تفسیر سورہ قصص آیت ۵
بسم اللہ الرحمن الرحیم ،ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم آئمۃ ونجعلھم الوارثین ؛ترجمہ :ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزوربنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اورزمین کا وارث قراردیں ۔
تفسیراس سے پہلے والی آیت کے لحاظ سے محل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ (ارادہ ) بھی ماضی سے متعلق ہو ، اس لیے بعض مترجمین نے اسی طرح ترجمہ کیا یعنی ماضی والا (ہم نے ارادہ کیا) ۔ لیکن قرآن کے الفاظ میں مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل کو بتا تاہے اس لیے دوسرے مترجمین کو اسی طرح کے مطابق ترجمہ کرنا پڑا ہے اور یہاں ذکر ماضی کے ذیل میں خالق نے اپنے مستقل اصولوں کا اعلان فرمایا ہے کہ ہمیشہ ہماری سنت یہی ہے اور اس سورہ میں بعد میں فرعون اورہامان کا نام آیا ہے وہ بھی بمناسبت سیاق ہے اورمراد اس سے ہردور کے فرعون صفت اور ہامان صفت افراد ہیں اب یہاں اس عام اصول کے ذیل میں جو حسب ذیل فقرے ہیں انہیں امام بنائیں گے ،انہیں زمین میں اقتدار عطاکریں گے ،ان الفاظ کے سامنے رکھیے ، ایک اورآیت سے جو اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے وعداللہ الذین آمنوا وعملوالصالحات لیستخلفنکم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لہم ولیبدلنھم من بعد خوفھم امنا ۔۔۔۔)اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان وعمل صالح سے وعدہ کیاہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لیے اس دین کو غالب بنائے جسے ان کے لیے پسندیدہ قراردیا ہے اوران کے خوف کو امن سے تبدیل کرےگا (سورہ نور ،آیت ۵۵)جب بھی خداوندمتعال کسی شے کے بارے میں ارادہ کرتا ہے تو وہ حتما متحقق ہوکررہتی ہے اورکوئی شی بھی اس کے ارادہ کے تحقق میں رکاوٹ نہیں بن سکتی قرآن مجید میں ایک اور آیت ہے جو اس بات کو مزید واضح کرتی ہے انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون :اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا وہ شی ہوجاتی ہے (سورہ یسین ،آیت ۸۲)لفظ (منت ) جو اس آیت میں آیا ہے اس سے مراد عظیم احسان کرنے کے بعد اورجتا کر تحقیر کرنا مقصود نہیں ہے بنی نوع آدم کو عطا ہونے والی ہرشے یعنی کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کا عطیہ ہے لیکن اس کے باوجود خداوندمتعال نے چندمخصوص نعمت کو ان کی خاص اہمیت کے تحت لفظ منت سے تعبیر کیا ہے (تفسیر نور ،مذکورہ آیت کے ذیل میں )وہ نعمتیں مندرجہ ذیل ہیں(۱): نعمت اسلام کذلک کنتم من قبل فمن اللہ علیکم (خدا نے تم پر احسان کیا کہ تمہارے اسلام کو قبول کرلیا)سورہ نساء،آیت۹۴(۲): نعمت نبوت : لقد من اللہ علی المومنین اذبعث فیھم رسولا (یقینا خدا نے صاحبان ایمان پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان انھیں میں سے ایک رسول بھیجا ہے )سورہ آل عمران آیت ۱۶۴(۳): نعمت ہدایت :بل اللہ یمن علیکم ان ھداکم (یہ خدا کا احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان لانے کی ہدایت دے دی)حجرات۱۷(۴): نعمت حاکمیت مومنین : ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ۔۔۔۔(اورہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین پر کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں )سورہ قصص آیت ۵امام مہدی اور ان کے ذریعہ قائم ہونے والی حکومت عدل کو بیان کرنے والی متعدد روایات اس آیت کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں (تفسیر کنزالدقائق (مذکورہ آیت کے ذیل میں ))تفسیر بیان میں بروایت ابن بابویہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رسالت مآب (ص) نے حضرت علی وامام حسن اورامام حسین علیھم السلام اجمعین کی طرف نگاہ کی اورفرمایا :انتم المستضعفون بعدی،یعنی تم وہ لوگ ہو جو میرے بعد مستضعف بنادیے جاو گے ۔فضل نامی راوی حدیث نقل کرتا ہے :میں نے امام سے اس روایت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا :اس سے مراد یہ ہے کہ تم لوگ میرے بعد عہدہ امامت پر فیض یاب ہوگے اور آپ نے یہ آیت پڑھی ونرید ان نمن علی الذین ۔۔۔۔۔تفسیر انوارالنجف ۔آیت اورحدیث جو نہج البلاغہ میں حضرت علی سے منقول ہے : لتحطفن الدنیا علینا بعد شماسھا عطف الغروس علی ولدھا وتلاعقیب ذلک (ونرید ان نمن علی ۔۔۔۔۔)یہ دنیا منہ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری طرف بہرحال جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کو اپنے بچہ پر رحم آجاتا ہے اس کے بعد آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی (ونرید ان نمن ۔۔۔۔)نہج البلاغہ ،کلمات قصار،۲۰۹یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ظالم میں اگر ادنی انسانیت پائی جاتی ہے تو ایسے ایک دن مظلوم کی مظلومیت کا بہرحال احساس پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے حال پر مہربانی کا ارادہ کرنے لگتا ہے چاہے حالات اورمصالح سے اس مہربانی کو منزل عمل تک لانے سے روک دیں ۔ دنیا کوئی ایسی جلاد اورظالم نہیں ہے جساے دوسرے کو ہٹا کر اپنی جگہ بنانے کا خیال ہو لہذا اسے ایک نہ ایک دن مظلوم پر رحم کرنا ہے اورظالموں کو منظر تاریخ سے ہٹا کر مظلوموں کو کرسی ریاست پر بٹھانا ہے یہی منشا الہی ہے اور یہی وعدہ قرآنی ہے جس کے خلاف کا کوئی امکان نہیں پایا جاتا ہےمستضعفین کی حاکمیت کا مسئلہ قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر آیا ہے ان الارض یرثھا عبادی الصالحون ،(ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے )سورہ انبیا ء آیت ۱۰۵وارثنا القوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الارض ومغاربھا انی برکنا فیھا (اور ہم نے مستضعفین کو شرق وغرب زمین کا وارث بنا دیا اور اس میں برکت عطاکردی )سورہ اعراف ،آیت ۱۳۷لنھلکن الظالمین ولنسکننکم الارض من بعدھم ،(ہم یقینا ظالمین کو تباہ وبرباد کردیں گے اورتمہیں ان کے بعد زمین میں آباد کردیں گے )سورہ ابراہیم ،آیت ۱۳ و ۱۴
مستضعفین اورمستکبرین کون ہیںلفظ مستضعف باب استفعال میں مادہ ضعف سے ہے لہذا مستضعفین کا معنی یہ ہے کہ ان کو ضعیف بنا دیا گیا ہے اورقید وبند میں رکھا گیا ہے یہاں مستضعف ساے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ وہ ضعیف کمزور اورناتوان بنادیے گئے ہیں بلکہ مستضعف سے مراد یہ ہے کہ ان میں قدرت وتوانائی بالفعل اوربالقوہ موجود ہے لیکن ظالمین اور مستکبرین کی طرف سے ہونے والے ظلم وستم ،قید وبندش کی وجہ سے ظاہری حکومت سے محروم ہیں ظلم وستم کے سامنےسر تسلیم نہیں کرتے اورنہ ہی موجودہ حالت سے راضی ہوتے ہیں بلکہ مسلسل سعی وکوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ استکبار کی قید کو توڑ کر آزاد ہوجائیں ظلم وستم کا قلع وقمع کرکے حق وعدالت کی حکومت قائم کریں خدا نے ایسے گروہ کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ زمین پر ان کی حکومت قائم ہوگی لیکن ایسے مستضعفین سے نصرت کا وعدہ نہیں کیا گیا ہے جو خوف وہراس کے تلے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور ظالموں کے خلاف صدای احتجاج بلند نہیں کرتے اور نہ میدان میں جنگ کرتے ہیں اورنہ ہی قربانی دیتے ہیں (تفسیر نمونہ ،مذکورہ آیت) مستضعفین کی قسمیںمستضعفین کی چند قسمیں بیان کی گئی ہیں مستضعف فکری ، مستضعف ثقافتی ، مستضعف اقتصادی ،مستضعف اخلاقی ،مستضعف سیاسی اورقرآن مجید نے جن کا زیادہ ذکرکیا ہے وہ مستضعفین سیاسی اوراخلاقی ہیں اس میں شک نہیں ہے کہ ظالمین سے پہلے لوگوں کو فکری اور ثقافتی اعتبار سے ضعیف بناتے ہیں اور جس کے نتیجے میں قومیں خود ہی اقتصادی حوالے سے ضعیف ہوکردوسرے میدانوں میں بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں ان میں کسی قسم کی طاقت باقی نہیں رہ جاتی ایسی قوم میں حکومتی تسلط کےلیے قیام کرنے کے لیے رمق باقی نہیں رہ جاتی ۔قرآن مجید نے پانچ مقامات پر مستضعفین کو اس انداز سے مخاطب کیا ہے جسے مومنین کو خطاب کرتا ہےقرآن ایک اورجگہ پر مومنین کو مستضعفین کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے (سورہ نساء ،آیت۷۵)محض ایک جگہ ظلم وستم کے خلاف قیام نہ کرنے کی وجہ سے مستضعفین کی مذمت کی گئی ہے (سورہ نساء ،آیت ۹۷)اوران مستضعفین کو ایسے مومنین کا ہم پلہ قراردیا جوراہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اورخدا کا لطف وکرم ان سب کے شامل حال ہے
مستضعفین کی عالمی حکومتپہلے بھی بیان کیاجاچکا ہے کہ یہ آیت صرف بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ پروردگار ہرزمانے میں آنی والی قوموں کو موردخطاب قراردے رہا ہے اورایک عام اعلان ہے کہ ہم ارادہ رکھتے ہیں مستضعفین پر منت واحسان کریں اور انہیں زمین کا وارث بنائے فرعون کے ظلم وستم سے بنی اسرائیل کو نجات دینا اس الہی سنت کا ایک نمونہ تھا اسی طرح عصررسالت پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسلام کے جانباز سپاہیوں نے اپنے جان ومال کی بازی لگا کرعصردراز سے ظلم وستم کا شکار رہی امت کے لیے قیصروروم کے دروازے کھول دئیے تاریخ اپنے دامن میں متعدد ایسے نمونہ رکھتی ہے جہاں خداوند عالم نے اپنے خاص نمائندوں کے ذریعہ مستضعفین کو عزت بخشی اورمستکبرین کو خاک میں ملا دیا لیکن خدا کے اس وعدہ اورسنت کا مصداق کامل امام مہدی عج کی وہ حکومت عدل ہوگی جہاں دنیا سے ظلم وستم استکبارمٹا دیا جائے گا آئمہ اطہار نے مختلف روایات میں اس بات کی تصریح کی ہے اورحکومت مہدوی کی خصوصیات اورظلم وستم کے خاتمے کو تفصیل سے بیان کیاہےتفسیر نورالثقلین (ج۲ص۱۱)پر امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :مستضعفین سے مراد آل محمد (ع)ہیںامام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ :والذی بعث محمدا بالحق بشیرا ونذیرا ان الابرار منا اھل البیت وشیعتھم بمنزلۃ موسی وشیعتہ وان عدوناواشیاعھم بمنزلہ فرعون واشیاعہ (تفسیر مجمع البیان مذکورہ آیت کے ضمن میں )قسم ہے س کی جس نے محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بشرونذیر بنا کر حق کے ساتھ مبعوث کیا ہم اھل بیت اور ان کے نیک شیعوں کی منزلت موسی اور ان کے ماننے کی مانند ہے اورہمارے دشمن اور ان کے ماننے والون کی مثال فرعون اور اس کے پیروکاروں کی ہےہم اورہمارے شیعہ اسی طرح کمزور بنادئیے گئے ہیں جس طرح موسی اور ان کی قوم بنی اسرائیل ، خداوند متعال قائم آل محمد کے ذریعہ ہم اہل بیت اورہمارے شیعوں کو زمین کا وارث بنائے گا اورہمارے دشمن نیست ونابود کردئیے جائیں گےکشف البیان شیبانی سے منقول ہے کہ امام محمد باقر اورامام جعفر صادق علیھما السلام سےوارد شدہ احادیث میں ہے کہ آیت مجیدہ حضرت صاحب الامر عج کے لیے مخصوص ہے جو آخر زمانہ میں ظہورفرمائیں گے اپنے وقت کے جابر حکمرانون اور فرعون مزاج بادشاہوں کو تہ تیغ کرکے مشرق سے مغرب تک پوری روی زمین پر حکومت کریں گے اورزمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح پرکریں گے جس طرح وہ اس سے ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی (تفسیر انوارالنجف )بہرکیف آیت مجیدہ کے تنزیلی مصداق تو حضرت موسی کی قوم بنی اسرائیل ہے اور: نرید، نمن ، نجعل ، کے مضارع کے صیغے اس کے ارادہ ازلیہ کے ماتحت ہرزمانہ کو شامل ہیں جس طرح بعض اوقات ماضی کے صیغے حتمی وقوع کو ظاہرکرنے کےلیے مستقبل میں ہونے والے واقعات پر اطلاق کیےجاتے ہیں اورآیت مذکورہ کی تاویل قیامت تک کے لیے جاری ہے لہذا تمام وہ لوگ جو کسی زمانہ میں ظلم واستبداد کی چکی میں پسے رہے اور اللہ سے گڑگڑا کردعائیں مانگتے رہے پس اللہ نے ان کو ظلم سے نجات دے کر غلبہ عطا فرمایا آل محمد جو ہردور میں حکومت جور کے ترکش ظلم کانشانہ بنتے رہے وہ اس کے بالخصوص مصداق ہیں چنانچہ حضرت امیرالمومنین رسالت مآب کے بعد پچیس سال تک دینی لحاظ سے امام الخلق اورقائد الامت رہے لیکن ظاہری اقتدار غیروں کے ہاتھوں میں رہا اور مظلومانہ زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے لیکن آخری پنج سالہ دور میں ظاہری اقتدار بھی ان کے قدمون میں خود بخود جھک گیا ان کے بعد امام حسن علیہ السلام صرف چھ ماہ دنیوی اور دینی امام الخلق تھے ان کے بعد امام حسین علیہ السلام سے لے کر امام حسن عسکری علیھم السلام تک تمام امام حکام وقت کی جانب سے مختلف مصائب وآلام کا نشانہ بنے رہے اوردینی لحاظ سے امام خلق رہے اور آخری امام حضرت امام مہدی عج اس آیت مجیدہ کی تاویل کے مصداق ہیں جو طویل غیبت کے بعد ظہور فرمائیں گے اوردینی اوردنیاوی امامت اورقیادت کے مالک ہوں گے ۔