شوريٰ
ايك حيران كن سوال
ابتدائے امر ميں نظريہ (شوريٰ) كو ايك اہم سوال كا سامنا كرنا پڑتا ہے وہ سوال يہ ہے كہ جب اسلام نے شوري كو خشت اول اور ولايت وحكمراني كا سرچشمہ قرار ديتے ہوئے نظام حكومت كے خطوط ترسيم كئے تو فطري طور پر لازم تھا كہ اسلام وسيع سطح پر امت كو اس ثقافت (شوريٰ) كي تعليم ديتا اور امت كو اس اہم اساس كي حدود وقيود سے مكمل طور پرآگاہ كرتا اوراس كي مكمل تفصيلات جزء جزء كركے بيان كرتا كيونكہ موضوع كي اہميت اور غير معمولي ضرورت كا تقاضا يہي تھا ليكن ہميں كتاب و سنت ميں اس امر كي تعليم اور اسے وسيع سطح پر ايك ثقافت ميں تبديل كرنے كے كوئي آثار نہيں ملتے بنابراين اس نومولود نظر كي تفسير كيسے كي جائے؟
بعض اہل قلم اور بعض اہل سنت علماء اس سوال كا جواب دينے كے لئےآگے بڑھے ہيں ا ن جوابوں ميں سے بہترين جواب يہ ہے كہ اس بات كو مورد تاكيد قرار ديا جائے كہ اسلام نے جان بوجھ كر شوري كو مطلق چھوڑا ہے يعني اس كے لئے كوئي خاص قالب اور شكل و صورت معين نہيں فرمائي بلكہ اس كي شكل و صورت كي تعيين كا كام امت كے سپرد كيا ہے كيونكہ اسلام ميں ايك ايسي حقيقي صفت پائي جاتي ہے جو اسلامي شريعت كو دوسري شريعتوں سے ممتاز بناتي ہے اور وہ نرمي 30 كي صفت ہے جس كي وجہ سے اسلامي نظام ہميشہ باقي رہےگا اور تمام زمانى، مكاني اور معاشرتي شرائط كے اختلاف كے باوجود اسلامي نظام تمام زمانوں اور تمام مكانوں ميں قابل تطبيق اور قابل نفاذ ہے۔واضح رہے كہ شوري كا مسئلہ معاشرتي حالات كے اختلاف سے مختلف ہوگا اور شوري كي شكل و صورت اور قالب كي تعيين ميں درج ذيل مختلف عوامل دخيل ہيں:
ملك و سلطنت كي وسعت، ابادى، شوريٰ كے موضوع كي اہميت اوراس كے علاوہ زمان و مكان كے اختلاف سے وجود ميں انے والے عارضي عناصر جو زمان و مكان كے اختلاف كے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہيں۔
بنابراين ابتدائے رسالت (صدراسلام) كےمعاشري ميں اس معاشري كے سادہ فطرت كے ساتھ سازگار وہماہنگ شوريٰ كي نوعيت كا فرض ممكن نہيں۔اور شكل و صورت كا ايسا فرض ممكن نہ تھا جو اس وقت كے معاشري كي سادگي كے ساتھ ہماہنگ ہوتا يہ نوعيت اور شكل و صورت تمام حالات اور تمام اقوام كے لئے تمام زمانوں ميں ممكن نہيں۔كيونكہ نظاموں كي صلاحيت اضافي حيثيت ركھتي ہے نسبي ہے 31
كبھي ايك نظام ايك قوم كے لئے مفيد ہے جبكہ وہي نظام دوسري قوم كے لئے مفيد نہيں ہوتا۔قحطان عبدالرحمن دوري اپني كتاب (الشوريٰ بين النظريہ والتطبيق) ميں كہتےہيں حكومت كي شكل وصورت كے باري ميں (مرونۃيعني نرمي) ايك نماياں خوبي ہے جس كے ذريعے اسلام دوسري نظاموں سے ممتاز ہے (اور ان پر برتري ركھتا ہے) يہي نرمي ہے جو اسے ہر زمان و مكان كے لئے اسے باصلاحيت اور قابل نفاذ بناتي ہے۔ 32
ليكن حقيقت يہ ہے كہ يہ نرمي كہ جس كا دعوي كيا گيا ہے اور كہا گيا ہے كہ اسلام نے امت كے لئے نظام شوري كے كلي خطوط ترسيم كرديے ہيں اور امت كو بنيادي قواعد اور اہم بنياديں عطا كردي ہيں جب كہ ان قواعد كي تطبيق شرائط كے اختلاف كے ساتھ ساتھ مختلف ہوگي اوراسلام نے اس امر كو مورد تاكيد قرار ديا ہے كہ ہرفضا كے لئے اس نظام (شوريٰ) كي مناسب شكل وصورت موجود ہے اگرچہ يہ شكل و صورت تطبيق كے اعتبار سے دوسري ظروف (زمانى، مكاني شرائط) ميں تطبيق ہونے والي شكل و صورت سے متفاوت ہے ۔
جب ہر ظرف خاص كے لئے خاص شكل و صورت موجود ہے اورلوگ بھي تائيد كرتے ہيں كہ بے شك يہي شكل و صورت مطلوب شكل و صورت ہے تو (كہا جاسكتا ہے كہ) ہاں اگر مرونۃ و نرمي سے مراد يہي ہوتو اسے اسلام كے لئے برجستہ خوبي قرار ديا جاسكتا ہے كہ جس كي وجہ سے اسلام (قحطان عبدالرحمن الدوري كي تعبير كے مطابق) دوسري نظاموں پر برتري ركھتا ہے كيونكہ اسلامي نظام ہر زمانے اور ہر جگہ نفاذكے لئے صلاحيت ركھتا ہے۔ليكن حقيقت مكمل طور پر اس كے برعكس ہے: شوري كے لئے مختلف صورتيں اور مصاديق ہيں حتي ايك ہي زمانے ميں اور ايك ہي شرائط و ظروف ميں شوري كي كئي صورتيں قابل تصور ہيں۔
لہذا درجہ ذيل سوالات لاجواب باقي رہ جاتے ہيں:
(1) بطور مثال اگر مشورہ كرنے والے افراد دوگروپوں ميں تقسيم ہوجائيں اور ان ميں اختلاف نظر پيدا ہوجائے ايك طرف اكثريت ہو جبكہ دوسري طرف ايسي اقليت ہوجو صاحبان نظر باصلاحيت اور معاشرتي اعتبار سے مشہور افراد پر مشتمل ہو تو كونسي طرف كو ترجيح دي جائے گى؟ كيا يہاں كميت معيار ہوگي يا كيفيت؟
(2) دوسرا سوال يہ ہے كہ اگر دو طرف مقدار اور كيفيت دونوں اعتبار سے مساوي ہوں
تو كس طرف كو ترجيح دي جائے گى؟
(3) كيا ايك ووٹ 33 كے ذريعے ترجيح دي جائے گي يا نہيں؟
(4) كن لوگوں كا شوريٰ ميں شريك ہونا ضروري ہے؟ كيا ہر وہ شخص جو مشورہ دينے كي صلاحيت ركھتا ہو اسے شوريٰ ميں شريك ہونے كا حق حاصل ہے يا بعض (خاص افراد) پر
اكتفاء كيا جائے گا؟
(5) ان خاص افراد كي مقدار كيا ہے؟ كہ جنہيں مشورہ كي صلاحيت ركھنے والے افراد ميں سے شوريٰ ميں شركت كے لئے انتخاب كيا جائے گا؟
(6) ہم ان سب امور كا شوريٰ كي نصوص سے كيسے استفادہ كرسكتے ہيں؟
اس سلسلے ميں بعض لوگوں نے يہ جواب ديا ہے كہ وہ تمام افراد شوريٰ ميں شريك ہوں گے جن كے لئے شوريٰ كا موضوع قابل اہميت ہوگا 34 كيونكہ خداوندمتعال نے ارشاد فرمايا ہے ((وامرھم شوريٰ بينھم)) اور آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں 35 كيونكہ”امرھم”ميں موجود ضمير”ھم” اور “بينھم”ميں موجود ضمير “ھم” كا مرجع ايك ہي ہے لھذا اس سے سمجھا جاتا ہے كہ شوريٰ (مشورت كے كام) ميں وہ تمام لوگ شريك ہوں گے كہ مورد مشورہ امران سے تعلق ركھتا ہے۔
ليكن (سوال يہ ہے كہ) جس صورت ميں ايك موضوع ايك حد تك تمام لوگوں يعني جماعت سے مربوط ہو جبكہ اس جماعت كے خاص گروہ سے اس كا گہرا ربط ہو تو ايك اعتبار سے اس موضوع كو ايك خاص گروہ جبكہ عرف ايك اعتبار سے اس موضوع كو وسيع تر دائري كي طرف نسبت ديتا ہے كہ جو دائرہ اس خاص گروہ كو بھي شامل ہے اور اس كے علاوہ باقي گروہوں كو بھي شامل ہے (تو يہاں پر يہ امر موضوع پوري جماعت كا امر شمار ہوگا يا ايك خاص گروہ كا امر كہ جس سے اس امر كا گہرا ربط ہے؟)
اور ان ميں سے كون لوگ شوريٰ ميں شركت كريں گے پوري جماعت يا وہ گروہ خاص؟
يہاں پر بہت سي عملي مثاليں ہيں كہ جن پر يہ صورت صدق كرسكتي ہے مثلا اگر امت (اجمالي طور پر) حكومت چلانے كے لئے ملك يا علاقے كے فقھاء كے انتخاب پر اتفاق كر لے اور پھر لوگوں كي ايسي اكثريت (جس ميں فقہاء بھي شامل ہوں) كے درميان اور خود اكثريت فقہاء كے درميان امور كي تقسيم (مثلا كس فقيہ كو كونسي ذمہ داري دي جائے اور كونسا كام اس كے سپرد كيا جائے) پر اختلاف پيدا ہوجائے تو يہاں پر كس طرف كو ترجيح ديں گے جبكہ ہم قبول كرچكے ہيں كہ ترجيح كا معيار اكثريت ہے؟ ہم ايك جہت سے ملاحظہ كرتے ہيں كہ لوگوں كي اكثريت معتقد ہے اور متفق القول ہے كہ تمام امور فقہاء كے سپرد كئے جائيں اور ہم دوسري جہت سے يہ بھي ملاحظہ كرتے ہيں كہ يہي اكثريت معتقد ہے كہ فلاں معين شخص كو حكومت كا سربراہ ہونا چاہيئے يا يہ كہ فرد كي قيادت كے بجائے فقہا پر مشتمل كميٹي كو قيادت كي ذمہ داري سونپي جائے۔
ہم تيسري جہت سے يہ بھي ملاحظہ كرتے ہيں كہ خود فقہاء كي اكثريت اس سلسلے ميں اكثريت امت كي راي كے مخالف ہے۔كيا يہاں پر لوگوں كي اكثريت كو معيار قرار ديا جائے گا كيونكہ امر لوگوں كا امر ہے يا اكثريت فقہاء كي راي كو معتبر جانا جائيگا كيونكہ امر ان كے دائر كار سے اور ان كے وظائف سے مربوط اور ان سے مخصوص ہے اور وظائف كي تقسيم كاركا طريقہ كار بھي خود فقہاء سے مخصوص ہے كيونكہ يہ بھي انہي امور ميں سے ہے كہ جن كي انجام دہي كي ذمہ داري لوگوں نے فقہاء كے سپرد كي ہے۔
يہ ايك مثال تھي يہاں ايك اور مثال بھي دي جاسكتي ہے: فرض كريں دو جماعتيں ہيں اور ہر ايك جماعت كي طرف سے ايك نمايندے كا انتخاب كرنا ہے جونمايندہ اپني جماعت كے مصالح و مفادات كي معرفت ميں مہارت ركھتا ہو تاكہ اس جماعت كي نمائندگي كرسكے اور يہ دونوں نمايندے مشتركہ كوشش كركے اجتماعي اور انفرادي مفادات ومصالح كے درميان ھماھنگي ايجاد كرسكيں جس كے نتيجے ميں تمام لوگوں كے مفادات و مصالح تحقق پذير ہوسكيں نہ يہ كہ ہر شخص فقط اس جماعت كے مفادات كا دفاع كرے كہ جس جماعت كا يہ نمائندہ ہے اس صورت ميں ان دو افراد كو منتخب كرنے كا حق كس نے ديا ہے؟ كيا دونوں جماعتوں كے مجموعے كو دو نمائندوں كے انتخاب كا حق ديا جائے؟ يا ہر نمائندے كے انتخاب كي ذمہ داري فقط اسي جماعت كو سونپي جائے كہ يہ نمائندہ جس جماعت كے مفادات و مصالح سےآگاہ ہو اور ان كے مفادات و مصالح كو اہميت ديتا ہے؟
جس طرح ممكن ہے كہ عرفي اعتبار سے موضوع كو خاص جماعت سے نسبت دي جائے اسي طرح يہ بھي ممكن ہے كہ دونوں جماعتوں كے مجموعے كي طرف اس موضوع كي نسبت دي جائے كيونكہ تمام لوگوں كامتعلقہ موضوع ہے ۔
تيسري مثال:
اگر ايسے قانون كے باري ميں مشورہ كرنا مقصود ہو جو قانون مردوں كي بہ نسبت خواتين سے زيادہ مربوط ہو توكيا فقط خواتين سے راي لي جائے گي كيونكہ امر خواتين كا امر ہے يا يہ كہ خواتين كے ساتھ ساتھ مردوں سے بھي راي لي جائے گي كيونكہ يہ امر تمام لوگوں كا امر ہے؟
اور اگر اختلاف پيداہوجائے تو كونسي اكثريت كو ترجيح دي جائے گي (مردوں كي اكثريت كو يا خواتين كي اكثريت كو؟ ) اس سب كچھ كے بعد اگر ان لوگوں ميں سے بعض لوگ شوريٰ ميں شركت نہ كريں كہ امر جن كا امر ہے توكيا شوريٰ باطل ہوجائے گي يا نہيں؟ كتنے لوگ كنارہ كشي كريں (شركت نہ كريں) تو شوريٰ باطل قرار دي جائے گي (اگر ہم بطلان كے قائل ہوجائيں)؟ كيا سابقہ حكمران جوماضي ميں حق حكمراني حاصل كرچكے ہيں ان افراد كو مشورہ (شوريٰ) ميں شركت كرنے پر مجبور كريں گے؟ منتخب كرنے والوں اور مشورى كي غرض سے شوريٰ ميں شريك ہونے والوں ميں بہت سے ايسے مستعضف اور پسماندہ لوگ موجود ہوتے ہيں كہ امت كے لئے بہترين اورحق سے زيادہ قريب تر راستے كے انتخاب ميں ان كي (شوريٰ) ميں شركت كا كوئي اثر اورعمل دخل نہيں ہوتا كيونكہ يہ لوگ (شوريٰ) كے موضوع كے متعلق صحيح و ھمہ گير اورجامع فكر كي صلاحيت نہيں ركھتے۔
جيسے عوامي اكثريت اور بعض معاشروں ميں جاہل و پسماندہ خواتين۔مستضعفين كي يہ جماعت (اكثر اوقات) امت كے بہت بڑے حصے كو تشكيل ديتي ہے ۔
كيا انہيں شوريٰ ميں شريك كيا جائے گا كيونكہ امر ان كا امر ہے اورفقط چھوٹے بچوں، ديوانوں اور كم خرد و نادان لوگوں كو استثناء كياجائےگا۔اور “امرھم شوريٰ بينھم”كے اطلاق كے تقاضے كے مطابق باقي تمام لوگ شوريٰ ميں شريك ہوں گے اورانہيں مشورہ كے لئے دعوت دي جائے گي اگرچہ ان كي رضامندي اور ہمدردياں حاصل كرنے كي غرض سے ہي سہي۔يا يہ كہا جائے گا كہ كيونكہ شوريٰ كا ہدف و مقصد بہترين اور مفيد راستے كا انتخاب ہے لہذا اس ھدف كو مدنظر ركھتے ہوئے “امرھم شوريٰ بينھم”كي عبارت سے اطلاق نہيں سمجھا جاسكتا (يہ ہدف اس اطلاق سےمانع ہے) اور اگر اس فرض كو قبول كرلياجائے تو كيا معيار اور كيا قواعد و ضوابط ہيں كہ جن كي روشني ميں يہ معين كيا جائے كہ كس كو انتخاب (شوريٰ) ميں شركت كا حق حاصل ہے اور كس كو يہ حق حاصل نہيں ہے؟ يہ سوالات اور ان كے علاوہ اور دسيوں سوالات لاجواب باقي ہيں يہي وجہ ہے كہ معاشرہ حيران و سرگردان ہے كہ شوريٰ كي مختلف اقسام اور مختلف صورتوں ميں سے كون سي قسم اور كونسي صورت كا انتخاب كيا جائے جوان كے زمانے اور موجودہ شرائط ميں بہترين اور صحيح شكل و صورت ہو۔
يہيں سے يہ اشكال مزيد شديد ہوجاتا ہے كہ اسلامي مرونت و نرمي اس صورت ميں اسلام كے لئے ايك نماياں اور ممتاز صفت قرار پاسكتي ہے (البتہ اگر فرض كيا جائے كہ اسلام شوريٰ كا قائل ہے) كہ جب اسلام نے اس نظام كي حدود اوراس نظام كي بنيادوں كو اس طرح معين و مشخص طور پر بيان كيا ہو كہ جسكے ذريعے امت اس عجيب و غريب حيراني و سرگرداني سے نجات پاسكے ليكن ان امور كو ترك كرنے اورامت كو شوريٰ كے متعلق قواعد و ضوابط كي تعليم نہ دينے بلكہ ايك قراني آيہ مباركہ كے ذريعے (شوريٰ كي طرف) اشاري پر اكتفاء كرنے كو اور تو كوئي نام نہيں ديا جاسكتا بلكہ اسے فقط ايك واضح وآشكار خرابي كہا جاسكتا ہے جس كي نسبت اسلام، اسلام كے مبلغ اور اسلام كے موسس و جاعل كي طرف نہيں دي جاسكتي۔
يہ وہ حيران كن سوال ہے جونظام شوريٰ كے قائل اہل سنت كے نظريہ كے سامنے موجود ہے ہميں اس سوال كے ممكنہ جواب كي معرفت حاصل كرني چاہيے ۔
اور اس سلسلے ميں درج ذيل جوابات قابل تصور ہيں:
پہلاجواب:
يہ دعوي كيا جائے چونكہ قيادت و حكومت اور حكومت كي كيفيت دنياوي امر ہے لھذا اس ميں اسلامي شريعت كي دخالت متصور نہيں ہے بلكہ يہ بھي دوسري دنياوي امور ميں سے ايك ہے لھذا اگر اسلام اس موضوع كے باري اظہار نظر نہ كرے تو اسے نقص شمار نہيں كيا جاسكتا ليكن (باوجود اس كے كہ يہ ايك دنياوي امر ہے) اسلام نے پھر بھي اس موضوع كے باري اظہار نظر كيا ہے فطري طور پر اسلام نے شوريٰ كے كلي ڈھانچے كے بيان پر اكتفاء كيا ہے اور اس كي حدود و قيود كو بيان نہيں كيا تاكہ تمام زمانوں اور تمام مكانوں ميں اس كي تطبيق كي جاسكے لہذا شريعت نے ايك عام اور كلي مفہوم ديا ہے اور اس كي شكل و صورت اور مناسب خصوصيات كي تعين كا كام امت كے سپرد كيا ہے اسلام كو حق حاصل ہے كہ نظام شوريٰ كے انتخاب ميں بھي امت كو آزاد چھوڑے يا حتي نظام شوريٰ كو سري سے رد كردے اور اسے نقص بھي شمار نہ كيا جائے كيونكہ يہ امر دنياوي امور ميں سے ہے۔اس طرح يہ كہنا بھي ممكن ہے كہ شورائي نظام كي ايسي شكل و صورت تعين نہ كرنا جو مختلف شرائط كے ساتھ سازگار نہ ہو اسلام كي نماياں خوبي ہے۔
جواب:
يہ سوال درج ذيل امور كي وجہ سے بالكل باطل ہے:
1) چونكہ مسئلہ حكومت و قيادت ان ضروريات ميں سے ہے كہ جن سے چشم پوشي ممكن نہيں خصوصا اس وجہ سے كہ اصل اسلام اور معاشري ميں اسلامي قوانين كا تحفظ اسي پر موقوف ہے جب اسلام اپني حفاظت اور اپني شريعت كي حفاظت كو بہت زيادہ اہميت ديتا ہے تو يہ قبول كرنا بھي ضروري ہے كہ مسئلہ حكومت كے باري ميں مثبت موقف اپنايا ہے (كيونكہ اس كے بغير اسلام اوراسلامي شريعت كي بقاء ممكن نہيں ہے) اگرچہ يہ موقف ايساقابل انعطاف نظام عطا كرنے كي صورت ميں ہو كہ جس كے قواعد و ضوابط انعطاف پذيرہوں اور مختلف شرائط زمان و مكان ميں منطبق ونافذ ہونے كي صلاحيت ركھتے ہوں اور اسلام نے اس مسئلہ كو ان انساني عقلوں كے سپرد نہيں كيا جوعقليں مختلف وجوہات سے ضعف و ناتواني كا شكار ہوتي ہيں جس كے نتيجے ميں آخر كار اصل شريعت كے پامال ہونے كا خدشہ ہوتا ہے۔
2) اسلام ايك كامل اور زندگي كے مختلف پہلوؤں اور شعبوں پر محيط نظام ہے اور اسلام انسان كي دنياوي زندگي كے تمام شعبوں كو منظم كرنے سے غافل نہيں رہا البتہ اس مقدار ميں كہ جس كي توقع شريعت اورحقيقي دين سے كي جاسكتي ہے جائے تواور اس فردي و اجتماعي رفتار كے متعلق اسلام كي طرف سے معين ہونے والے مختلف اسلوبوں اور روشوں اور اسي طرح خانداني امور وغيرہ كو منظم كرنے كے متعلق اسلام كے قوانين و احكام كو ملاحظہ كيا جائے تو يہ امر مزيدآشكار ہوجاتا ہے۔
بلكہ دنياوي امور ميں اسلام كي دخالت ضروريات اسلام يا (كم از كم) ضروريات فقہ ميں سے ہے كہ جس كا انكار فقط ضدي شخص ہي كرسكتا ہے (ان سب امور كے باوجود) كيسے تصور كيا جاسكتا ہے كہ اسلام مسئلہ حكومت سے غافل رہا ہے جب كہ حالت يہ ہے كہ جس معاشري كي بنياد اسلام نے ركھي ہے مسئلہ حكومت اسي معاشري كے اہم ترين حياتي مسائل ميں سے ايك ہے ۔
3) قيادت اور حكومت كي تشكيل ميں ضمني طور پر (چنانچہ ہم وضاحت كرچكے ہيں) يہ بات پائي جاتي ہے كہ فرد (حكمران) يا افراد مختلف ميدانوں ميں اپنا اثر رسوخ استعمال كريں گے اور يہ ايسي چيز ہے جو لوگوں كے ابتدائي حقوق سے سازگار و ھماھنگ نہيں ہے۔
بنابرايں اگر حكومت اسلامي ايسي ولايت كي بنياد قائم نہ ہو جو ولايت خاص نظام كے ضمن ميں ايسے شخص كو عطا كي جاتي ہے جس ميں مطلوبہ شرائط موجود ہوں تو يہ تصور ممكن ہے كہ حكومت متعدد محرمات ميں غوطہ زن ہوجائے يہ ايسا امر ہے جو كسي بھي صحيح اسلامي حكومت كي تشكيل سےمانع ہے اور نتيجۃً دين دار معاشري كو شديد حيراني و سرگرداني ميں مبتلا كرسكتا ہے۔
دوسرا جواب:
يہ كہا جائے كہ شورائي نظام كي شكل و صورت اور بنيادي قوانين معين نہ كرنے كي وجہ يہ ہے كہ مختلف زمانوں اور مختلف مكانوں ميں مشترك عناصر موجود نہيں ہوتے جب تمام زمانوں اور مكانوں ميں مشترك عناصر نہيں پائے جاتے تو مشترك اور كلي قواعد وضع كركے مختلف مشكلات كو حل نہيں كيا جاسكتا اگرچہ يہ مشترك اور كلي قواعد تطبيق ونفاذ كے اعتبار سے مختلف ہي كيوں نہ ہوں يہي وجہ ہے كہ اسلام نے (حقائق و واقعات كے تقاضے كے مطابق) اس نظام كو مطلق چھوڑ ديا ہے اور اس كے لئے كوئي خاص شكل و صورت (اور قواعد) معين نہيں فرمائے۔
اشكالات: ہم اس سلسلے ميں درج ذيل اشكالات كريں گے:
الف: مندرجہ بالا جواب كا مقصد يہ نہيں كہ اسلام كو اس نقص وعيب سے پاك و مبرا قرار ديا جائے اور كہا جائے كہ اسلام نے زندگي كو منظم كرنے كي غرض سے زندگي كے مختلف شعبوں كے لئے جامع قانون سازي نہيں كي (اور اس جواب كا مقصد يہ بھي نہيں كہ يہ اسلامي قوانين كامل ہيں اور سعادت و خوشبختي كي ضمانت فراہم كرتے ہيں ليكن چونكہ مسلمانوں نے ان قوانين كو صحيح طريقے سے نافذ نہيں كيا لہذا يہ نقائص سامنےآرہے ہيں ۔
اس جواب كا مطلب صرف يہ ہے كہ اسلام ناقص ہے ليكن يہ نقص قابل تاويل ہے كيونكہ مختلف زمانوں اورمكانوں ميں مشترك عناصر نہيں پائے جاتے تاكہ ان مشترك عناصر كو مدنظر ركھتے ہوئے كلي قواعد وضع كئے جائيں لہذا يہ نقص اجتناب ناپذير ہے
اگر اس احتمال كا راستہ كھل جائے (يہ احتمال ديا جائے كہ نظام حكومت كے سلسلے ميں اسلام ميں نقص پايا جاتا ہے ليكن يہ نقص اجتناب ناپذير ہے) تو يہي احتمال اسلام كے دوسري شعبوں ميں بھي ديا جاسكتا ہے جيسے اقتصادي شعبہ، اجتماعي شعبہ، كيونكہ ان شعبوں كے متعلق كہا جاسكتا ہے كہ شايد اسلام زندگي كے مختلف شعبوں كو بخوبي منظم كرنے سے عاجز و ناتوان ہے لھذا اسلام نے بعض اوقات نظاموں كي بنيادوں كو ناقص چھوڑ ديا ہے (جيسا كہ شورائي نظام ميں كيا ہے) يا بعض اوقات ان نقائص اور خلاؤں كو اس طرح پر كيا ہے كہ يہ نظام فقط بعض شرائط ميں مفيد واقع ہوسكتا ہے۔
اسلام نے اسي (خاص نظام كا) دائرہ وسيع كيا ہے حتي اسے ان شرائط ميں بھي قرار ديا ہے كہ جن شرائط كے ساتھ يہ خاص نظام سازگار و ھماھنگ نہيں ہے۔اوريہ امر ناگزير تھا۔ ايسي علامات اور نشانياں معين كرنا ناممكن تھا كہ جنہيں لوگ سمجھ سكتے اوران كے ذريعے يہ تشخيص دے سكتے كہ يہ شرائط اس نظام كي تطبيق اور نفاذ كے لئے مناسب و سازگار ہيں اور فلاں شرائط اس نظام كے لئے مناسب نہيں ہيں جب كوئي امر دو چيزوں كے درميان دائر تھا كہ يا تو لوگوں كو كوئي نظام نہ ديا جاتا كہ جس كا نتيجہ يہ ہوتا كہ تمام زمانوں اور مكانوں كے لوگ حيران و سرگردان رہتے ياايك مطلق اور كلي نظام ديا جاتا كہ جس كي وجہ سے (كم ازكم) بعض زمانوں اور مكانوں كے لوگ سعادتمند ہوسكتے۔اسلام نے لوگوں كي مصلحت كو مدنظر ركھتے ہوئے دوسري صورت كو منتخب كيا بنابر اين اسے اسلام كے لئے عيب و نقص شمار نہيں كياجاسكتا اس نقص كا سرچشمہ يہ ہے كہ درحقيقت مناسب (اور قابل انعطاف اور مختلف زمانوں ميں قابل تطبيق ونفاذ) راہ حل موجود نہيں تھا۔ نہ يہ كہ راہ حل موجود تھا ليكن اسلام كي اس تك رسائي نہ ہوسكي كيا اس احتمال كو اس كے تمام تر خطرات و بري نتائج كے ساتھ اخذ كيا جاسكتا ہے؟ !
ہم نے اس احتمال كو وسعت دي ہے تاكہ نظام حكومت كے علاوہ باقي جوانب اور باقي شعبوں كو شامل ہوسكے ليكن ہمارا واحد ہدف و مقصد انساني ضمير و وجدان كو متوجہ و بيدار كرناتھا كہ يہ احتمال واضح طور پر ضروريات دين يا كم ازكم ضروريات فقہ كے خلاف ہے۔
ب: اس فرض شدہ نقص وعيب كے باري ميں تين احتمالات ممكن ہيں:
پہلا احتمال: ہم فرض كريں كہ شوريٰ كے لئے متعدد نظام اور مختلف صورتيں موجود ہيں اور يہ تمام نظام اور تمام صورتيں تمام ظروف اورتمام زمانوں ميں منطبق ونافذ ہونے كي صلاحيت ركھتے ہيں اسلام نے باقي صورتوں كو چھوڑ كرفقط كسي ايك صورت كو معين نہيں كيا كيونكہ يہ ترجيح بلا مرجح اور الزام بلاملزم 36 ہے كيونكہ شورائي نظام اور دوسري نظاموں مثلا اجتماعي نظام اقتصادي نظام وغيرہ ميں (كہ جن ميں تخيير كا حكم كيا جاسكتا ہے) اہم فرق پايا جاتا ہے اور وہ بنيادي فرق يہ ہے كہ جب اسلام كو ايسي اجتماعي يا اقتصادي مشكل كا سامنا ہو كہ جس كے حل كے لئے دو مساوي اور كارآمد راہ حل اور اسلوب موجود ہوں اور ان دو راہ حل كے درميان تخير بھي ممكن ہو تو اسلام لوگوں كوآزاد چھوڑ ديتا ہے تا كہ ان دو ميں سے كسي ايك اسلوب اوركسي ايك راہ حل كو اختيار كريں اس طرح مذكورہ نقص برطرف ہوجاتا ہے ليكن حكومت، شوريٰ اور راي گيري كے شعبے ميں ممكن نہ تھا كہ مثلا دو معين نظاموں ميں سے كسي ايك كو اختيار كرنے كا حكم ديا جاتا كيونكہ فرض يہ ہے كہ دونوں نظام مشكل كو حل كرنے كي صلاحيت ركھتے تھے يہ اختيار نہ دينے كي وجہ يہ ہے كہ لوگ ان دو ميں سے كسي ايك كو اختيار كرنے ميں اختلاف كرسكتے ہيں جس كا نتيجہ يہ ہوگا كہ ہم ايسے بنيادي راہ حل تك نہيں پہنچ سكيں گے جسكے ذريعہ حكومت كے انحرافات كي اصلاح كي جاسكے يہي وجہ ہے كہ مثال كے طور پر اسلام نے (شورائي نظام كي) دوشكليں معين نہيں كيں تاكہ امت ان دوميں سے كسي ايك كو اختيار كرے بلكہ اسلام نے (شورائي نظام كو) شكل و صورت كے اعتبار سے مبہم ومجمل اور آزادچھوڑا ہے اوراس كي شكل و صورت اوراسكے قوانين كي تعين كا كام لوگوں كے سپرد كيا ہے ۔
ہم اس جواب كو رد كرنے كے لئے فقط اس وضاحت پر اكتفا كريں گے كہ اسلام كے لئے ممكن ہے كہ (مختلف نظاموں اور نظام كي مختلف شكلوں ميں سے) كسي ايك نظام كو معين كرے (اگرچہ ترجيح بلا مرجح كي بنياد پر ہي) اور يہ ايسا امر ہے جو افعال اختيار ي ميں جائز ہے پس خداوند متعال ان نظاموں (جو ساري نظام مشكلات كو حل كرنے كي صلاحيت ركھتے ہيں) ميں سے كسي ايك نظام كو بغير كسي ترجيح كے اختيار كرسكتا ہے تاكہ مندرجہ اشكال وارد نہ ہوسكے نہ يہ كہ اسلام ناقص ہے اور لوگوں كو واحد صحيح اسلوب كي طرف ہدايت نہيں كرسكتا جسكي وجہ سے امت مسلمہ بہتر اور باصلاحيت نظام كي تعيين كے سلسلے ميں اختلافات اور نزاع كا شكار ہوجاتي ہے 37
دوسرا احتمال: اگر اسلام كے لئے (امت كو) بعض ايسي علامتيں اور خصوصيات عطا كرنا ممكن ہوتاكہ جن خصوصيات اور علامتوں كے ذريعہ تشخيص دي جاسكتي كہ يہ ظرف خاص (شرائط زمان و مكان وغيرہ) فلان نظام كے لئے مناسب ہيں (اور امت ان علامتوں كے ذريعہ نظام كو معين كرتي) تو ايسا كرنا اسلام كے لئے ضروري تھا ورنہ فطري طور پر ہم يہ فرض كرسكتے ہيں كہ ہر ظرف كے لئے اور ہر زمانے (مختلف شرائط) كے لئے نئے رسول كاانا ضروري ہے تاكہ لوگوں كو ايسے دين كي طرف ہدايت كرسكے جو دين موجودہ ظرف (شرائط) كے مطابق ہو يا يہ فرض ممكن ہے كہ اسلام كے خاص وصي اور جانشين كا انتخاب كرے جو اس عظيم خلا پركرسكے ۔
تيسرا احتمال: يہ فرض كيا جائے كہ شوريٰ كے لئے قابل تصور تمام نظام اور تمام صورتيں انسان كو سعادت و خوشبختي سے ہمكنار كرنے سے عاجز و ناتوان ہيں ليكن چونكہ شوريٰ كو (حكومت كي) بنياد اور اساس قرار دينا ہرج و مرج اور شور و غل سے افضل تھا لہذا اسلام نے لفظ “شوريٰ” كو مطلق چھوڑ ديا اور اس كے لئے كوئي ضابطہ و قاعدہ معين نہيں كيا۔
يہاں پر ہم كہيں گے حقيقت يہ ہے كہ شوريٰ كے تمام نظام (اور تمام صورتيں) بشريت كو حقيقي سعادت و خوشبختي سے ہمكنار كرنے سے عاجز ہيں ليكن اس كا مطلب يہ نہيں كہ اسلام كے پاس صورتحال ميں ايك مبھم اور غير منظم نظام عطا كرنے كے علاوہ كوئي اور راستہ نہيں تھا اسلام كے لئے ضروري تھا كہ نظام شوريٰ سے (اس نظام كي طرف عدول كرتا كہ جس ميں قائد و رہبر معين و منصوص)
خلاصہ كلام: اسلام ايسا نظام تشكيل دينے سے عاجز نہيں تھاكہ جس نظام كو صحيح نافذ كيا جائے تو انسانيت كي سعادت اور خوشبختي كا ضامن ہو اور نہ ہي اسلام نے اس كام ميں سستي و كاہلي كي ہے يقيني طور پر بشريت كي بدبختي و نامرادي كا واحد سبب اس نظام كي تطبيق ونفاذ ميں خود ان كي سستي اور ان كي كوتاہي ہے (اگر تطبيق ميں سستي نہ كرتے تو سعادت مند ہوتے) اور درج ذيل دوآيہ كريمہ اس مطلب كي طرف اشارہ كرتي ہيں: ارشاد رب العزت ہے: (ولو ان اھل القري آمنوا واتقوا لفتحنا علھيم بركات في السماء والارض ولكن كذبوا فاخذناھم بماكانوا يكسبون۔ 38
ترجمہ آيت: اور اگر اہل قريہ ايمان لےآتے اور تقوي اختيار كرليتے تو ہم ان كے لئے زمين واسمان سے بركتوں كے دروازے كھول ديتے ليكن انہوں نے تكذيب كي تو ہم نے ان كو ان كے اعمال كي گرفت ميں لے ليا۔
ايك اور مقام پرخداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے:
وَلَوْ اٴَنَّہُمْ اٴَقَامُوا التَّوْرَاۃَ وَالْإِنجِيلَ وَما اٴُنزِلَ إِلَيھِمْ مِنْ رَبِّھِمْ لَاٴَكَلُوا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اٴَرْجُلِھِمْ مِنْھمْ اٴُمَّۃٌ مُقْتَصِدَۃٌ وَكَثِيرٌ مِنْھمْ سَاءَما يعْمَلُونَ ۔ 39
ترجمہ آيت: اور اگر يہ لوگ توريت و انجيل اور جو كچھ ان كي طرف پروردگار كي جانب سے نازل كيا گيا ہے سب كو قائم كرتے تو اپنے اوپر اور قدموں كے نيچے سے رزق خدا حاصل كرتے ان ميں سے ايك قوم ميانہ رو ہے اور زيادہ حصہ لوگ بدترين اعمال انجام دے رہے ہيں۔
تيسرا جواب:
يہ كہا جائے كہ اگرچہ (ابتدائي نظر ميں) نظام شوريٰ مبھم اور غير مشخص معلوم ہوتا ہے ليكن اگر بيشتر غور و خوض كياجائے تو اس نظام ميں پايا جانے والا ابہام برطرف ہوجاتا ہے۔درج ذيل امور كے ذريعہ شورائي نظام ميں پائے جانے والے ابہام كو برطرف كيا جاسكتا ہے:
4) يہ كہا جائے كہ شوريٰ كي اصل دليل ميں اطلاق 40 پايا جاتا ہے اور دليل ميں پايا جانے والا اطلاق اور عدم تعيين امت كو مكمل اختيار عطا كرتا ہے كہ امت ايك زمانے اور متحد ظروف (شرائط) ميں شورائي نظام كے لئے قابل تصور نظاموں اور مختلف شكلوں ميں سے كسي ايك نظام اور كسي ايك شكل و صورت كا انتخاب كرسكتي ہے۔
اشكال: اس اطلاق كا جواب يعني اس پر (اشكال) واضح ہے كيونكہ اگر امت نظام كو اختيار كرنے ميں اختلاف كرے (كچھ لوگ ايك نظام كو جبكہ كچھ اورلوگ دوسري نظام كو اختيار كريں) تو ہم كيا كريں گے؟ يہي اشكال اور يہي سوال موجب بنتا ہے كہ عرف اس دليل سے وہ اطلاق نہ سمجھے جس كا دعويٰ كيا گيا ہے۔
5) يہ دعوي كيا جائے كہ شوريٰ كے ذريعہ شورائي نظام كو معين كرنا ممكن ہے۔
اس جواب پر وہي اشكال كيا جائے گا جو گزشتہ جواب پر كرچكے ہيں كيونكہ اگر امت نظام كي اس شكل و صورت كے تعين ميں اختلاف كرے اور آخر كار اس مشكل كے حل كے لئے كوئي راہ حل پيدا نہ كرسكے تو ايسي صورتحال ميں ہمارا موقف كيا ہوگا؟ فرض كريں امت نے اتفاق كرليا كہ (حكومت كے) امور كي باگ ڈور فقہاء كے سپرد كي جائے اور امت نے اسے افضل و بہتر تشخيص دياپھر امت كي اكثريت اور فقہاء كي اكثريت كے درميان امور كي تقسيم كار (فقہاء كے درميان) ميں اختلاف نظر پيدا ہوگيا تو ہم مسلسل امت سے سوال كريں گے كہ اگر ايك ايسا امر (موضوع) ہو كہ جو ايك اعتبار سے (امت كي وسيع تعداد اور وسيع دائري سے منسوب ہو) (اور ايك اعتبار سے يہي موضوع امت كے خاص طبقے اور خاص دائري كي طرف منسوب ہو) تو ايسي حالت ميں آخري فيصلے كے لئے كس مرجع كي طرف رجوع كيا جائے گا اور كس سے راي گيري كي جائے گي (كيا اس وسيع دائري ميں شامل افراد سے يا خاص دائري ميں شامل افراد سے راي لي جائے گى؟ )
امت اس سوال كا جواب يہ دے گي كہ ہماري پاس كوئي قاعدہ كليہ اور جامع معيار و ميزان موجود نہيں ہے كہ تمام حوادث و واقعات ميں جس كي طرف رجوع كيا جائے بلكہ ہر مسئلے ميں راي گيري ضروري ہے اور كبھي وسيع دائري كي طرف رجوع كرنے (ان سے راي لينے) ميں بہتري ہوتي ہے جبكہ كبھي كبھار محدود و خاص دائري كي طرف رجوع كرنا بہتر ہوتا ہے (لہذا مسئلہ كي نوعيت كے مطابق راي گيري كي جائے) ہم مسلسل اس مسئلے (فقہاء كے درميان امور كي تقسيم) كے باري (امت سے) راي طلب كريں گے (يعني امت سے سوال كريں گے) كہ كيا اس مسئلے ميں فقط فقہاء سے راي گيري كي جائے؟ يا عمومي راي گيري كي جائے كہ جس كے دائري ميں فقہاء بھي شامل ہوں۔اب اگر امت كي اكثريت اور فقہاء كي اكثريت كے درميان اس مسئلے پر اختلاف نظر ہوجائے تو اس عظيم ہرج ومرج اور شور وغل ميں ہمارا موقف كياہوگا؟
(كيا اكثريت امت كي راي پر عمل كيا جائے يا اكثريت فقہاء كي راي پر؟ ) اگر امت كے سامنے يہ مشكل (ايك طرف كميت و مقدار كے لحاظ سے رجحان پايا جائے جبكہ دوسري طرف كيفيت كے اعتبار سے) پيش كي جائے كہ (جن دو گروہوں كے درميان اختلاف نظر وجود ميں كيا ہے ان ميں سے) ايك گروہ كے پاس امت كي اكثريت ہے يعني ان كے پاس كميت كے اعتبار سے رجحان اور برتري پائي جاتي ہے جبكہ دوسرا گروہ كيفيت كے اعتبار سے برتري ركھتا ہے اس صورتحال ميں كس كو مقدم كيا جائے؟ (كيا اس گروہ كو مقدم كيا جائے جو كيفيت كے اعتبار سے برتري ركھتا ہے يا اس گروہ كو مقدم كيا جائے جو كميت و مقدار كے اعتبار سے برتري ركھتا ہے) اس مشكل سے نجات حاصل كرنے كے لئے كونسا راستہ اپناياجائے اور اس مسئلے كا راہ حل كيا ہے؟ اسي طرح جب امت كے سامنے ان لوگوں كا مسئلہ پيش كيا جائے جنہوں نے شوريٰ اور راي گيري ميں شركت نہيں كي اور اسي طرح جب يہ مسئلہ مورد بحث قرار ديا جائے كہ ان كا شوريٰ اور راي گيري ميں شركت نہ كرنا كس حد تك نقصان دہ ہے اور امت سے اس مسئلہ پر راي گيري كي جائے ليكن خود اس راي گيري ميں امت كے بعض افراد سستي كرتے ہوئے شريك نہ ہوں تو اس صورتحال ميں كيا موقف اپنايا جائے؟
جب ہم امت سے اس مسئلہ (كيامردوں اور عورتوں ميں سے مستضعف و پسماندہ افراد راي گيري ميں شركت كرسكتے ہيں؟ ان ميں سے كون لوگ مستثنيٰ ہيں يا ملاك و معيار كيا ہے كہ جس كي بنياد پر كسي كو راي گيري ميں شامل كيا جائے جبكہ كسي اور كو راي گيري ميں شامل نہ كيا جائے) كے باري ميں فتويٰ (راي) طلب كرتے ہيں اور پوچھتے ہيں كہ كس سے يعني راي لي جائے؟ كيا ساري امت سے راي لي جائے يا مستضعفين كے علاوہ باقي امت سے؟ اور كسي كو راي گيري سے مستثني كرنے كي حدود و قيود اور ضابطہ كياہے؟
البتہ يہ جانتے ہوئے كہ اگر بعض (مستضعف وغيرہ) افراد كو راي گيري ميں شامل كيا جائے تو نتيجہ كچھ اور ہوگا جبكہ اگر ان كو شامل نہ كيا جائے تو نتيجہ كچھ اور ہوگا؟ !
6) يہ دعويٰ كيا جائے كہ اگرچہ شورائي نظام خداوندمتعال كے نزديك مبھم و ناقص ہے ليكن ہر زمانے اور ہر مكان ميں مجتہد كو حق حاصل ہے كہ (فقہ اہل سنت كے مشہور مباني)
استحسان، و مصالح مرسلہ 41 كے مطابق اجتہاد كے اس نقصان اور خلا كو پر كرسكے ليكن اگر ايك ہي وقت اور ايك ہي ظرف (شرائط) ميں زندگي گزارنے والے فقہاء كے درميان اختلاف نظر پيدا ہوجائے تو اس صورت ميں ہمارا وظيفہ كيا ہوگا؟ اور اس نظام حكومت كے متعلق كيا موقف اپنائيں گے كہ جس نظام كے بانيوں كے درميان اختلاف پايا جاتا ہے؟ كبھي كبھار اس مشكل كے جواب ميں يہ كہا جاتا ہے كہ ان (اختلاف نظر كرنے والے) تمام فقہاء كي ايك كميٹي بنائي جائے گي اور انہيں كہا جائے گا كہ شورائي نظام (باہمي مشورى) كے ذريعے كسي ايك اجتہاد (نظرئے) پر اتفاق كرليں۔ ليكن مسئلہ يہ ہے كہ ہم دوبارہ اس شوريٰ كي طرف رجوع كررہے ہيں جو خود ابھي تك مبہم و غير معين ہے اور اس كے بنيادي قوانين اور حدود و قيود بھي مشخص نہيں ہيں!! پس اس طرح واضح ہوگيا كہ شوريٰ، راي گيري اور انتخاب كو حكومت كي بنياد و اساس كے طور پر قبول كرنے والوں كي تمام دليلوں پر اعتراض و اشكال وارد ہيں۔
كيونكہ اگر واقعا ًرسول خدا اپنے بعد امت كو اپنے امور چلانے كے لئے شوريٰ كے ذريعہ حكومت كے انتخاب كي طرف اشارہ و ہدايت كرنا چاہتے توانحضرت پر لازم تھا كہ (حكومت كي) اس بنياد و اساس كي مختلف شقوں اور اس كے مختلف نظاموں كي تفصيلات بيان فرماتے اگر واقعاًائمہ معصومين عليہ السلام كاہدف يہ تھا كہ زمانہ غيبت ميں شيعوں كو شوريٰ اور انتخاب كي طرف رہنمائي كريں تو ان پر ضروري تھا كہ شيعوں كے لئے شوريٰ كے مختلف نظاموں اور شوريٰ كے مختلف بندوں كي تشريح كرتے اور تفصيلات و جزئيات بيان كرتے۔
(ان سب اعتراضات كے باوجود) ہم شوريٰ كي اہم دليلوں كو ذكر كرتے ہيں تاكہ ديكھا جاسكے كہ كيا يہ دليليں اشكال و اعتراض سے سالم و محفوظ ہيں يا نہيں؟ اگر ہم گزشتہ عمومي اشكالات سے چشم پوشي كرليں؟
كتاب وسنّت سے شوريٰ كے دلائل
جب وادي تشيع ميں شوريٰ كے متعلق بحث كي جاتي ہے (تو چونكہ حكومت كي شكل و صورت كے بارے ميں بحث زمانہ غيبت ميں ہے) تو ہم ابتداء ہي سے روايات شوريٰ سے ان بعض روايات كو مستثنيٰ كرديتے ہيں جن سے ظاہر ہوتا ہے كہ حتي ائمہ معصومين عليہ السلام كے زمانہ حضور ميں بھي امامت يا قيادت و رہبري كي تعيين انتخاب اور شوري كي بنيادپر ہے گويا حضرت علي عليہ السلام كي امامت كي تكميل بھي شوريٰ اور انتخاب كے ذريعہ ہوئي بطور نمونہ حضر ت علي عليہ السلام كا وہ قول ہے جو نہج البلاغہ ميں حضرت كي طرف سے معاويہ كے نام خط ميں كيا ہے:
(جن لوگوں نے ابوبكر، عمر، اور عثمان كي بيعت كي تھي انہوں نے ميري ہاتھ پر اسي اصول كے مطابق بيعت كي جس اصو ل پر وہ ان كي بيعت كرچكے تھے اوراس كي بنا پر جو حاضر ہے اسے پھر نظر ثاني كا حق نہيں اور جو بروقت موجود نہ ہو اسے رد كرنے كا اختيار نہيں اور شوريٰ كا حق صرف مہاجرين و انصار كو ہے وہ اگر كسي پر ايكا كريں اوراسے خليفہ سمجھ ليں تو اسي ميں اللہ كي رضا و خوشنودي سمجھي جائے گي)) ۔ 42
نصربن مزاحم نےحضرت علي عليہ السلام كي يہي عبارت اپني كتاب (وقعۃ صفين) 43 ميں ان الفاظ كے اضافے كے ساتھ نقل كي ہے (اما بعد فان بيعتي لزمتك و انت بالشام، لانہ بايعني القوم الذين بايعو ابابكر و عمر و عثمان)
(امابعد (اے معاويہ) با وجوديہ كہ تم شام ميں ہو ميري بيعت تم پر بھي لازم ہے كيونكہ انہي لوگوں نے ميري بيعت كي جنہوں نے ابوبكر وعمر و وعثمان كي بيعت كي تھي)
نصر بن مزاحم كي كتاب ميں معاويہ كے نام حضرت علي عليہ السلام كے خط ميں كيا ہے۔
(اما قولك ان اھل الشام ھم الحكام علي اہل الحجاز فھات رجلا من قريش الشام يقبل في الشوريٰ او تحل لہ الخلافۃ فان زعمت ذلك كدبك المھاجرون والانصار) 44
(تمہارا يہ كہنا كہ اہل شام حجاز پر حكمران ہيں تو (اس كا جواب يہ ہے كہ) قريش شام ميں سے كوئي ايسا فرد لاؤ جسے شوريٰ قبول كرلے يا اس كے لئے خلافت حلال ہو اگر تمہارا اپنا يہ گمان ہے تو تمہيں مہاجرين و انصار نے جھٹلاديا ہے۔۔۔)
نہج البلاغہ ميں امير المومنين كا ارشاد ہے: (ايھا الناس ان احق الناس بھذا الامر اقواھم عليہ و اعلمھم بامر اللہ فيہ فان شغب شاغب استعتب فان ابي قوتل و لعمري لئن كانت الامامۃ لاتنعقد حتي يحضرھا عامۃ الناس فما الي ذلك سبيل ولكن اھلھا يحكمون علي من غاب عنھا ثم ليس للشاہد ان يرجع ولاللغائب ان يختار) 45
اے لوگو! تمام لوگوں ميں اس خلافت كازيادہ اہل وہ ہےجواس (كے نظم و نسق كو برقرار ركھنے) كي سب سے زيادہ قوت ركھتا ہو اور اسكے باري ميں اللہ كے احكام كو سب سے زيادہ جانتا ہو اس صورت ميں اگر كوئي فتنہ پرداز فتنہ كھڑا كرے تو (پہلے) اسے توبہ و بازگشت كےلئے كہا جائے گا اگر وہ انكار كرے تو اس سے جنگ و جدال كيا جائےگا۔اپني جان كي قسم! اگر خلافت كا انعقاد تمام افراد امت كے ايك جگہ اكھٹا ہونے سے ہوتو اسكي كوئي سبيل ہي نہيں بلكہ اسكي صورت تو انہوں نے يہ ركھي تھي كہ اسكے كرتا دھرتا لوگ اپنے فيصلہ كا ان لوگوں كو بھي پابند بنائيں گے جو بيعت كے وقت موجود نہ ہوں گے پھر موجود كو يہ اختيار نہ ہوگا كہ وہ (بيعت سے) انحراف كرے اور نہ غير موجود كو يہ حق ہوگا كہ وہ كسي اور كو منتخب كرے۔
مولف: اس قسم كي روايا 46 (حتي اگر سند كے اعتبار سے ان كي حالت سے چشم پوشي كرلي جائے) اس بحث ميں شامل نہيں ہوں گي جو شيعہ زمانہ غيبت ميں نظام حكومت كے متعلق كرتے ہيں كيونكہ شيعہ پہلے ہي روايات اور قطعي دلائل كے ذريعہ ثابت كرچكے ہيں كہ امام معصوم كے حضور كے زمانے ميں امامت و حكومت كي سربراہي نص صريح كے ذريعہ معين انسان كے لئے ثابت ہوچكي ہے اور وہ معين انسان امام معصوم عليہ السلام ہے ۔
مكتب شيعہ ميں فقط حكومت كي شكل و صورت اور اس امر كے باري ميں بحث كي جاتي ہے كہ زمانہ غيبت ميں (حكومت كا سربراہ) كس كا نائب ہوتا ہےكيا وہ زمانہ غيبت ميں حكومت كے حقيقي سربراہ يعني امامعليہ السلام معصوم كا نمائندہ ہوتا ہے۔
البتہ ان روايات كو دو ميدانوں ميں بحث كرتے وقت پيش كيا جاسكتا ہے:
1) نظام حكومت كے متعلق اہل سنت كي بحث كے ميدان ميں۔
2) رسول خدا كي وفات كے بعد امامت كے سلسلے ميں شيعہ و سني بحث كے ميدان ميں كہ كيا (رسول خدا كے بعد) امامت نص كے ذريعہ سے ثابت يا انتخاب كے ذريعے؟ ہم نے يہ كتاب رسول خدا كے زمانے كے بعدكے لئے نہيں لكھي كہ بلافاصلہ رسول خدا كے زمانے كے بعد حكومت كي بنياد كيا ہے يہ ايك تفصيلي بحث ہے كہ جس كے متعلق كتابيں لكھي جاچكي ہيں اور بحث و گفتگو كي جاچكي ہے۔ليكن يہاں پر ہم يادآوري كرائيں گے كہ يہ روايات ان عمومي اشكالات سے محفوظ نہيں ہيں جن كے متعلق ہم تفصيلي وضاحت كرچكے ہيں۔اگر رسول خدا نے اپني وفات كے بعد امت كے مستقبل ميں مثبت دخالت كي ہوتي توفطري طور پر ہم ديكھتے كہ حضرت نے امت كے لئے اس نظام (شورائي نظام) كے قواعد و ضوابط اور راہنما اصول تفصيل كے ساتھ بيان كئے ہيں ليكن اس سلسلے ميں انحضرت كےسكوت اختيار كرنے كا مطلب يہ ہے كہ انحضرت امت كے مستقبل اوردين حنيف كے مستقبل كے لئے كسي قسم كي اہميت كےقائل نہيں تھےاور يہ ايسي چيز ہے كہ مسلمان انحضرت كے متعلق اس كا احتمال بھي نہيں دے سكتا۔
ساتھ امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے كہ آپنے فرمايا: جس نے مسلمانوں كي جماعت سے جدائي اختيار كي اور امام كي بيعت كو توڑ ڈالا قيامت كے دن خدا كي بارگاہ ميں جزام كي بيماري ميں مبتلا حاضر ہوگااصول كافي جلد1 ص 4۰5بحارالانوار جلد 27ص 72 اس طرح كي روايات كو تقيہ پر حمل كيا جائے گكيا صدور كے اعتبار سے تقيہ يا بہ اين معني كہ جماعت كے ساتھ نبھا كرنے كا حكم تقيہً صادر ہواہے ۔
(اس چيز كا انحضرت كے حق ميں احتمال دينا كسي مسلمان كے لئے سزاوار و شايستہ نہيں ہے) اس بناپر مذكورہ روايات (اگر سند كے اعتبارسے بھي صحيح ہوں) توانھيں ہماري نزديك اس معني پر حمل كيا جائے گا كہ اميرالمومنين عليہ السلام اپنے مخالفين سے مخاطب تھے اور ان كے سامنے ان كے مورد قبول معياروں كے مطابق احتجاج كررہے تھے اور انہيں اس چيز كا م پابند بنا رہے تھے جس چيز كے وہ خود ملتزم اور پابند تھے۔
اور انہيں ان چيزوں كے ذريعے ملتزم بنا رہے تھے جنكے وہ خود ملتزم تھے اميرالمومنين عليہ السلام (امت كي مصلحت كي خاطر) نيچےآئے جب وہ لوگ نيچےآئے اور اوپر گئے جب وہ لوگ اوپر گئے جيسا كہ مشہور ومعروف خطبہ شقشقيہ ميں اميرالمومنين عليہ السلام كاقول ہے
فياللہ وللشوريٰ حتي اعترض الريب في مع الاول منھم حتي صرت اقرن الي ھذہ النظائر لكني اسففت اذا اسفوا و طرت اذ طاروا۔
(اے اللہ مجھے اس شوريٰ سے كيا لگاؤ؟ ان ميں سے سب سے پہلے كے مقابلے ہي ميں ميري استحقاق و فضيلت ميں كب شك تھا جواب ان لوگوں ميں ميں بھي شامل كرليا گيا ہوں مگر ميں نے يہ طريقہ اختيار كيا تھا كہ جب وہ لوگ زمين كے نزديك پرواز كرنے لگيں تو ميں بھي ايسا ہي كرنے لگوں اور جب وہ اوپر ہوكر اڑنے لگيں تو ميں بھي اسي طرح پرواز كروں يعني حتي الامكان كسي نہ كسي صورت سے نباہ كرتا رہوں) 47
شوريٰ كے لئے بہترين دليل دوآيات كريمہ ہيں:
پہلي آيت: فَبِما رَحْمَۃٍ مِنْ اللہِ لِنْتَ لَھمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاستَغْفِرْلَھُمْ وَشَاورھُمْ فِي الْاٴَمْرِ فَاِذَاعَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ ان اللہَ يحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ۔ 48
((پيغمبريہ اللہ كي مہرباني ہے كہ تم ان لوگوں كے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو يہ تمہاري پاس سے بھاگ كھڑے ہوتے لہذا اب انہيں معاف كردو ان كے لئے استغفار كرو اور ان سے امر ميں مشورہ كرو اورجب ارادہ كر لو تو اللہ پر بھروسہ كروكہ وہ بھروسہ كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے۔
دوسري آيت: فَما اٴُوتِيتُمْ مِنْ شَيءٍ فَمَتَاعُ الْحَياۃِ الدُّنْيا وَما عِنْدَ اللہِ خَيرٌ وَاٴَبْقَي لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَي رَبِّھِمْ يتَوَكَّلُونَ وَالَّذِينَ يجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَاما غَضِبُوا ھُمْ يغْفِرُونَ وَالَّذِينَ استَجَابوا لِرَبِّھِمْ وَاٴَقَامُواالصَّلاَۃَوَاٴَمْرُھُمْ شُورَي بَينَھمْ وَمِمارَزَقْنَاھُمْ ينْفِقُونَ وَالَّذِينَ اِذَااٴَصَابھُمْ الْبَغْي ھُمْ ينْتَصِرُونَ 49
(پس تم كو جو كچھ بھي ديا گيا ہے وہ زندگاني دنيا كا چين ہے اور بس جو كچھ اللہ كي بارگاہ ميں ہے وہ خير اور باقي رہنے والا ہے ان لوگوں كے لئے جو ايمان ركھتے ہيں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ كرتے ہيں اور بڑے بڑے گناہوں اور فحش باتوں سے پرہيز كرتے ہيں اور جب غصہ آجاتا ہے تو معاف كرديتے ہيں اور جو اپنے رب كي بات كو قبول كرتے ہيں اور نماز قائم كرتے ہيں اور آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں اور ہماري رزق ميں سے ہماري راہ ميں خرچ كرتے ہيں اور جب ان پر كوئي ظلم ہوتاہے تو اس كا بدلہ لے ليتے ہيں)
متعدد روايات بھي موجود ہيں جو شوريٰ كي ترغيب دلاتي ہيں ان روايات كي غالب اكثريت يا تمام كي تمام روايات اگرچہ سند كے اعتبارسے ضعيف ہيں ليكن تواتراور استفاضہ 50 كي حد تك پہنچي ہوئي ہيں ان روايات كي كثير تعداد كتاب (وسائل الشيعہ) كے (ابواب احكام العشرۃ) 51 ميں موجود ہے ان ميں سے كچھ روايات درج ذيل ہيں:
1) عن ابي ھريرہ قال: سمعت ابا القاسم يقول: استرشد واالعاقل ولا تعصوہ فتندموا۔ 52 ابوھريرہ نقل كرتے ہيں كہ ميں نے اباالقاسم (رسول خدا) صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے سنا كہ آپ فرمارہے تھے”عاقل سے رہنمائي حاصل كرواوراسكي مخالفت نہ كرو ورنہ پشيماني كا سامنا كرنا پڑے گا”
2) عن ابن القداح عن جعفر بن محمد عن ابيہ عليہ السلام قال قيل يا رسول اللہ ماالحزم؟ قال مشاورۃ ذوي الراٴي و اتباعھم 53
ابن قداح سے انہوں نے جعفر بن محمد سے انہوں نے اپنے والد گرامي (امام باقر عليہ السلام) سے نقل كيا ہے كہ آپنے فرمايا: “پوچھاگيا يا رسو ل اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پائيداري و استحكام (دورانديشي) كيا ہے؟ آپنے فرمايا: صاحبان نظر اورصاحبان راي سے مشورہ كرنا اور (ان كے مشورى ك