فلسفہ انتظار اور عصرِ غیبت

177

فلسفہ انتظار اور عصرِ غیبتاس وقت تک غیبت امام کو تقریباً بارہ سو سال گزر چکے ہیں۔ اس مدت میں مسلمانوں کی کئی نسلیں گزری ہیں جب کہ ائمہ کے حضور کا زمانہ ڈھائی سوسال بنتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ڈھائی سو سال میں رہنے والے لوگ عدد میں بھی بہت کم تھے، اس وقت ویسے بھی آبادی بہت کم تھی اور مسلمانوں کی آبادی بہت ہی کم تھی تواتنی کم آبادی کو خداوند تبارک وتعالیٰ نے کتنے ہادی عطا کئے؟ جیسے وجودِ نورانی حضور اکرم ۖ ، وجودِ نورانی ٔ حضرت علی (ع) وجودِ نورانی ٔ حضرت امام حسن (ع) حضرت سیدہ تا آخر ، تمام ائمہ ہدیٰ کے نور سے ان لوگوں کو منور کیا اور ان کے اندر متواتر ایک حجت کے بعد دوسری حجت بغیر کسی وقفے کے ﷲ تعالیٰ نے فراہم کی اور ان لوگوں نے انہیں مانا بھی نہیں ۔ اکثر ائمہ ہدیٰ کی زندگی گوشہ نشینی اورتقیہ کی حالت میں بسر ہوئی ہے۔ کسی حجت خدا کو نہ حکومت قائم کرنے کا حق دیا گیا ہے نہ ان کے پیروکاراس تعداد میں بنے ہیں ۔ ائمہ کی زندگی یا قید خانوں جیلوں میں گزر گئی ہے یا پابندیوں میں گزر گئی ہے، یا میدانِ جنگ میں گزر گئی ہے اور سب کے سب شہید بھی ہوگئے۔اور آج جب کہ پیروکار بھی زیادہ ہیں، ماننے والے بھی زیاد ہ ہیں اور نسل بعد از نسل تڑپ بھی زیادہ ہے، خواہش بھی زیادہ ہے، آج ان کی اتنی ضرورت محسوس ہورہی ہے تو حجت موجود نہیں ہے بارہ سو سال سے محروم ہیں کتنے لوگ محروم آئے اور چلے بھی گئے ہیں ۔دوسری طرف سے خود ائمہ معصومین(ع) کی طرف سے تاکید ہے کہ جو بھی ظہور کا وقت معین کرے گا کہ فلاں دن فلاں وقت پہ ظہور ہوگا وہ کذَّاب ہے بلکہ بعض روایات میں اسے ملعون کہا گیا ہے، خود حضر ت حجت (ع) نے اسے کذَّاب کہا ہے کیونکہ یہ سرّ الٰہی اور راز خدا ہے ۔ خدا اپنے راز سے خود بہتر آشنا ہے کہ کب ظہور ہوگا ؟ کیسے ظہور ہوگا؟ کب مصلحت خدا کا تقاضا ہے کہ ظہو ر ہو؟ یہ رازِ خدا ہے اس کو رازِ خدا ہی رہنے دو، اس کے بارے میں کوئی حدس و گمان سے کام نہ لے ۔ خود معصوم نے فرمایا ہے کہ یہ جائز نہیں ہے اور فرمایاکہ آپ ظہور کا وقت معین نہ کریں لیکن ظہور کے لئے دعا ضرور کریں ، و ظہور کی خواہش ضرور کریں لیکن مصلحت خدا ہمیں معلوم نہیں ہے کتنے ہزار سال یا کتنے سو سال اور گزریں گے اور اس صورت میں کتنی نسلیں آئیں گی اور آکر گزر جائیں گی اور امام غیب تک ان کی دسترس نہیں ہوگی اور جو لوگ ظہور کے زمانے میں ہوں گے وہ عہدِ حضرت حجت ـ کو درک کر یں گے ، ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے ۔ جو لوگ ائمہ کی زندگی میں موجودتھے ان کے لئے بھی کوئی مشکل نہیں تھی لیکن یہ جو کئی نسلیں گزر رہی ہیں جن میں سے ایک نسل ہم ہیں، محروم ہیں ۔ ہمارا کیا گناہ ہے؟ ہم وجودِ حجت سے کیوں محروم ہیں؟ ایک بڑی تعداد ماننے والوں کی محروم ہے یا جونسلیں آئی ہیں اور مر گئی ہیں ان کو اس ظہور کا کیا فائدہ ملے گا ؟ ظہور کا فائدہ تو ان کو ہوگا جو امام کے زمانے میں زندہ ہوں گے ہم تو زندہ نہیں ہوںگے یا آج اگر ظہورہوجائے تو گزشتہ ہمارے آباء و اجداد اور ہمارے اسلاف تو ظہور کی نعمت سے محروم رہ گئے، جب کہ خدا کی ذات عادل ہے خدا نے کہا ہے کہ میں کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتا خدا کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے، نا انصافی نہیں کرتا ہے، تو کیا یہ عدلِ الٰہی کے ساتھ سازگار ہے؟ پس حقیقت کیا ہے؟ائمہ معصومین(ع) نے انتظار کا ایسا فلسفہ بیان کیا ہے اور ایسی فضیلت بیان کی کہ جو لوگ عصرِ ائمہ میں موجود تھے ان کی خواہش بھی یہ تھی کہ اے کاش ہم بھی عصر غیبت میں ہوتے اور عصر منتظرین میں سے ہوتے، یہ آرزو لے کر وہ ائمہ ہدیٰ کی خدمت میں آتے تھے وہاں پر امام (ع) نے انتظار کا یہ فلسفہ بیان کیا۔فلسفہ انتظار کلام معصومین(ع) میں اصول کافی ، جلد اول ، صفحہ ٣٧١ ، کتاب حجت، باب ( انّہ من عرف امامہ لم یضرّہ تقدم ھذا الامر او تأخّر) ہے ۔احادیث کا شانِ نزولِ یہ ہے کہ ائمہ ہدیٰ (ع) نے انتظار کی اتنی فضیلت بیان کی اور حضرت حجت ـ کے اتنے فضائل بیان کئے کہ وہ لوگ جو ائمہ (ع) کے صحابہ تھے ان کومنتظر ین پر رشک آنے لگا انہوں نے ائمہ (ع) کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ مولا کیاہم بھی وہ زمانہ پالیں گے؟ جب حضرت حجت ـ ظہور فرمائیں گے اور ہم منتظرین کے طور پر ان کا استقبال کریں گے آیا یہ سعادت ہمیں نصیب ہوگی یا نہیں ہوگی ؟ امام حجت (ع) موجود ہیں ان کی موجودگی میں خود حجتِ خدا (ع)سے پوچھ رہے ہیں کہ جب یہ آخری حجت الٰہی (ع) تشریف لائیں گے تو آیا ہمیں یہ سعادت نصیب ہوگی یا نصیب نہیں ہوگی ؟ ہم منتظرین میں سے ہو سکتے ہیں یا منتظرین میں سے نہیں ہو سکتے؟ یہ سوال حضرت امام جعفر صادق (ع) اور حضرت امام باقر علیہ السلام سے کیا گیا تھا ۔ اب آپ عصر امام صادق (ع) دیکھیں اور عصر غیبت دیکھیں یعنی حضرت حجت (ع) کی پیدائش سے ایک سو پچاس سال پہلے ایک شخص آکر سوال کرتا ہے کہ آیا میں حضرت حجت(ع) کے منتظرین میں سے ہوں گا یا نہیں ؟ حضرت (ع) نے فرمایا کہ ہمارے زمانے میں ہی تمہاری وفات ہوگی لیکن تم اس کے باوجود منتظرین حضرت حجت (ع) میں سے ہو سکتے ہو۔زمانہ غیبت و عملی انتظاروہ انتظار جو امام(ع) بیان فرما رہے ہیں وہ یہ ہے کہ غیبت یعنی امام تک پہنچنے کی راہ میں حائل زمانی اور مکانی فاصلے کو عصرِ غیبت کہتے ہیں اور اگر زمانی فاصلے اور یہ مکانی دوریاں سمیٹ لی جائیں تواس کو انتظار کہتے ہیں ۔ زمانی اور مکانی فاصلوں کو سمیٹ کر حجت خدا کے حضور میں پہنچنے کو انتظار کہتے ہیں پس غیبت کا مداوا انتظار ہے ۔ غیبت زمانی اورمکانی دوری کا نام ہے ۔ انتظار اس زمانی و مکانی دوری کو قرب میں تبدیل کرنے کا نام ہے ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاہے یہ کام زمانہ غیبت میں ہو یا زمان ظہور میں۔فلسفہ انتظار اور فریضہ منتظرین امام صادق (ع) سے انتظار کے بارے میں اس وقت سوال کیا گیا جب حضرت حجت (ع) پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہم کیسے منتظرین میں شامل ہوں ؟وہی دستور جوامام صادق (ع) نے اس شخص کے سوال کے جواب میں بیان کیا ہے، وہ ہمارے لئے بھی ہے ۔ حدیث یہ ہے :’ علی ابن ابراہیم عن ابیہ عن حماد ابن عیسیٰ عن حریز عن ز رارہ ‘سارے راوی جلیل القدر ، پاک، صاف اور منزہ لوگ ہیں ، انہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے ۔’ قال ابو عبد اﷲ علیہ السّلام : اعرف امامک ، فانّک اذا عرفت لم یضرّک ، تقدّم ہذا الأمر أو تأخّر ‘اپنی امام کو پہچانوجب تم اپنے امام کو پہچان لو گے اس وقت تمہارے لئے ظہور کے تقدم یا تأخر کا کوئی فرق نہیں ہو گاابوعبد اﷲ امام صادق ـ کی کنیت ہے کہ حضرت امام صادق ـ یوں ارشادفرماتے ہیں :’ اعرف امامک … ‘اپنے امام کو پہچانو …’ فانّک اذا عرفت … ‘اگر تو نے اپنے امام کو پہچان لیا …’ لم یضرّک تقدّم ھٰذاالامر او تاخّر … ‘پھر تیرے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ظہور پہلے ہو یا ظہور بعد میں ہو ۔ اگر تجھے اپنے امام (ع) کی معرفت ہے تو ظہور کی تاخیر ایسے ہی ہے جیسے ظہور تمہارے زمانے میں ہوا ہے۔دوسری حدیث میں بھی تقریباً مضمون اسی قسم کا ہے، اس میں یوں ہے کہ:’ سألت ابا عبد اﷲ عن قول اﷲ تبارک وتعالیٰ ‘یوم ندعو کلّ اناس بامامہم ‘ فقال : یا فضیل اعرف امامک ، فانّک اذا عرفت امامک لم یضرّک ، تقدّم ھذا الأمر أو تأخّر ، و من عرف امامہ ثمّ مات قبل أن یقوم صاحب ھذا الأمر ، کان بمنزلة من کان قاعداً فی عسکرہ ، لا بل بمنزلة من قعد تحت لوائہ ، قال : و قال بعض أصحابہ : بمنزلة استشہد مع رسول اللّہ ۖ ‘فضیل ابن یسار کہتے ہیں : میں نے حضرت امام جعفر صادق (ع) سے اللہ تبارک و تعالی کے اس قول کے بارے میں پوچھا کہ : ‘ قیامت کے دن ہم ہر انسان کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے ‘ تو امام ـ نے فرمایا : اے فضیل اپنے امام کو پہچانو جب تم اپنے امام کو پہچان لو گے تو پھر ظہور کی تعجیل اور تأخیر میں تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے صاحب الأمر کے ظہور سے قبل جو شخص بھی مرنے سے پہلے اپنے امام کو پہچان لے وہ امام کے لشکر میں بیٹھے ہوئے شخص کی طرح ہے ۔ نہ ، بلکہ وہ امام کے پرچم کے نیچے بیٹھا ہوا ہے اور بعض راویوں نے یہ نقل کیا ہے کہ : ‘ امام (ع) فرمایا ‘ بلکہ اس وہ شخص کی طرح ہے جو رسول اللہ ۖ کی معیت میں شہید ہوا ہے ۔اصحاب حضرت امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں جاکر عرض کرتے ہیں قرآن کی اس آیت کے بارے میں کہ جس میں خداوند تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس دن ہم ہر آدمی کوا پنے امام کے ساتھ اٹھائیں گے ، اس سے کیا مراد ہے؟ راوی کی خواہش کیا تھی ؟ حضرت امام صادق ـ کے زمانے کا راوی جس کو پتہ ہے کہ یہ امام ہیں، امام کی موجودگی میں امام پر عقیدہ و یقین ہے لیکن اس کے باوجود امام ـ سے پوچھ رہا ہے کہ اس آیت کے معنی کیا ہیں ؟ کہ ہم قیامت میں ہر آدمی کو اپنے امام کے ساتھ اٹھائیں گے ۔ امام (ع) یوں جواب دیتے ہیں:’ فقال یا فضیل اعرف امامک … ‘امام ـ نے فرمایا : اے فضیل اپنے امام کو پہچان ، فضیل سامنے بیٹھا ہوا ہے سوال کر رہا ہے اور امام صادق(ع) کہہ رہے ہیں کہ اپنے امام کو پہچان ،’ فانّک اذا عرفت امامک لم یضرّک تقدّم ھٰذالامر او تاخّر … ‘کہ پھر تیرے لئے مضر نہیں ہے یعنی تیرے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ظہور جلدی ہو یا دیر سے ہو ، تجھے اپنے امام کی پہچان ہونی چاہیے۔فضیل امام (ع) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ کے صحابی تھے اور امام کی امامت پر اعتقاد تھا لیکن فضیل کا جی یہ چاہتا تھا کہ اس کا حضرت حجت (ع) کے ساتھ شمار ہو ،با وجود اس کے کہ امام صادق (ع) بھی امام تھے اور حجت خداہونے کے لحاظ سے ائمہ (ع) میں کوئی فرق نہیں ہے ، سب حجتِ خدا ہیں، سب برگزیدگانِ خدا ہیں ،سب معصوم ہیں اور سب اولیاء ﷲ ہیں، لیکن فضیل اس کے باوجود خواہش کرتے ہیں کہ حضرت حجت (ع) کے ساتھ محشو ر ہوں ، فضیل کے زمانے میں تو حضرت حجت (ع) ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ، ولادت بھی نہیں ہوئی تھی ، پھر کس نے فضیل کو اتنا راغب کر دیا ؟ خود امام صادق (ع) نے حضرت حجت ـ کے اتنے فضائل بتائے کہ فضیل بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے ک امام صادق (ع) جس شخصیت کو اتنا بڑھا کر بیان کر رہے ہیں تو پھر مجھے اس شخصیت کی معیت میں ہونا چاہئے ۔ امام (ع) یوں فرماتے ہیں کہ: ‘ ومن عرف امامہ ثمّ مات قبل عن یقوم صاحب ھٰذالامر … ‘اگر تم نے اپنے امام(ع) کو پہچان لیا اور پھر تجھے موت آجائے ،اس سے پہلے کہ امام ظہور فرمائیں’ کان بمنزلة من کان قاعداً فی عسکرہ ‘جو شخص اپنے امام کی معرفت پیدا کر لے اور اس معرفت پر اس کو موت آجائے اگرچہ اس موت کے زمانے میں ظہور نہ بھی ہوا ہو تو یہ شخص ایسے ہی ہے جیسے سپاہِ امام زمان (ع) میں شامل ہے ۔اور امام (ع) فرماتے ہیں کہ سپاہ میں ہونا کوئی بڑی فضیلت نہیں ہے ، بلکہ امام ـ کی معرفت حاصل کر کے مرنا فضیلت ہے ۔’ لا بل بمنزلة من قعد تحت لوائہ … ‘بلکہ یہ شخص جو انتظار کے ایام میں حضرت(ع) کے ظہور سے پہلے مرگیا ہے لیکن اس کے دل میں معرفتِ امام ہے یہ اس شخص کی طرح ہے جو امام زمانہ (ع) کی سپاہ میں ہے نہ صرف سپاہ میں ہے ، بلکہ امام زمانہ (ع) کے پرچم کے نیچے ہے ۔چونکہ سپاہ جب منتشر اور پراگندہ ہو جاتی ہے توپرچم کے نیچے بہت خاص لوگ رہ جاتے ہیں ۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یہ امام (ع) کے پرچم کے نیچے ہوگا ۔’ قال : و قال بعض اصحابہ : ‘بعض اصحاب کا یہ کہنا ہے کہ امام ـ نے ایک اور جملہ بھی بیچ میں فرمایا تھا اور وہ جملہ اس طرح تھا: ‘ بمنزلة من استشہد مع رسول اﷲ … ‘بلکہ یہ اس کی طرح ہے جو رسول اﷲ ۖ کی معیت میں شہید ہوا ہے، یہ اس کی طرح ہے جوجنگِ بدر میں یاجنگِ احد میں شہید ہوا ہے ، اس کے لئے شہدائے بدر کا مقام ہے، اگر وہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ مرجائے ؟ لیکن شر ط اس کی یہ ہے کہ اپنے امام ـ کی معرفت رکھتا ہو۔اس کے بعد کی حدیث جناب ابوبصیر سے ہے:’ عن ابی بصیر قال : قلت لأبی عبد اللّہ ـ : جعلت فداک متی الفرج : فقال : یا أبا بصیر و أنت ممّن یرید الدنیا ؟ من عرف ھذا الأمر فقد فرّج عنہ لانتظارہ ‘ابو بصیر کہتے ہیں : ‘ میں نے حضرت امام جعفر صادق ـ کی خدمت میں عرض کیا میں آپ پر قربان ہو جاؤں فرج یعنی گرہ کشائی ( ظہور)کب ہو گی ؟ امام (ع) نے فرمایا : اے ابا بصیر کیا تم دنیا کے چاہنے والوں میں سے ہو ؟ جو بھی اس امر کو پہچان لے تو انتظار کرنے کی بنا پر اس کے لئے فرج حاصل ہو چکی ہے ۔’حدیث دیگر میں ہے :’ سأل ابو بصیر ابا عبد اﷲ ـ وانا اسمع ، فقال : ترانی أدرک القائم ـ ؟ فقال : یا أبا بصیر ألست تعرف امامک ؟ فقال : ای و اللّہ و أنت ہو ۔ و تناول یدہ ۔ فقال : و اللّہ ما تبالی یا أبا بصیر ألّا تکون محتبیاً بسیفک فی ظلّ رواق القائم صلوات اللّہ علیہ ‘راوی کہتا ہے کہ ابو بصیر امام صادق(ع) سے سوال کر رہے تھے اورمیں بھی پاس بیٹھا ہوا تھا ابو بصیر نے یوں سوال کیا: ‘ فقال ترانی ادرک القائم علیہ السلام ؟ ‘ابوبصیر ،مولا (ع) سے یہ پوچھتے ہیںکہ آپ کی کیا رائے ہے ،کیا میں بھی اس وجود ِمبارک ِ حضرت قائم (عج) کو درک کر سکوںگا اور ان کی زیارت کر سکوں گا ۔’ فقال : یا ابا بصیر … ‘امام (ع) نے جواب میں فرمایا کہ ‘اے ابوبصیر!’ الست تعرف امامک ؟ ‘کیا تو اپنے امام (ع) کو نہیں پہچانتا … ؟’ فقال ای واﷲ … ‘ابو بصیر نے کہا کہ خدا کی قسم پہچانتا ہوں …’ وانت ھووتناول یدہ … ‘اور نہ صرف پہچانتا ہوں بلکہ یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کون ہیں ؟ وہ آپ ہیں اور اس کے بعد ابو بصیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا امام ـ کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر کہا کہ خدا کی قسم وہ امام آپ ہیں ،، ‘ فقال: واﷲ ماتبالی یا ابا بصیر ا لّا تکون محتبیاًً بسیفک فی ظل رواق القائم صلواة اﷲ علیہ ‘امام (ع) نے فرمایا : اے ابو بصیر اگرچہ تم ابھی حضرت ـ کے لشکر میں نہ بھی ہو اور تلوار نہ بھی چلا سکو لیکن اس کے باوجود تجھے پرواہ نہیں ہونی چاہیے تو ایسے ہی ہے جیسے حضرت قائم ـ کے لشکرمیں موجود ہے ۔ایک اور حدیث میں اس طرح ہے کہ: ‘عن ابی جعفر ـ قال:ماضرّمن مات منتظراً لأمرنا ألّا یموت فی وسط فسطاط المہدیّ و عسکرہ ‘حضرت امام باقر (ع) فرماتے ہیں : جو ہمارے امر کی انتظار کی حالت میں مرے وہ حضرت مہدی (ع) کی فوج اور خیمے کے در میان نہ بھی مرا ہو تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہےجوحالتِ انتظار میں مر جائے اس کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ ظہور سے پہلے اس دنیا سے اٹھ جائے’ عن فضیل ابن یسار قال : سمعت أبا جعفر(ع) یقول : من مات و لیس لہ امام فمیتتہ میتةجاہلیة ، و من مات و ہو عارف لامامہ لم یضرہ ، تقدم ہذا الأمر أو تأخر ، من مات و ہو عارف لامامہ ، کان کمن ہو مع القائم فی فسطاطہ ‘فضیل ابن یسار کہتے ہیں : ‘ میں نے امام باقر(ع) سے سنا کہ آپ نے فرمایا : جس انسان کو موت آئی اور اس کا امام نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے اور جو اپنی امام کی معرفت کے ساتھ مرے تو ظہور کی تعجیل اور تأخیر سے اسے کوئی نقصان نہ ہوگا اور جو اپنی امام کی معرفت کے ساتھ مرے تو وہ حضرت قائم ـ کی معیت میں حضرت ـکے خیمے میں بیٹھے ہوئے شخص کی طرح ہےایک اور حدیث میں امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا :عن عمر ابن أبان قال : ‘ سمعت أبا عبد اللّہ ـ یقول : أعرف العلامة فاذا عرفتہ لم یضرّک ، تقدّم ہذا الأمر أو تأخر، انّ اللّہ عزّوجلّ یقول : ‘ یوم ندعو کل أناس بامامہم ‘ فمن عرف امامہ کان کمن کان فی فسطاط المنتظر ـ ‘عمر ابن أبان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام صادق(ع) سے سنا کہ آپ نے یہ فرمایا کہ : علامت کو پہچانو جب تم اپنے امام کو پہچان لو تو پھر ظہور کی تعجیل و تأخیر میں تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے : ہم قیامت کہ دن ہر انسان کو اپنے امام کے ساتھ بلائیں گے پس جس نے امام کو پہچان لیا وہ امام (ع) منتظر کے خیمے میں بیٹھے ہوئے شخص کی طرح ہے۔امام فرماتے ہیں :’ اعرف العلامة … ‘علامت کو پہچانو …’ فاذا عرفتہ لم یضرّ ک تقدّم ھٰذالامر او تاخّر انّ اﷲ عزّ و جلّ یقول یوم ندعوکلّ اناس بامامہم … ‘امام صادق (ع) فرماتے ہیں :’ فمن عرف امامہ … ‘جس نے اپنے امام کو پہچان لیا …’ کان کمن کان فی فسطاط المنتظر علیہ السلام … ‘عصر غیبت کو عصر ظہور میں بدلنے کا راستہیہ شخص اس کی طرح ہے جو حضرت حجت (ع) کے خیمے میں ہو ، امام (ع) فرماتے ہیں : جب تمہیں اپنے امام کی معرفت ہوجائے تو تم ایسے ہو جیسے سپاہِ امام ـ میں شامل ہو ، جیسے تم لوائے امام ـ کے نیچے کھڑے ہو ، تم ایسے ہو جیسے رسول اﷲ ۖ کی معیت میں بدر میں شہید ہوئے ہو اور تم ایسے ہو جیسے حضرت حجت ـ کے مرکزی خیمے میں حضرت ـ کے ہمراہ ہو ،پس معلوم یہ ہوا کہ انتظار کس چیز کا نام ہے ، زمینی اور زمانی فاصلوں کو سمیٹنے کا نام ہے ، انسان یہ فاصلے سمیٹ سکتا ہے کہ اگر ظہور ہمارے عہد میں نہ بھی ہوا تو آج ہم اپنے آپ کو عصر ظہور میں پیش کر سکتے ہیں ، آج ہم اپنے آپ کو عصر ظہور میں لے جا سکتے ہیں، ظہور اگرہمارے زمانے میں نہ ہو ا تو بھی ہم ظہور کے زمانے میں پہنچ سکتے ہیں۔ کیسے پہنچیں گے ؟ حضرت امام صادق ـ نے بیان کر دیاکہ آپ اپنے امام ـ کی معرفت پیدا کریں ۔معرفتِ امام (ع) سے کیا مراد ہے ؟ ‘ من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیّة … ” جو شخص مر جائے اور اس کو اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے ‘ معرفت امام کی حقیقتیہاں پر دو قسم کی معرفتوں کی طرف اشارہ ہوگا۔ اما م کے بارے میں دو قسم کی باتیںآپ کے سامنے آئیں گی ایک یہ کہ امام کون ہیں ؟ اور ایک یہ کہ امام کیا ہیں ؟ وہ معرفت جو علی ـ کے بارے میں لوگوں کو تھی، وہ صرف اتنی معرفت تھی کہ علی ـ کون ہیں ؟ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ علی (ع) کیا ہیں ؟ اس لئے وہ سب جاہلیت کی موت مرے ، پس اپنی معرفت کو ذرا ورق الٹ کر دیکھ لیں اپنی معرفت کی بیاض الٹ کر دیکھ لیں کہ ہماری کتنی معرفت ہے ؟ اگر ہمیں صرف اتنا پتہ ہے کہ علیـ کون ہیں ؟ یہ وہ معرفت نہیں ہے جو ہمیں جاہلیت کی موت سے بچا سکے گی بلکہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ علی (ع) کیا ہیں ؟ بعض مسلمان جب زیارات کے لئے جاتے ہیں تو ائمہ (ع) کی قبور پر ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھتے ہیں ، اگر ان سے پوچھو کہ یہ کون ہیں تو فرماتے ہیں کہ یہ حضرت فلاں ہیں اوریہ حضرت فلاں ہیں ، تو آپ کیا کر رہے ہو ؟ ہم فاتحہ پڑھ رہے ہیں یہ فاتحہ کیوں پڑھ رہے ہو ؟ کہتے ہیں یہ فاتحہ ان کی بخشش کے لئے پڑھتے ہیں ، اب آپ بتائیں انہیں معلوم ہے یا نہیں ہے کہ یہ کون ہیں ؟یقینا معلوم ہے کہ یہ کون ہیں ،لیکن جب با معرفت مؤمنین وہاں پر جاتے ہیں تو کیا کرتے ہیں ؟ وہ وہاںجاکر ان کی بخشش کے لئے نہیں بلکہ اپنی بخشش کے لئے فاتحہ پڑھتے ہیں ۔ یہی فرق ہے جس کو یہ معلوم ہو کہ یہ کون ہیں ؟ وہ فاتحہ ان کی بخشش کے لئے پڑھتا ہے اور جس کو معلوم ہو کہ یہ کیا ہیں وہ ان سے اپنی بخشش کرواتا ہے ۔امام کی پہچان کا طریقہ وہ معرفت جو ہماری نجات کا وسیلہ بن سکتی ہے ،جو غیبت کی دوریاں سمیٹ سکتی ہے ، جو ہمیں حضرت مہدی ـ کی سپاہ کے خیمے میں لے جا سکتی ہے ، جو ہمیں اپنے امام ـ کی دوری کے باوجود امام کا قرب نصیب کر سکتی ہے وہ یہی معرفت ہے کہ امام کیا ہیں ؟ اور یہی سب سے اہم نکتہ تھا کہ جب ائمہ زندہ تھے تو اس وقت بھی انگلیوں پہ گنے ہوئے چند لوگوں کو معلوم تھا امام کیا ہیں ؟ آج بھی یہی المیہ موجود ہے ۔ آج بھی آپ کو انگشت شمار ملیں گے جن کو پتہ ہے امام کیا ہیں ؟اب پھر حدیث کی طرف آتے ہیں کہ امام کیا ہیں ؟ خود معصوم ـ یہ فرماتے ہیں کہ اگر خدا کو پہچاننا ہے تو ربوبیت سے پہچانو ہے اگر نبی کو پہچاننا ہے تو رسالت سے پہچانو اور اگر امام کو پہچاننا ہے تو امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے پہچانو یعنی امام (ع) یہ فرما رہے ہیں کہ خدا ربوبیت سے پہچانا جائے گا نبی رسالت سے پہچانا جائے گا اور امام اپنی امامت سے پہچانا جائے گا۔ امام کو امامت کے ذریعے پہچانوپس پہلے امامت کو سمجھو کہ امامت کیا چیز ہے ؟ امامت کی حقیقت کو جب سمجھ جائو گے تو پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ تم کیا ہو ؟ اور امامت تم سے کیا مانگتی ہے ؟ امامت تم سے کیا طلب کرتی ہے ؟ جب امامت کے معانی میں اتر جائو گے تو اس وقت تمہیں امامت کے ساتھ اپنا رابطہ بھی معلوم ہوجائے گا پھر فرق نہیں پڑتا ہے کہ امام ہماری نظروں کے سامنے ہو یا پردہ غیبت میں ہو ، ہم ہمیشہ اس کے لئے تیار ہیں ، انتظار اسی چیز کا نام ہے ، انتظار اسی چیز کو کہتے ہیں کہ جب ہمیں علم ہوجائے کہ امامت کیا ہے ؟ حضرت ابوذرغفاری کو علم تھا کہ علی ـ کیا ہیں ؟ پھر فرق نہیں پڑتا تھا ابوذر اپنے گھر میں ہوں یا علی ـ کے گھر میں ہو ں، ہر دو حال میں ابوذر ایک ہی طرح سے تھے ، چونکہ ان کو معلوم تھا کہ علی ـ کیا ہیں ؟امام و شیعہ کے معنی امامت امت کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے، امامت پیروکار کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے ،فقط پیروکار کے لئے لفظ شیعہ استعمال ہوا ہے اور پیشوا کے لئے لفظِ امام استعمال ہوا ہے دونوں کی روح میں عمل موجود ہے، امام یعنی آگے چلنے والا شیعہ یعنی پیچھے چلنے والا، ہر دو چلنے والے ہیں امام بھی چل رہا ہے اور شیعہ بھی چل رہا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ آگے چل رہا ہے اور یہ پیچھے چل رہا ہے کسی رکے ہوئے کو امام نہیں کہتے ہیں اورکسی رکے ہوئے کو شیعہ نہیں کہتے ہیں ۔ظہور قائم کے لئے قیام کی ضرورت حضرت (ع) کے القابات میں سے ایک بہت نورانی لقب ہے جسے سن کر سب ادب سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں وہ قائم آل محمد عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف ہے۔ یہ لقب حضرت (ع) کے ظہور کی ماہیت اور حقیقت بھی بتاتاہے اور ہمیں انتظار کا فلسفہ بھی بتاتا ہے یعنی جب وہ حضرت ظہور فرمائیں گے تو وہ قائماً ظہور فرمائیں گے ، کوئی قاعد نہیں بلکہ قائم آئے گا ۔ قائم یعنی حالتِ قیام میں آئے گا اور حالتِ قیام میں جب آئے گا تو ان کے پاس نہیں آئے گا جوبیٹھے ہوں، ان کے پاس نہیں آئے گا جوسوئے ہوں ،ان کے پاس نہیں آئے گا جو لیٹے ہوں، مشغول لوگوںکے پاس نہیں آئے گا، مست لوگوں کے پاس نہیں آئے گا بلکہ ان کے پاس آئے گا جو حالتِ قیام میں ہوں گے ، پس معلوم یہ ہو ا کہ ہم منتظرہیں کہ وہ ظہور فرمائیں اوروہ منتظر ہیں کہ ہم قیام کریں ۔ ہم دونوں منتظر ہیں صرف ہم انتظار میں نہیں ہیں وہ بھی انتظار میں ہیں لیکن یہ انتظار کی مدت ختم کیسے ہو ؟ اس کی ایک شرط ہے وہ شرط یہ ہے کہ وہ منتظر ہیںکہ یہ امت پہچان لے کہ امام کیا ہوتا ہے ؟ اس لئے کہ پہلے جو گیارہ گزرے ہیں وہ امت میں موجود تھے لیکن امت نے ان کو نہیں پہچانا، امام موجود تھے امت نے نہیں پہچانا اور جب امام نہ پہچانا جائے تو اس کا ہونا امت کو کوئی فائدہ نہیں دیتا ہے بلکہ اس کے ہوتے ہوئے بھی امت جہنم چلی جاتی ہے تو یہ امام ہے کس کا منتظر ہے؟ اس بات کا کہ پہلے میں پہچانا جائوں پھر میں جب آئوں گا تو میں قیام کروں گا اورمیں ان کے پاس آئوں گا جو حالتِ قیام میں ہوں گے ۔ پس امام منتظر ہیں دو چیزوں کے ایک یہ کہ ہم معرفت امام پیدا کر یں کیونکہ معرفتِ امام ہمیںمیدان میں لے آئے گی اور میدان میں جب ہم حالتِ قیام میں ہوں گے تو قائم آل محمد عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف ظہورفرمائیں گے۔اس ساری بحث سے مقصود یہ تھا کہ انتظار کے بارے سوال اٹھایا جائے نہ کہ سوال دبایا جائے ، مقصود یہ تھا کہ اس پرسکون سمندر میں موج ایجاد کی جائے ۔خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دےکہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں خدا وند تبارک وتعالیٰ سے دعاہے کہ امت کا سکون و سکوت توڑ دے تاکہ امت قیام کرے اور قائم ظہور کرے۔ انشاء اﷲ
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.