عدم عصمت انبیا پر وہابیت کی دلیل

251

اہل سنت کے بعض فرقے{ جیسے:حشویہ[1] ، سلفی اور بعض اہل حدیث} اعتقاد رکھتے ہیں کہ انبیاء صرف وحی کو حاصل کرنے اور اسے پہچانے میں معصوم ہیں اور باقی حالات میں گناہ گار اور خطا کار ہیں- او اس سلسلہ میں قرآن مجید کی بعض آیات جیسے: سورہ طہ آیہ ۱۲۱ اور سورہ یوسف آیہ۱۰۹ اور ۱۱۰ سے استناد کرتے ہیں-[2]
لیکن دین اسلام کے تمام متکلمین ، من جملہ شیعہ و سنی وحی کو حاصل کرنے اور اسے پہنچانے اور تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں انبیاء {ع} کی عصمت کے قائل ہیں اور اس سلسلہ میں متفق القول ہیں، صرف ابلاغ رسالت میں سہوا غلطی کے جائز ھونے کو ابی بکر باقلانی سے نسبت دی گئی ہے-[3] اور اس سلسلہ میں پیش کی جانے والی دلیلیں تقریبا مشابہ ہیں-[4]
اس کے علاوہ جو لوگ عصمت انبیاء {ع} کے قائل نہیں ہیں اور اس کے نتیجہ میں ائمہ اطہار {ع} کی عصمت سے بھی انکار کرتے ہیں، وہ سلفی {وہابی} ہیں، کہ ان کے مشائخ کے اعتراف کے مطابق انبیاء {ع} کے لئے عصمت کو قبول نہیں کرتے ہیں-
مثال کے طور پر اس فرقہ{سلفی} کے ایک بزرگ، ابن تیمیہ نے اپنے ایک بیان میں دعوی کیا ہے کہ کوئی معصوم نہیں ہے، نہ پیغمبر اور نہ غیر پیغمبر[5] جب پیغمبر کی عصمت ثابت نہیں ھوئی تو پیغمبر کے علاوہ بھی کسی کی عصمت ثابت نہیں ہے، وہ کہتا ہے: ” بیشک رسول کے بعد کوئی معصوم نہیں ہے اور پیغمبر کے بعد کسی کی اطاعت کسی چیز میں واجب نہیں ہے”-[6]
ہم یہاں پر خلاصہ کے پیش نظر اس سلسلہ میں صرف دو آیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱-” تو ان دونوں نے درخت سے کھا لیا اور ان کے لئے ان کی شرم گاہیں ظاہر ھو گئیں اور وہ اسے جنت کے پتوں سے چھپانے لگے آدم نے اپے پروردگار کی نصیحت پر عمل نہ کیا تو راحت کے راستے سے بے راہ ھوگئے-“[7]
اس آیہ شریفہ اور اس سے پہلی والی آیات میں حضرت آدم {ع} اور ان کی ہمسر کے بہشت میں داخل ھونے، اور شیطان کے وسوسہ کی بنا پر وہاں سے نکال باہر کئے جانے ، اور اس موقع پر خدا کے حکم اور تشریع فرما نے، کہ نبی نوع انسان کی سعادت و بد بختی، اس کی ہدایت کی اطاعت یا نا فرمانی کرنے پر منحصر ہے، بیان کیا گیا ہے-
حضرت آدم {ع} اور ان کی ہمسر، حوا کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیہ شریفہ اور دوسری آیات، انھیں بہشت سے نکال دئیے جانے کے سلسلہ میں بیان کی گئی ہیں، یہ سب سے اہم دلیل ہے جس کی بنا پر بعض اہل سنت نے انبیاء {ع} پر وحی کے عدم عصمت کی دلیل قرار دیا ہے اور انبیاء کا مرتکب گناہ ھونا جائز جانا ہے-[8]
لیکن اس استدلال کو مسترد کرنے کے سلسلہ میں، شیعہ مفسرین اور محققین نے آیات و روایات کے پیش نظر قوی اور محکم جواب دئے ہیں-[9] یہاں پر ہم ان جوابات میں سے صرف ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
اس آیہ شریفہ پر بحث و تحقیق کرنے سے پہلے، اس نکتہ کو بیان کرنا ضروری ہے کہ امر و نہی کی دو قسمیں ہیں:
الف- تکلیفی امر و نہی: اس امر و نہی میں ، مولا، اپنی ولایت کے مقام سے اپنے بندوں پر حکم صادر کرتا ہے کہ یہ کام نہ کرو یا کرو، اور بندوں کو اس قسم کے اوامر و نواہی کا متعبد ھونا ضروری ہے اور قطعا اس کام کو ترک کرنا یا انجام دینا چاہئے-
ب- ارشادی امر و نہی: اس قسم کے امر و نہی میں ، مولا اپنی قدرت و حکومت کی کرسی پرنہیں بیٹھا ہے کہ اس حکم کو صادر کرے، بلکہ صرف انسان کی حقیقی مصلحت مد نظر رکھی ہے اور ہمدردی کی بنا پر کسی کام کو بجالانے یا ترک کرنے کا حکم دیتا ہے- البتہ خود ارشاد کی بھی دوقسمیں ہیں: ۱- ارشاد محض، کہ اس کے انجام میں کسی قسم کے تعبد اور حتمی ھونا ضروری نہیں ہے – ۲- مولویت کے ساتھ ارشاد؛ مثال کے طور پر مستحبات، جو ارشادی ھونے کے علاوہ ، ایک قسم کے امر مولوئی لگتے ہیں کہ ان کے قابل اعتبار ھونے کے لئے قصد قربت بھی ضروری ہے اور تعبد کے بغیر اس کا کوئی نتیجہ نہیں ھوتا ہے-
اس وضاحت کے بعد ہم کہتے ہیں کہ، جس نہی کو خداوند متعال نے حضرت آدم {ع} کے حق میں صادر فرمایا، ارشادی محض ہے کہ، صرف خیر خواہ اور ہمدرد افراد کے مانند ان کے کردار کے بارے میں رد عمل کے طور پر یاد دہانی کی ہے، کہ اگر حضرت آدم {ع} خداوند حکیم کے اس حکم کی اطاعت کرتے اور ممنوعہ پھل نہ کھاتے، تو انھوں نے اپنے مولا کے لئے کوئی تحفہ پیش نہیں کیا تھا، کیونکہ خداوند متعال نے ایک ایسا حکم دیا تھا کہ آدم {ع} پر فرض نہیں تھا کہ اس کی اطاعت کرتا – سب سے پہلا تحفہ جو آدم {ع} کے لئے خدا کے حکم کی اطاعت کرنے میں ملتا وہ بہشت تھی، جو تمام امکانات اور وسائل کے ساتھ تھی، لیکن خدا کے فرمان کی چشم پوشی کرنے کی وجہ سے اس نعمت سے محروم ھوگیا اور مولا کے بارے میں کوئی بے احترامی انجام نہیں پائی ہے کہ اسے معصیت کہتے- اس نہی کے ارشادی ھونے کی، اس آیہ شریفہ سے پہلی والی آیات[10] تائید کرتی ہیں، کیونکہ یہ آیات ہر گز بازپرس کرنا نہیں چاہتی ہیں، بلکہ ممنوعہ پھل کھانے کے سلسلہ میں فطری رد عمل بیان کرنا چاہتی ہیں، کہ وہی نعمتوں سے محروم ھونا ہے، اور اگر خداوند متعال کی نہی مولوی ھوتی، تو اس کے اثرات توبہ کے ذریعہ ختم ھونے چاہئے تھے، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدم و حوا نے توبہ کی اور ان کی توبہ قبول بھی ھوئی، لیکن اس کے نتائج { یعنی بہشت سے خارج ھونا} دور نہیں ھوئے-
اس بنا پر “لغزش”[11]، کبھی ” ذنب” و “گناہ” کے ہمراہ نہیں ھوتی ہے- اور ہر قسم کی مخالفت اور عدم پیروی گناہ[12] اور اطاعت نہ کرنا اصطلاحی{ جرم و گناہ} نہیں ھوتا ہے- جہاں پر انسان ایک ہمدرد نصیحت کرنے والے کی بات پر توجہ نہیں کرتا ہے اور زندگی میں مشکلات و مشقت سے دوچار ھوتا ہے، وہاں پر ” لغزش” صادق آتی ہے- اسی طرح زندگی میں لغزش، صرف مولا کے اوامر کی مخالفت کرنے پر منحصر نہیں ہے، بلکہ جہاں پر ایک بڑا حکم ارشادی پہلو اور نصیحت کا عنوان رکھتا ہے، اس کی طرف توجہ نہ دی جائے اور انسان کچھ نقصانات سے دوچار ھو جائے، یہاں پر بھی لفظ لغزش اور گناہ صادق آتا ہے-[13]
اس کے علاوہ ان آیات سے استدلال کر کے ابلاغ وحی کے علاوہ انبیاء {ع} کی عدم عصمت کے نظریہ کے بارے میں بھی جوابات دئے گئے ہیں-[14] مختصر یہ کہ، ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء ترک واجب نہیں کرتے ہیں اور فعل حرام کے مرتکب نہیں ھوتے ہیں، کیونکہ یہ ان کی عصمت کے منافی ہے- لیکن ترک اولی یعنی ترک مستحب یا فعل مکرہ ان کے لئے جائز ہے- چونکہ ان کے قرب الہی کا مقام اعلی درجہ پر ھوتا ہے، ان کی طرف سے طلب مغفرت اس لئے ھوتی ہے کہ ایسا نہ ھو کہ اپنے بلند مقام سے تنزل کریں اور نچلے درجہ پر قرار پائیں، کہ یہ تنزل ان کے لئے مشکل ھوتا ہے، کیونکہ جو بھی اپنے ایک درجہ سے تنزل کرتا ہے، اگر چہ وہ عذاب سے بھی دوچار نہ ھو لیکن اس کے لئے سخت ھوتا ہے-[15]
۲-” اور ہم نے آپ سے پہلے انھیں مردوں کو رسول بنایا ہے جو آبادیوں میں رہنے والے تھے اور ہم نے ان کی طرف وحی بھی کی ہے تو کیا یہ لوگ زمین میں سیر نہیں کرتے کہ دیکھیں کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ھوا ہے اور دار آخرت صرف صاحبان تقوی کے لئے بہترین منزل ہے- کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ھو یہاں تک کہ جب ان کے انکار سے مرسلین مایوس ھونے لگے اور ان لوگوں نے سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے تو ہماری مدد مرسلین کے پاس آگئی اور ہم نے جن لوگوں کو چاہا انھیں نجات دےدی اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پلٹایا نہیں جاسکتا”[16]
عدم عصمت انبیاء کے قائل افراد نے سورہ یوسف کی ۱۱۰ ویں آیت سے استدلال کیا ہے، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ عبارت: ” وظنوا قد کذبوا” کی ضمیر ” الرسل” کی طرف پلٹتی ہے، کہ اس صورت میں آیت کے معنی اس طرح ھوتے ہیں کہ رسول اور انبیائے الہی نے اپنی قوم کو ڈرایا، لیکن ان کی قوم نے ان کی شدت کے ساتھ مخالفت کی- یہ رسول، اپنی قوم کو بدستور دعوت دیتے تھے اور لوگ بھی بدستور ہٹ دھرمی کرتے تھے، انھوں نے انھیں خدا کے عذاب سے ڈرایا اور لوگ قبول نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ رسول اپنی قوم کے ایمان لانے سے نا امید ھوئے{ یا قریب تھا کہ مایوس ھو جائیں} اور رسولوں نے خیال کیا کہ مومنین کو خدا کی طرف سے مدد اور کافروں کی نا بودی کے بارے میں دئے گئے وعدہ کے سلسلہ میں انھوں نے جھوٹ بولا، یعنی آیہ شریفہ” ظن الرسول انھم کذبوا” کے معنی ھوتے ہیں، اور خداوند متعال کے بارے میں اس قسم کا خیال ایک باطل اعتقاد تھا اور یہ عصمت سے مطابقت نہیں رکھتا ہے-[17] البتہ وہ اس آیہ شریفہ کی بحث کے دائرے میں تمام انبیاء {ع} من جملہ پیغمبر اکرم {ص} کو بھی لاتے ہیں اور انھیں صرف وحی حاصل کرنے میں معصوم جانتے ہیں-
اس استدلال کا جواب:
اس کا ایک مناسب اور آیت کے ظاہر کے مطابق جواب یہ ہے کہ: مذکورہ آیہ شریفہ میں گمان ایک قلبی امر نہیں ہے کہ رسولوں کے قلوب میں پیدا ھوا ھو اور انھوں نے اسے اپنے تمام وجود اور عقل سے ادراک کیا ھو اور اس کے بعد اپنی زبان پر اس قسم کی چیز جاری کی ھو، ان تمام گمانوں کے مانند جو دوسرے لوگوں کے دلوں میں پیدا ھوکر زبان پر جاری ھوتے اور ان کے لئے فکری اور عملی نقصان ھوتا ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ حوادث اور رونما ھونے والے شدید واقعات اور کافروں کی طرف سے رسولوں پر کی جانے والی سختیاں اس قدر تھیں جو تکوینی زبان سے حکایت کرنے کا سبب بنیں، کہ نصرت و مدد کا جو وعدہ کیا گیا ہے، صحیح نہ ھو- کہ انسان گمان کرے کہ نصرت ومدد کے لئے خدا کا وعدہ جھوٹا تھا اس کے مقابلے میں کچھ لوگ شدید اور ناگوار حوادث کی وجہ سے اپنی ابتدائی سوچ کے برعکس تصور کریں کہ وعدہ الہی کا کوئی اثر نہیں تھا- تو ان دو مطالب میں فرق ہے-[18]
 
[1] سبحانی، جعفر، الالهیات، ج3، ص 165.
[2] تفسیر الألوسی، در تفسیر سوره طه، ذیل آیه 121: « نعم لا اشكال فيه على ما قاله القاضي أبو بكر من أنه لا يمتنع عقلاً ولا سمعاً أن يصدر من النبي عليه السلام قبل نبوته معصية مطلقاً ».
[3] سبحانی، جعفر، الالهیات، ج3، ص 183.
[4] ملا حظہ ھو: سبحانی، جعفر، الالهیات، ج3، ص 183-189.
[5] أحمد بن عبد الحليم بن تيميه الحراني أبو العباس ؛ منهاج السنه النبويه ، تحقيق : د. محمد رشاد سالم ، ج7، ص 85،مصر ، مؤسسه قرطبه – 1406 ، چاپ اول؛ جامع الرسائل لابن تیمیه، رشاد سالم، بخش «المجموعة الثانیة»، بحث غلو الشیعة فی دعوی العصمة: وَادعوا عصمتهم من صَغِير الذُّنُوب وكبيرها وَغير ذَلِك وَادعوا ذَلِك فِي الْأَنْبِيَاء أَيْضا لأَنهم أفضل من الْأَئِمَّة؛ و همچنین: در بحث « مذهب السلف و اهل السنة هو القول بتوبة الانبیاء» و همچنین در بحث « بطلَان القَوْل بعصمة الْأَنْبِيَاء من التَّوْبَة من الذُّنُوب».
[6] جامع الرسائل لابن تیمیه، رشاد سالم، بخش «المجموعة الاولی»، بحث « لاعصمة لاحد بعد الرسول » و در بحث « مذهب السلف و اهل السنة هو القول بتوبة الانبیاء» و همچنین در بحث « بطلَان القَوْل بعصمة الْأَنْبِيَاء من التَّوْبَة من الذُّنُوب».
[7] طه، 121: (فَأَكَلا مِنْها فَبَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما وَ طَفِقا يَخْصِفانِ عَلَيْهِما مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَ عَصى‏ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى‏ ).
[8] سبحانی، جعفر، مفاهیم القرآن، ج5، ص 119.
[9][9] آپ اس اعتراض کا جواب حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل سوالات کا مطالعہ کرسکتے ہیں:
سؤال 2642 (سایت: ur2795) (گناه آدم و حوا)، سؤال 14385 (سایت: ur14188) (خطای حضرت آدم)، وسوالات مربوط به عصمت انبیاء.
[10] . طه، آیه 117 – 119: (فقلنا یا آدم إنّ هذا عدوّ لک و لزوجک فلایخرجنکما من الجنّة فتشقی ، إنّ لک الا تجوع فیها و لاتعری، و انک لاتظمؤا فیها و لاتضحی).
[11] . بقره، 36: ( فأزلّهما الشیطن).
[12] طه، 121: ( و عصی ءادم ربّه فغوی ).
[13] سبحانی، جعفر، مفاهیم القرآن، ج5، ص 122 – 126، با تلخیص؛ طباطبائی، سید محمد حسین، تفسیرالمیزان، با ترجمه موسوى همدانى سيد محمد باقر، ج14، ص 306-309، دفتر انتشارات اسلامى جامعه‏ى مدرسين حوزه علميه قم، طبع پنجم،1374 شمسی؛ مكارم شيرازى ناصر، تفسیر نمونه، ج 13، ص 323-324، دار الكتب الإسلامیة، تهران، طبع اول، 1374 ھ ش؛ ترجمه مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج1، ص 133-137، با ترجمه مترجمان، انتشارات فراهانی، تهران، طبع اول، 1360 ھ ش.
[14] طباطبائی، سید محمد حسین، تفسیرالمیزان، با ترجمه موسوى همدانى سيد محمد باقر، ج14، ص 309.
[15] ترجمه مجمع البیان، ج18، ص 33.
[16] یوسف، 109-110:( وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ إِلاَّ رِجالاً نُوحي‏ إِلَيْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرى‏ أَ فَلَمْ يَسيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذينَ اتَّقَوْا أَ فَلا تَعْقِلُونَ «109» حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جاءَهُمْ نَصْرُنا فَنُجِّيَ مَنْ نَشاءُ وَ لا يُرَدُّ بَأْسُنا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمينَ «110»).
[17] سبحانی، جعفر، مفاهیم القرآن، ج5، ص 97-98.
[18] سبحانی، جعفر، مفاهیم القرآن، ج5، ص 101 – 104، با تلخیص.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.