عدم تحريف پر عقلى اور نقلى دليليں

163

ہمارے عقيدہ كے مطابق بہت سے عقلى اور نقلى دلائل موجود ہيں جو قرآن مجيد كى عدم تحريف پر دلالت كرتے ہيں كيونكہ ايك تو خود قرآن مجيد فرماتا ہے : ہم نے قرآن مجيد كو نازل كيا اور اس كى حفاظت بھى ہمارے ذمہ ہے ايك اور مقام پريوں ارشاد ہوتا ہے:’يہ كتاب شكست ناپذير ہے ۔اس ميں باطل اصلا سرايت نہيں كر سكتا ہے نہ سامنے سے ا ور نہ پيچھے كى طرف سے كيونكہ يہ حكيم و حميد خدا كى طرف سے نازل ہوئي ہے ‘كيا اس قسم كى كتاب جس كى حفاظت كى ذمہ دارى خود اللہ تعالى نے لى ہو اس ميں كوئي تحريف كرسكتا ہے ؟اور ويسے بھى قرآن مجيد كوئي متروك اور بھلائي گئي كتاب نہيں تھى كہ كوئي اس ميں كمى يا زيادتى كرسكے ۔كاتبان وحى كى تعداد چودہ سے ليكر تقريبا چار سو (400) تك نقل كى گئي ہے ۔جيسے ہى كوئي آيت نازل ہوتى يہ افراد فورا اسے لكھ ليتے تھے ۔ علاوہ بر اين سينكڑوں حافظ قرآن پيغمبر اكرم (ص) كے زمانہ ميں تھے جو آيت كے نازل ہوتے ہى اس كو حفظكر ليتے تھے اور قرآن مجيد كي تلاوت كرنا اس زمانے ميں انكى سب سے اہم عبادت شمار ہوتى تھى ۔ اور دن رات قرآن مجيد كى تلاوت كى جاتى تھى ۔اس سے بڑھ كر قرآن مجيد، اسلام كا بنيادى قانون اور مسلمانوں كى زندگى كا آئين و اصول تھا اور زندگى كے ہر شعبے ميں قرآن مجيد حاضر و موجود تھا ۔عقل يہ حكم لگاتى ہے كہ ايسى كتاب ميں تحريف اور كسى كمى اور زيادتى كا امكان نہيں ہے۔آئمہ معصومين سے جو روايات ہم تك پہنچى ہيں وہ بھى قرآن مجيد كى عدم تحريف اور تماميت پر تاكيد كرتى ہيں ۔امير المومنين على (ع) ،نہج البلاغہ ميں واضح الفاظ ميں فرماتے ہيں :(اللہ تعالى نے ايسا قرآن مجيد نازل كيا جو ہر شے كو بيان كرتا ہے پھراس نے اپنے پيغمبر (ص) كو اتنى عمر عطا فرمائي كہ وہ اپنے دين كوتمہارے ليے قرآن مجيد كے وسيلہ سے كامل كرديں ۔نہج البلاغہ كے خطبوں ميں بہت سے مقامات پر قرآن مجيد كا تذكرہ ہوا ہے ليكن كہيں بھى قرآن مجيد كى تحريف سے متعلق زرہ برابر اشارہ نہيں ملتا بلكہ قرآن مجيد كے كامل ہونے كو بيان كيا گيا ہے۔نويں امام حضرت امام محمد تقى ۔ اپنے ايك صحابى كو لوگوں كے حق سے منحرف ہو جانے كے بارے ميں فرماتے ہيں ۔(و كان من نبذہم الكتاب ان ا قامو حروفہ و حرفو حدودہُ )بعض لوگوں نے قرآن مجيد كو چھوڑ ديا ہے ،وہ اس طرح كہ اس كے الفاظ كو انہوں نے حفظ كرليا ہے اور اس كے مفاہيم ميں تحريف كى ہے۔يہ اور اسكى مانند ديگر احاديث سے يہ پتہ چلتا ہے كہ قرآن مجيد كے الفاظ ميں كسى قسم كى تبديلى نہيں ہوئي بلكہ اس كے معانى ميں تحريف ہوئي ہے ۔ بعض لوگ اپنى خواہشات اور ذاتى منافع كى خاطر آيات كى خلاف واقع تفسير و تو جيہ كرتے ہيں ۔يہاں سے ايك اہم نكتہ واضح ہو جاتا ہے كہ اگر بعض روايات ميں تحريف كى بات ہوئي بھى ہے تو اس سے تحريف معنوى اور تفسير بالرائي مراد ہے نہ الفاظ و عبارات كى تحريف۔دوسرى طرف سے بہت سى معتبر روايات جو ائمہ معصومينسے ہم تك پہنچى ہيں ميں بيان كيا گيا ہے كہ روايات كے صحيح و ناصحيح ہونے كى تشخيص كے لئے بالخصوص جب انكے در ميان ظاہراً تضاد و اختلاف پايا جا رہا ہو تو معيار، قرآن مجيد كے ساتھ تطبيق دينا ہے ۔ جو حديث قرآن مجيد كے مطابق ہو وہ صحيح ہے اس پر عمل كيا جائے اور جو حديث قرآن مجيد كے خلاف ہو اسے چھوڑ ديا جائے ۔(اعرضوا ہما على كتاب الله فما وافق كتاب الله فخذوہ و ما خالف كتاب الله فردّوہ)يہ بالكل واضح دليل ہے كہ قرآن مجيد ميں تحريف نہيں ہوئي ہے۔ كيونكہ اگر تحريف ہوجاتى تو قرآن مجيد حق و باطل كى تشخيص كا معيار قرار نہيں پا سكتا تھا۔ان تمام ادلہ سے بڑھ كر مشہور حديث ‘حديث ثقلين’ شيعہ و اہل سنت كتابوں ميں كثرت كے ساتھ نقل ہوئي ہےجس ميں پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا:(انى تارك فيكم الثقلين كتاب الله و عترتى اہل بيتى ما ان تمسكتم بہما لن تضلو)ميں تمہارے در ميان دو يادگارگرانبہا چيزيں چھوڑ كر جارہاہوں ايك اللہ كى كتاب اور دوسرى ميرى عترت ہے اگر ان دونوں سے تمسك ركھا تو ہرگز گمراہ نہيں ہوگے ۔يہ پر مغز حديث شريف بالكل واضح كررہى ہے كہ قرآن مجيد ،عترت پيغمبر(ص) كے ساتھ قيامت تك لوگوں كى ہدايت كے ليے ايك انتہائي مطمئن پناہ گاہ ہے ۔ اب اگر قرآن مجيد خود تحريف كا شكار ہو جا تا تو وہ كس طرح لوگوں كے لئے ايك مطمئن پناہ گاہ بن سكتا تھا اور انہيں ہر قسم كى گمراہى سے نجات دلا سكتا تھا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.