معصوم چھاردھم

169

صاحب العصر والزمان حضرت حجّت ُ منتظر عجلّ الله فرجہ
القاب و خطاباتغالباً ائمہ معصومین میں حضرت علی علیہ السّلام بن ابی طالب کے بعد سب سے زیادہ القاب ہمارے امام علیہ السّلام عصر کے ہیں جن میں زیادہ مشہور ذیل کے خطابات ہیں .
1. المہدی علیہ السّلامیہ ایک ایسا خطاب ہے جو نام کاقائم مقام بن گیا ہے اور پیشینگوئیاں جو اپ کے وجود کے متعلق پیغمبر اکرماور دیگر ائمہ معصومین علیہ السّلام کی زبان پر ائی ہیں وہ زیادہ تر اس لفظ کے ساتھ ہیں اسی لیے انے والے مہدی کا اقرار تقریباً ضروریاتِ اسلام میں داخل ہوگیا ہے جس میںاگر اختلاف ہوسکتا ہے تو اوصاف وحالات کے تعین میں لیکن اصل مہدی علیہ السّلام کے ظہو رکا عقیدہ مسلمانوں میں ہر شخص کو رکھنا لازمی ہے . ان حضرات کا ذکر نہیں جو اپنے کو مسلمان صرف سوسائٹی کے اثر یاسیاسی مصلحتوں سے کہتے ہیں مگر ان کے دل میں حاضر وناظر معدلت پسند رب الارباب کاعقیدہ ہی موجود نہیں تو اس کے رسول کی کسی بر غیبی کی تصدیق جو ابھی وقوع میں نہیں ائی ان کے حاشئہ خیال میں کہاں جگہ پاسکتی ہے ?مہدی علیہ السّلام کے لفظ »ہدایت ہائے ہوئے «کے ہیں , اسی لحاظ سے کہ »اصل ہادی راستہ بتانے والی ذات خالق ہے جس کے لحاظ سے خود پیغمبر سے خطاب کرکے قران کریم میں یہ ایت اتی ہے (انک لاتھدی من اجبت ولکن الله یھدی من یشائ ) تمہارے بس کی بات نہیں ہے کہ جس کو چاہو تم ہدایت کردو بلکہ الله جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے . اور اسی کے اعتبار سے سورئہ الحمد میں بارگاہ الٰہی میں دعا کی گئی ہے .اھدنا الصراط المستقیم ہم کو سیدھے راستے پر لگا دے . اس فقرہ کو خود پیغمبر اور ائمہ معصومین بھی اپنی زبان پر جاری کرتے تھے اس لیے خداوند ُ عالم کی ہدایت کے لحاظ سے ا ن رہنما یانِ دین کو مہدی علیہ السّلام کہناصحیح تھا جو صفت کے لحاظ سے سب ہی بزرگوار تھے اور خطاب کے لحاظ سے حضرت امام منتظر علیہ السّلام کے ساتھ مخصوص ہوگیا .
2 .القائمیہ لقب ان احادیث سے ماخوذ ہے جس میں جناب پیغمبر نے فرمایا ہے کہ »دنیا ختم نہیں ہوسکتی جب تک میری اولاد میںسے ایک شخص قائم ( کھڑا )نہ ہو جو دنیا کو عدل وانصاف سے بھردے .
3 .صاحب الزمان علیہ السّلاماس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اپ ہمارے زمانے کے رہنمائے حقیقی ہیں .
4 .حجتِ علیہ السّلام خداہرنبی علیہ السّلام اورامام علیہ السّلام اپنے دور میں خالق کی حجت ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے ہدایت کی ذمہ داری جو الله پر ہے وہ پوری ہوتی ہے اور بندوں کے پاس کوتاہیوں کے جواز کی کوئی سند نہیں رہتی . چونکہ ہمارے زمانے میں رہنمائی خلق کی ذمہ داری حضرت علیہ السّلام کے ذریعے سے پوری ہوئی ہے اس لیے قیامِ قیامت »حجت علیہ السّلام ُ خدا « اپ ہیں .
5 . منتظر علیہ السّلامچونکہ امام مہدی علیہ السّلام کے ظہور کی بشارتیں برابر رہنمایانِ دین دیتے رہے ہیں , یہاں تک کہ صرف مسلمانوں میں نہیں بلکہ دوسرے مذاہب میں بھی چاہے نام کوئی دوسرا ہو مگر ایک ا نے والے کا اخر زمانہ میں انتظار ہے .ولادت کے قبل سے پیدائش کاانتظار رہا اور اب غیبت کے بعد کو ظہور کاانتظار ہے ا س لیے اپ خود حضرت حکم الٰہی کے منتظر ہوتے ہوئے تمام خلق کے لیے منتظر یعنی مرکز انتظار ہیں .پشین گوئیاں اپ کے دنیا میںانے سے پہلے پشین گوئی متواتر طریقہ سے پیغمبراسلام اور ائمہ معصومین علیہ السّلام کی زبانوں پر اتی رہی تھی جن میں سے ہر معصوم علیہ السّلام کی صرف ایک خبر اس موقع پر درج کی جاتی ہے .
حضرت خاتم النبین محمد مصطفےٰحضرت کی زبان مبارک سے احادیث سے ا س کثرت سے اس موضوع پر وارد ہوئے ہیں کہ صحابی ومسانید ان سے معمور ہیںا ور اقتدار اور متعدد علمائے اہلسنت نے اُن کو مستقل تصانیف میں جمع کیا ہے جیسے حافظ محمد بن یوسف کنجی شافعی نے البیان فی اخبار صاحب الزمان میں حافظ ابو نعیم اصفہانی نے ذکر » لغت المہدی « اس کے علاوہ ابو داؤد سجستانی نے اپنے سنن میں جس کا صحاح ستہ میں شمارہوتا ہے کتاب»المہدی«کا مستقل عنوان قائم کیا ہے اس طرح ترمذی نے صحیح میں اور ابن ماجہ قزدینی نے اپنی کتاب »سنن«میں اور حاکم تے »مستدرک « میں بھی ان احادیث کو وارد کیا ہے.صرف ایک حدیث یہاں درج کی جاتی ہے جسے محمد بن ابراہیم حموی شافعی نے اپنی کتاب فرائد السمطین میں درج کی اہے , ابن عباس رض نے روایت کی حضرت رسول خدا نے فرمایا اناسیدالنبین وعلی سید الوصین وامااوصیائی بعدی اثناعشرا و لھم علی واخرھم المھدی .» میں انبیا کاسردار ہوں اور علی علیہ السّلام اوصیا کے سردار ہیں . میرے اوصیا (قائم مقام ) میرے بعد بارہ ہوں گے جن میں میں اوّل علی علیہ السّلام ہیں اور آخری »مہدی« ہوں گے ,, .حضرت سیدة النسائ فاطمہ اسلام الله علیہاکافی کلینی میں جابر بن اعبدالله انصاری کی روایت ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا علیہ السّلام کے پاس ایک لوح تھی جس میںتمام اوصیائ ائمہ کے نام درج تھے , جناب سیّدہ علیہ السّلام نے ا س لوح سے بارہ اماموں کے ناموں کی خبر دی جن میں تین محمد اور چار علی , ان کاا خری فرد اپ کی اولاد میں سے وہ ذات ہے جو قائم ہوگا .
حضرت امیرالمومنین علی علیہ السّلام بن ابی طالب علیہ السّلامجناب شیخ صدوق محمدرض بن علی بن بابویہ قمی نے » اکمال الدین,, میں امام رضا علیہ السّلام کی حدیث اپ کے ابائے طاہرین کے ذریعہ سے نقل کی ہے کہ جناب امیر علیہ السّلام نے ا پنے فرزند امام حسین علیہ السّلام کو مخاطب کرکے فرمایا . تیری نسل میںنواں وہ ہوگا جوحق کے ساتھ قائم , دین ظاہر ہونے والااور عدل وانصاف کاپھیلانے والاہوگا .
امام حسنِ مجتبیٰ علیہ السّلام(صدوق اکمال الدین) میرے بھائی حسین علیہ السّلام کی نسل سے نواں جب پیدا ہوگا تو خدا وند عالم اس کی عمر کو غیبت کی حالت میں طولانی کرے گا پھر جب وقت آئے گا تو اسے اپنی قدرت کاملہ سے ظاہر کرے گا توخداوند الله زمین کو موت کے بعد زندگی عطا کرے گا –
سید الشہدائ امام حسین علیہ السّلامنواں میری نسل سے وہ امام ہے جو حق کے ساتھ قائم ہو گا – جس کے ذریعے سے دینِ حق کو تمام مذاہب پر غلبہ حاصل ہوگا اس کی ایک طولانی غیبت ہوگی جس میں بہت سے گمراہ ہوجائیں گے جنھیں ایذائیں برداشت کرنا پڑیں گی اور ان سے لوگ کہیں گے کہ اگر سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہوگا . جب اس غیبت کے زمانہ میں اس اذیت اور انکار پر صبر کریں گے . انھیں رسول کے ہمراہ رکاب جہاد کرنے کاثواب حاصل ہوگا .
امام زین العابدین علیہ السّلامہم میں سے قائم وہ ہوگا جس کی ولادت لوگوں سے پوشیدہ رہے گی . یہاں تک کہ عام لوگ کہیں گے وہ پید اہی نہیں ہوا .
امام محمد باقر علیہ السّلام(کافی کلینی ) ْحسین علیہ السّلام کے بعد نو امام علیہ السّلام معینّ ہیں جن میں سے نواں امام قائم علیہ السّلام ہوگا .,,
امام جعفر صادق علیہ السّلامعلل الشرائع شیخ الصدوق رح میں روایت ہے کہ فرمایا حضرت علیہ السّلام نے کہ میرے موسی علیہ السّلام ٰ فرزند کی نسل سے پانچواں قائم ہوگا .
امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام(کمال الدین صدوق) کسی نے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے کہا کہ کیا اپ قائم بحق ہیں حضرت نے فرمایا حق کے ساتھ قائم وبرقرار تومیں بھی ہوں مگر اصل میں قائم وہ ہوگا جو زمیں کو دشمنان خدا سے پاک کردے گا اور اسے عدل وانصاف سے مملو کردے گا وہ میری اولاد میں سے پانچواں شخص ہوگا . ا س کی ایک طولانی غیبت ہوگی جس میں بہت سے مرتد ہوجائیں گے اور کچھ ثابت قدم رہیں گے .
امام رضاعلیہ السلامدعبل رض نے اپ کے سامنے جب اپنامشہور قصیدہ پڑھا اور اس میں ان دوشعروں تک پہنچے.
خروج الامام لامحالة قائمزمانہ میں ظہور ُ قائم الِ عبا علیہ السّلام ہوگایبین لناکل حق وباطلجہاں میںامتیازِ حق وباطل اکے کردے گایقوم علی اسم اللهوالبرکاتٌمد د سے جوخدا کے نام وبرکت کی کھڑا ہوگاویجزی علی النعمائ والنفماتوہ دے گا مومن وکافر کو ہر کردار کا بدلہیہ سنتے ہی امام رضا علیہ السّلام نے گریہ فرمایا اور پھر سر اٹھا کر کہا اے دعبل رض یہ شعر تمہاری زبان پر روح القدس نے جاری کرائے ہیں . تمھیں معلوم بھی ہے کہ یہ امام علیہ السّلام کون اور کب کھڑا ہوگا ? دعبل نے کہا یہ تفصیلات تو مجھے معلوم نہیں مگریہ سنتا ہوں کہ اپ میں ایک امام ایساہوگا جو زمین کو فساد سے پاک اور عدل وانصاف سے مملو کردے گا . حضرت علیہ السّلام نے فرمایا اے دعبل رض میرے بعد امام میرا فرزند محمد علیہ السّلام ہوگا . اور ا س کے بعد اس کا فرزند علی علیہ السّلام اور علی علیہ السّلام کے بعد اس کا بیٹا حسن علیہ السّلام اور حسن علیہ السّلام کے بعد اس کا بیٹا قائم ہوگا جس کی غیبت کے دور میں اس کاانتظار رہے گا اور ظہور کے موقع پر دنیا اس کے سامنے سر تسلیم خم کرے گی .
امام محمدتقی علیہ السّلامقائم ہم میں سے وہی مہدی ہوگا جو میری نسل میں تیسرا ہوگا .
امام علی نقی علیہ السّلاممیرا جانشین تو بعد میرے میرا فرزند حسن علیہ السّلام ہے مگر اس کے جانشین کے دور میں تمھارا کیا عالم ہوگا ? سننے والوں نے پوچھا کہ کیوں ? اس کا کیا مطلب ? فرمایا ا س کے کہ تمھیں اسے دیکھنے کا موقع نہ ملے گا . بعد ا س کے نام لینے کی اجازت نہ ہوگی , عرض کیا گیا پھر ان کا نام کس طرح لیا جائے گا ? فرمایا بس یوں کہنا کہ »الحجة من الِ محمد علیہ السّلام.,,
امام حسن عسکری علیہ السّلامحضرت علیہ السّلام سے دریافت کیا گیا کہ کیا اپ کے ابائے طاہرین علیہ السّلام نے فرمایا کہ زمین حجت خد اسے قیامت تک کبھی خالی نہیں ہوسکتی? اور جو مرجائے اور اپنے امام زمانہ کی معرفت اسے حاصل نہ ہوئی ہو وہ جاہلیت کی موت دنیا سے گیا. اپ نے فرمایا کہ بیشک یہ اسی طرح حق ہے جس طرح روز روشن حق ہوتا ہے . عرض کیا پھر حضور کے بعد حجت اور امام علیہ السّلام کون ہوگا ? فرمایا جو پیغمبر خدا کاہمنام ہے میرے بعد امام وحجت ہوگا . جو شخص بغیر ا س کی معرفت حاصل کئے ہوئے دنیا سے اٹھاوہ جاہلیت کی موت مرا . بیشک اس کی غیبت کا دور اتنا طولانی ہوگا جس میں جاہل لوگ حیران اور سرگرداں پھریں گے اور باطل پرست ہلاکت ُ ابدی میں گرفتار ہونگے . وقت مقرر کرکے پشین گوئیاں کرنے والے غلط گو ہونگے .ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ پیغمبراسلام کے وقت سے لے کر برابر ہر دور میںا س ذات کی خبر جاتی رہی تھی . جومہدی دین ہوگا . بلکہ دعبل کی روایت سے ظاہر ہے کہ یہ امر اتنا مشہور تھا کہ شعرائ تک اسے نظم کرتے تھے .ا س کے ساتھ تواریخ پر نظر کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوست ودشمن سب ان حدیثوں سے واقف تھے.یہاں تک کہ بسا اوقات ان سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے . چنانچہ سلسلہ عباسیہ میں سے محمد نام جس کا تھا اس نے اپنا لقب مہدی اسی لیے اختیار کیا اور نسل امام حسین علیہ السّلام علیہ السّلام سے عبدالله محض کے فرزند محمد کے متعلق بھی مہدی ہونے کا عقیدہ قائم کیا گیا اور کیسانیہ نے محمد بن حنفیہ کے معلق یہ خیال ظاہر کیا مگر ائمہ اہلبیت علیہ السّلام میں سے ایک معصوم ہستی کاسی وقت پر وجود خود ان خیالات کی رد کے لیے کافی تھا اور یہ حضرات ان غلط دعویداروں کے غلط بتانے کے ساتھ ساتھ اصل مہدی کے اوصاف اوراس کی غیبت کاتذکرہ برابر کرتے رہے اس سے یہ حقیقت صاف ظاہر ہوگئی کہ اصل مہدی کی تشریف اوری کا انتظار متفقہ طور پر موجود تھا . اس کے ساتھ پیغمبر کی وہ حدیثیں بھی متواتر صورت سے موجود تھیں کہ میری اولاد میں بارہ جانشین میرے ہوں گے تعداد خود ان غلط مدعیوں کے دعوے کے بطلان کے لیے کافی تھی لیکن اب امام حسن عسکری علیہ السّلام تک گیارہ کی تعداد ائمہ کی پوری ہوگئی تو دنیا بے چینی کے ساتھ اسی امام کی طلبگار ہوگئی جو اپنی پیدائش کے قبل بھی منتظر تھا اور پیدائش کے بعد بھی غیبت کی بناپر مصلحت الٰہی کے تقاضا تک منتظر رہنے والا تھا .
ولادتوہ وقت جس کا مصومین علیہ السّلام کو انتظار تھا اخر کو اہی گیا اور پندرہ شعبان 552 ھئ کی رات کو سامرے میں اس مبارک ومقدس بچے کی ولادت ہوئی . امام حسن علیہ السّلام عسکری علیہ السّلام نے اس موقع پر کافی مقدار میں روٹیاں اور گوشت راہ خدا میں صدقہ کرایا اور عقیقہ میںکئی بکروں کی قربانی فرمائی .
نشو نما و تربیتائمہ اہل بیت میں یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ان کو ظاہری حیثیت سے تعلیم وتربیت کاموقع حاصل نہ ہوسکا ہو اور وہ بچپن ہی میں قدرت کی طرف کے انتظام ُ خاص کے ساتھ کمالات کے جوہر سے اراستہ کرکے امامت کے درجہ پر فائز کر دیئے گئے ہوں اس کی نظریں حضرت»امامِ منتظر « کے پہلے بھی کئی سامنے اچکی تھیں جیسے اپ کے جد بزرگوار حضرت امام علی نقی علیہ السّلامجن کی عمر اپنے والد امام محمد تقی علیہ السّلام جن کی عمر اپنے والد امام رضا کے انتقال کے وقت اٹھ برس سے زیادہ نہ تھی . ظاہر ہے کہ یہ مدت عام افراد کے لحاظ سے بظاہر اسباب ُ نشوونما اور تعلیم وتربیت کے لیے ناکافی ہے مگر جب خالق کی مخصوص عطا کو ان حضرات کے بارے میں تسلیم کرلیا تو اب سات اور چھ اور پانچ برس کے فرق کا بھی کوئی سوال باقی نہیںرہ سکتا . اگر سات برس کے سن میں امامت کامنصب حاصل ہوسکتا ہے اور چھ برس کے سن میں حاصل ہوسکتا ہے جس کی نظیریں قبل کے اماموں کے یہاں دنیا کی انکھوںکے سامنے اچکی تو پانچ یاچار برس میں بھی یہ منصب اسی طرح حاصل ہوسکتا ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیںہے .بارھویں امام کو اپنے والد کی اغوش ُ شفقت وتربیت سے بہت کم عمر میں جدا ہونا پڑا یعنی پندرہ شعبان 552ھئ میں اپ کی ولادت ہوئی اور ربیع الاوّل 062ھئ میں اپ کے والد بزرگوار حضرت حسن عسکری علیہ السّلام کی وفات ہوگئی . اس کے معنٰی یہ ہیں کہ اپ کی عمر اس وقت صرف ساڑھے چاربرس کی تھی اور اسی کمسنی میں اپ کے سرپر خالق کی طرف سے امامت کا تاج رکھ دیا گیا .
حکومت ُ وقت کاتجسسّبالکل اسی طرح جیسے فرعون مصر نے یہ پشین گوئی سن لی تھی کہ بنی اسرائیل میںپیدا ہونے والابچہ میرے ملک کی تباہی کا باعث ہوگا تو اس نے اس کی کوشش صرف کردیں کہ کسی طرح وہ بچہ پیدا ہی نہ ہونے پائے اور پیدا ہو تو زندہ نہ رہنے پائے اسی طرح متواتر احادیث کی بنا پر عباسی سلطنت کے فرمانروا کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ حسن عسکری علیہ السّلام کے یہاں اس مولود کی پیدائش ہوگی جس کے ذریعے باطل حکومتیں تباہ ہوجائیں گی تو اس کی طرف سے انتہائی شدت کے ساتھ انتظاما ت کیے گئے کہ ا یک ایسے مولود کی پیدائش کا مکان باقی نہ رہے اسی لیے امام حسن عسکری علیہ السّلام کو مسلسل قیدوبند میں رکھا گیا مگر قدرت الٰہی کے سامنے کوئی بڑی سے بڑی مادی قوت بھی کامیاب نہیںہوسکتی .جس طرح فرعون کی تمام کوششوں کے باوجود موسیٰ علیہ السّلام پیدا ہوئے اسی طرح سلطنت عباسیہ کے تمام انتظامات کے باوجود»امام منتظر علیہ السّلام « کی ولادت ہوئی مگر یہ قدرت کی طرف کا انتظام تھا کہ اپ کی پیدائش کو صیغئہ راز میں رکھا گیا اور جسے قدرت اپنا راز بنائے اس کے افشائ پر کون قادر ہوسکتا ہے ? بیشک ذرا دیر کے لیے خوداس کی مصلحت ا س کی متقاضی ہوئی کہ راز پر سے پردہ ہٹایا جائے . جب امام حسن عسکری علیہ السّلام کاجنازہ غسل وکفن کے بعد نماز ُ جنازہ کے لیے رکھا ہوا تھا . شعیانِ خاص کامجمع تھا اور نماز کے لیے صفیں بندھ چکی تھیں , امام حسن عسکری علیہ السّلام کے بھائی جعفر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے اگے بڑھ چکے تھے اور تکبیر کہنا چاہتے تھے کہ ایک دفعہ حرم سرائے امامت سے ایک کم سن بچہ برامد ہو اور بڑھتا ہواصفوں کے اگے پہنچا اور جعفر کی عبا کو ہاتھ میں لے کر کہا »چچا ! پیچھے ہٹئیے . اپنے باپ کی نماز جنازہ پڑھانے کا حق مجھے زیادہ ہے .,, جعفر بے ساختہ پیچھے ہٹے اور صاحبزادے نے اگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھائی . پھر صاحبزادہ حرم سرا میں واپس گیا . غیر ممکن تھا کہ یہ خبر خلیفہ کو نہ پہنچی اور اب زیادہ شدت وقوت کے ساتھ تلاش شروع ہوگئی کہ ان صاحبزادہ کو گرفتار کرے کے قید کردیا جائے اور ان کی زندگی کاخاتمہ کیا جائے .
غیبتحضرت امام منتظر علیہ السّلامکی امامت کازمانہ اب تک دو غیبتوں میں تقسیم رہا . ایک زمانہ »غیبت صغریٰ « اور ایک غیبتِ کبریٰ « اس کی بھی خبر معصومین علیہ السّلام کی زبان پر پہلے اچکی تھی جیسے پیغمبر خدا کاارشاد »اس کے لیے ایک غیبت ہوگی جس میں بہت سی جماعتیں گمراہ پھرتی رہیں گی ,, اور اس کی غیبت کے زمانہ میں اس کے اعتقاد پر برقرار رہنے والے ,, گو گرد سرخ « سے زیادہ نایاب ہوں گے .حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کا ارشاد ہے. قائم ال محمد کے لیے ایک طولانی غیبت ہوگی , میری انکھوں کے سامنے پھر رہا ہے وہ منظر کہ دوستانِ اہلبیت علیہ السّلام ا س کی غیبت کے زمانے میں سرگرداں پھر رہے ہیں جس طرح جانور چارہ گاہ کی تلاش میں سرگرداں پھرتے ہیں .دوسری حدیث میں اس کا ظہور ایک اسی غیبت اور حیرانی کے بعد ہوگا جس میں اپنے دین پرصرف بااخلاص اصحاب یقین ہی قائم رہ سکیں گے . امام حسن علیہ السّلام کا قول »الله اس کی عمر کو اس کی غیبت کی حالت میں طولانی کرے گا ,, امام حسین علیہ السّلام کاارشاد»اس کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ بہت سے گمراہ ہوجائیںگے ,, امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا .»مہدی ساتویں امام کی اولاد میںسے پانچواں ہوگا . ا س کی ہستی تمھاری نظروں سے غائب رہے گی .,, دوسری حدیث میں صاحب الامر کے لیے ایک غیبت ہونے والی ہے . اس وقت ہر شخص کو لازم ہے کہ تقویٰ اختیار کرے اور اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہے .,, امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام فرماتے ہیں »ا س کی صورت لوگوں کی نگاہوں سے غائب ہوگی مگر اس کی یاد اہل ایمان کے دلوں سے غائب نہ ہوگی , وہ ہمارے سلسلے کا بارہواں ہوگا .,, امام رضا علیہ السّلام ا س کی غیبت کے زمانہ میں اس کا انتظار رہے گا .,, امام محمد تقی مہدی وہ ہے جس کی غیبت کے زمانہ میں اس کاانتظار اور ظہور کے وقت اس کی اطاعت لازم ہو گی امام علی نقی صاحب الامروہ ہوگا جس کے متعلق بہت سے لوگ کہتے ہوں گے , وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا .«امام حسن عسکری علیہ السّلام .»میرے فرزند کی غیبت ایسی ہوگی کہ سوائے ان لوگوں ے جنھیں الله محفوظ رکھے سب شک وشبہ میں مبتلا ہوجائیں گے .,, اسی کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السّلام نے بھی یہ بتا دیا تھا کہ »قائم الِ محمد کے لیے وہ غیبتیں ہیں . ایک بہت طولانی اور ایک اس کی بہ نسبت مختصر .,, امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ» ایک دوسرے کی بہ نسبت طولانی ہوگی .,, ان ہی احادیث کے پہلے سے موجود ہونے کا نتیجہ تھا کہ امام حسن عسکری علیہ السّلام کے بعد ان کے اصحاب اور مومنین مخلصین کسی شک وشبہ میں مبتلا نہیں ہوئے اور انھوں نے کسی حاضر الوقت مدعی امامت کو تسلیم کرنے کے بجائے اس »امام غائب علیہ السّلام کے تصور کے سامنے سرتصدیق خم کردئے .
غیبت ُ صغریٰپہلی غیبت کا دور 062ھئ سے 913ھئ تک انہتر سال قائم رہا . اس میں سفرائ خاص موجود تھے یعنی ایسے حضرات جو کو مخصوص طور پر نام متعین کے ساتھ امام علیہ السّلام کی جانب سے نائب بتایا گیا تھا کہ شیعوں کے مسائل امام علیہ السّلام تک پہنچائیں . ان کے جوابات حاصل کریں اموال زکوٰة وخمس کو جمع کرکے انھیں مصارف خاصہ میں صرف کریں او جو قابل اعتماد اشخاص ہوں ان تک خود امام علیہ السّلام کی تحرکات کو بھی پہنچادیں ورنہ خودحضرت علیہ السّلام سے دریافت کرکے ان کے مسائل کا جواب دے دیں . یہ حضرات علم وتقویٰ اور رازداری میںاپنے زمانے کے سب سے زیادہ ممتاز اشخاص تھے اس لیے ان کو امام علیہ السّلام کی جانب سے اس خدمت کا اہل سمجھا جاتا تھا , یہ حسبِ ذیل چار بزرگوار تھے .1 . ابو عمر عثمان بن سعید عمر عمری اسدیرض یہ پہلے امام علی نقی علیہ السّلام کے بھی سفیر رہے تھے پھر امام حسن عسکری علیہ السّلام کے زمانے میں بھی اس خدمت پر مامور رہے اور پھر حضرت»امام منتظر علیہ السّلامکی جانب سے بھی سب سے پہلے اسی عہدہ پر یہی قائم رہے . چند سال ا سی خدمت کو انجام دے کر بغدادمیں انتقال کیا وہیں دفن ہوئے .2 . ان کے فرزند ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعیدرض عمری امام حسن عسکری علیہ السّلام نے ان کے منصب سفارت پر برقرار ہونے کی خبر دی . پھر ان کے والد نے اپنے وفات کے وقت بحکم امام علیہ السّلام ان کی نیابت کا اعلان کیا , جمادی الاوّل 503ھئ میں بغداد میں وفات پائی ..3 ابو القاسم حسین بن روح بن ابھی بحررض نوبختی . علم وحکمت کلام ونجوم میں خاص امتیاز رکھتے ہوئے مشہور خاندان نوبختی کی یاد گار اورخود بڑے جلیل المرتبت پرہیز گار عالم تھے . ابو جعفر محمد بن رض عثمان نے اپنی وفات کے بعد امام علیہ السّلام کے حکم سے ان کو اپنا قائم مقام بنایا .پندرہ برس کی عہدئہ سفارت انجام دینے کے بعد شعبان 023ھئ میں ان کی وفات ہوئی4 . ابو الحسن علی بن محمد سمریرض . یہ اخری نائب تھے . حسین بن روحرض کے بعد بحکم امام علیہ السّلام ان کے قائم مقام ہوئے اور صرف نو برس اس فریضہ کو انجام دینے کے بعد 51شعبان923ھئ میں بغداد میں انتقال کیا . وقت ُ اخر جب ان سے پوچھا گیا کہ اپ کے بعد نائب کون ہوگا تو انھوں نے کہہ دیا کہ اب الله کی مشیت ایک دوسری صورت کاارادہ رکھتی ہے جس کی اخری مدت اسی کو معلوم ہے .اب اس کے بعد کوئی نائب ُ خاص باقی نہ رہا . اسی 923ھئ کے اندوہناک سال میں کافی کے مصنف ثقة الاسلام محمد بن یعقوب کلینیرح اور شیخ صدوق رح کے والد بزرگوار علی بن بابویہ قمیرح نے بھی انتقال فرمایا تھااور ان حوادث کے ساتھ غیرمعمولی طور پر یہ منظر دیکھنے میں ایا کہ اسمان پر ستارے اس کثرت سے ٹوٹ رہے ہیںکہ ا یک محشر معلوم ہوتا ہے اس لیے اس کا نام رکھ دیا گیا »عام ثناالنجوم« یعنی ستاروںکے انتشار کا بد سال .اس کے بعد اندھیرا چھا گیا .سخت اندھیرچھا گیا.سخت اندھیرا, یہ اس لئے کہ کوئی ایسا شخص سامنے نہ رہا جو امام علیہ السّلام کی خدمت میں پہنچنے کاوسیلہ ہو.
غیبتِ کبریٰ923ھئکے بعد سے »غیبت کبریٰ« کہتے ہیں . اس لیے کہ اب کوئی خاص نائب بھی باقی نہیں رہا ہے . اس دور کے لیے خود حضرت»امام عصر علیہ السّلام,,نے یہ ہدایت فرمادی تھی کہ »اس صورت میں دیکھنا جو لوگ ہمارے احادیث پر مطلع ہوں اور ہمارے حلال وحرام یعنی مسائل سے واقف ہوں ان کی طرف رجوع کرنا .یہ ہماری جانب سے تمہارے اوپر حجت ہیں ,, اس حدیث کی بنا پر علمائے شیعہ اورمجتہدین کو نائب امام « کہا جاتا ہے مگر یہ نیابت باعتبار صافات عمومی حیثیت سے ہے . خصوصی طور پر باعتبار نامزدگی نہیںہے . یہی خاص فرق ہے ان میں اور نائبین میں جو »غیبت صغریٰ« کے زمانہ میں اس منصب پر فائز تھے . اس زمانہ میں بھی یقیناً امام علیہ السّلام ہدایت خلق اورحفاظت حق کافریضہ انجام دیتے ہیں اور ہماری کسی نہ کسی صورت سے رہنمائی فرماتے ہیں خواہ وہ ہمارے سامنے نہ ہوں اور ہمیں محسوس ومعلوم نہ ہو. یہ پردہ اس وقت تک رہے گا جب تک مصلحت ُالٰہی متقاضی ہو . اور ایک وقت ایسا جلد ائے گا (خواہ وہ جلد ہمیں کتنی ہی دور معلوم ہوتا ہو) یہ پردہ ہٹے گا اور امام علیہ السلام ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل وانصاف سے معمور فرمائیں گے . اسی طرح وہ اس کے پہلے ظلم وجور سے مملوہوچکی ہوگی .
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.