بنی ہاشم اور بنی امیہ کے متعلق حضرت علی (ع) کا تبصرہ
ہم نے حضرت علی علیہ السلام کے ایک خط کا نہج البلاغہ سے انتخاب کیا ہے ۔ یہ خط آپ نے معاویہ کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا تھا اور اس کے متعلق جامع نہج البلاغہ سید رضی رحمتہ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ :- ” یہ مکتوب امیر المومنین کے بہتر ین مکتوبات میں سے ہے ۔”” تمہارا خط پہنچا ۔تم نے اس میں ذکر کیا ہے کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دین کے لئے منتخب فرمایا اور تائید ونصرت کرنے والے ساتھیوں کے ذریعے ان کو قوت وتوانائی بخشی ۔زمانہ نے تمہارے عجائبات پر اب تک پردہ ہی ڈالے رکھا تھا جو یوں ظاہر ہورہے ہیں کہ تم ہمیں ہی خبر دے رہے ہو ۔ ان احسانات کی جو خود ہمیں پر ہوئے ہیں اور اس نعمت کی جو ہمارے رسول (ص) کے ذریعے ہم پر ہوئی ہے ۔اس طرح تم ویسے ٹھہرے جیسے “ہجر”(1) کی طرف کھجوریں لاد کر جانے والا یا اپنے استاد کو تیر اندازی کی دعوت دینے والا ۔تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلام میں سب سے افضل فلاں اور فلاں (ابو بکر وعم) ہیں ۔یہ تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر صحیح ہو تو تمہارا اس سے واسطہ نہیں اور غلط ہو تو تمہارا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔اور بھلا تم کہاں اور یہ بحث کہاں ؟ افضل کون ہے اور غیر افضل کون ہے ۔ حاکم کون ہے اور رعایا کون ہے ؟بھلا ۔”طلقاء” (آزاد کردہ لوگوں ) اور ان کے بیٹوں کو یہ حق کہاں ہوسکتا ہے کہ وہ مہاجرین اولین کے درمیان امتیاز کرنے ان کے درجے ٹھہرانے اور ان کے طبقے پہنچوانے بیٹھیں ؟کتنا نامناسب ہے کہ جو ئے کے تیروں میں نقلی تیر آواز دینے لگے اور کسی معاملہ میں وہ فیصلہ کرنے بیٹھ جس کے خود خلاف ۔بہر حال اس میں فیصلہ ہوتا ہے ۔اسے شخص ! تو اپنے پیر کے لنگ کو دیکھتے ہوئے اپنی حد پر ٹھہرتا کیوں نہیں اور اپنی کوتاہ دستی کو سمجھتا کیوں نہیں اور پیچھے ہٹ کر رکتا کیوں نہیں ؟جبکہ قضا وقدر کا فیصلہ تجھے پیچھے ہٹا چکا ہے ۔آخر تجھے کسی مطلوب کی شکست سے اور فاتح کی کامرانی سے سروکار ہی کیا ہے ؟تمہیں محسوس ہونا چاہئیے کہ تم حیرت وسرگشتگی میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہو اور راہ راست سے منحرف ہو ۔آخر تم نہیں دیکھتے اور یہ میں جو کہتا ہوں ۔ تمہیں کوئی اطلاع دینا نہیں بلکہ اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرنا ہے کہ مہاجرین و انصار اکا ایک گروہ خدا کی راہ میں شہید ہوا اور سب کے لئے فضیلت کا ایک درجہ ہے ۔مگر جب ہم میں سے شہید نے جام شہادت پیا تو اسے سید الشہدا کہا گیا (2)اور پیغمبر نے صرف اسے یہ خصوصیت بخشی کہ اس کی جنازہ میں ستر تکبیریں کہیں اور کیا تم نہیں دیکھتے کہ بہت لوگوں کے ہاتھ خدا کی راہ میں کاٹے گئے اور ہر ایک کے لئے ایک حد تک فضیلت ہے مگر جب ہمارے آدمی کے ساتھ یہی ہوا جو اوروں کے ساتھ ہوچکا تھا تو اسے ” الطیار فی الجنۃ” (جنت میں پرواز کرنے والا) اور “ذوالجناحین ” (دو پروں والا) کہا گیا (3)اور اگر خدا نے خود ثنائی سے روکا نہ ہوتا تو بیان کرنے والا اپنے وہ فضائل بیان کرتا کہو مومنوں کے دل جن کا اعتراف کرتے ہیں اور سننے والوں کے کان انہیں اپنے سے الگ نہیں کرنا چاہتے ۔ایسوں کا ذکر کیوں کرو جن کا تیر نشانوں سے خطا کرنے والا ہے ۔ہم وہ ہیں براہ راست اللہ سے نعمتیں لے کر پروان چڑھے ہیں اور دوسرے ہمارے احسان پروردہ ہیں ۔ ہم نے اپنی نسل بعد نسلی چلی آنے والی عزت اور تمہارے خاندان پر قدیمی برتری کے باوجود کوئی خیال نہ کار اور تم سے میل جول رکھا اور برابر والوں کی طرح رشتے دیئے لئے حالانکہ تم اس منزلت پر نہ تھے ۔اور تم ہمارے برابر ہوکیسے سکتے ہو جب کہ ہم میں نبی ہیں اور تم میں جھٹلانے والا (4)۔ اور ہم میں اسد اللہ اور تم میں اسد الاحلاف (5)۔ اور ہم میں دو سردار جوانان اہل جنت اور تم میں جہنمی لڑکے (6) ۔ہم میں سردار زنان عالمیان اور تم میں “حمّالۃ الحطب”(7)اور ایسی ہی بہت سی باتیں جو ہماری بلندی اور تمہاری پستی کی آئنہ دار ہیں ۔چنانچہ ہمارا ظہور ۔اسلام کے بعد کا دور بھی وہ ہے جس کی شہرت ہے اور جاہلیت کے دور کابھی ہمارا امتیار ناقابل انکار ہے اور اس کے باوجود جورہ جائے وہ اللہ کی کتاب ہمارے لئے جامع الفاظ میں بتا دیتی ہے ۔ ارشاد الہی ہے : “قرابت دار آپس میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں “اور دوسری جگہ پرارشاد فرمایا :-“ابراہیم کے زیادہ حقدار وہ لوگ تھے۔ جو ان کے پیروکار تھے اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اللہ بھی ایمان والوں کا سرپرست ہے ۔”تو ہمیں قرابت کی وجہ سے بھی دوسروں پر فوقیت حاصل ہے اور اطاعت کے لحاظ سے بھی ہمارا حق فائق ہے ۔اور سقیفہ کے دن جب مہاجرین نے رسول (ص) کی قرابت کو استدلال میں پیش کیا تو انصار کے مقابلے میں کامیاب ہوئے ۔تو ان کی کا میابی اگر قرابت کی وجہ سے تھی تو پھر خلافت ہمارا حق ہے نہ کا ۔اور اگر استحقاق کا کوئی اور معیار ہے تو انصار کا دعوی اپنے مقام پر برقرار رہتا ہے ۔ اور تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ میں نے سب خلفا پر حسد کیا ہے اور ان کے خلاف شورشین کھڑی کی ہیں اگر ایسا ہی ہے تو اس سے میں نے تمہارا کیا بگاڑ ا ہے کہ تم سے معذرت کروں ۔بقول شاعر”یہ ایسی خطا ہے جس سے تم پر کوئی حرف نہیں آتا “اور تم نے لکھا ہے کہ مجھے بیعت کے لئے یوں کھینچ کر لایا جاتا تھا جس طرح نکیل پڑے اور اونٹ کو کھچا ا جاتا ہے ۔تو خالق کی ہستی کی قسم ! تم اترے تو برائی کرنے پر تھے کہ تعریف کرنے لگے ۔چاہا تویہ تھا کہ مجھے رسوا کرو کہ خود ہی رسوا ہوگئے ۔بھلا مسلمان آدمی کے لئے اس میں کون سی عیب کی بات ہے کہ وہ مظلوم ہو جب کہ وہ نہ اپنے دین میں شک کرتا ہو اور نہ اس کا یقین ڈانوں ڈول ہو اور میری اس دلیل کا تعلق اگرچہ دوسروں سے ہے مگر جتنا بیان یہاں مناسب تھا تم سے کردیا ۔پھر تم نے میرے اور عثمان کے معاملہ کا ذکر کیا ہے تو وہاں اس میں تجھے حق پہنچتا ہے کہ تجھے جواب دیا جائے کیونکہ تمہاری ان سے قرابت ہے ۔اچھا تو پھر سچ سچ بتاؤ کہ ہم دونوں میں اس کے ساتھ زیادہ دشمنی کرنے والا اور ان کے قتل کاسرو سامان کرنے والا کون تھا ؟وہ کہ جس نے اپنی امداد کی پیش کش کی اور انہوں نے اسے بٹھادیا اور روک دیا یا وہ کہ جس سے انہوں نے مدد چاہی اوروہ ٹال گیا اور ان کے لئے موت کے اسباب مہیا کئے ؟یہاں تک کہ ان کے مقدر کی موت نے انہیں گھیرا ۔خدا کی قسم ! اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو جنگ سے دوسروں کو روکنے والے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ ہماری طرف آؤ اور خود بھی جنگ کے موقع پر برائے نام ٹھہرتے ہیں ۔بے شک میں اس چیز کے لئے معذرت کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ میں ان کی بعض بدعتوں کو ناپسند کرتا تھا ۔ اگرمیری خطا یہی ہے کہ میں انہیں صحیح راہ دکھاتھا اور ہدایت کرتا تھا تو اکثر ناکردہ گناہ ملامتوں کانشانہ بن جایا کرتے ہیں ۔اور کبھی نصیحت کرنے والے کو بدگمانی کا مرکز بن جانا پڑتا ہے میں نے تو جہاں تک بھی بن پڑا یہی چاہا کہ اصلاح ہوجائے اور مجھے توفیق حاصل ہونا ہے تو اللہ سے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی سے لولگاتا ہوں ۔تم نے لکھا کہ !” میرے ساتھیوں کے لئے تمہارے پاس بس تلوار ہے ” یہ کہہ کر تو تم روتوں کو ہنسانے لگے بھلا بتاؤ کہ تم نے عبدالمطلب کی اولاد کو کب دشمن سے پیٹھ پھراتے ہوئے پایا اور کب تلواروں سے خوف زدہ ہوتے دیکھا ؟عنقریب جسے تم طلب کررہے ہو وہ خود تمہاری تلاش میں نکل کھڑا ہوگا اور جسے دور سمجھ رہے ہو وہ قریب پہنچے گا ۔میں تمہاری طرف مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کے نقش قدم پر چلنے والے تابعین کالشکر جرار لے کر عنقریب اڑتا ہوا آراہا ہوں ۔ایسا لشکر کہ جس میں بے پناہ ہجوم اور گرد وغبار ہوگا وہ موت کے کفن پہنے ہوئے ہوں گے اور ہر ملاقات سے زیادہ انہیں لقائے پروردگارمحبوب ہوگی اور ان کے ساتھ شہدائے بدر کی اولاد اور ہاشمی تلواریں ہوں گی جن کی تیز دھار کی کاٹ تم اپنے ماموں ۔بھائی ۔ نانا اور کنبہ والوں میں دیکھ چکے ہو وہ ظالموں سے اب بھی دور نہیں ہے ۔٭٭٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1):- “ہجر” ایک جگہ کا نام ہے جہاں کجھوریں بکثرت ہوتی ہیں ۔(2):- رسول خدا نے حضرت حمزہ کو سید الشہدا کا لقب دیا تھا ۔(3):- حضرت علی کے بڑے بھائی حضرت جعفر کے دونوں بازو جنگ موتہ میں قلم ہوئے تھے تو رسول خدا (ص) نے فرمایا تھا : میں نے جعفر کو دیکھا کہ وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کررہا ہے ۔ اللہ نے اسے دو زمرد کے پر عطا کئے ہیں ۔(4):- جھٹلانے والوں میں سر فہرست معاویہ کاباپ ابو سفیان تھا ۔(5):- رسول خدا(ص) نے حضرت حمزہ کو “اسد اللہ” (اللہ کا شیر ) کا لقب دیا تھا اور معاویہ کا نانا عتبہ بن ربیعہ “اسد الاحلاف” ہونے پر نازاں تھا ۔یعنی حلف اٹھانے والی جماعت کا شیر ۔(6):- امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے متعلق رسول خدا کی مشہور حدیث ہے ” الحسن والحسین سید الشاب اھل الجنۃ ” حسن وحسین جوانان جنت کے سردار ہیں ۔ اور جہنمی لڑکوں س مراد عتبہ بن ابی معیط کے لڑکوں کی طرف اشارہ ہے ۔ پیغمبر اکرم نے عتبہ سے کہا تھا ۔ :-لک ولھم النار ” تیرے اور تیرے لڑکوں کے لئے جہنم ہے ۔(7):- حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے لئے رسول خدا (ص) کا فرمان ہے :-“الفاطمۃ سیدۃ نساء العالمین ” فاطمہ تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہے ” حمّالۃ الحطب “معاویہ کی پھوپھی ام جمیل بنت حرب ہے جو کہ ابو لہب کے گھر میں تھی اور یہ کانٹے جمع کرکے رسول خدا کی راہ میں بچھایا کرتی تھی ۔قرآن مجید میں ابو لہب کے ساتھ اس کا تذکرہ ان لفظوں میں ہے :- سیصلی نارا ذات لھب وامراتہ حمّالۃ الحطب ” وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں داخل ہو گا اور اس کی بیوی لکڑیوں کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہے ۔