ذمہ داری كی منتقلی
علمائے اسلام كی ذمہ داری
باوجودیكہ اسلام رائج مذاہب كی روایات كے بر عكس علمائے امركے لیے كسی ایسے اختیار كا قائل نہیں ہے جو طبقاتی امتیاز پر منتج ہو، دین كی بڑی اہم ترین ذمہ داری ان كے شانوں پر عائد كی ہے اسلام كی طرض كسی دین مین علمائ نے ایسا موثر اور حقیقی نقش مرتسن نہیں كیا ہے اور یہ اس دین كی خاتمیت س حاصل ہونے والے خصوصیت ہے، اولیم منصب جو خاتمیت كے دور میں پیغمبرون كی طرف سے علمائے امرت كی جانب منتقل ہوا ہے وہ دعوت، تبلیغ، ارشاد اور تحریفات و بدعات كے خلاف جن كا منصب ہے، انسانی گروہ تمام زمانون مں دعوت و ارشاد كے محتاج رہے ہیں۔قرآن نے صراحت كے ساتھ ذمہ داری كو خود امت كے ایك گروہ پر ڈالا ہے۔
"و لتكن منكم امہ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینہون عن المنكر" 18
"تم مین سے ایك گروہ ہونا چاہیے جو خیر كی طرف دعوت دے نیكی كا حكم كرے اور برائی سے روكے"
وہ اسباب ہر وقت موجود رہے ہیں جو تحریفات و بدعت پر منتج ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے، یہ علماء امت ہی كی ذمہ داری ہے كہ تحریفوں اور بدعتوں كے خلاف جنگ كریں، رسول اكرم (ص) نے فرمیا ہے:
"اذا ظہرت البدع فعلی العالم ان یظہر علمہ و من لو یفعل فعلیہ لعنۃ اللہ"
"جب بدعتیں ظاہر ہوں یہ عالم كی ذمہ داری ہے كہ اپنے علم كو ظاہر كرے اور جو ایسا نہیں كرے گا اس پر خدا كی لعنت۔"
جو چیز تحریفات و بدعات كے خلاف جنگ كو ممكن اور اس كے كام كو آسان بناتی ہے وہ اصلی معیار و مقیاس یعنی قرآن كا محفوظ رہنا رسلو اكرم (ص) نے خاص طور پر تاكید كی ہے جو كچھ آپ كی زبان سے نقل ہوا ہے اس كی صحت و سقم كو معلوم كرنے كے لیے قرآن كی كسوٹی سے فائدہ اٹھا یا جائے۔
كتابون كے اصل متن كو حوادث كے دستبرد سے محفوظ ركھنا، اصول سے فروع كا استنباط، جزئیات پر كلیات كا انطباق ہر دور كے جدید مسائل كی دریافت ان پر غور و بحث، یك طرفہ رجحانات كا سدباب، صورتوں، ظواہر اور عادتوں پر جمود كے خلاف جنگ، فرعی ضوابط اور فتیہ سے اصل اور مستقل احكام كو الگ كرنا، اہم ومہم تشخیص اور اہم كو ترجیح دینا وقتی قوانین كے وضع كرنے میں حكومت كے اختیارات كے حدود كا تعین، زمانے كی ضروریات سے ہم آہنگ لائحہ عمل كیا تیاری ختم نبوت كے اس دور میں علماء كے اہم فرائض ہیں۔
امت اسلامیہ كے علامء اپنی ذمہ داری اور اہم منصب كے پیش نظر اپنے زمانے كے سب سے زیادہ علام افراد ہونے چاہیں كیونكہ وہ انسانوں كے اخلاقی انحرافات اور روحانی انحطاط كے مقتضیات سے وقت كے حقیقی مقتضیات كو جدا كركے ان كو ٹھیك ٹھیك تشخیص اس وقت تك نہیں كر سكتے جب تك كہ وہ زمانے كی روح سے زمانے كی ساخت میں كار فرما عوامل اور انع و امعل كی سمت سفر سے اچھی طرح واقف نہ ہو۔
اجتہاد
علماء امت كی اہم ذمہ داریوں اور فرائض میں سے ایك اجتہاد بھی ہے اجتہاد كا مطلب صحیح طریقے سے وہ علامانہ كو ششجو كتاب، سنت، اجماعاور عقل كے سرچشموں سے استفادہ كر كے اسلام كے اصلو و ضوابط معلوم كرنے كے لیے كی جاتی ہے۔
اجتہاد كا لفظ پہلی بار احادیث نبوی میں استعمال ہوا پھر مسلمانوں مین رواج ہو گیا، قرآن مین یہ لفظ نہیںآیا، روح معنی كے لحاظ سے جو لفظ اس كا مرادف ہے اور قرآن مین بھی آیا ہے وہ "تفقہ"ہے قرآن نے صراحت كے ساتھ تفقہ، دین كی گہری فہم حاصل كرنے كی تاكید كی ہے۔
اجتہاد یا تفقہ سے خاتمیت كے اس دور میں بہت نازك اور بنیادی ذمہ داری وابستہ ہے اور اسلام كی ابدیت كے لیے اسے ایك اہم شرط كی حیثیت حاصل ہے، اجتہاد كو الام كی قوت محركہ كہا گیا جو بالكل درست ہے بزرگ مسلمان فلسفی ابن سینا بڑی روشن فكری كے ساتھ اس مسئلہ پر بحث كی ہے وہ كہتا ہے:
"اسلامی كلیات مستقل، غیر متغیراور محدود ہیں لیكن حوادث و مسائل غیر محدود اور متغیر ہیں اور ہر دور مخصوص تقاضوں اور مخصوص مسائل كا حامل ہوتا ہے، اسی لیے ہر دور اور عہد میں ایسے افراد كی ضرورت ہے جو ماہر، اسلامی كلیاتے كے عالم، زمانے كو درپیش مسائل سے آگاہ اور جو كلیات اسلامی كی روشنی میں جدید مسائل میں اجتہاد و استنباط كی صلاحیت كے حامل اور اس ذمہ داری كو پورا كرسكیں ۔"تمدن اسلامی كے درخشان دور میں جبكہ ایك وسیع اور بدوی مسلم معاشرہ ترقی و توسیع كی جانب تیزی سے قدم بڑھارہاتھا اور اس نے ایشیا كے علاوہ اور افرقہ كے بعض حصوں پر غلبہ حاصل كرلیا تھا اور گوناگون نسلوں اور قوموں پر جن میں سے ہر ایك اپنا ایك خاص ماضی اور تہذیب ركھتی تھی، اسے حكومت كرنے كا موقع ملا، اس دوران ہزاروں جدید مسائل پیدا ہوئے ۔مسلمان اس ذمہداری سے بڑی كامیابی كے ساتھہ عہدہ برآہوئے اور دنیا كو حیرت میں ڈال دیا ۔علمائے اسلام نے ثابت كردیا كہ اسلامی سر چشمہ اپنی بہتر تشخیص اپنے بہتر اسنباط سے ترقی و تكمیل كے مراحل سے گزرنے والے كسی بھی معاشرہ كے ساتھہ چل سكتے ہیں اور اس كی رہنمائی كرسكتے ہیں ۔انہوں نے ثابت كردیا ہے كہ "اسلامی حقوق" كا قانون یعنی (etytlpocedure) زندہ ہے اور زمانے كی ترقی سے پیدا ہونے والے تقاضوں كے ساتھہ ہمآہنگی كی قابلیت ركھتا ہے اور ہر دور كی ضروریات كا جواب دےسكتا ہے ۔
مستشرقین اور ماہرین قانون جنہوں نے اس دور كی فقہ اسلامی كی تاریخ كا مطالعہ كیا ہے اس حقیقت كے معترف ہیں اور حقوق اسلامی یعنی اسلام كے (etvilprocedure) كو مستقل "مكتب قانون "كی حثیت سے تسلیم كیا ہے اوور اسے ایك زندہ مكتب قانون قرار دیا ہے ۔
ساتویں صدی ہجری تك اجتہاد كا حق محفوظ تھا اور اس كا دروازہ كھلا ہوا تھا البتہ اس ساتویں صدی میں خاص تاریخی اسباب كی بنا پر شوری اور اجماع كو بنیاد بمناكر علماء سے یہہ حق سلب كرلیا گیا اور علماء ہمیشہ كے لئے دوسری اور تیسری صدی ہجری كے علماء كے نظریات كا اتباع كرنے پر مجبور ہوگئے اور یہیں سے چھہ معروف مذاہب تك فقہی مذاہب كی تجدید وجود میں آئی ۔
اجتہاد كے دروازے كا بند ہوجانا عالم اسلام كا ایك بڑا المناك حادثہ سمجھا جاتا ہے شاید اجتہادات میں افراط كے سلسلہ كے خلاف رد عمل كے طور پر ایسا ہوا ہو بہر كیف فقہ اسلامی میں جمود اور ٹھراؤ اسی وقت سے شروع ہوا ۔
اجتہاد كے دروازے كے بند ہونے كے ناپسندیدہ اثرات اہل تشیع پر بھی مرتب ہوئے ساتویں صدی ہجری كے بعد شیعہ فقہ میں عمیق فكر و نظر پیدا ہوگئی تھی اور بعض شعبوں میں وسیع تبدیلیاں رونماہوئی تھیں ۔اس كے باوجود اس بات سے انكار نہیں كیا جاسكتا كہ اس فقہی سسٹم میں بھی چند صدی پہلے كی طرح مسائل كی تشریح كا رجحان اور وقت كے مسائل كا سامنا كرنے سے گریز اوعر جدید و عمیق تر طریقوں كے دریافت كی جانب سے بے رغبتی واضح صورت میں نظر آتی ہے ۔نہایت افسوس كی بات یہ ہے كہ حالیہ صدیوںں كے دوران نجوانوں اور اصطلاحا روشن فكر مسلمانوں كے طبقے میں مغرب كی طرف میلان، مشرقی و اسلامی روایات كی نفی كی رجحان اور مغربی "آزمون "كی اندھی تقلید كا مرض پیدا ہوگیا ہے ۔بد قسمتی سے یہ مرض بڑھتا جارہا ہے لیكن خوش نصیبی كا پہلو یہہے كہ ان اندھے اور خوابیدہ رجحانات كی تاریكی میں بیداری اور آگاہی كا ایك كرن بھی پھوٹ رہی ہے ۔
اس خواب غفلت میں مبتلا كرنے والی گمراہی كی جڑ وہ غلط تصور ہے جو یہ گروہ اصطلاحا اسلامی ضوابط كے تحكمانہ، ادعائی (dogmatie) پہلو كے بارے میں ركھتا ہے ۔گذشتہ صدیوں كے دوران اجتہاد میں جمود نے ان غلط تصورات كو تقویت فراہم كی ہے ۔قوم كے رہنمائی اور ذمہ دارافراد كا غرض یہ ہے كہ جس قدر جلد ہوسكے علمی و منطقی انداز میں اس طرح كے رجحانات كا مقابلہ كرنے كے لئے اتھہ كھڑے ہوں ۔
اس صورت حال كے اسباب و عوامل كسی سے پوشیدہ نہیں ہیں جس بات پر ہمیں پردہ نہیں ڈالنا چاہیئے وہ یہ ہے كہ فكری جمود اور ٹھراؤ گذشتی صدیوں كے دوران عالم اسلام پر مسلط رہا ہے ۔خسوصا اسلامی فقہ۹ میں جمود ۔ماضی كی طرف دیكھنے اور زمانے كی روح كو سمجھنے اور اس كا سامنا كرنے سے گریز ہماری اس ناكامی اور شكست كا ایك بڑا سبب سمجھا جاتا ہے آج عالم اسلام كو ہمیشہ سے زیادہ ایك ایسی قانون سازی كی تحریك كی ضرورت ہے جو ایك جدید وسیع اور ہمہ گیر نظر سے اسلامی تعلیمات كیگہرائی سے فیض حاصل كرے اور مسلمانوں كے دست و پا كو مغربی افكار و نظریات كے استعماری بندھنوں سے آزاد كرائے ۔
قرآن بے پایان استعداد وسعت كے اعتبار سے فطرت نكی مانند ہے
فلسفہ كے موضوعات میں سے ایك حیرت انگیزز موضوع كا تعلق اسلامی سرچشموں خصوصا، قرآن كریم كے مضامیں میں تحقیق، دریافت و استنباط ہے صرف فقہ اور حقوق كے مسائل ہی نہیں تمام شعبوں كے بارے میں یہی كہا جاسكتا ہے ہر انسانی كتاب خواہ وہ ایك بڑا شاہكار ہی كیاں نہ ہو تحقیق و مطالعہ كے لئے اپنے اندر محدود استعداد اور ختم ہوجانے والی وسعت ركھتی ہے اور اس كتاب كے تمام نكات كو واضح كرنے كے لئے چند ماہرین كافی ہوسكتے ہیں لیكن قرآن نے جن پر گذشتہ چودہ صدیوں كے دوران ہمیشہ سینكڑوں ماہرین تحقیقی كا كرتے رہے ہیں یہ ثابت كردیا ہے كہ تحقیق و اجتہاد كے نقطہ نظر سے وہ بے پایان استعداد اور وسعت اپنے اندر ركھتا ہے ۔قرآن اس اعتبار سے فطرت كے مانند ہے كہ جس قدر فكر و نظر وسیع تر اور عمیق تر ہوتی چلی جاتی ہے قرآن كے مضامین میں تحقیقات و مطالعہ كی پہنائی اور زیادہ وسیع ہوتی چلی جاتی ہے اور نئے سے نئے سے نئے راز سامنے آتے چلے جاتے ہیں مبدا و معاد حقوق، فقہ، اخلاق، تاریخی قصص اور طبیعیات سے متعلق جن مسائل كا ذكر قرآن میں آیا ہے اگر ان كا دقیق مطالعہ كرنے كے بعد چودہ صدیوں كے دوران ابھرنے والے اور پرانے ہوجانے والے نظریات كے ساتھہ موازینہ كیا جائے تو حقیقت پوری طرح روشن ہوجائے گی ۔
فكر و نظر خواہ كتنی ہی ترقی كرجائے اور وسیع تر و عمیق تر ہوجائے وہ خود كو قرآن كے ساتھہ ہم آہنگ پائےگی حقیقت یہ ہے كہ آسمانی كتاب كو جو ایك باقی رہنے والا معجزہ ہے ایسا ہونا چاہئے ۔
قرآن كے نزدیك سن سے بڑا دشمن جمود اور ایك خاص زمانے اور متعین مرحلے كی دانش پر اھصار كرنا ہے جیسا كہ علوم فطرت كی راہ میں سب سے بڑی ركاوت تھی كہ ہمارے علماء یہ سمجھتے تھے كہ فطرت كا علم وہی ہے جو ماضی میں ارسطو اور افلاطون و غیرہ جیسے افراد نے ترتیب دیا ہے ۔
قرآن كے مفاہیم ہر زمانے كے لوگوں كے لئے تر وتازہ ہیں
قرآن كریم حتی كہ خود رسول اكرم (ص) كے جامع كلمات اپنے اندر تحقیق و كاوش كے بے وسعت ركھتے ہیں، اس لئے نظروں كو محدود ہوكر نہیں ہہ جانا چاہئے ۔اول روز سے اسلام كے عظیم رہبر كی وجہ اس جانب رہی ہے اور آپ (ص) اسے اپنے اصحاب كے گوش زد كرتے رہے ہیں رسول اكرم (ص) نے بار بار اپنے كلمات میں اس نكتہ كی طرف توجہ دلائی ہے كہ قرآن كو ایك خاص زمانے كی دانش و بینش كے ساتھہ محدود نہ كرو ۔آپنے فرمایا :"قرآن كا ظاہر خوبصورت اور اس كا باطن عمیق ہے جس كی ایك حد و ںہایت ہے پھر اس كے اوپر ایك اور حد و نہایت ہے اس كے عجائبات كبھی ختم نہیں ہوں گے اور اس كی تازگیوں پر كبھی پژمردگی طاری نہیں ہوگی ۔"
امام صادق علیہ السلام سے سوال كیا گیا :"یہ كیا راز ہے كہ قرآن كو لوگوں كے درمیان جس قدر پھلایاجاتا ہے اور اسے پڑھاجاتا ہے اور اس كے بارے میں بحث و فكر كی جاتی ہے اسی قدر اس كی طراوت و تازگی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ؟ "امام (ع) نے جواب دیا :"ایسا اس لئے ہے كہ قرآن كو ایك خاص و زمان كے لئے اور كسی خاص قوم كے لئے نازل نہیں كیا گیا ہے قرآن تمام زمانوں كے لئے اور تمام انسانوں كے لئے ہے اس اعتبار سے وہ ہر زمانے میں جدید ہے اور تمام لوگوں كے لئے ہروقت تاززہ ہے۔"
رسول اكرم (ص) جب اپنی احادیث كو ٹھیك ٹھیك یاد كرنے اور دوسروں تك پہچانے كی تاكید فرماتے تھے تو اس میں یہ خاص نكتہ پوشیدہ ےھا كہ شاید جس شخص نے آپ سے براہ راست آپ كی احادیث كو سنا ہو تفقہ سے بہرہ مند نہ ہو اور وہ كسی صاحب دانش و بینش تك انہیں منتقل كرنے كے لئے محض ایك رابطے كا كام دے یا پھر جو شخص آپ سے حادیث سنے وہ تفقہ سے بہرہ منر ہو لیكن اس كے ذریعہ جس شخص تك كی كوئی حدیث پہچانے والے سے زیادہ تفقہ كا مالك ۔
تاریخ سے یہ بات ثابت ہوچكی ہے كہ بعد كے زمانوں میں آن حضور (ص) كی احادیث مفاہیم و مطالب كے سمجھنے میں پہلے سے زیادہ تفقہ سے كام لینے كی ضرورت پیش آئی۔
اجتہاد كی اضافیت
ترقی و تكمیل كی طرف مسلسل بڑھنے والی دانش و بینش كا اثر كسی جگہ اس قدر محسوس نہیں كیا جاسكتا جس قدر كہ فقہی مسائل میں اسے دیكھا جاسكتا ہے ۔فقہ اسلامی پر كئی دور گزد چكے ہیں ہر دور میں ایك خاص طرز فكر اور ایك خاص دانش حكمفرما رہی ہے ۔آج كے استنباط كے قواعد سے مختلف ہیں ۔ایك ہزار سال پہلے كے علماء جیسے شیخ طوسی یقینا ایك ممتاز مجتہد رہے ہیں اور لوگوں نے ان كی جو پیروی و تقلید كی ہے وہ صحیح ہے قدیم علماء كا طرز فكر ان كی ایسی كتابوں سے واضح ہے جو فقہ خصوصا اصول فقہ پر لكھی گئی ہیں ۔
شیخ طوسی كی اصول فقہ پر بعض كتابیں ان كے طرز تفكر كو بخوبی ظاہر كرتی ہیں یہ كتابیں آج بھی موجود ہیں ۔
حالیہ ادوار كے فقہاء پر نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ سابق طرز تفكر منسوخ ہوگیا ہے ۔اس لئے كہ جدید تر عمیق تر اور وسیع تر دانش نے پرانے طرز فكر كی جگہ حاصل كرلی ہے ۔جیسا كہ موجودہ دور میں سماج، نفسیات اور قانون كے شعبوں میں علم و دانش نے فقہی مسائل میں زیادہ گہرائی كے امكانات پیدا كردئے ہیں ۔
اگر كوئی شخص یہ پوچھے كہ كیا اس سابق عہد كے علماء اپنے اس وقت كے تفقہ اور طرز فكر كے ساتھہ مجتہد كے مقام پر فائز رہے ہیں ؟ اور كیا وہ اس بات كے مستحق تھے كہ عوام ان كی تقلید كرتے اور ان كے تفقہ كو اسلامی ضوابط كی تشخیص و تدوین كا اہل قرار دیتے ؟ ان سوالات كا جواب اچبات میں دیا جائے گا ۔
پھر اگر یہ سوال كیا گیا كہ موجودہ دور میں اگر كوئی شخص یہ چاہے كہ چاتھی اور پانچویں سدی كے بعد كی تمام كتابیں اور تالیفات اور آچار كو جوں كا توں قبول كرلے اور خود كو پانچویں صدی میں فرض كرے اور شیخ طوسی جیسے علماء نے جن كتابوں كا مطالعہ كیا تھا ان ہی كا وہ بھی مطالعہ كرے اور وہی طرز تفكر اور وہی تفقہ اپنے اندر پیدا كرے جو ان علماء نے اپنے اندر پیدا كیا تھا تو كیا وہ مجتہد كہلاسكے گا اور لوگوں كو یہ حق حاصل ہوگا كہ اس كی تقلید كریں ؟ اس كا جواب نفی میں دیا جائے گا ۔آخر ایسا كیوں ؟ اس شخص كے درمیان اور پانچویں صدی كے لوگوں كے درمیان كیا فرق ہے؟
فرق یہ ہے كہ ان علماء نے جس دور میں زندگی بسر كی تھی اس كی دانش و بینش اسی دور كے لئے تھی یہ شخص ایسے عہد میں زندگی بسر كررہا ہے جس میں ماضی كے اس طرز تفكر اور تفقہ كی جگہ ایك جدید تر طرز تفكر اور تفقہ نے لے لی ہے اور ماضی كا وہ طرز تفكرات منسوخ ہوچكا ہے ۔
اس سے یہ بات بخوبی سمجھی جاسكتی ہے كہ اجتہاد ایك اضافی اور تكاملی مفہوم ركھتا ہے ہر دور ایك مخصوص دانش و بینش پیدا كرا ہے ۔یہ اضافیت دو چیزوں سے ختم ہوجاتی ہے ۔اشف و تحقیق كے لئے اسلامی سرچشموں كی بے پایان وسعت و صلاحیت اور دوسرے انسانی افكار اور علوم طبیعی كی تكمیل خاتمیت كا سب سے بڑا راز یہی ہے ۔
18.سورۀآل عمران، آیت ۱۰۴.