ کی اطاعت اور دنیامیںاس کازہدوتقویٰ اختیارکرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی ،یہ آپ کی اس عظیم ہیبت کاہی نتیجہ تھاکہ جب آپ سرکش وباغی متوکل کے محل میں داخل ہوتے تھے تومحل کاہرآدمی آپ کی جلالت وبزرگی کی تعظیم کرتے ہوئے آپ کی خدمت کرنے کے لئے کھڑاہوجاتا وہ آپ کی خاطرپردے ہٹانے ،دروازے کھولنے اور اس طرح کے دوسرے محترمانہ امورانجام دینے میں ایک دوسرے پرسبقت کرتے تھے۔(5)
آپ کاجودوکرمحضرت امام محمد تقی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوںمیںسب سے زیادہ سخی اورسب سے نیکی و احسان کرنے والے تھے۔آپ کے جودوکرم کے بعض واقعات ذیل میںدرج کئے جاتے ہیں:١۔اسحاق جلّاب سے روایت ہے:میں نے یوم الترویہ (٨ ذی الحجہ)امام علی نقی کے لئے بہت زیادہ گوسفندخریدلے جن کوآپ نے تمام دوستوںواحباب (6)میں تقسیم فرمادیا۔شیعوںکے بزرگافراد کی جماعت کاایک وفدآپ کے پاس پہنچاجس میں ابوعمروعثمان بن سعید، احمد بن اسحاق اشعری اور علی بن جعفر ہمدانی تھے ،احمد بن اسحق نے آپ سے اپنے مقروض ہونے کے متعلق عرض کیا توآپ نے اپنے وکیل عمروسے فرمایا:’ان کواورعلی بن جعفر کوتین تین ہزاردیناردیدو’،آپ کے وکیل نے یہ مبلغ ان دونوں کوعطاکردی۔ابن شہرآشوب نے اس علوی کرامت بیان پر یہ حاشیہ لگایا:(یہ وہ معجزہ ہے جس پر بادشاہوں کے علاوہ اور کوئی قادر نہیں ہوسکتا اور ہم نے اس طرح کی عطا وبخشش کے مثل کسی سے نہیں سنا ہے ۔(7)امام نے ان بزرگ افراد پر اس طرح کی بہت زیادہ جودوبخشش کی اور انہیں عیش وعشرت میں رکھااور یہ فطری بات ہے کہ بہترین بخشش کسی نعمت کا باقی رکھناہے ۔٢۔ابوہاشم نے امام سے اپنی روزی کی تنگی کا شکوہ کیا اور امام نے آپ پر گذرنے والے فاقوںکا مشاہدہ فرمایاتوآپ نے اس کے رنج وغم کودورکرنے کیلئے اس سے فرمایا!’اے ابوہاشم! تم خودپر خدا کی کس نعمت کاشکریہ اداکرناچاہتے ہو؟اللہ نے تجھے ایمان کارزق دیااوراس کے ذریعہ تیرے بدن کوجہنم کی آگ پرحرام قراردیا،اس نے تجھے عافیت کارزق عطاکیاجس نے اللہ کی اطاعت کرنے پرتیری مددکی اور تجھے قناعت کارزق عطاکیاجس نے تجھے اصراف سے بچایا’۔پھر آپ نے اس کو سو درہم دینے کا حکم صادر فرمایا۔(8)امام علی نقی نے لوگوں کو جو نعمتیں دی ہیںیہ وہ بہت بڑی نعمتیں ہیںجو اللہ نے اپنے بندوں کوعطا کی ہیں ۔
امام کا اپنے مزرعہ (زراعت کرنے کی جگہ )میں کام کرناامام اپنے اہل و عیال کی معیشت کیلئے مزرعہ میں کام کر تے تھے ،علی بن حمزہ سے روایت ہے :میں نے امام علی نقی کو مزرعہ میں کام کرتے دیکھا جبکہ آپ کے قدموں پر پسینہ آرہا تھا ۔میں نے آپ کی خدمت با برکت میں عرض کیا :میری جان آپ پر فدا ہو! کام کرنے والے کہاں ہیں ؟امام نے بڑے ہی فخر سے اس کے اعتراض کی تنقید کر تے ہوئے یوں فرمایا: ‘زمین پربیلچہ سے کام ان لوگوں نے بھی کیاجو مجھ سے اور میرے باپ سے بہتر تھے ؟’۔وہ کون تھے ؟’رسول اللہ ۖ ،امیر المو منین اور میرے آباء سب نے اپنے ہاتھوں سے کام کیا ،یہ انبیاء مرسلین ،اوصیاء اور صالحین کا عمل ہے ‘۔(9)ہم نے یہ واقعہ اپنی کتاب ‘العمل و حقوق العامل فی الاسلام ‘میں ذکر کیا ہے ۔اسی طرح ہم نے کام کی اہمیت پر دلالت کرنے والے دوسرے واقعات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ انبیاء اور صالحین کی سیرت ہے ۔
آپ کا زہدحضرت امام علی نقی نے اپنی پوری زند گی میں زہد اختیار کیا ،اور دنیا کی کسی چیز کو کو ئی اہمیت نہیں دی مگر یہ کہ اس چیز کا حق سے رابطہ ہو ،آپ نے ہر چیز پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دی۔ راویوں کا کہنا ہے کہ مدینہ اور سامراء میں آپ کے مکان میں کو ئی چیز نہیں تھی ،متوکل کی پولس نے آپ کے مکان پر چھاپا مارا اور بہت ہی دقیق طور پر تلاشی لی لیکن ان کو دنیا کی زند گی کی طرف ما ئل کر نے والی کو ئی چیز نہیں ملی ،امام ایک کھلے ہوئے گھر میں بالوں کی ایک ردا پہنے ہوئے تھے ،اور آپ زمین پر بغیر فرش کے ریت اور کنکریوں پر تشریف فرما تھے ۔سبط احمد جوزی کا کہنا ہے : بیشک امام علی نقی دنیا کی کسی چیز سے بھی رغبت نہیں رکھتے تھے ، آپ مسجد سے اس طرح وابستہ تھے جیسے اس کالازمہ ہوں ،جب آپ کے گھر کی تلاشی لی تو اس میں مصاحف ، دعائوں اور علمی کتابوں کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا ۔حضرت امام علی نقی اپنے جد امیرالمو منین کی طرح زندگی بسر کر تے تھے جو دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے ،انھوں نے دنیا کو تین مرتبہ طلاق دی تھی جس کے بعد رجوع نہیں کیا جاتا ہے ،اپنی خلافت کے دورانانھوں نے مال غنیمت میں سے کبھی اپنے حصہ سے زیادہ نہیں لیا ،آپ کبھی کبھی بھوک کی وجہ سے اپنے شکم پر پتھر باندھتے تھے،وہ اپنے ہاتھ سے لیف خرما کی بنا ئی ہو ئی نعلین پہنتے تھے، اسی طرح آپ کا حزام ‘تسمہ ‘ بھی لیف خرما کاتھا ،اسی طریقہ پر امام علی نقی اور دوسرے ائمہ علیہم السلام گامزن رہے انھوں نے غریبوں کے ساتھ زندگی کی سختی اور سخت لباس پہننے میں مواسات فرما ئی ۔
آپ کا علمحضرت امام علی نقی علمی میدان میں دنیا کے تمام علماء سے زیادہ علم رکھتے تھے ،آپ تمام قسم کے علوم و معارف سے آگاہ تھے ،آپ نے حقائق کے اسرار اور مخفی امور کو واضح کیا ،تمام علماء و فقہاء شریعت اسلامیہ کے پیچیدہ اور پوشیدہ مسا ئل میں آپ ہی کے روشن و منور نظریے کی طرف رجوع کرتے تھے ،آپ اور آپ کے آباء و اجداد کا سخت دشمن متوکل بھی جس مسئلہ میں فقہا میں اختلاف پاتا تھا اس میں آپ ہی کی طرف رجوع کر تا تھا اور سب کے نظریات پر آپ کے نظریہ کو مقدم رکھتا تھاہم ذیل میں وہ مسائل پیش کررہے ہیں جن میں متوکل نے امام کی طرف رجوع کیا ہے :١۔متوکل کا ایک نصرا نی کاتب تھا جس کی بات کو وہ بہت زیادہ مانتا تھا ،اس سے خالص محبت کرتا تھا ،اس کا نام لیکر نہیں پکارتا تھا بلکہ اس کو ابو نوح کی کنیت سے آواز دیا کر تاتھا، فقہا ء کی ایک جماعت نے اس کو ابو نوح کی کنیت دینے سے منع کرتے ہوئے کہا :کسی کافر کومسلمان کی کنیت دینا جا ئز نہیں ہے ، دوسرے ایک گروہ نے اس کو کنیت دینا جا ئز قرار دیدیا،تو اس سلسلہ میں متوکل نے امام سے استفتا کیا۔امام نے اس کے جواب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعدیہ آیت تحریر فرما ئی :(تَبَّتْ یَدَا َبِی لَہَبٍ وَتَبَّ )،(10) ‘ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیں اور وہ ہلاک ہو جا ئے ‘۔امام علی نقی نے آیت کے ذریعہ کافرکی کنیت کے جواز پردلیل پیش فرما ئی اور متوکل نے امام کی رائے تسلیم کر لی ۔(11)٢۔متوکل نے بیماری کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے نذر کی کہ اگر میں اچھا ہو گیا تو درہم کثیرصدقہ دونگا ،جب وہ اچھا ہو گیا تو اُس نے فقہا ء کو جمع کر کے اُ ن سے صدقہ کی مقدار کے سلسلہ میں سوالکیا فقہاء میں صدقہ دینے کی مقدار کے متعلق اختلاف ہو گیا ،متوکل نے اس سلسلہ میں امام سے فتویٰ طلب کیا تو امام نے جواب میں ٨٣دینار صدقہ دینے کے لئے فرمایا ،فقہا ء نے اس فتوے سے تعجب کا اظہار کیا ، انھوں نے متوکل سے کہا کہ وہ امام سے اس فتوے کا مدرک معلوم کرے تو امام نے اُن کے جواب میں فرمایا : خداوند عالم فرماتا ہے 🙁 لَقَدْ نَصَرَکُمْ اﷲُ فِی مَوَاطِنَ کَثِیرَةٍ )، (12)’بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے ‘اور ہمارے سب راویوں نے روایت کی ہے کہ سرایا کی تعداد ٨٣ تھی ۔(13)امام نے جواب کے آخر میں مزید فرمایا :’حب کبھی امیر المو منین اچھے نیک کام میں اضافہ فرماتے تھے تو وہ اُن سب کے لئے دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ منفعت آور ہوتا تھا ‘۔(14)٣۔اور جن مسا ئل میں متوکل نے امام کی طرف رجوع کیا اُن میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ متوکل کے پاس ایک ایسے نصرانی شخص کو لایا گیا جس نے مسلمان عورت سے زنا کیا تھا ،جب متوکل نے اُس پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا تو وہ مسلمان ہو گیا ،یحییٰ بن اکثم نے کہا :اس کے ایمان کے ذریعہ اُ س کا شرک اور فعل نابودہو گیا ،بعض فقہا ء نے اُس پر تین طرح کی حد جاری کرنے کا فتویٰ دیا ،بعض فقہا ء نے اس کے خلاف فتویٰ دیا ،تو متوکل نے یہ مسئلہ امام علی نقی کی خدمت میں پیش کیا،آپ نے جواب میں فرمایا کہ اس کو اتنا مارا جائے کہ وہ مرجائے ،یحییٰ اور بقیہ فقہاء نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا :ایسا کتاب و سنت میں نہیں آیا ہے ۔ متوکل نے ایک خط امام کی خدمت میں تحریر کیا جس میں لکھا : مسلمان فقہا اس کا انکار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب خدا اور سنتِ رسول میں نہیں آیا ہے۔ لہٰذا آپ ہمارے لئے یہ بیان فرما دیجئے کہ آپ نے یہ فتویٰ کیوں دیا ہے کہ اس کو اتنا مارا جائے جس سے وہ مرجائے ؟امام نے جواب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد یہ آیت تحریر فر ما ئی :(فَلَمَّاجَائَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرِحُوابِمَا عِنْدَہُمْ مِنْ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِہِمْ مَاکَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِئُون فَلَمَّارََوْا بَْسَنَا قَالُواآمَنَّا بِاﷲِ وَحْدَہُ وَکَفَرْنَابِمَاکُنَّا بِہِ مُشْرِکِینَ )۔(15)’پھر جب اُن کے پاس رسول معجزات لیکر آئے تواپنے علم پر ناز کرنے لگے ،اور نتیجہ میں جس بات کا مذاق اڑارہے تھے اسی نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے ۔پھر جب انھوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کررہے ہیں ‘۔اور متوکل نے امام کا نظریہ تسلیم کر لیا۔(16)
آپ کے اقوال زرّیںامام علی نقی نے کچھ نورانی کلمات کا مجموعہ بیان فرمایا ہے جس میں مختلف تربیتی اور فطری اسباب بیان فرمائے ہیں جو عالم اسلام میں تفکر کی سب سے بہترین دولت شمار کئے جاتے ہیں :١۔امام علی نقی کا فرمان ہے: ‘خیر (اچھا ئی )سے بہتر خود اس کا انجام دینے والا ہے ،جمیل سے صاحب جمال خود اس کا کہنے والا ہے ،اور علم عمل کرنے والے ترجیح رکھتا ہے۔۔۔ ‘۔امام نے اِن کلمات کے ذریعہ اُن اشخاص کی توصیف کی ہے جو اِن صفات سے آراستہ ہیں :الف:نیک کام کرنے والا اخلاقی ارزشوں کے لحاظ سے اچھا ئی سے بہتر ہے ۔ب۔اچھی بات کہنے والا ،چونکہ یہ شخص لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔ج۔اپنے علم پر عمل کرنے والا ،علم پر ترجیح رکھتا ہے ،بیشک علم عمل کے لئے وسیلہ اور تہذیب چاہتا ہے ،جب علم پر عمل ہوتا ہے تو اس کی رسالت کا حق ادا ہوجاتا ہے ،علم محفوظ ہوجاتا ہے ،اس کی شان و منزلت بڑھ جا تی ہے اور یہ علم سے بہتر ہے ۔٢۔امام علی نقی کا فرمان ہے:کرامت سے نا آشنا شخص کی بہتری اس میں ہے کہ وہ ذلیل ہوجائے ‘۔یہ کلمہ کتنا زیبا ہے کیونکہ جو شخص کرامت انسا نی سے نا آشنا ہے اور انسا نی اقدار کی خبر نہیں رکھتا اس کی بہتری اسی میں ہے کہ اس سے رو گردانی کی جائے ۔٣۔امام علی نقی کا فرمان ہے:’سب سے بڑا شر بری عادت ہے ‘۔بیشک سب سے بڑی مصیبت بری عادت ہے، اس سے انسان عظیم شرّ میں مبتلا ہوجاتا ہے جس سے متعدد مصیبتیں اور مشکلیں پیدا ہو جا تی ہیں ۔٤۔امام علی نقی کا فرمان ہے:’جہالت اور بخل سب سے بری عا دتیں ہیں۔۔۔’۔اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جہالت اور بخل بری عا دتیں ہیں ،یہ دونوں انسان کو اس کے پروردگار سے دور کردیتی ہیں اوروہ اُن دونوں کے ساتھ حیوان سائم کی طرح زندگی بسر کرتا ہے ۔٥۔امام علی نقی کا فرمان ہے:’نعمتوں کا انکار سستی کی علامت ہے اور ردّو بدل کا سبب ہوتا ہے ‘۔بیشک جس نے کفرانِ نعمت کیا اور نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا وہ کا ہل ہے ،منعم کے دائرہ ٔ اطاعت سے خارج ہے ۔جیسا کہ نعمتوںپراکڑنانعمتوںکے زوال کا کا سبب ہوتا ہے ۔٦۔امام علی نقی کا فرمان ہے:’لڑا ئی جھگڑا پرانی صداقت ‘بھا ئی چارگی ‘کو ختم کر دیتا ہے مورد اعتماد معاملات کو منحل کر دیتا ہے ،جھگڑے کی کم سے کم حد یہ ہے کہ ایک دوسرے پر برتری طلب کی جائے ، جبکہ برتری طلبی جدا ئی کے اسباب کی بنیاد ہے۔۔ ۔’۔(17)مراء مجادلہ کو کہتے ہیں جو صداقت کی ریسمان کو توڑ دیتا ہے ،محبت و مودّت کو منحل کر دیتا ہے اور دونوں کے درمیان بغض و عداوت کورائج کر دیتا ہے ۔
امام کے امتحان کے لئے متوکل کا ابن سکیت کو بلانامتوکل نے ایک بہت بڑے عالم دین یعقوب بن اسحاق جو ابن سکیت کے نام سے مشہور تھے کو امام علی نقی سے ایسے مشکل مسائل پوچھنے کی غرض سے بلایا جن کو امام حل نہ کر سکیں اور اُ ن کے ذریعہ سے امام کی تشہیر کی جا سکے ۔ابن سکیت امام علی نقی کا امتحان لینے کیلئے مشکل سے مشکل مسائل تلاش کرنے لگا کچھ مدت کے بعد وہ امام سے سوالات کرنے کیلئے تیار ہو گیا تو متوکل نے اپنے قصر (محل )میں ایک اجلاس بلایاتو ابن سکیت نے امام علی نقی سے یوں سوال کیا :اللہ نے حضرت موسیٰ کو عصا اور ید بیضا دے کر کیوں مبعوث کیا ،حضرت عیسیٰ کو اندھوں ، برص کےمریض اور مردوں کو زندہ کرنے کے لئے کیوں مبعوث کیا، اور حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کو قرآن اور تلوار دے کر کیوں مبعوث کیا ؟حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے جواب میں یوں فرمایا :’اللہ نے حضرت مو سیٰ کو عصا اور ید بیضا دے کر اس لئے بھیجا کہ ان کے زمانہ میں جادو گروں کا بہت زیادہ غلبہ تھا ،جن کے ذریعہ ان کے جادو کومغلوب کردے، وہ حیرا ن رہ جا ئیںاور ان کے لئے حجت ثابت ہو جا ئے ،حضرت عیسیٰ کواندھوں اور مبروص کوصحیح کرنے اور اللہ کے اذن سے مردوں کو زندہ کرنے کیلئے مبعوث کیا کیونکہ ان کے زمانہ میں طبابت اور حکمت کا زور تھا، خدا وند عالم نے آپ کو یہ چیزیں اس لئے عطا کیں تاکہ ان کے ذریعہ اُن کو مغلوب کردیں اور وہ حیران رہ جا ئیں ،اور حضرت محمد ۖ کوقرآن اور تلوار دے کر اس لئے مبعوث کیا کیونکہ آپ ۖ کے زمانہ میں تلوار اور شعر کا بہت زیادہ زور تھااور وہ نورانی قرآن کے ذریعہ ان کے اشعار پر غالب آگئے اور زبردست تلوار کے ذریعہ ان کی تلواروں کو چکا چوندکردیا اور ان پر حجت تمام فرما دی ۔۔۔’۔امام نے اپنے حکیمانہ جواب کے ذریعہ ان معجزوں کے ذریعہ انبیاء کی تائید فرما ئی جو اس زمانہ کے لحاظ سے بہت ہی مناسب تھے، اللہ نے اپنے رسول حضرت مو سیٰ کی عصا دے کر تائید فرما ئی جو ایک خطرناک اژدھا بن کر جادو گر وں کی اژدھے کی شکل میں بنا ئی ہوئی رسیوں اور لکڑیوںکو نگل گیاتو وہ مو سیٰ کی طرح کی طرح معجزہ لانے سے عاجز آگئے اور وہ علی الاعلان موسیٰ کی نبوت پر ایمان لے آئے ،اسی طرح اللہ نے آپ کو ید بیضاء عطا کیا تھاجونور اورروشنی میں سورج کے مثل تھااور یہ معجزہ آپ کی سچا ئی کی ایک نشانی تھا۔لیکن پروردگار عالم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اندھوں کو بینائی ،مبروص کو شفااور مردوں کو زندہ کرنے کی تائید فرما ئی کیونکہ آپ کے زمانہ میں طب کا زور اوج کمال پر تھالہٰذا اطباء آپ کا مثل لانے سے عاجز آگئے ۔پروردگار عالم نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کی قرآن کریم کے جاودانہ فصیح و بلیغ معجزہ کے ذریعہ تا ئید فرما ئی جس میں انسان کی کرامت اور اس کی امن دار حیات کو منظم طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ، یہاں تک کہ بلغائے عرب اس کے ہم بحث اور اس کا مثل نہ لا سکے ۔۔۔جیسا کہ اللہ نے امیر المو منین علی کی کاٹنے والی تلواردے کر تا ئید فرما ئی تھی جو عرب کے سر کشوں کے مشرکین کے سروں کو کا ٹتی جاتی تھی ،اور بڑے بڑے بہادر اس کا مقابلہ کرنے سے ڈرتے ہوئے کہا کرتے تھے :علی کی تلوار کے علاوہ جنگ سے فرار کرنا ننگ ہے وہ اس کو ندتی ہو ئی بجلی کے مانند تھی جومشرکین اور ملحدین کے ستونوں کوتباہ و برباد کر دیتی تھی ۔بہر حال ابن سکیت نے امام سے سوال کیا کہ حجت کسے کہتے ہیں ؟آپ نے فرمایا :’العقل یُعرفُ بہ الکاذبَ علی اللّٰہ فیُکذَّبُ’۔ابن سکیت امام کے ساتھ مناظرہ کرنے سے عاجز رہ گیایحییٰ بن اکثم نے اس کو پکارا تو اس نے جواب دیا:ابن سکیت اور اس کے مناظروں کو کیا ہو گیا ہے یہ صاحب ِ نحو ،شعر اور لغت تھا۔(18 )امام اپنے زمانہ میں صرف شریعت کے احکام میں ہی اعلم نہیں تھے بلکہ آپ تمام علوم و معارف میں اعلم تھے اور ہم نے اُن بحثوں کو اپنی کتاب ‘حیاةالامام علی نقی ‘میں تحریر کیاہے۔
عبادتائمہ ہدی علیہم السلام کی ایک صفت خدا وند عالم سے تو بہ کرنا ہے کیونکہ خدا سے محبت ان کے اعضا و جوارح میں مجذوب ہوگئی ہے ،وہ اکثر ایام میں روزہ رکھتے ہیںراتوں میں نمازیں پڑھتے ہیں،اللہ سے مناجات کرتے ہیںاور اس کی کتاب قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے ،شاعر ابوفراس حمدانی نے ائمہ ہدیٰ اور ان کے دشمن عبا سیوں کے درمیان موازنہ کیا ہے ۔تُمْسی الِّتلاوةُ فی اییاتھم أَبداوفی بیوتکم الاوتارُوَالنُّغَمُ
‘ان کے گھروں میں ہمیشہ رات کو تلاوت کی جا تی ہے جبکہ تمہارے گھروں میں ساز و گانا بجایاجاتا ہے ‘۔حضرت امام علی نقی کے مانند عباد ت تقوی ٰاور دین کے معاملہ میں اتنا پا بند انسان کوئی دکھا ئی نہیں دیتا، راویوں کا کہنا ہے :امام نے کبھی بھی کوئی بھی نافلہ نماز ترک نہیں کی آپ مغرب کی نافلہ نماز کی تیسری رکعت میں سورئہ الحمد اور سورئہ حدید اس آیت :(وعلیم بذات الصدور ) (19)تک پڑھتے تھے اور چوتھیرکعت میں سورئہ الحمد اور سورئہ حجرات (20)کی آخری آیات کی تلاوت کرتے تھے، امام سے دورکعت نماز نافلہ منسوب کی گئی ہے جس کی پہلی رکعت میں آپ سورئہ فاتحہ اور سورئہ یس کی تلاوت کرتے تھے اور دوسری رکعت میں سورئہ فاتحہ اور سورئہ رحمن (21 )پڑھتے تھے، ہم آپ کی قنوت اورنماز صبح اور نماز عصر کے بعد پڑھی جانے والی دعائوں کو (حیاةالامام علی نقی ) میں بیان کرچکے ہیں ۔متوکل کے ساتھمتوکل خاندان نبوت کا سب سے زیادہ سخت دشمن تھا وہ ان سے بغض عداوت رکھنے میں مشہور تھا۔اس نے امام حسین سید الشہدا کی قبر مطہر کو منہدم کیا ۔امام حسین کی قبر کی زیارت کرنے سے منع کیا، زیارت کرنے والوں پر مصیبتیں ڈھائیں، مورخین کا کہنا ہے کہ اس نے علو یوں پر سب سے زیادہ ظلم وستم ڈھائے اور بنی امیہ اہل بیت سے دشمنی وعداوت رکھنے میں مشہور تھے۔متو کل کے سینہ میں کینہ ودشمنی آگ اس وقت زیادہ بھڑکتی تھی جب وہ مسلمانوں سے امام کے بلند مرتبہ کے بارے میں سنتا تھا اور مسلمان اپنے دلوں میں ان کا مقام بنا ئے ہوئے تھے، تو اس کی ناک پھول جاتی تھی ،اس کا جادو ٹوٹ جاتا تھا، ہم اس سر کش کے ساتھ میں امام کی زندگی سے متعلق بعض واقعات ذیل میںنقل کررہے ہیں ۔
امام کی شکایتایک بے دین شخص نے عبد اللہ بن محمد جو مدینہ میں متوکل کا والی تھا اس سے امام کی شکایت کی جومندرجہ ذیل خطرناک امور پر مثتمل تھی :١۔عالم اسلام کے مختلف گوشوں سے امام کے پاس بہت زیادہ مال آتا ہے جس سے عباسی حکومت سے مقابلہ کرنے کے لئے اسلحہ خریدا جاتا ہے ۔٢۔ تمام اسلامی مقامات پر امام کی بہت زیادہ محبت اور تعظیم کی جانے لگی ہے ۔٣۔امام کی طرف سے قیام کا خطرہ ہے لہٰذا اسے اجازت دیدی جائے کہ وہ امام کو اسیر کرکے سخت قید خانوں میں ڈال دے ۔
امام کاشکایت کی تکذیب کرناجب امام کو اپنے خلاف اس کی چغلخوری کا علم ہوا۔۔۔تو آپ نے والی مدینہ کا منصوبہ باطل کرنے کے سلسلہ میں قدم اٹھایا اور متوکل کو ایک خط تحریر کیا جس میں اس کے عامل کے بغض وکینہ ،اس کے برے معاملہ اور اس کی چغلخوری کی تکذیب کرتے ہوئے تشریح فرمائی اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ وہ متوکل کے خلاف کوئی بُرا قصدوا رادہ نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کی حکومت کے خلاف خروج کرنا چاہتے ہیں جب امام کا یہ خط متوکل کے پاس پہنچا تو وہ امام سے مطمئن ہوگیا اور جس چیز کی امام کی طرف نسبت دی گئی تھی اس نے اس کی تکذیب کی ۔
متوکل کا امام کے پاس خطمتوکل نے امام کے خط کے جواب میں ایک خط لکھا جس میں اس نے اپنے والی کو اس کے منصب و عہدے سے معزول کردیا تھا اورآپ کو سامرا آکروہاں رہنے کی دعوت دی:اما بعد:اے حاکم آپ کی قدر کی معرفت رکھتا ہے، آپ کی قرابت کی رعایت کرتا ہے ،آپ کے حق کو واجب جا نتا ہے ،آپ اور آپ کے اہل بیت کے امور کے متعلق تقدیر میں وہی لکھا ہے جس کو اللہ صلاح سمجھتا ہے ،آپ کی عزت کو پائیدار رکھے ،جب تک آپ کے پروردگار کی رضا ہے آپ اور ان کو اپنے امن و امان میں رکھے اور جو آپ اور ان پر واجب فرمایا ہے اس کو ادا کریں ۔حاکم نے عبد اللہ بن محمد ،جس کو جنگ اور مدینة الرسول ۖمیں نماز پڑھانے کا والی بنایا تھا،اس کے عہدے سے بر طرف کردیا جب اس نے آپ کے حق کے سلسلہ میں لا علمی کا اظہار کیا،آپ کی قدر کو ہلکا سمجھا،جب آپ نے اس کو لائق سمجھااور اس کی طرف امر منسوب کیااور بادشاہ کو آپ کے اس سے بریٔ الذمہ ہونے کا علم ہوا ،آپ اپنے کردار و اقوال میں صدق نیت کے مالک ہیں ، اور آپ نے خود کو اس کا اہل نہیں بنایا جس کی آپ کو چا ہت تھی ،بادشاہ نے محمد بن فضل کو والی بنادیا ہے اور اس کو آ پ کی عزت و اکرام کرنے کا حکم دیدیا ہے ،آپ کے امر اور مشورہ کو ماننے کے لئے کہا ہے ،یہی اللہ اوربادشاہ کے نزدیک مقرب بھی ہے ،بادشاہ آپ کے دیدار کا مشتاق ہے ،اگر آپ اپنے اہل بیت اور چاہنے والوں کی زیارت و ملاقات کرنا چا ہتے ہیں تو جب بھی آپ چا ہیں چلے جائیں ،جہاں چا ہیں ٹھہر جا ئیں ،جس طرح چا ہیں سیر کریں ،اور اگر آپ چا ہیں بادشاہ کے والی یحییٰ بن ہر ثمہ اور اس کے ساتھ لشکر کو اپنے ساتھ سیر کے لئے لے جا سکتے ہیں ،ہم نے اس کو آپ کی اطاعت کرنے کی اجازت دیدی ہے ،بادشاہ اپنی موت تک آپ کا اللہ سے خیر خواہ ہے ،اس کے بھائیوں ،اولاد ، اہل بیت اور اس کے خواص میں سے کو ئی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ اس کے مقام و منزلت سے زیادہ مہربانی کی جائے ، ان کی بات قابل تعریف نہیں ہے ،نہ ہی ان کا کو ئی نظریہ ہے ، ان سے زیادہ کو ئی مہر بان نہیں ہے ،وہ سب سے زیادہ نیک ہیں اور ان کے مقابلہ میں تمہارے لئے قابل اطمینان ہیں ، والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ۔۔۔یہ خط ابراہیم بن عباس نے جما دی الثانی ٢٤٣ ھ میں تحریر کیا ۔ (22)
امام علی نقی کا سامرا پہنچنامتوکل نے یحییٰ بن ہرثمہ کو امام کو مدینہ لانے کیلئے بھیجااور اس سے کہاکہ حکومت کے خلاف امام کے قیام پر دقیق نظر رکھے ۔یحییٰ کسی چیز کا قصد کئے بغیر مدینہ پہنچا ،امام سے ملاقات کی اور آپ کی خدمت میں متوکل کا خط پیش کیا جب مدینہ والوں کو اس بات کی خبر ہو ئی تو وہ امام کے بارے میں متوکل سر کش کے خوف سے نالہ و فریادکرنے لگے ،مدینہ والے امام سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے ،کیونکہ مدینہ کے علماء آپ کے علوم سے مستفیض ہوتے تھے ،امام غریبوں پر احسان کرتے تھے ،اورآپ دنیا کی کسی چیز سے بھی رغبت نہیں رکھتے تھے (23 ) یحییٰ نے ان کو تسکین دلا ئی اور قسم کھا ئی کہ امام کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔امام نے مدینہ میں اپنے اہل بیت سے خدا حافظ کیا ،یحییٰ نے امام کی خدمت کرنا شروع کیاتو وہ دنیامیں آپ کے تقویٰ ،عبادت ،اور زہد سے متعجب ہوا ،آپ کی سواری مقام بیداء پر پہنچی اور اس کے بعد آپ نے یاسریہ میں قیام کیا تو وہاں پر اسحاق بن ابراہیم نے آپ سے ملاقات کی اور جب امام کے یاسریہ پہنچنے کی خبر شا ئع ہو ئی تو یاسریہ کے رہنے والوں نے آپ کا زبر دست استقبال کیا ،حالات کے ڈر کی وجہ سے امام کو رات کے وقت بغداد میں داخل کیا گیا کہ کہیں امام کے دیدار کے پیاسے شیعہ امام کا زبر دست طریقہ سے استقبال نہ کر لیں ۔یحییٰ بغداد کے حاکم اسحق بن ابراہیم ظاہری کے پاس آیا اور اس کو امام کے مقام و منزلت کا تعارف کرایا ، اور جو کچھ اس نے آپ کا زہد ،تقویٰ اور عبادت دیکھی تھی سب کچھ اس کو بتایا ۔اسحاق نے اس سے کہا : بیشک یہ شخص (امام علی نقی )فرزند رسول ہیں ،تونے متوکل کے منحرف ہونے کو پہچان لیا ہے ،اگر تو نے اُن کے متعلق کو ئی بات اُس تک پہنچا ئی تو وہ انھیں قتل کر دے گا اور قیامت کے دن نبی کا غصہ تیرے سلسلہ میں زیادہ ہو جا ئے گا ۔اسحاق نے اس کو امام کے حق میں کو ئی بھی بُری بات متوکل تک نقل کرنے سے ڈرایاچونکہ متوکل اہلبیت کا سخت اور بے شرم دشمن تھا ، یحییٰ نے جلدی سے جواب دیا :خدا کی قسم میں کسی چیز کو نہیں جانتا جس کا میں انکار کروں میں اُن سے بہترین امر کے علاوہ کسی اور چیز سے واقف نہیں ہوں ۔پھر امام علی نقی کی سواری بغداد سے سامرا ء کی طرف چلی جب امام سامرا پہنچے تو یحییٰ جلدی سے حکومت کی ایک بہت بڑی شخصیت تُرکی کے پاس پہنچا او ر اُس کو امام کے سامرا ء پہنچنے کی اطلاع دی تو تر کی نے یحییٰ کو امام کے متعلق متوکل کو کو ئی بھی بُری بات نقل کرنے سے ڈراتے ہوئے کہا :اے یحییٰ! خدا کی قسم ، اگر امام کاایک بال بھی بیکا ہوگیا تو اس کاذمہ دارتوہوگا ۔یحییٰ بغداد کے وا لی اور تر کی غلام کی امام کے سلسلہ میں موافقت سے متعجب ہوا اور اس نے امام کی حفاظت کرنا واجب سمجھا ۔(24)
امام خان صعالیک میںمتوکل نے عوام الناس کی نظرمیں آپ کی شان و وقار و اہمیت کو کم کر نے کے لئے آپ کو ‘خان صعالیک ”فقیروں کے ٹھہرنے کی جگہ ‘میںرکھا ،صالح بن سعید نے امام سے ملاقات کی ، وہاں کے حالات دیکھ کر بہت رنجیدہ و ملول ہوئے اور آپ سے یوں گویا ہوئے:میری جان آپ پر فدا ہو انھوں نے ہر طریقہ سے آپ کا نور بجھانے کا ارادہ کر رکھا ہے آپ کی شان میں ایسی کو تا ہی کی جا رہی ہے کہ آپ کو اس مقام پر ٹھہرا دیا ہے ۔امام نے اس کی محبت اور اخلاق کا شکریہ ادا کیاجس سے اس کا رنج و الم کم ہوا اور جب اُس نے امام کے اس معجزہ کا مشاہدہ کیاجو اللہ نے اپنے اولیا اور انبیاء کو عطا فرمایا ہے تو اس کو قدرے سکون ہوا اور اس کا حزن و غم دور ہو گیا ۔۔۔(25)
امام کی متوکل سے ملاقاتیحییٰ نے جلد ہی متوکل کو امام کی بہترین حیات و سیرت سے آگاہ کردیا اور یہ بتایا کہ میں نے امام کے گھر کی تلاشی لی تو اُس میں مصاحف اور دعائوں کی کتابوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ،اُن پر جو جنگ کرنے کی تہمت لگا ئی ہے وہ با لکل غلط ہے ،متوکل باغی و سرکش کا غصہ کافور ہو گیا تو اُ س نے امام کو اپنے پاس لانے کا حکم دیا،جب امام اس کے پاس پہنچے تو اُس نے آپ کا بہت زیادہ احترام واکرام کیا(25)لیکن آپ کو سامرا میں رہنے پر مجبور کیا تاکہ وہ آپ کی حفاظت کرسکے ۔
متوکل کا اچھے شاعر کے متعلق سوال کرنامتوکل نے علی بن جہم سے سب سے اچھے شاعر کے متعلق پوچھا تو اُ س نے متوکل کو بعض دورجاہلیتجاہلیت اور دور اسلام کے شعرا ء کے نام بتائے ،متوکل اُن سے قانع نہیں ہوا تو اُس نے اس سلسلہ میں امام سے مخاطب ہو کر سوال کیا تو امام نے فرمایا:’حما نی ‘(27 )جس نے یہ اشعار کہے ہیں :’لقدْ فاخرتنا ف قریش عصابةُبِمَطِّ خدودٍ وَاَمْتِدَادِ أصَابِعِ
فَلَمَّا تَنَازَعْنا المَقَالَ قَضیٰ لَنَاعَلَیْھِمْ بِمَا نَھویٰ نِدَائَ الصَّوَامِعِ
تَرَانَا سُکُوتاً وَالشَّھِیْدُ بِفَضْلِنَاعَلَیْھِمْ جَھِیْرُ الصَّوْتِ فِکُلِّ جَامِعِ
فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَحْمَدَ جَدُّنَاوَنَحْنُ بَنُوْہُ کَالنَّجُوْمُ الطَّوَالِعِ’
‘ قریش کے سلسلہ میں ایک جماعت نے تکبر کی بنا پر ہمارے ساتھ فخر و مباہات کیاجب ہم نے اُن سے مناظرہ کیا تو اس نے ہمارے حق میں فیصلہ کیا تم ہم کو خاموش دیکھتے ہو جبکہ ہر سجدہ میں صدائے اذان کا بلند ہونا ہماری فضیلت کی گوا ہی دیتا ہے کیونکہ رسول ۖخداہمارے نانا ہیں اور ہم چمکتے ستاروں کی مانند اُن کی اولاد ہیں ‘۔متوکل نے امام سے مخاطب ہو کر کہا :اے ابوالحسن گرجہ گھروں سے کیا آوازیںآتی ہیں ؟امام نے جواب میں فر مایا :اشھد ان لاالٰہ الَّااللّٰہ واشھد أَنَّ محمداًرسول اللہ وَ مُحَمَّدُ جَدِّْ أَمْ جَدُّکَ ؟’ ۔’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کو ئی خدا نہیں ہے ،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور محمد ۖ میرے جد ہیں یا تیرے جد ہیں ‘؟متوکل طاغوت غیظ و غضب میں بھر گیا اور اُ س نے لرزتی ہو ئی آواز میں کہا :وہ آپ کے جد تھے اسی لئے آپ سے دور ہو گئے ۔(28)متوکل امام سے ناراض ہو گیا،اس کے دل میں امام کے خلاف بغض و عناد بھر گیا اور اس نے اماممخالفت میں مندرجہ ذیل امور انجام دئے :
١۔امام کے گھر پر حملہمتوکل نے چند سپاہیوں کو رات میں امام کے گھر پر حملہ اور آپ کو گر فتار کرنے کا حکم دیا ، سپاہی اچانک امام کے گھر میں داخل ہو گئے اور انھوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ امام بالوں کا کُرتا پہنے اور اُون کی چا در اوڑھے ہوئے تنہا ریگ اور سنگریزوں(29) کے فرش پر رو بقبلہ بیٹھے ہوئے قرآن کی اس آیت کی تلاوت فرمارہے ہیں :(َمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ َنْ نَجْعَلَہُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَائَ مَا یَحْکُمُونَ )۔(30)’کیا برائی اختیار کرلینے والوں نے یہ اختیار کرلیا ہے کہ ہم انھیں ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے برابر قرار دیدیں گے کہ سب کی موت و حیات ایک جیسی ہو یہ اُن لوگوں نے نہایت بدترین فیصلہ کیا ہے ‘۔سپاہیوں نے اسی انبیاء کے مانند روحا نی حالت میںامام کو متوکل کے سامنے پیش کیامتوکل اس وقت ہاتھ میں شراب کا جام لئے ہوئے دستر خوان پر بیٹھا شراب پی رہا تھا جیسے ہی اُ س نے امام کو دیکھا تو وہ امام کی مذمت میںشراب کا جام امام کو پیش کرنے لگا امام نے اس کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا :’خدا کی قسم میرا گو شت اورخون کبھی شراب سے آلودہ نہیں ہوا ‘۔متوکل نے امام سے کہا :میرے لئے اشعار پڑھ دیجئے ؟امام نے فرمایا:’میں بہت کم اشعار پڑھتا ہوں’ ۔متوکل نہ مانا اور اُس نے اصرار کرتے ہوئے کہا ضرور پڑھئے ۔امام علی نقی نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے جن کو سُن کر حزن و غم طاری ہو گیا اور وہ گریہ کرنے لگا :’باتُواعلیٰ قُلَلِ الأَجْبَالِ تَحْرُسُھُمْغُلْبُ الرِّجَالِ فَما أَغْنَتْھُمُ الْقُلَلُ
وَاسْتُنْزِلُوا بَعْدَ عِزٍّ عَنْ مَرَاتِبِھِمْفَاُوْدِعُوا حُفَراً یَابِئْسَ مانَزَلُوا
ناداھُم صارِخُ مِنْ بَعْدِ مَاقُبِرُواأَیْنَ الأَسِرَّةُ وَالتَّیْجَانُ وَالْحِلَلُ؟
أَیْنَ الوُجُوْہُ الَّتِیْ کانَتْ مُنَعّمَةًمِنْ دُوْنِھَا تُضْرَ بُ الاَسْتَارُ وَالْکِلَلُ؟
فَأَفْصَحَ الْقَبْرُ عَنْھُمْ حِیْنَ سَأَلَھُمْتِلْکَ الْوُجُوْہُ عَلَیْھَا الدُّوْدُ یَقْتَتِلُ
قدْطَالما أَکَلُوْا دَھْراً وَمَا شَرِبُوْافأَصْبَحُوْا بَعْدَ طُوْلِ الأَکْلِ قَدْ أُکِلُوْا’
‘ زمانہ کے رؤسا ء و سلاطین جنھوں نے پہاڑوں کی بلندیوں پرپہروں کے اندر زندگی گزاری تھی ۔ایک دن وہ آگیا جب اپنے بلند ترین مراکز سے نکال کر قبر کے گڈھے میں گرا دئے گئے جو اُن کی بد ترین منزل ہے ۔اُن کے دفن کے بعد منادی غیب کی آواز آئی کہ وہ تخت و تاج و خلعت کہاں ہے اور وہ نرم و نازک چہرے کہاں ہیں جن کے سامنے بیش قیمت پردے ڈالے جاتے تھے ؟تو بعد میں قبر نے زبانِ حال سے پکار کر کہاکہ آج اُن چہروں پر کیڑے رینگ رہے ہیں۔ایک مدت تک مال دنیا کھاتے رہے اور اب انھیںکیڑے کھا رہے ہیں ‘۔متوکل جھومنے لگا ،اس کا نشہ اُتر گیا،اُس کی عقل نے کام کر نا چھوڑ دیا،وہ زار و قطار رونے لگا،اس نے اپنے پاس سے شراب اٹھوادی ،بہت ہی انکساری کے ساتھ امام سے یوں گویا ہوا :اے ابوالحسن کیا آپ مقروض ہیں ؟امام نے جواب میں فرمایا:’ہاں ،میں چار ہزار درہم کا مقروض ہوں’ ۔متوکل نے امام کو چار ہزار درہم دینے کا حکم دیااورامام آپ کے بیت الشرف پر پہنچا دیا ۔ (31)یہ واقعہ خدا وند عالم کے حرام کردہ تمام گناہوں کا ار تکاب کرنے والے سر کشوں سے امام کے جہاد کرنے کی عکا سی کرتا ہے ،امام نے اس کے ملک اور سلطنت کی کو ئی پروا نہ کرتے ہوئے اس کو نصیحت فر ما ئیاللہ کے عذاب سے ڈرایا ،دنیا سے مفارقت کے بعد کے حالات کا تعارف کرایا،اس کا لشکر ،سلطنت اور تمام لذتیں قیامت کے دن اس سے اس کے افسوس کرنے کو دفع نہیں کر سکتیں ،اسی طرح آپ نے اس کو یہ بھی بتایا کہ انسان کے مرنے کے بعد اُس کے دقیق بدن کا کیا حال ہوگا ،یہ حشرات الارض کا لقمہہوجائے گا ۔متوکل نے کبھی اس طرح کا مو عظہ سُنا ہی نہیں تھا بلکہ اُ س کے کا نوں میں تو گانے بجانے کی آوازیں گونجاکر تی تھیں ،اس کو اس حال میں مو ت آگئی کہ گانے بجانے والے اس کے ارد گرد جمع تھے ،اُ س نے تو اپنی زند گی میں کبھی خدا سے کئے ہوئے عہد کو یاد کیا ہی نہیں تھا ۔
٢۔امام پراقتصادی پا بندیمتوکل نے امام پر بہت سخت اقتصا دی پا بندی عائد کی ،شیعوں میں سے جو شخص بھی امام کو حقوق شرعیہ یا دوسری رقومات ادا کرے گا اس کو بے انتہاسخت سزا دینا معین کر دیا ،امام اور تمام علوی افراد متوکل کے دور میںاقتصادی لحاظ سے تنگ رہے ،مو منین حکومت کے خوف سے آپ تک حقوق نہیں پہنچا پاتے تھے ، مومنین اپنے حقوق شرعیہ ایک روغن فروش کے پاس پہنچا دیتے تھے اور وہ اُن کو آپ کے لئے بھیج دیا کرتا تھا اور حکومت کو اس کی کو ئی خبر نہیں تھی ،اسی وجہ سے امام کے بعض اصحاب کو دہا نین(روغن فروش ) کے لقب سے یاد کیاگیا ہے ۔(32)
٣۔ امام کو نظر بند کرنامتوکل نے امام کو نظر بند کرنے اور قید خانہ میں ڈالنے کا حکم دیدیا ،جب آپ کچھ مدت قید خانہ میں رہے تو صقر بن ابی دلف آپ سے ملاقات کیلئے قید خانہ میںآیا ،نگہبان نے اُس کا استقبال کیا اور تعظیم کی ، دربان جانتا تھا کہ یہ شیعہ ہے تو اُ س نے کہا :آپ کا کیا حال ہے اور آپ یہاں کیوں آئے ہیں ؟خیر کی نیت سے آیاہوں ۔۔۔شاید آپ اپنے مولا کی خبر گیری کے لئے آئے ہیں ؟میرے مو لا امیر المو منین ،یعنی متوکل ۔دربان نے مسکراتے ہوئے کہا :خا موش رہئے ،آپ کے حقیقی اور حق دار مو لا (یعنی امام علی نقی )، مت گھبرائو میں بھی شیعہ ہی ہوں ۔الحمد للّٰہ ۔کیا آپ امام کا دیدار کرنا چا ہتے ہیں ؟ہاں ۔۔۔ڈاکیہ کے چلے جانے تک تشریف رکھئے ۔۔۔جب ڈاکیہ چلا گیا تو دربان نے اپنے غلام سے کہا :صقر کا ہاتھ پکڑ کر اُ س کمرہ میں لے جائو جہاں پر علوی قید ہیں اور اِن دونوں کو تنہا چھوڑ دینا ،غلام اُن کا ہاتھ پکڑ کر امام کے پاس لے گیا ،امام ایک چٹا ئی پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہیں پر آپ کے پاس قبر کھدی ہو ئی تھی متوکل نے اس سے امام کوڈرانے کا حکم دیا، امام نے صقر سے فرمایا:اے صقر کیسے آنا ہوا ؟صقر :میں آپ کی خبر گیری کے لئے آیا ہوں ۔صقر امام کے خوف سے گریہ کرنے لگے تو امام نے ان سے فرمایا :’اے صقر مت گھبرائو وہ ہم کو کو ئی گزند نہیں پہنچا سکتا ۔۔۔’۔صقر نے ہمت با ندھی ،خدا کی حمد و ثنا کی ،اس کے بعد امام سے کچھ شرعی مسا ئل دریافت کئے اور امام نے ان کے جوابات بیان فرمائے اور صقر امام کو خدا حافظ کرکے چلے آئے ۔(33)امام کا متوکل کے لئے بد دعا کرناامام علی نقی متوکل کی سختیوں سے تنگ آگئے ، اُس نے اپنی سنگد لی کی بنا پر امام پر ہر طرح سے سختیاں کیں اُ س وقت امام نے اللہ کی پناہ ما نگی اور ائمہ اہل بیت کی سب سے اجلّ و اشرف دعا کی جس کو مظلوم کی ظالم پر بد دعا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ دعائوں کے خزانہ میں سے ہے ،اس دعا کو ہم اپنی کتابحیاة الامام علی نقی میں ذکر کر چکے ہیں ۔ائمہ طا ہرین کی اس مختصر سوانح حیات میں اس کو بیان کرنے کی کو ئی ضرورت نہیں ہے ۔
امام کا متوکل کے ہلاک ہونے کی خبر دینامتوکل نے مجمع عام میں امام علی نقی کی شان و منزلت کم کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے ، اُ س نے اپنی رعایا کے تمام افراد کو امام کے پاس چلنے کا حکم دیا ،انھوں نے ایسا ہی کیا ،گر می کا وقت تھا ،گر می کی شدت کی وجہ سے امام اُن کے سامنے پسینہ میں شرابور ہوگئے ،متوکل کے دربان نے جب امام کو دیکھا تو فوراً آپ کو دہلیز میں لا کر بٹھایا رومال سے امام کا پسینہ صاف کر نے لگا اور یہ کہہ کر حزن و غم دور کرنے لگا:ابن عمک لم یقصدک بھذ ا دون غیرک ۔۔۔تیرے چچا زاد بھائی کا اس سے تیرے علاوہ اور کو ئی ارادہ نہیں ہے ۔امام نے اس سے فرمایا :’ایھا عنک ‘،اُس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرما ئی : ( َ تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَةَ َیَّامٍ ذَلِکَ وَعْد غَیْرُ مَکْذُوب)۔(34)’اپنے گھروں میں تین دن تک اور آرام کرو کہ یہ وعدئہ الٰہی ہے جو غلط نہیں ہو سکتا ہے ‘ ۔زراقہ کا کہنا ہے کہ میرا ایک شیعہ دوست تھا جس سے بہت زیادہ ہنسی مذاق کیا کرتا تھا، جب میں اپنے گھر پہنچا تو میں نے اس کو بلا بھیجا جب وہ آیا تو میں نے امام سے سنی ہو ئی خبر اس تک پہنچا ئی تو اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور اس نے مجھ سے کہا :دیکھو جو کچھ تمہارا خزانہ ہے اس کو اپنے قبضہ میں لے لو ،چونکہ متوکل کو تین دن کے بعد موت آجا ئے گی یا وہ قتل ہو جا ئے گا ، اور امام نے شہادت کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی ہے ،معلم کی بات زراقہ کی سمجھ میں آگئی اور اُس نے کہا : میرے لئے اس بات پر یقین کرنے میں کو ئی ضرر نہیں ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو میں نے یقین کر ہی لیا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس میں میرا کوئی نقصان نہیں ہے ۔میں متوکل کے گھر پہنچا ،اور وہاں سے اپنا سارا مال لے کر اپنے جاننے والے ایک شخص کے پاس رکھ دیا ،اور تین دن نہیں گذرے تھے کہ متوکل ہلاک ہوگیا ،یہ سبقت زراقہ کی راہنما ئی اور اسسے امامت سے سخت لگائو کا سبب بن گئی ۔(35)
متوکل کی ہلاکتامام کے ذریعہ متوکل کی تین دن کے بعد ہلاکت کی خبر کے بعد متوکل ہلاک ہو گیا یہاں تک کہ اس کا بیٹا منتصر اس پر حملہ کرنے والوں میں شامل تھا ،٤ شوال ٢٤٧ ھ (36)بدھ کی رات میں ترکیوں نے اُس پر دھا وا بول دیا جن کا سپہ سالار باغر ترکی تھا ،اُن کے پاس ننگی تلواریں تھیں ،حالانکہ متوکل نشہ میں پڑا ہوا تھا ،فتح بن خاقان نے اُ ن سے چیخ کر کہا :وائے ہو تم پریہ امیر المو منین ہے ،انھوں نے اس کی کو ئی پروا نہیں کی ،اُس نے خود کو متوکل کے اوپر گرا دیا کہ شاید وہ اس کو چھوڑ دیں لیکن انھوں نے ایسا کچھ نہ کیا اور دونوں کے جسموں کے اس طرح ٹکڑے کر دئے کہ دونوں میں سے کسی ایک کی لاش پہچا نی نہیں جا رہی تھی ،دونوں کے بعض گوشت کے ٹکڑوں سے شراب ٹپک رہی تھی ،دونوں کو ایک ساتھ دفن کر دیا گیا ،اس طرح اہل بیت کے سب سے سخت دشمن متوکل کی زند گی کا خاتمہ ہوا ۔ابراہیم بن احمد اسدی نے متوکل کے بارے میں پڑھے :ھَکذا فَلتکُن منا یا الکرامِبین نا ٍ وَمِزھَرٍ ومَدامِ
بَینَ کَاسَیْنِ أَرْوَتَاہُ جَمِیْعاًکَأْسٍ لِذَاتِہِ وَکَأْسِ الحِمَامِ
یَقِظُ فِی السُّرُوْرِ حَتیّٰ اَتَاہُقدَّرَ اللّٰہُ حَتْفُہُ فِی المَنَامِ
وَالْمَنَایا مَراتب یتفاضَدْنوَبِالْمُرْھَفَاتِ مَوْتُ الکِرَامِ
لَمْ یَدْرِ نَفْسُہُ رَسُوْلُ المَنَاَیابِصُنُوْفِ الْأَوْجَاعِ وَالاَسْقَامِ
ھَابَہ مُعْلِناًفَدَبَّتْ اِلَیْہِفِیْ سُتُوْرِ الدُّجیٰ یَدُالْحُسَامِ (37)
‘بزرگوں کی موت اسی طرح بانسری ،باجے اور شراب کے درمیان ہونا چا ہئے ۔ایسے دو پیالوں کے درمیان ہو نا چا ہئے جنھوں نے اُس کو سیراب کر دیا ہو ۔ایک پیالہ لذّتوں کا ہو اور ایک پیالہ موت کا ہو ۔وہ خو شی کے عالم میں بیدار تھے ،یہاں تک کہ خدا کی مقدر کردہ موت نے اس کو نیند کے عالم میں آلیا ۔درد اور بیماری کی وجہ سے قاصد موت کے آنے پراس کو کچھ احساس تک نہیں ہوا ۔اس کو علی الاعلان موت آگئی اور تا ریکیوں کے پردے میں دست شمشیر اس کی طرف بڑھ گیا ‘۔شاعر نے اِن اشعار کے ساتھ اس کا مرثیہ پڑھا جو اُ س کی خواہش نفس کی عکا سی کر رہے ہیں ، اُس کی موت شراب کے جام ،مو سیقی کے آلات و ابزار طبل و ڈھول کے درمیان میں ہو ئی ،اس کو بیماریوں اور دردوں نے ذلیل و مضطرب نہیں کیا بلکہ ترکیوں نے اپنی تلواروں سے اس کی روح کو اس کے بدن سے جدا کر دیا ،اُس نے دردو آلام کا چھوٹا سا گھونٹ پیا ،اس سے پہلے شعراء بادشاہوں کا مر ثیہ پڑھا کر تے تھے جس کے فقدان سے امت اپنی معاشرتی اصلاحات اور عدل و انصاف کو کھو دیتی تھی ۔بہر حال علویوں اور شیعوں کو اس سخت بیماری سے نجات ملی ،اس کے بعد منتصر نے حکومت کی باگ ڈور سنبھا لی ،اس نے اپنے باپ کے بر عکس انقلاب کی قیادت کی ،اس نے حکومت قبول کی ، اُس کی حکومت کا خو شی سے استقبال کیا گیا ،حکومت کی باگ ڈور سنبھا لنے کے بعد اُس نے علویوں پر احسان کر نا شروع کیا اُس نے علویوں کے لئے مندرجہ ذیل چیزیں انجام دیں :١۔دنیائے اسلام کے کریم رہبر و قائد امام حسین کی زیارت میں ہونے والی رکاوٹوں کو دور کیا ، اس نیکی کیلئے لوگوں کو ترغیب دلا ئی ،جبکہ اس کے باپ نے زیارت پر پابندی لگا رکھی تھی اور زائرین کی مخالفت میں ہر طرح کے سخت قوانین نافذ کئے تھے ۔٢۔علویوں کو فدک واپس کیا ۔٣۔حکومت نے علویوں کے چھینے ہوئے اوقاف واپس کئے ۔٤۔علویوں کی برا ئی کرنے والے مدینہ کے والی صالح بن علی کو معزول کیا ،اس کے مقام پر علی بن الحسن کو والی بنایا اور اس کو علویوں کے ساتھ احسان و نیکی کر نے کی تا کید کی ۔(38 علوی خاندان پر ان تمام احسانات کو دیکھ کر شاعروں نے اُ س کی تعریف اور شکریہ میں اشعار پڑھے، یزید بن محمد بن مہلبی کا کہنا ہے :وَلَقَدْ بَرَزَتَ الطَّالِبِیَّةَ بَعْدَ مَاذَمُّوا زَمَاناً قَبْلَھَا و زَمَانا
وَرَدَدْتَ اُلْفَةَ ہَاشِمٍ فَرَأَیْتَھُمْبَعْدَ الْعَدَاوَةِ بَیْنَھُمْ اِخْوَاناً
آنَسْتَ لَیْلَھُمْ وَجُدْتَ عَلَیْھِمْحَتیّٰ نَسُوا الْأَحْقَادَ وَالْأَضْغَانا
لَوْ یَعْلَمُ الأَسْلَافُ کَیْفَ بَرَرْتَھُملَرَأَوْکَ أَثْقَلَ مَنْ بِھَا مِیْزَانا(39)
‘تم نے علویوں کے ساتھ اچھا برتائو کیا جبکہ اس سے پہلے ان کی مذمت ہو چکی تھی ۔تم نے ہاشم کی محبت کو پلٹادیا جس کی بنا پر دشمنی کے بعد تم نے ان کو دوست پایا۔تم نے راتوں میں ان سے انس اختیار کیا اور اُن پر سخاوت کی یہاں تک کہ وہ کینوں اور دشمنی کو بھول گئے۔اگر گذشتہ بزرگان کو تمہارے حسن سلوک کا علم ہوجائے تو وہ تم کو بہت آبرو مند سمجھیں گے ‘۔منتصر نے نبی ۖ کے خاندان کے اس سلسلہ کو جا ری رہنے دیا جس کو اس کے گذشتہ بزرگ عباسیوں نے ہر چند منقطع کرنے کی کو شش کی تھی ،اُ ن سے ہر طرح کے ظلم و ستم اور کشت و خون کو دور کیا لیکن افسوس کہ اُس کا عمر نے ساتھ نہ دیا طبیب نے ترکوں کے دھوکہ میں آکر اس کو زہر دیدیا جس سے وہ فوراً مر گیا ،(40) اُس کے مر نے کی وجہ سے لوگوں سے خیر کثیر ختم ہو گیا ، اس نے علویوں کو دینی آزا دی دی تھی اور اُن سے ظلم و ستم کو دور کیا تھا ۔
امام پر قاتلانہ حملہامام ،معتمد عباسی پر بہت گراں گذر رہے تھے ،امام اسلامی معاشرہ میں عظیم مرتبہ پر فائز تھے جب امام کے فضا ئل شائع ہوئے تو اس کو امام سے حسد ہو گیا اور جب مختلف مکاتب فکر کے افراد اُن کی علمی صلاحیتوںاور دین سے اُن کی والہانہ محبت کے سلسلہ میں گفتگو کرتے تووہ اور جلتا اُس نے امام کو زہر ہلاہل دیدیا ، جب امام نے زہر پیا تو آپ کا پورا بدن مسموم ہو گیا اور آپ کے لئے بستر پر لیٹنا لازم ہوگیا(یعنی آپ مریض ہو گئے )آپ کی عیادت کے لئے لوگوں کی بھیڑ اُمڈ پڑی ،منجملہ اُن میں سے ابوہاشم جعفری نے آپ کی عیادت کی جب اُ نھوںنے امام کو زہر کے درد میں مبتلا دیکھا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ،اور مندرجہ ذیل اشعار پر مشتمل قصیدہ نظم کیا :مَا دتِ الدنیا فُؤاد العلیلِوَاعْتَرَتْنِیْ مَوَارِدُ اللأْوائِ
حِینَ قِیْلَ الْاِمَامُ نِضُوْ عَلِیْلقُلْتُ نَفْسِیْ فَدَتْہُ کُلَّ الفِدَائِ
مَرِضَ الدِّیْنُ لَاعْتِلَالِکَ وَاعْتَدْ لَوَغَارَتْ نُجُوْمُ السَّمَائِ
عَجَباً اِنْ مُنِیْتَ بِالدَّائِ وَالسُّقْمِوَأَنْتَ الاِمَامُ حَسْمُ الدَّائِ
أَنْتَ أَسِیْ الأَدْوَائَ فِ الدِّیْنِ والدُّنْیَا
وَمُحْی الأَمْوَاتِ وَالْأَحَیَائِ (41)’ دنیا نے میرے بیمار قلب کو ہلا کر رکھ دیا اور مجھے وا دی ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔جب مجھ سے کہا گیا امام کی حالت نہایت نازک ہے تو میں نے کہا میری جان اُن پر ہر طرح قربان ہے ۔آپ کے بیمار ہونے کی وجہ سے دین میں کمزوری پیدا ہو گئی اور ستارے ڈوب گئے۔تعجب کی بات ہے کہ آپ بیمار پڑگئے جبکہ آپ کے ذریعہ بیماریوں کا خاتمہ ہوتا ہے ۔آپ دین و دنیا میں بہترین دوا اور مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں ‘۔آپ کی روح پاک ملائکہ ٔ رحمن کے سایہ میں خدا کی بارگاہ میں پہنچ گئی ،آپ کی آمد سے آخرت روشن و منور ہو گئی ،اور آپ کے فقدان سے دنیا میں اندھیرا چھا گیا ،کمزوروں اور محروموں کے حقوق سے دفاع کرنے والے قائد ور ہبر نے انتقال کیا ۔
تجہیز و تکفینآپ کے فرزند ارجمند کی امام حسن عسکری نے آپ کی تجہیز و تکفین کی ،آپ کے جسد طاہر کو غسلدیا،کفن پہنایا،نماز میت ادا فر ما ئی ،جبکہ آپ کی نکھوں سے آنسو رواں تھے آپ کا جگر اپنے والد بزرگوار کی وفات حسرت آیات پر ٹکڑے ٹکڑے ہوا جا رہا تھا ۔
تشییع جنازہسامرا ء میں ہر طبقہ کے افراد آپ کی تشییع جنازہ کیلئے دوڑ کر آئے ،آپ کی تشییع جنازہ میں آگے آگے وزراء ،علماء ،قضات اور سر براہان لشکر تھے ، وہ مصیبت کا احسا س کر رہے تھے اور وہ اس خسارہ کے سلسلہ میں گفتگو کر رہے تھے جس سے عالم اسلام دو چار ہوا اور اس کا کو ئی بدلہ نہیں تھا ، سامراء میں ایسا اجتماع بے نظیر تھا ،یہ ایسا بے نظیر اجتماع تھا جس میں حکومتی پیمانہ پر ادارے اور تجارت گاہیں وغیرہ بند کر دی گئی تھیں ۔
ابدی آرام گاہامام علی نقی کا جسم اقدس تکبیر اور تعظیم کے ساتھ آپ کی ابدی آرامگاہ تک لایا گیاآپ کوخود آپ کے گھرمیں دفن کیا گیاجو آپ کے خاندان والوں کے لئے مقبرہ شمار کیا جاتا تھا ،انھوں نے انسانی اقدار اور مُثُل علیا کو زمین میں چھپا دیا ۔آپ کی عمر چا لیس سال تھی آپ نے ٢٥ جما دی الثانی ٢٥٤ ھ میں پیر کے دن وفات پا ئی (42)اسی پر ہمارے امام علی نقی کے سلسلہ میں گفتگو کا اختتام ہوتا ہے ۔…………..1۔ بصریاوہ دیہات ہے جس کو امام موسیٰ بن جعفر نے بسایا تھا جو مدینہ سے تین میل دور ہے ۔2۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ٢٤۔٢٦۔3۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ٢٦۔4۔بحارالانوار، جلد ١٣، صفحہ ١٣١۔ اعیان الشیعہ ،جلد ٤ ،صفحہ ٢٧٥،دوسرا حصہ ۔5۔بحارالانوار ،جلد ١٣، صفحہ ١٢٩۔6۔حیاةالامام علی نقی ،صفحہ ٢٤٣۔7۔المناقب، جلد٤، ص٤٤١۔8۔امالی صدوق ،صفحہ ٤٩٨۔9۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٤٦۔10۔سورئہ مسد، آیت ١۔11۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ٢٣٩۔12۔سورئہ توبہ، آیت ٢٥۔13۔تاریخ اسلام ِذہبی ،چھبیسویں طبقہ کے رجال ۔تذکرة الخواص ،صفحہ ٣٦٠۔14۔المنتظم، جلد ١٢، صفحہ ٢٦۔15۔سورئہ غافر، آیت ٨٣۔٨٤۔16۔شرح شافیہ مؤلف ابو فراس ،جلد ٢،صفحہ ١٦٧۔17۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ١٥٨۔١٦٠۔18۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٢٤٢۔٢٤٣۔19۔سورئہ حدید آیت ٦۔20۔وسائل الشیعہ، جلد ٤، صفحہ ٧٥٠۔21۔وسائل الشیعہ ،جلد ٥ ،صفحہ ٢٩٨۔22۔ارشاد ،صفحہ ٣٧٥۔٣٧٦۔23۔مرآة الزمان ،جلد ٩صفحہ ٥٥٣۔24۔مرآة الزمان، جلد ٩،صفحہ ٥٥٣۔مروج الذہب ،جلد ٤،صفحہ ١١٤۔تذکرة الخواص، صفحہ ٣٥٩۔ 25۔الارشاد، صفحہ ٣٧٦۔26۔مرآة الزمان، جلد ٩صفحہ ٥٥٣۔27۔حما نی سے مراد یحییٰ بن عبد الحمید کو فی ہے جو بغداد میں تھے ،ان کے سلسلہ میں متعدد افراد نے گفتگو کی ہے جیسے سفیان بن عیینہ ابو بکر بن عیاش ،اور وکیع ۔خطیب نے ان کا اپنی کتاب تاریخ بغداد میں تذکرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں یحییٰ بن معین سے روایت نقل کی ہے ان کا کہنا ہے:یحییٰ بن عبد الحمید حما نی ثقہ ہیںاور حما نی سے مروی ہے :’معاویہ دین اسلام پر نہیں مرا ‘ سامراء میں ٢٢٨ ھ میںاُن کا انتقال ہوا ،وہ محدثین میں سے مرنے والے پہلے شخص تھے ،اس کے متعلق الکنی والالقاب، جلد ٢،صفحہ ١٩١ میں آیا ہے ۔28 ۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٢٤١۔29۔دائرة معارف بیسویں صدی ہجری، جلد ٦،صفحہ ٤٣٧۔30۔سورئہ جا ثیہ، آیت ٢١۔31۔مرآة الجنان ،جلد ٢،صفحہ ٩٦٠۔تذکرة الخواص، صفحہ ٣٦١۔الاتحاف بحب الاشراف ،صفحہ ٦٧۔32۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ٢٦٢ ۔٢٦٤۔33۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ٢٦٣۔٢٦٤۔16۔شرح شافیہ مؤلف ابو فراس ،جلد ٢،صفحہ ١٦٧۔17۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ١٥٨۔١٦٠۔18۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٢٤٢۔٢٤٣۔19۔سورئہ حدید آیت ٦۔20۔وسائل الشیعہ، جلد ٤، صفحہ ٧٥٠۔21۔وسائل الشیعہ ،جلد ٥ ،صفحہ ٢٩٨۔22۔ارشاد ،صفحہ ٣٧٥۔٣٧٦۔23۔مرآة الزمان ،جلد ٩صفحہ ٥٥٣۔24۔مرآة الزمان، جلد ٩،صفحہ ٥٥٣۔مروج الذہب ،جلد ٤،صفحہ ١١٤۔تذکرة الخواص، صفحہ ٣٥٩۔ 25۔الارشاد، صفحہ ٣٧٦۔26۔مرآة الزمان، جلد ٩صفحہ ٥٥٣۔27۔حما نی سے مراد یحییٰ بن عبد الحمید کو فی ہے جو بغداد میں تھے ،ان کے سلسلہ میں متعدد افراد نے گفتگو کی ہے جیسے سفیان بن عیینہ ابو بکر بن عیاش ،اور وکیع ۔خطیب نے ان کا اپنی کتاب تاریخ بغداد میں تذکرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں یحییٰ بن معین سے روایت نقل کی ہے ان کا کہنا ہے:یحییٰ بن عبد الحمید حما نی ثقہ ہیںاور حما نی سے مروی ہے :’معاویہ دین اسلام پر نہیں مرا ‘ سامراء میں ٢٢٨ ھ میںاُن کا انتقال ہوا ،وہ محدثین میں سے مرنے والے پہلے شخص تھے ،اس کے متعلق الکنی والالقاب، جلد ٢،صفحہ ١٩١ میں آیا ہے ۔28 ۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٢٤١۔29۔دائرة معارف بیسویں صدی ہجری، جلد ٦،صفحہ ٤٣٧۔30۔سورئہ جا ثیہ، آیت ٢١۔31۔مرآة الجنان ،جلد ٢،صفحہ ٩٦٠۔تذکرة الخواص، صفحہ ٣٦١۔الاتحاف بحب الاشراف ،صفحہ ٦٧۔32۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ٢٦٢ ۔٢٦٤۔33۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ٢٦٣۔٢٦٤۔16۔شرح شافیہ مؤلف ابو فراس ،جلد ٢،صفحہ ١٦٧۔17۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ١٥٨۔١٦٠۔18۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٢٤٢۔٢٤٣۔19۔سورئہ حدید آیت ٦۔20۔وسائل الشیعہ، جلد ٤، صفحہ ٧٥٠۔21۔وسائل الشیعہ ،جلد ٥ ،صفحہ ٢٩٨۔22۔ارشاد ،صفحہ ٣٧٥۔٣٧٦۔23۔مرآة الزمان ،جلد ٩صفحہ ٥٥٣۔24۔مرآة الزمان، جلد ٩،صفحہ ٥٥٣۔مروج الذہب ،جلد ٤،صفحہ ١١٤۔تذکرة الخواص، صفحہ ٣٥٩۔ 25۔الارشاد، صفحہ ٣٧٦۔26۔مرآة الزمان، جلد ٩صفحہ ٥٥٣۔27۔حما نی سے مراد یحییٰ بن عبد الحمید کو فی ہے جو بغداد میں تھے ،ان کے سلسلہ میں متعدد افراد نے گفتگو کی ہے جیسے سفیان بن عیینہ ابو بکر بن عیاش ،اور وکیع ۔خطیب نے ان کا اپنی کتاب تاریخ بغداد میں تذکرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں یحییٰ بن معین سے روایت نقل کی ہے ان کا کہنا ہے:یحییٰ بن عبد الحمید حما نی ثقہ ہیںاور حما نی سے مروی ہے :’معاویہ دین اسلام پر نہیں مرا ‘ سامراء میں ٢٢٨ ھ میںاُن کا انتقال ہوا ،وہ محدثین میں سے مرنے والے پہلے شخص تھے ،اس کے متعلق الکنی والالقاب، جلد ٢،صفحہ ١٩١ میں آیا ہے ۔28 ۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٢٤١۔29۔دائرة معارف بیسویں صدی ہجری، جلد ٦،صفحہ ٤٣٧۔30۔سورئہ جا ثیہ، آیت ٢١۔31۔مرآة الجنان ،جلد ٢،صفحہ ٩٦٠۔تذکرة الخواص، صفحہ ٣٦١۔الاتحاف بحب الاشراف ،صفحہ ٦٧۔32۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ٢٦٢ ۔٢٦٤۔33۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ٢٦٣۔٢٦٤۔34۔سورئہ ہود، آیت ٦٥۔35۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٢٦٥۔36۔تاریخ ابن کثیر،جلد ١٠، صفحہ ٣٤٩۔37۔زہر الآداب، جلد ١ ،صفحہ ٢٢٧۔38۔تاریخ ابن اثیر، جلد ٥،صفحہ ٣١١۔39۔مروج الذھب، جلد ٤،صفحہ ٨٣۔40۔تاریخ خلفاء سیوطی، صفحہ ٣٥٧۔41۔اعلام الوریٰ ،صفحہ ٣٤٨۔42-نورالابصار ،صفحہ ١٥٠۔کشف الغمہ ،جلد ٣صفحہ ١٧٤۔