شہید مطہری اور انتظار و مہدویت

228

مقدّمہامام مہدی (عج) کے انتظار اور ظہور پر مختلف پہلؤوں سے بحث ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہتی ہے مثلاً:1. ہمہ گیر عدل کا نفاذ قیام مہدی (عج) کا اہم ترین فلسفہ گردانا گیا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ معاد کی ضرورت کا ایک اہم سبب بھی یہی ہے کہ وہاں عدل کا پورا نفاذ ہو اور دوسری طرف سے دنیا صرف ایک گذرگاہ ہے اور اصل مقصد اور منتہائے ہدف، آخرت ہے تو پھر دنیا میں عدل کے مکمل نفاذ کی کیا ضرورت ہے اور ہمیں دنیا میں عدل کے قیام کا انتظار کیوں کرنا چاہئے؟
2. اسلام آیات اور احادیث میں بعض اعمال کے لئے خاص مقامات کا قائل ہے مثلاً نماز کو دین کا ستوں قراردیا گیا ہے؛ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو دیگر احکام کی پائیداری کا سبب قرار دیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ؛ اسی اثناء میں انتظارِ فَرَج یا فراخی کا انتظار افضلُ الاعمال شمار کیا گیا ہے؛ انتظار کے لئے یہ مقام کیوں قرار دیا گیا ہے؟ خاص طور پر اگر ہم اس حقیقت کی طرف توجہ دیں کہ دیگر اعمال میں فعل ایجابی ہوتا ہے اور مکلفین کو کوئی عمل انجام دینا پڑتا ہے؛ لیکن انتظار بظاہر فعل سلبی ہے اور اس میں کوئی اقدام [بظاہر] انجام نہیں دینا پڑتا بلکہ منتظر رہنا پڑتا ہے اور سوال یہ اٹھتا ہے کہ “کوئی کام نہ کرنا” کیونکر بہترین اور برترین عمل قرار دیا گیا ہے؟
3. آج کے زمانے میں ایک نہایت اہم بحث عالمگیریت [Globalization] سے متعلق ہے اور ہم جانتے ہیں کہ امام مہدی (عج) بھی عالمی حکومت ہے،؛ آپ کے قیام کا فلسفہ عالمی ہے اور عالمگیریت کی اسلامی مثال بھی مہدی (عج) کی عالمی حکومت ہی ہے. اگر اس زاویئے سے دیکھا جائے تو کیا عالمگیریت ایک نئی شکل اختیار نہیں کرے گی؟ اور اس صورت میں آج کے دور کی گلوبلائزیشن کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری کیا ہوگی؟مہدویت اور انتظار کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کے علاوہ انتظار کا مفہوم بھی اپنے اندر مختلف قسم کے سنجیدہ سوالات کا باعث بنتا ہے اور ان میں اہم ترین سوال شاید یہ ہو کہ “احادیث میں تاکید ہوئی ہے کہ ظہور تب ہی واقع ہوگا جب دنیا ظلم و جور سے پر ہوجائے تو ایسی صورت میں کوئی بھی اصلاحی عمل ظہور میں تاخیر کا باعث نہیں بنے گی؟ اگر ظہور کا انتظار کرنا ہے تو ہمیں اصلاحی اقدامات سے ہاتھ اٹھانا پڑے گا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں معاشرتی ذمہ داریاں ترک کرنا پڑیں گی (مثلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنا پڑے گا) جبکہ یہ ذمہ داریاں دین نے انسانوں پر عائد کی ہیں اور اگر ان ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیں تو منتظر کیونکر کہلائیں گے؟ بالفاظ دیگر اگر طے یہ ہو کہ ان فرائض کی ادائیگی اور ان اصلاحات کے ہوتے ہوئے انسانوں کی حرکت ارتقاء کی جانب ہو تو یقیناً جب ہم یہ اصلاحی حرکت جاری رکھیں گے اور اپنے فرائض پر عمل کرتے رہیں گے تو ارتقائی سفر خود بخود اپنی انتہا پر منتج ہوگا تو ایسی صورت میں ظہور مہدی کی کیا ضرورت ہے؟ان سوالات کے علاوہ بھی متعدد سوالات موجود ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام میں مہدویت کے مسئلے پر نئی اور گہری نگاہ ڈالنے کی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ہم اس پورے مسئلے کا خلاصہ ایک جملے میں یوں بیان کرسکتے ہیں کہ : “ہم سے تقاضا ہوا ہے کہ مہدی (عج) کے ظہور اور قیام کا انتظار کریں. اور ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کیوں اور کیسے انتظار کریں؟”.اس مقالے میں ہم استاد شہید مرتضی مطہری کے افکار و آراء کی روشنی میں ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کریں گے:”کیوں؟” کا جواب دو طریقوں سے دیا جاسکتا ہے: ایک دفعہ “کیوں” کے ذریعے شیئے کے اسباب کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے اور اس سوال کے جواب میں ہمیں «فلسفۂ مہدویت» کے بارے میں بحث کرنی پڑے گی؛ یعنی سوال یہ ہے کہ ہمیں کیوں منتظر رہنا چاہئے [اور انتظار کی ضرورت کیوں ہے] اور اس سوال کا لازمہ یہ سوال ہے کہ مہدی (عج) کا قیام کیوں ضروری ہے جس کا انتظار بھی ضروری ہو؟ اس کیوں کا دوسرا جواب شیئے کے نتائج [اور معلولات] کے ذریعے دیا جاسکتا ہے یعنی یہ کہ “منتظر رہنا چاہئے کیونکہ منتظر رہنے سے یہ اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے ہمیں یہ نتائج ملتے ہیں”. اچھا تو ہم انتظار کریں تو کیسے؟ یہاں کیفیتِ انتظار کا سوال ہے؟ “کیفیت” درحقیقت کیوں کے ذریعے ہونے والے سوال کی دو صورتوں کے بیچ قرار پاتی ہے. ایک طرف سے یہ بحث فلسفۂ مہدویت کی ایک شاخ ہے؛ کیونکہ انتظار کی کیفیت کے بارے میں اٹھنے والے سوال کا جواب دینے کے لئے ابتداء میں یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ اس انتظار کا تعلق کس چیز سے ہے اور انتظار کس چیز کا ہو رہا ہے؟ظاہر ہے کہ دشمن کے حملے کا انتظار مہمان کے وارد ہونے کے لئے انتظار سے بالکل مختلف ہے؛ [دشمن کے حملے کے انتظار کے تقاضے اور ہیں اور مہمان کا انتظار کرنے کے تقاضے اور؛ اور دونوں کے استقبال کی کیفیت بھی الگ الگ ہے] یہاں عالمی موعود کے قیام کی ضرورت کے فلسفے کی شناخت کے بعد ہی اس مسئلے کی طرف توجہ دینا ممکن ہوگا کہ یہ قیام انسانی حیات میں کس قسم کی تبدیلیاں ساتھ لائے گا؟ اور اس کے انتظار کی کیفیت کیسی ہونے چاہئے. دوسری طرف سے صرف اس وقت انتظار کے آثار و نتائج کے بارے میں بات کی جاسکے گی کہ انتظار کی کیفیت معلوم ہوچکی ہو تا کہ ہم یہ کہہ سکیں اِس طرح کا انتظار اُس طرح کے ثمرات و نتائج کا باعث ہوگا؟.چنانچہ ہم اس بحث کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:حصہ اول: فلسفۂ مہدویت اور انتظار کی ضرورتحصہ دوئم: انتظار کی کیفیت اور ہماری ذمہ داری؛ اورحصہ سوئم: انتظار کے ثمرات و نتائج
حصہ اول: فلسفۂ مہدویت اور انتظار کی ضرورتاسلامی فلسفی میں کا ایک قاعدہ «حد اور برہان کا تلازم» ہے. اس قاعدے کے مطابق کسی بھی طرح کا برہان جو کسی مسئلے پر قائم کیا جائے اس (حد) کی بہتر شناخت کا باعث بنے گا …(ابراہیمی دینانی، 1372: ج 3، ص 240 ـ 249).ہماری یہ بحث بھی اسی روش پر مبنی ہے؛ یعنی اگر ہم مہدویت کی بہتر شناخت حاصل کرنا چاہیں تو ایک راستہ یہ ہے کہاں تمام اسباب کا جائزہ لیں جو مہدویت کی ضرورت کا باعث بنے ہوئے ہیں. «لگتا ہے کہ عالمی موعود کی ضرروت کا سبب انبیاء کی بعثت ہی کا فلسفہ ہے اور خلقت کا فلسفہ بھی یہی ہے».(مطہری، 1372 الف، ص 69 ـ 73)خلقت کا فلسفہ، عبادت اور عبودیت ہے (وَ َمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ(1)) اور عبودیت کی حقیقت خدا کا تقرب ہے اور انبیاء کی بعثت کا فلسفہ بھی ـ قرآن مجید کی متعدد آیات شریفہ کے مطابق ـ توحید و یکتاپرستی اور سماجی عدل ہے اور شہید مطہری کی تشریح کے مطابق «عدل بھی توحید کے لئے ہے».(ایضاً:ص 74 ـ 85)اور عالمی موعود کے قیام کی اہم ترین ضرورت بھی زمین کو قسط و عدل سے پر کرنا ہے؛ لیکن یہ جو کہا گیا ہے کہ اگر طے یہی ہو کہ مکمل عدل، آخرت میں قائم و نافذ ہوگا تو دنیا میں اس عدل کے قیام کے لئے اتنا اصرار کیوں؟اس بات کا جواب انسان، عدل اور آخرت کے بارے میں ہمارے نقطۂ نظر کی نوعیت پر منحصر ہوگا اور ہم یہ جواب یہاں کئی شقوں میں بیان کرتے ہیں:
1. نظام خلقت میں انسان کا مقام:قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق انسان دنیا میں رہنے کے لئے نہیں آیا بلکہ خدا کی طرف حرکت کے مقررہ راستوں کو طے کرنے کے لئے آیا ہے تا کہ ان راستوں سے گذر کر اپنے شایان شان مقام و مرتبت تک پہنچ سکے اور وہ مقام خلیفة اللہی کا مقام ہے. انسان کو زمین میں آکر خلیفةاللہ بننا ہے یعنی اسے صفات الہی کا مظہر بننا ہے. ملائکہ کے گمان کے برعکس، انسان زمین پر محض فساد برپا کرنے اور خونریزی کرنے والی مخلوق نہیں ہے بلکہ اس کے وجود کے سکّے کا دوسرا رخ بھی ہے اور اس سکّے کا دوسرا رخ اس کی خلقت کا فلسفہ ہے اور درحقیقت انسان میں جو اصل ہے [یعنی اس کی پیدائشی خاصیت] اس کے وجود کی قدر و قیمت بلند و برتر ہے.(ایضاً، ص 52 ـ‌ 54).
2. فطرت کا اصول:مذکورہ بالا بحث کے پیش نظر انسان ایک خنثی اور مہمل مخلوق نہیں ہے جو محض بیرونی عوارض اور عوامل سے متأثر ہوتا ہو بلکہ وہ اپنی ذات کے اندر ایک حقیقی شخصیت کا مالک ہے اور حقیقی سمت پر کمال و ارتقاء کی منازل کی طرف گامزن ہے اور اس سمت میں اس کی حرکت اس کے وجود کا اصلی فلسفہ ہے اور یہ وہ امر ہے جس کے اوپر سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے.(مطہری، 1375).یہ ابتدائی سرمایہ [جو انسان کی ذات کے اندر ودیعت رکھا گیا ہے] اتنا اہم ہے کہ ہر قسم کا باطل انسان کے اس سرمایۂ حق کے حوالے سے مکمل طور پر طفیلی حیثیت رکھتا ہے اور تابع [یا پیراسائٹ [Parasite] ہے؛ بالفاظ دیگر دنیا میں «باطلِ محض» کا وجود تک نہیں ہے بلکہ حق کے پیکر پر باطل کی تمام صورتیں افراط اور تفریط کی وجہ سے معرض وجود میں آتی ہیں اور اس [باطل] کا کوئی مستقل تشخص [Identity] نہیں ہے.(مطہری، 1372 ب، ص 35 ـ 37).بالفاظ دیگر، انسان محض ایک خالی برتن نہیں ہے جو باہر سے اور بیرونی عوامل کے توسط سے بہرجایا کرے بلکہ بعض نظریات و رجحانات کی بیج اس کی فطرت کی زمین میں موجود ہے اسی بنا پر ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ انسان کی پرورش اور تربیت ہونے چاہئے، نہ یہ کہ ایک صنعتی مادی کی مانند بنایا جائے.(مطہری، 1371: ص 35).
3. فرد اور معاشرے کاتعلق:اسلام میں فرد بھی اصالت [Authenticity] رکھتا ہے اور معاشرہ بہے. اسلام کا نظریہ نہ محض فردیت ‌[Individualism] پر مبنی ہے جس کے تحت معاشرہ صرف اعتباری اور قراردادی [اور فرد سے وابستہ] ہے اور نہ ہی محض اجتماعیت پر مبنی ہے جو فرد کے لئے کسی بھی حیثیت کا قائل نہیں ہوتا؛ بلکہ کہنا یہ چاہئے کہ: بنی نوع انسان کے افراد ـ جن میں ہر ایک، ایک فطری سرمائے اور طبیعت سے حاصل کردہ سرمائے، کا حامل ہوتا ہے ـ‌ سماجی زندگی میں داخل ہوتے ہیں اور روح کے لحاظ سے ایک دوسرے میں ادغام ہوجاتے ہیں اور روح کے لحاظ سے ایک نیا تشخص پاتے ہیں جسے «اجتماعی روح» کہا جاتا ہے. یہ ترکیب و آمیزش ایک منفرد فطری اور طبیعی ترکیب و آمیزش ہے جس کے لئے کوئی بھی مثال اور شبیہ و نظیر ڈھونڈنا بے سود ہوگا.اس ترکیب میں چونکہ اجزاء ایک دوسرے پر عیناً اثر انداز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے عیناً متاثر ہوتے ہیں اور عیناً ایک دوسرے کی تبدیلی اور تغییر کا باعث بنتے ہیں، اور یہ نیا تشخص پاتے ہیں، لہذا یہ ایک عینی اور طبیعی ترکیب ہے. مگر دوسری طرف سے چونکہ یہاں “کُلّ” اور “مرکب” ایک “اکائی [Unit] کی شکل نہیں اپناتا لہذا یہ مرکب دیگر عینی مرکبات سے مختلف ہے. یعنی دیگر مرکبات میں ترکیب حقیقی ہے کیونکہ اجزاء ایک دوسرے پر حقیقتاً اثر انداز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے حقیقتاً متأثر ہوتے ہیں اور ان کا تشخص بھی مختلف ہوجاتا ہے اور مرکب بھی ایک حقیقی اکائی ہے؛ یعنی وہاں محض ایک واحد تشخص پایا جاتا ہے اور اجزاء کی کثرت “کلّ” کی وحدت میں تبدیل ہوجاتی ہے؛ مگر معاشرے اور فرد کے مرکب میں ترکیب حقیقی ہے؛ کیونکہ تأثیر [اثراندازی] اور تأثر [اثرپذیری] اور فعل و انفعال [عمل اور قبول اثر] حقیقی ہے اور اس مرکب کے اجزاء ـ یعنی معاشرے کے افراد [اس سانچے میں ڈھل جانے کے بعد] نیا تشخص پاتے ہیں اور ان کی صورت بھی نئی ہوجاتی ہے مگر یہاں افراد کی کثرت ہرگز وحدت میں تبدیل نہیں ہوتی [اور اجزاء مٹ کر ایک اکائی میں تبدیل نہیں ہوتے] اور ایک اکائی کی حیثیت سے ایسا کوئی اکمل انسان وجود نہیں رکھتا جس میں تمام کثرتیں تحلیل ہوگئی ہوں. اکمل انسان درحقیقت افراد ہی کا مجموعہ ہے اور اس کا وجود اعتباری اور انتزاعی [اور افراد سے وابستہ] ہے.(مطہری، 1374، ص 27 ـ 26)؛چنانچہ من حیث الفرد، یہ ضروری نہیں ہے کہ فرد کی سعادت معاشرے کی سعادت کے مترادف ہو. کیونکہ فرد اور معاشرہ دونوں حقیقی اور اصلی ہیں؛ اور صرف اس وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان سعادتمند اور خوشبخت ہے کہ فرد کی سعادت کے ساتھ ساتھ معاشرے کی سعادت بھی عملی صورت اپنائے.
4. دنیا اور آخرت کا تعلق:آخرت دنیا کا باطن ہے اور وہ یوں کہ عالم آخرت مکمل طور پر مستقل عالَم نہیں ہے جو وقت اور زمان کے لحاظ سے دنیا کے خاتمے کے بعد سے شروع ہوجائے؛ بلکہ آیات و روایات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت دنیا ہی کے باطن میں واقع ہے؛ پس آخرت کی جزاء نہ قراردادی جزا ہے اور نہ ہی دنیا کے اعمال سے اس کا تعلق عِلّی اور معلولی [سبب و مسبَّب والا] ہے بلکہ آخرت کی جزا درحقیقت ہمارے ان اعمال کے باطن کا ظہور ہے جو ہم اس دنیا میں انجام دیتے رہے ہیں. [یعنی ہمارے دنیاوی اعمال کی باطنی صورت اخروی جزا کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہے](مطہری، 1373 الف، ص 201، و نیز 1373 ب، ص 30 ـ 32)پس کہا جاسکتا ہے کہ: اخروی سعادت دنیاوی سعادت کی باطنی اور حقیقی تجلّْی [اور ظہور] ہے؛ اور وہ یوں کہ قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق جو شخص دنیا میں خدا کی یاد سے غافل ہو ـ ممکن ہے کہ دنیاوی زندگی میں رفاہ و آسائش کی تمام تر سہولیات سے مالامال ہو مگر ـ اس کی زندگی دشوار اور ناخوشایند ہو اور اس کے مقابلے میں اولیاء الہی ہیں جن کہ زندگی اگرچہ بظاہر سخت اور دشوار ہے مگر وہ سرور اور سکون کامل میں زندگی بسر کرتے ہیں. چنانچہ قیامت میں حقیقی عدل کے قیام کے لئے دنیا میں ـ فردی اور معاشرتی لحاظ سے ـ کمال یافتہ انسان کا ہونا ضروری ہے.
5. کمال انسانی کی قسمیں:زندگی میں انسان کے اعمال کا چار رابطوں کے لحاظ سے جائزہ لیا جاسکتا ہے:انسان کا اپنے ساتھ رابطہانسان کا خدا کے ساتھ رابطہانسان کا دوسروں کے ساتھ رابطہ اورانسان کا طبیعت [Nature]یا نیچر کے ساتھ رابطہلیکن دقیق تر رائے کے مطابق یہ چار قسم کے رابطے درحقیقت دو قسم کے رابطوں کے طرف لوٹتے ہیں:خدا کے ساتھ رابطہدوسروں کے ساتھ رابطہجیسا کہ انسانی کمال کے بارے میں بحث کرتے ہوئے انسان کا خدا کے ساتھ تعلق پر بحث ہوتی ہے انسان کا کمال دوسروں کے ساتھ تعلق کے لحاظ سے قابل غور ہے. چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے باوجود کہ پیغمبر خاتم (ص) فردی لحاظ سے انسانی کمالات کی تمام منازل و مراتب طے کرچکے ہیں (الخاتَم مَن ختم المراتب بأسرها)، ‌لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان نے تمام مراتبِ کمال طے کرلئے ہوں؛ کیونکہ انسان کو یہ مراتبِ کمال معاشرتی لحاظ سے بھی طے کرنے ہیں. البتہ یہ پیغمبر خاتم (ص) کے مقام و منزلت کے لئے نقص تصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس نقص کا تعلق انسانوں کے مجموعے سے ہے جو ابھی تک اس اجتماعی کمال کے ظہور اور وقوع کے لئے تیار نہیں ہوسکا ہے. بالفاظ دیگر ـ چونکہ فرد کے علاوہ معاشرہ بھی اصالت رکھتا ہے، لازم اور ضروری ہے کہ معاشرہ بھی کمال کے مراتب و منازل طے کرے اور شاید رجعت کا فلسفہ بھی یہی ہو.پس جس طرح کہ فردی لحاظ سے خلیفة اللہی کے مقام کی عملی صورت اپنانے کے لئے ایک انسان کی ضرورت ہے جس کے وجود میں یہ عملی صورت اپنا سکے، معاشرتی لحاظ سے بھی خلیفة اللہی کا منصب عملی صورت میں نمودار ہونے کے لئے دنیا میں ایک کمال یافتہ اور ارتقاء یافتہ معاشرے کی ضرورت ہے.دلچسپ امر یہ ہے کہ جس طرح کہ “انسان انفرادی لحاظ سے جسمانیة الحدوث اور روحانیة البقاء ہے [یعنی جسم کے لحاظ سے حادث ہے، یعنی نہ تھا اور وجود میں آیا؛ مگر روحانی لحاظ سے ہمیشہ کے لئے باقی ہے] (صدرالمتألہین شیرازی[ملاصدرا]، 1410: ج8، ص347)، معاشرتی لحاظ سے بھی اس کی حرکت اقتصادی ادارے سے شروع ہوتی ہے اور ثقافتی و تہذیبی اداروں پر ختم ہوتی ہے:انسان اپنے تکامل اور ارتقاء کی ہمہ گیریت کے وجہ سے تدریجاً اور رفتہ رفتہ اپنے طبیعی اور سماجی ماحول سے سے اپنی وابستگی کم کردیتا ہے اور ایک قسم کے حریت حاصل کرتا ہے جو عقیدے اور ایمان سے وابستگی کے ہم معنی ہے اور اس طرح وہ اپنی حریت کو تقویت پہنچاتا ہے اور مستقبل میں وہ مکمل معنوی اور روحانی آزادی حاصل کرے گا.(مطہری، 1371، ص37).انسان کا ارتقائی سفر ہمیشہ سے مادی طبیعت اور معاشی حالات اور انفرادی و معاشرتی مفادات کی قید سے آزادی اور مقصدیت، مکتبیت اور ایمان و اعتقاد کی بیشتر حاکمیت و اصالت کی طرف رہا ہے. ابتدائی انسان کا ارادہ طبیعی ماحول اور حیوانی طبیعت سے متأثر ہوکر تشکیل پایا ہے مگر ترقی یافتہ انسان کا ارادہ ـ تہذیب کے ارتقاء، بصیرت کی پیشرفت اور رو بہ کمال اعتقادات کی طرف رجحان کی بدولت ـ رفتہ رفتہ طبیعی اور سماجی ماحول اور حیوانی جِبِلَّتوں سے زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل کرکے ان قیود اور وابستگیوں پر اثر انداز ہوگیا ہے.(مطہری، 1371: ص 48 و 49).
6. مطلوبہ معاشرے کے حوالے سے اسلام کے تمام وعدے حقیقی ہیں:اسلامی تعلیمات میں ایک نہایت اہم نکتہ یہ کہ اس کی دی ہوئی تمام مثالیں اور [اور مطلوبہ معاشرے کے سلسلے میں اس کے تمام وعدے] بالکل واقعی اور قابل حصول ہیں.مغرب میں گذشتہ چند صدیوں کے دوران ظہور پذیر ہونے والے مکاتب نے [مطلوبہ معاشرے کے بارے میں جو تصویریں اور] جو مثالیں دی ہیں [کہ مستقبل میں ان کے معاشرے عروج کی منازل طے کریں گے] عام طور پر اس بات کے معترف ہیں کہ ان کی یہ مثالیں آرمانی [Idealistic]، توہماتی اور ناقابل حصول ہیں اور ان آرزؤوں تک پہنچنے کے لئے ان کی تلقینات صرف روشی اور اسلوبی [Methodic] القائات [inductions] ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ”اس مقصد کی طرف چلنے اور آگے بڑھنے کی حتی الامکان کوشش کرو، ہرچند کہ واضح ہے کہ یہ آرزو اور یہ نتائج ناقابل حصول ہیں”؛ در حقیقت ان کے مدینہ ہائے فاضلہ Utopia اور مطلوبہ معاشرے کے ہم معنی نہیں ہیں بلکہ ان کی آرزؤوں کا درست ترجمہ آئیڈیل [Ideal] ہے [اور ان کا تصور درحقیقت آئیڈیلسٹک اور آرمانی ہے] لیکن مطلوبہ حالات اور معاشرے سے متعلق اسلام کی دی ہوئی مثالیں محض آئیڈیل اور غیرعینی نہیں ہیں. اسلام چاہتا ہے کہ انسان خلیفة اللہی کے مقام پر فائز ہو اور (رسول اللہ (ص) اور امیرالمؤمنین (ع)) سب سے پہلے اس کی عملی مثالیں انسانی معاشرے کے سامنے رکھتے ہیں تا کہ انسانی معاشرے کے افراد جان لیں کہ یہ آرزوئیں انسان کے لئے قابل حصول ہیں. چنانچہ اگر اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ دنیا میں عدل کامل کے ساتھ معاشرے کے قیام کے لئے اقدام کریں تو وہ اس معاشرے کو قابل حصول اور واقعی سمجھتا ہے اور اسلام کی نگاہ میں یہ محض ایک ناقابل حصول آرزو ہی نہیں ہے.
7. حق و باطل کا تقابل اور حق کی فتح:گو کہ من حیث المجموع تاریخ کی حرکت ارتقائی ہے مگر یہ ارتقائی سفر جبری نہیں ہے کہ اس کی خلاف ورزی نہ کے جاسکے؛ ضروری نہیں ہے کہ ہر انسانی معاشرہ ہر تاریخی مرحلے میں اپنے پچھلے مرحلے کی نسبت زیادہ کمال یافتہ اور ارتقاء یافتہ ہو ‍[اور اپنے گذشتہ مرحلے سے آگے کا سفر طے کرچکا ہو بلکہ بہت سے معاشرے ویسے کے ویسے باقی رہتے ہیں یا شاید قہقرائی سفر اختیار کرکے کئی مرحلے پیچھے کی جانب چلے جاتے ہیں]؛ چونکہ اس حرکت کا اصلی عامل انسان ہے اور انسان ایک با اختیار اور آزاد موجود ہے جو خود انتخاب کرتا ہے؛ تاریخ اپنی حرکت میں نشیب و فراز سے دوچار ہوتی ہے اور تغیّر پذیر [luctuant] ہے مگر مجموعی طور پر ارتقائی مسیر طے کرتی رہتے ہے.(مطہری، 1371، ص 47 و 48).بالفاظ دیگر انسان کا اندرونی تضاد نیچے کی جانب مائل جبلتوں کے فردی، وقتی اور محدود خواہشات، اور اوپر کی طرف مائل فردیت کی حدود سے نکل کر بنی نوع بشر کے تمام افراد کو اپنی آغوش میں لانے کے رجحانات، کے بیچ واقع ہے [یعنی جبلتیں انسان کو وقتی مسائل کی طرف کھینچتی ہیں اور ارتقائی رجحانات اسے اوپر کی طرف بلاتے ہیں]؛ انسان کی اندرونی جنگ ـ جو قدماء کے نزدیک عقل اور نفس کی جنگ کا نام دیتے تھے انسانوں کے چاہنے یا نہ چاہنے کی پروا کئے بغیر ـ انسانی گروہوں کے درمیان عملی کشمکش اور لڑائی جھگڑے کی صورت بھی پیدا کرتی ہے. یہ جنگ کمال یافتہ اور معنوی آزادی کی نعمت سے بہرہ مند انسانوں اور زوال یافتہ، حیوان صفت انسانوں کے درمیان ہے اور قرآن کریم اس جنگ کی ابتداء کو حضرت آدم (ع) کے دو بیٹوں ـ ھابیل اور قابیل ـ کے قصے میں بیان فرماتا ہے.(ایضاً:ص 38 و 39).انسان کی گذشتہ اور آئندہ تاریخ میں انسانوں کے لڑائیاں تدریجاً بیشتر سے بیشتر اعتقادی اور مکتبی صورت اختیار کرتی رہی ہیں اور اختیار کرتی رہیں گی؛ اور انسان رفتہ رفتہ اور قدم بقدم انسانی اقدار کے لحاظ سے ارتقائی کمال کے مراحل اور مطلوبہ انسان اور مطلوبہ معاشرے کے قریب تر پہنچ جاتا ہے حتی کہ آخرکار حکومت اور عدل یعنی انسانی اقدار کی حکومت ـ جس کو اسلامی عبارات میں حکومت مہدی (عج) سے تعبیر کیا گیا ہے ـ مستقر ہوجائے گی اور حیوان مآبانہ، متکبرانہ اور نفس پرستانہ حکومتوں کا نام و نشان تک مٹ جائے گا.(ایضاً، ص 44).دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ بعض احادیث کے مطابق مہدی ـ عج ـ کا قیام ایسے موقع پر وقوع پذیر ہوگا کہ سعید اور شقی [خوشبخت اور بدبخت انسان] اپنی انتہائے کار تک پہنچ چکے ہونگے. (ایضاً، ص 66)؛ یعنی یہ تاریخی حرکت جتنی آگے کی طرف چلتی ہے شقی شقی تر اور سعید سعیدتر ہوگا اور ایسا ہی معاشرہ حق و باطل کے آخری معرکے کے لئے اسباب فراہم کرسکے گا.
8 . ایمان بالغیب اور غیبی امداد:ایک نہایت اہم نکتہ ـ جس سے حق و باطل کے اس معرکے میں کسی طور بھی غفلت نہیں برتنی چاہئے ـ یہ ہے کہ کائنات کا نظام ایک اخلاقی نظام ہے. دینی حوالے سے دنیا عمل بد اور عمل نیک کے مقابلے میں یکسان رد عمل نہیں دکھاتا اور یہ وہی چیز ہے جس کو غیبی امداد کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے.قرآن کریم کا ارشاد ہے:إِن تَنصُرُوا اللَّهَ ینصُرْکمْ وَیثَبِّتْ أَقْدَامَکمْ (سورہ محمد (ص) آیت7)، اگر تم خدا (کے دین) کی مدد کروگے تو خدا بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثابت اور استوار کرے گا.وَمَن یتَّقِ اللَّهَ یجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (سورہ طلاق آیت2)، اور جو بھی تقوائے الہی اور پرہیزگاری پیشہ کرے گا خداوند متعال اس کو راہ نجات فراہم کرے گا.إِن یکن مِّنکمْ عِشْرُوں صَابِرُوں یغْلِبُواْ مِئَتَینِ (سورہ انفال آیت65) ہرگاہ تم میں سے بیس صابر اور با استقامت افراد ہونگے دوسو افراد پر غلبہ پائیں گے…ان سب آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات پر حکمفرما قواعد اور فارمولے ان مادی ـ اور سر کی آنکھوں سے قابل مشاہدہ ـ معمولی قواعد اور فارمولوں سے کہیں زیادہ ہیں. ان ہی کائناتی قواعد میں ایک اہم قاعدہ حق و باطل کے آخری معرکے کے لئے امام مہدی (عج) کا ظہور ہے اور شہید مطہری کی دقیق عبارت کے مطابق : “آیات اور روایت کے مجموعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہدی موعود (عج) کا قیام ابتدائے خلقت سے شروع ہونے والی حق و باطل کی جنگ کی کڑیوں کی آخری کڑی ہے.(مطہری، 1371: ص68)اور یہی وہ غیبی امداد ہے جو اہل حق کے محاذ کو میسر ہوگی. اس حقیقت کے طرف بھی توجہ دینی چاہئے کہ قرآن کریم کی منطق میں غیبی امداد کا شامل حال ہونا ہماری حرکت اور کوشش کے منافی نہیں ہے. بلکہ اصولی طور پر جب ہم کوشش اور فعالیت کریں گے تو غیبی امداد بھی آن پہنچے گی. [اگر تم خدا کی مدد کروگے تو خدا بھی تمہاری مدد کرے گا. خداوند متعال سورہ انفال کی آیت 17 (وَمَا رَمَیتَ إِذْ رَمَیتَ وَلَـکنَّ اللّهَ رَمَى = اور (اے میرے حبیب (ص)) یہ آپ نہیں تھے جس نے (ان کی طرف مٹی اور سنگریزے) پھینکے بلکہ یہ اللہ نے خود ہی پھینکے!) میں یہ نہیں فرماتا کہ اے ہمارے رسول (ص)! آپ کنارے بیٹھے تھے اور غیب سے ایک تیر آیا اور دشمن کو لگا بلکہ فرماتا ہے کہ «جو تیر آپ پھینکتے ہیں ہم اسے نشانے تک پہنچاتے ہیں. اور آپ اکیلے اور تنہا ہوں اور ہماری مدد نہ ہو تو نہیں معلوم کہ کیا آپ کا پھینکا ہوا تیر نشانے پر لگے گا بھی یا نہیں.
9. قیام مہدی(عج) کے بعد:مہدویت کی شناخت کے سلسلے میں آخری ضروری نکتہ یہ ہے کہ مہدی (عج) کی حکومت انسان کی حقیقی اور اصلی حرکت کی انتہا نہیں بلکہ ابتداء ہے اور اسلام کی دی ہوئی آرزؤوں کے خوبصورتی یہی ہے.شہید مطہری کے کلام کے مطابق: جب کسی مکتب کی آرزو پوری ہوتی ہے اور وہ مکتب اپنے مقررہ اہداف حاصل کرلیتا ہے تو اس کا کام بھی ختم ہوتا ہے اور وہ مکتب موت کا شکار ہوجاتا ہے؛ مگر جس انسان نے باطل کے خلاف اپنی جنگ مکمل کرلی ہے اس کے سامنے ابھی اللہ کا ارشاد «فَاسْتَبقُواْ الْخَیرَاتِ ـ اعمال نیک میں ایک دوسرے پر سبقت لو» (بقرہ 148) کا آسمانی پیغام اس کی آنکہوں کے سامنے جلوہ گر ہے. اس نے نقائص برطرف کردیئے ہیں اور اب اپنے ارتقائی اور صعودی سفر کی ابتدائی مرحلے میں ہے؛ اب اسے اوپر جانا چاہئے اور اس سفر کے کوئی انتہا اور کوئی نہایت نہیں ہے اور وہ جتنا بھی اوپر کی طرف عروج کرتا رہے گا نظام کائنات میں اس کے مزید اوپر جانے کی گنجائش ہے. (مطہری، 1372 الف، ص 57 و 58)۔ شاید عصر ظہور میں انسان کی غیر معمولی علمی اور سائنسی ترقی سے مراد یہی نکتہ ہو.
حصہ دوئم: انتظار کے کیفیت اور ہماری ذمہ داریہم نے کہا کہ انقلاب مہدی (عج) انسانی تاریخ میں ایک عظیم تحوّل اور دگرگونی [Alteration or Change] ہے. تاریخی تحولات اور دگرگونیوں کے بارے میں دو قسم کی آراء پائی جاتی ہیں جن میں سے ہر ایک کے تحت انتظار کے معانی بھی خاص ہوجاتے ہیں. ایک رائے یہ ہے کہ تاریخی دگرگونیاں ضابطے کے تحت نہیں ہیں یا اگر ضابطے کے تحت ہیں بھی تو ان میں انسانی ارادے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور تاریخ کے سفر پر جبر کی فرمانروائی ہے.جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ تاریخ کا سفر ضابطے کے تحت نہیں ہے اس کو اس بات کا بھی قائل ہونا پڑے گا کہ ان تحولات اور دگرگونیوں کی شناخت بھی ناممکن ہے؛ پس امام مہدی (عج) کے قیام کا تجزیہ بھی ممکن نہیں ہے.ایسی صورت میں انتظار سے مراد ایک عجیب و غریب واقعے کا چشم براہ ہونا، مہمل اور غیر فعال رہنا اور کوئی بھی کام نہ کرنا، ہے اور یہ امید رکھنا کہ غیب کی طرف سے ایک ہاتھ برآمد ہوگا اور وہی ہاتھ ہی کچھ کر جائے گا!.جب انتظار کے بارے میں یہ تصور ابھرے گا تو ظہور کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث کے سلسلے میں غلط تأویلات کا باب بھی کھل جائے گا اور بعض لوگ کہیں گے کہ “چونکہ یہ طے ہے کہ دنیا جب ظلم و ستم سے پر ہوگی تو ظہور ہوگا لہذا ہمیں ظلم کی ترویج میں مدد کرنی چاہئے”.جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ تاریخی تحولات ضابطے کے تحت ہیں مگر ان میں انسانی ارادے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ان کے پاس بھی یہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ : “کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا اور ہمیں تاریخ کے اس جبری حرکت کی رو میں بہنا چاہئے”.اس منطق میں بھی اصلاحی عمل کو مسترد کیا جاتا ہے. اس نظریئے کی دونوں قسموں میں امام مہدی (عج) کے قیام کی صورت دھماکے کی سی ہے جو صرف اور صرف ظلم و ستم اور امتیازی رویوں کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے؛ جب صلاح اور نیکی صفر کے درجے پر پہنچے گی، حق و حقیقت کا کوئی حامی نہ رہے گا اور یہ میدان باطل اور اہل باطل کی جولانگاہ بنے گا، یہ دھماکہ رونما ہوگا اور غیب کا ہاتھ حق و حقیقت کو نجات دینے کی غرض سے برآمد ہوگا (مگر یہ دست غیب اہل حق کو بچانے نہیں آئے گا کیونکہ اس رائے کے مطابق اہل حق اور حقیقت کے حامیوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے!)۔(مطہری، 1371: ص 56 ـ 64).دوسری رائے یہ ہے کہ تاریخی تحولات اور دگرگونیاں ضابطے کے تحت ہیں اور انسان کے ارادے کا بھی ان تحولات میں کردار ہے؛ اس نظریئے کے اصول حصۂ اول میں بیان ہوچکے. اس رائے میں دو قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں اور شاید انتظار کے مسئلے میں ڈاکٹر شریعتی اور استاد شہید مطہری کی آراء کا فرق بھی یہیں واضح ہوجائے. ایک تصور وجودیت پر مبنی [Existentialistic] ہے. اس تصور میں انسانی ارادے کا کردار بہت اہم ہے مگر [یہ تصور] انسان کے ماوراء کسی ہدف کا قائل نہیں ہے اور اس کا خیال ہے کہ انسان کو خود ہی اپنے لئے ہدف کی تخلیق کرے گا.(مطہری، 1372 الف: ص 51 ـ 46).ان لوگوں کے خیال میں انسان کے وراء کوئی بھی ہدف، اور اس ہدف کی طرف انسان کی حرکت کا لازمہ یہ ہوگا کہ انسان اپنے آپ سے بیگانہ ہوجائے؛ پس انسان کے لئے کسی بھی پیشگی ہدف کا قائل نہیں ہونا چاہئے؛ بلکہ ہر شخص ـ جو بھی ہدف اس کا جی چاہے ـ اپنے لئے تخلیق کرکے اس کی طرف حرکت کرسکتا ہے؛ مگر اس تصور کے نقائص اور خامیاں پہلے تصور سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہیں.اس تصور کی اہم ترین خامی یہ ہے کہ اقدار و اہداف کی تخلیق ـ لفظ کے دقیق معنی کے مطابق ـ ایک بے معنی اور مہمل بات ہے.کیا یہ معقول ہے کہ انسان فرض کرے کہ اس کے سامنے کوئی مقصد اور کوئی ہدف ہے اور پھر اس فرضی ہدف کے طرف چلتا بنے؟یہ عمل بت پرستوں کے عمل کی مانند ہے جو بت کی تخلیق کرتے ہیں اور پھر اس کی پوجا کرتے ہیں اور انسان کے سامنے اس سادہ لوح شخص کی داستان مجسم ہوجاتی ہے جس نے بچوں کے آزار و اذیت سے بچنے کے لئے ان سے کہا: “اگلی گلی میں خیرات بٹ رہی ہے؛ بچے اگلی گلی کی طرف دوڑے تو وہ دل ہی دل میں کہنے لگا کہ شاید اگلی گلی میں واقعی خیرات بٹ رہی ہے اور دھیرے دھیرے خود بھی اسی گلی کی طرف چل نکلا…”.فرضی ہدف مہمل اور بے معنی ہے؛ ہدف واقعی ہونا چاہئے؛ لیکن اسی اثناء میں اس ہدف کی جڑیں انسان کے اپنے وجود کی گہرائیوں میں استوار ہونی چاہئیں؛ تا کہ اس کی سمت حرکت، اس کے لئے ارتقائی حرکت شمار کیا جاسکے نہ یہ کہ اس کی یہ حرکت اپنے آپ سے بیگانگی کی طرف ہو.بہر صورت اس تصور میں انتظار، درحقیقت ہر قسم کے حالات پر دائمی اور ابدی اعتراض کے مترادف ہوگا اور اس کا لازمہ انقلابیت ہے؛ یعنی اگر کسی بھی معین ہدف و مقصود کو قبول نہ کیا جائے تو انسان کو ہر قسم کے حالات پر معترض رہنا پڑے گا اور دوسروں کے قبول کردہ کسی بھی ہدف و مقصد کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا؛ کیونکہ اگر اعتراض سے گریز کرے گا تو انتظار کا خاتمہ ہوجائے گا؛ اور لگتا ہے کہ کتاب «انتظار، مکتب اعتراض» میں ڈاکٹر شریعتی کا نظریہ اسی اصول پر مبنی ہے [جو دائمی اعتراض کے ہمراہ ہے کیونکہ ڈاکٹر شریعتی کے ہاں تاریخی تحولات کے راستے میں ہدف کا تعین انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے چنانچہ ان کے ہاں اہداف فرضی ہیں].اس نظریئے کے دوسرے تصور کے بارے میں کہنا یہ چاہئے کہ: یہ درست ہے کہ انسانی تاریخ کے تحولات میں انسانی ارادے کا کردار اہم ہے؛ لیکن فطرت کی اصالت [Authenticity] اور انسان کے اندرنی اور حقیقی موقف [اور حقیقی سمت میں حرکت کے فطری رجحان] کو مدنظر رکھ کر یہ انتظار خاص معانی سے سرشار ہوجاتا ہے.ان معانی میں اولاً یہ قبول کرنا ہے کہ “حق باطل سے قابل تشخیص ہے [اور حق کو باطل سے تمیز دی جاسکتی ہے] اور ثانیاً‌ یہ تسلیم کرنا ہے کہ منتظِر [یعنی انتظار کرنے والے] کا اصلی فریضہ یہ ہے کہ حق و حقیقت کے محاذ کو دائمی طور پر تقویت پہنچاتا رہے اور عظیم عالمی معرکے کو مطلوبہ ثمرات و نتائج تک پہنچانے کے لئے، حق و باطل کے درمیان والی سرحدی نشانات زیادہ سے زیادہ واضح کرنی کی کوشش کرتا رہے. اس صورت میں انتظار ـ فردی لحاظ سے بھی اور معاشرتی لحاظ سے بھی ـ نہ صرف سلبی اور مہمل اور بےعملی پر مبنی نہیں ہوگا بلکہ درحقیقت فعل ایجابی ہے [دیگر افعال و اعمال کی مانند] جو ہمارے تمام دیگر اعمال پر سایہ فگن ہوجاتا ہے؛ چنانچہ حدیث شریف میں اس انتظار کو افضل الاعمال کا درجہ عطا ہوا ہے.فردی لحاظ سے صرف وہ شخص حکومتِ عدل کا منتظر ہوسکتا ہے اور عالمی عدل کی آرزو کرسکتا ہے جو خود عدل و انصاف کا خوگر ہو اور اس کا مزاج، عدل کے ساتھ سازگار ہوگیا ہو. وہ شخص عالمی عدل کا منتظر ہوسکتا ہے جو عدل سے محبت کرتا ہو اور جو شخص عدل سے محبت کرتا ہو وہ پہلے مرحلے میں خود عدل والا اور اہل عدل ہوگا چنانچہ فرمایا جاتا ہے کہ: مصلح منتظرین کو خود صالح و نیک عمل ہونا چاہئے.معاشرتی لحاظ سے، جو اصلاحی حرکت حق کی فتح یابی کی سمت جارہی ہو اس حرکت کی تقویت اور اس میں حصہ داری منتظرین کا فریضہ ہے. پس جزئی اور تدریجی اصلاحات نہ صرف مذموم نہیں ہیں بلکہ یہ اصلاحات ـ اپنی جگہ ـ تاریخ کی حرکت کی رفتار کو اہل حق کے ساتھ مل کر سرعت بخشتی ہیں اور اگر یہ اصلاحات نہ ہوں تو مفاسد اور برائیاں، فسق و فجور اور گناہ و نافرمانی مدمقابل قوتوں کی تقویت کا باعث ہونگے؛ چنانچہ اس رائے کے مطابق جو کچھ رونما ہونا چاہئے وہ بھاپ سے چلنے والے انجن کے پھٹ جانے اور دھماکہ ہوجانے کی طرح نہیں بلکہ درخت کے اوپر پھل کے پک جانے کی مانند ہے؛ درخت کا مزاج یہ ہے کہ اس کی آبیاری جتنی بہتر ہو، اس کی پرورش اور دیکھ بال جتنی اچھی ہو، اس کے اوپر حملہ آور کیڑوں مکوڑوں اور نباتاتی امراض کا جتنا مؤثر انداز میں مقابلہ کیا گیا ہو اس کا پھل اتنا ہی صحتمند ہو گا اور ہوسکتا ہے کہ وہ درخت اپنا لذیذ اور صحتمند میوہ وقت معین سے بھی پہلے باغبان کی خدمت میں پیش کرے.(مطہری، 1371: ص 47).اس طرح عالمگیریت کے حوالے سے ہماری مجموعی ذمہ داری بھی واضح و آشکار ہوجاتی ہے.اسلام کی نگاہ میں عالمگیریت کا مطلب یہ ہے کہ “عالمی حکومت عدل کا قیام عمل میں آئی؛ جس کی تمہید حق و باطل کا آخری معرکہ ہے اور اس معرکے کے لئے حق کے محاذ کو تقویت پہنچانی پڑےگی”؛ اور یہ وہی امام خمینی (رہ) کا ہی کلام ہے جنہوں نے فرمایا تھا: «ہم اپنا انقلاب دنیا کو برآمد کریں گے»؛ البتہ اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ اس محاذ کی تقویت فوجی سے زیادہ ثقافتی، [فکری] اور معنوی ہے؛ کیونکہ اس محاذ کے تشخص کی بنیاد معنویت ہے. اور مقصد یہ ہے کہ حق اور عدل کو زیادہ سے زیادہ صاف و شفاف کرکے آشکار کردیا جائے اور حق و عدل کو سمجھنے کے لئے لوگوں کی فکری نشوونما کا اہتمام کیا جائے؛ یہاں تک کہ لوگ عدل کی حکمرانی کو برداشت کرسکیں.اس حقیقت سے واقفیت بہت مناسب ہے کہ حضرت مہدی (عج) کا مقام امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے مقام سے بالاتر نہیں ہے؛ پس مہدی (عج) کی حکومتِ عدل کی نہایت اہم خصوصیت کا تعلق فاعل [Active] [یا حکومت کے قیام کا اہتمام کرنے والی شخصیت یعنی حضرت مہدی (عج)] کی طرف نہیں لوٹتی بلکہ «قابل» Receptive [یعنی عوام اور اس حکومت عدل کو قبول کرنے والوں] کی طرف لوٹتی ہے، [اور ناکامی کی قصوروار عوام ہونگے۔ مثال کے طور پر فاعل کی فاعلیت[Activity of the active] حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے حوالے سے بےنقص تھی مگر قابلیتِ قابل [Receptivity of the receptive] ناقص تھی اور اس زمانے کے لوگ حکومت عدل کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اور خداوند حکیم نے کئی صدیوں تک انتظار بھی اسی بنا پر کرایا کہ بنی نوع انسان تیار ہوجائے اور قابل کی قابلیت نقائص سے پاک ہوجائے] یعنی مہدی (عج) کے دور میں انسان فکری بلوغ کے اس درجے پر پہنچا ہؤا ہوگا کہ وہ حق و باطل کی بآسانی تشخیص کرسکےگا اور ان دشمنوں کے مد مقابل ہرگز سرتسلیم خم نہیں کرےگا جو حق کے پیکر کو باطل کا لباس پہنا کر لوگوں کو حق سے روگردان کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوتے ہیں اور اس کی بجائے باطل کی وہ شکل ان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں جسے حق کے ساتھ مخلوط کیا گیا ہے [اس زمانے کے لوگ باطل کی شناخت کرسکیں گے خواہ اس نے حق کا لبادہ ہی اوڑھ رکھا ہو؛ یعنی اگر کوئی نوک سناں پر اوراق قرآن سجائے اور اپنے باطل چہرے کو چھپانا چاہے تو وہ چلّا چلّا کر یہ نہیں کہیں گے کہ “یاعلی مالک کو لوٹا دو ورنہ …”] مگر جو لوگ عدل کا صحیح اور معقول ادراک نہیں رکھتے وہ حتی امیرالمؤمنین کی حکومت کو بھی برداشت نہیں کرسکتے؛ گو کہ وہ در حقیقت جانتے اور سمجھتے نہیں ہیں. [اور جو حق کا صحیح ادراک نہیں رکھتے وہ شاید جمل کے میدان میں لشکر امیرالمؤمنین میں شامل ہوکر بھی موقع پاکر علی علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ “میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا کہ آپ حق پر ہیں یا آپ کے دشمن حق پر ہیں…]امیرالمؤمنین علیہ السلام عدل کا ادراک نہ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں: وَ مَنْ ضاقَ عَلَیهِ الْعَدْلُ فَالْجَوْرُ عَلَیهِ أَضْیَقُ ـ اور جو عدل سے تنگ آجائے وہ اس ظلم و ستم سے زیادہ تنگ آئے گا جو اس پر رواکھا جائے گا.(نہج‌البلاغہ، خطبہ 15).بہتر ہے کہ انتظار کے بارے میں مذکورہ بالا مسائل جاننے کے بعد ایک بار پھر اس مشہور حدیث پر دوبارہ نگاہ ڈالیں جس میں ارشاد ہوا ہے کہ “ظہور اس وقت ہوگا جب زمین ظلم و ستم سے پر ہوگئی ہوگی” اور یہ دیکھیں کہ یہ حدیث کیونکر مذکورہ بحث کے ساتھ سازگار اور ہماہنگ ہوسکتی ہے [بالفاظ دیگر ہماری بحث اس حدیث کے ساتھ کیونکر ہماہنگ ہوسکتی ہے]؟. کہا جاسکتا ہے کہ:پہلی بات یہ ہے کہ زمین کا ظلم سے پر ہوجانا ظہور کی نشانیوں میں سے ہے مگر اس کے اسباب میں شمار نہیں ہوتا.جو لوگ گماں کرتے ہیں کہ ظہور کے لئے زمین کو ظلم سے پر کرنا پڑے گا ان کا یہ بھی گماں ہے کہ گویا ظلم و ستم ظہور کے اسباب میں سے ہے. حالانکہ ظہور کا سبب یہ ہے کہ ظہور کے مقدمات اور تمہیدات فراہم ہوجائیں (یعنی حق و باطل کا محاذ واضح و آشکار ہوجائے اور حق کے محاذ کو تقویت پہنچائی جائے). علامتِ شیئے اور علتِ شیئے [Cause] اور علامتِ شیئے [Sign] کے مفہوم کا فرق واضح کرنے کے لئے درج ذیل تمثیل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے:فرض کریں کہ کسی ریلوے اسٹیشن میں بورڈ پر لکھا ہے کہ “اسٹیشن میں ہر گاڑی کی آمد سے ایک منٹ پہلے اس کی آمد کا اعلان کیا جائے گا” اور جب اعلان ہوتا ہے تو ایک منٹ بعد گاڑی بھی اسٹیشن میں پہنچ جاتی ہے؛ چنانچہ گاڑی کی آمد کا اعلان اس کی آمد کی علامت اور نشانی ہے لیکن یہ اعلان گاڑی کی آمد کا سبب نہیں ہے. اب اگر ہم گاڑی کی جلد اور پرامن آمد کو یقینی بنانا چاہیں تو [گاڑی کی آمد کے جلد اعلان سے یہ مقصد پورا نہیں ہوسکے گا اور] اعلانات کے بورڈ میں تبدیلی کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا بلکہ ہمیں گاڑی کی مدد کرنی پڑے گی اور اس کے انجن کو تقویت پہنچانا پڑے گی. ہم بورڈ کے اوپر لکھی عبارت میں جتنی بھی تبدیلی کریں گے اس سے گاڑی کی آمد میں کوئی مدد نہیں ملے گی.رواجِ ظلم کی بحث بھی ایسی ہی ہے. یہ ان نشانیوں میں سے ہے جو اسباب کے زمرے میں نہیں آتیں.ظہور کے بارے میں متعدد مسائل بیان ہوئے ہیں؛ مثلاً “دجال کا خروج”. جس طرح کہ یہ عمل مہمل اور بےمعنی ہوگا کہ ہم “دجال کے نام کے کسی شخص کو تلاش کریں اور اس کی حمایت کریں تا کہ وہ اپنے مخصوص اقدامات کرے اور اس طرح “امام زمانہ (عج) کے ظہور کی خاطر!” ظلم و ستم کو ہوا دیں.دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ استاد شہید مطہری نے یادآوری فرمائی ہے اس حدیث میں لفظ “ظلم” کا سہارا لیا گیا ہے اور ایک ظالم گروہ کی بات ہوئی ہے جس کا لازمہ یہ ہے کہ اس ظالم گروہ کے مد مقابل ایک مظلوم گروہ بھی ہونا چاہئے. اور اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے قیام کا [ایک مقصد] ان مظلوموں کے مدد کرنا ہے جو مدد و حمایت کے مستحق ہیں.یہ امر بدیہی اور ناقابل انکار ہے کہ اگر حدیث میں ارشاد ہوتا کہ “[امام مہدی (عج) زمین کو صلاح اور ایمان سے بھر دیں گے جس طرح کہ یہ کفر، شرک اور فساد سے بھر چکی ہوگی” تو اس کا لازمہ یہ نہ ہوتا کہ “ایک حمایت کا مستحق گروہ بھی موجود ہوگا”؛ اُس صورت میں استنباط کیا جاسکتا تھا کہ مہدی موعود کا قیام حق کی نجات اور ضائع ہونے والے اور درجہ صفر تک پہنچنے والے حق کے احیاء کے لئے ہے مگر یہ قیام اہل حق کی نجات کے لئے نہیں ہے خواہ اہل حق ایک چھوٹی سی اقلیت ہی کیوں نہ ہو.(مطہری، 1371: ص 66).تیسری بات یہ ہے کہ جو وضاحت محاذِ حق کی تقویت کے بارے میں دی گئی (کہ اس حوالے سے انسان کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ عدل کے بارے میں اور حق و باطل کے شناخت کے بارے میں لوگوں کی سوچ اور فکر کی سطح بلند کرے) اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ: شاید زمین کا ظلم سے پر ہوجانا ظالمین کے ظالمانہ خارجی افعال و اعمال کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو بلکہ انسانوں کے ادراکات اور احساسات کے تقاضوں کے مطابق ہو؛ یعنی یہ کہ شاید مقصود یہ ہو کہ انسان فکری نمو اور ارتقاء کے اس مرحلے پر ہوگا کہ اس بات کا بآسانی ادراک کرے گا کہ دنیا ظلم سے بھرگئی ہے اور ظلم کو مزید برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا اور اسی بنا پر عدل کے قیام کا انتظار کر رہا ہوگا.اس مسئلے کو مزید واضح کرنے کے لئے انسانی تاریخ پر نظر ڈالنی چاہئے؛ مثال کے طور پر فرعوں کے زمانے کے لوگ ظلم عظیم کا سامنا کررہے تھے مگر لگتا ہے کہ اس زمانے کے لوگ اس ظلم عظیم پر سنجیدہ انداز میں معترض نہیں تھے، گویا وہ ان ہی حالات سے راضی تھے [حتی کہ موسی علیہ السلام آئے اور ان کو بتایا کہ ان پر ظلم ہورہا ہے]. یا بہتر موازنے کے لئے ہمیں آج سے پچاس برس قبل کے عالمی حالات کی طرف توجہ دینی چاہئے اور وہ یوں کہ آج سے 50 برس قبل بنی نوع انسان پر جو ظلم و ستم ہورہا تھا، اگر ہم اس ظلم کا موجودہ زمانے میں انسان پر روا رکھے جانے والے مظالم کے ساتھ تقابلی جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ شاید ظلم کی مقدار میں اس دور کی نسبت کوئی اضافہ نہیں ہوا؛ مگر ظلم کے مقابلے میں لوگوں کی حساسیت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے. امریکہ ویتنام میں جن مظالم و جرائم کا مرتکب ہوا ان مظالم و جرائم سے کہیں زیادہ شدید اور وحشیانہ تھے جو وہ آج عراق میں روا رکھ رہا ہے؛ مگر عراق میں امریکی جرائم پر آج عالمی سطح پر جو اعتراض و احتجاج ہورہا ہے وہ اس زمانے میں ان جرائم پر نہیں ہوتا تھا.چوتھی بات یہ کہ اس حدیث کے ساتھ دیگر احادیث بھی ہیں: ایک حدیث میں تأکید ہوئی ہے کہ ظہور اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک شقی اور سعید انتہائے کار تک نہیں پہنچے ہونگے؛ یعنی یہ کہ نیک اور بد لوگ دونوں اپنے کام کی انتہا تک پہنچ گئے ہونگے [یعنی دونوں گروہ موجود ہونگے] یہی نہیں کہ اشقیاء شقاوت کی انتہا تک پہنچیں گے.اسلامی روایات و احادیث می ایسے زبدہ، چیدہ چیدہ برگزیدہ لوگوں کی طرف اشارے ہوئے ہیں جو امام (ع) کا ظہور ہوتے ہی آپ (عج) کی خدمت میں حاضر ہونگے. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم و ستم کے پھیلاؤ کے باوجود ایسے سنہری مواقع بھی ہیں جن میں ان برگزیدہ ہستیوں کی پرورش ہوئی ہے. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حق و حقیقت کی سطح نہ صرف صفر کے درجے تک نہیں گرے گی بلکہ فرض کریں اگر اہل حق کمیت [Quantity] کے لحاظ سے کم اور ناقابل اعتنا بھی ہوں مگر کیفیت [Quality] کے لحاظ سے اہل ایمان کے درمیان سب سے زیادہ قابل قدر اور بیش بہاء ہیں اور وہ سیدالشہداء (ع) کے اصحاب و انصار کی ردیف میں قرار پائیں گے. علاوہ ازیں متعدد احادیث میں تأکید ہوئی ہے کہ امام زمانہ (عج) کی تشریف آوری سے قبل آپ (عج) کے ظہور اور قیام کی تمہید اور مقدمے کے عنوان سے اہل حق کی طرف سے بعض تحریکیں اٹھیں گی جو قطعی طور پر پس منظر اور پیشگی اسباب کی بنا پر ہونگی. بعض روایات میں یہ بھی بشارت دی گئی ہے کہ اہل حق کی ایک حکومت قائم ہوگی جو امام مہدی (عج) کے قیام و ظہور تک قائم رہے گی.(مطہری، 1371: ص 67).
حصہ سوئم: انتظار کے ثمرات و نتائجمہدویت اور عالمی نجات دہندہ کے ظہور پر عقیدے کے لئے دو قسم کے اثرات و نتائج ہوسکتے ہیں:اوّل وہ عملی اثرات ہیں جو اس عقیدے پر مرتب ہوتے ہیں؛ یعنی اگر ہم مہدی (عج) کے ظہور پر عقیدہ اور یقین رکھتے ہوں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ یہ وہی انتظار کی بحث تھی جو پچھلے حصے میں گذرے.دوئم: وہ اثرات ہیں جو نظری اور رجحانی لحاظ سے اس عقیدے پر مرتب ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے انتظار کی دلیل کے عنوان سے پیش کئے جاسکتی ہیں. [اور یہ “انتظار کیوں؟” کا ایک نیا جواب ہوسکتا ہے] یعنی یہ کہ “انتظار کرنا چاہئے کیونکہ حقیقی انتظار ـ جس کی تفصیل بیان ہوئی ـ انسان کی روح و جان میں ان اثرات کا باعث بنتا ہے جن میں سے اہم ترین اثرات یہاں بیان کئے جاتے ہیں:1. تمام سماجی کوششوں میں معقول خوف و رجا1 ـ 1. رجائے معقول (بنی نوع انسان کے مستقبل کے بارے میں حسن ظن رکھنا):انسان کے مستقبل کے بارے میں مختلف قسم کی آراء ہیں.* بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ شر و فساد اور بدبختی، انسانی حیات کا ناقابل جدائی جزء ہے، چنانچہ زندگی کے کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور سب سے معقول راستہ یہ ہے کہ حیات اور زندگی کا خاتمہ کردیا جائے؛* بعض کا خیال ہے کہ: انسان ـ حیرت انگیز تکنیکی ترقی اور تخریبی وسائل کے وحشتناک ذخائر اکٹھے کرنے کی بنا پر ـ اس مرحلے تک پہنچا ہے کہ اب اس کا اور اس کے اپنے ہاتھوں تیارکردہ قبر کے بیچ کوئی فاصلہ باقی نہیں رہا ہے؛جبکہ ہمارے نظریئے کے مطابق، برائیوں اور تباہیوں کی اصل جڑ انسان کا روحی اور معنوی نقص ہے. انسان ابھی تک اپنی نوجوانی اور ناپختگی کے مرحلے سے گذر رہا ہے اور غضب و شہوت ابھی تک اس کی عقل پر حاکم ہے. انسان فطرتاً فکری، اخلاقی اور معنوی و روحانی ارتقاء کی جانب گامزن ہے چنانچہ نہ تو شر و فساد انسانی طبیعت کا ج‍‍زء لاینفک ہے اور نہ ہی تمدن و تہذیب کا جبر اجتماعی خودکشی کے المئے کا باعث بنے گا بلکہ حق و باطل کا معرکہ جاری رہے گا اور آگے بڑھتا رہے گا یہاں تک کہ آخرکار یہ معرکہ حضرت مہدی (عج) کی حکومت عدل کے قیام پر منتج ہوگا اور مصلحین کی محنت ہرگز رائگان نہ جائے گی اور بے نتیجہ نہیں رہے گی.(مطہری، 1371: ص 59 و 60، و نیز 1372 الف: ص 58).انسان عام حالات میں جب دنیا میں ظالمین كی ظلم و برائی اور ظاہری غلبہ دیكھتے ہیں، كبھی سوچتا ہے كہ كیا ہم اس عظیم لہر كے مقابلے میں كچھ كر بھی سكتے ہیں؟‌ اور ظہور كا وعدہ ہم سے كہتا ہے كہ «تمہارے تمام كام نتیجے پر پہنچیں گیں؛ ارشاد باری تعالی ہے: وَلَقَدْ کتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّکرِ أَنَّ الْأَرْضَ یرِثُهَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ.(سورہ انبیاء آیت 105).ہم نے زبور میں ذکر (تورات)‌ کے بعد لکھا کہ: «صالح اور لائق بندے زمین کے وارث ہونگے.1 ـ 2. خوفِ معقول (اپنی کوششوں سے بے بنیاد اور لامتناہی امیدیں نہ رکھنا):عالمی نجات دہندہ کا وعدہ اسی اثناء میں ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ “محض اپنی کوششوں سے نامحدود امیدیں نہ رکھیں؛ یعنی اپنے آپ سے یہ توقع نہ رکھیں کہ کہ آپ اکیلے ہی پوری دنیا کے اصلاح کریں گے۔بےشک آپ کے اقدامات عالمی اصلاح کے لئے شرطِ لازم ہیں؛ لیکن شرطِ کافی نہیں ہیں؛ خلاصہ یہ کہ انسانی معاشرہ اپنے ارتقائی سفر میں مہدی آخرالزمان (عج) سے بےنیاز نہیں ہوسکتا [اور اس سفر کے دوران انسان کو امام کی بہرصورت ضرورت ہے].2. کمیت و مقدار (Quantity) کی بجائے کیفیت و معیار (Quality) کو اہمیت دینا:معاشرتی فعالیت میں اہم پہلو محاذ حق کی روحانی اور علمی و ثقافتی تقویت کا پہلو ہے اور یہ کمّی نہیں بلکہ کیفی اقدام ہے؛ یعنی ظہور کی تمہید یہ نہیں ہے کہ شناختی دستاویزات کے لحاظ سے مسلمانوں یا اہل تشیع کی تعداد میں اضافہ ہو؛ بلکہ جس چیز کو زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ انسان حقیقت و عدالت کے پیاسے ہوجائیں؛ پس جیسا کہ اوپر کہا گیا حضرت مہدی (عج) کے ابتدائی انصار و اعوان کی تعداد شاید کم ہی ہو مگر یہ افراد معیار کے لحاظ سے اس رتبے پر فائز ہیں کہ ان میں سے ہر ایک تنِ تنہا ایک انقلاب کی قیادت کرسکے گا. اکابرین علماء میں سے کسی نے کہا تھا کہ مہدی (عج) کے اعوان و انصار امام خمینی (رہ) کی سطح کے افراد ہونگے اور آپ کے ابتدائی انصار امام خمینی (رہ) کے رتبے پر فائز ہونگے.یہ جو حدیث میں تأکید ہوئی ہے کہ اچھے اور نیک لوگ بھی اپنی اچھائی کے عروج تک پہنچیں گے یہ اس بات پر بہت اہم تأکید ہے کہ کمّیت و مقدار سے کہیں زیادہ کیفیت و معیار پر توجہ دینی چاہئے.3. مغربی تفکرات میں رائج نمونوں اور مثالوں [Paradigms] کے تسلط سے نکلنا:جدید دور دنیا پر مغرب کے تہذیبی تسلط کا دور ہے اور حقیقی منتظر وہ ہے جو اس تسلط سے مغلوب نہیں ہوتا. آج کے دور میں ہم بہت سی باتوں، رجحانات، رویوں اور روشوں کو ایسے سانچوں میں ڈھالتے ہیں جو جدید دنیا اور جدید [مغربی] معیاروں کے حوالے سے مقبول ہوں. مثال کے طور پر “عالمگیریت” [Globalization] ہی ک؛ مثال لیتے ہیں؛ اس سلسلے میں جب ظہور مہدی (عج) پر یقین رکھنے والا کوئی فرد ایسے قواعد اور فارمولوں کے مطابق عمل کرتا ہے جس کی ـ جدید دنیا کے محدود دنیاوی قواعد اور معیاروں کے دائرے میں ـ گنجائش نہیں ہے، ان کے قواعد بڑی آسانی سے درہم برہم ہوجاتے ہیں. اس سلسلے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی سیرت کا مطالعہ زیادہ سودمند ہوسکتا ہے [جنہوں نے اپنے ہر اقدام کے ذریعے مغرب و مشرق کے تمام رائج قواعد کو درہم برہم کردیا اور آج بھی جب امام خمینی (رہ) کی تعلیمات کے مطابق کوئی اقدام بروئے کار لایا جاتا ہے ان کی فکری مشینری کام کرنا چھوڑ دیتی ہے].
منابع و مآخذ:1. قرآن کریم .2. نہج‌البلاغہ. تصحیح محمد دشتی، مؤسّسہ نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین قم، اول 1364ش.3. ابراہیمی دینانی، غلامحسین. قواعد کلی فلسفی در فلسفہ اسلامی. تہران، مؤسّسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، دوم، 1372ش، ج3.4. جوادی آملی، عبداللہ. رحیق مختوم شرح حکمت متعالیہ، قم، مرکز نشر اِسراء، اول، 1375ش، بخش پنجم از جلد اول.5. سوزنچی، حسین. حل پارادوکس آزادی در اندیشہ شہید مطہری، قبسات، زمستان 1382 و بہار 1383، ش 30 و 31.6. شریعتی، علی. انتظار مکتب اعتراض، تہران، نشر الہام، 1362ش.7. صدر المتالہین شیرازی. محمد بن ابراہیم قوام، الحکمة المتعالیة فی الاسفار العقلیہ الاربعة، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چہارم، 1410ق، ج 8.8. طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن. بیروت، موسسہ اعلمی للمطبوعات، دوم 1422ق.9. طباطبایی، سید محمد حسین، انسان از آغاز تا انجام، صادق لاریجانی، تہران، انتشارات الزہرا، 1363ش.10. مصباح یزدی، محمدتقی، جامعہ و تاریخ از دیدگاہ قرآن. قم، دفتر نشر اسلامی،‌1375ش.11. مطہری، مرتضی، انسان کامل، تہران: صدرا، اوّل، 1367ش، الف.12. امدادہائے غیبی در زندگی بشر، تہران؛ صدرا، سوم 1367ش،ب.13. پانزدہ گفتار، تہران، صدرا، اوّل، 1380ش.14. تکامل اجتماعی انسان، بہ ضمیمہ ہدف زندگی و … . تہران، صدرا، ہفتم، 1372ش، الف.15. حق و باطل تہران، صدرا، سیزدہم، 1372ش ب.16. سیری در سیرہ ائمہ اطہار، تہران، صدرا، پنجم، 1369.17. سیری در سیرہ نبوی، تہران، صدرا، نہم، 1370.18. سیری در نہج‌البلاغہ، تہران، صدرا، نہم، 1372 ج.19. عدل الہے، تہران، صدرا، ہشتم، 1373 الف.20. فطرت، تہران، صدرا، چہارم، 1372 د.21. قیام و انقلاب مہدی از دیدگاہ فلسفہ تاریخ، تہران، صدرا، دوازدہم، 1371.22. مقدمہ‌ای بر جہان‌بینی اسلامی، ج5، جامعہ و تاریخ، تہران، صدرا، ہفتم، 1374.23. مقدمہ‌ای بر جہان‌بینی اسلامی، ج6، زندگی جاوید یا حیات اخروی، تہران، صدرا، ہشتم، 1373——-1۔ وَ َمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ — میں نے جن و انسان کو پیدا ہی نہیں کیا مگر صرف اور صرف عبادت اور بندگی کے لئے (تا کہ وہ بندگی اور عبودیت کے ذریعے ارتقائی منازل طے کرکے میری قربت حاصل کریں). (سوره ذاریات آیت 56)
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.