ظلم رہے اور امن بھی ہو

170

ملک میں نئی حکومت آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ دہشت گردی کا جن بوتل میں بند ہو جائے گا اور ایک عرصہ سے اس سے متاثر ہونے والے عوام و خواص سکھ کا سانس لیں گے، امن کے گیت اور پیار و محبت کے سنگیت سننے کو ملیں گے، ملک کی اقتصادی حالت پر جو ضربیں دہشت گردی سے لگیں ہیں ان کا ازالہ ممکن ہوگا، کاروبار زندگی معمولات کے مطابق چل پڑے گا اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوسکے گا۔ یہ توقعات اس وجہ سے تھیں کہ الیکشن میں جن جماعتوں کو دہشت گردوں نے کھلی چھوٹ دی تھیں وہی برسر اقتدار آگئیں اور مرکز و صوبوں بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا جہاں دہشت گردی کا بول بالا ہے، میں بھی ان کی حکومت بن گئی۔ الیکشن مہم کے دوران اور اس سے پہلے بھی انہی جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات کا ایجنڈا پیش کیا تھا اور دہشت گردی کے خلاف جاری پالیسی اور فوجی آپریشنز کو اس مسئلہ کے حل کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے مذاکرات کی رہ اپنانے کی بات کی تھی، جسے طالبان اور ان سے وابستہ گروہوں میں پذیرائی ملی تھی۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی دہشت گردی سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان توقعات اور امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان، صوبہ خیبر پختونخوا، صوبہ سندھ اور صوبہ گلگت بلتستان میں دہشت گردی کے شرمناک و المناک واقعات سے یہ تاثر ملا ہے کہ الیکشن میں جو رعایت ان جماعتوں کو حاصل ہوئی تھی اس کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ آگے کیلئے نیا معاہدہ اور فیس ادا کرو، وگرنہ ہم نے جو کچھ کرنا ہے وہ تو دکھا دیا ہے۔ ہم ہر محاذ پر لڑ سکتے، فرقہ وارانہ مسئلہ ہو یا سیاسی و مذہبی ٹارگٹ کلنگ، عالمی سطح پر سیاحوں کے قتل کے ذریعے ملک کو بدنام و حکومت کو نااہل ثابت کرنا ہو تو ہمارے پاس اس کا طریقہ بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں کوئٹہ، کراچی، پشاور اور چلاس میں پیش آنے والے المناک سانحات سے دنیا بھر میں اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ دہشت گرد پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور جب و جہاں چاہیں دہشت گردی کرسکتے ہیں، ان میں ملک کی بیسیوں انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فورسز سے زیادہ اہلیت ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر ان دنوں میں وہ کونسی غلطی ہوگئی ہے جس کا خمیازہ معصوم و بے گناہوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور یونیورسٹی میں تحصیل علم کیلئے جاتی ہوئی قوم کی بچیاں خون میں لت پت، چیتھڑوں میں بدل کر ان کی لاشیں ان کے گھروں میں بھیجی گئی ہیں، ہسپتال میں دکھوں کا مداوا اور زخموں پر مرحم رکھوانے جانے والے لوگوں کو کس جرم کی سزا کے طور پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ خانہ خدا میں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے جانے والے خدا کے برگزیدہ بندگان خدا اور معصوم کم سنوں نے کونسا ڈرون حملہ کر دیا تھا کہ انہیں قرآن کے پاروں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہونا پڑا ہے۔ پاکستان کے انتہائی قریبی دوست ممالک کے ان کوہ پیماؤں نے کونسا اسلام کی توہین کر دی تھی کہ انہیں سینکڑوں نہیں ہزاروں میٹر بلندی پر جا کر ہاتھ پاؤں باندھ کر لائن اپ کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ سپہ سالار عساکر پاکستان نے تو یہ کہا تھا کہ گمراہ اقلیت ناکام ہوگئے، عوام نے انہیں مسترد کر دیا اور منتخب حکمرانوں نے یہ کہا کہ وہ (گمراہ اقلیت) جو عزت چاہتے ہیں، دینے کو تیار ہیں۔ ان سے مذاکرات کئے جائیں گے۔ مذاکرات کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام گذشتہ عشرہ میں اتنا کچھ دے چکی ہے کہ اب اس کے پاس کچھ دینے کو بچا ہی کیا ہے۔ اگر ہزاروں فرزندان وطن، ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کا بہایا جانے والا خون معاف کرنا ہے تو پھر جیل کی کال کوٹھڑیوں کو کھول دو اور ان میں عدالتی نظام کی بھینٹ چڑھنے والوں کو بھی آزاد کر دو اور یہ شاہی فرمان جاری کر دو کہ آج سے پاکستان میں کوئی قانون نہیں ہے، یہ جنگل ہے، جنگل کے بادشاہ کی زبان سے نکلا ہوا فرمان ہی قانون ہوگا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جو لوگ سربراہ مملکت کے پاس سزائے موت کے مجرم کو اپیل کے بعد معاف کر دینے کے اختیار کو اسلام کی روح سے متصادم سمجھتے ہیں، انہیں ان مذاکرات کے نتیجہ میں معافی پانے والے قومی و عوامی و شخصی مجرموں کا استقبال کرتے ہوئے شرم کیوں نہ آئے گی۔ یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آنے والی کہ جو گمراہ ہے اور اقلیت ہے اس سے مذاکرات کیسے اور اس کی اس کی خواہش کے مطابق عزت کس لئے ۔۔ کیا عزت کرنے کیلئے ہمارے پاس پاک وطن کی خاکی یونیفارم میں ماہتاب چہروں کو خون میں لت پت ہو کر تابوت میں بند ہو کر آخری منزل چلے جانے والوں کی کمی ہے۔ بڑے میاں صاحب نے شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ طالبان سے مذاکرات بری آپشن نہیں بیٹھ کر بات کریں، اب آپ ہی بتاؤ کہ یہ آپ کی آفر کا جواب ہے، اب اور کتنے معصوم و بیگناہوں کی المناک موت کی صورت میں مذاکرات آگے بڑھ پائیں گے؟ آپ کو اگر اس ملک کو چلانا ہے تو حقائق سے چشم پوشی اور مسائل سے فرار کی راہ نہیں اپنانا ہوگی بلکہ جرات و دلیری سے سامنے آنا ہوگا۔ میاں صاحب آپ نے اپنی حکومت گرانے والے پرویز مشرف کو تو معاف نہیں کیا اور مقدمہ چلانے کا اعلان کرکے آغاز سفر میں ہی اپنی انتقامی روش کو اختیار کرنے میں عار محسوس نہیں کی۔۔ پھر ان ملک و قوم کے دشمنوں سے مفاہمت کیسے؟ اور ان کو معاف کرنا کیسا۔۔؟
ایک کہاوت بہت عام ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔۔ ان طالبان سے جن لوگوں نے بھی معاہدے کئے، انہیں دھوکہ دیا گیا اور معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی۔ تھکن اتارنے اور سانس لینے کیلئے مختلف ادوار میں مذاکرات کا شوشہ چھوڑا گیا اور اپنے وسیع ایجنڈے کو آگے بڑھایا جاتا رہا، اب بھی ایسا ہی ہوا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ نومنتخب حکمرانوں کو اپنی روش بالآخر بدلنا ہوگی ۔۔۔ اگر امن ان کی خواہش ہے، اگر پاکستان اور اس کے عوام کو سلامتی دینا ہے، اگر اس ملک کو واقعاً روشن اور نیا پاکستان بنانا ہے تو ظلم اور ظالموں کے خاتمہ کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔۔۔! 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.